Tuesday 24 August 2010

مشہور نیپالی اداکارہ و گلوکار پوجا لاما نے بودھ مت ترک کر کے اسلام کے دامن میں پناہ لی

مشہور نیپالی اداکارہ و گلوکار پوجا لاما نے بودھ مت ترک کر کے اسلام کے دامن میں پناہ لی، پوجا لاما نے اپنے ایک بیان میں کہا: اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے تمام مسائل کا عادلانہ حل پیش کرتا ہے، اسلام کے محاسن نے مجھے صحیح راہ دکھائی، ورنہ میں تاریکیوں میں بھٹکتی رہتی، میں پوری دنیا سے کہنا چاہتی ہوں کہ اسلام صرف امن کا مذہب ہے، اس کا مطالعہ کیجئے اندازہ خود بخود لگ جائیگا۔

Wednesday 11 August 2010

Happy Ramadhan Kareem to Muslim Ummah

Wishing you all the blessings from Allah
and praying for a blessed Ramadan !
• “… turn your face towards the Sacred Mosque;
and wherever you are, turn your faces towards it… ”
The Holy Quran [ 2:150 ]
... 

• Prophet said:
“Whoever stood for the prayers
in the night of Qadr out of sincere
faith and hoping for a reward from Allah,
then all his previous sins will be forgiven”

Monday 9 August 2010

لداخ میں بارشیں، سیلاب، ہلاکتیں اور نہ جانے کیا کیا

 

 کشمیر کے مشرقی خطے لداخ میں اب تک ایک سو تیس سے زیادہ لاشوں کو نکالا جاچکا ہے۔ تاہم اندیشہ کہ لوگ ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
وادی کے مشرقی خطے لداخ میں طوفانی بارش کے بعد تباہ کُن سیلابی ریلے میں مرنے والوں کت تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے جبکہ کسی سو زخمی ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے نے نیم فوجی دستوں کے کئی کیمپ اور سرکاری املاک بہادی ہیں۔
جموں کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل فاروق کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایک سو بارہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تاہم بچاؤ کاروائی میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اتوار کو بھارتی فضائیہ کے جہازوں نے مٹی اور ملبے ہٹانے والی مشینیں لہہ میں پہنچائی ہیں۔ امدادی کارروائی کے دوران پولیس کے چار اہلکار ہلاک اور فوج کے چھہ اہلکار بھی زخمی ہوگئے۔
کئی غیر ملکی سیاح جو علاقے میں موجود تھے امدادی کار روائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
کارگل سے بھی شدید بارش اور سیلاب کی اطلاع ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دو لاکھ چالیس ہزار نفوس پر مشتل لداخ کی تقریباً پوری آبادی زیرِآب ہے ۔ شاہراہوں، ائرپورٹ اور سرکاری دفاتر میں پانی جمع ہوجانے کی سے مواصلات اور ٹرانسپورٹ کا نظام ٹھپ ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق بدھ کی شام زبردست بارش شروع ہوجانے کے بعد جمعرات کو کئی مقامات پر بادل پھٹ گئے اور پانی کی بہت بڑی چادریں لداخ کی بستیوں پر ٹوٹ پڑیں۔
لداخ بھارتی دفاع کے حوالے سے بھی انتہائی حساس ہے، سطح سمندر سے قریب ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر واقع لداخ دنیا کا بلند ترین اور سرد ترین خطہ ہے۔ لداخ کی سرحدیں چین اور تبّت کے ساتھ جا ملتی ہیں۔

