پاکستان: سیلاب سے ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر
قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے اب تک ملک کے دو صوبوں میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ ساڑھے چھ لاکھ گھر بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں آئے ہیں۔
جمعہ کو اطلاعات کے وزیر مملکت صمصام بخاری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ بارشیں رُکنے کے بعد ہی لگایا جاسکے گا جس کے بعد امداد دینے والے ملکوں سے کہا جائے گا کہ ان بارشوں میں کتنےارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ متاثرین کی یہ تعداد صرف دو صوبوں خیبر پختونخوا اور پنجاب کی ہے جب کہ سندھ کے متاثرین ابھی اس میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار مینوئیل بیسلر نے بتایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے فصلیں بھی زیر آب آگئیں ہیں جس کے باعث بہت سے پاکستانیوں کو مو سم سرما میں خوراک کی امداد پر گزارا کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے پہلی ترجیح متاثرین کو پینے کا صاف پانی اور طبی امداد پہنچانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دو ہزار پانچ کے زلزے میں چھ لاکھ گیارہ ہزار مکانات متاثر ہوئے تھے جب کہ سیلاب سے ساڑھے چھ لاکھ گھر متاثر ہوئے ہیں۔
سندھ: دس لاکھ لوگوں کے انخلا کا فیصلہ
اسلام آباد سے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے نیوز کانفرس میں کہا کہ سال دو ہزار پانچ میں جب زلزلہ آیا تھا تو اس کے فوری بعد نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے کام شروع کر دیا گیا تھا جب کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے میں ڈیڑھ سے دو ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب میں متاثرہ افراد کی تعداد پینتالیس لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد سولہ سو ہے۔
سیلابی ریلا گڈو بیراج میں
دریں اثنا پاکستان کے صوبے پختون خواہ اور پنجاب کے بعد نو لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا سندھ میں داخل ہونے کے بعد جمعہ کوگدو بیراج میں سے گزر رہا ہے۔ جس سے یہاں دونوں کنارو ں پر کچی بستیوں میں آباد لاکھوں افراد کو خطرہ ہے۔ پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے مزید ڈیڑھ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ملک میں سیلاب متاثرین کی تعداد پینتالیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ سولہ سو سے زیادہ ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق گڈو بیراج سے ساڑھے بارہ لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزر سکتا ہے۔
گدو بیراج کے اطراف میں کئی علاقے دیکھنے کے بعد ہمارے ساتھی جعفر رضوی نے بتایا ہے گدو بیراج سےگزرنے والے پانی کی سطح بہت بلند ہے مگر ابھی دریا اپنے کناروں سے نہیں چھلکا ہے۔ حکام دونوں جانب سے کچی آبادیوں کے افراد کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اکثرلوگ اپنے مال مویشیوں کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکنے کی مزاحمت کررہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گدو بیراج سے اس وقت نو لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق سیلابی ریلا سے بیران کو خطرہ نہیں لیکن پشتوں سے خطرہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائیں۔
پنجاب کی صورتحال
پنجاب میں سیلابی ریلوں سے پہنچنے والی تباہی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جمعہ کو راجن پور کے علاقے جام پور میں ڈیڑھ لاکہ کے قریب آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر کوٹ ادوو کے ارد گرد کے دیہات کو بہانے کے بعد سیلابی پانی کوٹ ادوو شہر میں بھی داخل ہو گیا جس کی وجہ سے وہاں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
مظفر گڑھ سے کوٹ ادو کی طرف جاتے ہوئے پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر قائم بجلی گھر بند کر دیے گئے ہیں۔
کوٹ ادو پاور پلانٹ کی باہری دیوار تک پانی پہنچ چکا ہے اس لیے اس کے نو سو میگا واٹ کے یونٹس کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ اس میں تین سو بائیس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والے یونٹ کو بند نہیں کیا گیا
بجلی کی ترسیل کے ادارے پیپکو کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کوٹ ادو پاور پلانٹ کی باہری دیوار تک پانی پہنچ چکا ہے اس لیے اس کے نو سو میگا واٹ کے یونٹس کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ اس میں تین سو بائیس میگا واٹ بجلی فراہم کرنے والے یونٹ کو بند نہیں کیا گیا۔
لاہور سے نامہ نگار مونا رانا کا کہنا ہے کہ محمد خالد کے مطابق اس پاور پلانٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور یہاں بھی بجلی کی پیداوار کو حفاظتی اقدامات کےتحت بند کیا گیا ہے۔
ریلیف اینڈ کرائسز مینجمنٹ لاہور کے ترجمان کے مطابق کیونکہ اب سیلاب پنجاب سے سندھ میں داخل ہو چکا ہے اور پنجاب میں متاثر ہونے والے دیہات اور سیلاب کے متاثرین کی تعداد میں کل سے کوئی زیادہ اضافہ نہیں لہذا کوئی نئے اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے اور اب تک سولہ لاکھ کےقریب افراد پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہیں۔
جنوبی پنجاب کے جن اضلاع میں سیلاب نے تباہ کاریاں برپا کیں ہیں وہاں لوگوں شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں کئی افراد ابھی بھی کھلے آسمان کے تلے بے یار و مدد گار بیٹھے ہیں۔ کئی افراد کا کہنا ہے انہیں کھانے اور پینے کا پانی میسر نہیں اور وہ کئی گھنٹوں سے بھوکے ہیں۔
موسم اور سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے ادارے کے مطابق جنوبی پنجاب کے وہ اضلاع جو سیلاب سے تباہ ہویے ہیں وہاں اگلے دو دن کافی شدید بارش ہونے کا امکان ہے جس سے مشکلات میں گھرے ان لاکھوں افراد کی تکلیفوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
خیمہ کیمپوں میں مقیم چودہ لاکھ بچے
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ جمعرات کو تین ہزار سیاحوں کو کالام سے نکالا گیا ہے اور تاحال مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے پچہتر ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے۔ جب کہ ساٹھ کشتیاں لاہور سے ملتان اور سکھر بھیج دی گئی ہیں۔
ترجمان کے مطابق آرمی انجنیئر دریائے سوات پر مختلف مقامات پر عارضی پل بنا رہے ہیں تا کہ آمد و رفت جلد بحال ہوسکے۔
بیان کے مطابق سندھ میں گڈو، کشمور، سکھر، گھوٹکی اور قادر پور سے پچیس ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف پہنچایا گیا ہے۔
نوشہرہ، سیلاب کے بعد کی تصاویر
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں سولہ سو لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ گھرانے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرین کے لیے کھانے پینے اور ادویات کی کوئی قلت نہیں ہے البتہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور انہیں وبائی امراض سے بچانا ایک بڑا چیلینج ہے۔
بلوچستان: مشرقی علاقوں میں بارش کا سو سالہ ریکارڈ
بلوچستان کےشمال مشرقی علاقوں میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث ہزاروں مکانات منہدم جب کہ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔بارکھان اور کوہلو کے بعد نصیر آباد اور سبی میں سیلابی ریلوں سے کئی بند ٹوٹ گئے ہیں جب کہ کل رات سے جاری بارشوں کی وجہ سے مذید سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بائیس جولائی سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں میں اب تک ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ میں حکام کے مطابق گزشتہ دو دونوں سے بلوچستان کے مشرقی علاقوں بارکھان کوہلو اور سبی میں جاری بارشوں کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
بالائی سوات میں خوراک کی قلت
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وادی سوات میں سیلاب اور تباہ کن بارشوں کی وجہ سے بالائی سوات تک زمینی آمد و رفت بدستور معطل ہے جس کی وجہ سے تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب افراد کوخوراک اور ادوایات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔اپر سوات سے رکن صوبائی اسمبلی جعفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بالائی سوات کی طرف جانے والے تمام زمینی راستوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت گزشتہ ایک ہفتہ سے بدستور معطل ہے۔ جس کی وجہ سے مدائن، بحرین اور کالام میں رہنے والے افراد کو غذائی اجناس اور ادوایات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں اور اگر ان تک فوری طورپر امداد نہیں پہنچائی گئی تو حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں اور وہاں وبائی امراض کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
ایم پی اے کے مطابق کالام، بحرین، مانکیال ویلی، اورتروڑ، تراٹ اور بٹی گرام کے علاقوں میں سیلاب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں اس وقت خوراک، ٹینٹ اور ادوایات کی اشد ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment