tag:blogger.com,1999:blog-34443783445266796432024-03-18T22:03:34.974-07:00عبد الصبور عبد النور الندويAbdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.comBlogger146125tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-78554988354879327262020-09-27T20:19:00.003-07:002020-09-30T20:04:33.343-07:00 آہ! پھوپھا جان/ تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی<div style="text-align: left;"><br /></div><p style="text-align: center;"><b><span style="font-size: large;"><span style="color: #800180;"> آہ! پھوپھا جان<br />تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی</span></span><br /></b></p><p style="text-align: left;"><b>عبد الصبور ندوی۔ کاٹھمانڈو</b></p><p style="text-align: left;"><b><br /></b></p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh-ZbUD0zT4oanv_IV9grv9Dp9OORsbhgYwjz4tUHanuGDtXpwtu_ITVa7ERGiIsUgKpbHOGuPVdgT-UN_RPWkhdjf9cQY_UZKEWzQruffH2rBwUHcNTvkn4RyOGF7K7a_a5kjj5z2-x3S2/s714/117929046_4250995584973948_7607906106389705173_n.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="535" data-original-width="714" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh-ZbUD0zT4oanv_IV9grv9Dp9OORsbhgYwjz4tUHanuGDtXpwtu_ITVa7ERGiIsUgKpbHOGuPVdgT-UN_RPWkhdjf9cQY_UZKEWzQruffH2rBwUHcNTvkn4RyOGF7K7a_a5kjj5z2-x3S2/s320/117929046_4250995584973948_7607906106389705173_n.jpg" width="320" /></a></div><br /><b>حضرت مولانا عبد المنان سلفی کو آج رحمہ اللہ لکھتے ہویے کلیجہ پھٹتا ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے؛ نہیں وہ ابھی بھی ہمارے درمیان ہیں؛ قضا و قدر پر ایمان ہے اسی لئے احباب نے انھیں منوں مٹی تلے دفنا دیا؛ مرحوم نہ صرف ہمارے پھوپھا جان تھے بلکہ ایک سرپرست رہنما اور مربی تھے؛ لاک ڈاؤن کے تسلسل نے آخری دیدار سے بھی محروم کردیا؛ کیسے چلے گئے؟ اور اتنی جلدی یہ داغ مفارقت، رب کریم! تو ان پر اپنی خصوصی رحمت کی برکھا نازل فرما۔</b><br /><b>رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی</b><br /><b>تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی</b><br /><p></p><p style="text-align: left;"><b>کائنات کی وسعتوں میں ایک شخص کی کمی کا احساس دیرپا نہیں ہوتا، دنیا کی ہلچل میں روزانہ کتنے جنازے اٹھتے ہیں، کتنی قبریں بنتی ہیں، اور کتنے چاند تاروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ہر موت بے شمار آنکھوں میں آنسواور دلوں میں زخم چھوڑ جاتی ہے، سوگواروں کی سسکیاں اور آہیں کتنے دلوں کو مجرو ح کرتی ہیں،پھر رفتہ رفتہ وقت مرہم پاشی کرکے زخم مندمل اور ماحول بحال کردیتا ہے،یہ ہوتا آیا ہے، ہوتا رہے گا، موت وزیست کی کہانی روز ازل سے کہی اور سنی جاتی ہے اور ابد تک اسی طرح دہرائی جاتی رہے گی، بعض اموات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی خبر بجلی بن کر گرتی ہے اور مدت مدید کے لئے ویرانی واداسی پیدا کردیتی ہے۔پھوپھا جان کا سانحہئ ارتحال بھی انہی میں سے ایک ہے۔ دادا جان مولانا عبد الوہاب ریاضی (وفات 4/ نومبر 2014ء)، عم گرامی حضرت مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈانگری (وفات22/ دسمبر 2015ء)، بابا شیخ الحدیث مفتی جامعہ سراج العلوم حضرت مولاناعبد الحنان فیضی (وفات3/فروری 2017ء) اور اب پھوپھا جان مولانا عبد المنان سلفی (وفات23/اگست 2020ء) رحمہم اللہ کے سانحہئ ارتحال نے مجھے ذاتی طور پہ بہت جھنجھوڑا ہے، میری زندگی میں یہ شخصیتیں دھوپ کی مانند تھیں، جن سے روشنی ملتی تھی، جن کے سایہئ شفقت نے پڑھنے اور بڑھنے کا حوصلہ دیا، یہ ہستییاں میرے لئے دیوار تھیں، جو ایک طاقت کا احساس کراتی تھیں۔ کہاں جاؤں اب انہیں ڈھونڈنے۔</b><br /><b>1959 ء میں انتری بازار جیسے مردم خیزموضع کے افق سے طلوع ہونے والایہ تابندہ ستارہ عمر بھر لوگوں کو روشنی دیتا رہا، منارہئ نور بن کر سلفیت کی بے لوث نشر واشاعت کی،لوگ فیضیاب ہوتے رہے، 23/اگست2020ء کی تاریخ کیا آئی، رب کائنات نے اس ستارے کو ہماری نظروں سے اوجھل کردیا۔ مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْرٌ (22الحدید)۔</b><br /><b>پھوپھا مولانا عبد المنان سلفی ایک بہترین داعی، استاذ، صحافی، منتظم کار، خطیب تھے۔ وہ بڑے سے بڑے پروگرام اور کانفرنسز کو مرتب کرکے کامیابی سے ہمکنار کرانا جانتے تھے۔ ہندونیپال کے بہت سارے جلسے کانفرنسز اور مختلف النوع پروگرامز کی کامیابی کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔</b><br /><b>بات اگر میں قلم کی کروں جس نے ہر دور میں اپنی طاقت اور اہمیت کا لوہا منوایا ہے، تو پھوپھا رحمہ اللہ نے زمانہئ طلب علم سے ہی صحافت کی اہمیت و ضرورت کو بھانپ لیا تھا اور اسی ذوق نے انہیں جامعہ سلفیہ بنارس کے مجلہ المنار کا مدیر بنا ڈالا۔ میں نے جب قلم اٹھایا اور ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھنے لگا تو اس وقت دو شخصیتیں تھیں جنہوں نے میری قلمی اصلاح کر ان سطروں کو قابل اشاعت بنایا- ایک پھوپھا مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ اور دوسری شخصیت تھی مشہور صحافی جناب قطب اللہ خان صاحب حفظہ اللہ- تیسری ہستی تھی عم گرامی حضرت مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کی؛ جنہوں نے قدم قدم پر حوصلہ افزائی کی؛ یہاں تک کہ جب میں ندوہ سے 2000ء میں عالمیت کر کے گھر لوٹا تو انھیں بیرون ملک کا سفر درپیش ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس دوران نورتوحید کی ترتیب اور اداریہ تمہارے ذمہ- دو شمارے کا اداریہ میں نے لکھا لیکن تشفی نہیں ہوئی اور اصلاح کے لئے میں پھوپھا مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے اس کے نوک پلک درست کئے- میں ان شخصیتوں کا الفاظ میں شکریہ ادا نہیں کر سکتا- اللہ ان سب سے راضی ہو-</b><br /><b>غالبا سن 2001 ء کی بات ہے پھوپھا رحمہ اللہ کو چنروٹا ایف ایم ریڈیو سے ماہ رمضان میں یومیہ ایک گھنٹہ دعوتی پروگرام کا آفر ملا – پھوپھا نے مجھے اور برادرم سعود اختر سلفی کو بلایا اور کہا تم لوگ اس کی ترتیب دو- پھر انکے اشراف میں ہم تینوں نے پروگرام کو چلایا اور اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے کوملا- </b><br /><b>پھوپھا رحمہ اللہ کی شخصیت؛ اور انکے کارنامے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاینگے کیونکہ وہ ایک معتبر مستند عالم دین و صحافی اور عوام میں محبوب و ہر دلعزیز تھے، ان سے ہمیں بیحد پیار ملا، ماہنامہ نور توحید اور السراج کی 31 سالہ ادارت انکی صحافتی خدمات کی اہم کڑی ہے، میں نے بعض نامہ نگاروں کو دیکھا کہ وہ خبروں کی اصلاح کے لئے آپ سے رجوع ہوتے تھے- مارچ 2020ء میں عالمی وباء کورونا کے سبب جب ہند ونیپال میں ملک گیر لاک ڈاؤن ہوا تو اس موقع پر اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہویے مدارس اور مساجد کے حوالے سے مسلمانوں کے لئے اپیل جاری کی جسے کئی اخبارات نے نشر کیا اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ سوانح نگاری آپ کا پسندیدہ عمل تھا؛ شخصیات کے انتقال پر وہ خوب لکھتے تھے؛ لاک ڈاؤن کے دوران جب جامعہ خیر العلوم کے ناظم جناب ڈاکٹر عبد الباری صاحب کا انتقال ہوا تو پھوپھا نے ان کی شخصیت پر ایک جامع تحریر لکھی؛ اور وہ تحریر مجھے بھی بھیجی تھی جسے میں نے کئیر خبر میں نشر کیا تھا، غالبا یہ انکی آخری تحریر تھی۔ </b><br /><b>بہت سی یادیں ان سے وابستہ ہیں، وہ شفقت و محبت کے پیکر اب کہاں ملیں گے؛ جن کا وجود ہماری زندگیوں میں مانند چراغ تھا۔ اب تو لگتا ہے کہ تاریکیوں کے سایے دراز ہو چلے ہیں۔رب کائنات سے دست بدعا ہوں کہ وہ آپ کی دینی و دعوتی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور اعلی علیین میں جگہ دے اور ہم تمام پسماندگان کو صبر کی توفیق دے، گر چہ شکایت باقی رہے گی - </b><br /><b>تھی ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری</b><br /><br /><br /><b><br /></b></p>Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-36077130522812835592017-02-12T20:48:00.004-08:002017-02-12T20:48:56.733-08:00میر کارواں کا سفر آخرت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj1ysJVX_EYiyWdrZwBZT5091PniAyNGIJTSirH6X3XT6cdZ9pZc-5LXa4xQhyphenhyphensPgIGBJOSC4RNRVsBdx0Xs0ccj6rLCA6ChT_e1R9E8HWng1eIa2EisxZunjDxDeIVel0uSEJcp-HzHdjT/s1600/hqdefault.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj1ysJVX_EYiyWdrZwBZT5091PniAyNGIJTSirH6X3XT6cdZ9pZc-5LXa4xQhyphenhyphensPgIGBJOSC4RNRVsBdx0Xs0ccj6rLCA6ChT_e1R9E8HWng1eIa2EisxZunjDxDeIVel0uSEJcp-HzHdjT/s320/hqdefault.jpg" width="320" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<h2 style="text-align: center;">
<span style="background-color: yellow; color: red;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;"> </span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; text-align: start;"><b><span style="font-size: x-large;">میر کارواں کا سفر آخرت</span></b></span></span></h2>
<span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">بقلم: عبدالصبور ندوی جھنڈانگری</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">نائب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">عم گرامی حضرت مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈانگری رحمہ اللہ مؤرخہ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو قطر کے نیشنل ڈے کے موقع پر سفیر حمد جاسم الحمر کی دعوت پہ کاٹھمانڈو تشریف لائے تھے، اسی مناسبت سے مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے ذمہ داران کی میٹنگ میں شرکت بھی کرنا تھی، ان کا قیام باغ بازار کے ہوٹل تاج میں تھا،پروگرام میں شرکت کے بعد ۱۹؍ دسمبر کو جھنڈا نگر واپس جانا تھا۔ ۱۹؍ دسمبر بروز سنیچر صبح کے سات بجے تھے، عم گرامی کا فون آیا، کہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، آجاؤ، کہیں چل کے چیک اپ کرالیتے ہیں، میں ہوٹل پہنچا، اس وقت متعدد احباب سے گفتگو اور ان کی خاطر تواضع میں مشغول تھے، ناشتہ کے بعد رائے مشورہ کا سلسلہ شروع ہوا ، بالآخر انہوں نے خود فیصلہ کیا کہ گھر نکل جاؤں، دوپہر ۱۲؍ بجے کی فلائٹ سے ٹکٹ تھا، میں نے ان کا سامان سیٹ کیا ، برادرم محمد أحمد پپو اپنی گاڑی لے کر حاضر تھے کہ ائیر پورٹ تک رخصت کردوں گا، اسی اثناء وہ واش روم گئے اور وہاں سے نکلتے ہی بستر پر گر گئے، میں ان کے قریب پہنچا ، انہوں نے کہا : مجھے کچھ دیر کے لئے چھوڑ دو اور سفر کینسل ہوا، تھوڑی دیر بعد انہوں نے راحت کی سانس لی ، دوپہر کا کھانا کھلایا پھر انہیں میڈیکل کالج کے منموہن کارڈیالوجی سینٹر میں داخل کرایا گیا، وہ خود چل کر ایمرجنسی وارڈ میں بیڈ پر لیٹے مگر اپنے پاؤں پر باہر نہ آسکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">ابتدائی چیک اپ ہوا، بلڈ رپورٹ میں تاخیر ہوئی ، یورین ٹیسٹ کے لئے نرس نے کہا تو آپ ؒ نے جواب دیا یہاں کا واش روم صاف نہیں ہے، مجھے نماز پڑھنی ہوتی ہے اس لئے مجھے علحدہ روم میں شفٹ کر دیا جائے ۔ بار بار وہ اصرار کرتی رہی ، اس پر میں نے کہا : چلئے میرے ساتھ ، وہ اٹھے اور میرے ساتھ واش روم گئے اور سیمپل لے کر واپس آئے، دیر تک مجھ سے اورمیری اہلیہ سے دعوتی احوال وکوائف پر گفتگو کرتے رہے، عشاء کے وقت میں ہاسپٹل سے لوٹ آیا، رات دس بجے ہم سب کے محترم بزرگ انکل جناب مبین خان صاحب نے گھبراہٹ میں فون کیا کہ مولانا صاحب کا دل صرف بیس فیصد کام کر رہا ہے، رپورٹ آگئی ہے اور انہیں آئی سی یو میں شفٹ کیا جارہا ہے، انکی اہلیہ کو فورا کاٹھمانڈو بلوالیں،میں نے گھر پر رابطہ کیا اسی وقت عزیزم جواد سلمہ اللہ کو روانہ کر دیا گیا، ہم لوگوں کے وہم وخیال میں بھی نہیں تھا کہ آپ کی حالت اس قدر تشویشناک ہے،ایک دن قبل اسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ ممبر پارلیمنٹ اور سابق وزیر جناب اقبال أحمد شاہ کی عیادت کے لئے وہ خود گئے تھے اور اگلے روز انہیں بھی اسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونا پڑا۔ تقدیر بھی عجیب ہوتی ہے ، کس موڑ پر انسان کو لا کھڑا کرتی ہے، اسے خبر نہیں ہوتی اور اسی پر ہم سب کا ایمان ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">مؤرخہ ۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کا دن آئی سی یو میں بخیریت گزرا، عیادت کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا، بات چیت ہوتی رہی، مسکراتے رہے کسی بھی قسم کی تکلیف کا اظہار نہیں کیا، مجھ سے کہا: یہاں کے علاج سے میں بہت مطمئن ہوں، مگر دل ہنوز ۲۰۔۲۵ فیصد ہی کام کررہا تھا، شام ہوتے ہی پیشاب نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی بڑھ گئی ، اب جگر متاثر ہونے لگا، ضروری علاج جاری تھا، وہ شب بھی کسی طرح گزری۔ مؤرخہ ۲۱؍ دسمبر کی صبح ڈ اکٹروں نے دل کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے نس کے ذریعے ایک باریک پائپ ڈالی،صبح ۱۱؍ بجے تک سب سے بات چیت کرتے رہے ، جب اس پائپ کا منفی اثر ہوا، آپ کو نیند آنے لگی، ارد گرد بیٹھے تیمارداروں سے کہا : اب میں آرام کرنا چاہتا ہوں، اتنا کہتے ہی وہ سو گئے، وہ سوئے کیا، بے ہوش ہوگئے ، آنا فانا وینٹیلیٹر پر رکھ دیا گیا، بیہوشی کے عالم میں ہر ممکن علاج چل رہا تھا، لیکن تقدیر کے قاضی کا فیصلہ ہی کچھ اور تھا، تشویشناکی بڑھتی چلی گئی ، دل کا عمل دس فیصدی تک محدود ہوگیا، گھر سے چچا محترم زاہد آزاد ومحمد اکرم صاحبان کاٹھمانڈو پہنچے، میڈانتا گڑگاؤں سے رابطہ کیا گیا ، ائیر ایمبولینس تیار تھا مگر ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے شفٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا، وے ان کی حالت کو سمجھتے تھے ، لہذا دعاؤں اور دواؤں کا سلسلہ جاری رہا، اگلے دن مؤرخہ ۲۲؍ دسمبر کو بوقت فجر پانچ بجے اٹیک آیا ، طبیعت مزید بگڑتی چلی گئی ، صبح دس بجے پھر اٹیک آیا اور اس بار عم گرامی جانبر نہ ہوسکے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ہر شخص کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا، کاٹھمانڈو کے احباب و عقیدتمندوں کا اسپتال میں تانتا لگ گیا، لوگوں کا اصرار تھا کہ کاٹھمانڈو میں بھی نماز جنازہ ادا کر لی جائے مگر امیر جمعیت مولانا محمد ہارون سلفی صاحب نے وقت کی تنگ دامانی کے سبب معذرت کر لی اور ہم سب جھنڈانگر کے لئے روانہ ہوگئے ، اس وقت ملک نیپال کے حالات انتہائی خراب تھے ، ترائی میں چکا جام ، ہڑتال کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کٹھن تھا، ایمبولینس اور ہائس کے ذریعے ایک مختصر سا غمزدہ قافلہ جس میں میری فیملی، جمعیت کے ذمہ داران واحباب تھے، سوئے جھنڈا نگر روانہ ہوا۔دیر رات تقریبا ڈھائے بجے جھنڈانگر پہنچے ، سوگواروں کی ایک بڑی تعداد نے سسکیوں اور آنسوؤں کے ساتھ استقبال کیا، غم واندوہ کا ایک طوفان بپا تھا ، ہر شخص اپنے اس مشفق ، مربی اور سرپرست کے بچھڑ جانے پر ماتم کناں تھا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">مؤرخہ ۲۳؍ دسمبر کو بعد نماز ظہر ہزاروں محبین ، عقیدتمندوں ، علماء ، صلحاء، وبرادران وطن کی موجودگی میں اس عظیم داعئ اسلام اور میر کارواں نم آنکھوں کو جھنڈانگر کے شہر خموشاں میں سپرد خاک کردیا گیا۔سرزمین جھنڈانگر نے ایسے بڑے جنازے شاذ و نادر ہی دیکھے ہیں:</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">ِ<span style="background-color: red;"><span style="color: yellow;">ہمہ گیرشخصیت:</span></span> بلا شبہہ عم محترم کی شخصیت ہمہ گیر تھی ، ایک دنیا نے ان کی ذات سے استفادہ کیا ، وہ علمبردان توحید اور داعیان کتاب وسنت کے سرپرست ورہنما تھے ، بر صغیر ہند و نیپال بالخصوص ظلمت کدۂ نیپال میں اس مرد مجاہد نے ملک بھر سے جہالت ، شرک وبدعت کا خاتمہ ، اسلامی معاشرہ میں شریعت کی بالا دستی کے لئے اپنے جوہر خطابت اور ادیبانہ اسپ قلم سے بے مثال جدوجہد کی، وہ بے شمار خوبیوں اور اوصاف کے مالک تھے ، ان کا نمایاں وصف جوہر خطابت تھا، جس نے بر صغیر ہند و نیپال، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ کے علاوہ انڈونیشیا،بلاد خلیج وبرطانیہ تک صرف ان کا نام پہنچا دیا بلکہ ان کے عقیدت مندوں اور شیدائیوں کا ایک بڑا حلقہ تیار کردیا، ایمانی حرارت سے پُر بصیرت افروز خطابات کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا ایک عظیم الشان کام انجام دیا، جس سے ایک بڑی تعداد معاصی وضلات سے تائب سے ہوکر پاسبان کتاب و سنت بن گئی۔ آپ کی مختصر جامع تحریروں نے بیحد مقبولیت حاصل کی، بقول مولانا شمیم أحمد ندوی (مدیر مسؤل ماہنامہ السراج) : ’’مولانا عبد اللہ مدنی چند جملوں میں وہ باتیں کہہ جایا کرتے تھے جس کے لئے مجھے کئی صفحات درکار ہوتے، دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر انہی کے پاس تھا‘‘۔ آپ کے اداریوں نے اردو صحافت کو نیا آہنگ عطا کیا، بلیغ طرز اسلوب سب کا من موہ لیتی تھی۔ ان کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ حامد سراجی کے نام سے لکھتے تھے ، ان کی شاعری میں قرآن وحدیث میں وارد بعض واقعات ومفاہیم کی تطبیق بھی دکھائی دیتی ہے ان کی شاعری اسلامی حدود کی بھر پور رعایت کرتی ہے، اس دائرے سے تجاوز کا امکان ہی نہیں۔ رد باطل میں ان کی کئی نظمیں مقبول عام ہیں، ہمیں امید ہے کہ جلد ہی آپؒ کا شعری مجموعہ قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔ وہ ایک حساس دل کے مالک تھے ، نہایت نفیس اور سلجھی ہوئی شاعری کرتے تھے، ان کا کلام اور تحریر (نثر ونظم) اردو ادب کا اہم اثاثہ ہے، چنانچہ ان کی عظمت کے سبھی قائل نظر آتے ہیں:</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">ہر ظرف کہاں ہے اس قابل ، بن جائے غم جاناں کا امیں </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">آج لوگ سہل کلام سننا چاہتے ہیں ، محاسن کلام کا شعور اور ادراک شاذ ہی ملتا ہے ، مگر یہ صفت اور سلیقہ آپ کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے، وہ ان کہی باتیں بھی بڑے سلیقے سے کہہ دیا کرتے تھے، میر نے کہا تھا: </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">عیب بھی کرنے کو ہنر چاہےئے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">آپ کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوجاتا ، ملاقات کے وقت ہر کسی سے بڑی محبت کا ثبوت دیتے تھے، کاٹھمانڈو کے کئی غیر مسلم احباب نے کہا کہ اگر ان کے ساتھ مزید وقت گزارنے کا موقع ملا تو ہمیں اپنے دھرم کو تبدیل کرنے پر غور کرنا ہوگا، آپ کی ضیافت اور تواضع ہر ایک کا دل جیت لیا کرتا۔ وہ اپنوں اور غیروں میں یکساں مقبول ومحبوب تھے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="background-color: red;"><span style="color: yellow;">مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال:</span></span> مولانا عبد اللہ مدنی رحمہ اللہ نے ملک نیپال کے طول وعرض میں پھیلے کتاب وسنت کے علمبرداروں کو ایک لڑی میں پرونے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی تحریک چھیڑ دی ، اور مشرقی و مغربی نیپال کے سربرآوردہِ شخصیات کو اوائل ۱۹۸۸ء میں جھنڈانگر مدعو کیا، جامعہ سراج العلوم میں میٹنگ رکھی گئی، اس موقع پر آپ نے موضع کمہریا کے جماعتی سطح پر معروف عالم دین مولانا عبد القدوس صاحب (مقیم سعودی عرب)کوبھی مدعو کیا، میٹنگ ہوئی اور سب نے اتفاق کیا کہ پڑوسی ملکوں کی طرح نیپال میں بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانیؒ اس وقت بیرون ملک کے دور ے پر تھے ، لہذا طے پایا کہ خطیب الاسلام آجائیں پھر جمعیت کو تشکیل دیا جائے، اگلے سال یعنی ۱۹۸۹ء میں جمعیت تشکیل پاتی ہے اور امیر أسے بنایا جاتا ہے جو اس مجلس میں موجود ہی نہیں تھا۔ یہ ایک تنظیمی خامی تھی ، ایسا ہر گز نہیں کہ خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤف رحمانی ؒ امارت کے مستحق نہیں تھے، بجا طور پہ وہ تھے ، لیکن بعض ہندوستانیوں کی بیجا مداخلت نے علمائے نیپال کے مابین اسی دن تفریق وچپقلش کے زہریلے بیج بو دئے، جس کے اثرات آج تک جمعیت میں پائے جاتے ہیں۔ کُل ملا کر اس تحریک کے بانی حضرت مولانا عبد اللہ مدنیؒ ہی تھے، جسے بعد میں یرغمال بنا لیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا سراسر غلط اور تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہوگی کہ خطیب الاسلام ؒ جمعیت کے بانی ومؤسس تھے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">شرپسند مولویوں کا ایک طبقہ ہمیشہ مدنیؒ صاحب کی مخالفت کرتا رہا کہ وہ جمعیت کے کلیدی عہدوں پر براجمان نہ ہونے پائیں اور یہ گروپ ہمیشہ کامیاب رہا، اس لئے کہ مدنیؒ صاحب نے کبھی بھی اپنے آپ کو منصب کے لئے آگے پیش نہیں کیا۔ ممبر پارلیمنٹ جناب مختار احمد صاحب(سرہا) نے تعزیتی جلسہ کے موقع پر کہا تھا: کہ یہ مولانا مدنیؒ کی شخصیت تھی جو اتحاد کے عظیم علمبردار ہونے کا عملی ثبوت پیش کرتی ہے، جب رمول میں جمعیت کے انتخاب کے موقع پر اکثریت آپ کو امیر چننا چاہتی تھی، اس وقت ۹؍ اضلاع میں کمیٹیاں تھیں، پانچ اضلاع کے لوگ مدنی صاحب کی حمایت میں تھے، کچھ لوگوں نے جمعیت کو زبردستی موروثی شکل دینے کی کوشش کی تھی، اس وقت اکثریت نے مدنیؒ صاحب سے کہا کہ الگ جمعیت قائم کر لیتے ہیں، اور مدنی صاحب نے لوگوں کو روک دیا کہ نہیں، ہم کسی بھی قسم کے اختلاف کا سبب نہیں بنیں گے، اور ایسا ہی ہوا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">مؤرخہ 14؍ مارچ۲۰۱۵ء کو جمعیت کا انتخاب نو ہوا،جس میں مولانا محمد ہارون سلفی صاحب امیر منتخب ہوئے، انہوں نے اسی مجلس میں مولانا عبد اللہ مدنی ؒ کو جمعیت کا سرپرست بنائے جانے کا اعلان کیا، جس پر شوری کے اراکین نے بیک آواز تائید کی۔ آپ کو روئیت ہلال کمیٹی کا صدر بھی نامزد کیا گیا، اور ہر ماہ آپ ہجری مہینوں کا اعلان کرتے رہے، سرپرستی کا حق ادا کیا، جمعیت کے پاس کوئی مستقل عمارت نہیں تھی اس کے لئے آپ نے گرانقدر مادی تعاون پیش کیا تھا، زلزلہ زدگان کی مدد بڑے پیمانے پر کی تھی، ذمہ داران کے مابین جب بھی اختلاف رائے ہوتا ، سب آپؒ کی طرف رجوع ہوتے اور آپ کی رائے حتمی رائے مان لی جاتی، اب کہاں وہ صورت نظر آئے گی!</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">تھی وہ ایک شخص کے تصور سے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">اب وہ رعنائی خیال کہاں </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;"><b><span style="background-color: red; color: yellow;">عم گرامیؒ سے میرا تعلق:</span></b> یہ تعلق بہر حال عام نہیں تھا، زمانۂ طلب علم سے ہی خصوصی عنایت وشفقت حاصل رہی ہے،گائڈنگ، حوصلہ افزائی اور تکریم کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا، اور مجھ سے جہاں تک ہوسکا ان کی خدمت میں حاضر رہا،متعدد امور میں ان کی رائے میرے لئے بہت سود مند رہی ہے، گھرسے باہرکئی بار مہمانوں سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا، میرا لڑکا ہے اور کئی بار بھتیجا کہہ کر تعارف کرایا، ان کے اس انداز نے مجھے ان سے بہت قریب کردیا، ندوۃ العلماء لکھنؤ میں جب میں زیر تعلیم تھا تو میری تحریریں اخبارات میں چھپتی تھیں تو عم گرامی بہت خوش ہوتے ، اور بعض تحریروں کا دوسروں سے ذکر بھی کرتے ، ۲۰۰۰ء میں جب ندوہ سے عا لمیت کر کے گھر پہنچا توآپ کو ؒ ایک سفر پر نکلنا پڑا، جاتے جاتے مجھ سے کہہ گئے کہ ماہنامہ نور توحید کی ترتیب کے ساتھ اداریہ بھی لکھ دینا، یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی رسالہ کا اداریہ تحریر کیااور پے در پے دو اداریے (اسرائیلی جارحیت، نیکیوں کا جشن)لکھے۔ یہ ان کی طرف سے زبردست حوصلہ افزائی رہی، میری ترتیب سے بہت خوش تھے، اور مسلسل صحافتی ذوق کی ترغیب دلاتے رہے، عم مکرمؒ کے دروس، اور خطابات سے میں نے بہت استفادہ کیا اور کوشش کی کہ ان کا طریقہ اختیار کرلوں مگر ایسا نہ ہوسکا، وہ انتہائی بلیغ اور مختصر خطاب کرتے، اور کئی بار رقت آمیز خطاب ہوتا کہ سامعین رو پڑتے ۔۲۰۱۳ء میں جامعۃ الملک سعود سے فراغت کے بعد میں نیپال لوٹاتو جھنڈانگر کی بجائے کاٹھمانڈو کو مقر عمل وجائے معاش کے لئے ترجیح دی، مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے دفتر سے بھی منسلک ہوا، اور مارچ ۲۰۱۵ء میں جب عہدیداران کا انتخاب ہوا تو میں نائب ناظم اور وہ سرپرست جمعیت بنائے گئے،جمعیت کو مستحکم کرنے کے لئے مفید مشوروں کے ساتھ عملی اقدام کی جانب ترغیب دلاتے، ان کے ذمے جو بھی کام سپرد کیا گیا انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیا،وہ اس شعر کے بھر پور مصداق تھے:</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">نگہہ بند ، سخن دلنواز، جاں پر سوز </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">جمعیت کی میٹنگوں میں ان کی رائے نہایت قیمتی ہوتی تھی، سنجیدہ شائستہ اسلوب میں گفتگو کرتے ، اور ہر ایک کو متوجہ کر لیا کرتے تھے۔ اس دوران میں نے کئی تنظیمی اصول وطور طریقے ان سے سیکھے۔کاٹھمانڈو پہنچنے پر مجھے فورا خبر کرتے اور میں بھی برابر ان سے رابطے میں رہتا، متعدد اسفار اور جلسوں میں ان کے ساتھ رہا، انتقال سے ڈیڑھ سال قبل بھی ایک مرتبہ انہیں کاٹھمانڈو کے گنگا لال ہارٹ ہاسپٹل میں ایذمٹ کرایا گیا تھا اور تین دنوں کے جانچ و چیک اپ کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئی تھی، اس بار بھی جب ہم لوگوں نے انہیں ٹیچنگ میں ایڈمٹ کرایا تو یہی اندازہ تھا کہ جنرل چیک اپ کے بعد چھٹی مل جائے گی، مگر اللہ عزوجل کو منظور نہ تھا :</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">لائی حیات آئے ،قضا لے چلی چلے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">جب بھی جھنڈانگر کے شہر خموشاں کی زیارت کی توفیق ہوتی ہے تو عم گرامیؒ کی قبر پر ضرور حاضر ہوتاہوں، دعاؤں کے ساتھ ضمیر جعفری کا یہ شعر گونجتا رہتا ہے:</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">رنگوں کا خرمن سوتا ہے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">بن میں چمن سوتا ہے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">کتنے خوابوں اور پھولوں کا </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">اک البیلا پن سوتا ہے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">سالک راہ ورسم محبت </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">محرم اہل فن سوتا ہے </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">خلاق دو عالم کے حضور دست بدعا ہوں کہ الہاٰ ! ان کی لغزشوں کودرگزر کر، درجات بلند فرما، ان کی قبر کو بقعۂ نور بنا دے، اور ان کا ٹھکانہ فردوس میں بنا(آمین) </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">* * *</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /></div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-54947686984156396172016-02-26T22:37:00.001-08:002016-03-07T22:25:41.000-08:00فضیلۃ الشیخ العم عبد اللہ المدنی فی ذمۃ اللہ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjco_pSNv2qXzDz4OKcMuk4KuTxSO5N6VjJzNpOU7pG15nhVnWGyJKV96yQn4UYhAYqb7-1dqnKFx7WKV4SXhOWYVsXrhSyj2jU0bKwFd4nIjmPsDUZQnTq6io-ArksOlw5e_JjmbwIPfDL/s1600/images.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjco_pSNv2qXzDz4OKcMuk4KuTxSO5N6VjJzNpOU7pG15nhVnWGyJKV96yQn4UYhAYqb7-1dqnKFx7WKV4SXhOWYVsXrhSyj2jU0bKwFd4nIjmPsDUZQnTq6io-ArksOlw5e_JjmbwIPfDL/s1600/images.jpg" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: medium;"><br /></span></div>
<span class="Apple-style-span" style="background-color: black; font-family: "nafees web naskh";"></span><br />
<div style="text-align: center;">
<span class="Apple-style-span" style="background-color: black; font-family: "nafees web naskh";"><b><span class="Apple-style-span" style="color: red; font-size: x-large;">نجم تألق فی السماء ثم انکسر </span></b></span></div>
<span class="Apple-style-span" style="background-color: black; font-family: "nafees web naskh";">
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh";"></span>
<br />
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: black; color: yellow; font-size: x-large;"><span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh";"><b><span class="Apple-style-span" style="background-color: black; color: yellow; font-size: large;"> </span></b></span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; text-align: start;">فضیلۃ </span></span><span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh";"><b><span class="Apple-style-span" style="background-color: black; color: yellow; font-size: x-large;">الشیخ </span></b></span><b style="font-family: 'nafees web naskh';"><span class="Apple-style-span" style="background-color: black; color: yellow; font-size: x-large;">العم</span></b><b style="font-family: 'nafees web naskh';"><span class="Apple-style-span" style="background-color: black; color: yellow; font-size: x-large;"> عبد اللہ المدنی فی ذمۃ اللہ</span></b><span style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: medium;"> </span></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh";">
</span><span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: 18px;">بقلم: عبد الصبور عبد النور الندوي</span><br />
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: 18px;"></span><br />
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: 18px;"><span style="font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><span style="background-color: cyan; font-size: 12px;"><br /></span><b><span style="background-color: cyan;">
انی ألمح نجما ساطعا قد أ شرق بنورہ و أسدل ضوء ہ فی الأرجاء ؛ نجم أنھی بعمرہ الثالث و الستین انکسر فی ۲۲ دسمبر ۲۰۱۵ م. الموافق ۱۱؍ ربیع الأول 1437ھ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
نجم أبھر الجمیع بجمالہ ، وأثر بأسلوبہ ، نجم لہ مکانۃ ، وصدر ، ولہ انتماء.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتل بمرتبۃ عالیۃ ، مرتبۃ عریقۃ ۔۔۔۔۔ تمیز بالمحبۃ والعطاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجم لفت الانظار۔۔۔۔۔۔۔ عنوانہ الصداقۃ ۔۔۔۔۔ والوقار۔۔۔۔۔ کل المحبۃ والاخاء۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
نجم أحبہ الجمیع ۔۔۔۔۔ واحتل مکانۃ فی القلوب ۔۔۔۔۔۔ شق دربہ ۔۔۔۔۔۔۔ رسم طریقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجوم المعالی ولہ احتواء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجم بریق اسمہ ۔۔۔۔۔۔ شاسع فی الفضاء ۔۔۔۔۔۔ نقول لہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ و اسکنہ فسیح جناتہ انہ علی کل شئی قدیر..
