Wednesday 30 November 2011

تحديد يوم عاشوراء-- السعودية 1433

تحديد يوم عاشوراء

موقع فضيلة الشيخ الدكتور سعد بن تركي الخثلان » الأخبار » فتاوى

عنوان الفتوى تحديد عاشوراء لهذا العام1433هـ
رقم الفتوى841
بتاريخ :
الإثنين 03-01-1433 هـ 10:47 مساء
السؤال
متى يكون يوم عاشوراء
لهذا العام (1433هـ) ؟

الجواب:

لم يثبت دخول شهر محرم ليلة السبت الماضي وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين) وعليه فإن يوم الأحد هو غرة شهر محرم ( أي بعد تقويم أم القرى بيوم)، وبذلك يكون يوم عاشوراء هو يوم الثلاثاء11/1/1433هـ حسب تقويم أم القرى والذي يوافقه6/12/2011م والسنة أن يصام يوم قبله أو يوم بعده. والله الموفق
رابط الموقع

ملاحظة...مهمة
" انشرو الفتوى لان فيه من الناس من يحسب عاشورا حسب التقويم الاثنين فيصوم الاثنين وقبله الأحد فيصبح صام 9 و 8 فقط
او يصوم الاثنين فقط ويصبح صام 9 فقط ولم يصم عاشوراء

Saturday 19 November 2011

کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات

کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات
نوٹ: یہ مضمون ممبئی کے ماہنامہ فری لانسر کی خصوصی اشاعت’’ علماء بیزاری نمبر‘‘(نومبر ۲۰۱۱ء) میں شائع ہوچکا ہے۔ 
عبد ا لصبور ندوی جھنڈا نگری
بات چل نکلے تو ۔۔۔کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات۔ سو آج کل ہر طرف ’’تبدیلی‘‘کی بات ہو رہی ہے،کاہے کی تبدیلی؟ یہ بات پوچھ بیٹھئے تو ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ سنائی دیں گی۔ چہرے کی تبدیلی، پارٹی کی تبدیلی ، جمعیت کی تبدیلی،کردار کی تبدیلی،بر سر اقتدار افراد کی تبدیلی،نظام اور سسٹم کی تبدیلی یا اپنے ذاتی حالات کی ؟ خیر یہاں پر جو گفتگو کی جارہی ہے وہ ہے علماء کے کردار کی تبدیلی، لوگ منہ پہ آئی بات بے جھجھک کہہ اٹھتے ہیں:’’آج کے مولویوں سے اللہ کی پناہ‘‘۔ لیکن کیا اس کے باوجود بھی لوگ علماء سے بیزار ہورہے ہیں، اپنا تعلق توڑ رہے ہیں؟ اس لئے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ در حقیقت لوگ علماء سے بیزار ہیں یا نہیں؟ یا صرف سماج کا ایک طبقہ بعض علماء کی بد اعمالیوں اور دھاندلیوں کو دیکھ کر حیران و پریشان ہے۔
سچائی یہ ہے کہ اس دور میں علمائے سوء کی کثرت کے باوجود عوام الناس کی اکثریت علماء کو ہی قبلہ و کعبہ سمجھتی ہے، اور علماء بیزاری مخصوص مہم کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے، ہاں یہ بات پورے وثق سے کہی جاسکتی ہے کہ علماء کی ایک اچھی تعداد اپنا حقیقی منصب و مقام بھول کر مقدس نبوی مشن سے دامن چھڑانے پر آمادہ ہے، اور یہ چیز عوام سے زیادہ صحیح الفکر علماء ہی سمجھ سکتے ہیں۔
جب قول و فعل میں تضاد کی بہتات ہونے لگے ، کتمان حق ، احقاق باطل ، عیاری اور بیہودہ سیاسی داؤں پیچ علماء کا شعار بننے لگے، منصب اور عہدوں کا استحصال ہو ، تو عوام محسوس کرتی ہے کہ کچھ غلط ہورہا ہے، علماء کے کردار پر یہ رنگ نہیں سجتے، علماء کو انفرادی شناخت بنانی چاہئے اور علمائے سوء کی جگہ مخلص علماء کو آنا چاہےئے، اور منہ تک آئی بات کہاں رکتی۔ آئیے ذیل کی سطور میں دیکھیں کہ لوگ کن قسم کے علماء سے بیزار ہیں اور ایسے علماء کے بارے میں شریعت مطہرہ کیا حکم صادر کرتی ہے:
علمائے سوء اور ان کی صفات:
علمائے سوء وہ لوگ ہیں جو قرآن و حدیث کے احکام و مسائل پر دسترس رکھتے ہیں مگر اللہ کی آیتوں کو معمولی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں، جیسا کہ اہل کتاب کے علماء کا شعار تھا۔ اور یہ لوگ مذہب اسلام کے لئے نہایت خطرناک ہیں انکی شکلیں اور صفات ملاحظہ کریں: 
۱۔ باطل کی شکل میں حق کا اظہار کرنے کی بھر پور قدرت رکھتے ہیں ، شرعی اصطلاحات جیسے مطلق مقید، مجمل مفسر میں الجھا کر اور شاذ اقوال کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں ، ظالم کی مدد اور مظلوم کی رسوائی کا سامان ایسے ہی علماء تیار کرتے ہیں۔
۲۔ فتویٰ اور قضاء کے میدان میں اونچے مناصب ملتے ہیں اور اپنے غلط فتوؤں کے ذریعے عوام کو فتنے میں ڈالتے ہیں جس پر ذرائع ابلاغ انکی ستائش کرتے ہیں اور یہ بُرے علماء پھولے نہیں سماتے ۔ موجودہ زمانے میں یہ بہت عام ہے۔
۳۔ منصب اور مال کے حصول کے لئے اللہ کی کتاب اور اس کے احکامات کو توڑمروڑ(تحریف) کر پیش کرنا علماء سوء کا وتیرہ ہے۔ یہ لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے کر پورے سماج کو ایک بڑے اختلاف اور فتنے میں ڈال دیتے ہیں۔
۴۔ قول و عمل میں تضاد: علامہ اب قیم ؒ کہتے ہیں :’’علمائے سوء اپنے اقوال کے ذریعے جنت کے دروازے پر بیٹھ کر بلاتے ہیں اور اپنے اعمال کے ذریعے انہیں جہنم کی طرف ہانک رہے ہوتے ہیں ، جب جب ایسے لوگ زبانی دعوت دیتے ہیں تو ان کے اعمال چیخ پڑتے ہیں کہ اس کی بات نہ سُن‘‘۔
علماء کا سماج میں بڑا عظیم مقام و مرتبہ ہے ، مگر افسوس علماء جب عوام کی طرف سے بے پناہ عزت واحترام اور محبت پاتے ہیں تو وہ لالچی کی حیثیت سے اس عوامی ثقاہت کو موقع پرست بن کر بھنانے میں لگ جاتے ہیں ، جو آگے چل کر امت کے درمیان تفرقہ اور فساد برپا کرتے ہیں ، آپ ایسے لوگوں کو ان علامات سے پہچان سکتے ہیں:
علمائے سوء کی علامتیں
