Tuesday 22 June 2010

WE PROTEST AGAINST THE UK BAN ON DR. ZAKIR NAIK

Renowned Islamic scholar and founder of Peace TV Dr. Zakir Naik has been banned from the UK. Dr. Naik was planning to speak at different events in Sheffield, London and Birmingham at the end of the June 2010.

The decision to ban his entry into the UK was taken by Home Secretary Teresa May who said, "Numerous comments made by Dr Naik are evidence to me of his unacceptable behaviour. Coming to the UK is a privilege, not a right and I am not willing to allow those who might not be conducive to the public good to enter the UK."
In a press release issued by the Islamic Research Foundation on 11th June, Dr. Naik categorically denied glorifying terrorism, outlining his outright condemnation of 'acts of violence'. He also said he was seeing legal advice over the misrepresentation of his views.
This ban has shocked many Muslims in the UK & In all world who were looking forward to hearing Dr. Naik in the events organised. However, at the same time, many organisations have supported the Home Secretary's decision to ban Dr. Naik.


What do you think?


Is the ban on Dr. Naik justified or should it be lifted in interests of freedom of speech?


Should we support him or keep quiet??


Your response will be highly appreciated.


May Allah's Blessings be with you all! Ameen!

Tuesday 1 June 2010

ذہبئ وقت اور مفکرجماعت -کچھ یادیں ، کچھ باتیں

عبد ا لصبورعبد النور ندوی
    
ذہبئ وقت اور مفکرجماعت
کچھ یادیں ، کچھ باتیں

ذہبئ وقت، فقیہ ملت ممتازعالم دین ، شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد رئیس الأحرار ندوی کا سانحہ ارتحال اور مفکر جماعت، ممتاز دانشورو بے باک عالم دین ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی وفات حسرت آیات نے جماعت اہل حدیث کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، گزشتہ سال ۲۰۰۹، میں ان دونوں بزرگوں کے انتقال نے سلفیان عالم کو غم زدہ کردیا، جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ یہ دونوں شخصیات علمی ذخیرہ تھیں، معلومات کا سمندر تھیں، ان کے سامنے گفتگو کرنے والے بہت محتاط رہتے تھے، اسٹیج پر ان کی موجودگی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی، ان کے قلم کو وہ اعتبار حاصل تھاکہ عوام و خواص نام دیکھتے ہی ان کی تحریروں کو سند حجت مان لیتے تھے، یہ سلفیت کے وہ عظیم داعی و مناد تھے، جن سے ہندوستان میں اہلحدیثیت ہمیشہ برگ و بار لاتی رہی، سنت کے نام پر باطل نے بارہا سنت کی شکل مسخ کرنے کی کوشش کی، ان دونوں مبلغوں نے تحفظ سنت کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں۔ انکار حدیث کے بڑھتے فتنے کو لگام کسنے میں ان ہنروران سنت کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ذہبئ وقت علامہ رئیس الأحرار ندوی رحمہ اللہ (۲؍جولائی۱۹۳۷ء۔۔۹؍مئی۲۰۱۰ء)
