Tuesday 21 May 2013

اخبار جہاں Akhbare-jahan

اخبار جہاں

عبد الصبور ندوی

برازیلی مسلمانوں کا عالمی فٹبال کپ 2014 کے موقع پر دعوتی پلان تیار
2014 سن برازیل کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے، وہاں منعقد ہو رہے اولمپک اور فٹبال کے عالمی میلے کے موقع پر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے مقصد سے مسلم تنظیموں نے ایک پلان تیار کیا ہے، توقع ہے کہ دنیا بھر سے شائقین کی بہت بڑی تعداد میچیز دیکھنے کے لئے امنڈے گی، اس قیمتی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے کا عزم کرتے ہوئے اسلامی تنظیموں کے اتحاد نے ہر طرح کے امکانات کو بروئے کار لانے کا منصوبہ بنا لیا ہے، برازیل میں اس وقت ایک ہزار سے زائد مساجد ، جبکہ پندرہ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، اسلام کے آفاقی پیغام کو برازیلی قوم اور غیر ملکیوں تک پہنچانے کے لئے بازار، میٹرو اسٹیشنس،ائر پورٹ، یونیورسٹیز، کھیل میدان، بس اسٹینڈس، لائبریریوں اور کتابی میلوں کا انتخاب ہوا ہے،عالمی کپ کے موقع پر اسلام کی سچی تصویر پیش کرنے کے لئے درج ذیل چیزوں کا اہتمام کیا گیا ہے:

۱۔فٹبال کے مشہور کھلاڑیوں سے ملاقات اور تحفوں کے ساتھ دعوت اسلام۔
۲۔اس تحریک کا شعار ’اعرف الاسلام‘(اسلام کو پہچانو) قرار پا یا ۔
۳۔اسٹیڈیم کے قریب دعوتی آفسوں کا قیام، اور رابطہ کے لئے ہر شہر میں ایک ٹیم، جو ٹیلیفون پر اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔
۴۔دعوتی وین(گاڑیاں): مخصوص گاڑیوں کو موبائل وین کی شکل دی گئی ہے جہاں کتابوں ، پمفلٹوں کی تقسیم اور اسلام کے متعلق اشکالات کے جوابات دئے جائیں گے۔
۵۔قرآن کریم اور محاسن اسلام سے متعلق پرتگالی، اسپینی اور انگریزی زبانوں میں دس لاکھ کتب کی اشاعت۔
۶۔ چالیس ہزار دعوتی ٹی شرٹ کی تیاری،جسے دعاۃ و کارکنان پہنیں گے نیز غیر مسلموں میں تقسیم بھی کیا ائے گا۔
۷۔ ایک ہزار اسپیشل دعوتی بیگ ، جسے فٹ بال کھلاڑیوں کو ہدیہ کیا جائے گا۔
۸۔ پانچ لاکھ سی ڈیز کی تیاری ، جس میں اسلام کے متعلق پانچ ویڈیوز ہونگے اور جنہیں مفت تقسیم کیا جائے گا۔
۹۔ کھلاڑیوں کی قیام گاہ سے قریب نئی مساجد و مصلوں کی تعمیر کا فیصلہ۔ وغیرہ
اللہ ان کے دعوتی حوصلوں کو مزید توانائی عطا کرے، انہیں اجر جزیل سے نواز کر اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
tبرما کے ارکان صوبہ میں مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی
بے چارگی کے ماحول میں سانسیں لے رہے ارکان کے مسلمان جہاں سمندری طوفان سے کراہ رہے ہیں ، وہیں انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے اور معاشی ناکہ بندی کی بھر پور تیاریاں کر لی گئی ہیں،ملیشیا میں اسلامی تنظیموں کے شورائی کمیٹی کے سربراہ محمد عزمی نے انکشاف کیا ہے کہ بدھسٹ انتہا پسند صوبہ ارکان میں آباد بودھوں کے گھروں پر نشان لگانے کا کام کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرتے وقت وہ محفوظ رہ سکیں، تازہ احوال کے مطابق گزشتہ ماہ درجنوں مساجد و مدارس کو جلا کر راکھ کردیا گیا، اور ۱۵۰؍ سے زائد طلبہ ومسلم نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا،اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے بودھ پادریوں نے مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے، جس سے حالات دھماکہ خیز ہوجائیں گے،اس کا مطلب ہے کہ اب مسلمان نہ تجارتی اداروں میں کام کر سکیں گے اور نہ ہی کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کو بآسانی خرید سکیں گے۔ 
سابق سی آئی اے چیف خبر کے بدلے خاتون صحافی کی عزت لوٹنے کا عادی تھا
عراق، پاکستان اور افغانستان میں بے دردی سے مسلمانوں کا خون بہانے والے ا مریکی فوجی سربراہ اور سی آئی اے چیف ڈیوڈ پیٹریاس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ ہوس کا پجاری تھا، اپنی زندگی کی معلومات دینے کے بدلے انہوں نے پاؤلا براڈویل کی درجنوں بار عزت لوٹی،متاثرہ خاتون کے انکشاف پر انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی، اور وہ عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے، پاؤلا اس وقت ہاورڈ سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں، جس میں پیٹریاس کے بارے میں معلومات کو ضروری قرار دیا گیا تھا، اور اس کے حصول کے لئے پیٹریاس نے جسم کا مطالبہ کیا تھا، جسے پاؤلا نے مجبورا پورا کردیا تھا۔
فحاشی کے الزام میں گرفتار عورت کو امام مسجد سے روزانہ درس لینے کا حکم
پاکستان کے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد نے ایک انوکھے فیصلے میں فحاشی کے الزام میں گرفتار ایک خاتون کو ضمانت دیتے ہوئے انہیں امام مسجد سے روزانہ ایک گھنٹہ دین کا درس لینے کا حکم دیا ہے، فحش حرکات کے نتیجے میں گرفتار خاتون کو عدالت نے یہ مشروط ضمانت دے کر اس کی مشکلیں بڑھا دی ہیں، جامع مسجد زرغونی میں خواتین کے درس کا اہتمام نہیں ہے ، اس لئے انہیں کسی نسواں مدرسے میں بھیجا جاسکتا ہے،وکیل لطیف آفریدی کے بقول اس حکم پر خاتون کے لئے عمل آسان نہیں ہوگا۔
بے قصور خالد مجاہد کی موت نے ملک میں انصاف کا جنازہ نکال دیا 
با را بنکی اور فیض آباد کچہری بم دھماکوں کے بے قصورمبینہ ملزم خالد مجاہد کی عدالت میں پیشی کے بعد واپسی میں ہوئی دردناک موت نے پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے،ایک دینی ادارے کے استاذ کو نمیش کمیشن کے مطابق جس طرح جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا، وہ نہایت اذیت ناک اور قابل مذ مت حرکت ہے، آخر پولیس کے پاس اسلحوں اور آر ڈی ایکس کا کتنا بھنڈار ہے جو مسلم نوجوانوں کوْ جبرا اٹھانے اور جھوٹے آر ڈی ایکس دکھا کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ پر آمادہ ہے ! سابق آئی جی داراپوری کے بقول وکرم سنگھ نے خالد سے پانچ لاکھ روپئے مانگے تھے، اور کہا تھا کہ رقم دیدو، تمہارے بدلے کسی اورکو پھنسا لیں گے،پولیس کی اس دہشت گردی کا حکومتوں نے بھر پور ساتھ دیا،خالد کی موت طبعی نہیں تھی، اسے قتل کیا گیا ہے،ظلم وبربریت کی اس بد ترین مثال کے بعد مسلمانوں سے سوال ہے:کیا آپ ضمیر فروشی کی عادت ترک کر کے اُن سیاسی جماعتوں کو دفن کرنے کا عہد کریں گے جو اس ظلم میں برابر کی شریک ہیں؟یہ سوال چیختا رہے گا جب تک خالد کا خون نا حق رنگ نہ لے آئے۔

Monday 20 May 2013

ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں


یہ اس وقت کی بات ہے جب قوم کا ایک 

بچہ تھا جو نیا نیا مسجد جانا شروع کیا تھا
وہ اکثر جمعہ کے خطبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا
بھت ساری باتیں اس کے سر سے باؤنس ہوجاتی تھیں
لیکن وہ اپنی مسجد کے خطیب کے رو رو کر گڑ گڑا کر دعا مانگنئ کو کبھی نا بھول سکا اسے یاد ہے کہ وہ جمعہ کے دن خطیب کی دعا سنتا تھا جو کہتا تھا کہ " اے اللہ تو ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مدد فرما"
پھر وہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین و شیشان کے بھائیوں کی مدد فرما
تھوڑا اور بڑا ہوا تو اس نے نے سنا کہ خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین شیشان اور افغانی بھائیوں ک مدد فرما
عمر نے ذرا اور کروٹ لی تو اس نے سنا کہ خطیب نے کچھ الفاظ اور بڑھالئے اور کہا :- اللھم انصر المسلمین فی فلسطین و شیشان و افغانستان و عراق-----------­----------
شعور نے ذرا اور ترقی کی تو سنا کہ خطیب کہ رہا تھا :- اے اللہ تو فلسطین شیشان افغانستان عراق اور شام کے رہنے والے مسلم مظلوم بھائیوں کی مدد فرما
اس کے بعد اس نے دیکھا کہ خطیب اپنی دعا میں مظلوم مسلمان ممالک کے نام بڑھانے کا عادی ہوگیا ہے اور امت مسلمہ سننے کی عادی ہوگئی ---
ایک دن وہ بچہ جو اب جوان ہوگیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا یہ بزرگ خطیب ہے اس نے اب تک ہمت نہیں ہاری ہے
خطیب نے لاسٹ ٹائم کہا تھا :اے اللہ تو فلسطین شیشان و افغانستان و عراق و کشمیر و بورما کے مسلمان بھائیوں کی 
مدد فرما-----------­--
اس نے یاد کیا کہ قوم صرف بے دلی اور بد دلی سے آمین کہکر یہ سمجھتی ہے کہ ہماری زمہ داریاں ختم 
لیکن میں نے بھی تو سالوں میں سننے اور سمجھنے کے سوا کیا کیا ---کسے راہ دکھلاؤں اور کیسے--
کہتے ہیں کہ ہمارا یہ ہار نا ماننے والا خطیب ملت بھی اپنی قوم کی سست روی اور مقصد حیات و دین سے لا تعلقی دیکھ کر ٹھنڈا سا ہوگیا ہے 
اور کئی احباب کے کہنے پر وہ اب رسما و بادل نا خواستہ سہی جمعہ کے خطبے میں پورے شارٹ طریقے سے شارٹ کٹ ڈھونڈنے والی قوم کے ساتھ کھہ دیتا ہے :- اللھم انصر المسلمین فی کل مکان ------
میں سمجھتا ہوں کہ خطیب آج بھی تھک نہیں اسے قوم کی بے راہ روی نے تھکا دیا ہے آپ کو کیا لگتا ہے ----- 
امید کہ یہ کہانی آپ کو پسند آئی ہوگی مجھے ناول و افسانے لکھنے نہیں آتے کیوں کہ میری اسکرپٹ ہمیشہ کمزور ہوتی ہے.

حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں

کتبہ :- اے آر سالم فریادی 

Monday 6 May 2013

المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود

المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود



المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود
إنها قصة أصحاب الأخدود تتكرر من جديد، بقسوتها وضراوتها وشدتها ومرارتها، يُسعَّرُ أوارها بحقد الكفار، ولؤم المشركين، وعناد المستكبرين، وتآمر الحاقدين، والعالم كله يقف أمام هولها متفرجاً ساكتاً، لا يعترض ولا يستنكر، ولا يشجب ولا يرفض، ولا يحاول الصد أو الرد أو المنع. ليس في التاريخ الحديث جريمة تطهيرٍ عرقي وديني كما يحدث اليوم في ميانمار، فقد شقت فيها الخدود بعلم الدولة، وأضرمت فيها النار بمسؤولية الحكومة، وحرقت البيوت أمام وسائل الإعلام، وقُتل المسلمون أمام أنظار الكون كله، وحُرق الأطفال والتلاميذ المسلمون في مدارسهم، وشرد أهلهم من مناطقهم، وأخليت المدن والتجمعات منهم، وقد اتخذ البوذيون قرارهم بتصفية المسلمين والتخلص منهم، وكأن المسلمين ليسوا شركاءهم في الأرض لهم حقوق. المسلمون في ميانمار لا يقتلون في بلادهم وحسب، بل يطردون منها بمئات الآلاف إلى دول الجوار، وتنتزع عنهم جنسية بلادهم، ويحرمون من امتيازاتها، ويتهمون في أوطانهم بأنهم غرباء أجانب، ليسوا من أهل البلاد ولا من سكانها الأصليين، وإنما هم وافدون غرباء، ومهاجرون أجانب، لا حق لهم بالإقامة أو التملك فيها، فلا أرض يشترونها، ولا عقاراتٍ يمتلكونها، ومن حاول التملك يعاقب، وتصادر أملاكه، ويمتلكها غيره. كما تمارس السلطات البورمية في حقهم قوانين قاسية لتنظيم النسل، وتحديد عدد الأطفال، فلا تتزوج المرأة قبل أن تبلغ الخامسة والعشرين من عمرها، بينما يعاقب الرجل إذا تزوج قبل بلوغه الثلاثين، وقد يحقن بما يفقده الخصوبة ويصيبه بالعقم، أو تحقن المرأة فلا تعود قادرة على الإنجاب، كما فرضت الحكومة قوانين خاصة تمنع على المسلمين التزاوج لمدةٍ زمنية معينة، مما يشجع على الفاحشة، وينشر الفساد والزنا بين المسلمين، ومن يتجاوز القوانين، أو يتزوج دون حصوله على إذنٍ رسمي بالزواج، فإنه يسجن لأكثر من عشر سنواتٍ. أما المرأة المسلمة الحامل فيجب أن تخضع حملها للمراقبة الشهرية، لا أمام طبيبٍ نسائي ليراقب الحمل، ويتابع صحة وسلامة الجنين، بل بقصد التضييق على المرأة المسلمة، وإجبارها على نزع ثيابها، وكشف بطنها، وتعريضه لأشعةٍ ضارةٍ بحجة التصوير الملون، لضبط حالات الولادة، والتدقيق على إحصاء المواليد وتعداد السكان، وتجبر المرأة الحامل على دفع رسومٍ عالية لإجراء الفحوصات الدورية الإلزامية، وقد تتعرض لأعمال اغتصاب وتحرش وانتهاكٍ للعرض، وهو ما أكدته اللجان الدولية العديدة. المسلمون في ميانمار ضعفاء محرومون، وفقراء معدمون ومساكين مشردون، ومهمشون تائهون، لا يجوز لهم ممارسة التجارة والأعمال الحرة، إنما يسمح لهم بالعمل كعبيدٍ أجراء، يقومون بالأعمال الوضيعة. انتهاك لحرمة الدين ولا ينبغي أن يكون للمسلمين في ميانمار مساجد يصلون فيها، ولا دور عبادةٍ تميزهم، رغم أن مساجدهم قديمة، فلا يسمح بترميمها ولا ببناء الجديد منها، ولا يسمح لهم بمقابر خاصة يدفن فيها موتاهم، أو شواهد إسلامية تدل عليهم، ولا تراث إسلامي يختصون به، ولا يسمح لهم بتلاوة القرآن، ولا حق لهم في مدارس دينية ولا في تعليمٍ خاص، بل إن الحكومة تتعمد تغيير المدرسين المسلمين بآخرين بوذيين متشددين، ولا يسمح لطلابهم بالدراسة خارج البلاد، أو تلقي العلوم على أيدي مدرسين أجانب، في الوقت الذي يحرمونهم فيه من مواصلة تعليمهم الجامعي في الجامعات البورمية، وتمنعهم من طباعة أو إصدار أي كتب خاصة بهم. مسؤولية السلطة أما قرى وبلدات المسلمين فيجب أن تطعم وتهجن بمواطنين بوذيين، فتعمد الحكومة إلى بناء قرى نموذجية، ومساكن حكومية للمواطنين البوذيين في قلب الأحياء الإسلامية، وتزودها بكل التسهيلات اللازمة، لتكون مميزة عن مساكن المسلمين، الذين لا يجدون إلا أن يعملوا خدماً وعمالاً في المستوطنات الجديدة، ولا يُسمح للمسلمين باستضافة أحد في بيوتهم، ولو كانوا أشقاء أو أقارب إلا بإذن مسبق، أما المَبيت فيُمنع منعاً باتاً، ويعتبر جريمة كبرى ربما يعاقَبُ عليها فاعلُها بهدم منزله أو اعتقاله أو طرده من البلاد هو وأسرته. السلطة الحاكمة في ميانمار تتحمل المسؤولية الكاملة إزاء ما يتعرض له المسلمون في بلادهم، إذ إن الذي يحرق البيوت والمتاجر، ويطرد السكان ويقتل المواطنين، أو يجبرهم على التخلي عن دينهم، والتحول إلى البوذية وهي دين الدولة الرسمي، إنما هم جنودٌ نظاميون، وعناصر شرطة بلباسهم الرسمي، وأسلحتهم النظامية، حيث يرتكبون هذه الجرائم المنظمة وفق تعليماتٍ واضحة، وتوجيهاتٍ مباشرة من قيادتهم العليا، والذي يجبرهم على العمل بالسخرة في الثكنات العسكرية، وفي بناء الجسور وحفر الأنفاق، إنما هو جيش الدولة والسلطة الحاكمة. نصرة واجبة المسلمون مطالبون قبل غيرهم، بالأصالة عن أنفسهم، بالوقوف إلى جانب إخوانهم المسلمين ونصرتهم، وتأمين حياتهم، والعمل على رفع الظلم عنهم، وإعادة الحقوق إليهم، وتحريك المجتمع الدولي كله لنصرتهم وإغاثتهم، إذ إنهم لا حول لهم ولا قوة، ولا عندهم بأسٌ ولا منعة. كما يجب على المسلمين أن يرفعوا الصوت عالياً ضد بكين، التي تدعم الحكومة البورمية، وتقدم لها السلاح، وتدعم سياستها العنصرية أمام المحافل الدولية، فالمسلمون في بورما يقتلون بإرادةٍ صينية، ويعدمون بمظلةٍ بوذيةٍ تنمو وتترعرع عندهم، والعلاقات العربية والإسلامية مع الصين كبيرة جداً، فينبغي استغلالها للضغط على حكومتهم، لترفع الغطاء عن الحكومة في ميانمار، التي تمارس القتل، وتسكت عنه. كما يجب على حكومة بنجلاديش بالتعاون مع منظمة المؤتمر الإسلامي كونها الدولة الأكثر استضافةً للاجئين المسلمين من بورما، والأكثر معاناةً من تدفقهم، أن تضغط على حكومة بلادهم لإعادتهم، وتحسين شروط عيشهم، وضمان مستقبلهم في بلادهم وعلى أرضهم، فهذا هو حقهم الطبيعي، الذي لا ينبغي أن يحرمهم منه أحد. المسلمون في ميانمار يحتضرون ويفتتنون، ويضطهدون ويعذبون، وتشق لهم الأرض أخاديدَ كبيرة، ويشعلون لهم فيها ناراً ذات وقود، إنهم على خطرٍ عظيم، ويتعرضون لشرٍ مستطير، ويواجهون مصيراً مجهولاً، ومستقبلاً غامضاً، ولكنهم مستمسكون بدين ربهم كالقابضين على الجمر.> إدانة دولية جديدة للعنف في ميانمار أعرب وفد من أربعة أعضاء في البرلمان الأوروبي زاروا ميانمار أخيراً عن قلقهم إزاء تواصل انتهاك حقوق الإنسان في هذا البلد. وحذرت النائبة «باربارا لوشبيلر» التي ترأست الوفد، في بيان، من أن انتهاك الحقوق الاقتصادية والاجتماعية لايزال متواصلاًً في ميانمار، مشيرة إلى أن هناك نقصاً في التنمية الاقتصادية لأغلبية الشعب البورمي. وحثت الحكومة البورمية على «الإفراج عن المعتقلين السياسيين، واتخاذ كافة التدابير لحماية كل الأقليات دون استثناء، بمن في ذلك أقلية الروهينجيا (المسلمة)، وسن سياسات اقتصادية تعود بالنفع على أغلبية الشعب وليس على دوائر ضيقة». ودعا أعضاء البرلمان الأوروبي إلى إشراك المجتمع المدني في التنمية، وأعربوا عن تأييدهم للانتقال الديمقراطي وسيادة القانون، واحترام حقوق الإنسان في ميانمار. كما أعرب الرئيس الأمريكي الأسبق «جيمي كارتر»، عن قلقه إزاء تجدد العنف الطائفي مؤخراً في ميانمار، وذلك خلال زيارته الحالية للبلاد. وقد أخبر «كارتر» الرئيس الميانماري «تين سين» أن المجتمع الديمقراطي لن يقوم إلا على أسس من الاحترام المتبادل والتسامح والتراحم وتقبل الآخر، وأكد «كارتر» انزعاجه بما تم تداوله من تقارير عن استخدام لغة عدائية من قبل بعض الرموز والمشاهير ورجال الدين في ميانمار.

مجلة المجتمع 

Monday 8 April 2013

6 دن کی دلہن َ ایک سبق آموژ تحریر The bride for 6 days



رب کائنات نے عورت کو مرد کی نسبت کمزور، حساس اور ضعیف و ناتواں مخلوق بنایا ہے لیکن کمزور ہونے کے باوجود اللہ نے اس کو ہمت و حوصلہ اور عزم کی قوت ایسی عطا کی ہے کہ وہ بہت بڑے بڑے اور مشکل کام خندہ پیشانی سے سرانجام دیتی ہے۔ عورت حساس، نازک دل اور نازک جذبات کی مالک ہوتی ہے۔ ذرا سی خوشی پر مسرت سے پھول کر پہاڑ ہو جاتی ہے اور ہلکی سی دل آزاری اور ہلکی سی آنچ سے کانچ کے برتن کی طرح، ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتی ہے، اس کا دل حساس و شفاف آئینہ ہوتا ہے۔
یہی عورت جب بیٹی کے روپ میں ہو تو اور بھی نازک ہوتی ہے۔ والدین اسے بہت نازونعم میں پالتے پوستے، تعلیم دلاتے، کھلاتے پلاتے اور طرح طرح کے پہناوے پہناتے ہیں‘ اس کی فرمائشیں پوری کر کے ہر طرح سے اس کو خوش و خرم رکھتے ہیں۔ باپ جب کبھی کسی مسئلہ میں ناراض ہو کر اصلاح کے لئے یا سرزنش کے لئے اسے مارنے لگتا ہے تو ماں فوراً کہتی ہے: اللہ کے بندے! اسے کچھ نہ کہنا، پرایا دھن ہے‘ اللہ جانے بیچاری کے نصیب میں دوسرے گھر جا کر کیا بننا ہے۔ اگر سوئی ہو تو ماں جگاتی نہیں کہ میری بیٹی جی بھر کے سولے‘ دوسرے گھر جا کر سکون کی نیند نصیب ہو گی کہ نہیں۔ انہی جذبات کے تحت یہ نازک بیٹیاں والدین کی چہیتیاں لاڈلیاں اور آنکھوں کے تارے دل کے سہارے ہوتی ہیں۔
دوسرے گھر سدھار جانے کے بعد اگر بیٹیاں سکھ میں ہیں تو والدین سکون و چین کی نیند سوتے ہیں اور اگر تنگی میں ہوں تو ان کے شب و روز کے پل پل گویا کانٹوں اور انگاروں پر گزرتے ہیں۔ انہیں ایک لمحہ چین نہیں آتا‘ وہ ہر وقت غموں، دکھوں، پریشانیوں اور سوچوں کے سمندر میں غرق نظر آتے ہیں۔
ایسا ہی ایک بدنصیب باپ اور اس کی بیٹی بھی ابھی دنیا کے سمندر میں زندہ ہیں۔ اس بچی کی ماں دنیا پر اسے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تو مسکین ہو جانے والی اپنی بچیوں کو باپ نے باپ نہیں ماں بن کر پالا۔ آج اس کی بڑی بیٹی کی شادی تھی۔ وہ بہت خوش تھا، سوچ رہا تھا کہ آج اگر بچی کی ماں یعنی اس کی بیوی زندہ ہوتی تو اپنی بیٹی کو سہاگن کے سرخ جوڑے میں ملبوس دیکھ کر کس قدر خوش ہوتی۔ بہرحال انہی محرومیوں میں ماں کے پیار اور نصیحت کے بغیر ہی بیٹی کی رخصتی ہو گئی۔ رخصت ہوتے وقت ہر بیٹی کے کتنے رنگین ارمان ہوتے ہیں کہ اس کا گھر ایسا ہو گا، چاہنے والے قدردان سسرال ایسے ہوں گے، میاں خوب محبت کرنے والا ہو گا۔ اس کے خوب ٹھاٹ باٹھ ہوں گے۔ وہ گھر کو اس طرح سجا کر جنت کا نمونہ بنائے گی۔ سسرال کی اس اس طریقہ سے خدمت کر کے اپنے آپ کو فنا کر کے دل جیت لے گی۔ سب اس کی محبت کے گیت گائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
ایسے ہی خیالات و جذبات کے تحت یہ حرماں نصیب بہن پہلی رات ہی حجلہ عروسی میں بیٹھی اپنے نئے ہم سفر، سرتاج، روح و جسم اور سوچ و جذبات کے مالک کا انتظار کر رہی تھی۔ اور محبت کی شیرینی سے بھرپور چند بول سننے کے لئے اس کے کان بے قرار تھے۔ آخر وہ لمحہ آہی گیا۔ میاں خاموشی سے آیا۔ پاس بیٹھا اور چھوٹتے ہی کہنے لگا:
تمہارے باپ کنجر نے مجھے لوٹ لیا ہے، وہ میری جائداد پر قبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن میں اسے کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دوں گا۔
یہ وہ اس لئے کہہ رہا تھا کہ شادی سے پہلے اس عجیب شخص نے تین مرلے کا مکان اپنی ہونے والی بیوی کے نام لگا دیا تھا۔ اب اس کے نفس نے بہکایا کہ وہ کیا کر بیٹھا!!؟ اس لئے وہ ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر اس کے باپ کو گالی دے کر کہنے لگا: صبح اپنے باپ کے پاس جانا اور رجسٹری لا کر مجھے واپس کر دینا۔ میں یہ تین مرلے دوبارہ اپنے نام کروائوں گا۔ لڑکی کہنے لگی: میرے سرتاج! میں آپ کی، میرا سب کچھ آپ کا ہے، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں، یہ تین مرلے کل بھی آپ ہی کے تھے آج بھی آپ کے، میں نے رجسٹری نہ لانے کی ضد کر کے اپنے گھر کو نہیں اجاڑنا، میں لے آئوں گی، لیکن ایک بات کا خیال رکھیں میرے شفیق و کریم اور عظیم باپ کو گالیاں مت دیں، ذرا سوچیں اگر آپ میری جگہ ہوں اور کوئی آپ کے باپ کو آپ کے سامنے ننگی گالیاں دے تو آپ برداشت کر سکیں گے؟ یہی صورتحال میری ہے، مجھ سے اپنے باپ کو پہلی ہی رات گالیاں نہیں سنی جا رہیں، لہٰذا آپ مہربانی فرما کر ایسا نہ کریں۔
’’بڑی تیز زبان ہے تیری، قینچی کی طرح چلتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس کا ہاتھ اٹھا اور پے در پے زناٹے دار تھپڑ اسے پڑنے لگے … نازک کانچ کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، محبت کے جذبات ہوا ہو گئے، امیدوں پر پانی پھر گیا، امنگیں دم توڑ گئیں، آرزوئیں درگور ہو گئیں، پھر نازو نعم میں پلی بیٹی یہ تشدد برداشت نہ کر سکی لہٰذا اس کی چیخیں بلند ہونے لگیں۔ اس ناہنجارنے اس کا حل یہ نکالا کہ اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا‘ تاکہ چیخیں باہر نہ نکل سکیں، نہ کوئی سن سکے اور نہ مدد کے لئے آ سکے… پھر مزید یہ کہ بے دست و پاکرنے کے لئے ہاتھ دوپٹے سے باندھ دیئے… اور پھر… ظلم کا دریا کنارے توڑ گیا… تشدد کی طغیانی سب کچھ بہا کر لے گئی… یہ مشق ستم جاری رہی… جان و فا ہی… جان جفا ہو گیا… اوروں پہ کرم کرنے والا اپنوں پہ، دنیا والوں کے بقول دل کی مالکہ پر ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا … اور یہ مظلوم مسکین بیٹی تھوڑی دیر قبل نئی زندگی کے حسین آغاز کی منتظر… پر ساری رات ظلم کے اولے برستے رہے، آندھیاں اور طوفان آتے رہے، وہ تختہ مشق بن کر ان کا مقابلہ کرتی رہی… اور دعا کرتی رہی یا اللہ! اس درندے سے میری جان بچا لے، اگر مر گئی تو باپ بھی صدمے سے مر جائے گا اور باقی تین یتیم بہنیں ماں کے بعد باپ کے سہارے سے بھی محروم ہو جائیںگی۔
رات تھی کہ ختم نہ ہو رہی تھی… جیسے وقت تھم گیا ہو… اللہ اللہ کر کے صبح کا سپیدہ نمودار ہوا اور جب یہ بیٹی گرتی پڑتی اپنے باپ کے سامنے گئی تو باپ بیٹی کے جسم پر خاص طور پر چہرے پر پڑے نیل اور زخموں کے نشان دیکھ کر غش کھا گیا۔ اس کا دل ڈوبتا چلا گیا۔ اب اگرچہ باپ زندہ ہے لیکن بیٹی کے صدمے میں شاک کا شکار ہو کر نہ مردوں میں ہے نہ زندوں میں۔ کتنے ہی باپوں کو بیٹیوں کے غم وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیتے اور پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر قبر میں اتار دیتے ہیں اور کتنی مائوں کو بستر مرگ پر لٹا دیتے ہیں۔
ایسے صدمے کتنی ہی سنہرے مستقبل کے سہانے سپنے اور آئیڈیل کے خواب کھلی آنکھوں سے دیکھنے والی بیٹیوں کو ذہنی مریض بنا دیتے ہیں اور مرد ذات سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی بچیوں کی دوبارہ شادی کے نام ہی سے جان نکل جاتی ہے جبکہ والدین گھر بیٹھی بچی کے دوبارہ گھر نہ بسنے کے غم میں اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہیں۔
یہ بہن کہہ رہی تھی کہ میں ایسے مرد کے ساتھ کیسے باقی زندگی گزار سکتی ہوں کہ جس نے پہلی رات ہی میرے ساتھ یہ سفاکانہ سلوک کیا۔ 9 اپریل 2006ء کو میری شادی ہوئی تھی اور آج چھ دن ہونے کو ہیں، میں باپ کی چوکھٹ پر بیٹھی ہوں اور طلاق مانگ رہی ہوں۔ میں نے اپنی اس دکھیاری بہن کو کہا کہ بہن! تیرے لئے بہتر یہ ہو گا کہ تو طلاق کا مطالبہ نہ کرے، یہ ملن بار بار نہیں ہوتے اور جب عورت مطلقہ ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں اسے کوئی قبول نہیں کرتا، اس کی حیثیت ہیرو سے زیرو ہو جاتی ہے۔ ہر ممکن کوشش کر کہ تیرے سرتاج کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اس پرشرمندگی اور معذرت کا اظہار کر کے تجھے اپنا لے اور اجڑا ہوا آشیانہ پھر سے بس جائے، خزاں رسیدہ گلشن میں پھر سے بلبل اور کوئل چہچہانے لگیں… ٹھنڈی اور معطر ہوا کے جھونکے قرب و جوار کو مسحور کرنے لگیں۔ یہ بھی یاد رکھ! تمہارے پیچھے تمہاری تین مسکین یتیم بہنیں بھی ہیں، اگر تمہارے گھرانے پر طلاق کا دھبہ لگ گیا تو ان بیچاریوں کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا‘ باپ پاگل ہو جائے گا، باغباں نہ رہے گا تو کلیاں مرجھا جائیںگی، میں نہیں کہتا کہ تم دوسروں کی بہتری کے لئے قربانی کا بکرا بنو، لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ اپنی بہتری کے لئے عورت بن کر سوچو، طلاق بہتری کے راستے مسدود کر دیتی ہے۔ اس دکھیاری بہن نے وعدہ کیا کہ وہ اب طلاق کا مطالبہ نہ کرے گی بلکہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اس کا آنگن پھر سے مہک اٹھے۔ اس مقصد کے لئے وہ دلوں کو پھیرنے والی ذات سے بھی رات کے وقت تہجد کے ذریعہ رابطہ کرے گی۔
اے نوجوانان ملت! … میں سمجھتا ہوں اس مسئلہ میں جہاں اور بہت سے عوامل ہیں وہاں آپ بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ آپ ایک عورت کو صرف عورت ہی نہ سمجھیں، ایک محکوم‘ مغلوب، غلام اور باندی کی حیثیت سے نہ دیکھیں… کیونکہ یہ عورت اگرچہ آپ کی بیوی ہے… لیکن… کسی کی بیٹی بھی ہے۔ کل عورت ہی آپ کی بیٹی ہو گی اور کسی دوسرے کی شریک حیات… یہ سلسلہ چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا
آپ کبھی بھی یہ برداشت نہ کریں گے کہ آپ کی راج دلاری، آپ کی شہزادی، آپ کی لخت جگر… آپ کی کلی اور آپ کی نازک حساس شرم و حیاء کی پیکر بیٹی کو… کوئی کانٹا بھی چبھوئے۔ اگر آپ اپنی بیٹی کا مستقبل محفوظ و مامون دیکھنا چاہتے ہیں… تو آج کسی دوسرے کی بیٹی… جو آپ کی شریک سفر بنا دی گئی ہے… کا مستقبل محفوظ بنا دیں۔
بحوالہ: قلم کے آنسو

Wednesday 30 January 2013

ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟

ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟
 بنت شاهين: دبئي

ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ جب بھی عورت کے موضوع پر گفتگو کی جائے اس کا عنوان یا تو ساس ہوگا یہ پھر بہو۔ جیسے عورت کے بس یہی دو روپ ہیں نا اس کا کوئی تعارف ہے اور نہ کوئی شناخت۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور گالی گلوج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی اور ناچاقی کا سارا الزام ان ہی دو عورتوں پر رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان حضرت کا نام نہیں آتا جو ایک لڑکی کو بہو بنا کر اپنے گھر والوں سے منسلک کرتے ہیں۔ اور ساس بہو کو رشتہ کی ڈور سے باندھتے ہیں۔ جن کا ان دونوں کے درمیان اہم رول ہوتا ہے وہی حضرت معصوم نظر آتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ساس بہو کی نااتفاقی کی وجہ یہ حضرت بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکیاں تصورات کی رنگین دنیا سجا کر سسرال جانے کے بجائے سسرال والوں سے لڑنے جھگڑنے کا پلان بنا کر باضابطہ میدان جنگ کا نقشہ کھینچ کر کیا سسرال جاتی ہیں؟ نہیں ۔۔۔۔
اور نہ کوئی والدین اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم جاتے ہی سسرال والوں سے لڑائی جھگڑا شروع کردینا۔ والدین تو یہ چاہتے ہیں کہ بیٹی سسرال میں خوش و خرم اور سب کی آنکھوں کا تارا بن کر رہے۔۔
لڑکی تو آرزوں و ارمانوں کی دنیا سجا کر محبت بھری آغوش سے جدا ہوکر سسرال کی چوکھٹ میں قدم رکھتی ہے۔ وہ اس بات کو جانتی ہے کہ وہ ایک نئی دنیا شروع کرنے جا رہی ہے۔ وہ کسی کی شریک حیات بن گئی ہے اور اپنے شریک حیات کے گھر جارہی ہے۔ جہاں اس کو اپنے شوہر کی بھر پور توجہ حاصل پوگی۔ وہ اس کے لئے مضبوط سائباں ثابت ہوگا۔ 

مگر افسوس کہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ، اس کو زبردست ٹھیس لگتی ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ سسرال والے اس کو جذبات و احساسات سے عاری ایک روبوٹ سمجھتے ہیں ، جس کا کام صرف اطاعت و خدمت ہے۔ جس کی ذات کو ہر شخص تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور شوہر نامدار خاموش تماشائی بن کر کھلی نااتفاقی اور ظلم کو اس لئے دیکھا کرتے ہیں کہ بیوی کی تائید میں کچھ کہنا ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو ناراض کر کے دوزخ کا ایندھن بننا نہیں چاہتے اور پھر یہ بھی ڈر ہے کہ لوگ انہیں زن مرید کہنے لگیں گے۔ وہ بیوی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کی دلجوئی کریں یا محبت بھرا سلوک کریں۔ 
ان کی نظر میں صرف ماں پاب کے حقوق ہوتے ہیں ، اس کو ادا کرنے میں اس طرح لگ جاتے ہیں کہ بیوی کے حق کو بھول جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بیوی کو وہ حق نہیں مل پاتا جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ تو اس کے دل میں سسرال والوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اور اس نفرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے ، جب اس کو سنایا جاتا ہے کہ اس کو خدمت کے لئے لایا گیا ہے۔ 
جب نئی دلہن کو ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے تو اس کا شدید رد عمل ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ پھولوں کے بجائے دامن جب کانٹوں سے بھر دیا جائے تو چینخ نکل ہی آتی ہے۔اس کو دنیا کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں بیٹے کو جنم دینے والی ، اس کو خون جگر پلا کر پروان چڑھانے والی ، آرزوں ارمانوں سے اس کا بیاہ رچانے والی ، دھوم دھوم سے بہو کو گھر بیاہ کر لانے والی وہ بہو کی دشمن بن کر خواہ مخواہ بیٹے کی زندگی میں تلخیاں نہیں گھول سکتیں۔ کوئی ماں نہیں چاہتی کہ بیٹا ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کرے۔ مگر ماں جب یہ دیکھتی ہے اس پر جان نچھاور کرنے والا بیٹا شادی کے بعد اس کو نظر انداز کرہا ہے ، اس سے لاتعلق ہوکر رہ گیا ہے بس بیوی کی ذات میں گم ہوکر رہ گیا ہے ، بیوی کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ بیٹے کی نظروں میں اب اسکی کوئی عزت ہے نہ اہمیت تو اس کے نازک احساسات پر زبردست چوٹ لگتی ہے۔ بہو کو اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے۔ جس نے اس کا بیٹا چھین لیا ، جب اس کی ممتا پر چوٹ لگتی ہے تو برداشت نہیں کر پاتی۔ ۔۔۔۔۔۔ تو دنیا اس کو کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 

دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے والے ہوتے ہیں شوہر نامدار ، جن کی ناسمجھی ناتجربہ کاری کوتاہ فہمی حقوق سے نا واقفیت غلط رویہ ساس بہو کو اپنا دشمن بنا دیتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت کبھی ماں کی حق تلفی کرتے ہیں تو کبھی بیوی کی ، یہ انکا غلط رویہ اور عدم توازن ساس بہو کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے ، دنیا کہتی ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوگئی ہے ، ان دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن کس نے بنایا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر کوئی غور نہیں کرتا ذرا سوچئے کیا یہ بات غور طلب نہیں؟ آخر عورت کو کب تک قصوروار ٹھیرایا جاتا رہے گا؟ مرد جس کو قوام بنایا ہے اس کا فرض نہیں کہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھےمرد نہ صرف یہ کہ حقوق کو ادا کرے بلکہ حقوق کی حفاظت بھی کرے تو ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے گھر کو سکون و آرام کا گہوارہ بنا سکتی ہیں اور کائنات میں رنگ بھر سکتی ہیں۔

