Wednesday 30 January 2013

ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟

ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟
 بنت شاهين: دبئي

ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ جب بھی عورت کے موضوع پر گفتگو کی جائے اس کا عنوان یا تو ساس ہوگا یہ پھر بہو۔ جیسے عورت کے بس یہی دو روپ ہیں نا اس کا کوئی تعارف ہے اور نہ کوئی شناخت۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور گالی گلوج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی اور ناچاقی کا سارا الزام ان ہی دو عورتوں پر رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان حضرت کا نام نہیں آتا جو ایک لڑکی کو بہو بنا کر اپنے گھر والوں سے منسلک کرتے ہیں۔ اور ساس بہو کو رشتہ کی ڈور سے باندھتے ہیں۔ جن کا ان دونوں کے درمیان اہم رول ہوتا ہے وہی حضرت معصوم نظر آتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ساس بہو کی نااتفاقی کی وجہ یہ حضرت بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکیاں تصورات کی رنگین دنیا سجا کر سسرال جانے کے بجائے سسرال والوں سے لڑنے جھگڑنے کا پلان بنا کر باضابطہ میدان جنگ کا نقشہ کھینچ کر کیا سسرال جاتی ہیں؟ نہیں ۔۔۔۔
اور نہ کوئی والدین اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم جاتے ہی سسرال والوں سے لڑائی جھگڑا شروع کردینا۔ والدین تو یہ چاہتے ہیں کہ بیٹی سسرال میں خوش و خرم اور سب کی آنکھوں کا تارا بن کر رہے۔۔
لڑکی تو آرزوں و ارمانوں کی دنیا سجا کر محبت بھری آغوش سے جدا ہوکر سسرال کی چوکھٹ میں قدم رکھتی ہے۔ وہ اس بات کو جانتی ہے کہ وہ ایک نئی دنیا شروع کرنے جا رہی ہے۔ وہ کسی کی شریک حیات بن گئی ہے اور اپنے شریک حیات کے گھر جارہی ہے۔ جہاں اس کو اپنے شوہر کی بھر پور توجہ حاصل پوگی۔ وہ اس کے لئے مضبوط سائباں ثابت ہوگا۔ 

مگر افسوس کہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ، اس کو زبردست ٹھیس لگتی ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ سسرال والے اس کو جذبات و احساسات سے عاری ایک روبوٹ سمجھتے ہیں ، جس کا کام صرف اطاعت و خدمت ہے۔ جس کی ذات کو ہر شخص تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور شوہر نامدار خاموش تماشائی بن کر کھلی نااتفاقی اور ظلم کو اس لئے دیکھا کرتے ہیں کہ بیوی کی تائید میں کچھ کہنا ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو ناراض کر کے دوزخ کا ایندھن بننا نہیں چاہتے اور پھر یہ بھی ڈر ہے کہ لوگ انہیں زن مرید کہنے لگیں گے۔ وہ بیوی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کی دلجوئی کریں یا محبت بھرا سلوک کریں۔ 
ان کی نظر میں صرف ماں پاب کے حقوق ہوتے ہیں ، اس کو ادا کرنے میں اس طرح لگ جاتے ہیں کہ بیوی کے حق کو بھول جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بیوی کو وہ حق نہیں مل پاتا جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ تو اس کے دل میں سسرال والوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اور اس نفرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے ، جب اس کو سنایا جاتا ہے کہ اس کو خدمت کے لئے لایا گیا ہے۔ 
جب نئی دلہن کو ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے تو اس کا شدید رد عمل ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ پھولوں کے بجائے دامن جب کانٹوں سے بھر دیا جائے تو چینخ نکل ہی آتی ہے۔اس کو دنیا کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں بیٹے کو جنم دینے والی ، اس کو خون جگر پلا کر پروان چڑھانے والی ، آرزوں ارمانوں سے اس کا بیاہ رچانے والی ، دھوم دھوم سے بہو کو گھر بیاہ کر لانے والی وہ بہو کی دشمن بن کر خواہ مخواہ بیٹے کی زندگی میں تلخیاں نہیں گھول سکتیں۔ کوئی ماں نہیں چاہتی کہ بیٹا ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کرے۔ مگر ماں جب یہ دیکھتی ہے اس پر جان نچھاور کرنے والا بیٹا شادی کے بعد اس کو نظر انداز کرہا ہے ، اس سے لاتعلق ہوکر رہ گیا ہے بس بیوی کی ذات میں گم ہوکر رہ گیا ہے ، بیوی کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ بیٹے کی نظروں میں اب اسکی کوئی عزت ہے نہ اہمیت تو اس کے نازک احساسات پر زبردست چوٹ لگتی ہے۔ بہو کو اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے۔ جس نے اس کا بیٹا چھین لیا ، جب اس کی ممتا پر چوٹ لگتی ہے تو برداشت نہیں کر پاتی۔ ۔۔۔۔۔۔ تو دنیا اس کو کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 

دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے والے ہوتے ہیں شوہر نامدار ، جن کی ناسمجھی ناتجربہ کاری کوتاہ فہمی حقوق سے نا واقفیت غلط رویہ ساس بہو کو اپنا دشمن بنا دیتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت کبھی ماں کی حق تلفی کرتے ہیں تو کبھی بیوی کی ، یہ انکا غلط رویہ اور عدم توازن ساس بہو کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے ، دنیا کہتی ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوگئی ہے ، ان دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن کس نے بنایا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر کوئی غور نہیں کرتا ذرا سوچئے کیا یہ بات غور طلب نہیں؟ آخر عورت کو کب تک قصوروار ٹھیرایا جاتا رہے گا؟ مرد جس کو قوام بنایا ہے اس کا فرض نہیں کہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھےمرد نہ صرف یہ کہ حقوق کو ادا کرے بلکہ حقوق کی حفاظت بھی کرے تو ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے گھر کو سکون و آرام کا گہوارہ بنا سکتی ہیں اور کائنات میں رنگ بھر سکتی ہیں۔

No comments: