Tuesday 27 April 2010

I am a Muslim


Open your eyes friends and kindly see the truth..........

Visit Us @ www.MumbaiHangOut.OrgAny girl can go to university wearing what she wills and have her rights and freedom?

But when a Muslim Girl/Lady wears Hijab, they prevent her from entering the university!


When a western woman stays at home to look after her house and kids she is respected by the entire society because of sacrificing her life to her house

But when a Muslim woman does so by her will, they say, "she needs to be liberated"!


A nun can be covered from head to toe in order to devote herself to God, right?
Visit Us @ www.MumbaiHangOut.OrgBut, then, if a daughter of Muslim-Ummah does the same, why is she oppressed?


A Jew can grow his beard in order to practice his faith
But when Muslim does the same, he is an extremist and terrorist!
Visit Us @ www.MumbaiHangOut.OrgWhen a child dedicates himself to a subject, he has potential and talent..

Visit Us @ www.MumbaiHangOut.OrgWhen a Jew kills someone, religion is not mentioned, but when a Muslim is charged with a crime, it is Islam that goes to trial! < BR>When someone sacrfices himself to keep others alive, he is noble and everyone respects him.
But when a Palestinian does that to save his son from being killed, his brother's arm being broken, his mother being raped, his home being destroyed, and his mosque being violated --- He gets the title of 'terrorist'! Why? Because he is a "Muslim"!

When there is trouble, we accept any solution available, right? However, if the solution lies in Islam, we refuse to take a look at it.
Visit Us @ www.MumbaiHangOut.OrgWhen s omeone drives a perfect car in an improper manner, no one blames the car....
Visit Us @ www.MumbaiHangOut.Org



But when any Muslim makes a mistake or treats people in a bad manner - people say "Islam is the reason"!




Without giving a glance at Islamic laws, people believe what the newspapers say.

Interview with Justice Tahir Ali Ansari (Supreme Court Nepal) By: Abdus Saboor Nadvi

جسٹس سپریم کورٹ عالی جناب طاہر علی انصاری سے ایک ملاقات
انٹرویو: عبد ا لصبور ندوی جھنڈانگری


عزت مآب جناب طاہر علی انصاری (جسٹس سپریم کورٹ، نیپال) ملک کی ایک معروف شخصیت، شہرت اور ترقیوں کی اوج پر ایک فاضل اسم گرامی ہے۔ پہلے مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہے جنہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، ایک فائق و باصلاحیت، محترم ہستی جس نے آئین وعدالت کی خدمت کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت کا کوئی موقع نہیں گنوایا، قرآن کریم کا جب نیپالی میں ترجمہ موجود نہیں تھا آپ نے ترجمہ و تحقیق میں بھر پور حصہ لیا اوراہل نیپال کو ایک نایاب تحفہ دیا، متعدد دینی کتب کا نیپالی ترجمہ زیر طبع ہے، بے شمار خصوصیات کے حامل اس فاضل جج سے گذشتہ سال کاٹھمانڈو میں ان کے دولت کدے پر ملاقات و زیارت کی سعادت میسر ہوئی، پیش ہے اس موقع پرکی گئی گفتگو کے اہم اجزاء۔ (ع.ص.ن)

س: مختصر تعارف۔۔۔؟
ج: میرا نام طاہر علی انصاری ہے، بھجاوا، نول پراسی میں ۱۵؍اگست ۱۹۴۹ء ؁کو پیدائش ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ میں ہوئی، ٹھوٹھی باری سے ہائی اسکول پھر سسوا بازار سے انٹر میڈیٹ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد گورکھپور یونیورسٹی سے بی،اے کیا۔ کاٹھمانڈو یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیاا ور پھر پولیٹکل سائنس سے ایم، اے۔
س: محکمۂ عدالت و انصاف میں آپ نے کب سے کام شروع کیا؟
ج: ۱۹۷۱ء ؁سے میں سرکاری ملازمت سے جڑا اور سب سے پہلے جوڈیشیل ڈپارٹمنٹ میں سیکشن آفیسر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
س: یعنی 38؍برس ہوئے، اتنا طویل عرصہ آپ نے سرکاری محکموں میں گذارا، جج کی کرسی پر آپ کب فائز ہوئے؟
ج: جج بننے سے قبل پبلک پرازکیوٹر، گورنمنٹ پلیڈر، وزارت قانون میں انڈر سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد مجھے ضلع ’’رُکُمْ‘‘ میں ضلعی عدالت کا جج بنایا گیا اور وہیں سے فیصلوں کی شروعات ہوئی۔
س: الحمدللہ آپ اب سپریم کورٹ کے جج ہیں، آپ نے ایک تاریخ رقم کی ہے، اس سے پہلے کن شہروں میں آپ نے عدالتی خدمات انجام دیں؟
ج: رکم، پالپا اور کنچن پور میں ضلع جج کے طور پر کام کیا، کاٹھمانڈو، براٹ نگر اور راج براج میں زونل جج کی حیثیت سے کام کیا، باگلنگ، پوکھرا، ہتھوڑا اور بٹول میں اپیلیٹ کورٹ کا جج رہ چکا ہوں۔ ۲۰۰۵ء ؁ میں مجھے میرے کاموں کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا، یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
س: آپ نیپال میں لمبے عرصہ سے عدالتی خدمات انجام دے رہے ہیں، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کبھی بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: میں نے محنت کرنا سیکھا ہے اور اسی کی عادت پڑگئی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہاں مذہبی اعتبار سے کوئی بھید بھاؤہے۔
س: ملک اب سیکولر و جمہوری سسٹم میں تبدیل ہوچکا ہے، کیا اب بھی تبدیلئ مذہب کی آزادی کا قانون نہیں بنا؟
ج: لوگ اپنی خواہش کے مالک ہیں، جو دھرم چاہیں اپنائیں، چونکہ دستورسازی کا کام چل رہا ہے، جب تک پورا نہیں ہوجاتا، پرانا آئین چلتا رہے گا، ویسے بھی اس قسم کے معاملات عدالت میں اب تک نہیں پہونچے ہیں۔
س: ملک میں کل کتنے اور کون کون مسلمان جج ہیں؟
ج: عدالتی میدان میں پہلے میں تن تنہا مسلمان تھا، اب الحمدللہ مجھ کو لے کر چار مسلم جج ہیں، کاٹھمانڈو اپیلیٹ کورٹ کے جج علی اکبر مکرانی، سلِّیان کے ضلع جج جنید آزاد اور نیپال گنج کے اپیلیٹ کورٹ کے جج صلاح الدین اختر صدیقی۔
س: عدالتی محکموں میں ججوں کا انتخاب کون کرتا ہے؟
ج: لوک سیوا آیوگ (پبلک سروس کمیشن) کے لوگ امتحانات و انٹرویو لینے کے بعد عہدے متعین کرتے ہیں کہ کون کس عہدے کے قابل ہے۔
س: ما شاء اللہ آپ نے تحریر و تالیف کا کام خوب کیا ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
ج: قانون اور آئین سے متعلق سیکڑوں مضامین نیپالی اور انگریزی زبان میں (درجنوں رسائل و اخبارات) چھپ چکے ہیں، نیپالی میں ایک کتاب لکھی تھی جس کی خوب پذیرائی ہوئی تھی، اس کا نام (فیصلہ لیکھن ودھی) ’’فیصلہ لکھنے کا طریقہ‘‘ ہے جسے پیروی پرکاشن کاٹھمانڈو نے شائع کیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق انگریزی میں ایک کتاب (Islam in Nepal and Bhutan)(نیپال اور بھوٹان میں اسلام) یہ کتاب پیرس سے فرنچ زبان میں چھپ چکی ہے، قرآن کریم کے نیپالی ترجمے میں مشارکت ، جوزیر طبع ہے۔ (اب چھپ چکا ہے)
س: نیپالی مسلمانوں کو پچھڑے پن سے نکلنے اور اونچے مناصب تک پہونچنے کے لئے کوئی نصیحت، پیغام دینا چاہیں گے؟
ج:ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم سسٹم کے تحت تعلیم حاصل نہیں کرتے، کوئی توازن قائم نہیں رکھ پاتے ، جیسا دوسرے لوگ کرتے ہیں، آپ کو اگر سرکاری محکموں میں خدمت کا جذبہ ہے تو ایک سسٹم کے تحت سرکاری نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کریں اور خوب حاصل کریں، پھر سرکاری امتحانات میں حصہ لیں، اگر آپ نے محنت کی ہوگی اور ارادے مضبوط ہونگے تو پھر ان شاء اللہ کوئی بھی آپ کو اعلیٰ مناصب تک پہونچنے سے نہیں روک سکے گا۔

Monday 26 April 2010

ترانہ اردو

ترانہ اردو
شاعر: محمد عرفان

سب سے اچھی سب سے میٹھی، سب سے سہانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

اس میں سب پھولوں کی خوشبو، سب پھولوں کی رنگت ہے
سب قدموں کی چاپ ہے اس میں، سب قوموں کی سنگت ہے
سب سے اچھی سب سے میٹھی، سب سے سہانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

صوفی سنتوں اور ولیوں نے اس کا باغ لگایا ہے
خسرو جیسے فنکاروں نے اس کا ساز بجایا ہے
بھکتی کال کے دوہوں والی، پریم دوانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

عشق و وفا کے قومی نغمے اردو گاتی آئی ہے
عشق و وفا کے نام پہ اردو دھوم مچاتی آئی ہے
عشق و وفا جتنے ہیں پرانے اتنی پرانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

ملتی ہے اوراقِ غزل میں روز گلابوں کی مانند
بند کھلی آنکھوں میں اردو پیار کے خوابوں کی مانند
ایک حقیقت ایک فسانہ ایک کہانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

اردو اک تحفہ ہے نرالا اردو اک گلدستہ ہے
اردو ہے تہذیب کی منزل اردو سچّا رستہ ہے
سب کے من کو جیت چکی ہے وہ من مانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

آجائے جس وقت زباں پر زور دکھا کر رہتی ہے
نفرت سے ٹکرائے تو دیوار گراکر رہتی ہے
ایک تلاطم، ایک سمندر، ایک روانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

اردو اپنا جینا مرنا، اردو کھانا پیناہے
اردو اپنی روزی روٹی اردو خون پسینہ ہے
اردو اپنا رزق ہے ، اپنا دانہ پانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

دنیا والو! اس کو بھلانا، اس کو مٹانا کھیل نہیں
بن اردو کے دل والوں میں کوئی محبت میل نہیں
اردو سب سے پیاری زباں ہے سب کی زبانی اردو ہے
جگ میں لاکھوں لاکھ زبانیں، اردو رانی اردو ہے

Wednesday 14 April 2010

آہ! شیر بنگال شیخ عبد المتین سلفی

عبد الصبور ندوی جھنڈانگری
آہ! شیر بنگال شیخ عبد المتین سلفی
سنیچر کا دن تھا، جنوری ۲۰۱۰ء ؁ کی۱۶؍تاریخ تھی، صبح کے گیارہ بج رہے تھے، کسے پتہ تھا کہ اللہ کا یہ نیک بندہ جسے دنیا شیخ عبدالمتین سلفی کے نام سے جانتی ہے، اپنوں و بیگانوں کو غمزدہ کرجائے گا، حسب معمول اپنے دفتر میں بیٹھے متعدد کاغذات کا مطالعہ کررہے تھے، یکایک قضائے حاجت محسوس ہوئی، فراغت کے بعد پورا جسم کانپنے لگا، وہاں موجود لوگوں نے آپ کو تھاما اور فوراً میڈیکل کالج کے ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئے، راستے ہی میں تھے، پروانۂ اجل آپہونچا، اس سے قبل کہ ہاسپٹل پہونچتے، روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، اس وقت گھڑی کی سوئیاں 11:45پر اٹکی ہوئی تھیں، بر صغیر ہندونیپال، پاکستان و بنگلہ دیش کے علاوہ خلیجی مملک میں آپ کے انتقال کی خبر بجلی بن کر گری، آپ کے عقیدتمندوں، شاگردوں اور محبین کا حلقہ اتنا وسیع ہے جو جماعت کے بہت کم لوگوں کے حصہ میں یہ شرف آیا ہے، سانحۂ ارتحال پر ہر شخص محو حیرت، ساکت، دم بخود، کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اللہ اپنے اس مخلص بندے کو اتنا جلدی اپنے پاس بلالے گا۔
ایک عظیم علمی و دینی شخصیت کی وفات نے بنگلہ دیش و ہندوستان کو خصوصاً ایک بڑے خسارے سے دوچار کردیا ہے، سلفیت کی نشر واشاعت اور شرک وبدعات کی بیخ کنی میں ہر طرح کے مصائب و آزمائشوں کو جھیلنے کا یارا رکھنے والا یہ بطل عظیم مدتوں رلاتا رہے گا۔ اسلام کی سربلندی کی خاطر مرمٹنے والا یہ مرد مجاہد اپنے پیچھے گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑ گیاہے، وہ نقوش سلفیت کی دعوت میں مشغول دعاۃ کے لئے ان شاء اللہ نسخۂ کیمیا ثابت ہونگے، وہ نقوش جامعۃ الامام البخاری کے حالیہ ذمہ داران کو وقتاً فوقتاً درس دینے کا کام کرتے رہیں گے، وہ نقوش، توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی ترقی کے لئے راہیں ہموار کریں گے، ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ سے خوب علمی،دعوتی اور رفاہی خدمت لی، بنگال وبہار کے سنگم پر ایک عظیم علمی قلعہ کی تعمیر کی جو آج جامعۃ الامام البخاری کے نام سے ہند وبیرون ہندایک معروف نام بن چکا ہے،تعلیم نسواں کے لئے علیحدہ کالج کلیہ عائشہ صدیقہ کے قیام نے اس خطہ کی اہم ضرورت پوری کی، اس کے علاوہ اطراف واکناف کے مواضعات میں مکاتب کا قیام، رفاہی، خیراتی اداروں کا نظم، ہند وبیرون ہند متعدد ملی دعوتی تنظیموں سے ربط۔ یہ سارے کام شیخ کی عظمت پر شاہد ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے ۲۰۰۴ء ؁ میں پاکوڑ کانفرنس کے موقع پر شیخ سے ملاقات ہوئی اور وہ آخری ثابت ہوئی، آپ نے مرکز التوحید کے وفد (جس میں میں بھی شامل تھا) کو کشن گنج زیارت کی دعوت دی اور آناً فاناً پروگرام ترتیب دیا گیا، کانفرنس کے اختتام پر کشن گنج پہونچے، شہر سے متصل معہد آباد ایک علمی بستی نظر آئی، جہاں وسیع خطہ اراضی پر قائم جامعۃ الامام البخاری کی پر شکوہ عمارتیں اور کچھ فاصلے پر نسواں کالج کی دلکش بلڈنگیں، اور ان میں طلبہ و طالبات کے ازدحام نے ایک عجیب علمی فضا قائم کردی ہے، پرسکون ماحول دلکش مناظر کے بیچ یہ عظیم دینی درسگاہ ہزاروں تشنہ لبوں کو قرآن وسنت کے جام سے سیراب کررہا ہے۔ ایک روز عشاء کے بعد جامعہ کے پرنسپل مولانا مزمل حق مدنی صاحب کی خواہش پر طلبہ کے سامنے وفد میں سے میں اور عم مکرم جناب زاہد آزاد جھنڈانگری نے تاثرات کا اظہار کیا اور ناصحانہ گفتگو ہوئی۔
والد محترم جناب مولانا عبدالنور سراجی حفظہ اللہ کا شیخ سے محبانہ تعلق تھا، جو ہمیشہ نبھایا،نیپال کے متعدد دعوتی اسفار میں ہمیشہ ساتھ رہے، والد صاحب شیخ کے کارناموں کو یاد کرکے روہانسے ہوجاتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بہت جلد بلالیا۔
عرب مشائخ آپ کے بیحد قدردان تھے، ان کی عملی لیاقت ودعوتی صلاحیت کے معترف تھے، اسی لئے ان کے انتقال کی خبر 25عربی ویب سائٹوں پر نشر کی گئی، کویت کی اہل حدیث ویب سائٹ پر شیخ ابو مروان ہاشم لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالمتین سلفی جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل تھے، نسلوں کی نشو ونما اور تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، وہ مسلم نوجوانوں کو علمی اور اقتصادی دونوں حیثیت سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، دعوتی میدان میں عظیم عزم و ارادے کے مالک اس شخصیت نے اپنے خطے میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا تھا،جامعۃ الامام البخاری قائم کرکے علماء و دعاۃ کی ٹیم تیار کی، کلیہ عائشہ صدیقہ قائم کرکے خاتون داعیات پیدا کئے،انجینئرنگ کالج قائم کرکے مسلم نوجوانوں کو تکنیک اور پیشہ سے جوڑا، بچوں کے لئے عصری ادارے قائم کئے، عقیدۂ توحید کی نشر واشاعت کے لئے اردو میں مجلہ ’’پیام توحید‘‘ نکالا، علم اور دعوت کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے، آج بنگلہ دیش میں جو اہل حدیثیت کی چمک دمک ہے، اس میں بہت حد تک شیخ کا کردار رہا ہے، منہج سلف کے اس ترجمان نے بنگالی اور اردو زبان میں متعدد کتابیں لکھیں اور ترجمے کئے‘‘۔
یہاں شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا جارہا ہے، جسے درجنوں عربی ویب سائٹوں نے نشر کیا ہے:
نام: عبدالمتین بن عبدالرحمن سلفی
پیدائش: یکم جنوری ۱۹۵۴ء ؁، بالا پتھر (مالدہ، بنگال)
علمی لیاقت: (۱) سند ’’ممتاز المحدثین‘‘ عربی اسلامک مدرسہ بورڈ مغربی بنگال۔ (۲)’’ سند فضیلت‘‘ جامعہ سلفیہ، بنارس۔ (۳) کلیۃ الشرعیۃ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بیچلر ڈگری۔ (۴) ڈھاکہ یونیوسٹی سے ایم،اے۔
مناصب وعہدے: (۱) وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ والاوقاف، ریاض کے مبعوث داعی۔ (۲)توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر۔ (۳) جامعۃ الامام البخاری کے ناظم۔ (۴) مدرسہ عالیہ، راحت پور (مغربی بنگال)کے انتظامی کمیٹی کے صدر۔ (۵) تنظیم فارغین سعودی جامعات (ہندونیپال) کے صدر۔ (۶) صوبائی جمعیت اہلحدیث بہار کے رکن۔ (۷)ماہنامہ ’’پیام توحید‘‘ (اردو)اور ماہنامہ ’’توحید یرداک‘‘ (بنگالی) کے نگراں تھے۔
نشاطات و سرگرمیاں: ۱۹۸۰ء ؁ سے دعوتی کاموں کی شروعات، متعدد مدارس میں تدریس، مختلف زبانوں میں بحوث وکتابوں کی تالیف، سعودی ریڈیو میں دعوتی مشارکت، کویت ریڈیو میں ٹیلی فونک پروگراموں کی ترتیب و تنسیق، بنگلہ دیش ریڈیو میں علمی مقالات کی ریڈنگ، اسلامک سنٹرس کا قیام، علاقے میں ضرورت مندوں کے لئے مشروعات کی فراہمی، نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کے لئے دعوتی تنظیموں کا قیام، علاقائی مسائل کے حل میں بنیادی رول، ہندو بیرون ہند سیمینار اور کانفرنسوں میں شرکت۔