کالجوں میں فحاشی



کالجوں میں فحاشی



منصور مہدی

جب مجھے پتہ چلا کہ ارسلان نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے روک دیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ ارسلان کوئی بنیاد پرست نہیں تھا ۔ وہ تو ایک لبرل قسم کا مسلمان ہے اور تعلیم کے معاملے میں تو اس کی سوچ بہت مثبت تھی وہ صرف لڑکوں کی تعلیم کا ہی حامی نہیں تھا بلکہ لڑکیوںکی تعلیم کا بھی حامی تھا۔ بلکہ وہ تو کہتا تھا کہ خصوصا آج کے دور میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے۔ اس کی سوچ کے مطابق موجودہ دور میں لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے ملنا بہت دشوار ہو چکے ہیں تو ایسے میں کم از کم لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہوں تو وہ کسی سکول میں ٹیچر ہی لگ کر اپنا گزر بسر کر سکتی ہے ناکہ تعلیم سے بے بہرہ ہو کر موجودہ معاشی حالات میں اس کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔
ارسلان اکثر اپنے دیگر ملنے والوں کو بھی یہی کہتا تھا کہ اپنے بچوں خصوصا بچیوں کو تعلیم ضرور دلانی چاہیے۔ وہ کہتا کہ بحیثیت مسلمان تو ہم پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے اور سنت بھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بارے اسلامی احکامات بھی سنایا کرتا تھا۔
ارسلان اگرچہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس نے ایف اے کیا ہوا تھا اور اب ایک کمپنی میں ملازم تھا جہاں اس نے کمپیوٹر بھی سیکھ لیا تھا اور انٹرنیٹ پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس کے صرف چند ایک دلچسپیاں تھی جن میں ایک یہ تھی کہ وہ اخبارات اور نیٹ سے تعلیم کے بارے میں حقائق اکٹھے کرتا اور پھر دوستوں اور ساتھیوں کو سناتا اور ان کی اہمیت بیان کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن اس نے پاکستان میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے حوالے سے یونیسف کی رپورٹ پڑھی تھی جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد 20سے 35سال کی لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے (35سال سے زائد عمر)۔ ان لڑکیوں میں اگرچہ تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی تھی لیکن ایسی لڑکیوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی کہ جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں تھی۔ ارسلان کہتا کہ ایسی صورتحال میں اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہوگی تو کم ازکم اپنا پیٹ تو پال سکے گی وگرنہ والدین کے بعد کسی عزیز یا رشتہ دار کے در پر پڑی رہے گی اور اسے ان کی باتیں سننے کو ملے گی۔ وہ مزید بتلاتا کہ اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں مگر مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ارسلان مزید دلائل دیتا کہ لڑکیوں کی بھی تعلیم بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنا لڑکوں کی تعلیم بلکہ لڑکیوں کو مستقبل میں ماں بننا ہوتا ہے اور ایک پڑھی لکھی اورتعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی سچی فکر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینا ہے، مگر ایک عورت کو تعلیم دینا گویا ایک پورے خاندان اور معاشرے کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔ اس لئے کہ ماں کی گود بچے کی اول اور عظیم و مستحکم تربیت اور تعلیم گاہ ہے۔ اس لئے کہ بچہ چوبیس (24) گھنٹے ماں کی نگرانی میں رہتا ہے اور بچہ کی یہ عمر موم کے مثل ہوتی ہے اس پر جو نقوش مرتب کئے جائیں وہ با آسانی نقش ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی نہیں مٹتے۔ اس لئے ہمیں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں پر توجہ دینی چاہئیے۔
لیکن اب ارسلان کو کیا ہوگا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے والے نے اپنی ہی بیٹی کو اب مزید تعلیم دلانے سے انکار کردیا۔حالانکہ اس کی بیٹی بہت ذہین تھی ۔ پہلی جماعت سے ہی وہ اول پوزیشن لیتی رہی اور اب میٹرک کے امتحان میں بھی اس نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ ارسلان کہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا۔ لیکن اب اس نے ایسا کیوں ہوا؟
کئی روز سے اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ ارسلان کا ایک دوست میرا بھی دوست تھا ، وہ جب مجھے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ ارسلان نے ایسا کیوں فیصلہ کیا تو وہ کہنے لگا اس کی وجہ تو مجھے بھی اب تک نہیں معلوم ہو سکی کہ اس نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ اس نے اپنا فون بھی بند کیا ہوا ہے ۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ چلو اس کی طرف چلتے ہیں اور اس کی وجہ پوچھتے ہیں کیونکہ اب کالجوں میں داخلے بھی بند ہونے والے ہیں ، یہ نہ ہو کہ اس کی بیٹی کو وقت گزرنے کے بعد داخلہ ہی نہ مل سکے۔اس کے پاس چل کر اسے سمجھاتے ہیں کہ وہ تو خود لڑکیوں کی تعلیم کا بہت برا حامی تھا تو اب اپنی بیٹی کے ساتھ کیوں یہ زیادتی کر رہا ہے۔
اگلے روز ہم شام کے وقت جب وہ اپنے دفتر سے آ جاتا ہے ، اس کے گھر پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد اس نے ہمیں چائے پلائی ۔ جب ہم چائے وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو ہم نے اسے کہا کہ ارسلان ہم نے سنا ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا ہے۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔یہ نہ ہو داخلے بند ہوجائیں اور تمہاری بیٹی کا سال ضائع ہوجائے۔
وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے درست سنا ہے کہ اب میں اپنی بیٹی کو مزید تعلیم نہیں دلواﺅں گا بلکہ اب جہاں پہلے لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی وکالت کرتا تھا اب میں انھیں تعلیم اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں میں داخلہ لینے سے منع کرنے کی وکالت کروں گا۔ ہمیں اس کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی کہ ارسلان میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی۔