مورخہ ۹؍ مئی کو شب ساڑھے آٹھ بجے سعودی عرب میں جب یہ اندوہناک خبر ملی کہ علاج کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے سے جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الحدیث وممتاز مفتی،رئیس الاحرار حضرت مولانا محمد رئیس ندوی سوئے عقبیٰ کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
میرے لئے یہ بہت تکلیف دہ حادثہ تھا، مفتی صاحب سے بیحد لگاؤ اورعقیدت تھی، آپ کو پورے دو دہے سے دیکھتا اور جانتا تھا۔اسی وقت ایک پریس ریلیز کمپوز کرکے روز نامہ اردو نیوز جدہ، اردو پوسٹ دبئی، اردو ٹائمز ممبئی، منصف حیدرآباد ،ہماراسماج،ہندوستان ایکسپریس،اور راشٹریہ سہارا کو ای۔میل کیا، اور الحمد للہ اکثرنے خبر شائع کی، جس سے یقیناًانکے پھیلے ہوئے ہزاروں شاگردوں و عقیدتمندوں کو اطلاع ہوئی ہوگی۔
شیر بیشۂ سلفیت مولانا ندوی رحمہ اللہ ایک با کمال محقق عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و فتاویٰ اور فن حدیث پر زبر دست دسترس حاصل تھی، موجودہ دور کے علمائے اہلحدیث کے صف اول میں آپ کا شمار تھا، درجنوں کتابوں کے مؤلف ہیں، آپ کی تالیف ’اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات‘ بے پناہ مقبول ہوئی، یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی شرح بخاری انوار الباری کے جواب میں ہے، پانچ جلدوں پر مشتمل اللمحات میں کوثری فتنے کا سد باب کیا گیا ہے، ملتقیٰ اہل الحدیث کی ویب سائٹ پر شیخ محمد زیاد التکلہ لکھتے ہیں: علامہ رئیس الأحرار ندوی نے کوثریت کے رد میں اللمحات لکھی، ایک مرتبہ انہوں نے عبد الفتاح أبو غدہ کی ایک ملاقات کے موقع پر زبردست سرزنش کی، اور کہا کہ آپ کوثریت کے پراگندہ افکارکی ترویج واشاعت فوری بند کیجئے۔
مولانا رحمہ اللہ اگر چہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ تھے، وہیں تعلیم پائی، لیکن مسلکی حمیت پر ذرا بھی آنچ آنے نہ دی، بلکہ نکھرتے چلے گئے، اور اتنی محنت کی کہ آپ کے اساتذہ( مولانا علی میاں ندو ی رحمہ اللہ، مولانا عبد اللہ عباس رحمہ اللہ ) آپ کی صلاحیت پر عش عش کرتے ، اپنے پاس بٹھاتے اور بسا اوقات آپ سے مستفید بھی ہوتے۔ یہ حقیقت ہے کہ ندوہ کے نصاب میں فقہ حنفی کا بول بالا ہے، لیکن مختلف مسالک کے طلبہ اور اساتذہ کی موجودگی اس کی وسعت ظرفی کی غماز ہے، اگر چند نام چھوڑ دئے جائیں ، تو وہاں مسلکی تعصب کی بو بھی نہیں ملے گی، اور اپنے انداز کا یہ ہندوستان کا منفرد ادارہ ہے۔وہاں فقہ حنفی پر عمل کا اصرار نہیں ہے، اگر مسلک سلف کا متبع کوئی لڑکا وہاں داخلہ لیتا ہے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ ٹھیٹھ سلفی بن کر نکلے ، اور سلفیت کا وہ بے باک ترجمان و علمبردار بن جائے۔
مولانا رئیس الاحرار نے صحیحین کا درس بھی مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ سے لیا تھا، اور آپ کو انہوں نے سند اجازت مرحمت کی تھی، مولانا علی میاں ندوی کو محدث حیدر حسن خان ٹونکی اور محدث کبیر عبد الرحمن مبارکپوری رحمہما اللہ نے سند اجازت عطا کی تھی۔
سنت صحیحہ کے دفاع میں مولانا کا کارنامہ نا قابل فراموش ہے، جامعہ سلفیہ بنارس سے منسلک ہونے کے بعدآپ کو شیخ الحدیث اور مفتی بنایا گیا، تقریبا ۲۵برسوں تک جامعہ سلفیہ بنارس میں بخاری شریف کا درس دیا،آپ کے فتاویٰ کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔آپ کے مقالات و کتب اور ڈائریاں تقریبا ایک لاکھ صفحات پر محیط ہیں۔ آپ کی چند مولفات درج ذیل ہیں:
۱۔اللمحات الیٰ مافی أنوار الباری من الظلمات(پانچ جلدوں میں)، ۲۔سیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (دو جلدوں میں)، ۳۔رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقۂ نماز، ۴۔سیرت ابن حزم ، ۵۔تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق، ۶۔دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ، ۷۔ جمعہ کے احکام و مسائل، وغیرہ ۔ *چار ہزار صفحات پر مشتمل کتاب ’تاریخ یہود ‘ لکھی تھی، جس کا مسودہ گھر ہی سے ضائع ہوگیاتھا۔اس کتاب کے ضائع ہونے کا افسوس آپ کو عمر بھر رہا۔
ڈائری لکھنے کا بڑا شوق تھا، چنانچہ وہ روزانہ عشاء کے بعد بیٹھ کر دن بھر کی کیفیات و حالات لکھا کرتے تھے ، آپ کی ڈائریاں اگر محفوظ ہیں اور کسی کی نظر بد کا شکار نہیں ہوئی ہیں تو ان ڈائریوں سے جواہر پارے کھنگالے جا سکتے ہیں، پھر ان کی اشاعت بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے ، پوری زندگی کتابوں کے درمیان گزار دی۔کوئی بھی ملاقات کے لئے پہنچتا تو آپ کو کتابوں سے گھرا پاتا، اور اکثر ایسا ہوتا کتابوں کے بیچ سو جاتے، باطل فرقوں پر جم کر دھاوا بولتے کہ اسے جواب کی سکت نہ رہتی تھی۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے متعدد اجلاس میں آپ کو بلایا گیا، کسی فقہی مسئلے میں جب اپنے بے باک موقف کو رکھتے تودلائل سن کر بعض دوسرے علماء اپنی رائے سے رجوع کر لیتے، اور اکیڈمی کا اتفاق بھی آپ کی رائے پر ہوتا۔البتہ کچھ ایسے کور چشم ہوتے جو ایک مخصوص فقہ کو زبردستی تھوپنا چاہتے تھے۔
دینی جلسوں میں بحیثیت خطیب بلائے جاتے رہے، اور اس طرح آپ نے تقریر اور تحریر دونوں میدان میں امت کی رہنمائی کی،مولانا رحمہ اللہ عوام وخواص میں یکساں مقبول تھے، مسائل کی دریافت کے لئے عوام الناس کا مرجع تھے، ضرورت اس بات کی ہے کہ فقیہ وقت کے فتوؤں کی اشاعت عمل میں لائی جائے، ان کی زندگی اور کتابوں پر بحث لکھی جائے ، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے سلف کے حالات سے واقف رہیں، انہیں حوصلہ ملے ، ورنہ اپنی جماعت کا المیہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی قدر اور ان کے ورثے کی حفاظت کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتی ، اور وہ اپنی عظیم خدمات کے ساتھ ایسا دفن ہوجاتے ہیں کہ گویا انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ موصوف کی بال بال مغفرت فرمائے،آپ کی خدمات کو قبول فرمائے ، قبر پر شبنم افشانی کرے،اور جنت الفردوس میں آپ کا مسکن بنائے(آمین)
مفکر جماعت علامہ ڈاکٹر مقتد یٰ حسن ازہری رحمہ اللہ (۱۸؍اگست۱۹۳۹ء۔۔۳۰؍اکتوبر۲۰۰۹ء)
دنیائے علم و ادب کی عبقری شخصیت ، ملی اور سماجی اقدار کا فروغ کار ، دانشکدۂ فکر و فن کا نیر تاباں، عرب و عجم کا رابطہ کار ، ایک عظیم و باوقار ہستی ، جسے دنیا علامہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کے نام سے جانتی ہے، مورخہ ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو زمیں اوڑھ کر سو گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مایہ ناز علمی درسگاہ جامعہ سلفیہ بنارس کے صدر ، درجنوں کتابوں کے مولف،متعدد تنظیموں کے سرپرست، مشہور عربی داں، عظیم دانشور ، اور بیباک خطیب علامہ ازہری صاحب کو کچھ عرصہ قبل بلڈ کینسر کا عارضہ لاحق ہوا،لیکن جب پتہ چلا تو اخیر اسٹیج میں پہنچ چکا تھا، دوا و دعا کے ساتھ علاج چلتا رہا، مگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی،چنانچہ اللہ کے اس صابر و شاکر بندے نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔
سر زمین مؤ ناتھ بھنجن ، جس نے پوری دنیا میں اپنی علمی اہلیت و قابلیت اور ہنر مندی کا لوہا منوایا ہے، یہ وہ سر زمین ہے جس کا ذرہ ذرہ نیر اعظم بن کر نکلا، علماء کی سر زمین، ہنر وران کتاب و سنت کی سر زمین ، محدثین و مؤرخین کی سر زمین ، ادباء و انشاء پردازوں کی سرزمیں، شعراء و فنکاروں کی سرزمین، صنعت کاروں و پارچہ بافوں کی سرزمین ، الغرض اس خطہ نے اپنے دامن میں اتنے لعل وجواہر چھپا رکھے ہیں، جس کا شمار مشکل ہے، مگر اس کی عظمت نشاں پر دال ہیں۔
سردار جماعت اہل حدیث،فخر جامعہ سلفیہ بنارس، محبوب مؤناتھ بھنجن ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کوئی محتاج تعارف شخصیت نہیں، اپنوں اور بیگانوں میں ایک مشہور نام، جس کے سبھی گیت گاتے نظر آتے ہیں، جامعہ سلفیہ بنارس آج جس تناور درخت کا روپ دھار چکا ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ ازہری صاحب نے اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا۔اس کی شہرت میں جن علماء و افاضل کا کردار رہا ہے، اس میں ان کا کردار نہایت نمایاں ہے۔
جامعہ ازہر مصر سے ادب عربی میں بیچلر ڈگری لینے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا، عربی ادب آپ کا اختصاص تھا، اور اسی موضوع پر کئی کتابیں بھی تالیف کیں، مشہور سیرت کی کتاب رحمۃ للعلمین کاعربی میں ترجمہ کیا ، جو بیحد مقبول ہوئی،بعض اہم تالیفات وتراجم ملاحظہ فرمائیں: *راہ حق کے تقاضے*خاتون اسلام *قرۃ العین فی تفضیل الشیخین ابی بکر وعمر
* مسألۃ حیاۃ النبیﷺ في ضوء الادلۃ الشرعیۃ۔ الشیخ محمد اسماعیل السلفی گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*نظرۃ الی موقف المسلمین من أحداث الخلیج۔ *حرکۃ الانطلاق الفکری و جہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید ۔مولانا محمد اسماعیل گجرنوالہ (عربی ترجمہ)*تاریخ ادب عربی ۔ أحمد حسن زیات (اردو ترجمہ) پانچ جلدیں۔ * عورت کے متعلق اسلام کا نظریہ* ادب کی حقیقت* مسلمان اور اسلامی ثقافت* دور حاضر میں نوجوان مسلم کی ذمہ داری* معاصر کتابوں اور تاریخ کی روشنی میں بابری مسجد کا سانحہ۔ *مختصر زاد المعاد(اردو)* اصلاح المساجد(اردو)۔
450 سے زائد کتابوں کا آپ نے مقدمہ لکھا، آپ کا مقدمہ و تقریظ کتابوں کو اعتبار بخشتا تھا، اگر ان تمام مقدمات و تقریظات کو یکجا کتابی شکل میں شائع کردیا جائے تو بہت نادر قیمتی علمی اور تحقیقی تحفہ ہوگا۔ جس سے طلبہ وعلماء یکساں طور پر مستفیض ہوسکتے ہیں۔عربی ماہنامہ صوت الامہ کی 40 سال تک ادارت کے فرائض انجام دئے، اردوو عربی میں آپ کے مقالات ومضامین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہیں،عربی زبان کی بے مثل خدمت کے اعتراف میں ۱۹۹۲ء میں صدر جمہوریہ ہند نے اعزاز سے نوازا تھا۔پوری دنیا میں منعقدسینکڑوں اسلامی کانفرنسوں میں آپ بطور مقالہ نگار، خطیب، اور صدر کی حیثیت سے مدعو کئے جاتے رہے۔
آپ نے جماعت اہل حدیث کی تنظیم’’مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘‘کے رکن شوریٰ و عاملہ کی حیثیت سے برسہا برس عظیم الشان خدمت کی ہے۔اس جمعیت کے تین ’’آل انڈیااہل حدیث کانفرنس‘‘ (منعقدہ :مؤ۱۹۹۴ء ؁، پاکوڑ ۲۰۰۴ء ؁ ؁)کے صدر استقبالیہ ہونے کا شرف ڈاکٹر صاحب موصوف کو ہی حاصل ہے۔ یہ وہ انفرادیت ہے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔اور ہرکانفرنس میں آپ کا تحریر کردہ خطبہ استقبالیہ مطبوع شکل میں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔آپ کے خطبہائے استقبالیہ انتہائی قابل قدر معلومات پر مشتمل ہیں جن سے تحریک اہل حدیث اور اس کے خط وخال کو سمجھنے ،اس تحریک کے مد وجزر کو جاننے میں کافی مدد ملتی ہے۔ مجھے یاد ہے مؤ آل انڈیا کانفرنس کے موقع پر جب آپ صدر استقبالیہ تھے، اس وقت کے ناظم جمعےۃ مولانا عبد الوہاب خلجی حفظہ اللہ نے کہا تھا: ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے کہ آج سے تقریبا ستر سال قبل جب مؤ میں آل انڈیا کانفرنس ہوئی تھی اس کے صدر استقبالیہ مشہور سیرت نگار ، صاحب رحمۃ للعالمین علامہ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ تھے اور آج اسی کتاب کے عربی مترجم حضرت ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری اسی سرزمین پر کانفرنس کی صدارت کر رہے ہیں۔
ازہری صاحب کو میں نے قریب سے دیکھا اور جانا ہے، آپ کے ساتھ دو مرتبہ سفر میں بھی رہا، وہ ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ نبھانا جانتے تھے، وہ وقت کے نہایت پابند تھے، مقصد کو ہمیشہ مقدم رکھا، مول بھاؤ کی انکی عادت نہیں تھی،تواضع اور خاکساری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ۲۰۰۰ء ؁ میں جب میں اور عم محترم زاہد آزاد جھنڈا نگری نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کاعلامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں بنارس کا بھی سفر ہوا، جامعہ سلفیہ کے ناظم مولانا عبد اللہ سعود صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا: جامعہ سے علامہ ناصر الدین البانی کا کوئی تعلق نہیں تھا، ہم انکی حیات پر اشاعت کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ ازہری صاحب ساتھ میں تھے، انہوں نے یہ کہہ کر خاموش کیا: ایک مرتبہ البانی صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ جامعہ سلفیہ آکر تد ریس و تحقیق کی خدمت انجام دیں، انہوں نے قبول بھی کیا، مگر بعد میں حالات نے انہیں معذرت کرنے پر مجبور کردیاتھا۔ ؂
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
وہ امت کے مسائل کا حل پیش کرتے تھے، ان کی ذات علم کا بحر ذخار تھی، ایک دنیا مستفید ہورہی تھی،آج دنیا بھر میں انکے شاگردوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جو انکے نقش پر علمی ، تحقیقی اور صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ارتحال نے امت کو خسارے میں مبتلا کردیاہے، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی، تقریبا ۷۲ برس کی عمر پائی، آخری ایام میں کینسر کا پتہ چلا اور پھر فالج کا اٹیک ہوا ، اور وہ اس سے جانبر نہ ہوسکے۔ ۳۰؍ اکتوبر کی شام کو آبائی وطن مؤ ناتھ بھنجن میں ۲۵؍ ہزار سے زائد سوگوار وں کے بیچ منوں مٹی کے نیچے دفن کردئے گئے۔ غفر اللہ لہ وأ سکنہ فی فسیح جناتہ وہو علی کل شئی قدیر۔