Friday, 31 December 2010
Thursday, 9 December 2010
ماہ محرم عاشوراء کی فضیلت
محترم قارئین! ماہ محرم اسلامی سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے، جس کی بنیاد نبی اکرم ﷺ کے عظیم الشان واقعہء ہجرت پر ہے، سفر ہجرت کے وہ تاریخی لمحے جس نے اسلام کو عروج بخشا،آج بھی مسلمانوں میں گداز و حرارت پیدا کرنے کیلئے کافی ہے، عموما محرم کا نام سنتے ہی دل میں یہ تصور ابھرنے لگتا ہے کہ غم و ماتم کا مہینہ آگیا، بے شک حضرت حسینؓ کی شہادت اسی ماہ میں ہوئی ، حضرت حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سرد ار ہونگے، مگر حضرت حسنؓ ، حسینؓ سے زیادہ افضل ہیں، کیونکہ نبی ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: کہ میرا نواسہ حسنؓ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کراکے ان کو متحد کر دے گا، اور تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب امیر معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے بیچ اختلافات ہوئے، اور جنگ کی نوبت آئی ، حضرت علیؓ کو ایک خارجی نے شہید کردیا، اس موقع پر سب سے بڑا کردار حضرت حسنؓ نے نبھا یا اور مسلمانوں کو متحد کردیا، اتنا عظیم کارنامہ ہے، کہ مسلمانو ں کو اس سے سبق حاصل کر کے اپنی شیرازہ بندی کی فکر کرنی چاہئے ،پھر حضرت حمزہؓ جن کو نبی ﷺ نے شہیدوں کا سردار قرار دیاتھا، ان کا کردارزندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھائیو! اسلام شہادت پر ماتم نہیں ، باطل کے خلاف ولولہ اور جرأت سکھاتا ہے، پھر ہمیں تو جشن منانا چاہئے کہ محرم سے ہم مسلمان اپنا نیا سال شروع کرتے ہیں، اپنے بھائیوں کو نئے اسلامی سال کی آمد پر مبارکباد پیش کریں، محاسبۂ نفس کا اہتمام ہو، اپنے چال ڈھال اور طور طریقوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا عہد کریں ، باطل فرقوں کے رسوم و رواج کی تقلید سے توبہ کریں،اور سنت کے مطابق اس مہینے میں روزے رکھ کر ڈھیر ساری نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں درج کرائیں۔ آئیے سنت رسولﷺ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں کس جانب رہنمائی کی ہےۂ* نبی اکرم ﷺ کا معمول :آپﷺاس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، اور صحابۂ کرام کو اس کی ترغیب دیتے۔ جیسا کہ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم‘‘ ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔( صحیح مسلم حدیث: ۱۱۶۳) * عاشوراء کے روزے: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے اور یہود کو عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ ﷺ نے ان سے کہا:یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: یہ بڑا عظیم دن ہے،اللہ نے اس دن موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی،فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا،تو موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پہ روزہ رکھا، اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں۔تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’فنحن أحق وأولی بموسی منکم‘‘ ہم تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور موسی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ لہذا رسول اللہ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا ، اور (تمام صحابہ کو) روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(صحیح مسلم حدیث: ۱۱۳۰، مسند أحمد ۲؍۳۶۰)
* عاشوراء کی فضیلت:اسی طرح آپ ﷺ نے عاشوراء کے روزے کی فضیلت بتاتے ہوئے فرمایا:’یکفّّر السنۃ الماضےۃ‘ وہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔( صحیح مسلم حدیث: ۱۱۶۲)، نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے فرمایا:’ لئن بقیت الی قابل لأصومنّ التاسع‘ اگر میں آئندہ سال زندہ رہاتو میں ۹ تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔( صحیح مسلم حدیث: ۱۱۳۴)، لیکن آئندہ محرم سے پہلے ہی آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ محرم کے روزے رکھنے کی شکل یہ ہے کہ یا تو آپ نو اور دس محرم کا روزہ رکھیں یا دس اور گیارہ کا رکھیس، یا پھر ۹،۱۰،۱۱، تینوں دنوں کے روزے رکھ لئے جائیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو سنت کے مطابق یہ ایام گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Monday, 1 November 2010
مشہور نیپالی اداکارہ پوجا لاما کا قبول اسلام -انٹرویو: عبد الصبور ندوی
مشہور نیپالی اداکارہ پوجا لاما کا قبول اسلام
اسلام بودھ مذہب سے بہت عظیم ہے: پوجا لاما
اسلام بودھ مذہب سے بہت عظیم ہے: پوجا لاما
انٹرویو: عبد الصبور ندوی
نیپال کی مشہور اداکارہ، ماڈل اور گلو کارہ ۲۸ سالہ پوجا لاما نے پانچ ماہ قبل اسلام قبول کر کے بودھ سماج کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ بودھ خاندان میں پرورش و پرداخت پانے والی پوجا نے دبئی و قطر کے ایک مختصر دورے سے لوٹنے کے بعد کاٹھمانڈو میں اپنے اسلام کا اعلان کیا، پیش ہے ان سے کی گئی بات چیت کے اہم اجژاء۔
س: اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو قبول اسلام پر آمادہ کیا؟
ج: میں بودھ خاندان سے تھی، بودھ مت میرے رگ رگ میں سرایت تھا، ایک سال پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے، ہندو مت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ شروع کیا ، مطالعہ کے دوران دبئی و قطر کا سفر بھی ہوا، وہاں کے اسلامی تہذیب و تمدن سے میں بہت متاثر ہوئی، اسلام کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے، وہ توحید ہے، ایک اللہ پر ایمان و یقین کا جو مضبوط عقیدہ یہاں دیکھنے کو ملا، وہ کسی اور دھرم میں نہیں مل سکا۔
س: عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اسلام کو دہشت کے انداز میں پیش کیا جارہا ہے، کیا آپ اس سے متاثر نہیں ہوئیں؟
ج: اسلام کے خلاف پروپگنڈہ نے مجھے اسلام سے قریب کردیا، اس لئے کہ مطالعہ میں اس کے بر عکس پایا، اور اب میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے مسائل کا عادلانہ و پر امن حل پیش کرتا ہے۔
س: پوجا جی! آپ کا تعلق فلمی دنیا سے رہا ہے، اور آپ ہی سے متعلق میڈیا میں کئی اسکینڈل منظر عام پر آئے، جس سے آپ کو صدمہ لاحق ہوا،اور ایک مرتبہ آپ نے خودکشی کی ناکام کوشش بھی کی، کچھ بتائیں گی؟
ج: میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ذاتی زندگی کے تعلق سے میڈیا تہمت تراشی کرے، تبصرے شائع کرے، مجھے بدنام کرے،میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ اب تک میری تین شادیاں ہو چکی ہیں، مختصر وقفے کے بعد سب سے علحدگی ہوتی گئی، پہلے شوہر سے ایک بیٹاہے جو میری ماں کے ساتھ رہتا ہے، انہی امور کے متعلق میڈیا نے کچھ نا مناسب چیزیں اچھال دیں، جس سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی، لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ شہرت کے لئے میں نے یہ سب کیا، حقیقت یہ ہے کہ میں بد حال تھی خود کشی کرنا چاہتی تھی، مجھے میرے دوستوں نے سنبھالا ، مذہبی کتابوں کے مطالعہ پر اکسایا ، پھر اسلام قبول کیا، میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں، اس لئے کہ میں اب ایک پرسکون و باوقار زندگی بسر کر رہی ہوں۔
س: پوجا جی! قبول اسلام کے بعد آپ کے طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، آپ کے سر پر اسکارف بندھا ہوا ہے، کیا شراب و تمباکو نوشی سے بھی توبہ کر لیا؟
ج: برائے مہربانی مجھے پوجا نہ پکاریں، پوجا میرا ماضی تھا اور اب میں آمنہ فاروقی ہوں، قبول اسلام سے پہلے تناؤ بھرے لمحات میں شراب و سگریٹ میرا سہارا تھے، کبھی اس قدر پی لیتی کہ بے ہوش ہوجاتی تھی ۔ڈپریشن کا شکار ہو چکی تھی، میرے چاروں اور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، لیکن قبول اسلام کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے ، شراب، سگریٹ سے توبہ کر لی ہے، صرف حلال گوشت ہی کھاتی ہوں۔
س: اسلام نے خواتین کو جسمانی نمائش ، ناچ گانا اور سازو سرود سے روکا ہے، آپ کس حد تک متفق ہیں؟
ج: میرے مسلمان ہونے کے بعد سارے پروڈیوسروں نے مجھ سے ناطہ توڑ لیا ہے، چونکہ سنگیت میرے نس نس میں سمایا ہوا ہے، اس لئے کبھی کبھار تھمیل( کاٹھمانڈو کا پوش علاقہ)کے ایک ریستوراں میں گیت گانے چلی جاتی ہوں، برقع (مکمل پردہ) پہننے کی بھی عادت ڈال رہی ہوں، کوشش کروں گی کہ گانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے۔
س: قبول اسلام کے محرکات کیا تھے؟
ج: چونکہ میرے کئی بودھ ساتھی اسلام قبول کر چکے تھے، جب وہ مجھے پریشان دیکھتے تو اسلام کی طرف رغبت دلاتے، اس کی تعلیمات بتاتے، میں نے مطالعہ شروع کیا، ایک دن مجھے ایک مسلم دوست نے لیکچر دے ڈالا، اس کا ایک جملہ میرے دل میں پیوست ہوگیا کہ کوئی بھی غلط کام انسانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے نہیں کرنا چاہئے، چنانچہ اسی وقت اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
س: قبول اسلام کے بعد آپ کے خاندان کا کیا رد عمل رہا؟
ج: اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں نے اپنے خاندان کو اطلاع دی، جو دار جلنگ میں رہتا ہے، میری ماں نے بھر پور تعاون کیا، انہوں نے جب مجھے دیکھا تو پھولے نہیں سمائیں، کہنے لگیں’’ واہ بیٹا! تو نے صحیح راہ چنا،تمہیں خوش دیکھ کر مجھے چین مل گیا ہے‘‘۔ میری عادتیں بدل گئی ہیں، اس لئے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سراہا۔
س: میڈیا نے شک ظاہر کیا ہے کہ کہیں آپ کسی مسلمان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس سے شادی کے لئے آپ نے اسلام قبول کیا ہے؟
ج: بالکل بے بنیاد خبر، میرے کئی دوست مسلمان ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی کی محبت میں گرفتار ہوں اور اس سے شادی کے لئے اسلام لائی ہوس، ہاں اب میں مسلمان ہوں، لہذا میری شادی بھی کسی مسلمان سے ہی ہوگی، اور جب اس کا فیصلہ کروں گی تو سب کو پتہ چل جائے گا۔
ج: میں بودھ خاندان سے تھی، بودھ مت میرے رگ رگ میں سرایت تھا، ایک سال پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے، ہندو مت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ شروع کیا ، مطالعہ کے دوران دبئی و قطر کا سفر بھی ہوا، وہاں کے اسلامی تہذیب و تمدن سے میں بہت متاثر ہوئی، اسلام کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے، وہ توحید ہے، ایک اللہ پر ایمان و یقین کا جو مضبوط عقیدہ یہاں دیکھنے کو ملا، وہ کسی اور دھرم میں نہیں مل سکا۔
س: عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اسلام کو دہشت کے انداز میں پیش کیا جارہا ہے، کیا آپ اس سے متاثر نہیں ہوئیں؟
ج: اسلام کے خلاف پروپگنڈہ نے مجھے اسلام سے قریب کردیا، اس لئے کہ مطالعہ میں اس کے بر عکس پایا، اور اب میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے مسائل کا عادلانہ و پر امن حل پیش کرتا ہے۔
س: پوجا جی! آپ کا تعلق فلمی دنیا سے رہا ہے، اور آپ ہی سے متعلق میڈیا میں کئی اسکینڈل منظر عام پر آئے، جس سے آپ کو صدمہ لاحق ہوا،اور ایک مرتبہ آپ نے خودکشی کی ناکام کوشش بھی کی، کچھ بتائیں گی؟
ج: میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ذاتی زندگی کے تعلق سے میڈیا تہمت تراشی کرے، تبصرے شائع کرے، مجھے بدنام کرے،میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ اب تک میری تین شادیاں ہو چکی ہیں، مختصر وقفے کے بعد سب سے علحدگی ہوتی گئی، پہلے شوہر سے ایک بیٹاہے جو میری ماں کے ساتھ رہتا ہے، انہی امور کے متعلق میڈیا نے کچھ نا مناسب چیزیں اچھال دیں، جس سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی، لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ شہرت کے لئے میں نے یہ سب کیا، حقیقت یہ ہے کہ میں بد حال تھی خود کشی کرنا چاہتی تھی، مجھے میرے دوستوں نے سنبھالا ، مذہبی کتابوں کے مطالعہ پر اکسایا ، پھر اسلام قبول کیا، میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں، اس لئے کہ میں اب ایک پرسکون و باوقار زندگی بسر کر رہی ہوں۔
س: پوجا جی! قبول اسلام کے بعد آپ کے طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، آپ کے سر پر اسکارف بندھا ہوا ہے، کیا شراب و تمباکو نوشی سے بھی توبہ کر لیا؟
ج: برائے مہربانی مجھے پوجا نہ پکاریں، پوجا میرا ماضی تھا اور اب میں آمنہ فاروقی ہوں، قبول اسلام سے پہلے تناؤ بھرے لمحات میں شراب و سگریٹ میرا سہارا تھے، کبھی اس قدر پی لیتی کہ بے ہوش ہوجاتی تھی ۔ڈپریشن کا شکار ہو چکی تھی، میرے چاروں اور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، لیکن قبول اسلام کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے ، شراب، سگریٹ سے توبہ کر لی ہے، صرف حلال گوشت ہی کھاتی ہوں۔
س: اسلام نے خواتین کو جسمانی نمائش ، ناچ گانا اور سازو سرود سے روکا ہے، آپ کس حد تک متفق ہیں؟
ج: میرے مسلمان ہونے کے بعد سارے پروڈیوسروں نے مجھ سے ناطہ توڑ لیا ہے، چونکہ سنگیت میرے نس نس میں سمایا ہوا ہے، اس لئے کبھی کبھار تھمیل( کاٹھمانڈو کا پوش علاقہ)کے ایک ریستوراں میں گیت گانے چلی جاتی ہوں، برقع (مکمل پردہ) پہننے کی بھی عادت ڈال رہی ہوں، کوشش کروں گی کہ گانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے۔
س: قبول اسلام کے محرکات کیا تھے؟
ج: چونکہ میرے کئی بودھ ساتھی اسلام قبول کر چکے تھے، جب وہ مجھے پریشان دیکھتے تو اسلام کی طرف رغبت دلاتے، اس کی تعلیمات بتاتے، میں نے مطالعہ شروع کیا، ایک دن مجھے ایک مسلم دوست نے لیکچر دے ڈالا، اس کا ایک جملہ میرے دل میں پیوست ہوگیا کہ کوئی بھی غلط کام انسانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے نہیں کرنا چاہئے، چنانچہ اسی وقت اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
س: قبول اسلام کے بعد آپ کے خاندان کا کیا رد عمل رہا؟
ج: اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں نے اپنے خاندان کو اطلاع دی، جو دار جلنگ میں رہتا ہے، میری ماں نے بھر پور تعاون کیا، انہوں نے جب مجھے دیکھا تو پھولے نہیں سمائیں، کہنے لگیں’’ واہ بیٹا! تو نے صحیح راہ چنا،تمہیں خوش دیکھ کر مجھے چین مل گیا ہے‘‘۔ میری عادتیں بدل گئی ہیں، اس لئے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سراہا۔
س: میڈیا نے شک ظاہر کیا ہے کہ کہیں آپ کسی مسلمان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس سے شادی کے لئے آپ نے اسلام قبول کیا ہے؟
ج: بالکل بے بنیاد خبر، میرے کئی دوست مسلمان ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی کی محبت میں گرفتار ہوں اور اس سے شادی کے لئے اسلام لائی ہوس، ہاں اب میں مسلمان ہوں، لہذا میری شادی بھی کسی مسلمان سے ہی ہوگی، اور جب اس کا فیصلہ کروں گی تو سب کو پتہ چل جائے گا۔
Sunday, 26 September 2010
Children are future of Our Country, strengthening their confidence quiz competition are: Nepal Education Minister
In 4th Indo-Nepal Quiz Contest Mirza Shereraza, Abdul Karim and Saifurrahman came first in their categories
Children are our future of our Country, Quiz competitions held and participation in this encouraging response proves that they are equipped with self-confidence and strong, Nepal's literacy campaign today at a very important role such competitions,this Contest and we terrorism through education and poverty could defeat. these views Mr. Govind Nepal Education Minister Chowdhury in Muslim community hall at Krishna Nagar Urdu News Club Nepal Indo-sponsored fourth. Nepal guest quiz competition Addressing the students and special while mazzyn. They Arabic Nepali schools also made sure hard cooperation. programs are chaired by Maulana Abdullah Madani, said the children you people want to be architect, you are taking the knowledge created in this firm that you call ahead for peace in their country and to strengthen the foundation of peace. You requested that the Minister of Education schools and schools maximize educational facilities bhm be made easily on the road of progress which children make progress refuse. Customs Superintendent Barhni R., N. Pandey quistion to Students : What you beg from Allah or what you would like to ask? Children said: knowledge, said okay, but if I ask because then I will pray Self-confidence , the confidence can not work without a man. So you can call to create confidence within M will move, it's I have guarantees. Maulana Abdul mannan said in his comments such competitions held make children are encouraged to move administrators congratulated you. Nepal Communist Party leader Siraj Ahmad Farooqi said Urdu News Club for children of believers is the best platform, they promoted the program as an important part of knowledge. abhy former pradhans Mr. Krishna Nagar Pratap Shah mbarkbaddyty children and administrators said that knowledge is the flame burning up to it now mdm should not take prny. Birendra Mishra said Parliament member producing light in darkness, similar competitions held dire need of time. layns Club sdrdnys Gupta said here is not win-lose, win and you only wish deserve. Club President Zahid Azad welcomed the guests and offer gratitude and spas. This Masood Alam and Abdul Hafiz Recited Verses from Quran, before the competition began reading the English translation of Hassan Noor and Nepal and Urdu translation presented by Maulana Abdul Saboor Nadvi. quiz three groups were compared, was the first written test, then began a series of oral questions and answers, which were two round, as the club's vice sdrshafy aynkr Sagheer khaksar , Secretary Abdul a lsbur Nadvi cared his responsibility, Mr. Javed Alam spiritual order and prepared Narendra Tripathi result, the first position in Group A as a result Saifur Rehman, Shoaib Akhtar II (alhelal Public School), third Nayaab Hussain (Galaxy Bahadur Ganj), fourth Farhan Khan (St. judes School) and fifth ayush Ranjan (Amar Bal Vidya Temple) obtained by, Abdul Karim Group B first, Siraj Khan, second, third gfran Ahmed (alhlal School) Neeraj pukhryl the and fourth Lina Bhandari (Mother Land School, chanauta) the fifth position. while in Group C first Raza Baig, Abdullah II (alhlal School),Sooraj khnal (fafury, cnruta) third, fourth and Sarita Agarwal Laxmi Kunwar (St. juds School) the fifth position. granqdr position awards trophies awarded to winning students gyajb appreciation that all share certificates and precious children were given medals. against 140 students attended 12 schools, club head Abdul Noor prove his responsibility and gracious deeds, Oneness Centre on the occasion of Educational Award By Tauheed Centre Nepal. .Topper eight high school academic awards were awarded. school principal gentlemen of the addition of a large number of spectators was present. journalist Abdus Saboor Nadvi program culminated in the words of gratitude.