ہمارے اصرار پر اس نے کہا کہ اچھامیں ابھی تمہیں اپنے اس فیصلے کی وضاحت بتلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر کے دوسرے کمرے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہمیں بھی اس کمرے میں ساتھ لے گیا کہ جہاں پر کمپیوٹر رکھا ہوا تھا۔ اس نے کمپیوٹر اون کیا اور ہمیں مخاطب کر کے کہنے لگا کہ دوستوں تمہیں تو پتہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا کتنا حامی تھا جب میری بیٹی نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تو مجھے جتنی خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میری بیٹی نے مجھے کہا کہ پاپا فلاں۔۔۔۔۔۔۔کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے کیونکہ میری دوست راحیلہ اور ثمرین بھی اسی کالج میں داخلہ لے رہی ہے۔اس کالج کی تعلیم بہت اچھی ہے ۔ ارسلان کہنے لگا کہ میں نے بھی اس کالج کے بارے میں سنا تھا۔اس کالج کی کئی شاخیں تھی نہ صرف لاہور میں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی اس کی برانچیں تھیں۔ اس کالج کا مالک شہر کا ایک متمول شخص ہے اور علاقائی سیاست میں بھی اہم مقام رکھتا ہے اور اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکا ہے۔
ارسلان نے بتایا کہ میں نے اس کالج کے دفتر میں فون کیا اور داخلہ فارم وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو دفتر والوں نے بتایا کہ داخلہ فارم کالج کے دفتر سے بھی مل سکتے ہیں اور ہمارے کالج کی ویب سائٹ سے بھی داﺅن لوڈ ہو سکتے ہیں۔ جس پر میں نے سوچا کہ میرے دفتر میں پرنٹر موجودہے چنانچہ وہاں سے فارم لے لوں گا اس طرح میرا کالج جانے کا چکر بچ جائے گا۔ لیکن مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ان سے ان کی ویب سائٹ کا ایڈریس نہیں پوچھا ۔تو مین نے سوچا کہ کوئی بات نہیں میں ان کی ویب سائٹ گوگل پر سرچ کر لوں گا۔چنانچہ جب میں نے گوگل کھول کر اس پر اس کالج کی ویب سائٹ سرچ کرنے کے لیے نام لکھا اور انٹر کا بٹن دبایا تو کالج کی ویب سائٹ کے علاوہ اور بہت سے ویب سائٹس کے لنک براﺅزر پر کھل گئے۔ انہی میں یو ٹیوب نامی ویب سائٹ کا لنک بھی کھل گیا جس کے امیج پر ایک لڑکی ناچتی ہوئی نظر آئی جس نے اس کالج کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔جس پر میں نے اس سائٹ کو بھی دیکھنا چاہا کہ یہ کیا ہے۔
انہی باتوں کے دوران کمپیوٹر اون ہو گیا اور اس نے گوگل کھول کر اس کالج کا نام ٹائپ کیا جس پر بہت سے لنکس کھل گئے۔ اس نے ہمیں بھی وہ لنک دکھایا اور اسے کلک کیا تو یوٹیوب نامی سائٹ کھل گئی جس پر اس کالج کے حوالے سے ایک نہیں بیسیوں وڈیوز کے لنک تھے۔ وہ لنکس دیکھ کر ہم بھی حیرت زدہ ہو گئے کہ اس قسم کی وڈیوز کا اس کالج سے کیا تعلق؟ ارسلان نے ان مین سے ایک وڈیو کو کلک کیا۔تو وڈیو چلنے لگی جس میں اس کالج کا کلاس روم نظر آرہا تھاکہ جہاں پر بہت سے لڑکے کالج یونیفارم میں خر مستیاں کر رہے تھے اور بھارتی گانوں پر ڈانس کر رہے تھے جبکہ کلاس میں کوئی ٹیچر وغیرہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ وڈیو موبائل فون کے کیمرے سے بنی ہوئی تھی۔
ارسلان نے پھر ایک اور وڈیو کے لنک کو کلک کیا تواس پر لکھا ہوا تھا ، کلر ڈے کے موقع پر لڑکوں کا فن، پھرایک اور وڈیو اس نے دکھائی اس پر درج تھا لڑکیوں کی دل لبھا دینے والی پرفارمنس، اس کے بعد یکے بعد دیگرے اس نے ہمیں بہت سی وڈیوز دکھائی جس میں کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ایسے ایسے انداز میں ایسی حرکتیں کرتے نظر آئے کہ الامان الالحفیظ۔پھر ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ کہ ایک لڑکا ٹیچر کی نقل کرتا ہے کہ کیسے پڑھایا جاتا ہے اور آخر میں دیگر لڑکے اسے مارتے ہیں۔ پھر ارسلان نے ایک ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ دکھائی کہ جو اس کالج میں منائے گئے سپرنگ فیسٹیول کے موقع کی تھی۔ جس میں لڑکیوں رنگ برنگے کپڑوں ، چست جین اور شرٹس میں ملبوس لڑکیاں ناچ رہی تھیں ۔ ٹی وی کے کیمرہ مین نے بھی اسے فلمانے میں کمال کر دیا کہ جیسے وہ کسی کالج کے فیسٹیول کو نہیں فلما رہا تھا بلکہ کسی انگریزی فلم کو فلما رہا ہوں، بہرحال اس رپورٹ میں کالج کی پرنسپل ساحبہ کا بھی ساٹ تھا جس میں موصوفہ فرما رہی تھی کہ اس قسم کی سرگرمیاں اس کالج کی رونق ہیں اور ایسی انٹرٹینمنٹ ہونی چاہیے کہ جس سے طالب علموں کی تھکان کم ہو سکے۔
اس کے علاوہ ارسلان نے صرف اسی کالج ہی نہیں بلکہ شہر کے دیگر کالجوں کی ودیوز بھی دکھائی۔ جن میںان وڈیوز سے بھی زیادہ بے ہودہ سین تھے ۔اس سائٹ پر نہ صرف لاہور بلکہ ملک کے دیگر شہروں کے کالجوں کے حوالے سے بھی وڈیوز موجود تھی جن کو دیکھ کرہمارا سر بھی شرم سے جھک گیا۔
ارسلان نے یہ دکھانے کے بعد ہم سے پوچھا کہ بتاﺅ کیا تم ان کالجوں میں اپنی بیٹیوں کو داخلہ دلواﺅ گے؟ اس کے سوال کا فوری جواب ہمیں نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔بالآخر میرے دوست نے جو ارسلان کا قریبی دوست تھا کہنے لگا کہ ارسلان کیا تم نے دیکھا کہ ان وڈیوز میں صرف چند لڑکے اور لڑکیاں بار بار نظر آ رہی تھیں جس کا مطلب ہے کہ تمام لڑکے اور لڑکیاں ان کاموں میں مشغول نہیں بلکہ بیسیون طالب علم صرف تعلیمی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں انھیں ان بے ہودہ سرگرمیوں سے کوئی شغف نہیں ہوتا۔میرا دوست کہنے لگا کہ ان وڈیوز کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ارسلان کہنے لگا کہ ان کالجوں کا بڑا نام سنا تھا اگر یہ ہی ایسے ہیں تو دیگر کالجوں کا کیا حال ہوگا۔ میرا دوست کہنے لگا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ کوئی ایک خراب ہے تو سارا جہاں ہی خراب ہے۔
ارسلان کہنے لگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز میں فحاشی اور برائی اب اتنی عام ہو چکی ہے جس کا مجھے بھی اندازہ نہیں تھاکہ اگر ہمارے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور شرم و حیا کی بجائے غیر اسلامی تعلیمات اور بے حیائی اور بے شرمی کی تعلیم دی جائےگی تو ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی۔
کیا تعلیمی اداروں میں بالخصوص گرلز کالجز میں ایسے فحاشی اور بے حیائی پر مبنی پروگرام ہوتے ہیں ؟کیا سپرنگ فیسٹیول کے نام پرایسے مخلوط پروگرام ہونے چاہیے؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈانس کے مقابلے ہونے چاہیے؟
ارسلان نے ایسے ایسے سوال کیے کہ جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا تاہم ہم نے اسے سمجھایا کہ دوست تمام کالجز میں ایسا نہیں ہوتا، ابھی بھی داخلے کا وقت ہے تم کوشش کرو اور کسی اور کالج میں اپنی بیٹی کا داخلہ کروا دو تاکہ اس کا سال ضائع نہ ہو۔ ارسلان ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم لوگ مجھے ایسے کالج کا پتہ بتادو کہ جہاں پر اس قسم کی سرگرمیاں نہیں ہوتی تو میں وہاں بچی کو داخل کروا دوں گا

بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟

بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟
منصور مہدی

ہمارے معاشرے میں ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی بھی خاندان میں عورت کے یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی کا سارا الزام انہی دو عورتوں پر رکھا جاتاہے۔اگرچہ ان جھگڑوں میں ایک تیسرا کرادر بھی ہوتا ہے اور وہ شوہریا بیٹا ہوتا ہے۔لیکن وہ ان لڑائی جھگڑوں میں زیادہ ترسامنے نہیں آتا ۔ یہ جھگڑے بسا اوقات سنگین بھی ہو جاتے ہےں۔ ان جھگڑوں سے خاندان کے تمام افراد کا ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے اور اکثر بات زبانی تکرار سے نکل کر مار کٹائی اور اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں طلاق اور قتل جیسے واقعات سرزد ہوجاتے ہیں۔
اس بار نئی بات خواتین میگزین نے اس اہم موضوع پر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے رائے لی۔ 50فیصد لوگوں نے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ ساس کو قرار دیا تو 40فیصد نے کہا کہ ان کی وجہ بہو ہوتی ہے لیکن 10فیصد لوگوں نے ان جھگڑوں کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیا۔
ماہر نفسیات منتہیٰ احمد کا کہنا ہے کہ ساس اور بہو کے درمیان ہونے والے یہ جھگڑے جب طول پکڑتے ہیں اور روزنہ کا معمول بن جاتے ہیں تو ان کے بچوں پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیںجو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ پھر جب ایسے جھگڑوں کے نتیجے میں خاندان جدا ہوتے ہیں، میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے تو ہر متعلقہ شخص شدید طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی گھر میں ہونے والے ان جھگڑوں کے بارے میں کوئی اصولی بات بتانا ممکن نہیں بلکہ ہرگھر کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ہر انسان اپنی تربیت، طبعیت اور عادت میں مختلف ہوتا ہے، اس لیے کوئی اصولی بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ کس گھر میں جھگڑے کی وجہ کیا ہوتی ہے البتہ کچھ عمومی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیال اگر رکھا جائے تو معاملات خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں۔عام طور پر ہمارے ہاں اس طرح کے مسائل کا آغاز شادی کے فوراً بعد ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔وہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی پس منظر میں شادی کے بعد لڑکی کو اپنا گھر چھوڑ کر سسرال میں جاکر رہنا ہوتا ہے۔ایک لڑکی کے لیے یہ نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اس کے ذہن میں اپنے گھر اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک تصور ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ لڑکی ایک مرد کی بیوی کم اور ایک دوسرے خاندان کی بہو زیادہ ہوتی ہے اور یہی سوچ لڑائی جھگڑوں کی ابتدا بنتی ہے۔
ڈاکٹر فرح قریشی نے اس حوالے سے کہا کہ اصل میں ہمارے معاشرے میں جب ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک نئی زندگی شروع نہیں کر رہی ہوتی بلکہ ایک خاندان کا حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اس خاندان کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں، ملنے جلنے اور لینے دینے کے آداب ہوتے ہیں۔ معاملات طے کرنے کااپنا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ جبکہ آنے والی لڑکی، چاہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ایک مختلف پس منظر سے آتی ہے۔ اب اگر وہ لڑکی اس حقیقت کو سمجھ لیتی ہے اور خود کو نئے حالات میںڈھال لیتی ہے تو زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو جھگڑے شروع ہونا لازمی بن جاتا ہے۔اس حوالے سے چاہیے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو سکھائے کہ ہماری سوسائٹی مغربی معاشرے کی طرح نہیں جہاں لڑکا اور لڑکی اپنی زندگی کاخود آغاز کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں لڑکی کو شوہر کے ساتھ سسرال کے طور طریقوں کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے۔جس لڑکی کو اس بات کی سمجھ ہوتی ہے، وہ عام طور پر بہت کامیاب زندگی گزارتی ہے۔
پروفیسر مسز فرخندہ امین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ایک ساس خود برے حالات سے گزری ہوتی ہے۔ اس نے اپنی سسرال اور ساس کی طرف سے اچھے معاملات نہیں دیکھے ہوتے، اس لیے وہ طے کرلیتی ہے کہ وہی کچھ بہو کے ساتھ بھی لازماً ہونا چاہیے۔ مگر زمانہ چونکہ بیس پچیس سال آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اس لیے ساس کے برخلاف نئے زمانے کی بہو زبردست مزاحمت کرتی ہے اور پھر جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک خاتون کو اس کی ساس نے میکے جانے سے روکا ہوتا ہے تو وہ بھی اکثر یہی کچھ اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اس پر کام کاج کا تمام بوجھ ڈال دیا گیا ہوتا ہے تو یہی کچھ وہ بھی اپنی بہو کے ساتھ کر دیتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جو کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا ہے، اگر وہ اس وقت اس کے لیے برا تھا تو بیس پچیس سال بعد اس نئے زمانے کی لڑکی کے لیے یہ زیادہ ناپسندیدہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پھر ان جھگڑوں میں نندوں اور بڑی جیٹھانیوں کا بھی بہت کرادار ہوتا ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نندیں شروع میں تو بھابھی بھابھی کرتی رہتی ہیں مگر جب بھابھی اور بھائی میں انڈرستینڈنگ بڑھتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ بھابھی نے ہمارا بھائی چھین لیا اور پھر یہاں سے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح جیٹھانیاں جو پہلے سے اس گھر میں موجود ہوتی ہے اور یہاں کے طور طریقوں سے آشنا ہو چکی ہوتی ہے وہ اس گھر میں آنی والی نئی عورت کو عموماً پسند نہیں کرتی۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو کم عمری دوسری خوبصورتی تیسرے تعلیم اور ایسی ہی دیگر باتیں جو جیٹھانی میں موجود نہ ہوں۔ پھر خاص طور پر شادی شدہ نندیں ان جھگڑوں میں اہم کرردار ادا کرتی ہیں ۔ ان کے ساتھ ان کے سسرال میں جو برتاﺅ ہوتا ہے وہی وہ اس نئی نویلی دلہن کے ساتھ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ اگر نئی آنے والی لڑکی کی ذمہ داری ہے تو بہرحال سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ لڑکی اپنا گھر بار اور رشتہ دار چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا تصور لے کر اِس گھر میں آئی ہے۔ اسے فوری طور پر احتساب کی سولی پر چڑھا دینا زیادتی ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ نئے حالات میں ایڈجسٹ کرسکے۔ اس دوران میں اس سے غلطیاں ہوں گی، وہ بھول کا شکار بھی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ناپسندیدہ معاملہ بھی کربیٹھے لیکن اسے رعایت ملنی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر ایسا نہیں ہو پاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل سید محمد ثقلین جعفری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سب سے بڑی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین بیٹیوں اور بہوو ¿ں کے لیے الگ الگ معیار رکھتی ہیں۔حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسرے کے لیے پسند کرو۔ یہ بات اگر خواتین ذہن میں رکھیں اوروالدین یا ساس جو اپنی بیٹی کے لیے چاہتی ہیں، وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے بھی چاہے، جو اب ان کی بہو ہے۔ ان کی بیٹی کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ اس نئی لڑکی سے لینا مناسب نہیں ہے۔ ظلم اگر ان کے ساتھ ہوا ہے، ماں باپ کی جدائی کا غم اگر انہوں نے اٹھایا ہے، شوہر کی بے رخی کا صدمہ اگر انہوں نے سہا ہے تواس میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کا حساب اس نئی لڑکی سے لیا جائے۔بلکہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ایک نئی اور اچھی روایت کا آغاز کریں۔
پیپلز لائررز فورم کے صدر اور لاہور بار کے سابق سنیئر نائب صدر شاہد حسن کھوکھر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گھریلو جھگڑوں کا ایک اہم سبب اکثر وہ مرد ہے جو ایک طرف ایک خاتون کا شوہر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ایک طویل عرصے سے کسی اور کا بیٹا اور بھائی ہوتا ہے۔ جھگڑے کا سبب بارہا یہ ہوتا ہے کہ اس مرد پر کس کے حقوق زیاد ہ ہیں۔ بیوی کے یا ماں کے۔ اس مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی چاہیے۔ لڑکی کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو لڑکا آج اس کا شوہر بنا ہے، وہ عرصے سے ایک دوسری خاتون کا بیٹا اور کسی اور کا بھائی بھی ہے۔ انہوں نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا ہے۔ اس پر ان لوگوں کے حقوق زیادہ ہیں۔ اس لیے ان پر کبھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اسی طرح سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میاں بیوی کی ایک پرائیویسی ہوتی ہے۔ انہیں ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھنا، بیوی کو میاں سے دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر فطری عمل ہے ،جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
سماجی کارکن ادریس علی کا کہنا ہے کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج اور عادات نہیں مل پاتیں۔ یعنی جھگڑے کے اصل فریق وہی دونوں بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک سبب اکثر یہی ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اور بہنیں خود فریق بننے کے بجائے اس لڑکے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتی ہیں۔ یعنی بھائی اور بیٹے کے سامنے لڑکی کی شکایات کرنا، اس کے عیوب گنوانا اور اس کی زیادتیوں کا رونا رونا۔ اسی طرح بیوی بھی گھر آتے ہی میاں کے سامنے شکایات کی پٹاری کھول دیتی ہے۔ لڑکا اگر ماں باپ اور بہن بھائیوں کا دفاع کرتا ہے تو اس پر بھی جھگڑا ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ پسند کی شادی بالعموم میاں بیوی کے اختلاف کو جنم دیتی ہے جس میں بعد ازاں خاندان کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔پھر ایک اور اہم وجہ انھوں نے بتائی کہ ہمارے ہاں اکثر مرد اپنی طاقت کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں۔ بیوی کا کوئی حق انہیں نظر نہیں آتا۔ وہ جب چاہتے ہیں اس کی پٹائی کردیتے ہیں، میکے جانے سے روک دیتے ہیں، اس کی کمزوریوں پر اسے رسواکرتے ہیں، اس کے ساتھ بدکلامی کرتے ہیں۔ اور جب ان جھگروں میں ان کے گھر والے شریک ہوتے ہیں تو یہ سنگین رخ اختیار کر جاتے ہیں۔
بہو اور ساس کے ان خاندانی جھگڑوں کے اسباب تو لا تعداد ہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی تحقیرکرنا، ان کا مذاق اڑانا، بدگمانی، غیبت، چغل خوری اورالزام تراشیجیسی اخلاقی برائیاں برائیاں ہی نہیں سمجھی جاتیں۔ خواتین کی باہمی گفتگو کا اگر کبھی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر گفتگو انہی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دلوں میں نفرت اور نااتفاقی کا بیج بوتی ہیں۔ لوگوں میں جدائی ڈلواتی اور خاندانوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ فریقین اپنی انا اور ہٹ دھرمی پر جم جاتے ہیں۔ دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تمام اخلاقی حدود پار کرکے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتائج کو بھول کر تمام اخلاقی برائیوں کو اختیار کر لیتے ہیں۔