سیلابی ریلے نے سب سے زیادہ تباہی چوگلمسر اور لیہہ قصبوں میں مچا دی ہے جبکہ سابو، نیم بازگو اور فیانگ وغیرہ دیہات میں بربادی کا منظر ہے۔
ماہرین سیلاب کے اصل وجوہات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم لداخ کے مقامی شہری محمد کمال کا کہنا ہے کہ خطے میں پہلے سے ہی گلیشئر پگھلنے کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ مسٹر کمال خود بھی سیلاب سے متاثر ہیں۔ کرگل ضلع میں رہنے والے کمال کہتے ہیں: ' میرے سامنے والے مکان میں ایک عورت اپنی بیٹی کے ہمراہ رہتی تھی۔ سیلابی ریلے نے اس مکان کو بہادیا۔ ماں کی حالت تو تشویشناک ہے لیکن بیٹی کی لاش یہاں سے دو کلومیٹر دوُری پر پائی گئی۔'
لداخ کے ایک اور شہری عبدالغنی شیخ نے بتایا کہ دو اگست کو بھی خطہ کی نیم بازگو جھیل میں سیلاب آیا تھا جسکے بعد دس لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
لداخ بودھ اکثریت والے لیہہ اور مسلم اکثریتی کرگل اضلاع پر مشتمل ہے۔ لیہہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور وہاں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی ہدایت پر افسروں کی ایک ٹیم لداخ روانہ کردی گئی ہے اور سرینگر میں بھی اس حوالے سے ایک کنٹرول رُوم قائم کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے اعلیٰ عہدیدار غلام رسول راتھر نے بی بی سی کو بتایا کہ لداخ میں پچھلے اسّی سال میں کبھی بھی اس قدر بارش نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی سیلاب آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'یہ وہی مان سون ہوائیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب آیا ہے۔ بادل پھٹنے سے پانی چادریں گریں اور پہاڑوں سے پتھریلی مٹی کی لاکھوں چٹانیں لیہہ اور ملحقہ قصبوں پر اُمڈ آئی ہیں۔'
لہہ میں طوفانی بارش گھروں کو بہا لے گئی
لداخی شہری بشیر احمد زرگر نے بتایا: 'یہاں کے مکان چھوٹے گول پتھروں اور گارے کے ہوتے ہیں ۔ غریبوں کے مکان تو اس سے بھی عارضی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں مکان سیلاب نے بہا لئے۔'
دریں اثنا لداخ میں تعینات بھارتی فوج کی چودہویں کور کا مواصلاتی نظام بھی ٹھپ ہوگیا ہے، تاہم پندرہویں کور کے ترجمان کرنل ایچ ایس برار نے بتایا کہ فوج نے بچاؤ کاروائیاں شروع کردی ہیں۔ کرنل برار کے مطابق سیلاب کی وجہ فوج کے دو جوان لاپتہ ہیں جبکہ چودہ جوانوں کو بچاؤ کاروائی کے دوران چوٹیں آئی ہیں۔
واضح رہے لداخ بھارتی دفاع کے حوالے سے بھی انتہائی حساس خطہ ہے۔ سطح سمندر سے قریب ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر واقع لداخ دنیا کا بلند ترین اور سرد ترین خطہ ہے۔ لداخ کی سرحدیں چین اور تبّت کے ساتھ ملتی ہیں۔

Sunday 8 August 2010

پاکستان: سیلاب سے ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر


قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے اب تک ملک کے دو صوبوں میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ ساڑھے چھ لاکھ گھر بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں آئے ہیں۔
جمعہ کو اطلاعات کے وزیر مملکت صمصام بخاری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ بارشیں رُکنے کے بعد ہی لگایا جاسکے گا جس کے بعد امداد دینے والے ملکوں سے کہا جائے گا کہ ان بارشوں میں کتنےارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ متاثرین کی یہ تعداد صرف دو صوبوں خیبر پختونخوا اور پنجاب کی ہے جب کہ سندھ کے متاثرین ابھی اس میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار مینوئیل بیسلر نے بتایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے فصلیں بھی زیر آب آگئیں ہیں جس کے باعث بہت سے پاکستانیوں کو مو سم سرما میں خوراک کی امداد پر گزارا کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے پہلی ترجیح متاثرین کو پینے کا صاف پانی اور طبی امداد پہنچانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دو ہزار پانچ کے زلزے میں چھ لاکھ گیارہ ہزار مکانات متاثر ہوئے تھے جب کہ سیلاب سے ساڑھے چھ لاکھ گھر متاثر ہوئے ہیں۔
 سندھ: دس لاکھ لوگوں کے انخلا کا فیصلہ
اسلام آباد سے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے نیوز کانفرس میں کہا کہ سال دو ہزار پانچ میں جب زلزلہ آیا تھا تو اس کے فوری بعد نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے کام شروع کر دیا گیا تھا جب کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے میں ڈیڑھ سے دو ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب میں متاثرہ افراد کی تعداد پینتالیس لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد سولہ سو ہے۔