فلا ریب أن موت العالم خطب جلل وبلاء کبیر ، کان دورہ عظیما،وأثرہ کبیرا کانت المصیبۃ بفقدہ أشد و یعتبر خسارۃ ورثۃ النبوۃ:
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد ۔۔۔۔ولکنہ بنیان قوم تھدما
وقال الشاعر أیضا:
لعمرک ما الرزۃفقد مال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولا شأۃ تموت ولا بعیر
</span></b></span><span style="background-color: cyan;"><b style="font-family: helvetica, arial, sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;">ولکن الرزےۃ فقد شخص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یموت بموتہ خلق کثیر</b><span style="font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b>
</b></span></span></span></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: 18px;">
</span>
<div style="text-align: right;">
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: 18px;"><span style="background-color: cyan; font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b><br /></b></span></span></div>
<span class="Apple-style-span" style="font-family: "nafees web naskh"; font-size: 18px;">
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: cyan; font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b><span style="font-size: large;">اسمہ ونسبہ </span>:</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: cyan; font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b>
أبو عبد السلام عبد اللہ بن عبد التواب بن محمد زکریا بن عید اللہ بن منور بن طھور الجندا نغری ، نسبۃ الی مولدہ قریۃ "جندا نغر " اشتھر بالمدني نسبۃ الی المدینۃ المنورۃ -حیث أنہ أکمل دراسۃ البکا لو ریوس فی الشریعۃ من الجامعۃ الاسلامیۃ با لمدینۃ المنورۃ -
<span style="font-size: large;">مولدہ ونشأتہ</span> :
ولد رحمہ اللہ فی عام ۱۹۵۵م الموافق ۱۳۷۴ھ بقریۃ -جندا نغر -کبل وستو نیبال من أسرۃ علم و دین فأبوہ الشیخ عبد التواب رحمہ اللہ کان متدینا و شاغفا بالقرآن الکریم ، و جدہ الشیخ محمد زکریا رحمہ اللہ کان من أھل العلم وأھل التقوی و الصلاح و معروفا بشخصیۃ دینیۃ بارزۃ فی المنطقۃ فھدی اللہ علی یدیہ مءآت الأسر من الضلال الی نور الھدایۃ وأعمامہ أیضا مشھورین بالعلم و الصلاح ،فتفتح وعیہ بینھم و بدأالدراسۃ باشراف جدہ و أکمل الابتدائیۃ -من مدرسۃ سراج العلوم السلفیۃ بجندا نغر و سافر الی بنارس فا لتحق بالجامعۃ السلفیۃ وأکمل الثانویۃ والعالمیۃ و تفقہ بمشائخہ العباقرۃ فی بنارس ثم التحق بجامعۃ ندوۃ العلماء بلکناؤ و دخل فی التخصص فی الأدب العربی ولم یکمل الا سنۃ فجاء اشعار القبول من الجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ فالتحق ھناک بکلیۃ الشریعۃ و نھل من منھلھا الصافی وعینھا العذبۃ ثم تخرج منھا عام ۱۹۸۱م و رجع الی بلادہ داعےۃ الی اللہ ومدرسا العلوم الشرعےۃ وبدأ الأعمال الدعویۃ و التعلیمیۃ۔
<span style="font-size: large;"><br /></span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: cyan; font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b><span style="font-size: large;">أعمالہ:</span>
وقد أوقف نفسہ ۔رحمہ اللہ ۔علی خدمۃ الشریعۃ الاسلامیۃ ونشر مبا دءھا وأحکامھا و ھدایۃ الناس و توجیھھم وجھۃ الخیر والصلاح ، فذھب الی الجامعۃ السلفےۃ بجنکفور، نیبال مدرساوداعےۃ ، وقضی ۴ سنوات ھناک فتنورت المنطقۃ الشرقےۃ من خدماتہ الدعوےۃ، وخلال تدریسہ خطر بالہ بأن العاصمۃ ۔ کتمندو۔ خالےۃ من الدعوۃ و الدعاۃ وھي في أمس الحاجۃ للعمل الدعوي ، فاستقر في کتمندو وأقام المصلی للسلفیین والجمعۃ، وبدأ الجہود ، فتاب علی اللہ أکثر من مائتی شخص من بدعات وخزعبلات وتأثربہ کثیر من المبتدعین وغیر المسلمین من شخصےۃ متمیزۃ ذي أخلاق فاضلۃ، وما زال فی عملہ حتی طلب عمہ الشیخ عبد الوھاب الریاضي ۔رحمہ اللہ۔ الی جندا نغرلتأسیس أول مدرسۃ البنات الاسلامےۃ في الدولۃ وکانت محاولات عدیدۃ من قبل عمہ لانشاۂا وکان یشعر بحاجۃ المجتمع الیہا، فأنشأ مع عمہ مدرسۃ خدیجۃ الکبری للبنات في عام ۱۹۸۸م ومع مرور الزمن ازدھرت المدرسۃ وتطورت من مرحلۃ الابتدائےۃ الی الفضیلۃ والتخصص في التدریس، فذاع صیتہا في الہند ونیبال، واستفادت الوف من بنات الأمۃ منہا، وأحسنت سمعتہا، وأصلحت أسرھا ووقفت دورھا الی القیام ببےءۃ دینےۃ ومجتمع مثالي۔
والشیخ رحمہ اللہ کان أدیبا بارعا باللغۃ الأردیۃ ولہ نظم و نثر یتمتع بأسلوب سھل جمیل جذاب متفردلا یکاد یشبھہ أحد یمکن أن یوصف بأنہ السھل الممتنع فیہ تظھر عباراتہ أنیقۃ مشرقۃ فیھا جمال ویسر وھکذا مکنہ أن یعرض أخطر القضایا والأفکار بأسلوب یطرب لہ المثقف ویر تاح لہ العامی و یفھمہ من نال أیسر حظ من التعلیم و اشتھر الشیخ عبد اللہ بسبعۃ أفقہ و کثرۃ تجوالہ و حضور ذھنہ و ذاکرتہ القویہ و لذلک تجئی کتاباتہ و خطبہ مشتملۃ بصفۃ الاعتدال بعیدۃ عن الافرط و التفریط- ولہ کتاب بالأردےۃ ’’سوئے حرم‘‘، و کان یستعیر اسمہ في الشعر’’حامد سراجي‘‘ وقلما الناس یعرفہ ھذا الاسم المستعار۔ ولہ مءآت من السیدیہات من خطب و محاضرات مفیدۃ۔
و أصدر مجلۃ اسلامیۃ شھیرۃ باسم "نور توحید "بالأردیۃ فی ۱۹۸۸م ومازالت تصدر من مرکز التوحید ۔۔۔ وکان الشیخ رئیس الادارۃ علی التحریر طوال حیاتہ و دائما یکتب کلمۃ التحریر باسم "شعور و آگہی "فاشتاق الناس بأسلوبہ الرائع الممتع فکانو ا فی انتظار کل شھر لقراء ۃ کلمۃ التحریر ۔ولأجل ذلک احتلت المجلۃ مکانۃ مرمو قۃ بین المجلات الأردیۃ ۔۔ علما بأن المجلۃ ھی أول مجلۃ أصدرت باللغۃ الأردیۃ فی دولۃ نیبال - والجدیر ذکرہ بأن الشیخ کان في الخارج فأمرني بکتابۃ کلمۃ التحریر ، فکتبت مرتین لشہرین في عام ۲۰۰۰م۔
ٰ وکانت مساجلاتہ تملأ اأاوساط الفکریۃ و الأدبیۃ طولا و عرضا ۔فخلال مسیرتہ الدعوےۃ سافر الی الہند، وبنجلا دیش، وباکستان، وسریلانکا، ومالدیف، و دول الخلیج، وبریطانیا، واندونیسیا مرات عدیدۃ للمشارکۃ في المؤتمرات والندوات والملتقیات العلمےۃ والدعوےۃ ، و مشارکتہ في التلفاز مثل: قناۃ بیس ، قناۃ ام بي سي، قناۃ أے بي سي، قناۃ زي سلام، قناۃ ای تی في الأردےۃ، وغیر ذلک فاستفاد الکثیر من خلق العالم من القاء محاضراتہ ، وخطبہ، ودروسہ، وبحوثہ۔ فربنا یتقبل منہ ویجعل ذلک في موازین حسناتہ۔
وکان الشیخ رحمہ اللہ راعیا لجمعےۃ أھل الحدیث المرکزےۃ بنیبال، و هو مؤسس فكرة انشاء الجمعية و دائما یفکر لازدھارھا ورقیتھا،وخدمها 26 عاما منذ تأسيسها، وبذل الجہود لتطویرھا وحضر دائما بکل دعم واستعداد للجمعےۃ۔ اللہم تقبل خدماتہ۔
وکان شاغفا بالقراء ۃ و الاطلاع و أعطاہ اللہ حب العلم ورزقہ الذکاء و سرعۃ الاستیعاب فھو أدیب و عالم دین وخطیب اسلام و داعیۃ الی اللہ کان محبا للاجتماع بالناس فأعطاہ اللہ القدرۃ علی مخاطبتھم و علی اختلاف مشاربھم بأسلوب مؤثر وأعطاہ روح الفکاھۃ و حلاوۃ الأسلوب و الابتکار فی العرض و القدرۃ علی الاقناع ۔۔فوصل الی قلوب الکثیرین -
<span style="font-size: large;"><br /></span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: cyan; font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b><span style="font-size: large;">آخر أیام من حیاتہ </span>:
کان الشیخ رحمہ اللہ مریض سکر و قلب منذ زمان فأدخل المستشفی مرات والأطباء نصحوا لہ بقلۃ السفر لکن الداعیۃ لم یتوقف مسیرتہ الدعویۃ بل تواصل العمل وکرسہ و شارک فی البرامج طویلۃ الأیام وعندما سافر الی کتمندوعلی دعوۃ سفیر دولۃ قطر یوم ۱۸ دیسمبر ۲۰۱۵ م فا ستقبلناہ فکان بشا شا و التقی مع سفراء الدول و الأحبۃ فی کتمندو و الیوم التالی کان حاجزا بالعودۃ الی کفلوستو وقبل عودتہ اتصل بی واشتکی بالتعب وقلۃ التنفس، فأدخلناہ في مستشفی تیجنغ، وکنا ظننا بأنہ یخرج بعد الفحوصات الیسیرۃ، وبعد الفحوصات ظہرت حالتہ الی غیر جید، فالأطباء دخلوہ في العنایۃ المرکزۃ وقالوا لنا بأن القلب یشتغل الی ۲۰% فقط، فعالجوہ وکان الشیخ مطمئنا علی نفسہ وفارحا، ودائما یبتسم عند العیادۃ، وما عندہ أی شکوی، کأنہ راض علی قضاء اللہ وقدرہ، فأغمي علیہ یوم الاثنین من تاریخ ۲۱؍ دیسمبر، فوضعوہ علی فینتیلیتر ولم یعافی جسدہ حتی اتم اللہ قضاء ہ فمضی الی حیث یمضی کل حي وفاضت روحہ علیھا "رحمہ اللہ"صباح الثلاثاء الساعۃ العاشرۃ من ۲۲ دسمبر ۲۰۱۶م فی قسم العنایۃ المرکزۃ بمستشفی "تیجنغ،مرکز منموھن کاردیالوجي "بکتمندو، ودفن فی الیوم التالی ۲۳ دسمبر ۲۰۱۶م بعد الظھر فی مقبرۃ "جندا نغر " بین أ لوف من المحبین و العلماء و طلاب العلم و التجار وعامۃ الناس من المسلمین وغیر المسلمین، بعد ما صلی علیہ فی میدان جندا نغر بامامۃ الشیخ عبد الرحمن المبارک فوری خلف الرشید شیخ الحدیث </b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b><span style="background-color: cyan;">عبید </span></b></span><b style="font-family: helvetica, arial, sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><span style="background-color: cyan;">اللہ الرحمانی المبارک فوری صاحب مر عاۃ۔ رحمہ اللہ۔</span> </b></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: "helvetica" , "arial" , sans-serif; line-height: 15.36px; white-space: pre-wrap;"><b style="background-color: cyan;">نسأل اللہ تعالی أن یرحمہ و یغفرہ ویسکنہ في جنات الفردوس ویجزیہ عن المسلمین خیر الجزا</b><span style="background-color: #e0edff; color: #373e4d; font-size: 12px;">ء -</span></span><br />
<span style="font-size: 18px;"> -</span></div>
</span></div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-10804340227148484752016-01-11T05:44:00.000-08:002016-01-11T05:45:50.440-08:00أول مرة صلى الناس العيدين 1436 هـ في ميدان تاريخي وسط العاصمة كتمندو (نيبال)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjUGa4yZ_zFXNChHyYbE3yEcGQlfwp6kW3XCIKyNF8PjNu-1_o8b6uHW25Z9tVhDjhPUztWOWasgT8gJKcWdXSuwGPEQDj_iiml7Qep444ATSIYNKBQ9JRMY38lD-UbLfJ0iREVuGHGgt71/s1600/12065738_473779382795703_4703158406973740242_n.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjUGa4yZ_zFXNChHyYbE3yEcGQlfwp6kW3XCIKyNF8PjNu-1_o8b6uHW25Z9tVhDjhPUztWOWasgT8gJKcWdXSuwGPEQDj_iiml7Qep444ATSIYNKBQ9JRMY38lD-UbLfJ0iREVuGHGgt71/s320/12065738_473779382795703_4703158406973740242_n.jpg" width="320" /></a></div>
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjS8Ips8EtjqEDpC7Nq8l94udXYtsCUAM2FUaVxG8lM6syvhTOsO4coYmMEBix0M0HnrCrkGQqUE6xgvZFVbs1jF8CibpHUc1HZ0KHEK8f86mJ7pAPcEdnhrwpn45fbh6csISIleIGB96nn/s1600/11222684_473778409462467_2594400286504339293_n.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjS8Ips8EtjqEDpC7Nq8l94udXYtsCUAM2FUaVxG8lM6syvhTOsO4coYmMEBix0M0HnrCrkGQqUE6xgvZFVbs1jF8CibpHUc1HZ0KHEK8f86mJ7pAPcEdnhrwpn45fbh6csISIleIGB96nn/s400/11222684_473778409462467_2594400286504339293_n.jpg" width="400" /></a><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Sakkal Majalla"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%;">أول
مرة صلى الناس العيدين 1436 هـ في ميدان تاريخي وسط العاصمة كتمندو (نيبال)، وصلى
بهم الشيخ عبد الصبور عبد النور الندوي حفظه الله نائب الأمين العام بجمعية أهل
الحديث المركزية بنيبال، وخطبهم، وشاركت الأخوات بعدد كبير متابعة حكم النبي صلى
الله عليه وسلم. <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Sakkal Majalla"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%;">والجدير
بالذكر أن مسلمي كتمندو كانوا يصلون وحدهم في المساجد ، دون النساء .<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Sakkal Majalla'; font-size: 18pt; line-height: 115%;">الفرق
المبتدعة من المسلمين ما زالت تمنع النساء بالخروج الى مصلى العيدين.</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Sakkal Majalla'; font-size: 18pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<br />
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiLSii7Tw3nzn3hVoPXQ1zT6Vbcd1HzbA6oI_ps0av25z4E-dlslDwP4X8dDYN6HDrT7YmuVttHPlIFgj6tojABkpoF-2XPEFlmpnbBEfp7wGB0F_QCHpOl4ZVpWlggrWVu57XcgezfUY9q/s1600/12140845_473778406129134_6441993105573088708_n.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiLSii7Tw3nzn3hVoPXQ1zT6Vbcd1HzbA6oI_ps0av25z4E-dlslDwP4X8dDYN6HDrT7YmuVttHPlIFgj6tojABkpoF-2XPEFlmpnbBEfp7wGB0F_QCHpOl4ZVpWlggrWVu57XcgezfUY9q/s400/12140845_473778406129134_6441993105573088708_n.jpg" width="400" /></a></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Sakkal Majalla'; font-size: 18pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-30094134746880328612015-03-09T04:10:00.002-07:002015-03-17T21:17:49.120-07:00داد ا جان کا سانحۂ ارتحال،ایک عہد کا خاتمہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">بسم اللہ الرحمن الرحیم</span></div>
<div style="text-align: center;">
<b style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: x-large;"><br /></span></b></div>
<div style="text-align: center;">
<b style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: x-large;">داد ا جان کا سانحۂ ارتحال،ایک عہد کا خاتمہ</span></b></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjhdVQeFcmTA07Xf4f9RkTXzz_gZL8WhagNc8bTiscI8YVyqbtPfj5T_wfyCGWz1w9EmLjEi7aUmtQkvkV7_blqvgvlEHapgJ55W5BsvJyI_lCgMATnunoe7qx6XeBMZOJkz-Psj3gn_V-_/s1600/abdulwahab.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjhdVQeFcmTA07Xf4f9RkTXzz_gZL8WhagNc8bTiscI8YVyqbtPfj5T_wfyCGWz1w9EmLjEi7aUmtQkvkV7_blqvgvlEHapgJ55W5BsvJyI_lCgMATnunoe7qx6XeBMZOJkz-Psj3gn_V-_/s1600/abdulwahab.jpg" height="240" width="320" /></a></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b><span style="color: red;">عبدالصبور ندوی</span></b></u> </span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مؤرخہ ۲۹؍ اکتوبر 2014ء کو میرے نومولود بیٹے عبدالمحسن کے ناگہانی موت سے پوری فیملی صدمے سے دوچار تھی، کہ مؤرخہ 4؍ نومبر 2014 مطابق ۱۰؍ محرم الحرم 1436ھ کو ہم سب کے مربی ومحسن اور معروف عالم دین ، دادا جان ، مولاناعبد الوہاب ریاضی کے سانحۂ ارتحال سے دوہرے صدمے میں مبتلا ہوگئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔</span><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">محرم الحرام کی ۱۰؍ تاریخ تھی، کاٹھمانڈو میں اپنی آفس سے افطار کیلئے رہائش گاہ پہنچا ، وقت ہوچکا تھا، لیکن دل میں عجیب سی الجھن ہونے لگی، فورا عزیزم سالم سلمہ اللہ کو فون کیا، دادا جان کی خیریت طلب کی، سالم نے روتے ہوئے جواب دیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اسی اثناء گھر میں آہ وبکا کی آوازیں اٹھیں، اور میری زبان پر اناللہ کا ورد جاری ہونے لگا۔فورا فیملی سمیت جھنڈانگر نکل پڑا، اور اگلے دن تغسیل وتکفین و تدفین میں شریک ہوا، اور ہزاروں سوگواروں کے درمیا ن ہم سب نے منوں مٹی کے نیچےُ سلادیا۔اللہم اغفر لہ وادخلہ فی فسیح جناتہ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: blue;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">الوداع دادا جان! الوداع</span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">رب ذوالجلال آپ کو اپنی بے پناہ رحمتوں سے ڈھاپ لے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">کائنات کی وسعتوں میں ایک شخص کی کمی کا احساس دیرپا نہیں ہوتا، دنیا کی ہلچل میں روزانہ کتنے جنازے اٹھتے ہیں، کتنی قبریں بنتی ہیں، اور کتنے چاند تاروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ہر موت بے شمار آنکھوں میں آنسواور دلوں میں زخم چھوڑ جاتی ہے، سوگواروں کی سسکیاں اور آہیں کتنے دلوں کو مجرو ح کرتی ہیں،پھر رفتہ رفتہ وقت مرہم پاشی کرکے زخم مندمل اور ماحول بحال کردیتا ہے،یہ ہوتا آیا ہے ، ہوتا رہے گا، موت وزیست کی کہانی روز ازل سے کہی اور سنی جاتی ہے اور ابد تک اسی طرح دہرائی جاتی رہے گی، بعض اموات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی خبر بجلی بن کر گرتی ہے اور مدت مدید کے لئے ویرانی واداسی پیدا کردیتی ہے۔دادا جان کا سانحۂ ارتحال بھی انہی میں سے ایک ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ء</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">1930</span> میں جھنڈانگر جیسے مردم خیزقصبہ کے افق سے طلوع ہونے والایہ تابندہ ستارہ عمر بھر لوگوں کو روشنی دیتا رہا، منارۂ نور بن کر سلفیت کی بے لوث نشر واشاعت کی،لوگ فیضیاب ہوتے رہے، 4؍ نومبر کی تاریخ کیا آئی، رب کائنات نے اس ستارے کو ہماری نظروں سے اوجھل کردیا۔قضاء و قدر کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْرٌ (22الحدید)۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b><span style="font-size: large;">خانوادہ:</span></b></span><span style="font-size: 18px;">ضلع سدھارتھ نگر ڈومریا گنج کے قریب مردم خیز موضع بیت نارکے شہید فی سبیل اللہ عیدو میاں کے پوتے اور مشہور مصلح و مربی میاں محمد زکریا ؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الوہاب ریاضی سلسلہ ذہبیہ کے وہ کڑی تھے ، جو علم وعمل ، تقویٰ وتدین ، تبلیغ واصلاح میں بے مثل تھی، آپ کے آبائی گاؤں بیت نار میں انگریزی استعمار کے عہد میں آپ کے دادا محترم سلفیت کے ٹھیٹھ علمبردار اور مجاہد تھے، ایک معرکہ میں بلوائیوں نے آپ کو شہید کردیاتھا، پوسٹ مارٹم کے لئے نعش بستی لے جائی گئی ، اور کچہری کے صحن میں آپ کو دفن کر دیا گیا، جہاں بعد میں بد عقیدہ لوگوں نے مزار بنا کر پرستش شروع کردی، (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ وسائل وذرائع کی کمیابی کے باعث آپ کی نعش بیت نار نہیں لائی جا سکی تھی۔</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">پیکر زہد وورع ، عظیم مصلح وداعی ، کتاب وسنت کے مناد، الحاج میاں محمد زکریا ؒ آپ کے والد گرامی تھے، جنہوں نے جھنڈا نگر اور ہند ونیپال کے سرحدی خطہ میں دعوت و اصلاح کی گہری چھاپ چھوڑی ہے، آپ کے علم و عمل کا چرچا و شہرہ دور دور تک تھا، چنانچہ مدرسہ سراج العلوم(جو بعد میں چل کر جامعہ بنا) کے بانی الحاج نعمت اللہ خان ؒ نے بیت نار سے آپ کو بلوالیا، اور آپ مدرسہ کے پڑوس میں آباد ہوگئے، جامعہ میں تدریس و امامت اور اسکی آبیاری میں پوری زندگی صرف کردی، ۱۹۱۸ء سے لیکر ۱۹۸۵ء تک جامعہ سراج العلوم کی طویل المدتی خدمت کسی کو میسر نہ ہوئی، حتی کہ اس ک بانیان و ذمہ داران کو بھی اتنا موقع نہیں ملا۔ خانوادۂ نعمت اللہی اور خانوادۂ میاں محمد زکریا کا باہمی تعلق اس قدر پروان چڑھا کہ بہت عرصے تک لوگوں کو نہیں معلوم ہوا کہ یہ دو خاندان ہیں۔ دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کی ضروریات کا ہمیشہ خیال رکھا، مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ خانوادۂ نعمت اللہی نے خانوادۂ میاں محمد زکریا پر اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اعتماد کیا، اور یہ خاندان ہمیشہ ان کی توقعات پر کھرا اترا، سیکڑوں بیگھ زمینیں خانوادۂ میاں محمد زکریا کے نام کردیں، اور جب انہوں نے چاہا، ٹرانسفرکردیا گیا، امانت و دیانت کے معاملے میں موجودہ ناظم جامعہ مولانا شمیم احمد ندوی صاحب نے ایک بار اپنے ماہنامے السراج میں لکھا کہ موجودہ زمانے میں خاندان زکریا کے امانت کی مثال ملنی مشکل ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">دادا جان مولانا عبد الوہاب ریاضی اپنے پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے، عظیم مصلح ونمونۂ سلف جیسے باپ کی تربیت پائی، اور اسی نہج پر اپنے اولاد واحفادکی تربیت کی، رشتہ داروں اور پٹی داروں کی ہمیشہ رہنمائی کی اور خاندان کو علم و عمل ، ترقی و نیک نامی بخشی، چنانچہ تجارت، تدریس، ، طب، انجینئرنگ، صحافت ، ادب اور دعوت کے میدان میں افراد تیار ہوئے جو سماج و ملت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور آج خانوادۂ زکریا ہند و نیپال میں ایک معروف خانوادہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: large;">گلشن اخلاق:</span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"> دادا جان ؒ ایک متواضع، خلیق، خدا ترس، پرہیزگار ، امین، دانا و بینا شخص تھے، عمر بھر کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے، ہر طرح کے حالات میں اپنے کو ایڈجسٹ کرنا جانتے تھے، ، قناعت، شکر و صبر کے پیکر رہے، بڑوں کی عزت و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کسی کو سیکھنا ہے تو دادا جان سے سکھے، تعلقات کیسے نبھائے جاتے ہیں، ایفاء وعد و عہد کسے کہتے ہیں، باہمی اتحاد، اخوت ومحبت کث کیسے برقرار رکھا جائے، آپ کی حیات مبارکہ سے سیکھا جا سکتا ہے۔عزت نفس، خودداری، تکریم محبت و اخوت، خندہ پیشانی،صلح و مصالحت جیسے پھول آپ کے گلشن اخلاق کی زینت ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: large;">دعوتی زندگی:</span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"> </span>زمانۂ طلب علم سے ہی تبلیغ علم کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، اور یہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہا، دعوتی مقامات میں جھنڈا نگر، سمرا ، چے پوروا، مہادیو بزرگ، ششہنیاں، پکھربٹوا، دلدلہا، بیدولی، تولہوا، پرسوہیا، الگا، بٹھنیاں، سکھرام پور، سیو ہروا، اسلام نگر جیسے مواضعات نے آپ سے بالخصوص استفادہ کیا ہے۔اور دادا جان نے مذکورہ بعض بدعتی مواضعات کو سلفیت کے رنگ میں ڈھال دیا، بڑے جتن کئے، نا موفق حالات میں بھی ڈٹے رہے، اور بدعتی ٹولوں کو شکست پہ شکست ملتی گئی، چنانچہ آج ان مواضعات میں دادا جان کے تابندہ دعوتی نقوش و اثرات بجا طور پہ دکھائی دیتے ہیں، مجھے کہنے دیجےئے کہ دادا محترم نے بدعات وخرافات کے خلاف جو زمینی محنت کی ہے، موجودہ زمانے کے اشتہاری مقررین علماء جو اپنے کو علامہ سے کم نہیں سمجھتے اور جن کی جلسوں میں منظوری مول بھاؤ پر ٹکی ہوتی ہے، وہ سوچ نہیں سکتے کہ سیکڑوں افراد کو شرک و بدعت کے دلدل سے نکالنا وہ عظیم دعوتی خدمت ہے جو ان شاء اللہ ذریعۂ نجات کے لئے کافی ہوگی۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان یاد آرہا ہے : لأن یہدی اللہ بک رجلا واحدا لکان خیر لک من حمر النعم ۔ اگر اللہ نے آپ کے ذریعے کسی ایک شخص کو ہدایت دے دی،تو وہ آپ کے لئے سرخ اونٹوں سے کہیں بہتر ہے(بخاری، مسلم)۔ان شاء اللہ یہ سارے اجر آپ کے خزانے میں ہونگے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">دادا جان بڑی سادگی سے درس دیتے ، تقریر کرتے اوراسلوب میں ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی أحسن کے قاعدے کو ملحوظ رکھتے۔جلسہ میں تقریر کرنا اور جمعہ کا خطبہ بڑا آسان ہوسکتا ہے، لیکن انفرادی دعوت ، گھر گھر کتاب و سنت کی روشنی سے مستنیر کرنے اور اس پہ آنے والی مصیبتوں پر صبر ، یہ وہ دعوتی انداز و کارنامہ ہے ، جہاں اصلاح کے امکانات صد فی صد ہوتے ہیں، چونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں آپ نے حکیم لقمان کی نصیحت کو یاد رکھا: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَک (لقمان ۱۷)۔کہ بھلائیوں کی نشر و اشاعت اور منکرات سے باز رکھنے کی راہ میں آنے والی مصیبت اور رکاوٹوں پر صبر کرنا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">تعزیہ داری، محرم کے ماتمی جلوس ، میلاد وغیرہ کے آپ سخت خلاف تھے اور اس کے قلع قمع کے لئے آپ نے تحریک چھیڑ رکھی تھی، تعزیہ داروں کو بلا کر سمجھاتے ، توبہ کراتے تھے،نتیجتا بدعات میں کمی آگئی، اور دس محرم کے دن ہی رب العزت نے اپنے پاس بلا لیا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">راقم الحروف نے آپ کے دعوتی محور کے مواضعات کا دورہ دادا کے ساتھ کیا، موضع الگا کا دو بار دورہ کیا، ایک جب میری عمر محض سات برس کی تھی، اور وہاں ضلعی پیمانے پر تعلیمی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا تھا، اس وقت دادا جان کی قدر ومنزلت کا احساس ہوا جب لوگ ہمیشہ گھیرے میں لئے رہتے اپنے مسائل حل کراتے، دادا جان کی ترغیب پر میں نے مقابلۂ قرأت میں حصہ لیا تھا، غالبا ۱۹۸۷ء کی بات ہے اس موقع پر مجھے جو انعام ملا: ایک اسکیل، ایک کاپی، اور ایک پلاسٹک کا گلاس۔ میں پھولے نہیں سمایا۔اور لگا کہ اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے! وہیں سے مجھے تحریک ملی، اور بہت سارے تقریری و تحریری مقابلوں میں اللہ نے انعامات واعزازات سے نوازا۔ وللہ الحمد۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">دوسرا دورہ جب میں عربی چہارم کا طالبعلم تھااور دادا کے ساتھ الگا گیا، دادا کی خواہش تھی کہ خطبۂ جمعہ میں دوں، لیکن گاؤں والوں کا اصرار تھا کہ بہت دنوں کے بعد آپ آئے ہیں ، آپ کا خطبہ سننا چاہتے ہیں۔دادا جان نے بلیغ خطبہ دیا۔اور نماز جمعہ کے بعد میں نے اتحاد واتفاق پر تقریر کی ، جس پر وہاں کے لوگوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">بچپن ہی میں موضع پکھر بٹوا و دلدلہادادا کے ساتھ گیا، جب لوگوں سے ملاقات کے لئے گاؤں میں نکلے تو ہر شخص چشم براہ تھا کہ ہمارے گھر تشریف رکھیں،، میں بہت چھوٹا تھا ، ایک صاحب مجھ کو گود میں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور کہا یہ مولوی صاحب کے پوتے ہیں، گھر کی خواتین نے فورا سر میں تیل کنگھی، اور آنکھ میں کاجل لگا دیا اور کھانے کے لئے جو کچھ گھر میں تھا، میرے سامنے لا کر رکھ دیا، میں حیران تھا، دادا جان کی قدر و منزلت اور محبت اس قدر مرد و خواتین کے دلوں میں گھری تھی، وہ چاہ رہے تھے کہ دادا جان کی کیا سے کیا خدمت کردیں۔ یہ لگاؤ اور تعلق یونہی نہیں پیدا ہوا ، بڑی محنت اور جتن کے بعد دادا جان نے وہاں سلفیت کی شمع روشن کی تھی، جس کی روشنی سے آج پورا خطہ فیضیاب ہورہا ہے، اللہ ان خدمات کو قبول فرمالے۔ دادا جان نے مہادیو بزرگ میں کئی برس عیدین کی نماز پڑھائی اور خطبہ دیا، وہاں کے لوگ بالخصوص مولانا عبد الحئی اور چودھری نور الحسن رحمہما اللہ دادا سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، اور جھنڈانگر جب آتے تو ملے بغیر نہیں جاتے۔ زمانۂ طالبعلمی میں مجھے بھی وہاں عیدین اور جمعہ کا خطبہ دینے کا شرف حاصل ہوا، لوگوں نے حوصلہ بڑھایا، عیدی سے نوزا، اور بار بار دعوت دیا مگر میں اپنی مصروفیات کے سبب نہیں جا سکا ، جس کا مجھے قلق ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">چنروٹا سے قریب موضع اسلام نگرمیں دادا جان اپنے تبلیغی دورے جاری رکھے ، کئی بار ان کی مسجد میں خطبہ بھی دیا جو جاہل بریلوی مولوی کو ناگوار گزرتا تھا،مگر عوام کی مرضی یہی ہوتی کہ آپ خھبہ دیں، چنانچہ اللہ نے کئی لوگوں کو ہدایت دی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جھنڈانگر سے ملحق موضع سمرا ، جو دادا جان کی دعوت کا خاص محور رہا ہے، اور عمر کے آخری ایام تک اس سلسلہ کو جاری رکھا، یہاں کے لوگ آپ سے بیحد مانوس تھے اور انتہائی احترام سے پیش آتے۔ دادا جان یہاں کے مسکینوں ، بیواؤں اور یتیموں کا خاص خیال رکھتے تھے،غالبا ۱۹۸۸ء سے سے سمرا میں آپ نے جمعہ کا برابر خطبہ دینا شروع کیا، جو انتقال سے ایک ماہ قبل تک جاری رہا۔آپ دوسرے علماء و طلبہ کو بھی موقع دیتے تھے، میں نے بھی جمعہ کا خطبہ دینا سمرا سے ہی سیکھا۔اہالیان سمرا سے دادا بہت محبت کرتے تھے اور وہ بھی آپ سے، اس گاؤں میں کبھی کسی غلط کام کو دیکھتے تو برملا ٹوکتے، اگر اسکی اصلاح کچھ دنوں میں نہیں ہوتی ، تو ان کے غضب کا انداز میں نے دیکھا، کہ ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب نے خطبہ دیا، نماز کے بعد مولانا سے کہا کہ کھڑے ہوجائیے اور ان آیتوں ۔۔فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ ، لَّسْتَ عَلَیْْہِم بِمُصَیْْطِرٍ ، إِلَّا مَن تَوَلَّی وَکَفَرَ ، فَیُعَذِّبُہُ اللَّہُ الْعَذَابَ الْأَکْبَرَ کی تشریح کیجےئے۔ حکمت ودانائی ہمیشہ ملحوظ رکھتے ، مگر منکرات کے مسلسل اصرار پر سخت بھی ہوجایا کرتے تھے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: large;">جھنڈانگر میں عیدین کا قیام:</span></span></b></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"> جھنڈانگر تقریبا تین سو سال پرانی بستی ہے، دیوان جھنڈا خاں کے نام پر جھنڈانگر آباد ہوا، انگریزی استعمار کے عہد میں نیپال کا یہ سرحدی خطہ بھی متاثر تھا۔جامعہ سراج العلوم کا قیام 1914ء میں عمل میں آچکا تھا ، علوم دینیہ کی نشر واشاعت کا سلسلہ جاری تھا، مگر مقامی اہل حدیث آبادی عیدین کی کی نماز لچھمی نگر اور ڈیہوا بریلوی امام کے پیچھے پڑھتی تھی، دادا جان اس وقت طالبعلم تھے ، مگر انہیں یہ بُرا لگتا تھا کہ ہم اہل حدیث ہوتے ہوئے بریلویوں کے پیچھے دوگانۂ عیدین ادا کریں، 1947ء میں دادا جان طلب علم کے لئے جب جامعہ ریاض العلوم دہلی گئے ، اور عید کی چھٹی میں گھر آئے ، تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ اب ہم بریلویوں کے پیچھے نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ آپ نے جامعہ سراج العلوم کی چھت پر پہلی بار عید کی نماز پڑھائی اور خطبہ دیا، پھر کیا تھا، سلسلہ بندھ گیا، کچھ ہی برسوں کے بعد آبادی سے باہر کھلیان میں عیدین کی نماز ادا کی جانے لگی، پھر ایک مدت کے بعد خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی ؒ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی،اور انہوں نے ایک زمین خرید کر عید گاہ کے لئے وقف کردیا، پھر جھنڈانگر ہی نہیں ، بلکہ سمرا، بڑھنی کلن ڈیہہ وقرب وجوار کے مرد و خواتین جھنڈانگر آنے لگے اور امامت وخطابت کا سلسلہ دادا جان سنبھالے رہیڈ خطیب الاسلام کی دور اندیشی دیکھئے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ وثیقہ لکھ کر دیا کہ مولانا عبد الوہاب ریاضی اور انکے خاندان کے با صلاحیت لوگ عیدین کی امامت و خطابت کے فرائض انجام دینگے۔اگر خاندان کدربٹوا کا کوئی شخص عیدین کی امامت یا خطبہ دینا چاہے تو اس سے تعرض نہ کریں گے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">خطیب الاسلام کے انتقال کے بعد چند سادہ لوحوں کے بہکاوے میں آکر جامعہ سراج العلوم کے موجودہ ذمہ دار اُن کے ذریعے بچھائی گئی بساط میں ایسے پھنسے کہ جھنڈانگر کی مختصراہلحدیث آبادی کے مابین فتنہ و خلفشار کی بیج بو دیا گیا،اور فرائض سے توجہ ہٹا کر ایک سنت کیلئے انتشار پیدا کیا گیا،خطیب الاسلام کے جانشین اگر انکی وصیت و وثیقہ کی پاسبانی کی طاقت نہیں رکھتے تو صرف دعاء کروں گا کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: large;">مدرسہ خدیجۃ الکبری کا قیام:</span></span></b></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b> </b></span>جامعہ سراج العلوم میں مکتب کے درجہ ششم تک بچوں اور بچیوں کے لئے مخلوط تعلیم کا نظم تھا، درجہ ششم کے بعد لڑکیاں گھر میں بیٹھ جاتیں اور امور خانہ داری میں لگ جاتیں۔ لڑکیوں کے لئے نہ ہی علحدہ مکتب تھا ، نہ مدرسہ ، جہاں وہ مزید تعلیم حاصل کرتیں۔ جامعہ میں واش روم بھی مشترک تھا، دادا جان اور بعض اساتذہ نے خطیب الاسلام سے درخواست کی کہ کم از کم لڑکیوں کے لئے علحدہ بیت الخلاء کا نظم کردیا جائے ، ساتھ ہی مدرسۂ نسواں کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ مگر یہ دونوں مطالبے پورا نہ ہوتے دیکھ دادا جان نے علاقہ کے معززین جیسے مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانیؒ ، مولانا عبدالرحمنؒ صاحب کدربٹوا ، ڈاکٹر انوار احمد خان اور ڈاکٹر اسرار الحق خان وغیرہم کے مشورے سے ۱۹۸۸ء میں مدرسہ خدیجۃ الکبری کا قیام عمل میں لائے اور اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے بھتیجے مولانا عبد اللہ مدنی کو جھنڈانگر بلوالیا۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ اکتوبر ۱۹۸۸ء میں پرائمری کی ابتدائی کلاسیز کا آغاز ہوگیا تھا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">دادا جان نے مدرسہ کے اہتمام وبعض گھنٹیوں کی تدریس کی ذمہ داری بلا معاوضہ عمر کے آخری وقت تک سنبھالے رہے، مدرسہ چلانے کاہنر دادا جان کے پاس تھا، جہاں نوک جھونک اور الجھاؤ نہیں تھا، انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ مدرسہ کے وقار اور سب کے مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرتے جس سے سارے لوگ خوش ہوتے تھے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">انتقال سے قبل مجھے اور خاندان کے کئی ذمہ داروں سے ملاقاتیں کر کے ادارہ کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا، اور نصیحت و وصیت کی کہ ادارہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے، تنزلی کا منہ کبھی نہ دیکھے، اور خاندان کا ہر فرد اس کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ اللہ کرے شاداب رہے جو کشت ہنر نیپال میں ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: large;"><b><span style="color: purple;">دادا جان اور جامعہ سراج العلوم:</span></b> </span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جامعہ سراج العلوم کے قیام کو محض چار سال گزرے تھے ، ۱۹۱۸ء میں بانئ جامعہ الحاج نعمت اللہ خان ؒ نے پردادا الحاج میاں محمد زکریا ؒ کو بیت نار سے بلوا لیا، پردادا رحمہ اللہ نے علاقے میں جو دعوت واصلاح کا کام کیا، وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔جب وہ جھنڈانگر تشریف لائے تو علاقہ بریلوت، دیوبندیت زدہ تھا، اور بانئ جامعہ بھی کسی حدتک متاثر تھے، نماز میں رفع یدین اور سینے پر ہاتھ باندھنا پرداداؒ نے سکھایا، جھنڈانگر و بڑھنی کے سرحدی خطے میں آج سلفیت کے جو برگ وبار نظر آرہے ہیں ان میں پردادا ؒ کا بہت بڑا کردار ہے، اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دادا جان نے اسی دعوتی و اصلاحی عمل کو آگے بڑھایا، چنانچہ خطیب الاسلام رحمہ اللہ نے جب آ پ کو معتمد تعلیمات مقرر کیا تو نہ صرف آپ نے جامعہ کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار نبھائے بلکہ انتظامی امور میں بھی خطیب الاسلام کا ہاتھ بٹایا، اگر چہ یہ مدت محض دو سال تھی، مگر اس دوران آپ نے جامعہ کی کایا پلٹ دی تھی،اساتذہ کے چھٹی پر جانے سے کلاسیز میں جو گھنٹیاں خالی ہوجایا کرتی تھیں، آپ ان گھنٹیوں میں جا کر باقاعدہ پڑھایا کرتے تھے۔خطیب الاسلام ؒ کے اسفار کے دوران بھر پور نیابت کا فریضہ انجام دیتے تھے،بعض حاسدین کے چلتے اور اصلاحی عمل کو نہ چاہتے ہوئے خطیب الاسلام ؒ نے انہیں تولہوا میں ایک نئے محاذ پر بھیج دیا، جہاں آپ نے اس بنجر خطہ کو شاداب کیا، اور اس دوران جو تکلیفیں اٹھائیں ، قربانیاں دیں، وہ قابل تقلید ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جامعہ سراج العلوم میں آپ کے بڑے بھائی مولانا ابو البرکات رحمانیؒ نے لگ بھگ 60؍ برس تدریسی فریضہ انجام دیا، ان کے بڑے صاحبزادے محمود احمد نے بھی مکتب میں تین برس تک پڑھایا، راقم الحروف کو بھی اعزازی طور پہ چند ماہ تدریس کا موقع ملا، غرضیکہ خاندان زکریا کا جامع سراج العلوم سے بڑا گہرا ربظ رہا، اس کی تعمیر و ترقی اور پاسبانی میں خانوادۂ زکریا کا بڑااہم رول رہا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<b><span style="color: purple;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: large;">بعض شخصیات سے تعلقات خصوصی:</span></span></span></b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><span style="color: purple;"> </span></b>دادا جان کی شخصیت ہر دلعزیز و دلپذیر تھی، استفادہ وافادہ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ مشائخ و علماء، زمیندار و رؤساء، تجار و فقراء سب آپ کے قدر دان تھے۔حتی کہ بعض عرب مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا اور آپ نے انہیں سند اجازت سے نوازا۔شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانیؒ کے خلف الرشید مولانا عبد الرحمن مبارکپوری سے گہری دوستی تھی اور ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے،بابو عبد الرشید خان کدربٹوا کی والدہ کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا، آپ کا بچپن جھنڈانگر میں گزرا، دادا اور آپ بچپن کے دوست تھے، اور سب کہتے تھے کہ یہ دونوں بھائی ہیں۔دادا جان مولانا عبد الرحمن صاحبؒ کدربٹوا کے ساتھ اعتکاف بیٹھا کرتے تھے، اور بڑی عقیدت رکھتے تھے،مولانا عبد الصبور رحمانی ؒ ، احمد خان (اکرہرا) ، ادریس مہتو، سہراب بابو، فخر الحسن، مہدی حسن بادشاہ، سمیع اللہ خان صاحبان (کھجوریہ)، عبد الوہاب صاحب ، ماسٹرعبد المعبود صاحب (بیرہوا)مولانا شفیع اللہ ملگیہیا اور حافظ نذیر احمد(جھنڈ انگر) ؒ سے محبانہ ودوستانہ تعلقات تھے، الگا کے سیٹھ ضمیر اللہ ، حاجی جوکھو، سیٹھ حفیظ اللہ ؒ دادا سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، چیپروا کے سعادت خان ، رکوع خان ، حکیم عبد المجید خان ، امولی کے نثار خان دادا کے بڑے قدر دان تھے اور دادا کی کاوشوں کے سبب یہ سب صحیح العقیدہ ہوئے۔ اللہ ان سب پر رحم فرمائے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="color: blue;"><b style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="font-size: x-large;">تأثرات</span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جناب سفر علی (لیڈر کمیونسٹ پارٹی اے مالے ) بٹول</span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">میں جب بھی جھنڈا نگر آتا، تو کوشش کرکے حضرت رحمہ اللہ سے ملاقات ضرور کرتا، دینی مسائل پر گفتگو ہوتی، اور وہ میری تشنگی بجھاتے، انتہائی با اخلاق ، سچے محب، متواضع اور خلیق انسان تھے، عیادت کیلئے کئی بار حاضر ہوا، بہت ہشاش بشاش رہے، ان کے انتقال کی جب خبر ملی، تو بہت صدمہ پہنچا، ، فورا گھر سے نکلا،اور جنازہ میں شامل ہوا، ، آپ جھنڈانگر کے روشن چراغ تھے، اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، اور خاندان کو صبر کی توفیق دے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جناب الحاج محمد سلیم صاحب (پردھان جی)املیا</span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">پہلی بار ۱۹۸۱ء میں جب مولانا سے ملاقات ہوئی، تو میں آپ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا، تولہوا اور قرب وجوار میں آپ نے اصلاح کے لئے جو محنت کی ہے وہ بہت بڑا کارنامہ ہے، میں نے اپنے فرزند مولوی سکندر علی سلمہ اللہ کو آپ کے حوالے کردیا، چنانچہ آپ نے انکی تربیت کی،۔ مولانا کی تربیت کا انداز نرالا تھا، پہلے میں باریک قسم کی دھوتی پہنا کرتا تھا، نماز بھی اسی میں پڑھتا، مولانا نے یہ دیکھ کر کہا کہ اس سے بے پردگی ہوتی ہے، آپ موٹی دھوتی پہنئے ، چنانچہ میں نے موٹی دھوتی پہننا شروع کردیا، ، ایک مرتبہ راجہ کی آمد پر میں نے موٹی دھوتی پہنی، اور مولانا کے ساتھ نماز پڑھی، نماز بعد آپ نے کہا: دھوتی پہننا چھوڑ دیجےء، یہ مسلمانوں کا پہناوا نہیں، اسی وقت میں نے دھوتی پہننی چھوڑ دی، لنگی اور پائجامہ کی عادت ڈال لی، آپ کی صحبت کا میری ذات پر بڑاگہرا اثر رہا ہے، میں نے اپنے تمام بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔ میرا اور آپ کے خاندان سے تعلق اس قدر بڑھتا گیا، کہ ہم باہم رشتہ داروں سے بڑھ کر تعلق نبھاتے رہے اور نبھا رہے ہیں، اللہ تعالی انکے مساعی کو قبول فرمائے اور جنت میں ان کا مسکن بنائے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جناب محمد عمر انجینئر</span></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">چچا مولانا عبد الوہاب صاحب ریاضی رحمہ اللہ بے داغ شخصیت کے حامل تھے، تھوڑے سے وقت میں بہت ساری دینی معلومات سے واقف کراتے تھے، دعوتی و تعلیمی مزاج رکھنے والے چچا رحمہ اللہ کے حق میں مدرسہ خدیجۃ الکبری کی فارغات ان شاء اللہ ذخیرۂ آخرت ثابت ہوں گی ، علاقے میں پہلی نسواں درسگاہ کے قیام کا سہرا آپ کے سر پر ہے، جہاں کی تعلیم یافتہ بچیاں معاشرہ کو اسلامی رنگ دینے کا کام بھر پور کام کر رہی ہیں، علمی و دعوتی حوالے سے یہ خاندان اعلی وارفع ہے، اگر ان کے اولاد واحفاد اس سلسلے کو جاری و ساری رکھیں۔ واللہ ہو الموفق۔</span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-87954352170797448632015-03-09T04:00:00.003-07:002015-03-17T21:23:41.818-07:00خود نو شت حالات زندگی --- مولانا عبدالوہاب ریاضی رحمہ اللہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><b><span style="font-size: x-large;">خود نو شت حالات زندگی</span></b></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مولانا عبدالوہاب ریاضی رحمہ اللہ</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: purple;"><b><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">نام و نسب</span></b></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"> </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">عبدالوہاب بن محمد زکریا بن عید اللہ بن منور بن طہور</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><span style="color: purple;">ولادت و نشاء ت</span></b>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">میری ولادت ہندو نیپال کے سرحدی قصبہ جھنڈانگر میں ۱۹۳۱ء میں ہوئی، چونکہ خاندان دینی اور علمی مزاج کا حامل تھا اس لئے پرورش بھی اسی انداز میں ہوئی، جب عمر اس مقام پر پہونچی کہ جس میں بچے کے اندر سمجھنے اور بوجھنے کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے تو مجھے مکتب میں بٹھادیا گیا اور والد صاحب کی نگرانی میں تعلیمی سلسلہ شروع ہوا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b>تعلیم و تربیت</b></span>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">والد محترم میاں محمد زکریا صاحب مرحوم جامعہ سراج العلوم کے استاد تھے اس لئے ان کی نگرانی میں تعلیمی سفر کا آغاز مذکورہ جامعہ ہی سے ہوا۔ یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جماعت ثانیہ کی تعلیم جامعہ رحمانیہ بنارس میں پائی، پھر ثانویہ کی تعلیم کے لئے درالعلوم ششہنیاں بھیج دیا گیا (دارالعلوم کا دوسراسال چل رہا تھا، بڑا چرچا تھا) اور وہیں رہ کر میں پڑھنے لگا۔ ان دنوں مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانیؔ کے علم و فضل اور دعوت و تبلیغ کا شہرہ تھا اور دارالعلوم ہی میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے تھے، لہذا ان سے اور دیگر اساتذہ سے کسب فیض کا نہایت سنہری موقع ملا۔ مرحوم رحمانی صاحب سے مشکوۃ المصابیح، مؤطا امام محمد مولانا محمد زماں رحمانی سے، ترجمہ قرآن مجید، فقہ، کتاب التوحید، کنز الدقائق اور تفسیرجلالین وغیرہ مولانا عبدالقدوس صاحب ٹکریا سے پڑھی۔ یہاں ثانویہ کی تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد مزید حصول تعلیم کی غرض سے دہلی کا سفر کیا اور وہاں ریاض العلوم میں داخلہ لیا، عا لمیت تک علمی پیاس وہیں بجھاتا رہا۔ حدیث، شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام صاحب بستوی، تفسیر مولانا سید تقریظ احمدسہسوانی اور ادب مولانا عبدالحکیم صاحب آئمی سے پڑھی، اس طرح ۱۹۵۰ء میں ریاض العلوم سے سند فراغت حاصل کرلی۔ فراغت کے بعد درس و تدریس میں لگ گیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><span style="color: purple;">خاندانی پس منظر</span></b>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">میرے والد کے دادا ہرکیسن بازار اترولہ کے باشندے تھے اور یہیں سے ہجرت فرماکر میرے دادا موضع بینت نار سدھارتھ نگر آئے تھے۔ بنیادی طور پر کاروباری آدمی تھے، مگر دور دراز کے علاقے جیسے مؤ، بنارس وغیرہ شہروں کے جلسوں میں جاتے تھے اور اسی کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام بھی انجام دیتے رہے، یہ سلسلہ زندگی کی آخری عمر تک چلتا رہا۔ ان کی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز ان کا اپنا علاقہ اور دیہاتی عوام تھے، خاص طور پر طیب پور، اس گاؤں میں ان کی دعوت و تبلیغ کا زبردست اثر ہوا حتی کہ وضع قطع کو بھی انہوں نے بدل دیا۔ دادا محترم نے ان لوگوں کے وہ لباس جو ہندو معاشرہ کے غلبہ کی وجہ سے ان کے اندر آئے تھے ان کی بھی ختم کردیا، ان کی دھوتیاں پھاڑ کر تہبند بنوادیا۔ طیب پوریہ وہ گاؤں ہے جہاں اس اصلاح کے بعد علماء و دعاۃ کی ایک ٹیم پیدا ہوئی جو دین کی دعوت میں سرگرم رہی اوربعض اس فریضہ کی ادائیگی میں آج بھی تندہی سے خدمت انجام دے رہے ہیں: جیسے مولانا زین اللہ رحمہ اللہ، مولانا حبیب اللہ رحمہ اللہ، مولانا عبدالسلام رحمانی، مولانا عبدالعزیز طیبی، مولانا نیاز احمد طیب پوری، مولانا محی الدین وغیرہم۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہندوستان باہمی رسہ کشی کے دور سے گزر رہا تھا، ہندو مسلم میں جھگڑے ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیت نار میں ہندو بلوائی گھس آئے، اس وقت دادا کی عمر تقریباً ۵۵؍ اور ۶۰؍ کے درمیان رہی ہوگی، انہوں نے گاؤں والوں کے ہمراہ لاٹھی لے کر ان کا جم کر مقابلہ کیا، بلوائیوں کا حملہ ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۳۱۴ھ کو ہوا تھا، پہلا مقابلہ اتنا جم کر ہوا کہ بلوائیوں کو مار بھگایا۔ دوسرے دن ۱۱؍ ذی الحجہ کو اور تیاری کے ساتھ بلوائی آئے، اس دن بھی مقابلہ ہوا بالآخر معلوم نہیں کس کی لاٹھی ان کو لگی کہ ان کو مالک حقیقی سے جا ملایا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ چوٹ کافی آئی تھی، غشی کی حالت میں ان کو پولیس کی نگرانی میں بستی لے جایا جارہا تھا کہ راستے ہی میں وہ انتقال کرگئے۔ بستی میں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اوربستی کی مسلم عوام نے ان کو جو عزت دی تھی اس کی بنا پر ان کو وہیں دفن کرنے پر بضد ہوگئے اور وہیں سپرد خاک کردیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">گاؤں اور علاقے میں ان کی بہت عزت تھی، علاقے کا زمیندار بہت عزت کرتا تھا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ان کے اکلوٹے بیٹے میرے والد محترم میاں محمد زکریاتھے، ان کی شہادت کے وقت وہ جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں زیر تعلیم تھے، والد کی شہادت سے بد دل ہوکر وہ گھر پر بیٹھے رہے، غالباً پانچویں یا چھٹی جماعت تک تعلیم پائی تھی۔ ان کو گھر بیٹھے پاکر گاؤں والوں نے گاؤں کے مکتب میں بٹھا دیا اور وہ درس و تدریس کی خدمات انجام دینے لگے۔ اسی زمانہ میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے مؤسس اور سرپرست حاجی نعمت اللہ خاں (مولانا عبدالرؤف رحمانی صاحب کے مرحوم والد) کو ایک معتبر عالم دین مدرس کی ضرورت تھی، لوگوں نے والد مرحوم کی طرف توجہ دلائی اور اسی دن بیت نار آدمی بھیج دیا۔ چونکہ دونوں خاندانوں میں گھریلو تعلقات تھے اس لئے ان کو انکار نہ کرسکے، لہذا گاؤں کا مکتب چھوڑ کر جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر سے منسلک ہوگئے۔ حاجی صاحب مرحوم نے فیملی کے ساتھ رہنے کا معقول انتظام کیا اور ۱۰؍ روپئے ماہانہ مشاہرہ متعین کردیا، پھر دھیرے دھیرے والد محترم نے یہیں مکان بنوالیا اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہیں میری پیدائش ہوئی۔ </span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ہمارا اور مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کا ننہیال ایک ہی گاؤں میں تھا، ان دنوں ہماری والدہ اور مولانا عبدالرؤف صاحب کی والدہ تعلیم و تربیت ہمارے نانا میاں گوہر علی کے ذریعے پاتی رہیں اور دونوں سہیلی تھیں، حاجی نعمت اللہ خاں کا پورا خاندان جھنڈانگر ہی میں مقیم تھا، ہماری والدہ محترمہ بھی یہیں پر آگئیں، دونوں کے اکٹھا ہوجانے پر ہمارے اور مولانا عبدالرؤف صاحب کے گھریلو تعلقات میں مزید اضافہ ہوا، ایک زمانہ تک کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ دونوں دو خاندان ہیں۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">(نوٹ:) مولانا عبدالرؤف رحمانی صاحب کے حیات تک ہم سب باہم شیر و شکر رہے۔ وللہ الحمد</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b>درس وتدریس</b></span>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">فراغت کے بعد مدرس کی حیثیت سے مدرسہ نورالعلوم پکھربھٹوا کپل وستو، نیپال سے میں منسلک ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس مدرسہ سے منسلک ہونے میں مشفق استاذ مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانیؔ کا زبر دست ہاتھ تھا۔ میں سند فراغت لینے کے بعد بھائیوں کے ساتھ تجارت میں لگ گیا تھا، ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ استاد گرامی مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی رحمہ اللہ کا فرستادہ ان کا خط لے کر گھر پر آگیا جس میں انہوں نے مجھے مشفقانہ انداز میں طلب کیا تھا۔ والد صاحب اور بھائیوں سے مشورہ کرنے کے بعد میں ششہنیاں کے لئے روانہ ہوگیا، درالعلوم پہونچ کر مولانا رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی، پھر حکم ہوا کہ درس و تدریس کے لئے آپ کو جانا ہے۔ کہنے لگے کہ نیپالی کے باڈری علاقہ میں ایک موضع پکھربھٹوا ہے جو اب بریلویوں کے قبضے میں جاچکا ہے، میرے ایک دوست مولوی نور محمد شاہ نے مجھے سے تذکرہ کیا اور ایک معلم و داعی کا مطالبہ کیا، میں نے ان سے معلم و داعی دینے کا وعدہ کرلیا ہے اور میری نظر انتخاب میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے، لہذا وہاں جانا ہے۔ میری طبیعت دیہات میں جانے کو تیار نہ تھی جسے وہ بھانپ گئے، کہنے لگے کام شروع کرو، اگر طبیعت نہ جمے تو ہماری زندگی تک دارالعلوم کے دروازے تمہارے لئے کھلے رہیں گے۔ یہ ان کی ذرہ نوازی تھی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اللہ اللہ کرتے میں پکھربھٹوا پہونچ گیا اور درس و تدریس میں لگ گیا۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک تقریباً ساڑھے نو سال تک وہاں معلمی کے فرائض انجام دئے، پھر وہاں سے چلا آیا اور تجارت میں لگ گیا۔ ۱۹۶۵ء میں جامعہ سراج العلوم میں مدرس اعزازی کی حیثیت سے مقرر کیا گیا، لیکن یہ حیثیت مستقل نہیں تھی اور اس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں تھا۔ تیسری جماعت میں ترجمہ قرآن اور بلوغ المرام پڑھاتا رہا۔ اعزازی تدریسی حیثیت کی مدت دو برس تھی اور گاہے بگاہے کام کرنے کی مدت پانچ برس تک رہی، یہ سلسلہ ۱۹۷۱ء تک قائم رہا۔ ۱۹۷۲ء اور ۱۹۸۰ء کی درمیانی مدت میں الگا کپل وستو، نیپال مکتب اسلامیہ میں مدرس کی حیثیت سے رہا۔ یہاں تقریباً ۸؍ برس تک خدمات انجام دی۔ یہاں کے دو بزرگ میرے پاس تدریس اور خطبہ جمعہ کے لئے پیش کش لے کر آئے میں نے خوش دلی سے قبول کرلیا، الگا کا یہ مکتب عرصہ سے قائم تھا مگر اس کی کوئی مستقل عمارت نہ تھی، مسجد ہی میں پڑھائی ہوتی تھی، جب میں وہاں پہونچا اور لوگوں کی دلچسپی، خوشحالی اور طلباء کی کثرت دیکھی تو الگ سے مدرسہ کی عمارت کے لئے اپیل کردی، زمین کی فراہمی کا کوئی مسئلہ نہ تھا، مدرسہ کی زمین پہلے سے موجود تھی مگر لوگ کھلیان بنائے ہوئے تھے اور بوقت ضرورت بطیب خاطر خالی کردیا ایک ہی نشست میں عمارت کی تعمیر کا چندہ ہوگیا اور دوسرے دن تعمیری کام شروع ہوگیا جو چند ہی دنوں میں مکمل بھی ہوگیا مدرسہ کے قیام میں حاجی جوکھو، ضمیر اللہ، عظیم اللہ، حیثیت دار، حاجی محمد نیر، حاجی محب اللہ اور محمد ابراہیم وغیرہم کا زبردست ہاتھ رہا، پورا موضع اہل حدیث تھا، ان میں تین طرح کی کمیاں تھیں، نماز میں تساہلی، پردے کا عدم اہتمام اور تجارت میں تدلیس، ماشاء اللہ جلد ہی ان پر قابو پالیا گیا۔ ابھی میں وہیں پر تھا کہ جامعہ سراج العلوم کے ناظم مولانا عبدالرؤف صاحب رحمہ اللہ نے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور کدر بٹوا میں ایک میٹنگ کرکے بابو عبدالرشید، عبدالوہاب، عبدالرحمن اور عبدالمنان صاحبان نے قطعی فیصلہ کرلیا کہ بہر صورت مجھ کو یہاں لایا جائے بالآخر ناظم صاحب نے ہاتھی بھیج کر بلوالیا، میں الگاسے استعفیٰ دے کر جامعہ سراج العلوم میں آگیا اور دو سال تک مختلف امور انجام دیتا رہا کہ حاسدین کی نظر لگ گئی اور مستعفی ہوکر نکل جانا پڑا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">میں یہاں ناظم تعلیمات اور ناظم امور عامہ تھا اس لئے یہاں کچھ تبدیلیاں کیں، پہلے پڑھنے کے لئے طلباء اساتذہ کے کمروں میں جاتے تھے، میں نے ان کو راضی کرکے درسگاہوں میں بھیجا، ناشتہ کا انتظام کرایا اور جامعہ کے صحن میں اینٹوں کی جوڑائی کراکے اس میں وسعت دی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۳ء تک المعہد الاسلامی تولہوا میں معلمی کے فرائض انجام دئے۔ مسجد کی تعمیر اور پانچ کمروں کی تعمیر میرے زیر نگرانی عمل میں آئی الحمدللہ۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><span style="color: purple;">دعوت و تبلیغ</span></b>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جامعہ ریاض العلوم دہلی میں تعلیم کے دوران جب عیدین کی چھٹیوں میں گھر آتا تو بہت کوفت ہوتی تھی ، ہم جھنڈانگر کے اہل حدیث موضع لچھمی نگر بریلوی امام کے پیچھے نماز عیدین پڑھتے تھے ، ۱۹۴۷ء میں عید کے موقع پر میں نے لوگوں سے مشورہ کر کے جامعہ سراج العلوم کی چھت پر اہالیان جھنڈانگر کی امامت کی اور خطبہ دیا، جھنڈانگر کی تاریخ میں یہ پہلی عید کی نماز تھی، لوگ بہت خوش تھے پھر یہ سلسلہ بندھ گیا اور آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی جھنڈانگر آنے لگے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">باضابطہ تدریسی و تبلیغی دونوں سرگرمیوں کا آغاز پکھربھٹوا سے ہوا اور شاید مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی رحمہ اللہ تدریس سے زیادہ تبلیغ کو اہمیت دئے ہوں گے، اس لئے کہ پکھر بھٹوا کی دینی حالت ابتر تھی، میں وہاں پہونچا، حالات سے آگاہی کے بعد طبیعت بہت گھبرائی، ادھر گاؤں والوں کی بگڑی ہوئی مذہبی حالت تھی، جس میں شرک اور دیگر مشرکانہ امور مسلم عوام بے دھڑک انجام دے رہے تھے، ادھر میں نوجوانی کی عمر میں اور عملی زندگی میں پہلا قدم ہونے کی وجہ سے کافی پریشان ہوا، لیکن حالات سے مقابلہ کو ٹھان لیا۔ میں چونکہ ابھی نوجوان تھا اس لئے پہلے نوجوانوں سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور ان کو جلد ہی رام کرلیا پھر گاؤں کے دیگر بزرگوں سے بھی راہ و رسم بڑھائی، جب ادھر سے اطمینان ہوا تو اصل مقصد کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اس وقت پکھر بھٹوا اورقرب و جوار میں بریلویت کا عفریت راج کررہا تھا، شرک و بدعات اور ہندوانہ رسم و رواج کا بول بالا تھا۔ مجھے مولوی نور محمد شاہ کی دعوت پر رحمانیؔ صاحب رحمہ اللہ نے وہاں بھیجا تھا، وہ اہل حدیث ہونے کے باوجود ان ہی کے رنگ میں رنگ کر رہ گئے تھے اور بریلویوں کے ہم نوا ہوگئے تھے۔ عید میلاد میں برابر شریک ہوتے، تعظیم کرتے، بلکہ فاتحہ بھی وہی پڑھا کرتے تھے۔ ان حالات میں قرآن و حدیث یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ بڑا دشوار امرتھا، لیکن جوانی کے جذبے نے کام کیا اور کامیابیوں نے میرے قدم چومے۔ فللہ الحمد</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اس وقت پکھر بھٹوا میں ایک کھپڑیل کی مسجد تھی اور وہی مدرسہ بھی تھا، پورے گاؤں میں صرف تین نمازی تھے، پیر محمد مہتو، حاجی شکر اللہ اور حاجی حبیب اللہ۔ ان کا خلوص بھرا پیار مجھے ملا۔ اب دعوت کا کام شروع ہوچکا تھا اور لوگ متاثر ہورہے تھے، عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور دعوتی کاموں میں تقویت ملتی جارہی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں یہاں میری آمد کی خبر علاقے میں پھیل گئی چونکہ پورا علاقہ بریلویت زدہ تھا، لوگوں کو برداشت نہ ہوا، مجھے مٹانے کی تدبیریں کی جانے لگیں۔ ایک مرتبہ تولہوا جو کہ بریلویوں کا مرکز تھا وہاں کی مسجد کے امام عبدالرحمن میاں اپنے ہمراہوں کے ساتھ مناظرہ کی غرض سے آئے، میں مناظرہ کرنے سے گھبرا رہا تھا، کیوں کہ گاؤں ہی کے کچھ لوگ بلا کر لائے تھے۔ بہر حال ان کو عزت سے بیٹھایا، خاطر و مدارات کی، ظہر کا وقت تھا، ان کو امامت کے لئے آگے بڑھایا، اس وقت تک تقریباً چالیس نمازی ہوچکے تھے، اس لئے مسجد میں کافی لوگ جمع ہوگئے۔ نماز ختم کرنے کے بعد انہوں نے کچھ سوالات کئے، چونکہ میاں عبدالرحمن صاحب کم پڑھے لکھے تھے، موقع دیکھ میں نے ان سے کہا! حضرت آیات کا ترجمہ کون کرے گا اور آپ بتائیں کہ حدیث کی تعلیم کہاں تک پائی ہے؟ وہ اپنی کم علمی پر کافی شرمندہ ہوئے، پھر میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ پکھربھٹوا میں آپ دعوت و تبلیغ کے لئے کتنی بار آچکے ہیں، اسی طرح کئی اور سوالات کئے، ان کی ہمت نے جواب دے دیا۔ پھر میں نے کہا، میرے مقابلہ میں کسی بڑے عالم کو لے کر آؤ، وہ اپنا سا منہ لے کر چلے گئے اور گاؤں والوں میں میری دھاک بیٹھ گئی۔ کئی برسوں کے بعد ایک مرتبہ پھر آئے، ارادہ تھا کہ مجھے اجاڑ دیں گے، چونکہ تب تک میری کارکردگی بہت آگے جاچکی تھی، چہ جائیکہ وہ کچھ کہتے میرے کام سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ میری زبردست فتح تھی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">پھر کچھ دنوں بعد تولہوا کی مسجد میں میاں صاحب سے ملاقات ہوگئی، چائے پانی کرائے اور نہایت ہی لجاجت کے ساتھ رات ٹھہرنے کی دعوت دی، جسے میں ٹھکرانہ سکا، دوسرے دن فجر بعد میاں صاحب کی دعاؤں کے ساتھ میں مدرسہ واپس آگیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ایک رات گاؤں رنگ پور میں دعوت ہوئی، بغیر میلاد پڑھے کھانا کھانے کے بعد تقریری پروگرام ہوا، مگر وہاں قیام نہیں ہوا، جب وہاں کے عہدیدار رمضان میاں کو خبر لگی دوڑے دوڑے آئے، کہنے لگے مالود نہیں ہوئی کیا؟ پھر سے پڑھی جائے، چونکہ اس وقت میں رنگ پور میں موجود تھا، ان کی نہ چلی، لیکن بعد میں دوسرے دن جب کہ میں موجود نہیں تھا ان لوگوں نے میلاد کیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ایک مرتبہ مولانا نور محمد کی دعوت پر ان کی میلاد میں شریک ہوا، جب تعظیم کا وقت آیا تو انہوں نے کھڑے ہوکر تعظیم کیا، میں کھڑا نہیں ہوا، لوگوں نے تعظیم کی اور معروف درود و سلام بھی پڑھا۔ میرا نہ کھڑا ہونا ان کے لئے کسی عجوبے سے کم نہ تھا، لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے اور بھر پور نفرت کا اظہار کیا لیکن میرے نوجوان دوست آڑے آئے۔ انہوں نے گاؤں والوں کو سمجھا بجھا کر مجھے بات کرنے اور اپنے عقیدے کے اظہار کا موقع فراہم کرایا، میں نے قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں عید میلاد کی حقیقت واضح کی،مولوی نور محمد شاہ صاحب اہل حدیث ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ مخالفت نہ کرسکتے تھے، پھر گاؤں والوں نے ان سے میری شکایت کی، جس پر وہ خاموش رہے، اس سے میرا حوصلہ بڑھا، گویا کہ میری فتح ہوئی، نوجوانوں کی حمایت میں شدت آگئی۔ اسی طرح دھیرے دھیرے تعزیہ داری، فاتحہ خوانی، قرآن خوانی اور طرح طرح کے غیر دینی امور کا قلع قمع ہوا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">الحمدللہ ساڑھے نو برس کی دعوت و تبلیغ کا نمایاں اثر ہوا اور آج پورا گاؤں اہل حدیث ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جب میں وہاں پہونچا تھا تو کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں تاشہ، جھانجھ، ڈھولکی اور ڈھولک نہ ہوں۔ گاؤں مکمل طور پر شرک و بدعات سے گھرا ہوا تھا، جمعہ کے علاوہ لوگ کوئی نماز نہ پڑھتے تھے۔ دعوتی کام کے پیش نظر میں اپنے دادا سے وراثت میں ملی دو کتابیں تلخیص الصباح اور ریاض الصالحین اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھا ان سے تبلیغی کاموں میں بڑی مدد ملی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۱۹۵۲ء میں بسنت پور میں سالم مستری نامی تاجر کے یہاں ایک تبلیغی پروگرام ہوا، میں تقریباً ۱۵؍ افراد کے ہمراہ بعد نماز مغرب بسنت پور پہونچا، شرک و بدعات کا سب سے بڑا مرکز یہیں قائم تھا، کئی مواضعات کے لوگ یہاں اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ جس روز کہ وہاں تبلیغی پروگرام تھا اس دن بھی لوگ اکٹھا تھے مگر جب لوگوں نے یہ سنا کہ مولانا صاحب کچھ افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں تو وہ اپنے تمام آلات شیطانیہ لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ خرافات ختم ہوگئی، سالم صاحب کے یہاں تقریری پروگرام ہوا، تقریباً ایک گھنٹہ مختلف موضوعات پر میں نے تقریر کی، عورتوں کی کثرت رہی، افراد مجلس کافی متاثر ہوئے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ایک واقعہ یہاں بڑا عجیب و غریب ہوا، ہوا یوں کہ ایک نوجوان فقیر آیا جو داڑھی نہیں رکھے ہوئے تھا اور نوجوانوں میں اسی کی تبلیغ بھی کررہا تھا، وہ کہتا تھا کہ قرآن میں داڑھی رکھنے کا تذکرہ نہیں ہے اس لئے داڑھی رکھنا جائز نہیں، مجھے باوثوق ذرائع سے خبر ملی، چند افراد کے ساتھ لاٹھی لے کے پہونچا، محفل گرم ہوئی، مناظرہ ہوا، میں نے وہاں (ما آتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا) آیت کی تشریح کرتے ہوئے احادیث ’’اعفوا اللحیٰ‘‘کے ذریعہ داڑھی کی مشروعیت ثابت کی، وہ بغلیں جھانکنے لگا پھر اس سے کبھی نہ آنے کا وعدہ لے کر گاؤں سے نکال دیا، جب تک میں وہاں رہا وہ نہ آیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ایسے ہی ایک واقعہ پکھر بٹھوا میں پیش آیا تھا۔ میں مسجد میں بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ ایک شخص فقیرانہ لباس میں آیا، اس کے سرپر بڑے بڑے بال تھے، عجیب کریہہ آواز میں نعرہ لگا رہا تھا، میں نے اسے چھیڑا، تو بابا ذرا ٹھہرا ،اور کہا ’’ بابا کو مت چھیڑ! ورنہ جل جائے گا‘‘ اور آگے بڑھ گیا، اسی طرح میں نے تین مرتبہ اس کو چھیڑا اور وہ وہی جواب دیتا رہا، آخر میں مسجد میں آکر وہ عجیب انداز میں بیٹھ گیا اور اپنے شیطانی بال بکھیر کر بولا ’’ بچہ اپنی جوانی پر ترس کھا پہونچے ہوئے فقیر کو چھیڑے گا تو جل جائے گا‘‘۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اس منظر کو دیکھ کر کافی مرد اور عورتیں اکٹھا ہوگئیں، عورتیں رونے لگیں، لوگ کہنے لگے، بابا کو جانے دو، وجہ یہ تھی کہ سب کا عقیدہ کمزور تھا اس لئے وہ لوگ ڈر گئے تھے، میں نے اس سے کچھ سوالات کئے، ظاہر سی بات ہے وہ بابا صرف ڈھونگ رچا رہا تھا، جواب نہ دے سکا پھر میں نے وہیں اسے غسل کرایا، دو رکعت نماز پڑھوائی اور رخصت کردیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ایسے ابھی بہت سارے واقعات ہیں جنہیں لکھا جاسکتا ہے، مگر طبیعت یہی کچھ لکھنے کو تیار نہ تھی، عزیزوں کی بہت گزارشات کے بعد چند سطور رقم کردئے ہیں، ممکن ہے کسی کو فائدہ پہونچ جائے اور کسی کی نگاہ منتج اپنی دعوتی سرگرمیوں کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرلے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b>پکھر بھٹوا سے واپسی</b></span>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">پکھر بھٹوا میں درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے ساڑھے نو برس ہوچکے تھے۔ معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر والد ماجد صاحب اور بھائیوں نے مجھ سے وہاں سے واپس آنے کی بات کہی۔ اس مدت میں اپنی کوششوں، محبتوں اور سرگرمیوں سے میں نے علاقے اور گاؤں والوں کے دل جیت لئے تھے اور ان کے پیار اور محبت کی زنجیروں نے پاؤں باندھ رکھا تھا۔ بچوں اور نوجوانوں سے قلبی انسیت باربار دامن تھام لیتی تھی، لیکن ان تمام تعلقات سے دامن جھاڑ کر پھر سے خاندان والوں سے جا ملنا تھا، میں دو طرفہ تعلقات میں پڑا ہوا تھا، پھر بھی گھر والوں کے اصرار بسیار پر میں مجبور ہوگیا اور ایک دن چشم پر نم لیکر اپنے پیچھے برسوں کے تعلقات کو چھوڑ کر نکل پڑا، میرے پیچھے گاؤں والوں کا ایک ہجوم تھا، ہندو، مسلم، مرد، عورت اور بچے سب زارو قطار رورہے تھے اور نہ جانے کی التجائیں کررہے تھے، دل کو لاکھ کڑا کرنے کی کوشش کی، پر کامیابی نہ مل سکی، گاؤں والوں کی جیت ہوئی میں ہار گیا اور بھائی محمد رفیع پسر پیر محمد مہتو کے مشورہ پر گاؤں واپس آگیا۔ پھر رات کے تقریباً تین بجے یہ گمان کرکے بیل گاڑی پر سوار ہوکر نکل پڑا کہ اب تو ساری دنیا محو خواب ہے کوئی بھی دامن تھامنے والا نہیں اور جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ۱۵؍ ۲۰؍ آدمی چلے آرہے ہیں اور کھنوا بارڈر تک پیچھے پیچھے چلے آئے، اس مرتبہ مجھ پر لطیف جذبات کا کنٹرول نہ تھا جس میں آدمی مجبور ہوجایا کرتا ہے، بلکہ عقل کی بے پناہ ظالم طاقت کی حکمرانی تھی جو اشک عقل و شعور کی بنیاد پر پلکوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے تنہائی میں آکر ان پر جذبات غالب آگئے اور وہ بہہ پڑے۔ بہر حال اب میں پکھر بھٹوا چھوڑ چکا تھا اور کشاں کشاں گھر کی طرف چل رہا تھا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">آج سے تقریباً ۵۵؍ برس پہلے پکھر بھٹوا والوں سے جو تعلق قائم ہوا تھا اس کا سر رشتہ آج تک برقرار رہے، گاہے گاہے آج بھی آنا جانا لگا رہتا ہے، جو تعلق ان کا میرے ساتھ ہے اس میں بعد منزل حارج نہیں ہوا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جن دنوں میں پکھربھٹوا میں مدرسی کے کام پر معمور تھا وہاں سے کئی مواضعات میں دعوت و تبلیغ کرنے کا موقع ملا مثلاً بسنت پور دونوں ڈیہہ، دل دلہا، پرسوہیا، ببھنی، لہرولی، بھاؤ پور،( بلک ڈیہہ، پپرہوا، گنوریا، بیدولی وغیرہ) عموماً یہ تمام مواضعات بریلویوں کے مرکز مانے جاتے تھے، لیکن یہاں کے لڑکے میرے شاگرد تھے اس لئے دعوت و تبلیغ سے کافی فائدہ ہوا خصوصاً پکھربھٹوا، بسنت پور اور دل دلہا، یہ تینوں مواضعات اہل حدیث ہوگئے اور آج بھی اسی پر ثابت قدم ہیں۔ الحمد للہ ہر جگہ اپنی مسجد ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b>دیگر سرگرمیاں اور ذمہ داریاں</b></span>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">تعلیم مکمل کرنے کے بعد تجارت میں لگ گیا تھا اور تجارت ہی چھوڑ کر پکھر بھٹوا تدریس کے لئے گیا تھا۔ جن دنوں کہ میں پکھربھٹوا میں مدرسی کے فرائض انجام دے رہا تھا وہاں سے تولہوا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا، والد ماجد کے شاگرد اور ہمارے ساتھی وہم سبق راحت خاں کے والد محترم رکّوع خاں چے پوروا ، وہ وہاں رہتے تھے، بڑے باوقار اور سنجیدہ آدمی تھے، وہ اپنے یہاں ایک مکتب کے قیام کی چاہت رکھتے تھے مگر کم علمی کی وجہ سے قائم نہ کرسکے تھے۔ جب میں پکھربھٹوا چھوڑ کر جامعہ سراج العلوم میں آگیا اور دو سال پورے ہوگئے تو ناظم اعلیٰ مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی نے تولہوا میں ایک مسجد اور اس سے ملحق پانچ کمروں کی تعمیر کا پروگرام بنایا اور اس کی تکمیل تعمیر کے لئے مجھ ناچیز کا انتخاب کیا، اس منصوبے کے ساتھ ایک مدرسہ کا قیام بھی تھا، پہلے مسجد اور پھر مدرسہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح رکوع خاں کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">منصوبے کی تکمیل میں دو برس لگ گئے، یہاں کے حالات بہت نامناسب تھے رات و دن کی بے پناہ مشقت میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، کام پورا ہوگیا۔ مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا کام عزیزم مولانا محمد ہارون کی نگرانی میں ہوا اور روپیہ ناظم صاحب کی معرفت سے ملتا رہا۔ مدرسہ میں مکتب سے لے کر جماعت ثانیہ تک کی تعلیم کا انتظام ہوا اور مولوی عبدالرحمن انتری بازار، ماسٹر محب اللہ املیا اور احقر کی نگرانی میں پڑھائی شروع ہوئی۔ جب دو سال پورے ہوگئے تو ایک سازش کے تحت سالانہ میٹنگ میں مکتب کا صدر مدرس بنانے کے بہانہ سے مجھے الگ کردیا گیا، اس میں اپنے کچھ عزیزوں کا ہاتھ تھا اللہ تعالی انہیں معاف فرمائے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">شاید اس فیصلہ میں اللہ کا ہاتھ کام کررہا تھا کہ وہاں سے الگ ہونے کے فوراً بعد۱۹۸۸ء میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کا قیام عمل میں آیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">تولہوا سے آنے کے بعد 1960ء سے 1972ء تک بڑھنی بارڈر پر کپڑے کی دوکان سنبھال لی، ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۱ء تک جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں ناظم تعلیمات کی حیثیت سے رہا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر امور کی نگرانی بھی میرے ذمہ تھی جسے میں حتی المقدور پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ۱۹۸۳ء تا ۱۹۸۸ء تک معاون تجارت کی حیثیت سے بچوں کے کاروبارکی نگرانی میں لگا رہا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کا قیام:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اس درمیانی مدت میں حالات معاشرہ کا بغور مطالعہ کرتا رہا، خصوصاً اپنے قرب و جوار کا، میں نے دیکھا کہ بچوں کی تربیت و تعلیم کا تو قدرے انتظام ہے مگر بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں، لہذا کسی ایسے ادارے کی ضرورت کا احساس ہوا، جس میں بچیوں کے لئے بہتر انتظام ہو، انہیں اچھی تعلیم فراہم ہوسکے اور ساتھ ساتھ تربیت اور دست کاری سے بھی سنوارا جاسکے۔ اسی احساس کے پیش نظر میں نے ۱۹۸۸ء میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کا سنگ بنیاد رکھا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مدرسہ کے قیام میں میرے صاحبزادے عبدالنور سراجی نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور ڈاکٹر اسرارالحق، ڈاکٹر انوار، بھائی عبدالوہاب خاں کدربٹوا اور مولانا عبدالرحمن صاحبان نے کافی مدد کی، میرے حقیقی بھائی منشی عبدالتواب نے ۷؍ کمروں پر مشتمل دو منزلہ عمارت تین برس کے لئے مدرسہ کے واسطے وقف کردیا۔ مدرسہ کھل گیا اور مکتب سے لے کر چوتھی جماعت (ثانویہ)تک کی بچیوں کا داخلہ شروع ہوگیا اور اس کی ذمہ داری عزیزی گرامی قدر شیخ عبداللہ عبدالتواب مدنی نے اٹھالی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اس مدت میں مدرسہ کی اپنی عمارت کی تعمیر ہوتی رہی جب تعمیر مکمل ہوگئی تو ۱۴۰؍ بچیوں کو جو اس وقت وقف مؤقت کی عمارت میں رہ رہی تھیں مدرسہ کی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مدرسہ کی تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ عزیزم مولانا عبدالمنان صاحب سلفیؔ سلمہ اللہ کا ہے اس کی دیواروں میں ان کا خون جگر شامل ہے، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ خدیجۃ الکبریٰ کو موجودہ صورت عطا کرنے کا سہرہ انہیں کے سرجاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے چار پانچ سال تک قربانیاں پیش کرکے مدرسے کو ترقی عطا کی مگر سوئے قسمت معمولی اختلاف کی بنیاد پر ان کو مدرسہ سے الگ ہونا پڑا۔ ’’ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">یہاں سے جانے کے بعد عزیزم کو جامعہ سراج العلوم نے سر آنکھوں پر بٹھایا، وکیل الجامعہ کا منصب اور ’’ ماہنامہ السراج‘‘ کی ایڈیٹری کے ساتھ استقبال کیا گیا، وہاں پہونچنے کے بعد انہیں دنیا نے ڈھیر سارے اعزازات سے نوازا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اس وقت سے لے کر تادم تحریر میں اس مدرسہ کی نگرانی اور اس میں تدریسی امور انجام دے رہا ہوں۔ موضع سمرا میں جمعہ کا خطبہ دے رہا ہوں، آج مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ پورے نیپال میں سب سے قدیم نسواں اقامتی ادارہ تسلیم کیا جارہا ہے، جس میں تقریباً ۴۵۰؍ بچیاں قیام کرتی ہیں اور پڑھنے والی کل بچیوں کی تعداد ۷۰۰؍ ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اللہ کے فضل و کرم سے ۱۹۹۰ء میں مع اہلیہ حج بیت اللہ شریف ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔دوبارہ ۲۰۱۲ء میں خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ آل سعود حفظہ اللہ کی ضیافت میں حج کی ادائیگی کا موقع ملا،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کو دیکھنے کی برسوں کی خواہش اسی سفر میں پوری ہوئی۔ </span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><span style="color: purple;">اساتذہ اور شاگرد</span></b>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">یوں تو تعلیمی زندگی میں بہت سارے اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا اور میری زندگی میں ہر ایک اثر انداز ہوئے، لیکن تمام کا نام تو نہیں شمار کرایا جاسکتا، ہاں البتہ جن سے بہت کچھ سیکھا اور ابھی تک ان کی سیرت و کردار کا اثر اپنے اندر پاتا ہوں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: والد محترم میاں محمد زکریا رحمہ اللہ، مولانا عبدالرحمن بجواوی، مولانا عبدالرؤف رحمانی، مولانا محمد زماں رحمانی، مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا عبدالقدوس، مولانا عبدالشکور دور صدیقی، مولانا عبدالسلام بستوی، مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی، مولانا عبدالحکیم آئمی وغیرہم ، ان اساتذہ کرام نے ڈھیر سارا لاڈ پیار بھی دیا اور تربیت سے بھی نوازا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">جس طرح اساتذہ کی فہرست بڑی طولانی ہے اسی طرح شاگردوں کی فہرست بھی لمبی ہے، ان میں سے کچھ لوگوں نے امت کی فلاح کے لئے کام کرنے کے ساتھ ساتھ شہرت بھی حاصل کی اور بفضل اللہ آج بھی کام کررہے ہیں۔ ان میں چند یہ ہیں:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مولانا محمد مصطفی مدنیؔ ، مولانا عبدالعزیز مدنیؔ ، مولانا شکیل مدنیؔ ، مولانا محمد ابراہیم مدنیؔ ، مولانا سکندر علی اور مولانا نثار احمد ،جناب قطب اللہ صاحب ایڈیٹرروزنامہ راشٹریہ سہارا وغیرہم۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: purple;"><b>آل اولاد</b></span>:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">میری شادی بلوغت کے بعد ہی والد بزرگوار نے کردی تھی، علاقہ کے جید عالم دین اور بزرگ ہستی مولانا محمد زماں صاحب رحمانی کی صاحبزادی سے عقد نکاح کردیا گیا اور ما شاء اللہ یہ رشتہ بہت ہی خوشگوار ماحول میں نبھا۔ ۷؍ ستمبر ۲۰۰۷ء کوبمشےئت الہی ام سعید نے ساتھ چھوڑ دیا اور خالق حقیقی سے جا ملیں،میرے لئے انتہائی تکلیف دہ حادثہ تھا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ہمیں جنت میں جمع کرے (آمین)۔ میری چار اولاد ہیں اور سب بقید حیات ہیں، سب سے بڑے لڑکے مولانا ڈاکٹر سعید احمد اثریؔ (بی. یو. ایم. ایس لکھنؤ) ان کی ۹؍ اولاد ہیں تین بچے اور چھ بچیاں، دوسرے لڑکے مولوی عبدالنور سراجیؔ ہیں جو تکمیل تعلیم کے بعد تجارت سے منسلک ہوگئے اور ابھی تک اسی میں لگے ہیں، ان کی ۱۰؍ اولاد ہیں ۶؍ بچے اور ۴؍ بچیاں، ان کے سب سے بڑے لڑکے اور میرے پوتے مولانا عبد ا لصبور ندویؔ جو جامعہ الملک سعود ریاض کے متخرج ہیں اور ملک میں دعوتی، تنظیمی امو ر کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی نشر و اشاعت کے لئے کئی اداروں سے وابستہ ہیں۔ تیسرے لڑکے مولانا محمد اکرم عالیاوی ہیں، ان کے۱۱؍ اولاد ہیں اور چوتھی اولاد بیٹی کی شکل میں مجھے ملی جو میری تیسرے نمبر کی اولاد ہے اور مشہور عالم دین مولانا عبدالمنان سلفیؔ کی رفیق حیات ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ہم پانچ بھائی تھے سب بھائی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، سب سے بڑے بھائی مولانا ابوالبرکات رحمانی، ؔ جوعمر بھر درس و تدریس میں لگے رہے، ۹۰ برس کی عمر میں انتقال کرگئے، پھر منشی عبدالتواب صاحب، والد مولانا عبداللہ مدنیؔ ہیں جو متدین تاجر تھے، تقریبا ۸۲ برس کی عمر پائی،پھر میں یعنی عبدالوہاب ریاضیؔ ۔ پھر مولوی عبدالرحمن فیضی ؔ عمر بھر تجارت سے وابستہ رہے تقریبا ۶۵ برس کی عمر انتقال کرگئے، او ر سب سے چھوٹے بھائی بابو عبید الرحمن 62؍ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ رحمہم اللہ۔</span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-19414734609899076672014-09-19T02:16:00.003-07:002014-09-19T02:16:55.331-07:00داعش: امت میں ارتداد و تکفیر کی نئی لہر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;"><b>داعش: امت میں ارتداد و تکفیر کی نئی لہر</b></span></div>
<div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: justify;">
</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;">
<strong style="color: green;"><span style="font-size: medium;">عبدالصبور ندوی جھنڈا نگری</span></strong></div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;">
<strong style="color: green;"><span style="font-size: medium;"><br /></span></strong></div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;">
<span style="font-size: medium;"><span style="color: blue;">جنگ زدہ بدحال ملک عراق اور شام میں داعش (</span><span style="color: magenta;">الدولۃ الاسلامیۃ في العراق والشام</span><span style="color: blue;">) کا اچانک نمودار ہونا اور نام نہاد جہاد کے نام پر شباب امت کو گمراہ کرنا کسی بڑے فتنے کا الارم ہے، جس کے پس پردہ صہیونی اور رافضی طاقتیں سرگرم دکھائی دیتی ہیں، سیریا میں جب نصیریوں نے سنیوں کے خلاف مظالم و دہشت گردی کے پہاڑ توڑے تو اس وقت تمام مجاہدین نے سیریا کا رخ کیا اور جابر وقت سے بر سر پیکار ہوئے ،مگر داعش نے انکار کردیا،<u> سیریا میں جب حریت کے مجاہدین نصیریوں کے چھکے چھڑانے لگے تو رافضی شرپسندوں نے انکل سام سے مل کرداعش کو اسلحوں کے ذخائر فراہم کئے اور اس تنظیم کو ہیک کر کے ابو بکر کے نام پر سنیوں کو دھوکہ دینے کی نا زیبا سعی کی </u>۔</span></span></div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;">
<span style="font-size: medium;"><span style="color: blue;"><br /></span></span></div>