بچے ہمارے دیش کے مستقبل ہیں ، کوئز مقابلے ان کے اعتماد کو مضبوط کرتے ہیں: نیپالی وزیر تعلیم
بچے ہمارے دیش کے مستقبل ہیں ، کوئز مقابلے ان کے اعتماد کو مضبوط کرتے ہیں: نیپالی وزیر تعلیم
انڈو۔نیپال کوئز مقابلے میں شیررضابیگ، عبد الکریم اور صفی الرحمن اپنے اپنے زمروں میں اول رہے
بچے ہمارے دیش کے مستقبل ہیں، کوئزانعامی مقابلوں کا انعقاد اور اس میں ان کی شرکت ثابت کرتی ہے کہ وہ با حوصلہ ہیں اور مضبوط خود اعتمادی کے حامل ہیں، آج نیپال کی خواندگی مہم میں ایسے مقابلوں کا کردار بے حد اہم ہے، اس دیش میں ہم تعلیم کے ذریعے ہی دہشت گردی اور غربت کو شکست دے سکتے ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار نیپالی وزیر تعلیم مسٹر گووند چودھری نے کرشنا نگر کے مسلم کمیونٹی ہال میں منعقد نیپال اردو نیوز کلب کے زیر اہتمام چوتھے انڈو۔نیپال کوئز مقابلے کے مہمان خصوصی نے طلبہ و معززین کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے نیپالی مدارس عربیہ کوہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا۔ پروگرام کی صدارت کر رہے مولانا عبد اللہ مدنی نے بچوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو قوم کا معمار بننا ہے، آپ جس علم کو حاصل کر رہے ہیں اس میں پختگی پیدا کیجئے اس لئے کہ آپ کو آگے چل کر اپنے ملک میں امن و شانتی کی جڑوں کو مضبوط کرنا ہے۔آپ نے وزیر تعلیم سے درخواست کی کہ اسکولوں اور مدارس کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی سہولیات بہم کرائی جائیں جس سے بچے ترقی کی راہ پر بآسانی گامزن ہوسکیں۔کسٹم محکمہ کے سپر ان ٹنڈنٹ آر، این پانڈے نے بچوں سے پوچھاکہ آپ اللہ یا ایشور سے کیا مانگنا پسند کریں گے؟ بچوں نے کہا: علم، کہا ٹھیک ہے لیکن مجھے اگر مانگنا ہو تو میں خود اعتمادی مانگوں گا کیونکہ خوداعتمادی کے بغیر آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا ۔ اس لئے آپ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کیجئے آ پ آگے بڑھتے جائیں گے، اس بات کی میں ضمانت دیتا ہوں۔مولانا عبد المنان سلفی نے اپنے تاثرات میں کہا اس قسم کے مقابلوں کا انعقاد بچوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشتے ہیں آپ نے منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔نیپال کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سراج احمد فاروقی نے کہا اردو نیوز کلب نے بچوں کے نکھار کے لئے بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، انہوں نے پروگرام کو فروغ علم کا اہم حصہ قرار دیا۔سابق پردھان کرشنا نگر مسٹر ابھے پرتاپ شاہ نے بچوں اور منتظمین کو مبارکباددیتے ہوئے کہا کہ علم کی شمع جل اٹھی ہے اب اس کی لو مدھم نہیں پڑنی چاہئے۔ممبر پارلیمنٹ مسٹربریندر مشرا نے کہا اندھیروں میں روشنی پیدا کرنے والے اس جیسے مقابلوں کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔لائنس کلب کے صدردنیش گپتا نے کہا کہ یہاں ہار جیت نہیں ہے صرف اور صرف جیت ہے اور آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔کلب کے صدر زاہد آزاد نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور شکر و سپاس پیش کیا۔ اس سے قبل حافظ مسعود عالم اور عبد الشہید کی تلاوت سے مقابلے کا آغاز ہوا، جس کا انگریزی ترجمہ حسان نور اور نیپالی و اردو ترجمہ مولانا عبد الصبور ندوی نے پیش کیا۔کوئز مقابلہ میں تین گروپ بنائے گئے تھے،پہلے تحریری امتحان ہوا، اس کے بعد زبانی سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا،جس میں دو راؤنڈ ہوئے،اینکر کے طور پر کلب کے نائب صدرصحافی صغیر خاکسار، سکریٹری عبد ا لصبور ندوی نے اپنی ذمہ داری نبھائی ، حکم صاحبان مسٹر جاوید عالم اور نریندر ترپاٹھی نے رزلٹ تیار کئے،نتیجہ کے مطابق گروپ اے میں پہلی پوزیشن سیف الرحمن ، دوسری شعیب اختر(الہلال پبلک اسکول)، تیسری نایاب حسین( گلیکسی بہادر گنج)، چوتھی فرحان خان(سینٹ جوڈس اسکول)اور پانچویں آیوش رنجن(امر بال ودیا مندر)نے حاصل کی، گروپ بی میں عبد الکریم نے پہلی، سراج خان نے دوسری، غفران احمد نے تیسری(الہلال اسکول) نیرج پوکھریل نے چوتھی اور ریکھا بھنڈاری (مدر لینڈ اسکول، چنروٹا)نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ جب کہ گروپ سی میں رضا بیگ نے پہلی،عبد اللہ نے دوسری(الہلال اسکول)، سورج کھنال(ففوری، چنروٹا)نے تیسری، سرتا اگروالنے چوتھی اور لکشمی کنور (سینٹ جوڈس اسکول) نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ پوزیشن یافتہ طلبہ کو گرانقدر انعاماتو ٹرافیوں سے نوازا گیاجب کہ تمام شریک بچوں کو توصیفی سند اور قیمتی میڈل دئے گئے۔مقابلہ میں 12 اسکولوں کے 140 طلبہ نے حصہ لیا، کلب کے سر پرست عبد النور سراجی نے اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی، اس موقع پر توحید سینٹر نے ہند ونیپا ل کے آٹھ ہائی اسکول ٹاپر کو تعلیمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ علافہ کے معززین و اسکولوں کے پرنسپل حضرات کے علاوہ شائقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ صحافی عبد الصبور ندوی کے کلمات تشکر پر پروگرام کا اختتام ہوا۔
Monday, 6 September 2010
Thursday, 2 September 2010
4th Indo-Nepal Quiz Contest 2010 On 18 sep
خوشخبری Happy News
چوتھا انڈو ۔ نیپال جنرل نالج انعامی مقابلہ۲۰۱۰
4th Indo-Nepal Quiz Contest 2010
On 18, september 2010, Saturday
بتاریخ: ۱۸؍ ستمبر ۲۰۱۰ بروز سنیچر- زیر اہتمام: نیپال اردو نیوز کلب، کرشنا نگر
بتاریخ: ۱۸؍ ستمبر ۲۰۱۰ بروز سنیچر- زیر اہتمام: نیپال اردو نیوز کلب، کرشنا نگر
Conducted by: Nepal Urdu News Club, Krishna Nagar
وقت: صبح ۹؍ بجے تا ۳؍ بجے شام Timing: 9:00 am to 3:00 pm
Venue: Muslim Community Hall KNR.
All the students are informed that 4th Indo-Nepal Quiz Contest is going to held, Therefore, interested students are requested to collect their form and submit it on address, given below.
Based on: Oral and Written (Objective)
There will be three groups:
A- 3rd to 5th class
B- 6th to 8th class
C- 9th to 10th clas
Question type: History, Science, Sport And Religious
(Islam, Hinduism, Christianism, Budhism, and Sikhism)
Last date for submissiion of form 16, september 2010Form Fee: Rs. 50/- N.C
Contact Address:
Himalaya Traders, Gol ghar, Krishna Nagar, Ph: 520195
Or Himalaya Cloth House, Station Gali, Barhni
Namaste: 9847216880,BSNL: 9415897798,8004089684,9553855736
Thanks.
Convener: Abdussaboor Nadvi
Tuesday, 24 August 2010
مشہور نیپالی اداکارہ و گلوکار پوجا لاما نے بودھ مت ترک کر کے اسلام کے دامن میں پناہ لی
مشہور نیپالی اداکارہ و گلوکار پوجا لاما نے بودھ مت ترک کر کے اسلام کے دامن میں پناہ لی، پوجا لاما نے اپنے ایک بیان میں کہا: اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے تمام مسائل کا عادلانہ حل پیش کرتا ہے، اسلام کے محاسن نے مجھے صحیح راہ دکھائی، ورنہ میں تاریکیوں میں بھٹکتی رہتی، میں پوری دنیا سے کہنا چاہتی ہوں کہ اسلام صرف امن کا مذہب ہے، اس کا مطالعہ کیجئے اندازہ خود بخود لگ جائیگا۔
Wednesday, 11 August 2010
Happy Ramadhan Kareem to Muslim Ummah
Wishing you all the blessings from Allah
and praying for a blessed Ramadan !
• “… turn your face towards the Sacred Mosque;
and wherever you are, turn your faces towards it… ”
The Holy Quran [ 2:150 ]
...
• Prophet said:
“Whoever stood for the prayers
in the night of Qadr out of sincere
faith and hoping for a reward from Allah,
then all his previous sins will be forgiven”
Monday, 9 August 2010
لداخ میں بارشیں، سیلاب، ہلاکتیں اور نہ جانے کیا کیا
کشمیر کے مشرقی خطے لداخ میں اب تک ایک سو تیس سے زیادہ لاشوں کو نکالا جاچکا ہے۔ تاہم اندیشہ کہ لوگ ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
وادی کے مشرقی خطے لداخ میں طوفانی بارش کے بعد تباہ کُن سیلابی ریلے میں مرنے والوں کت تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے جبکہ کسی سو زخمی ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے نے نیم فوجی دستوں کے کئی کیمپ اور سرکاری املاک بہادی ہیں۔جموں کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل فاروق کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایک سو بارہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تاہم بچاؤ کاروائی میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اتوار کو بھارتی فضائیہ کے جہازوں نے مٹی اور ملبے ہٹانے والی مشینیں لہہ میں پہنچائی ہیں۔ امدادی کارروائی کے دوران پولیس کے چار اہلکار ہلاک اور فوج کے چھہ اہلکار بھی زخمی ہوگئے۔
کئی غیر ملکی سیاح جو علاقے میں موجود تھے امدادی کار روائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
کارگل سے بھی شدید بارش اور سیلاب کی اطلاع ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دو لاکھ چالیس ہزار نفوس پر مشتل لداخ کی تقریباً پوری آبادی زیرِآب ہے ۔ شاہراہوں، ائرپورٹ اور سرکاری دفاتر میں پانی جمع ہوجانے کی سے مواصلات اور ٹرانسپورٹ کا نظام ٹھپ ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق بدھ کی شام زبردست بارش شروع ہوجانے کے بعد جمعرات کو کئی مقامات پر بادل پھٹ گئے اور پانی کی بہت بڑی چادریں لداخ کی بستیوں پر ٹوٹ پڑیں۔
لداخ بھارتی دفاع کے حوالے سے بھی انتہائی حساس ہے، سطح سمندر سے قریب ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر واقع لداخ دنیا کا بلند ترین اور سرد ترین خطہ ہے۔ لداخ کی سرحدیں چین اور تبّت کے ساتھ جا ملتی ہیں۔
سیلابی ریلے نے سب سے زیادہ تباہی چوگلمسر اور لیہہ قصبوں میں مچا دی ہے جبکہ سابو، نیم بازگو اور فیانگ وغیرہ دیہات میں بربادی کا منظر ہے۔
ماہرین سیلاب کے اصل وجوہات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم لداخ کے مقامی شہری محمد کمال کا کہنا ہے کہ خطے میں پہلے سے ہی گلیشئر پگھلنے کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ مسٹر کمال خود بھی سیلاب سے متاثر ہیں۔ کرگل ضلع میں رہنے والے کمال کہتے ہیں: ' میرے سامنے والے مکان میں ایک عورت اپنی بیٹی کے ہمراہ رہتی تھی۔ سیلابی ریلے نے اس مکان کو بہادیا۔ ماں کی حالت تو تشویشناک ہے لیکن بیٹی کی لاش یہاں سے دو کلومیٹر دوُری پر پائی گئی۔'
لداخ کے ایک اور شہری عبدالغنی شیخ نے بتایا کہ دو اگست کو بھی خطہ کی نیم بازگو جھیل میں سیلاب آیا تھا جسکے بعد دس لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
لداخ بودھ اکثریت والے لیہہ اور مسلم اکثریتی کرگل اضلاع پر مشتمل ہے۔ لیہہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور وہاں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی ہدایت پر افسروں کی ایک ٹیم لداخ روانہ کردی گئی ہے اور سرینگر میں بھی اس حوالے سے ایک کنٹرول رُوم قائم کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے اعلیٰ عہدیدار غلام رسول راتھر نے بی بی سی کو بتایا کہ لداخ میں پچھلے اسّی سال میں کبھی بھی اس قدر بارش نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی سیلاب آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'یہ وہی مان سون ہوائیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب آیا ہے۔ بادل پھٹنے سے پانی چادریں گریں اور پہاڑوں سے پتھریلی مٹی کی لاکھوں چٹانیں لیہہ اور ملحقہ قصبوں پر اُمڈ آئی ہیں۔'
دریں اثنا لداخ میں تعینات بھارتی فوج کی چودہویں کور کا مواصلاتی نظام بھی ٹھپ ہوگیا ہے، تاہم پندرہویں کور کے ترجمان کرنل ایچ ایس برار نے بتایا کہ فوج نے بچاؤ کاروائیاں شروع کردی ہیں۔ کرنل برار کے مطابق سیلاب کی وجہ فوج کے دو جوان لاپتہ ہیں جبکہ چودہ جوانوں کو بچاؤ کاروائی کے دوران چوٹیں آئی ہیں۔
واضح رہے لداخ بھارتی دفاع کے حوالے سے بھی انتہائی حساس خطہ ہے۔ سطح سمندر سے قریب ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر واقع لداخ دنیا کا بلند ترین اور سرد ترین خطہ ہے۔ لداخ کی سرحدیں چین اور تبّت کے ساتھ ملتی ہیں۔
Sunday, 8 August 2010
پاکستان: سیلاب سے ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر
قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے اب تک ملک کے دو صوبوں میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ ساڑھے چھ لاکھ گھر بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں آئے ہیں۔
جمعہ کو اطلاعات کے وزیر مملکت صمصام بخاری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ بارشیں رُکنے کے بعد ہی لگایا جاسکے گا جس کے بعد امداد دینے والے ملکوں سے کہا جائے گا کہ ان بارشوں میں کتنےارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ متاثرین کی یہ تعداد صرف دو صوبوں خیبر پختونخوا اور پنجاب کی ہے جب کہ سندھ کے متاثرین ابھی اس میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار مینوئیل بیسلر نے بتایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے فصلیں بھی زیر آب آگئیں ہیں جس کے باعث بہت سے پاکستانیوں کو مو سم سرما میں خوراک کی امداد پر گزارا کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے پہلی ترجیح متاثرین کو پینے کا صاف پانی اور طبی امداد پہنچانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دو ہزار پانچ کے زلزے میں چھ لاکھ گیارہ ہزار مکانات متاثر ہوئے تھے جب کہ سیلاب سے ساڑھے چھ لاکھ گھر متاثر ہوئے ہیں۔
سندھ: دس لاکھ لوگوں کے انخلا کا فیصلہ
اسلام آباد سے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے نیوز کانفرس میں کہا کہ سال دو ہزار پانچ میں جب زلزلہ آیا تھا تو اس کے فوری بعد نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے کام شروع کر دیا گیا تھا جب کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے میں ڈیڑھ سے دو ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب میں متاثرہ افراد کی تعداد پینتالیس لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد سولہ سو ہے۔
سیلابی ریلا گڈو بیراج میں
دریں اثنا پاکستان کے صوبے پختون خواہ اور پنجاب کے بعد نو لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا سندھ میں داخل ہونے کے بعد جمعہ کوگدو بیراج میں سے گزر رہا ہے۔ جس سے یہاں دونوں کنارو ں پر کچی بستیوں میں آباد لاکھوں افراد کو خطرہ ہے۔ پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے مزید ڈیڑھ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ملک میں سیلاب متاثرین کی تعداد پینتالیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ سولہ سو سے زیادہ ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق گڈو بیراج سے ساڑھے بارہ لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزر سکتا ہے۔
گدو بیراج کے اطراف میں کئی علاقے دیکھنے کے بعد ہمارے ساتھی جعفر رضوی نے بتایا ہے گدو بیراج سےگزرنے والے پانی کی سطح بہت بلند ہے مگر ابھی دریا اپنے کناروں سے نہیں چھلکا ہے۔ حکام دونوں جانب سے کچی آبادیوں کے افراد کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اکثرلوگ اپنے مال مویشیوں کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکنے کی مزاحمت کررہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گدو بیراج سے اس وقت نو لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق سیلابی ریلا سے بیران کو خطرہ نہیں لیکن پشتوں سے خطرہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائیں۔
پنجاب کی صورتحال
پنجاب میں سیلابی ریلوں سے پہنچنے والی تباہی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جمعہ کو راجن پور کے علاقے جام پور میں ڈیڑھ لاکہ کے قریب آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر کوٹ ادوو کے ارد گرد کے دیہات کو بہانے کے بعد سیلابی پانی کوٹ ادوو شہر میں بھی داخل ہو گیا جس کی وجہ سے وہاں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
مظفر گڑھ سے کوٹ ادو کی طرف جاتے ہوئے پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر قائم بجلی گھر بند کر دیے گئے ہیں۔
کوٹ ادو پاور پلانٹ کی باہری دیوار تک پانی پہنچ چکا ہے اس لیے اس کے نو سو میگا واٹ کے یونٹس کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ اس میں تین سو بائیس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والے یونٹ کو بند نہیں کیا گیا
بجلی کی ترسیل کے ادارے پیپکو کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کوٹ ادو پاور پلانٹ کی باہری دیوار تک پانی پہنچ چکا ہے اس لیے اس کے نو سو میگا واٹ کے یونٹس کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ اس میں تین سو بائیس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والے یونٹ کو بند نہیں کیا گیا۔
لاہور سے نامہ نگار مونا رانا کا کہنا ہے کہ محمد خالد کے مطابق اس پاور پلانٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور یہاں بھی بجلی کی پیداوار کو حفاظتی اقدامات کےتحت بند کیا گیا ہے۔
ریلیف اینڈ کرائسز مینجمنٹ لاہور کے ترجمان کے مطابق کیونکہ اب سیلاب پنجاب سے سندھ میں داخل ہو چکا ہے اور پنجاب میں متاثر ہونے والے دیہات اور سیلاب کے متاثرین کی تعداد میں کل سے کوئی زیادہ اضافہ نہیں لہذا کوئی نئے اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے اور اب تک سولہ لاکھ کےقریب افراد پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہیں۔
جنوبی پنجاب کے جن اضلاع میں سیلاب نے تباہ کاریاں برپا کیں ہیں وہاں لوگوں شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں کئی افراد ابھی بھی کھلے آسمان کے تلے بے یار و مدد گار بیٹھے ہیں۔ کئی افراد کا کہنا ہے انہیں کھانے اور پینے کا پانی میسر نہیں اور وہ کئی گھنٹوں سے بھوکے ہیں۔
موسم اور سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے ادارے کے مطابق جنوبی پنجاب کے وہ اضلاع جو سیلاب سے تباہ ہویے ہیں وہاں اگلے دو دن کافی شدید بارش ہونے کا امکان ہے جس سے مشکلات میں گھرے ان لاکھوں افراد کی تکلیفوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
خیمہ کیمپوں میں مقیم چودہ لاکھ بچے
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ جمعرات کو تین ہزار سیاحوں کو کالام سے نکالا گیا ہے اور تاحال مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے پچہتر ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے۔ جب کہ ساٹھ کشتیاں لاہور سے ملتان اور سکھر بھیج دی گئی ہیں۔
ترجمان کے مطابق آرمی انجنیئر دریائے سوات پر مختلف مقامات پر عارضی پل بنا رہے ہیں تا کہ آمد و رفت جلد بحال ہوسکے۔
بیان کے مطابق سندھ میں گڈو، کشمور، سکھر، گھوٹکی اور قادر پور سے پچیس ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف پہنچایا گیا ہے۔
نوشہرہ، سیلاب کے بعد کی تصاویر
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں سولہ سو لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ گھرانے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرین کے لیے کھانے پینے اور ادویات کی کوئی قلت نہیں ہے البتہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور انہیں وبائی امراض سے بچانا ایک بڑا چیلینج ہے۔
بلوچستان: مشرقی علاقوں میں بارش کا سو سالہ ریکارڈ
بلوچستان کےشمال مشرقی علاقوں میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث ہزاروں مکانات منہدم جب کہ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔بارکھان اور کوہلو کے بعد نصیر آباد اور سبی میں سیلابی ریلوں سے کئی بند ٹوٹ گئے ہیں جب کہ کل رات سے جاری بارشوں کی وجہ سے مذید سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بائیس جولائی سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں میں اب تک ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ میں حکام کے مطابق گزشتہ دو دونوں سے بلوچستان کے مشرقی علاقوں بارکھان کوہلو اور سبی میں جاری بارشوں کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
بالائی سوات میں خوراک کی قلت
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وادی سوات میں سیلاب اور تباہ کن بارشوں کی وجہ سے بالائی سوات تک زمینی آمد و رفت بدستور معطل ہے جس کی وجہ سے تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب افراد کوخوراک اور ادوایات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔اپر سوات سے رکن صوبائی اسمبلی جعفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بالائی سوات کی طرف جانے والے تمام زمینی راستوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت گزشتہ ایک ہفتہ سے بدستور معطل ہے۔ جس کی وجہ سے مدائن، بحرین اور کالام میں رہنے والے افراد کو غذائی اجناس اور ادوایات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں اور اگر ان تک فوری طورپر امداد نہیں پہنچائی گئی تو حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں اور وہاں وبائی امراض کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
ایم پی اے کے مطابق کالام، بحرین، مانکیال ویلی، اورتروڑ، تراٹ اور بٹی گرام کے علاقوں میں سیلاب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں اس وقت خوراک، ٹینٹ اور ادوایات کی اشد ضرورت ہے۔
Wednesday, 28 July 2010
کہانی ایک مومن خاتون کی
عبد ا لصبور ندوی جھنڈا نگری
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نیک شخص نے نہایت خوبرو و پرہیز گار خاتون سے شادی کی، دونوں ایک دوسرے سے خوب محبت کرتے تھے، مسرت بھرے دن گزر رہے تھے،ایک مرتبہ شوہر کو طلب رزق کے لئے سفر کی حاجت آپڑی، فکر لاحق ہوئی کہ اپنی بیوی کو گھر میں تنہا کیسے چھوڑے، قرابت داروں میں کسی معتبر شخص کی تلاش شروع کی، اسے اپنے سگے بھائی کے علاوہ کوئی معتبر ذمہ دار نہ ملا، بھائی کے گھر میں بیوی کو چھوڑا ، مگر پیارے نبیﷺ کا یہ فرمان بھول گیا ’’الحمو الموت‘‘ دیور موت ہے، اور وہ سفر پر روانہ ہوگیا۔
دن گزرتے گئے، ایک روز دیور نے اپنی بھابھی کو شہوت رانی پر اکسایا، مگر اس پاکباز خاتون نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا : تم چاہتے ہو کہ میری عزت کی دھجیاں بکھیرو اور میں شوہر کی خائن بن جاؤں، ہرگز نہیں! دیور نے بھابھی کو رسوا کرنے کی دھمکی دی ، مگر بھابھی پر دھمکی کا اثر نہیں ہوا، کہا :تم جو کرنا چاہو کرو، میرے ساتھ میرا رب ہے۔ اس نیک خاتون کا شوہر جب سفر سے لوٹا تو اس کے بھائی نے فوراً اپنی بھابھی پر الزام لگادیا کہ تمہاری بیوی نے مجھے بدکاری پر اکسایا تھالیکن میں نے منع کیا، شوہر نے بغیر سوچے سمجھے اسی وقت پارسا بیوی کو طلاق دیدی اور کہا: مجھے اپنی بیوی سے کچھ نہیں سننا ہے، میرا بھائی سچا ہے۔
وہ متقی اور خدا ترس خاتون گھر سے انجان منزل کی طرف نکل پڑی، راستے میں ایک عابد و زاہد کا گھر پڑا، دروازہ پر دستک دی اور اپنی ساری کہانی عابد سے کہہ ڈالی، اس عبادت گزار بندے نے اپنے چھوٹے بیٹے کی نگہداشت پر اسے مامور کردیا، ایک دن عابد گھر سے کسی کام کے لئے باہر گیا، گھر کا نوکر موقع پاکر اس خاتون پر ڈورے ڈالنے لگا، مگر عزم و ثبات کی پیکر نے اللہ کی معصیت سے انکار کیا، اور کہا: نبی ﷺ نے ہم سب کو تنبیہ کی ہے کہ کوئی شخص کسی اجنبی خاتون کے ساتھ خلوت میں ہرگز نہ ہو، اس لئے کہ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے، نوکر نے خاتون کو دھمکی دی کہ میں تمہیں بڑی مصیبت میں پھنسا دونگا، مگر اس پیکر عفت کے پاؤں میں لغزش بھی نہیں آئی، نوکر نے عابد کے بچے کو قتل کردیا اور عابد کے گھر لوٹنے پر قتل کا الزام اس خاتون پر عائد کردیا، اس اللہ والے عابد کو غصہ تو بہت آیا مگر اللہ سے اجر کی امید باندھ کر صبر کر گیا، دو دینار اجرت کے طور پر خاتون کو دئے اور گھر چھوڑنے کا حکم دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: غصہ پی جانے والوں اور عفو ودرگزر کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے۔
عابد کا گھر چھوڑا ،شہر کی طرف رخ کیا، وہاں دیکھا کہ ایک بھیڑ ایک شخص کو پیٹے جارہی ہے، اس نے پوچھا تم لوگ اسے کیوں مار رہے ہو؟ ایک آدمی نے بتایا اس کے ذمہ قرض ہے یا تو قرض ادا کرے یا ہماری غلامی کرے، خاتون نے پوچھا اس پر کتنا قرض ؟ کہا: دو دینار، اس پر خاتون نے انہیں دو دینار دیکر اس شخص کو آزاد کرایا، آزاد ہونے والے شخص نے پوچھا تم کون ہو؟ اس خاتون نے اپنی پوری کہانی بیان کردی، اس پر اس آدمی نے کہا: کہ ہم دونوں ساتھ کام کریں گے اور نفع برابر بانٹ لیں گے، خاتون نے حامی بھر دی، اس آدمی نے کہا: ہم یہ گندی بستی چھوڑ کر سمندری سفر پر نکلتے ہیں، خاتون نے کہا ٹھیک ہے، دونوں کشتی کے پاس پہونچے ، نوجوان نے کہا کہ پہلے تم کشتی پر سوار ہو، وہ سوار ہوگئی اور وہ شخص کشتی کے مالک کے پاس گیا اور کہا: یہ میری لونڈی ہے میں اسے فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ کشتی کے مالک نے پیسے چکائے اور خاتون کو اس کی لاعلمی میں اسے خرید لیا، وہ شخص پیسہ لیکر بھاگ نکلا، کشتی روانہ ہوئی، خاتون اس شخص کو ڈھونڈنے لگی مگر نہیں پایا، کشتی کے عملہ نے اسے گھیر لیا اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے، خاتون کو تعجب ہوا، اس پر کشتی کے کپتان نے بتایا کہ میں نے تمہیں تمہارے مالک سے خرید لیا ہے اور اب تم وہ سب کرو جس کا حکم دیا جائے، اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا: میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتی مجھے چھوڑ دو ، یہ کہنا ہی تھا کہ سمندر میں آندھی اور طوفان آیا، کشتی ڈوب گئی ، جہاز کا عملہ اور سارے مسافر ڈوب گئے لیکن وہ صابر خاتون بچ گئی، اس وقت امیر شہر ساحل سمندر پر تفریح میں مشغول تھا، بے موسم کی آندھی کو دیکھ کر وہ بھی گھبرایا لیکن اس کا اثر ساحل پر نہیں تھا، پھر یکایک اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی جو ایک تختہ کے سہارے ساحل کی طرف آرہی تھی، امیر نے گارڈوں کو حکم دیا کہ اسے میرے پاس لایا جائے۔
اس خاتون کو محل لے جایا گیا، ماہر اطباء کی نگرانی میں اس کا علاج شروع ہوا، جب اسے افاقہ ہوا تو امیر شہر نے اس سے دریافت کیا تو اس نے ساری حکایت بیان کر ڈالی، دیور کی خیانت سے لیکر کشتی والوں کی شرارت تک سارے واقعے بیان کئے، حاکم شہر کو اس کے صبر نے موہ لیااور اس سے شادی کرلی، امور سلطنت میں مشیر کار کی حیثیت ملی اور چند ہی دنوں میں اس کی زبردست رائے اور قوت فیصلہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
وقت گزرتا رہا، نیک حاکم کا انتقال ہوگیا، اعیان شہر اکٹھا ہوئے، کہ کس کو اب حاکم بنایا جائے، متفقہ طور پہ لوگوں نے اس ذہین اور عاقل خاتون (زوجۂ امیر شہر) کو اپنا امیر منتخب کرلیا، حاکم بنتے ہی اس خاتون نے ایک وسیع میدان میں کرسی لگانے کا اور شہر کے تمام مردوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا، تمام مرد حضرات اس کے سامنے سے گزرنے لگے، اس نے اپنے سابق شوہر کو دیکھا اور کنارے ہوجانے کا اشارہ کیا، پھر اس کے بھائی (دیور) کو کنارے ہونے کا حکم دیا، عابد کو بھی ایک کنارے کیا، پھر اس نے عابد کے نوکر کو دیکھا اسے بھی مجمع سے الگ کھڑے ہونے کا حکم دیا پھر اس خبیث شخص کو دیکھا جسے اس خاتون نے آزاد کرایا تھا، اسے بھی کنارے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔
اب باری باری فیصلہ کرنے لگی، سب سے پہلے سابق شوہر سے مخاطب ہوئی: تم کو تمہارے بھائی نے دھوکے میں رکھا اس لئے بری ہو، لیکن تمہارے بھائی کو حد قذف لگائی جائے گی اس لئے کہ اس نے مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی تھی، پھر عابد سے مخاطب ہوئی اور کہا: تم کو تمہارے خادم نے گمراہ کیا لہٰذا تم بھی بری ہو ، لیکن تمہارا خادم قصاصاً قتل کیا جائے گا، کیونکہ اسی نے تمہارے بچے کو قتل کیا تھا، پھر وہ مخاطب ہوئی اس خبیث سے: تمہیں حبس دوام کی سزا دی جاتی ہے، تمہاری خیانت اور ایسی عورت کو فروخت کردینے کے جرم میں، جس نے تجھے غلامی سے نجات دلائی تھی۔
اللہ کی ذات پاک ہے ، کسی کے اچھے عمل کو ضائع ہونے نہیں دیتا، فرماتا ہے: جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایسے راستے ہموار کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان نہیں ہوتا۔
دیکھا آپ نے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کرب و بلاء میں گرفتار خاتون کی مدد کی، تقویٰ مومن کا شعار ہے یہ شعار ہمیشہ باقی رہنا چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ ہی کی وجہ سے سخت حالات کو موافق و سازگار بنادیتا ہے۔ (عربی سے ترجمہ)
کہانی ایک مومن خاتون کی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نیک شخص نے نہایت خوبرو و پرہیز گار خاتون سے شادی کی، دونوں ایک دوسرے سے خوب محبت کرتے تھے، مسرت بھرے دن گزر رہے تھے،ایک مرتبہ شوہر کو طلب رزق کے لئے سفر کی حاجت آپڑی، فکر لاحق ہوئی کہ اپنی بیوی کو گھر میں تنہا کیسے چھوڑے، قرابت داروں میں کسی معتبر شخص کی تلاش شروع کی، اسے اپنے سگے بھائی کے علاوہ کوئی معتبر ذمہ دار نہ ملا، بھائی کے گھر میں بیوی کو چھوڑا ، مگر پیارے نبیﷺ کا یہ فرمان بھول گیا ’’الحمو الموت‘‘ دیور موت ہے، اور وہ سفر پر روانہ ہوگیا۔
دن گزرتے گئے، ایک روز دیور نے اپنی بھابھی کو شہوت رانی پر اکسایا، مگر اس پاکباز خاتون نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا : تم چاہتے ہو کہ میری عزت کی دھجیاں بکھیرو اور میں شوہر کی خائن بن جاؤں، ہرگز نہیں! دیور نے بھابھی کو رسوا کرنے کی دھمکی دی ، مگر بھابھی پر دھمکی کا اثر نہیں ہوا، کہا :تم جو کرنا چاہو کرو، میرے ساتھ میرا رب ہے۔ اس نیک خاتون کا شوہر جب سفر سے لوٹا تو اس کے بھائی نے فوراً اپنی بھابھی پر الزام لگادیا کہ تمہاری بیوی نے مجھے بدکاری پر اکسایا تھالیکن میں نے منع کیا، شوہر نے بغیر سوچے سمجھے اسی وقت پارسا بیوی کو طلاق دیدی اور کہا: مجھے اپنی بیوی سے کچھ نہیں سننا ہے، میرا بھائی سچا ہے۔
وہ متقی اور خدا ترس خاتون گھر سے انجان منزل کی طرف نکل پڑی، راستے میں ایک عابد و زاہد کا گھر پڑا، دروازہ پر دستک دی اور اپنی ساری کہانی عابد سے کہہ ڈالی، اس عبادت گزار بندے نے اپنے چھوٹے بیٹے کی نگہداشت پر اسے مامور کردیا، ایک دن عابد گھر سے کسی کام کے لئے باہر گیا، گھر کا نوکر موقع پاکر اس خاتون پر ڈورے ڈالنے لگا، مگر عزم و ثبات کی پیکر نے اللہ کی معصیت سے انکار کیا، اور کہا: نبی ﷺ نے ہم سب کو تنبیہ کی ہے کہ کوئی شخص کسی اجنبی خاتون کے ساتھ خلوت میں ہرگز نہ ہو، اس لئے کہ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے، نوکر نے خاتون کو دھمکی دی کہ میں تمہیں بڑی مصیبت میں پھنسا دونگا، مگر اس پیکر عفت کے پاؤں میں لغزش بھی نہیں آئی، نوکر نے عابد کے بچے کو قتل کردیا اور عابد کے گھر لوٹنے پر قتل کا الزام اس خاتون پر عائد کردیا، اس اللہ والے عابد کو غصہ تو بہت آیا مگر اللہ سے اجر کی امید باندھ کر صبر کر گیا، دو دینار اجرت کے طور پر خاتون کو دئے اور گھر چھوڑنے کا حکم دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: غصہ پی جانے والوں اور عفو ودرگزر کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے۔
عابد کا گھر چھوڑا ،شہر کی طرف رخ کیا، وہاں دیکھا کہ ایک بھیڑ ایک شخص کو پیٹے جارہی ہے، اس نے پوچھا تم لوگ اسے کیوں مار رہے ہو؟ ایک آدمی نے بتایا اس کے ذمہ قرض ہے یا تو قرض ادا کرے یا ہماری غلامی کرے، خاتون نے پوچھا اس پر کتنا قرض ؟ کہا: دو دینار، اس پر خاتون نے انہیں دو دینار دیکر اس شخص کو آزاد کرایا، آزاد ہونے والے شخص نے پوچھا تم کون ہو؟ اس خاتون نے اپنی پوری کہانی بیان کردی، اس پر اس آدمی نے کہا: کہ ہم دونوں ساتھ کام کریں گے اور نفع برابر بانٹ لیں گے، خاتون نے حامی بھر دی، اس آدمی نے کہا: ہم یہ گندی بستی چھوڑ کر سمندری سفر پر نکلتے ہیں، خاتون نے کہا ٹھیک ہے، دونوں کشتی کے پاس پہونچے ، نوجوان نے کہا کہ پہلے تم کشتی پر سوار ہو، وہ سوار ہوگئی اور وہ شخص کشتی کے مالک کے پاس گیا اور کہا: یہ میری لونڈی ہے میں اسے فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ کشتی کے مالک نے پیسے چکائے اور خاتون کو اس کی لاعلمی میں اسے خرید لیا، وہ شخص پیسہ لیکر بھاگ نکلا، کشتی روانہ ہوئی، خاتون اس شخص کو ڈھونڈنے لگی مگر نہیں پایا، کشتی کے عملہ نے اسے گھیر لیا اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے، خاتون کو تعجب ہوا، اس پر کشتی کے کپتان نے بتایا کہ میں نے تمہیں تمہارے مالک سے خرید لیا ہے اور اب تم وہ سب کرو جس کا حکم دیا جائے، اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا: میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتی مجھے چھوڑ دو ، یہ کہنا ہی تھا کہ سمندر میں آندھی اور طوفان آیا، کشتی ڈوب گئی ، جہاز کا عملہ اور سارے مسافر ڈوب گئے لیکن وہ صابر خاتون بچ گئی، اس وقت امیر شہر ساحل سمندر پر تفریح میں مشغول تھا، بے موسم کی آندھی کو دیکھ کر وہ بھی گھبرایا لیکن اس کا اثر ساحل پر نہیں تھا، پھر یکایک اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی جو ایک تختہ کے سہارے ساحل کی طرف آرہی تھی، امیر نے گارڈوں کو حکم دیا کہ اسے میرے پاس لایا جائے۔
اس خاتون کو محل لے جایا گیا، ماہر اطباء کی نگرانی میں اس کا علاج شروع ہوا، جب اسے افاقہ ہوا تو امیر شہر نے اس سے دریافت کیا تو اس نے ساری حکایت بیان کر ڈالی، دیور کی خیانت سے لیکر کشتی والوں کی شرارت تک سارے واقعے بیان کئے، حاکم شہر کو اس کے صبر نے موہ لیااور اس سے شادی کرلی، امور سلطنت میں مشیر کار کی حیثیت ملی اور چند ہی دنوں میں اس کی زبردست رائے اور قوت فیصلہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
وقت گزرتا رہا، نیک حاکم کا انتقال ہوگیا، اعیان شہر اکٹھا ہوئے، کہ کس کو اب حاکم بنایا جائے، متفقہ طور پہ لوگوں نے اس ذہین اور عاقل خاتون (زوجۂ امیر شہر) کو اپنا امیر منتخب کرلیا، حاکم بنتے ہی اس خاتون نے ایک وسیع میدان میں کرسی لگانے کا اور شہر کے تمام مردوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا، تمام مرد حضرات اس کے سامنے سے گزرنے لگے، اس نے اپنے سابق شوہر کو دیکھا اور کنارے ہوجانے کا اشارہ کیا، پھر اس کے بھائی (دیور) کو کنارے ہونے کا حکم دیا، عابد کو بھی ایک کنارے کیا، پھر اس نے عابد کے نوکر کو دیکھا اسے بھی مجمع سے الگ کھڑے ہونے کا حکم دیا پھر اس خبیث شخص کو دیکھا جسے اس خاتون نے آزاد کرایا تھا، اسے بھی کنارے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔
اب باری باری فیصلہ کرنے لگی، سب سے پہلے سابق شوہر سے مخاطب ہوئی: تم کو تمہارے بھائی نے دھوکے میں رکھا اس لئے بری ہو، لیکن تمہارے بھائی کو حد قذف لگائی جائے گی اس لئے کہ اس نے مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی تھی، پھر عابد سے مخاطب ہوئی اور کہا: تم کو تمہارے خادم نے گمراہ کیا لہٰذا تم بھی بری ہو ، لیکن تمہارا خادم قصاصاً قتل کیا جائے گا، کیونکہ اسی نے تمہارے بچے کو قتل کیا تھا، پھر وہ مخاطب ہوئی اس خبیث سے: تمہیں حبس دوام کی سزا دی جاتی ہے، تمہاری خیانت اور ایسی عورت کو فروخت کردینے کے جرم میں، جس نے تجھے غلامی سے نجات دلائی تھی۔
اللہ کی ذات پاک ہے ، کسی کے اچھے عمل کو ضائع ہونے نہیں دیتا، فرماتا ہے: جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایسے راستے ہموار کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان نہیں ہوتا۔
دیکھا آپ نے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کرب و بلاء میں گرفتار خاتون کی مدد کی، تقویٰ مومن کا شعار ہے یہ شعار ہمیشہ باقی رہنا چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ ہی کی وجہ سے سخت حالات کو موافق و سازگار بنادیتا ہے۔ (عربی سے ترجمہ)
Tuesday, 13 July 2010
Abdul Aziz (Mike Tyson) perform Umrah
MADINAH: Former boxing champion Abdul Aziz Tyson, who embraced Islam while serving a prison sentence in the 1990s, is on his first visit to the Kingdom to perform Umrah. He arrived in the holy city of Madinah on Friday to perform prayers at the Prophet’s Mosque.
While in Madinah, Tyson met Dr. Muhammad Al-Oqala, president of the Islamic University, who briefed the world heavyweight champion on the services being rendered by the university to students from across the world.
From Madinah, Tyson will travel on to Makkah to perform Umrah, press reports said. He will also visit Jeddah, Abha and Riyadh as part of his Saudi tour. His visit to Saudi Arabia was arranged by the Canadian Dawa Association (CDA) as part of visits it organizes for new Muslim celebrities to the Islamic sites in the Kingdom. Shazad Mohammed, president of CDA, was present at Prince Muhammad International Airport in Madinah to receive Tyson.
Mohammed, an ambassador of peace with the United Nations, said Tyson would be in the Kingdom for one week, visiting the holy places as well as important landmarks in the country and meeting with Saudi people to get to know their culture and traditions.
From Madinah, Tyson will travel on to Makkah to perform Umrah, press reports said. He will also visit Jeddah, Abha and Riyadh as part of his Saudi tour. His visit to Saudi Arabia was arranged by the Canadian Dawa Association (CDA) as part of visits it organizes for new Muslim celebrities to the Islamic sites in the Kingdom. Shazad Mohammed, president of CDA, was present at Prince Muhammad International Airport in Madinah to receive Tyson.
Mohammed, an ambassador of peace with the United Nations, said Tyson would be in the Kingdom for one week, visiting the holy places as well as important landmarks in the country and meeting with Saudi people to get to know their culture and traditions.
Tuesday, 22 June 2010
WE PROTEST AGAINST THE UK BAN ON DR. ZAKIR NAIK
Renowned Islamic scholar and founder of Peace TV Dr. Zakir Naik has been banned from the UK. Dr. Naik was planning to speak at different events in Sheffield, London and Birmingham at the end of the June 2010.
The decision to ban his entry into the UK was taken by Home Secretary Teresa May who said, "Numerous comments made by Dr Naik are evidence to me of his unacceptable behaviour. Coming to the UK is a privilege, not a right and I am not willing to allow those who might not be conducive to the public good to enter the UK."
In a press release issued by the Islamic Research Foundation on 11th June, Dr. Naik categorically denied glorifying terrorism, outlining his outright condemnation of 'acts of violence'. He also said he was seeing legal advice over the misrepresentation of his views.
This ban has shocked many Muslims in the UK & In all world who were looking forward to hearing Dr. Naik in the events organised. However, at the same time, many organisations have supported the Home Secretary's decision to ban Dr. Naik.
What do you think?
Is the ban on Dr. Naik justified or should it be lifted in interests of freedom of speech?
Should we support him or keep quiet??
Your response will be highly appreciated.
May Allah's Blessings be with you all! Ameen!
The decision to ban his entry into the UK was taken by Home Secretary Teresa May who said, "Numerous comments made by Dr Naik are evidence to me of his unacceptable behaviour. Coming to the UK is a privilege, not a right and I am not willing to allow those who might not be conducive to the public good to enter the UK."
In a press release issued by the Islamic Research Foundation on 11th June, Dr. Naik categorically denied glorifying terrorism, outlining his outright condemnation of 'acts of violence'. He also said he was seeing legal advice over the misrepresentation of his views.
This ban has shocked many Muslims in the UK & In all world who were looking forward to hearing Dr. Naik in the events organised. However, at the same time, many organisations have supported the Home Secretary's decision to ban Dr. Naik.
What do you think?
Is the ban on Dr. Naik justified or should it be lifted in interests of freedom of speech?
Should we support him or keep quiet??
Your response will be highly appreciated.
May Allah's Blessings be with you all! Ameen!