۱۔ ان کے دلوں سے اللہ کا خوف ختم ہوجانا، اور جس کے دل سے اللہ کا خوف ختم ہوجائے وہ عالم نہیں ہوسکتا، اللہ فرماتا ہے ’’انما یخشیٰ اللہ من عبادہ العلمآء‘‘(فاطر:۲۸)
۲۔ دلوں میں کجی کے باعث شکوک و شبہات کی پیروی اور فتنہ طلبی۔
۳۔ علم کو چھپانا، چاہے وہ شخصی مصلحت کے لئے ہو یا خوف اور بزدلی کے نتیجے میں، ایسے لوگوں کی اللہ نے سخت مذمت کی ہے۔
۴۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا۔ اور یہ علامت مولویوں میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔
۵۔ امراء و حکام و افسران کے پاس کثرت سے جانا ان کی خوش آمد و چاپلوسی کے ذریعے احکامات کو مروڑ کر پیش کرنا۔
۶۔بلا وجہ کی لڑائیوں اور اختلافات کو جنم دینا جو امت کی تفریق کا سبب بنے۔
۷۔معصیت کا مسلسل ارتکاب اور بدعت و خرافات سے لگاؤ بڑھ جانا۔
۸۔ ہفوات و بکواس کی پیروی نیز شخصیات و جمعیات کی بلا وجہ تجریح و تفسیق۔
۹۔ لوگوں کے سامنے کبر وغرور کا انداز اپنانا۔
۱۰۔ لوگوں سے چندے اکٹھا کرکے اپنی بنیاد مضبوط کرنا اور حساب مانگنے پر کہنا: کہ حساب تو اللہ کو دون گا۔
یحیٰ بن معاذ ؒ دنیا طلب علماء سوء کو خطاب کر کے کہتے ہیں:’’ اے علم والو! تمہارے محل تو قیصر کے محل ہوگئے، تمہارے گھر کسریٰ کے گھر ہو گئے، تمہارے کپڑے شاہی ہوگئے، تمہیں جالوتی پَر لگ گئے، تمہاری سواریاں قارونی ہوگئیں،تمہارے برتن فرعونی ہوگئے،تمہارے گناہ جاہلیت کو پچھاڑ گئے، تم نے شیطانی راستوں کو چُنا، آخر کہاں گئی شریعت محمدیہ؟
حافظ ابن مبارکؒ کہتے ہیں: وھل أفسد الدین الا الملوک وأحبار سوء و رُھبانہا (کیا دین کو بادشاہوں ، بُرے علماء اور راہبوں نے خراب نہیں کیا؟)
علمائے سوء کا اُخروی انجام:
اسامہ بن زید ؒ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا،پھر اس کی انتڑیاں نکالی جائیں گی اور اسے گھمایا جائے گا، جس طرح گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے، اسی اثناء جہنمی اس کے گرد جمع ہونگے اور پوچھیں گے کہ تمہیں کیا ہوگیاتم تو لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے تھے،اور بُرائیوں سے روکتے تھے،وہ عالم کہے گا: جس بھلائی کا حکم دیتا تھا اس کو خود نہیں کرتا تھا، جس بُرائی سے لوگوں کو میں روکتا تھا وہی بُرائی میں کرتا تھا‘‘(بخاری، مسلم)
دوسری حدیث میں اللہ کے نبیﷺ فر ماتے ہیں: ’’ معراج کی رات کچھ لوگوں کو دیکھاجن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطباء(مقررین) ہیں،جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور خود کو بھول جاتے ہیں اور وہ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں‘‘(الصحیحہ للالبانی: ۲۹۱)
خاتمہ:
محترم قارئین! علمائے سُوء ہر دور میں رہے اور حق کو دبانے کی ہمیشہ کوششیں کیں، معتصم کے زمانے میں جب خلق قرآن کا فتنہ اٹھا، امام أحمد بن حنبلؒ کے سوا سارے علماء نے ہار مان لی تھی یا خاموش ہوگئے تھے، چنانچہ درباری ملاؤں نے امام أحمد کو سزا دلانے کی ٹھانی، ابن أبی داؤد اور مُریسی جیسے چاپلوس اور دنیا دار علماء نے امام احمد کو پابند سلاسل کرایا، پس زنداں دھکیل دیا گیا، ایسی اذیت ناک سزائیں دی گئیں جن سے آپ کا بدن ہمیشہ لہو لہان رہا،مگر اس فتنے میں وہ ثابت قدم رہے اور اسلامی عقیدے کی پاسبانی میں سارا دکھ جھیلا۔ آج بھی ابن أبی داؤد اور مُریسی جیسے دنیا دار علمائے سوء کی کمی نہیں ہے، ہمارے چاروں طرف ایک بڑی تعداد ایسے علماء کی نظر آرہی ہے جو عوام کو بے وقوف بنا کر بیزاری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ آج جماعتی پرچوں کا بھی بُرا حال ہے، جیسے ’صوت الحق‘ اور التبیان‘ کے ما بین دینی صفحات پر ذاتیات کو لیکر بحث وتکرار کی بے جا نمائش لگی ہوئی ہے، صفحے کے صفحے سیاہ کئے جارہے ہیں، جواب در جواب اور اوچھے جملے عام قارئین کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ یہ علماء در اصل نہ محراب و منبر کے حقدار ہیں اور نہ ہی عوام کے احترام و محبت کے۔
اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ علمائے امت کو اپنی اصلاح کی توفیق دے، اُن کا ظاہر و باطن ایک ہوجائے ، اپنے نفس کے محاسبہ کی توفیق ہو اس سے قبل کہ اللہ سخت محاسبہ کرے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