Monday 12 November 2012

ہمیں مکمل طور پر مٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں:برمی مسلمان Interview by: Abdus Saboor Nadvi

ہمیں مکمل طور پر مٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں:برمی مسلمان
برما کے بے چارہ مسلمانوں سے ایک ملاقات
An Interview with Burmese Muslims

Interview by: Abdus Saboor Nadvi عبدالصبور ندوي

مسلمانوں پربرما کی فوجی حکومت اور بدھسٹوں کے دل دہلا دینے والے مظالم اور انکی نسل کشی کے دوران خون آشام وارداتوں نے انکی زندگیوں کو مسلسل عذاب سے دوچار کر رکھا ہے،جون ۲۰۱۲ء سے تا حال پچاس ہزار مسلمانوں کے مقتل کا گواہ بنی ارکان کی زمین دنیا بھر کے عدل گستروں اور انسانی حقوق کے محافظوں پر طمانچے رسید کر رہی ہے، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے ظالمو! خون مسلم کی ارزانی کا تماشہ دیکھنا ہو تو آکے دیکھ لو۔ مایوسیت کے سائے میں جی رہے برما کے مسلمانوں کو کوئی کمک ،رسد و مدد نہیں پہنچی ،حالات ہر دن ابتر ہورہے ہیں، ظالم بودھسٹوں سے نپٹنے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں، ان کی زندگی کا پیہہ کرب وآہ میں جام ہو کر رہ گیا ہے، آئیے آپ کو وہاں کے احوال سناتے ہیں انہی کی زبانی، سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ عبد اللہ کی دعوت پر حج کی سعادت حاصل کرنے والے برما کے بعض ائمہ مساجد اور دعاۃ سے منیٰ (مکہ مکرمہ) میں گفتگو کا موقع ملا ، پیش ہے گفتگو کے بعض نکات: 
س: آپ چونکہ منبر و محراب اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لئے میرا پہلا سوال ہے کہ برما میں مدارس و مساجد کی صورتحال کیا ہے؟
ج: اس وقت پورے ملک میں بشمول ارکان سو سے زائد ایسے مدرسے ہیں جہاں درس نظامی کا نصاب رائج ہے اور فارغ التحصیل طلبہ کو عالم و فاضل کی ڈگریاں دی جاتی ہیں راجدھانی رنگون میں دس مدرسے اس طرح کا کورس چلا رہے ہیں،مگر سرکاری یونیورسٹیاں اس کورس کو تسلیم نہیں کرتیں، جہاں تک مساجد کی بات ہے تو اکثر مدرسے مسجد اور اس سے ملحقہ کمروں میں ہی چلائے جارہے ہیں، علحدہ بلڈنگ بنانے کی اجازت نہیں ہے، خطہ ارکان سمیت پورے دیش میں ۲۰۰۰ سے زائد مساجد ہیں، لیکن صد افسوس ان میں اضافہ کی بجائے لگاتار کمی واقع ہورہی ہے، بودھ مت کے سرکاری دہشت گرد ارکان میں ۱۵۰، اور راجدھانی رنگون میں ۱۱، مسجدیں جبرا وقہرا ڈھا چکے ہیں ، دوسرے شہروں کے اعداد و شمار نا گفتہ بہ ہیں۔
س: کیا حکومت منہدم کی گئی مسجدوں کی از سرنو تعمیر کرتی ہے یا اسکے دو بارہ تعمیر کی اجازت دیتی ہے؟
ج: ہر گز نہیں، سرکاری ظلم کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ جب ہمیں اپنی آباد مسجدوں کی معمولی مرمت کی حاجت ہوتی ہے تو اس کی اجازت کے لئے سرکاری اداروں کو رشوت دینی پڑتی ہے، فوجی حکومت پورے طور پہ ہماری جڑیں اکھاڑنے کے در پے ہے، ہمارا وجود انہیں برداشت نہیں۔
س: مدارس اسلامیہ کو سرکار سے کبھی کسی طرح کی کوئی مدد؟
ج: برما میں رہتے ہوئے ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہاں! ہمیں مدارس کے قیام اجازت دی گئی، لیکن اب نئے مدرسوں کے قیام کی اجازت نہیں مل رہی ہے، طلبہ کو کوئی وظیفہ نہیں ملتا، بس اللہ کے فضل اور اصحاب خیر کے تعاون سے دینی تعلیم کا فروغ جاری ہے۔
س: ماشاء اللہ آپ حضرات اُردو بہت روانی سے بولتے ہیں، کیا اس کی وجہ آپ لوگوں کا بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تعلیم کا نتیجہ ہے؟
ج: ایک سبب ہو سکتا ہے کہ ہمارے اکثر علماء نے بر صغیر میں تعلیم و تربیت پائی، لیکن ہمارے نصاب تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے اُردو، جسے برمی اور عربی کے ساتھ پڑھایا جا تا ہے، اس لئے برما میں اہل اُردو کو کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوگا۔
س: برما میں مسلمانوں کی تعداد اور اہم شہر جہاں ان کی آبادی کسی حد تک ٹھیک ٹھاک ہے؟
ج: برما میں مسلمان ۱۲ ؍فیصد(یعنی ۷۵؍لاکھ آبادی ) ہیں جب کہ ۷۰ فیصدی بودھ مت کے پیروکار ہیں،ملک کی مجموعی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے، اہم شہر جیسے: رنگون، نیبرو، منڈلے، مالمین، اکیاب (Sit Way)،بوٹپیدانگ، ماؤنڈو ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
س: خبرملی ہے کہ اس بار بقرعید کے موقع پر پورے دیش میں کہیں قربانی نہیں کی گئی،آخر کیا وجہ رہی؟
ج: عید الأضحیٰ سے قبل بودھ مت کی مذہبی جماعتوں نے مسلمانوں کو وارننگ دی تھی کہ اگر ہم جانور ذبح کریں گے تو وہ ہمیں ذبح کردیں گے(شاید بودھسٹوں کا نیا مذہبی اصول یہی ہے کہ جانوروں کے بدلے انسانوں کا خون بہانے میں کوئی گناہ نہیں)، ہم یہ جانتے ہیں کہ ان کی دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں، ہم حکومت سے ہمیشہ سیکورٹی کی اپیل کرتے ہیں ، مگر نہ وہ سیکورٹی فراہم کرتے ہیں اور نہ دہشت پسند جماعتوں پر کوئی قدغن لگاتے ہیں،بلکہ ان کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسی خوف کے سبب تمام مسلمانوں نے قربانی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
س:بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل صوبہ ارکان(راکھینے) میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟
ج: ارکان میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت روہنجا نسل سے ہے، اس صوبہ میں ۹۰؍فیصد مسلمان ہیں جب کہ ۱۰؍ فیصد مونک (یکھائی) نسل کے بودھسٹ ہیں، وہاں کے مواضعات اور شہروں میں فوجی آمریت کے بوٹے دندناتے ہیں، ۱۰؍ فیصدی مونک پورے طور پہ مجبور و مقہور مسلمانوں پر حاوی ہیں،حالانکہ یہ مونک بھی برمی حکومت کے مخالف ہیں،لیکن فوج انہیں ہتھیار فراہم کر کے مسلمانوں کے خلاف اکساتی ہے تا کہ مسلمان برما چھوڑ کر بھاگ جائیں، اس طرح یہ مونک مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہیں، جون ۲۰۱۲ء سے تا حال تقریبا پچاس ہزار مسلمان مردوں،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا، ۷۰۰؍ سے زائد مسلم بستیوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا،مگر ارباب اقتدار پر جوں بھی نہیں رینگی، اور نہ ہی مونک دہشت گردوں کا کچھ بگڑا، اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے، اس قیامت خیز مقتل سے گھبرا کر مسلمانوں نے ہجرت کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن اب انہوں نے عزم مصصم کیا ہے کہ ہم ہجرت نہیں کریں گے بلکہ یہیں لڑ کر دفن ہو جائیں گے، فوجی جوانوں کے مسلسل چھاپوں سے مسلمان بہت عاجز ہیں، جب کہ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، اس صوبے کا قانون ہی الگ ہے، کوئی بھی ارکان سے برما کے دوسرے صوبوں کا سفر نہیں کر سکتا،ستم بالائے ستم یہ کہ بیٹی کو باپ کے گھر (مائیکہ)جانے کے لئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ہوتی ہے، مسلمانوں کو نہ تو شہریت دی گئی ہے اور ہی ان کے حقوق، مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول کے لئے قانون بنایا گیا ہے کہ شادی کے لئے لڑکی کی عمر ۲۵؍ سے اوپر اور لڑکے کی عمر ۳۰؍سے اوپر ہونی چاہئے، نیز شادی کے لئے سرکاری پرمٹ ضروری ہے جس کے حصول میں سال بھر لگ جاتا ہے،روہنجا مسلمان ایک دو نہیں سیکڑوں مصیبتوں کے شکار ہیں، بس اللہ ان پر رحم فرمائے۔
س: راجدھانی رنگون میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے؟
ج: الحمد للہ مسلم ممالک کے سفارتخانوں کے سبب یہاں کے مسلمان بہت حد تک محفوظ ہیں اور اپنے سارے کام آسانی کے ساتھ کرتے ہیں، جب کہ دوسرے شہروں میں حالات اچھے نہیں ہیں۔
س: کیا آپ ارکان کے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں؟
ج: جی! اگر کوئی چھپ چھپا کر رنگون پہنچ جا تا ہے تو ہم اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں، لیکن ارکان جا کر ان کی مدد کرنے سے ہم معذور ہیں، حکومت کی نگاہیں ہم پر بہت تیز ہیں، ہاں! وہاں کے حالات مسلم ممالک کے سفارتخانوں تک پہنچاتے ہیں اور وہ کبھی کبھار انکی غذائی و طبی امداد کرتے ہیں، اس ضمن میں سعودی عرب اور ترکی نے اپنا دست تعاون خوب دراز کیا ہے۔
س: اسلامی شعائر کے اظہار و ادائیگی میں کوئی پریشانی؟
ج: الحمد للہ ارکان کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مسلمان اپنی شناخت اور شعار اپنانے میں آزاد ہیں، خواتین مکمل نقاب کا استعمال کرتی ہیں، بعض اسکارف پہنتی ہیں، مگر کوئی اعتراض نہیں کرتا،اسی طرح مائک پر اذان دینے کی آزادی ہے،اور اس قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔
س: تعلیم و ملازمت کے میدان میں کیا مسلمانوں کو تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے؟
ج: بہت زیادہ، مسلمان اگر اپنی صلاحیت کے بل بوتے کوئی انٹرویو،مقابلہ یا امتحان پاس کرتے ہیں اور رینک میں ان سے نیچے کوئی برمی نسل کا بدھسٹ ہے، تو اس کو آگے بڑھا دیا جائے گا، اور مسلمان اپنی کنفرم سیٹ سے محروم ہو جائیں گے، بھلے برمی بدھسٹوں کے نمبرات کم ہوں مگر انہیں ترجیحی بنیاد پر سیٹ اور ملازمت دی جائے گی، جب سیٹیں بچ جائیں گی تو مسلمانوں کو ملیں گی۔
س: سیاسی میدان میں مسلمانوں کی پیش رفت؟
ج: بہت پیچھے ہیں، پارلیمنٹ کی ۴۰۰؍ نشستوں میں صرف ۴؍ممبر پارلیمنٹ ہیں، اور وہ بھی لبرل مائنڈکے، مسلمان آنگ سانگ سوچی کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اس نے کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند نہیں کی، ہم پر طرح طرح کے مظالم ہوتے رہے مگر اس نے مذمتی الفاظ بھی نہیں کہے، شاید اُسے بدھسٹ ووٹ بینک کاخوف ستا رہا ہے۔
س:دعوتی میدان میں علماء و دعاۃ کا کردار؟
ج: نہایت محدود ہے،مسلمانوں کے درمیان وعظ و نصیحت کا پروگرام ہوتا رہتا ہے، مگر غیر مسلموں کے درمیان اسلام کی دعوت بالکل صفر ہے، سرکاری طور پر ممنوع ہے،کئی علاقوں میں دینی بیداری اور شعور نہ پائے جانے کی وجہ سے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بودھسٹوں سے شادی کی خاطر مرتد ہوگئیں، اور حکومت نے انہیں گلے لگایا، لیکن اگر کوئی بودھسٹ لڑکی مسلمان لڑکے سے محبت کر بیٹھی ہے تو اُسے مسلمان سے شادی اور تبدیلئ مذہب کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی، یہ برمی سماج کا نہایت افسوسناک پہلو ہے۔
س: کیا برما میں مسلمان صحافتی اور میڈیائی بے اعتنائی کا شکار ہیں؟
ج:جس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کو میڈیا میں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی، برما میں بھی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کرتے ہیں، آپ کو یا د ہوگا کہ ارکان میں بدھسٹوں کے ذریعے انجام دی گئی بھیانک خونریزی کی خبریں نہ تو عالمی میڈیا نے نشر کیں اور نہ ہی برما کے ذرائع ابلاغ نے، اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا، خصوصا فیس بک اور ٹیوٹر نے ہمارے لرزہ خیز حالات کی جم کر نمائندگی کی، کروڑوں مسلمانوں کے مظاہروں اور دعاؤں نے ہماری مدد کی، ہمیں جینے کا حوصلہ بخشا، ہم ان سب کے بیحد شکر گزار ہیں، ہمارے ملک میں مسلمانوں کا کوئی اخبار نہیں ہے، البتہ تین مشہور ماہنامے نکلتے ہیں جن میں سیاسی مواد یا خبریں بالکل نہیں ہوتیں، برمی زبان میں ’’المیزان‘‘ انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے، ماہنامہ ’’المفتی‘‘(برمی زبان) اور ماہنامہ ’’سعادت‘‘ (اردو)۔
س: آپ کے دیش کو کبھی برما اور کبھی میانمار کہا اور لکھا جاتا ہے،ایسا کیوں؟
ج: چونکہ ہمارے یہاں مختلف نسلی گروپ آباد ہیں، اور ان میں برمی نسل کے لوگ سب سے زیادہ ہیں، وہی حکومت کرتے ہیں، اس لئے اس دیش کو برما کہا جاتا ہے، میانمار کا مطلب ہے : بہت ساری نسلوں اور طبقات کا دیش، یہ نام نیا ہے، لیکن برمی لوگوں کو پسند نہیں ، اس لئے ابھی حال میں پھر ملک کا نام ’’برما‘‘ کردیا گیا ہے، ہمارے یہاں برمی نسل کے 68% ،شان نسل کے 9%، کارین نسل کے 7%، راکھینے (روہنجا)نسل کے 5%،چینی نسل کے 3%، ہندی نسل کے 2%، فیصد لوگ آباد ہیں۔
س: ارکان میں مسلمانوں پرحالیہ دلدوز مظالم کے بعد تنظیم برائے اسلامی کانفرنس
 (O.I.C) نے وہاں اپنادفترکھولنے کی بات کہی تھی، کیا حکومت نے انہیں اجازت دی؟
ج: جی! انہیں حکومت نے اجازت دیدی ہے، لیکن دوسری طرف بدھسٹوں کو مشتعل کر رکھا ہے، تا کہ وہ اپنا دفتر نہ کھول پائیں، حکومت کی اجازت کے بعد دہشت پسند بدھسٹوں کا آفس کے قیام کے خلاف احتجاج جاری ہے، جس کی وجہ سے فی الحال ممکن نہیں ہو پارہا ہے۔
س: اخیر میں یہ جاننا چاہوں گا کہ برما کا جو پیش منظر ہے اس کے متعلق آپ کے خدشات؟
ج: ہمیں مٹانے کی ہر دن کوشش ہورہی ہے، ہم اللہ کی ذات سے مایوس ہر گز نہیں، لیکن نجانے کیوں لگتا ہے کہ حالات مزید ابتر ہو جائیں گے، اور ہمیں ہجرت پر مجبور ہونا پڑے گا یا دوسرا آپشن بے سروسامانی کی حالت میں جہاد۔۔۔(اتنا کہہ کر سب رو پڑے)
کچھ دیر کے بعد میں نے انہیں دلاسہ دیا کہ کوئی آپ کی مدد کر ے نہ کرے، اللہ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ان سے جدا ہوتے وقت انہی کی زبان میں انکا شکریہ ادا کیا:’’چیزو تیمباٹے‘‘ انہوں نے جوابا خوش آمدید اپنی زبان میں کہا:’’ مینگلابہ‘‘، میں ان سے مصافحہ کرتے ہوئے رخصت ہو رہا تھا اور میری زبان پر ان کے لئے صبر و ثبات کی دعائیں جاری تھیں۔۔۔۔۔۔
برما کے پریشاں حال مسلمان حجاج جو اس گفتگو میں شریک تھے، مصلحتا ان کی تفصیل نہ دے کر صرف نام پر اکتفاء کیا جارہا ہے:
مولانا محمد اسحاق، مولانا رحمت اللہ، مولانا عبد القادر،مولانا عبد الجبار، مولانا محمد عارف،مولانا امیر حسین صاحبان حفظہم اللہ من کل سوء و مکروہ