سیلابی ریلا گڈو بیراج میں

دریں اثنا پاکستان کے صوبے پختون خواہ اور پنجاب کے بعد نو لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا سندھ میں داخل ہونے کے بعد جمعہ کوگدو بیراج میں سے گزر رہا ہے۔ جس سے یہاں دونوں کنارو ں پر کچی بستیوں میں آباد لاکھوں افراد کو خطرہ ہے۔ پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے مزید ڈیڑھ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
ملک میں سیلاب متاثرین کی تعداد پینتالیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ سولہ سو سے زیادہ ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق گڈو بیراج سے ساڑھے بارہ لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزر سکتا ہے۔
گدو بیراج کے اطراف میں کئی علاقے دیکھنے کے بعد ہمارے ساتھی جعفر رضوی نے بتایا ہے گدو بیراج سےگزرنے والے پانی کی سطح بہت بلند ہے مگر ابھی دریا اپنے کناروں سے نہیں چھلکا ہے۔ حکام دونوں جانب سے کچی آبادیوں کے افراد کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اکثرلوگ اپنے مال مویشیوں کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکنے کی مزاحمت کررہے ہیں۔
سیلابی ریلہ اب گدو بیراج سے گزر رہا ہے اور پانی کی سطح بلند ہورہی ہے
نامہ نگار کے مطابق دریا کے کناروں پر پانچ لاکھ افراد آباد تھے جن میں سے حکام کے مطابق پچاسی فیصد افراد کو نکال لیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گدو بیراج سے اس وقت نو لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق سیلابی ریلا سے بیران کو خطرہ نہیں لیکن پشتوں سے خطرہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائیں۔

پنجاب کی صورتحال

پنجاب میں سیلابی ریلوں سے پہنچنے والی تباہی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جمعہ کو راجن پور کے علاقے جام پور میں ڈیڑھ لاکہ کے قریب آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر کوٹ ادوو کے ارد گرد کے دیہات کو بہانے کے بعد سیلابی پانی کوٹ ادوو شہر میں بھی داخل ہو گیا جس کی وجہ سے وہاں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
مظفر گڑھ سے کوٹ ادو کی طرف جاتے ہوئے پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر قائم بجلی گھر بند کر دیے گئے ہیں۔
کوٹ ادو پاور پلانٹ کی باہری دیوار تک پانی پہنچ چکا ہے اس لیے اس کے نو سو میگا واٹ کے یونٹس کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ اس میں تین سو بائیس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والے یونٹ کو بند نہیں کیا گیا
ان میں سے لعل پیر میں واقع ایک تین سو پچاس میگا واٹ کا اے ای ایس پاور پلانٹ اور دوسرا بھی تین سو پچاس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والا پاک جین پاور پلانٹ کے سوئچ یارڈ میں پانی داخل ہونے کے سبب ان کو حفاظتی اقدامات کے تحت بند کر دیا گیا ہے۔
بجلی کی ترسیل کے ادارے پیپکو کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کوٹ ادو پاور پلانٹ کی باہری دیوار تک پانی پہنچ چکا ہے اس لیے اس کے نو سو میگا واٹ کے یونٹس کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ اس میں تین سو بائیس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والے یونٹ کو بند نہیں کیا گیا۔
لاہور سے نامہ نگار مونا رانا کا کہنا ہے کہ محمد خالد کے مطابق اس پاور پلانٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور یہاں بھی بجلی کی پیداوار کو حفاظتی اقدامات کےتحت بند کیا گیا ہے۔
قصبہ گجرات کے کے نواحی علاقے زیر آب آ گئے ہیں جبکہ ضلع رحیم یار خان سینکڑوں چھوٹی بڑی بستیاں زیر آب آ چکیں ہیں۔
ریلیف اینڈ کرائسز مینجمنٹ لاہور کے ترجمان کے مطابق کیونکہ اب سیلاب پنجاب سے سندھ میں داخل ہو چکا ہے اور پنجاب میں متاثر ہونے والے دیہات اور سیلاب کے متاثرین کی تعداد میں کل سے کوئی زیادہ اضافہ نہیں لہذا کوئی نئے اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے اور اب تک سولہ لاکھ کےقریب افراد پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہیں۔
جنوبی پنجاب کے جن اضلاع میں سیلاب نے تباہ کاریاں برپا کیں ہیں وہاں لوگوں شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں کئی افراد ابھی بھی کھلے آسمان کے تلے بے یار و مدد گار بیٹھے ہیں۔ کئی افراد کا کہنا ہے انہیں کھانے اور پینے کا پانی میسر نہیں اور وہ کئی گھنٹوں سے بھوکے ہیں۔
موسم اور سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے ادارے کے مطابق جنوبی پنجاب کے وہ اضلاع جو سیلاب سے تباہ ہویے ہیں وہاں اگلے دو دن کافی شدید بارش ہونے کا امکان ہے جس سے مشکلات میں گھرے ان لاکھوں افراد کی تکلیفوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
خیمہ کیمپوں میں مقیم چودہ لاکھ بچے
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ جمعرات کو تین ہزار سیاحوں کو کالام سے نکالا گیا ہے اور تاحال مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے پچہتر ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے۔ جب کہ ساٹھ کشتیاں لاہور سے ملتان اور سکھر بھیج دی گئی ہیں۔
فائل فوٹو
متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت کی اطلاعات ہیں
بیان کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ میں اٹھارہ ہیلی کاپٹر لوگوں کو نکالنے اور انہیں خوراک اوردیگر سامان فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کے مطابق ہیلی کاپٹروں کے علاوہ جانوروں کے ذریعے بھی سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔
ترجمان کے مطابق آرمی انجنیئر دریائے سوات پر مختلف مقامات پر عارضی پل بنا رہے ہیں تا کہ آمد و رفت جلد بحال ہوسکے۔
بیان کے مطابق سندھ میں گڈو، کشمور، سکھر، گھوٹکی اور قادر پور سے پچیس ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف پہنچایا گیا ہے۔
نوشہرہ، سیلاب کے بعد کی تصاویر
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں سولہ سو لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ گھرانے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جنوبی پنجاب میں دس لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور بیشتر لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف پہنچایا گیا ہے جب کہ پنجاب میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق چالیس افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرین کے لیے کھانے پینے اور ادویات کی کوئی قلت نہیں ہے البتہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور انہیں وبائی امراض سے بچانا ایک بڑا چیلینج ہے۔

بلوچستان: مشرقی علاقوں میں بارش کا سو سالہ ریکارڈ

بلوچستان کےشمال مشرقی علاقوں میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث ہزاروں مکانات منہدم جب کہ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔
بارکھان اور کوہلو کے بعد نصیر آباد اور سبی میں سیلابی ریلوں سے کئی بند ٹوٹ گئے ہیں جب کہ کل رات سے جاری بارشوں کی وجہ سے مذید سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بائیس جولائی سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں میں اب تک ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ میں حکام کے مطابق گزشتہ دو دونوں سے بلوچستان کے مشرقی علاقوں بارکھان کوہلو اور سبی میں جاری بارشوں کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

بالائی سوات میں خوراک کی قلت

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وادی سوات میں سیلاب اور تباہ کن بارشوں کی وجہ سے بالائی سوات تک زمینی آمد و رفت بدستور معطل ہے جس کی وجہ سے تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب افراد کوخوراک اور ادوایات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
اپر سوات سے رکن صوبائی اسمبلی جعفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بالائی سوات کی طرف جانے والے تمام زمینی راستوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت گزشتہ ایک ہفتہ سے بدستور معطل ہے۔ جس کی وجہ سے مدائن، بحرین اور کالام میں رہنے والے افراد کو غذائی اجناس اور ادوایات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں تک جانے والی سڑکوں پر بنے تمام پل سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں اور اب ان مقامات تک زمینی راستے سے جانے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ہیلی کاپٹر سروس ہی واحد ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں اور اگر ان تک فوری طورپر امداد نہیں پہنچائی گئی تو حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں اور وہاں وبائی امراض کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
ایم پی اے کے مطابق کالام، بحرین، مانکیال ویلی، اورتروڑ، تراٹ اور بٹی گرام کے علاقوں میں سیلاب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں اس وقت خوراک، ٹینٹ اور ادوایات کی اشد ضرورت ہے۔