Tuesday, 1 June 2010
ذہبئ وقت اور مفکرجماعت -کچھ یادیں ، کچھ باتیں
عبد ا لصبورعبد النور ندوی
ذہبئ وقت اور مفکرجماعت
کچھ یادیں ، کچھ باتیں
ذہبئ وقت، فقیہ ملت ممتازعالم دین ، شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد رئیس الأحرار ندوی کا سانحہ ارتحال اور مفکر جماعت، ممتاز دانشورو بے باک عالم دین ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی وفات حسرت آیات نے جماعت اہل حدیث کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، گزشتہ سال ۲۰۰۹، میں ان دونوں بزرگوں کے انتقال نے سلفیان عالم کو غم زدہ کردیا، جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ یہ دونوں شخصیات علمی ذخیرہ تھیں، معلومات کا سمندر تھیں، ان کے سامنے گفتگو کرنے والے بہت محتاط رہتے تھے، اسٹیج پر ان کی موجودگی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی، ان کے قلم کو وہ اعتبار حاصل تھاکہ عوام و خواص نام دیکھتے ہی ان کی تحریروں کو سند حجت مان لیتے تھے، یہ سلفیت کے وہ عظیم داعی و مناد تھے، جن سے ہندوستان میں اہلحدیثیت ہمیشہ برگ و بار لاتی رہی، سنت کے نام پر باطل نے بارہا سنت کی شکل مسخ کرنے کی کوشش کی، ان دونوں مبلغوں نے تحفظ سنت کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں۔ انکار حدیث کے بڑھتے فتنے کو لگام کسنے میں ان ہنروران سنت کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ذہبئ وقت علامہ رئیس الأحرار ندوی رحمہ اللہ (۲؍جولائی۱۹۳۷ء۔۔۹؍مئی۲۰۱۰ء)
مورخہ ۹؍ مئی کو شب ساڑھے آٹھ بجے سعودی عرب میں جب یہ اندوہناک خبر ملی کہ علاج کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے سے جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الحدیث وممتاز مفتی،رئیس الاحرار حضرت مولانا محمد رئیس ندوی سوئے عقبیٰ کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
میرے لئے یہ بہت تکلیف دہ حادثہ تھا، مفتی صاحب سے بیحد لگاؤ اورعقیدت تھی، آپ کو پورے دو دہے سے دیکھتا اور جانتا تھا۔اسی وقت ایک پریس ریلیز کمپوز کرکے روز نامہ اردو نیوز جدہ، اردو پوسٹ دبئی، اردو ٹائمز ممبئی، منصف حیدرآباد ،ہماراسماج،ہندوستان ایکسپریس،اور راشٹریہ سہارا کو ای۔میل کیا، اور الحمد للہ اکثرنے خبر شائع کی، جس سے یقیناًانکے پھیلے ہوئے ہزاروں شاگردوں و عقیدتمندوں کو اطلاع ہوئی ہوگی۔
شیر بیشۂ سلفیت مولانا ندوی رحمہ اللہ ایک با کمال محقق عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و فتاویٰ اور فن حدیث پر زبر دست دسترس حاصل تھی، موجودہ دور کے علمائے اہلحدیث کے صف اول میں آپ کا شمار تھا، درجنوں کتابوں کے مؤلف ہیں، آپ کی تالیف ’اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات‘ بے پناہ مقبول ہوئی، یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی شرح بخاری انوار الباری کے جواب میں ہے، پانچ جلدوں پر مشتمل اللمحات میں کوثری فتنے کا سد باب کیا گیا ہے، ملتقیٰ اہل الحدیث کی ویب سائٹ پر شیخ محمد زیاد التکلہ لکھتے ہیں: علامہ رئیس الأحرار ندوی نے کوثریت کے رد میں اللمحات لکھی، ایک مرتبہ انہوں نے عبد الفتاح أبو غدہ کی ایک ملاقات کے موقع پر زبردست سرزنش کی، اور کہا کہ آپ کوثریت کے پراگندہ افکارکی ترویج واشاعت فوری بند کیجئے۔
مولانا رحمہ اللہ اگر چہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ تھے، وہیں تعلیم پائی، لیکن مسلکی حمیت پر ذرا بھی آنچ آنے نہ دی، بلکہ نکھرتے چلے گئے، اور اتنی محنت کی کہ آپ کے اساتذہ( مولانا علی میاں ندو ی رحمہ اللہ، مولانا عبد اللہ عباس رحمہ اللہ ) آپ کی صلاحیت پر عش عش کرتے ، اپنے پاس بٹھاتے اور بسا اوقات آپ سے مستفید بھی ہوتے۔ یہ حقیقت ہے کہ ندوہ کے نصاب میں فقہ حنفی کا بول بالا ہے، لیکن مختلف مسالک کے طلبہ اور اساتذہ کی موجودگی اس کی وسعت ظرفی کی غماز ہے، اگر چند نام چھوڑ دئے جائیں ، تو وہاں مسلکی تعصب کی بو بھی نہیں ملے گی، اور اپنے انداز کا یہ ہندوستان کا منفرد ادارہ ہے۔وہاں فقہ حنفی پر عمل کا اصرار نہیں ہے، اگر مسلک سلف کا متبع کوئی لڑکا وہاں داخلہ لیتا ہے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ ٹھیٹھ سلفی بن کر نکلے ، اور سلفیت کا وہ بے باک ترجمان و علمبردار بن جائے۔
مولانا رئیس الاحرار نے صحیحین کا درس بھی مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ سے لیا تھا، اور آپ کو انہوں نے سند اجازت مرحمت کی تھی، مولانا علی میاں ندوی کو محدث حیدر حسن خان ٹونکی اور محدث کبیر عبد الرحمن مبارکپوری رحمہما اللہ نے سند اجازت عطا کی تھی۔
سنت صحیحہ کے دفاع میں مولانا کا کارنامہ نا قابل فراموش ہے، جامعہ سلفیہ بنارس سے منسلک ہونے کے بعدآپ کو شیخ الحدیث اور مفتی بنایا گیا، تقریبا ۲۵برسوں تک جامعہ سلفیہ بنارس میں بخاری شریف کا درس دیا،آپ کے فتاویٰ کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔آپ کے مقالات و کتب اور ڈائریاں تقریبا ایک لاکھ صفحات پر محیط ہیں۔ آپ کی چند مولفات درج ذیل ہیں:
۱۔اللمحات الیٰ مافی أنوار الباری من الظلمات(پانچ جلدوں میں)، ۲۔سیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (دو جلدوں میں)، ۳۔رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقۂ نماز، ۴۔سیرت ابن حزم ، ۵۔تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق، ۶۔دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ، ۷۔ جمعہ کے احکام و مسائل، وغیرہ ۔ *چار ہزار صفحات پر مشتمل کتاب ’تاریخ یہود ‘ لکھی تھی، جس کا مسودہ گھر ہی سے ضائع ہوگیاتھا۔اس کتاب کے ضائع ہونے کا افسوس آپ کو عمر بھر رہا۔
ڈائری لکھنے کا بڑا شوق تھا، چنانچہ وہ روزانہ عشاء کے بعد بیٹھ کر دن بھر کی کیفیات و حالات لکھا کرتے تھے ، آپ کی ڈائریاں اگر محفوظ ہیں اور کسی کی نظر بد کا شکار نہیں ہوئی ہیں تو ان ڈائریوں سے جواہر پارے کھنگالے جا سکتے ہیں، پھر ان کی اشاعت بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے ، پوری زندگی کتابوں کے درمیان گزار دی۔کوئی بھی ملاقات کے لئے پہنچتا تو آپ کو کتابوں سے گھرا پاتا، اور اکثر ایسا ہوتا کتابوں کے بیچ سو جاتے، باطل فرقوں پر جم کر دھاوا بولتے کہ اسے جواب کی سکت نہ رہتی تھی۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے متعدد اجلاس میں آپ کو بلایا گیا، کسی فقہی مسئلے میں جب اپنے بے باک موقف کو رکھتے تودلائل سن کر بعض دوسرے علماء اپنی رائے سے رجوع کر لیتے، اور اکیڈمی کا اتفاق بھی آپ کی رائے پر ہوتا۔البتہ کچھ ایسے کور چشم ہوتے جو ایک مخصوص فقہ کو زبردستی تھوپنا چاہتے تھے۔
دینی جلسوں میں بحیثیت خطیب بلائے جاتے رہے، اور اس طرح آپ نے تقریر اور تحریر دونوں میدان میں امت کی رہنمائی کی،مولانا رحمہ اللہ عوام وخواص میں یکساں مقبول تھے، مسائل کی دریافت کے لئے عوام الناس کا مرجع تھے، ضرورت اس بات کی ہے کہ فقیہ وقت کے فتوؤں کی اشاعت عمل میں لائی جائے، ان کی زندگی اور کتابوں پر بحث لکھی جائے ، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے سلف کے حالات سے واقف رہیں، انہیں حوصلہ ملے ، ورنہ اپنی جماعت کا المیہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی قدر اور ان کے ورثے کی حفاظت کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتی ، اور وہ اپنی عظیم خدمات کے ساتھ ایسا دفن ہوجاتے ہیں کہ گویا انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ موصوف کی بال بال مغفرت فرمائے،آپ کی خدمات کو قبول فرمائے ، قبر پر شبنم افشانی کرے،اور جنت الفردوس میں آپ کا مسکن بنائے(آمین)
میرے لئے یہ بہت تکلیف دہ حادثہ تھا، مفتی صاحب سے بیحد لگاؤ اورعقیدت تھی، آپ کو پورے دو دہے سے دیکھتا اور جانتا تھا۔اسی وقت ایک پریس ریلیز کمپوز کرکے روز نامہ اردو نیوز جدہ، اردو پوسٹ دبئی، اردو ٹائمز ممبئی، منصف حیدرآباد ،ہماراسماج،ہندوستان ایکسپریس،اور راشٹریہ سہارا کو ای۔میل کیا، اور الحمد للہ اکثرنے خبر شائع کی، جس سے یقیناًانکے پھیلے ہوئے ہزاروں شاگردوں و عقیدتمندوں کو اطلاع ہوئی ہوگی۔
شیر بیشۂ سلفیت مولانا ندوی رحمہ اللہ ایک با کمال محقق عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و فتاویٰ اور فن حدیث پر زبر دست دسترس حاصل تھی، موجودہ دور کے علمائے اہلحدیث کے صف اول میں آپ کا شمار تھا، درجنوں کتابوں کے مؤلف ہیں، آپ کی تالیف ’اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات‘ بے پناہ مقبول ہوئی، یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی شرح بخاری انوار الباری کے جواب میں ہے، پانچ جلدوں پر مشتمل اللمحات میں کوثری فتنے کا سد باب کیا گیا ہے، ملتقیٰ اہل الحدیث کی ویب سائٹ پر شیخ محمد زیاد التکلہ لکھتے ہیں: علامہ رئیس الأحرار ندوی نے کوثریت کے رد میں اللمحات لکھی، ایک مرتبہ انہوں نے عبد الفتاح أبو غدہ کی ایک ملاقات کے موقع پر زبردست سرزنش کی، اور کہا کہ آپ کوثریت کے پراگندہ افکارکی ترویج واشاعت فوری بند کیجئے۔
مولانا رحمہ اللہ اگر چہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ تھے، وہیں تعلیم پائی، لیکن مسلکی حمیت پر ذرا بھی آنچ آنے نہ دی، بلکہ نکھرتے چلے گئے، اور اتنی محنت کی کہ آپ کے اساتذہ( مولانا علی میاں ندو ی رحمہ اللہ، مولانا عبد اللہ عباس رحمہ اللہ ) آپ کی صلاحیت پر عش عش کرتے ، اپنے پاس بٹھاتے اور بسا اوقات آپ سے مستفید بھی ہوتے۔ یہ حقیقت ہے کہ ندوہ کے نصاب میں فقہ حنفی کا بول بالا ہے، لیکن مختلف مسالک کے طلبہ اور اساتذہ کی موجودگی اس کی وسعت ظرفی کی غماز ہے، اگر چند نام چھوڑ دئے جائیں ، تو وہاں مسلکی تعصب کی بو بھی نہیں ملے گی، اور اپنے انداز کا یہ ہندوستان کا منفرد ادارہ ہے۔وہاں فقہ حنفی پر عمل کا اصرار نہیں ہے، اگر مسلک سلف کا متبع کوئی لڑکا وہاں داخلہ لیتا ہے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ ٹھیٹھ سلفی بن کر نکلے ، اور سلفیت کا وہ بے باک ترجمان و علمبردار بن جائے۔
مولانا رئیس الاحرار نے صحیحین کا درس بھی مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ سے لیا تھا، اور آپ کو انہوں نے سند اجازت مرحمت کی تھی، مولانا علی میاں ندوی کو محدث حیدر حسن خان ٹونکی اور محدث کبیر عبد الرحمن مبارکپوری رحمہما اللہ نے سند اجازت عطا کی تھی۔
سنت صحیحہ کے دفاع میں مولانا کا کارنامہ نا قابل فراموش ہے، جامعہ سلفیہ بنارس سے منسلک ہونے کے بعدآپ کو شیخ الحدیث اور مفتی بنایا گیا، تقریبا ۲۵برسوں تک جامعہ سلفیہ بنارس میں بخاری شریف کا درس دیا،آپ کے فتاویٰ کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔آپ کے مقالات و کتب اور ڈائریاں تقریبا ایک لاکھ صفحات پر محیط ہیں۔ آپ کی چند مولفات درج ذیل ہیں:
۱۔اللمحات الیٰ مافی أنوار الباری من الظلمات(پانچ جلدوں میں)، ۲۔سیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (دو جلدوں میں)، ۳۔رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقۂ نماز، ۴۔سیرت ابن حزم ، ۵۔تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق، ۶۔دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ، ۷۔ جمعہ کے احکام و مسائل، وغیرہ ۔ *چار ہزار صفحات پر مشتمل کتاب ’تاریخ یہود ‘ لکھی تھی، جس کا مسودہ گھر ہی سے ضائع ہوگیاتھا۔اس کتاب کے ضائع ہونے کا افسوس آپ کو عمر بھر رہا۔
ڈائری لکھنے کا بڑا شوق تھا، چنانچہ وہ روزانہ عشاء کے بعد بیٹھ کر دن بھر کی کیفیات و حالات لکھا کرتے تھے ، آپ کی ڈائریاں اگر محفوظ ہیں اور کسی کی نظر بد کا شکار نہیں ہوئی ہیں تو ان ڈائریوں سے جواہر پارے کھنگالے جا سکتے ہیں، پھر ان کی اشاعت بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے ، پوری زندگی کتابوں کے درمیان گزار دی۔کوئی بھی ملاقات کے لئے پہنچتا تو آپ کو کتابوں سے گھرا پاتا، اور اکثر ایسا ہوتا کتابوں کے بیچ سو جاتے، باطل فرقوں پر جم کر دھاوا بولتے کہ اسے جواب کی سکت نہ رہتی تھی۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے متعدد اجلاس میں آپ کو بلایا گیا، کسی فقہی مسئلے میں جب اپنے بے باک موقف کو رکھتے تودلائل سن کر بعض دوسرے علماء اپنی رائے سے رجوع کر لیتے، اور اکیڈمی کا اتفاق بھی آپ کی رائے پر ہوتا۔البتہ کچھ ایسے کور چشم ہوتے جو ایک مخصوص فقہ کو زبردستی تھوپنا چاہتے تھے۔
دینی جلسوں میں بحیثیت خطیب بلائے جاتے رہے، اور اس طرح آپ نے تقریر اور تحریر دونوں میدان میں امت کی رہنمائی کی،مولانا رحمہ اللہ عوام وخواص میں یکساں مقبول تھے، مسائل کی دریافت کے لئے عوام الناس کا مرجع تھے، ضرورت اس بات کی ہے کہ فقیہ وقت کے فتوؤں کی اشاعت عمل میں لائی جائے، ان کی زندگی اور کتابوں پر بحث لکھی جائے ، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے سلف کے حالات سے واقف رہیں، انہیں حوصلہ ملے ، ورنہ اپنی جماعت کا المیہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی قدر اور ان کے ورثے کی حفاظت کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتی ، اور وہ اپنی عظیم خدمات کے ساتھ ایسا دفن ہوجاتے ہیں کہ گویا انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ موصوف کی بال بال مغفرت فرمائے،آپ کی خدمات کو قبول فرمائے ، قبر پر شبنم افشانی کرے،اور جنت الفردوس میں آپ کا مسکن بنائے(آمین)
مفکر جماعت علامہ ڈاکٹر مقتد یٰ حسن ازہری رحمہ اللہ (۱۸؍اگست۱۹۳۹ء۔۔۳۰؍اکتوبر۲۰۰۹ء)
دنیائے علم و ادب کی عبقری شخصیت ، ملی اور سماجی اقدار کا فروغ کار ، دانشکدۂ فکر و فن کا نیر تاباں، عرب و عجم کا رابطہ کار ، ایک عظیم و باوقار ہستی ، جسے دنیا علامہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کے نام سے جانتی ہے، مورخہ ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو زمیں اوڑھ کر سو گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مایہ ناز علمی درسگاہ جامعہ سلفیہ بنارس کے صدر ، درجنوں کتابوں کے مولف،متعدد تنظیموں کے سرپرست، مشہور عربی داں، عظیم دانشور ، اور بیباک خطیب علامہ ازہری صاحب کو کچھ عرصہ قبل بلڈ کینسر کا عارضہ لاحق ہوا،لیکن جب پتہ چلا تو اخیر اسٹیج میں پہنچ چکا تھا، دوا و دعا کے ساتھ علاج چلتا رہا، مگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی،چنانچہ اللہ کے اس صابر و شاکر بندے نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔
سر زمین مؤ ناتھ بھنجن ، جس نے پوری دنیا میں اپنی علمی اہلیت و قابلیت اور ہنر مندی کا لوہا منوایا ہے، یہ وہ سر زمین ہے جس کا ذرہ ذرہ نیر اعظم بن کر نکلا، علماء کی سر زمین، ہنر وران کتاب و سنت کی سر زمین ، محدثین و مؤرخین کی سر زمین ، ادباء و انشاء پردازوں کی سرزمیں، شعراء و فنکاروں کی سرزمین، صنعت کاروں و پارچہ بافوں کی سرزمین ، الغرض اس خطہ نے اپنے دامن میں اتنے لعل وجواہر چھپا رکھے ہیں، جس کا شمار مشکل ہے، مگر اس کی عظمت نشاں پر دال ہیں۔
سردار جماعت اہل حدیث،فخر جامعہ سلفیہ بنارس، محبوب مؤناتھ بھنجن ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کوئی محتاج تعارف شخصیت نہیں، اپنوں اور بیگانوں میں ایک مشہور نام، جس کے سبھی گیت گاتے نظر آتے ہیں، جامعہ سلفیہ بنارس آج جس تناور درخت کا روپ دھار چکا ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ ازہری صاحب نے اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا۔اس کی شہرت میں جن علماء و افاضل کا کردار رہا ہے، اس میں ان کا کردار نہایت نمایاں ہے۔
جامعہ ازہر مصر سے ادب عربی میں بیچلر ڈگری لینے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا، عربی ادب آپ کا اختصاص تھا، اور اسی موضوع پر کئی کتابیں بھی تالیف کیں، مشہور سیرت کی کتاب رحمۃ للعلمین کاعربی میں ترجمہ کیا ، جو بیحد مقبول ہوئی،بعض اہم تالیفات وتراجم ملاحظہ فرمائیں: *راہ حق کے تقاضے*خاتون اسلام *قرۃ العین فی تفضیل الشیخین ابی بکر وعمر
* مسألۃ حیاۃ النبیﷺ في ضوء الادلۃ الشرعیۃ۔ الشیخ محمد اسماعیل السلفی گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*نظرۃ الی موقف المسلمین من أحداث الخلیج۔ *حرکۃ الانطلاق الفکری و جہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید ۔مولانا محمد اسماعیل گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*تاریخ ادب عربی ۔ أحمد حسن زیات (اردو ترجمہ) پانچ جلدیں۔ * عورت کے متعلق اسلام کا نظریہ* ادب کی حقیقت* مسلمان اور اسلامی ثقافت* دور حاضر میں نوجوان مسلم کی ذمہ داری* معاصر کتابوں اور تاریخ کی روشنی میں بابری مسجد کا سانحہ۔ *مختصر زاد المعاد(اردو)* اصلاح المساجد(اردو)۔
450 سے زائد کتابوں کا آپ نے مقدمہ لکھا، آپ کا مقدمہ و تقریظ کتابوں کو اعتبار بخشتا تھا، اگر ان تمام مقدمات و تقریظات کو یکجا کتابی شکل میں شائع کردیا جائے تو بہت نادر قیمتی علمی اور تحقیقی تحفہ ہوگا۔ جس سے طلبہ وعلماء یکساں طور پر مستفیض ہوسکتے ہیں۔عربی ماہنامہ صوت الامہ کی 40 سال تک ادارت کے فرائض انجام دئے، اردوو عربی میں آپ کے مقالات ومضامین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہیں،عربی زبان کی بے مثل خدمت کے اعتراف میں ۱۹۹۲ء میں صدر جمہوریہ ہند نے اعزاز سے نوازا تھا۔پوری دنیا میں منعقدسینکڑوں اسلامی کانفرنسوں میں آپ بطور مقالہ نگار، خطیب، اور صدر کی حیثیت سے مدعو کئے جاتے رہے۔
آپ نے جماعت اہل حدیث کی تنظیم’’مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘‘کے رکن شوریٰ و عاملہ کی حیثیت سے برسہا برس عظیم الشان خدمت کی ہے۔اس جمعیت کے تین ’’آل انڈیااہل حدیث کانفرنس‘‘ (منعقدہ :مؤ۱۹۹۴ء ، پاکوڑ ۲۰۰۴ء )کے صدر استقبالیہ ہونے کا شرف ڈاکٹر صاحب موصوف کو ہی حاصل ہے۔ یہ وہ انفرادیت ہے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔اور ہرکانفرنس میں آپ کا تحریر کردہ خطبہ استقبالیہ مطبوع شکل میں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔آپ کے خطبہائے استقبالیہ انتہائی قابل قدر معلومات پر مشتمل ہیں جن سے تحریک اہل حدیث اور اس کے خط وخال کو سمجھنے ،اس تحریک کے مد وجزر کو جاننے میں کافی مدد ملتی ہے۔ مجھے یاد ہے مؤ آل انڈیا کانفرنس کے موقع پر جب آپ صدر استقبالیہ تھے، اس وقت کے ناظم جمعےۃ مولانا عبد الوہاب خلجی حفظہ اللہ نے کہا تھا: ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے کہ آج سے تقریبا ستر سال قبل جب مؤ میں آل انڈیا کانفرنس ہوئی تھی اس کے صدر استقبالیہ مشہور سیرت نگار ، صاحب رحمۃ للعالمین علامہ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ تھے اور آج اسی کتاب کے عربی مترجم حضرت ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری اسی سرزمین پر کانفرنس کی صدارت کر رہے ہیں۔
ازہری صاحب کو میں نے قریب سے دیکھا اور جانا ہے، آپ کے ساتھ دو مرتبہ سفر میں بھی رہا، وہ ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ نبھانا جانتے تھے، وہ وقت کے نہایت پابند تھے، مقصد کو ہمیشہ مقدم رکھا، مول بھاؤ کی انکی عادت نہیں تھی،تواضع اور خاکساری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ۲۰۰۰ء میں جب میں اور عم محترم زاہد آزاد جھنڈا نگری نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کاعلامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں بنارس کا بھی سفر ہوا، جامعہ سلفیہ کے ناظم مولانا عبد اللہ سعود صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا: جامعہ سے علامہ ناصر الدین البانی کا کوئی تعلق نہیں تھا، ہم انکی حیات پر اشاعت کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ ازہری صاحب ساتھ میں تھے، انہوں نے یہ کہہ کر خاموش کیا: ایک مرتبہ البانی صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ جامعہ سلفیہ آکر تد ریس و تحقیق کی خدمت انجام دیں، انہوں نے قبول بھی کیا، مگر بعد میں حالات نے انہیں معذرت کرنے پر مجبور کردیاتھا۔
مایہ ناز علمی درسگاہ جامعہ سلفیہ بنارس کے صدر ، درجنوں کتابوں کے مولف،متعدد تنظیموں کے سرپرست، مشہور عربی داں، عظیم دانشور ، اور بیباک خطیب علامہ ازہری صاحب کو کچھ عرصہ قبل بلڈ کینسر کا عارضہ لاحق ہوا،لیکن جب پتہ چلا تو اخیر اسٹیج میں پہنچ چکا تھا، دوا و دعا کے ساتھ علاج چلتا رہا، مگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی،چنانچہ اللہ کے اس صابر و شاکر بندے نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔
سر زمین مؤ ناتھ بھنجن ، جس نے پوری دنیا میں اپنی علمی اہلیت و قابلیت اور ہنر مندی کا لوہا منوایا ہے، یہ وہ سر زمین ہے جس کا ذرہ ذرہ نیر اعظم بن کر نکلا، علماء کی سر زمین، ہنر وران کتاب و سنت کی سر زمین ، محدثین و مؤرخین کی سر زمین ، ادباء و انشاء پردازوں کی سرزمیں، شعراء و فنکاروں کی سرزمین، صنعت کاروں و پارچہ بافوں کی سرزمین ، الغرض اس خطہ نے اپنے دامن میں اتنے لعل وجواہر چھپا رکھے ہیں، جس کا شمار مشکل ہے، مگر اس کی عظمت نشاں پر دال ہیں۔
سردار جماعت اہل حدیث،فخر جامعہ سلفیہ بنارس، محبوب مؤناتھ بھنجن ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کوئی محتاج تعارف شخصیت نہیں، اپنوں اور بیگانوں میں ایک مشہور نام، جس کے سبھی گیت گاتے نظر آتے ہیں، جامعہ سلفیہ بنارس آج جس تناور درخت کا روپ دھار چکا ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ ازہری صاحب نے اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا۔اس کی شہرت میں جن علماء و افاضل کا کردار رہا ہے، اس میں ان کا کردار نہایت نمایاں ہے۔
جامعہ ازہر مصر سے ادب عربی میں بیچلر ڈگری لینے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا، عربی ادب آپ کا اختصاص تھا، اور اسی موضوع پر کئی کتابیں بھی تالیف کیں، مشہور سیرت کی کتاب رحمۃ للعلمین کاعربی میں ترجمہ کیا ، جو بیحد مقبول ہوئی،بعض اہم تالیفات وتراجم ملاحظہ فرمائیں: *راہ حق کے تقاضے*خاتون اسلام *قرۃ العین فی تفضیل الشیخین ابی بکر وعمر
* مسألۃ حیاۃ النبیﷺ في ضوء الادلۃ الشرعیۃ۔ الشیخ محمد اسماعیل السلفی گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*نظرۃ الی موقف المسلمین من أحداث الخلیج۔ *حرکۃ الانطلاق الفکری و جہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید ۔مولانا محمد اسماعیل گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*تاریخ ادب عربی ۔ أحمد حسن زیات (اردو ترجمہ) پانچ جلدیں۔ * عورت کے متعلق اسلام کا نظریہ* ادب کی حقیقت* مسلمان اور اسلامی ثقافت* دور حاضر میں نوجوان مسلم کی ذمہ داری* معاصر کتابوں اور تاریخ کی روشنی میں بابری مسجد کا سانحہ۔ *مختصر زاد المعاد(اردو)* اصلاح المساجد(اردو)۔
450 سے زائد کتابوں کا آپ نے مقدمہ لکھا، آپ کا مقدمہ و تقریظ کتابوں کو اعتبار بخشتا تھا، اگر ان تمام مقدمات و تقریظات کو یکجا کتابی شکل میں شائع کردیا جائے تو بہت نادر قیمتی علمی اور تحقیقی تحفہ ہوگا۔ جس سے طلبہ وعلماء یکساں طور پر مستفیض ہوسکتے ہیں۔عربی ماہنامہ صوت الامہ کی 40 سال تک ادارت کے فرائض انجام دئے، اردوو عربی میں آپ کے مقالات ومضامین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہیں،عربی زبان کی بے مثل خدمت کے اعتراف میں ۱۹۹۲ء میں صدر جمہوریہ ہند نے اعزاز سے نوازا تھا۔پوری دنیا میں منعقدسینکڑوں اسلامی کانفرنسوں میں آپ بطور مقالہ نگار، خطیب، اور صدر کی حیثیت سے مدعو کئے جاتے رہے۔
آپ نے جماعت اہل حدیث کی تنظیم’’مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘‘کے رکن شوریٰ و عاملہ کی حیثیت سے برسہا برس عظیم الشان خدمت کی ہے۔اس جمعیت کے تین ’’آل انڈیااہل حدیث کانفرنس‘‘ (منعقدہ :مؤ۱۹۹۴ء ، پاکوڑ ۲۰۰۴ء )کے صدر استقبالیہ ہونے کا شرف ڈاکٹر صاحب موصوف کو ہی حاصل ہے۔ یہ وہ انفرادیت ہے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔اور ہرکانفرنس میں آپ کا تحریر کردہ خطبہ استقبالیہ مطبوع شکل میں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔آپ کے خطبہائے استقبالیہ انتہائی قابل قدر معلومات پر مشتمل ہیں جن سے تحریک اہل حدیث اور اس کے خط وخال کو سمجھنے ،اس تحریک کے مد وجزر کو جاننے میں کافی مدد ملتی ہے۔ مجھے یاد ہے مؤ آل انڈیا کانفرنس کے موقع پر جب آپ صدر استقبالیہ تھے، اس وقت کے ناظم جمعےۃ مولانا عبد الوہاب خلجی حفظہ اللہ نے کہا تھا: ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے کہ آج سے تقریبا ستر سال قبل جب مؤ میں آل انڈیا کانفرنس ہوئی تھی اس کے صدر استقبالیہ مشہور سیرت نگار ، صاحب رحمۃ للعالمین علامہ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ تھے اور آج اسی کتاب کے عربی مترجم حضرت ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری اسی سرزمین پر کانفرنس کی صدارت کر رہے ہیں۔
ازہری صاحب کو میں نے قریب سے دیکھا اور جانا ہے، آپ کے ساتھ دو مرتبہ سفر میں بھی رہا، وہ ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ نبھانا جانتے تھے، وہ وقت کے نہایت پابند تھے، مقصد کو ہمیشہ مقدم رکھا، مول بھاؤ کی انکی عادت نہیں تھی،تواضع اور خاکساری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ۲۰۰۰ء میں جب میں اور عم محترم زاہد آزاد جھنڈا نگری نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کاعلامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں بنارس کا بھی سفر ہوا، جامعہ سلفیہ کے ناظم مولانا عبد اللہ سعود صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا: جامعہ سے علامہ ناصر الدین البانی کا کوئی تعلق نہیں تھا، ہم انکی حیات پر اشاعت کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ ازہری صاحب ساتھ میں تھے، انہوں نے یہ کہہ کر خاموش کیا: ایک مرتبہ البانی صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ جامعہ سلفیہ آکر تد ریس و تحقیق کی خدمت انجام دیں، انہوں نے قبول بھی کیا، مگر بعد میں حالات نے انہیں معذرت کرنے پر مجبور کردیاتھا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
وہ امت کے مسائل کا حل پیش کرتے تھے، ان کی ذات علم کا بحر ذخار تھی، ایک دنیا مستفید ہورہی تھی،آج دنیا بھر میں انکے شاگردوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جو انکے نقش پر علمی ، تحقیقی اور صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ارتحال نے امت کو خسارے میں مبتلا کردیاہے، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی، تقریبا ۷۲ برس کی عمر پائی، آخری ایام میں کینسر کا پتہ چلا اور پھر فالج کا اٹیک ہوا ، اور وہ اس سے جانبر نہ ہوسکے۔ ۳۰؍ اکتوبر کی شام کو آبائی وطن مؤ ناتھ بھنجن میں ۲۵؍ ہزار سے زائد سوگوار وں کے بیچ منوں مٹی کے نیچے دفن کردئے گئے۔ غفر اللہ لہ وأ سکنہ فی فسیح جناتہ وہو علی کل شئی قدیر۔
Monday, 24 May 2010
شوہر سیل پر- Husband on Sale
شوہر سیل پر
بازار میں ایک دکان کھلی جو شوہروں کو فروخت کرتی ہے ' اس دکان کے کھولتے ہی لڑکیوں اور عورتوں کا اژدحام اس بازار کی طرف چل پڑا - دکان کے داخلہ پر ایک بورڈ رکھا تھا جس پر لکھا تھا -
اس دکان میں کوئی بھی عورت یا لڑکی صرف ایک مرتبہ ہی داخل ہو سکتی ہے- اسےدوسراموقع نہیں دیاجاےگا-
پھر نیچے ھدایات دی گئی تھیں کہ :
" اس دکان کی چھ منزلیں ہیں ہر منزل پر اس منزل کے شوہروں کے بارے میں لکھا ہو گا ' جیسے جیسے منزل بڑھتی جائے گی شوہر کے اوصاف میں اضافہ ہوتا جائے گا - خریدار لڑکی یا عورت کسی بھی منزل سے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے ' اور اگر اس منزل پر کوئی پسند نہ آے تو اوپر کی منزل کو جا سکتی ہے - مگر ایک بار اوپر جانےکے بعد پھر سے نیچے نہیں آ سکتی سواے باھر نکل جانے کے - "
ایک عورت جو جوان اور خوبصورت تھی دکان میں داخل ہوئی -
پہلی منزل کے دروازے پر لکھا تھا -
" اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں اور الله والے ہیں -
دوسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا
" اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں '
اور بچوں کو پسند کرتے ہیں "
تیسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا -
" اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں '
بچوں کو پسند کرتے ہیں اور خوبصورت بھی ہیں "
یہ پڑھ کر عورت کچھ دیر کے لئے رک گئی ' مگر پھریہ سونچ کر کہ چلو ایک منزل اور جا کر دیکھتے ہیں - وہ اوپر چلی گئی -
چوتھی منزل کے دروازہ پر لکھا تھا -
" اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں ' بچوں کو پسند کرتے ہیں ' خوبصورت ہیں اور گھر کے کاموں میں مدد بھی کرتے ہیں "
یہ پڑھ کر اس کو غش سا آنے لگا ' کیا ایسے بھی مرد ہیں دنیا میں ؟ وہ سونچنے لگی کہ شوہرخرید لے اورگھر چلی جائے ' مگر دل نہ مانا ' وہ ایک منزل اوراوپر چلی آئ -
وہاں دروازہ پر لکھا تھا -
" اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں '
بچوں کو پسند کرتے ہیں ' بیحد خوبصورت ہیں ' گھر کے
کاموں میں مدد کرتے ہیں اور رومانٹک بھی ہیں "
اب اس عورت کے اوسان جواب دینے لگے - وہ خیال کرنے لگی کہ ایسے مرد سے بہتر بھلا اور کیا ہو سکتاہے- مگر اس کا دل پھر بھی نہ مانا وہ چھٹی منزل پر چلی آئ یہاں بورڈ پر لکھا تھا
" آپ اس منزل پر آنے والی ٣٤٤٨ ویں خاتوں ہیں - اس منزل پر کوئی بھی شوہر نہیں ہے - یہ منزل صرف اس لئے بنائی گئی ہے تا کہ اس بات کا ثبوت دیا جا سکے کہ
"عورت کو مطمئن کرنا نا ممکن ہے"
آگے لکھا تھا
ہماری اسٹور پر آنے کا شکریہ ' سیڑھیاں باھر کی طرف جاتی ہیں
Friday, 21 May 2010
جہاز اڑایا نہیں، پھر بھی اڑ گیا
جہاز اڑایا نہیں، پھر بھی اڑ گیا
طیارہ اڑنے اور اڑانے میں تھوڑا فرق ہے لیکن نائن الیون کے بعد یہ فرق ختم سا ہوگیا ہے۔
اگر آپ مسلمان ہوں، داڑھی رکھتے ہوں، روایتی پوشاک پہنتے ہوں اور ہوائی جہاز پر سوار ہوں تو یہ ایک ’ایکسپلوسو مِکس‘ ہے اور لوگ مڑ کر دیکھتے ہی ہیں۔ لیکن دیوبند کےمولانا نور الھدٰی کے لیے بات اس سے کہیں آگے نکل گئی۔
وہ دلی سے لندن جانے کے لیے امارات کی ایک پرواز پر سوار تھے۔ فون پر اپنی اہلیہ کو بتایا کہ جہاز پندرہ منٹ میں اڑنے والا ہے، برابر میں بیٹھی نوجوان خاتون نے سمجھا کہ وہ جہاز کو اڑانے کی بات کر رہے ہیں، اس نے جہاز کے عملے سے شکایت کی، عملے نے سکیورٹی سے رجوع کیا اور مولانا کو جہاز سے اتار کر جیل میں بند کردیا گیا۔
پولیس کے مطابق ان کے خلاف شرارت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے! اتنے سنگین الزام میں شرارت کا مقدمہ؟ مولانا اگر جہاز اڑانا چاہتے تھے تو ان کے خلاف یا تو بغیر لائسنس کے جہاز اڑانے کی کوشش یا پھر دہشت گردی کا معاملہ درج ہونا چاہیے تھا۔
دہشت گردی کافی عام تو ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ شرارت کے زمرے میں آجائے۔
اگر شرارت کا مقدمہ قائم ہونا ہی تھا تو اس خاتون کے خلاف ہونا چاہیے جس کی وجہ سے مولانا نور الھدٰی جیل پہنچے۔
Wednesday, 12 May 2010
هل كلمة - سلفية - مبتدعة ؟
هل كلمة - سلفية - مبتدعة ؟؟؟
مقتطفات من كتاب إتحاف الوفي بجواز قول المسلم أنا سلفي
لأبي سفيان مصطفى
.
-1- قال السمعاني (المتوفى 562هـ)في الأنساب 3/273 : السلفي بفتح السين واللام وفي آخرها الفاء هذه النسبة إلى السلف وانتحال مذاهبهم على ما سمعت منهم.
.
-2- ونحوه لابن الأثير(المتوفى سنة 630) في اللباب ، وقال بعده : وعرف به جماعة (1/126) . أي انتسب جماعة من العلماء والرواة إلى السلف ، فقيل لأحدهم فلان بن فلان السلفي .
.
- 3- قال الفيروز أبادي في القاموس المحيط (3/207) ومنه عبد الرحمان بن عبد الله السلفي المحدث، وآخرون منسوبون إلى السلف.
وقال أبو سعد السمعاني أيضا عن ابن البغدادي : صحيح العقيدة على طريقة السلف. (تذكرة الحفاظ 4/1285).
.
-4- وقال الحاكم أبو عبد الله (المتوفى سنة 405هـ) في تاريخه : كان أبو أحمد (أي الحاكم ) من الصالحين الثابتين على سنن السلف.(التذكرة 3/977).
.
-5- وقال الحافظ ابن الطحان (المتوفى سنة 416هـ) في ذيل تاريخ مصر عن محمد بن القاسم بن سفيان المكنى بأبي إسحاق المصري المالكي : وكان سلفي المذهب . لسان الميزان 5/393.
.
-6- وقال الحافظ عبد الغفار بن إسماعيل (المتوفى سنة 529) صاحب تاريخ نيسابور عن أبي الفتيان : وكان على سيرة السلف .(التذكرة 4/1239).
.
-7- وقال الحافظ ابن الجوزي (المتوفى سنة 597) عن أبي البركات الأنماطي : وكان على طريقة السلف .(التذكرة 4/1283.
.
-8- وقال الحافظ ابن النجار صاحب التاريخ (المتوفى سنة 643) عن عبد الغني المقدسي : كان ... متمسكا بالسنة على قانون السلف.(التذكرة 4/1373).
.
-9- وجاء في ترجمة إبراهيم بن عمر بن إبراهيم بن خليل بن أبي العباس الجعبري الربعي (المتوفى سنة 732هـ) من الدرر الكامنة (1/51) لابن حجر العسقلاني : " وقال ابن رافع كان عارفا بفنون من العلم ، محبوب الصورة ، بشوشا ، وكان يكتب بخطه السلفي فسألته عن ذلك فقال بالفتح نسبة إلى طريق السلف ". ونحوه في بغية الوعاة للسيوطي (1/420).
.
-10- وردد ابن تيمية (المتوفى سنة 728هـ) كثيرا في كتبه لفظ السلف والسلفية ومذهب السلف وعبر في الفتوى الحموية (ص18) بالطريقة السلفية.
وقال في الفتاوى (12/349) ولهذا كانت الطريقة النبوية السلفية أن يستعمل في العلوم الإلهية قياس الأولى.
وقال في الفتاوى (17/79) : ... فدلالة الكتاب والسنة والأحكام الشرعية والآثار السلفية كثيرة على ذلك . (ونحوه في 12/309 .)
وعبر أيضا بالآثار السلفية في الصفدية : (2/267) واقتضاء الصراط المستقيم (302) ودرء التعارض (6/104).
وقال في الفتاوى (16/471) فمن الناس من مال إليه – أي الأشعري – من الجهة السلفية ، ومن الناس من مال إليه من الجهة البدعية الجهمية .
وقال في درء التعارض (1/244) : وطائفة أخرى من السلفية كنعيم بن حماد الخزاعي والبخاري ...
وقال في الفتاوى (3/189) : وكل لفظ ذكرته فأنا أذكر به آية أو حديثا أو إجماعا سلفيا .
لا عيب على من أظهر مذهب السلف وانتسب إليه واعتزى إليه بل يجب قبول ذلك منه بالإتفاق فإن مذهب السلف لا يكون إلا حقا . مجموع الفتاوى 4/149
وقال في الفتاوى (6/51) وهو قول السلفية .
وقال أيضا في الفتاوى 6/379) وهذا مذهب السلفية.
وقال فيها أيضا في (4/357) : وكنت أحسب أن القول فيها محدث حتى رأيتها أثرية سلفية صحابية .
وقال فيها أيضا (33/177) : وأما السلفية فعلى ما حكاه الخطابي وأبو بكر الخطيب وغيرهما .
وقال في درء التعارض (1/94) : وهؤلاء المعرضون عن الطريقة النبوية السلفية ؛ يجتمع فيهم هذا وهذا .
وقال فيه أيضا (4/163) : وإذا ناظرتم إخوانكم المسلمين الذين قالوا بمقتضى النصوص الإلهية والطريقة السلفية وفطرة الله التي فطر عباده عليها .
وفيه أيضا (3/85) : فكل من أعرض عن الطريقة السلفية النبوية الشرعية الإلهية فإنه لابد أن يضل ويتناقض ويبقى في الجهل المركب أو البسيط .
وفيه أيضا (3/370) وأبو حامد ليس له من الخبرة بالآثار النبوية والسلفية ما لأهل المعرفة بذلك .
وقال في بيان تلبيس الجهمية (1/122) : أبو عبد الله الرازي فيه تجهم قوي ؛ ولهذا يوحد ميله إلى الدهرية أكثر من ميله إلى السلفية .
وقال فيه أيضا (2/536) : فهذه الأقيسة العادلة والطريقة العقلية السلفية الشرعية الكاملة .
وعبر في درء التعارض -1/249) و في بيان تلبيس الجهمية (1/88) بالإجماع السلفي .
وقال في الفتاوى (5/28) : واعلم أنه ليس في العقل الصريح ولا في شيء من النقل الصحيح ما يوجب مخالفة الطريق السلفية أصلا .
وقال في الفتاوى (10/99) : ويقال للطريقة السلفية : الطريقة المثلى.
.
-11- وقال الحافظ الذهبي (المتوفى سنة 748هـ) في ترجمة أبي عمرو بن الصلاح من التذكرة (4/1431) : كان سلفيا حسن الإعتقاد، وقال في سير أعلام النبلاء (23/142) : وكان متين الديانة سلفي الجملة صحيح النحلة .
وقال في السير (16/457) في ترجمة الدارقطني : لم يدخل الرجل أبدا في علم الكلام ولا الجدال ، ولا خاض في ذلك ، بل كان سلفيا .
وقال في السير (13/183) في ترجمة الحافظ الفسوي : وما علمت يعقوب الفسوي إلا سلفيا .
وقال عن العقيدة الواسطية : وقع الإتفاق بعد ذلك على أن هذه عقيدة سنية سلفية .(ذيل طبقات الحنابلة 4/396).
وقال عن العقيدة الحموية : ثم وقع الإتفاق على أن هذا معتقد سلفي جيد . كذا في العقود الدرية(212).
وقال في معجم الشيوخ (2/369) في ترجمة يحيى بن إسحاق الشيباني : وكان متواضعا سلفيا حميد الأحكام .
وقال في ترجمة أبي الطاهر السلفي من السير (21/61) : فالسلفي مستفاد مع السلفي –بفتحتين- وهو من كان على مذهب السلف .
وقال عن محمد بن عمر بن زباطر الحراني : كان فقيها زاهدا ناسكا سلفي الجملة (ذيل طبقات الحنابلة 4/373) ونقله في شذرات الذهب بلفظ سلفيا (3/50).
وقال : لقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية ، واحتج لها ببراهين ومقدمات وأمور لم يسبق إليها ، كذا في ذيل الطبقات (4/394) والرد الوافر (71) والعقود الدرية (133) والشهادة الزكية (41) .
قال أيضا في ترجمة الزبيدي من السير (20/317) : وكان حنفيا سلفيا .
وقال في ترجمة ابن هبيرة من السير (20/426) : كان ... سلفيا أثريا .
وقال في ترجمة ابن المجد من السير أيضا (23/118) : وكان ثقة ثبتا ذكيا سلفيا .
وقال في ترجمة عثمان بن خزراد من السير أيضا (13/380) : فالذي يحتاج إليه الحافظ أن يكون تقيا ذكيا نحويا لغويا زكيا حييا سلفيا .
وقال في التذكرة (3/1185) في ترجمة أبي إسماعيل الهروي : وهو من دعاة السنة وعصبة آثار السلف .
وقال في معجم الشيوخ (1/34) في ترجمة أحمد بن محمد بن نعمة المقدسي : كان على عقيدة السلف.
وقال في أحمد بن إبراهيم بن عمر بن فرج : كان فقيها سلفيا . كذا في طبقات الشافعية(3/160).
وقال في ترجمة الحافظ المزي من التذكرة (4/1499) : وكان يقرر طريق السلف في السنة .
.
-12- وقال ابن الوردي (المتوفى سنة 749هـ) عن ابن تيمية في تاريخه (2/410) : لقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية .
.
-13- وقال ابن القيم (المتوفى سنة 751) في الصواعق المرسلة (كما في مختصره للموصلى) : فالناس كانوا طائفتين سلفية وجهمية ، فحدثت الطائفة السبعية ، واشتقت قولا بين قولين ، فلا السلف اتبعوا ، ولا مع الجهمية بقوا .
وقال في أمراض القلوب (7) : ويقال للطريقة السلفية الطريقة المثلى .
وقال في شفاء العليل (484) : هذا المعنى صحيح في نفسه دل عليه القرآن والسنة والآثار السلفية وإجماع أهل السنة .
وقال في إعلام الموقعين (4/118) : فصل في جواز الفتوى بالآثار السلفية والفتاوى الصحابية .
وقال في إعلام الموقعين (4/115) : وقامت سوق الإستدلال بالكتاب والسنة والآثار السلفية .
وعبر في روضة المحبين (15) ومدارج السالكين (1/318) والصواعق المرسلة (4/1279) وعدة الصابرين (5) والتبيان في أقسام القرآن (28) : بالآثار السلفية .
وفي زاد المعاد (4/109) : وفي أثر سلفي لا تكرهوا الرمد فإنه يقطع العمى .
وفي بدائع الفوائد (2/385) : وهذه فصاحة غريبة وحكمة سلفية موروثة عن سلف الأمة وعن الصحابة في مكاتباتهم وهكذا كانوا يكتبون إلى نبيهم صلوات الله وسلامه عليه .
.
-14- وقال ابن كثير (المتوفى سنة 774) في البداية والنهاية (14/178) عن ابن سيد الناس : وله العقيدة السلفية الموضوعة على الآي والأخبار والآثار والإقتفاء بالآثار النبوية .
وقال ابن كثير في طبقات الشافعية (2/802) في ترجمة مظفر بن عبد الله المعروف بالهرج : مدرس المدرسة السلفية بالإسكندرية .
وقال فيها أيضا (2/938) في ترجمة أحمد بن أحمد بن نعمة : متين الديانة حسن الإعتقاد سلفي الطريقة .
.
-15- وقال ابن أبي العز الحنفي (المتوفى سنة 792هـ) في شرح الطحاوية (342) : والأدلة على زيادة الإيمان ونقصانه من الكتاب والسنة والآثار السلفية كثيرة جدا.
.
-16- وقال المقرئ ابن الجزري صاحب الجزرية في التجويد (المتوفى سنة 833) في الهداية في علوم الرواية :
يقول راجي عفو رب رؤوف .......................محمد بن الجزري السلفي
.
-17- وعبر ابن خلدون (المتوفى سنة 808) في تاريخه في ترجمة ابن تومرت (6/464) : بالعقائد السلفية كذا في مقدمته (1/496).
.
-18- قال السيوطي (المتوفى سنة 911هـ) في طبقات الحفاظ (1/503) : عن ابن الصلاح : كان ... سلفيا زاهدا حسن الإعتقاد.
.
-19- وقال العلامة المقريزي في الخطط (2/356) : من أمعن النظر في دواوين الحديث النبوي ووقف على الآثار السلفية . كذا في الصفات الإلهية لعبد الرحمان الوكيل (6).
.
-20- وقال العبادي في ذيل طبقات الشافعية (3/203) في ترجمة القاضي محمد بن أبي بكر بن عيسى ابن بدران السعدي : وكان عالما ذكيا تقيا نزها وافر الجلالة حميد السيرة لازم الحافظ الضمياطي مدة وكان محبا للرواية السلفية .
.
-21- وقال ابن العماد (المتوفى سنة 1089هـ) في شذرات الذهب (6/256) في ترجمة أبي البيان نبأ بن محمد بن محفوظ الدمشقي : كان كبير القدر عالما عاملا زاهدا تقيا خاشعا ملازما للعلم والعمل والمطالعة كثير العبادة والمراقبة سلفي المعتقد.
وقال في ترجمة أبي عمر عات أحمد بن هارون النقري : من شذرات الذهب (3/38) : وكان زاهدا سلفيا .
.
-22- وقال الحافظ محمد بن عبد الهادي في العقود الدرية من مناقب شيخ الإسلام ابن تيمية (21) ... ولم يزل على ذلك خلفا صالحا ، سلفيا متألها عن الدنيا.
.
-23- وقال العلامة الصنعاني في سبل السلام (4/269) : ... إلا أنه أيدته آثار سلفية عن الصحابة .
وقال في إرشاد النقاد (93) : وألقى الله في قلوب أقوام محبة السنة والآثار السلفية .
.
-24- وقال العلامة السفاريني (المتوفى سنة 1188هـ) في لوامع الأنوار البهية شرح الدرة المضية (1/60-61) : الأثري ، أي المنسوب إلى العقيدة الأثرية والفرقة السلفية المرضية ويعرف بمذهب السلف . كذا في أهل الحديث لربيع المدخلي(207).
.
-25- واستعمل هذه النسبة كذلك العلامة الفلاني (المتوفى سنة 1218هـ) في كتابه إيقاظ همم أولي الأبصار (مختصره-121). فقال فصل في جواز الفتوى بالآثار السلفية .
.
-26- وقال العلامة عبد الرحمان بن حسن بن محمد بن عبد الوهاب صاحب فتح المجيد (المتوفى سنة 1258هـ) في بيان المحجة في الرد على اللجة (353- مجموعة التوحيد) : وقال المفسرون المحققون السلفيون المتبعون .
.
-27- وقال الباجوري (المتوفى سنة 1277هـ) في حاشيته على الشمائل المحمدية : وناهيك بجامعه الصحيح ، الجامع للفوائد الحديثية والفقهية والمذاهب السلفية والخلفية . كذا في الحطة في ذكر الصحاح السنة (373).
.
-28- وقال العلامة صديق حسن خان (المتوفى سنة 1307هـ) في أبجد العلوم (3/186) : ... وكان يحرضه على العمل بالسنة النبوية وسلوك الطريق السلفية وترك العصبية المذهبية .
وقال في أبجد العلوم (2/111) : والمتكلمون إنما دعاهم إلى ذلك كلام أهل الإلحاد في معارضات العقائد السلفية بالبدع النظرية.
.
-29- وقال العلامة المفسر عبد الرحمان بن ناصر السعدي (المتوفى سنة 1376هـ) في شرح نونية ابن القيم (7) : ... والرد على الجهمية والمعطلة والملحدين بالنقول الصحيحة والأصول السلفية.
.
-30- وقال العلامة المعلمي اليماني (المتوفى سنة 1386هـ) في التنكيل (2/344) وهذا هو قول السلفيين في عقيدة السلف.
وانظر أيضا : 227-231-381-282-384 منه .
.
-31- وقال الشيخ البشير الإبراهيمي رئيس جمعية العلماء المسلمين الجزائريين في تقديمه لكتاب الشيخ المصلح عبد الحميد بن باديس (العقائد الإسلامية ص 6) كان الإمام المبرور يصرف تلامذته من جميع الطبقات على تلك الطريقة السلفية في العقائد . ثم قال (ص8) فجاءت عقيدة مثلى يتعلمها الطالب فيأتي منه مسلم سلفي موحد لربه بدلائل القرآن كأحسن ما يكون المسلم السلفي ويستدل على ما يعتقد في ربه بآية من كلام ربه ...
.
-32- وللشيخ أحمد بن حجر آل بوطامي كتاب : نقض كلام المفترين على الحنابلة السلفيين ، وكتاب العقيدة السلفية بأدلتها العقلية والنقلية .
-33- وقال العلامة محمد تقي الدين الهلالي (المتوفى سنة 1407هـ) في الحسام الماحق لكل مشرك ومنافق (134) :
أكرم بها من فرقة سلفية ....................... سلكت محجة سنة وكتاب
وقال في الدعوة إلى الله (7) : وقد فصلت القول في سبب خروجي من الطريقة التيجانية ودخولي في السلفية الحنفية ...
.
-34- والعلامة محمد ناصر الدين الألباني في كثير من كتبه كمختصر العلو (122) والتوسل (140) وشرح الطحاوية (61-52)، وعبر في المصدر الأخير بسلفي المذهب ، ... ...
.
-35- والعلامة الشيخ محمد صالح العثيمين في شرحه على الواسطية ، حيث عبر ب السلفية والسلفيون (1/53).
وقال : (1/54) فأهل السنة والجماعة هم السلف معتقدا حتى المتأخر إلى يوم القيامة إذا كان على طريقة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه فإنه سلفي .
وقال فيها أيضا (1/314) : فسره بذلك أئمة سلفيون معروفون .
.
-36- والعلامة الشيخ عبد العزيز بن باز في تنبيهات هامة على ما كتبه محمد بن الصابوني في صفات الله عز وجل (34-35) وقال في محاضرة بعنوان "حق المسلم"، لما قيل له ما تقول فيمن تسمى بالسلفي أو الأثري ، هل هي تزكية ؟ فأجاب : إذا كان صادقا أنه أثري أو أنه سلفي لا بأس به ، مثل ما كان السلف يقول : فلان سلفي ، فلان أثري تزكية لابد منها ، تزكية واجبة . كذا في الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة (14).
...
.............................
.............................اهـــــــ
وختامه مسك ، فقد روى البخاري (6285) ومسلم في صحيحه (16/6 نووي) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في مرض موته للسيدة فاطمة رضي الله عنها : فاتق الله واصبري ، فإنه نعم السلف أنا لك .
لأبي سفيان مصطفى
.
-1- قال السمعاني (المتوفى 562هـ)في الأنساب 3/273 : السلفي بفتح السين واللام وفي آخرها الفاء هذه النسبة إلى السلف وانتحال مذاهبهم على ما سمعت منهم.
.
-2- ونحوه لابن الأثير(المتوفى سنة 630) في اللباب ، وقال بعده : وعرف به جماعة (1/126) . أي انتسب جماعة من العلماء والرواة إلى السلف ، فقيل لأحدهم فلان بن فلان السلفي .
.
- 3- قال الفيروز أبادي في القاموس المحيط (3/207) ومنه عبد الرحمان بن عبد الله السلفي المحدث، وآخرون منسوبون إلى السلف.
وقال أبو سعد السمعاني أيضا عن ابن البغدادي : صحيح العقيدة على طريقة السلف. (تذكرة الحفاظ 4/1285).
.
-4- وقال الحاكم أبو عبد الله (المتوفى سنة 405هـ) في تاريخه : كان أبو أحمد (أي الحاكم ) من الصالحين الثابتين على سنن السلف.(التذكرة 3/977).
.
-5- وقال الحافظ ابن الطحان (المتوفى سنة 416هـ) في ذيل تاريخ مصر عن محمد بن القاسم بن سفيان المكنى بأبي إسحاق المصري المالكي : وكان سلفي المذهب . لسان الميزان 5/393.
.
-6- وقال الحافظ عبد الغفار بن إسماعيل (المتوفى سنة 529) صاحب تاريخ نيسابور عن أبي الفتيان : وكان على سيرة السلف .(التذكرة 4/1239).
.
-7- وقال الحافظ ابن الجوزي (المتوفى سنة 597) عن أبي البركات الأنماطي : وكان على طريقة السلف .(التذكرة 4/1283.
.
-8- وقال الحافظ ابن النجار صاحب التاريخ (المتوفى سنة 643) عن عبد الغني المقدسي : كان ... متمسكا بالسنة على قانون السلف.(التذكرة 4/1373).
.
-9- وجاء في ترجمة إبراهيم بن عمر بن إبراهيم بن خليل بن أبي العباس الجعبري الربعي (المتوفى سنة 732هـ) من الدرر الكامنة (1/51) لابن حجر العسقلاني : " وقال ابن رافع كان عارفا بفنون من العلم ، محبوب الصورة ، بشوشا ، وكان يكتب بخطه السلفي فسألته عن ذلك فقال بالفتح نسبة إلى طريق السلف ". ونحوه في بغية الوعاة للسيوطي (1/420).
.
-10- وردد ابن تيمية (المتوفى سنة 728هـ) كثيرا في كتبه لفظ السلف والسلفية ومذهب السلف وعبر في الفتوى الحموية (ص18) بالطريقة السلفية.
وقال في الفتاوى (12/349) ولهذا كانت الطريقة النبوية السلفية أن يستعمل في العلوم الإلهية قياس الأولى.
وقال في الفتاوى (17/79) : ... فدلالة الكتاب والسنة والأحكام الشرعية والآثار السلفية كثيرة على ذلك . (ونحوه في 12/309 .)
وعبر أيضا بالآثار السلفية في الصفدية : (2/267) واقتضاء الصراط المستقيم (302) ودرء التعارض (6/104).
وقال في الفتاوى (16/471) فمن الناس من مال إليه – أي الأشعري – من الجهة السلفية ، ومن الناس من مال إليه من الجهة البدعية الجهمية .
وقال في درء التعارض (1/244) : وطائفة أخرى من السلفية كنعيم بن حماد الخزاعي والبخاري ...
وقال في الفتاوى (3/189) : وكل لفظ ذكرته فأنا أذكر به آية أو حديثا أو إجماعا سلفيا .
لا عيب على من أظهر مذهب السلف وانتسب إليه واعتزى إليه بل يجب قبول ذلك منه بالإتفاق فإن مذهب السلف لا يكون إلا حقا . مجموع الفتاوى 4/149
وقال في الفتاوى (6/51) وهو قول السلفية .
وقال أيضا في الفتاوى 6/379) وهذا مذهب السلفية.
وقال فيها أيضا في (4/357) : وكنت أحسب أن القول فيها محدث حتى رأيتها أثرية سلفية صحابية .
وقال فيها أيضا (33/177) : وأما السلفية فعلى ما حكاه الخطابي وأبو بكر الخطيب وغيرهما .
وقال في درء التعارض (1/94) : وهؤلاء المعرضون عن الطريقة النبوية السلفية ؛ يجتمع فيهم هذا وهذا .
وقال فيه أيضا (4/163) : وإذا ناظرتم إخوانكم المسلمين الذين قالوا بمقتضى النصوص الإلهية والطريقة السلفية وفطرة الله التي فطر عباده عليها .
وفيه أيضا (3/85) : فكل من أعرض عن الطريقة السلفية النبوية الشرعية الإلهية فإنه لابد أن يضل ويتناقض ويبقى في الجهل المركب أو البسيط .
وفيه أيضا (3/370) وأبو حامد ليس له من الخبرة بالآثار النبوية والسلفية ما لأهل المعرفة بذلك .
وقال في بيان تلبيس الجهمية (1/122) : أبو عبد الله الرازي فيه تجهم قوي ؛ ولهذا يوحد ميله إلى الدهرية أكثر من ميله إلى السلفية .
وقال فيه أيضا (2/536) : فهذه الأقيسة العادلة والطريقة العقلية السلفية الشرعية الكاملة .
وعبر في درء التعارض -1/249) و في بيان تلبيس الجهمية (1/88) بالإجماع السلفي .
وقال في الفتاوى (5/28) : واعلم أنه ليس في العقل الصريح ولا في شيء من النقل الصحيح ما يوجب مخالفة الطريق السلفية أصلا .
وقال في الفتاوى (10/99) : ويقال للطريقة السلفية : الطريقة المثلى.
.
-11- وقال الحافظ الذهبي (المتوفى سنة 748هـ) في ترجمة أبي عمرو بن الصلاح من التذكرة (4/1431) : كان سلفيا حسن الإعتقاد، وقال في سير أعلام النبلاء (23/142) : وكان متين الديانة سلفي الجملة صحيح النحلة .
وقال في السير (16/457) في ترجمة الدارقطني : لم يدخل الرجل أبدا في علم الكلام ولا الجدال ، ولا خاض في ذلك ، بل كان سلفيا .
وقال في السير (13/183) في ترجمة الحافظ الفسوي : وما علمت يعقوب الفسوي إلا سلفيا .
وقال عن العقيدة الواسطية : وقع الإتفاق بعد ذلك على أن هذه عقيدة سنية سلفية .(ذيل طبقات الحنابلة 4/396).
وقال عن العقيدة الحموية : ثم وقع الإتفاق على أن هذا معتقد سلفي جيد . كذا في العقود الدرية(212).
وقال في معجم الشيوخ (2/369) في ترجمة يحيى بن إسحاق الشيباني : وكان متواضعا سلفيا حميد الأحكام .
وقال في ترجمة أبي الطاهر السلفي من السير (21/61) : فالسلفي مستفاد مع السلفي –بفتحتين- وهو من كان على مذهب السلف .
وقال عن محمد بن عمر بن زباطر الحراني : كان فقيها زاهدا ناسكا سلفي الجملة (ذيل طبقات الحنابلة 4/373) ونقله في شذرات الذهب بلفظ سلفيا (3/50).
وقال : لقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية ، واحتج لها ببراهين ومقدمات وأمور لم يسبق إليها ، كذا في ذيل الطبقات (4/394) والرد الوافر (71) والعقود الدرية (133) والشهادة الزكية (41) .
قال أيضا في ترجمة الزبيدي من السير (20/317) : وكان حنفيا سلفيا .
وقال في ترجمة ابن هبيرة من السير (20/426) : كان ... سلفيا أثريا .
وقال في ترجمة ابن المجد من السير أيضا (23/118) : وكان ثقة ثبتا ذكيا سلفيا .
وقال في ترجمة عثمان بن خزراد من السير أيضا (13/380) : فالذي يحتاج إليه الحافظ أن يكون تقيا ذكيا نحويا لغويا زكيا حييا سلفيا .
وقال في التذكرة (3/1185) في ترجمة أبي إسماعيل الهروي : وهو من دعاة السنة وعصبة آثار السلف .
وقال في معجم الشيوخ (1/34) في ترجمة أحمد بن محمد بن نعمة المقدسي : كان على عقيدة السلف.
وقال في أحمد بن إبراهيم بن عمر بن فرج : كان فقيها سلفيا . كذا في طبقات الشافعية(3/160).
وقال في ترجمة الحافظ المزي من التذكرة (4/1499) : وكان يقرر طريق السلف في السنة .
.
-12- وقال ابن الوردي (المتوفى سنة 749هـ) عن ابن تيمية في تاريخه (2/410) : لقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية .
.
-13- وقال ابن القيم (المتوفى سنة 751) في الصواعق المرسلة (كما في مختصره للموصلى) : فالناس كانوا طائفتين سلفية وجهمية ، فحدثت الطائفة السبعية ، واشتقت قولا بين قولين ، فلا السلف اتبعوا ، ولا مع الجهمية بقوا .
وقال في أمراض القلوب (7) : ويقال للطريقة السلفية الطريقة المثلى .
وقال في شفاء العليل (484) : هذا المعنى صحيح في نفسه دل عليه القرآن والسنة والآثار السلفية وإجماع أهل السنة .
وقال في إعلام الموقعين (4/118) : فصل في جواز الفتوى بالآثار السلفية والفتاوى الصحابية .
وقال في إعلام الموقعين (4/115) : وقامت سوق الإستدلال بالكتاب والسنة والآثار السلفية .
وعبر في روضة المحبين (15) ومدارج السالكين (1/318) والصواعق المرسلة (4/1279) وعدة الصابرين (5) والتبيان في أقسام القرآن (28) : بالآثار السلفية .
وفي زاد المعاد (4/109) : وفي أثر سلفي لا تكرهوا الرمد فإنه يقطع العمى .
وفي بدائع الفوائد (2/385) : وهذه فصاحة غريبة وحكمة سلفية موروثة عن سلف الأمة وعن الصحابة في مكاتباتهم وهكذا كانوا يكتبون إلى نبيهم صلوات الله وسلامه عليه .
.
-14- وقال ابن كثير (المتوفى سنة 774) في البداية والنهاية (14/178) عن ابن سيد الناس : وله العقيدة السلفية الموضوعة على الآي والأخبار والآثار والإقتفاء بالآثار النبوية .
وقال ابن كثير في طبقات الشافعية (2/802) في ترجمة مظفر بن عبد الله المعروف بالهرج : مدرس المدرسة السلفية بالإسكندرية .
وقال فيها أيضا (2/938) في ترجمة أحمد بن أحمد بن نعمة : متين الديانة حسن الإعتقاد سلفي الطريقة .
.
-15- وقال ابن أبي العز الحنفي (المتوفى سنة 792هـ) في شرح الطحاوية (342) : والأدلة على زيادة الإيمان ونقصانه من الكتاب والسنة والآثار السلفية كثيرة جدا.
.
-16- وقال المقرئ ابن الجزري صاحب الجزرية في التجويد (المتوفى سنة 833) في الهداية في علوم الرواية :
يقول راجي عفو رب رؤوف .......................محمد بن الجزري السلفي
.
-17- وعبر ابن خلدون (المتوفى سنة 808) في تاريخه في ترجمة ابن تومرت (6/464) : بالعقائد السلفية كذا في مقدمته (1/496).
.
-18- قال السيوطي (المتوفى سنة 911هـ) في طبقات الحفاظ (1/503) : عن ابن الصلاح : كان ... سلفيا زاهدا حسن الإعتقاد.
.
-19- وقال العلامة المقريزي في الخطط (2/356) : من أمعن النظر في دواوين الحديث النبوي ووقف على الآثار السلفية . كذا في الصفات الإلهية لعبد الرحمان الوكيل (6).
.
-20- وقال العبادي في ذيل طبقات الشافعية (3/203) في ترجمة القاضي محمد بن أبي بكر بن عيسى ابن بدران السعدي : وكان عالما ذكيا تقيا نزها وافر الجلالة حميد السيرة لازم الحافظ الضمياطي مدة وكان محبا للرواية السلفية .
.
-21- وقال ابن العماد (المتوفى سنة 1089هـ) في شذرات الذهب (6/256) في ترجمة أبي البيان نبأ بن محمد بن محفوظ الدمشقي : كان كبير القدر عالما عاملا زاهدا تقيا خاشعا ملازما للعلم والعمل والمطالعة كثير العبادة والمراقبة سلفي المعتقد.
وقال في ترجمة أبي عمر عات أحمد بن هارون النقري : من شذرات الذهب (3/38) : وكان زاهدا سلفيا .
.
-22- وقال الحافظ محمد بن عبد الهادي في العقود الدرية من مناقب شيخ الإسلام ابن تيمية (21) ... ولم يزل على ذلك خلفا صالحا ، سلفيا متألها عن الدنيا.
.
-23- وقال العلامة الصنعاني في سبل السلام (4/269) : ... إلا أنه أيدته آثار سلفية عن الصحابة .
وقال في إرشاد النقاد (93) : وألقى الله في قلوب أقوام محبة السنة والآثار السلفية .
.
-24- وقال العلامة السفاريني (المتوفى سنة 1188هـ) في لوامع الأنوار البهية شرح الدرة المضية (1/60-61) : الأثري ، أي المنسوب إلى العقيدة الأثرية والفرقة السلفية المرضية ويعرف بمذهب السلف . كذا في أهل الحديث لربيع المدخلي(207).
.
-25- واستعمل هذه النسبة كذلك العلامة الفلاني (المتوفى سنة 1218هـ) في كتابه إيقاظ همم أولي الأبصار (مختصره-121). فقال فصل في جواز الفتوى بالآثار السلفية .
.
-26- وقال العلامة عبد الرحمان بن حسن بن محمد بن عبد الوهاب صاحب فتح المجيد (المتوفى سنة 1258هـ) في بيان المحجة في الرد على اللجة (353- مجموعة التوحيد) : وقال المفسرون المحققون السلفيون المتبعون .
.
-27- وقال الباجوري (المتوفى سنة 1277هـ) في حاشيته على الشمائل المحمدية : وناهيك بجامعه الصحيح ، الجامع للفوائد الحديثية والفقهية والمذاهب السلفية والخلفية . كذا في الحطة في ذكر الصحاح السنة (373).
.
-28- وقال العلامة صديق حسن خان (المتوفى سنة 1307هـ) في أبجد العلوم (3/186) : ... وكان يحرضه على العمل بالسنة النبوية وسلوك الطريق السلفية وترك العصبية المذهبية .
وقال في أبجد العلوم (2/111) : والمتكلمون إنما دعاهم إلى ذلك كلام أهل الإلحاد في معارضات العقائد السلفية بالبدع النظرية.
.
-29- وقال العلامة المفسر عبد الرحمان بن ناصر السعدي (المتوفى سنة 1376هـ) في شرح نونية ابن القيم (7) : ... والرد على الجهمية والمعطلة والملحدين بالنقول الصحيحة والأصول السلفية.
.
-30- وقال العلامة المعلمي اليماني (المتوفى سنة 1386هـ) في التنكيل (2/344) وهذا هو قول السلفيين في عقيدة السلف.
وانظر أيضا : 227-231-381-282-384 منه .
.
-31- وقال الشيخ البشير الإبراهيمي رئيس جمعية العلماء المسلمين الجزائريين في تقديمه لكتاب الشيخ المصلح عبد الحميد بن باديس (العقائد الإسلامية ص 6) كان الإمام المبرور يصرف تلامذته من جميع الطبقات على تلك الطريقة السلفية في العقائد . ثم قال (ص8) فجاءت عقيدة مثلى يتعلمها الطالب فيأتي منه مسلم سلفي موحد لربه بدلائل القرآن كأحسن ما يكون المسلم السلفي ويستدل على ما يعتقد في ربه بآية من كلام ربه ...
.
-32- وللشيخ أحمد بن حجر آل بوطامي كتاب : نقض كلام المفترين على الحنابلة السلفيين ، وكتاب العقيدة السلفية بأدلتها العقلية والنقلية .
-33- وقال العلامة محمد تقي الدين الهلالي (المتوفى سنة 1407هـ) في الحسام الماحق لكل مشرك ومنافق (134) :
أكرم بها من فرقة سلفية ....................... سلكت محجة سنة وكتاب
وقال في الدعوة إلى الله (7) : وقد فصلت القول في سبب خروجي من الطريقة التيجانية ودخولي في السلفية الحنفية ...
.
-34- والعلامة محمد ناصر الدين الألباني في كثير من كتبه كمختصر العلو (122) والتوسل (140) وشرح الطحاوية (61-52)، وعبر في المصدر الأخير بسلفي المذهب ، ... ...
.
-35- والعلامة الشيخ محمد صالح العثيمين في شرحه على الواسطية ، حيث عبر ب السلفية والسلفيون (1/53).
وقال : (1/54) فأهل السنة والجماعة هم السلف معتقدا حتى المتأخر إلى يوم القيامة إذا كان على طريقة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه فإنه سلفي .
وقال فيها أيضا (1/314) : فسره بذلك أئمة سلفيون معروفون .
.
-36- والعلامة الشيخ عبد العزيز بن باز في تنبيهات هامة على ما كتبه محمد بن الصابوني في صفات الله عز وجل (34-35) وقال في محاضرة بعنوان "حق المسلم"، لما قيل له ما تقول فيمن تسمى بالسلفي أو الأثري ، هل هي تزكية ؟ فأجاب : إذا كان صادقا أنه أثري أو أنه سلفي لا بأس به ، مثل ما كان السلف يقول : فلان سلفي ، فلان أثري تزكية لابد منها ، تزكية واجبة . كذا في الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة (14).
...
.............................
.............................اهـــــــ
وختامه مسك ، فقد روى البخاري (6285) ومسلم في صحيحه (16/6 نووي) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في مرض موته للسيدة فاطمة رضي الله عنها : فاتق الله واصبري ، فإنه نعم السلف أنا لك .
Subscribe to:
Posts (Atom)