<span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
جس طرح امریکہ نائن الیون کے متعلق سوالات کے جوابات سے بھاگتا رہا ہے اسی طرح داعش کا معاملہ ہے ، کسی بھی اعتراض یا سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ عراق کے اندر داعش کی طویل تاریخ ہے جو سیاہ و سفید سے پُر ہے، زرقاوی اس تنظیم کا بانی ہے، معصوموں اور بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنا ان کا معمول رہا ہے، <u>زرقاوی کے استاذ شیخ مقدسی نے جب اسے نصیحت کی ، تو غراتے ہوئے بھونکا:تم مجاہدین کے مابین فتنہ نہ بوؤ،ورنہ سلامت نہ رہوگے</u>۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
داعش کا سیریا میں داخلہ اس انداز میں ہوا کہ اس نے نصیریوں اور مجاہدین میں تمیز نہ کرتے ہوئے دونوں کو نشانہ بنایا، ظالموں کے ساتھ معصوموں کو مارا، شرعی عدالتوں کا انکار کیا، انکے رائے کی معمولی مخالفت ارتداد قرار پاتا ہے، سورہ فاتحہ جو ڈھنگ سے نہ پڑھ سکے وہ ان کے نزدیک مرتد ہے، اور مرتد واجب القتل ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ داعش کے ہاتھ بظاہر بہت لمبے دکھائی دیتے ہیں، <u>اور شاید یہ دنیا کی سب سے احمق تنظیم ہے جو ایک ہی وقت میں دوستوں اور دشمنوں کو نقصان پہنچاتی ہے،سنی مجاہد ڈاکٹر ابو ریان کا حادثہ ابھی تازہ ہی ہے،جن کو داعش نے ہلاک کر کے انکی لاش کا مثلہ کیا ، آخر یہ کس دین کے پیروکار ہیں؟ یہ کام روافض یا ان کے جیسے لوگ ہی انجام دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے احرار اب داعش کے خلاف ہوتے جارہے ہیں</u>۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
فتنہ داعش امت کے نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں جہنم میں دھکیل رہا ہے، وہ تنظیم جو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کو فیصل نہ مانے، ایسی خونیں جماعت کا بھلا دولت اسلامیہ سے کیا سروکار ہوسکتا ہے؟؟؟وہ داعش جو شام کے مہاجرین اور مہاجرات کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کر رہا ہے،اسے شام کے جہاد سے کیا نسبت ہوسکتی ہے؟امت کے یہ خوارج ہیں جو باطل طاقتوں کا کھلونا بن کر باہم ایک دوسرے کی جان اور عزت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
ذیل میں عرب ممالک کے بعض علماء کی آراء نقل کررہا ہوں، امید کہ داعش کی حقیقت عیاں ہوجائے گی، ان شاء اللہ:</div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<b><span style="font-size: x-large;">شیخ عبد العزیز الطریفي:</span></b></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
داعش کے لوگ احرار کے مجاہدین کو مرتد قرار دیتے ہیں، اللہ کے حکم کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، ایسے لوگ خوارج ہیں، اور ان کے ساتھ میل جول ناجائز ہے۔</div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><strong>شیخ سلیمان العلوان :</strong> </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
ابو بکر بغدادی کو کیا اصحاب حل و عقد نے منتخب کیا ہے؟اس کا سرغنہ ظواہری جب بغدادی کی حرکتوں سے خوش نہیں ، تو کیسے وہ بیعت اور خلیفۃ المسلمین کا دعوی کر رہا ہے؟!</div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><strong>ڈاکٹر یوسف الاحمد:</strong> </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
ب<span style="font-size: medium;">غدادی کو نہ شرعی ولایت حاصل ہے ، اور اس کے جھنڈے تلے قتال نا جائز ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong style="font-size: xx-large;">شیخ عبد اللہ السعد:</strong><span style="font-size: medium;"> </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">داعش کی شریعت مخالف سرگرمیوں جیسے شرعی عدالتوں کا انکار، بغیر حق کے مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر انہیں قتل کرنا، کے سبب میں اُن تمام سے درخواست کرتا ہوں کہ جو ان سے منسوب ہیں، وہ وہاں سے نکل جائیں ، اور ان کے قائدین کو توبہ کی تلقین کرتا ہوں۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><strong>ڈاکٹر عبد اللہ المحیسنی:</strong> </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">داعش شام میں جیش الأحرار اور اہل توحید کا قاتل ہے، جب تمام مجاہد جماعتیں اسلامی عدالت کے قیام اور اس کے فیصلے پر متفق ہوئیں تو عین وقت داعش نے اس کا انکار کردیا۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><strong>ڈاکٹر شافی العجمی:</strong> </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">میں اتنا جانتا ہوں کہ شام یا اس سے باہر کے کسی بھی عالم نے داعش کا تزکیہ نہیں کیا،بلکہ علماء کا اتفاق رہا ہے کہ اس نے شام میں مجاہدین کو صرف ضرر پہنچایا ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong><span style="font-size: x-large;">شیخ أبو بصیر الطرطوسی:</span></strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">داعش ایک گمراہ، باغی ، فتنہ پرور اور خونیں جماعت ہے۔آخر کس نے انہیں اجازت دی کہ وہ شام کے سنیوں کا قتل عام کریں، داعش میں جو مخلص لوگ ہیں ان سے درخواست کرتا ہو ں کہ وہ اس باغی جماعت کو فورا ترک کردیں۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong><span style="font-size: x-large;">شیخ عدنان العرعور:</span></strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">داعش خوارج ہیں اور تین قسموں پر مشتمل ہیں:۱۔ تکفیری گروپ ۲۔ خبیث ہیکرز گروپ ۳۔فریب زدہ نوجوان گروپ </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong><span style="font-size: x-large;">شیخ عبد العزیز الفوزان:</span></strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">داعش ایک مجرم اور خارجی تنظیم ہے، عراق اور افغانستان میں امت کو جو مصیبت پہنچی ہے جگ ظاہر ہے، امت کے بعض جاہلوں نے مسلمانوں کی تکفیر کے ذریعے ان کے خون کو مباح جانا، اور داعش بھی یہی کر رہی ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong><span style="font-size: x-large;">ڈاکٹر محمد السعیدی</span><span style="font-size: medium;">:</span></strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
عراق اور شام میں حقیقی مجاہدین کے خاتمہ کے لئے داعش کو وجود میں لایا گیا ہے۔</div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong><span style="font-size: x-large;">شیخ محمد المنجد:</span></strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">ایسی جماعت جو مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگاکر انہیں جان سے مار دیتی ہے ، اس سے تمام مسلمانوں کو قطع تعلق کر لینا چاہئے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<strong><span style="font-size: x-large;">علماء شام کا مشترکہ بیان وفتوی</span><span style="font-size: medium;">:</span></strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">وہ تنظیم جو لوگوں کو ناحق جان سے مار دیتی ہے ، اور انکے اموال وجائداد پر غاصبانہ قبضہ کر لیتی ہے ، یہ جہاد نہیں ، فساد فی الارض ہے۔اس تنظیم سے جڑنا مسلمانوں کے لئے حرام ہے، اس لئے کہ یہ جس جھنڈے تلے لڑ رہے ہیں، نہ اس کے قائد کا پتہ ہے نہ ہدف کا</span>۔</div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
<strong>۴۷ سعودی علماء کا بیان جس میں الغنیمان، العمر، المحمود، الجلالی وغیرہم شامل ہیں:</strong></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: medium;"><div style="text-align: right;">
داعش کا یہ سمجھنا کہ وہی تنہا جہاد کررہا ہے اور باقی گروپ مجاہد نہیں مرتد ہیں، یہ اس کے خارجی ہونے کی علامت ہے۔مجاہد گروپوں کے ما بین اختلاف اور تفرقہ پیدا کرکے اقتدار پر ناجائز قبضہ اس کے باغی ہونے کی دلیل ہے۔</div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><strong>دیرانیہ کے ایک مجاہد کا بیان :</strong> </span></div>
</span><span style="background-color: white; color: magenta; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;"><span style="color: blue;">داعش عراق کے کسی ایک حصے پر بھی کنٹرول نہیں کرپایا، شام کے جہاد میں بیجا دخل اندازی دشمن کی سازش معلوم ہوتی ہے، پہلے تو انہیں عراق کو آزاد کرانا چاہئے تھا جہاں سے وہ اٹھے ہی</span><span style="color: blue;">ں۔</span></span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">2مندرجہ بالا بیانات کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ:</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">۱۔داعش خوارج کا ایک فرقہ ہے یا اسی کے مشابہہ ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">۲۔داعش ایک گمراہ ، باغی اور فسادی جماعت ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">۳۔ شریعت کے نفاذ کی منکر ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">۴۔ ان کا نشانہ شام کی مخلص مجاہد جماعتوں کا خاتمہ ہے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">۵۔ان سے جڑنا حرام ہے اور جو لوگ منسوب ہیں ، ان کو فورا وہاں سے نکل جانا چاہیئے۔</span></div>
</span><span style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;"><div style="text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">۶۔ ان کے ہاتھ پر بیعت ناجائز اور اسلامی روح کے منافی ہے۔</span></div>
</span><div style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;">
<span style="font-size: medium;">واللہ أعلم بالصواب و صلی اللہ علی النبی الکریم، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔(<span style="color: magenta;">بصیرت</span></span></div>
<div style="background-color: white; color: blue; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;">
<span style="font-size: medium;"><span style="color: magenta;"> فیچرس</span>)</span></div>
</div>
<div>
<span style="font-size: medium;"><br /></span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-84117827537528485232014-09-19T02:14:00.004-07:002014-09-19T02:14:56.432-07:00اخبار جہان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><b><span style="font-size: x-large;">اخبار جہان</span></b></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><div style="text-align: right;">
<span style="text-align: start;">عبد ا لصبور ندوی</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u>حماس اور فتح میں مصالحت، مخلوط حکومت کی تشکیل، امریکہ راضی، اسرائیل چراغ پا</u></span><br />
<div style="text-align: right;">
<u><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /></u><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">فلسطین میں حماس اور الفتح کے مابین مصالحت اور مخلوط حکومت کی تشکیل کے بعد دنیا کی تمام سیکولر طاقتوں نے ان کے اقدام کو سراہا ہے، امریکہ نے اپنی حمایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کو ملنے والی سالانہ امداد ۵۰۰ ملین ڈالر پر حکم امتناعی واپس لے لیا گیا ہے، جس سے اسرائیل کو سخت مایوسی ہوئی ہے، اور وہائٹ ہاؤس میں موجود یہودی لابی کو اسرائیل نے زور کی پھٹکار لگائی ہے۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>روس میں حجاب پر پابندی ہٹی، سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کو لتاڑا، پاسپورٹ پر با حجاب تصویر کی</b></u> </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اجازت</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">تاتارستان کی بعض طالبات کو جب یونیورسٹی انتظامیہ نے اسکارف اور حجاب والے فوٹوکے استعمال پر منع کیا، تو انہوں نے صوبائی عدالت سے رجوع کیا، اسی اثناء روس کے وزیر داخلہ کا بیان آیا کہ پاسپورٹ اور دوسرے سرکاری کاغذات پر حجاب فوٹو کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ صوبائی عدالت نے وزیر داخلہ کے موقف کی حمایت اور فیصلہ لڑکیوں کے خلاف دیا، مذکورہ طالبات اور بعض خواتین ملت نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور عدالت عظمی ٰ نے مسلم خواتین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا، کہ اسکول، کالجز، آئی ڈی کارڈ، پاسپورٹ و دیگر سرکاری کاغذات میں مسلمان خواتین حجاب والا فوٹو استعمال کرسکتی ہیں، اس فیصلہ سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ </span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>گنی بساؤ میں مسلمانوں کو در پیش چیلینجز، نا گفتہ بہ صورتحال</u></b></span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">بحر اٹلانٹک کے ساحل پر واقع براعظم افریقہ کا دیش گنی بساؤ میں مسلمانوں کے باہمی تنظیمی اختلافات نے عیسائیت اور شیعیت کو سر اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے ، گنی بساؤ میں ۴۰ فیصد مسلمان جبکہ ۶۰ فیصد عیسائی آباد ہیں۔ رسالۃ الاسلام ویب سائٹ کے مطابق درجنوں اہل سنت کی تنظیموں کے باہمی اختلافات نے دوسرے مذاہب کو نشیط ہونے کا موقع دیا ہے، مشنریز پوری قوت کے ساتھ اسپتال، تعلیم گاہیں اور سوشل ورک کے قیام کے ذریعے غریب مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، یہاں کی جمعیات اپنے اپنے طور پر رفاہی کام انجام دے رہی ہیں، لیکن جمعیات کے عدم اتحاد نے دعوتی سرگرمیوں کو ہلکا کر دیا ہے، نتیجہ کے ی حکومت مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے ، تمام سرکاری مراعات سے مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>غزہ میں سعودی محلہ کا قیام</b></u></span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">صہیونیوں کے ذریعے تباہ کئے گئے جنوبی غزہ کے علاقے کے باشندوں کو اس وقت بڑی راحت ملی، جب سعودی حکومت نے پورا محلہ آباد کرنے کا ذمہ خود لے لیا،۱۵۱۲؍ رہائشی یونٹوں کی تعمیر ہزاروں پناہ گزین اور متاثرہ کنبوں کیلئے راحت کا کام کرے گی، جہاں اس وقت جنگی پیمانے پر تعمیراتی کام جاری ہیں، ماہ رمضا تک ۵۰ فیصد تعمیراتی کام پاےۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا، اور ایک سال کے بعد یہ پورا محلہ مکانوں اور مکینوں سے آباد ہوجائے گا، ان شاء اللہ ۔ ہر مکان اور فلیٹ کو ضروری لوازمات سے آراستہ بھی کیا جائے گا، اور اسی محلہ میں شہر غزہ کی سب سے بڑی مسجد بھی تعمیر کی جائے گی، سعودی عرب کی اس پیش رفت کا مسلم ممالک نے زور دار انداز میں استقبال کیا ہے۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>سیرالیون میں فتنۂ قادیانیت عروج پر، فاقہ کشو ں کو مرتد بنانے کی مہم </b></u></span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">بر اعظم افریقہ کا صحرائی ملک سیرالیون کے مسلمانوں کو سب سے بڑے چیلینج کے روپ میں اس وقت فتنۂ قادیانیت کا سامنا ہے، ۶۰؍ فیصد فاقہ کش مسلم آبادی کے درمیان قادیانیوں نے انہیں تر نوالہ بنا کر اپنا کام تیزی سے شروع کر دیا ہے، صرف راجدھانی میں آٹھ قادیانی مدرسوں کے قیام نے مسلم کمیونٹی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مسلمانوں کا مفلوک الحال اور جاہل طبقہ قادیانیوں کے لالچ میں آکر اپنا ایمان فروخت کرنے پر آمادہ دکھائی پڑتے ہیں، اسی درمیان عیسائی مشنریوں نے قادیانیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ارتداد کی اس مہم کو اور تیز کردیا ہے، سیرا لیون میں موجود مسلم جمعیات و ادارے باہمی نزاعات و چپقلش کا شکار ہیں ، جس کا پورا فائدہ اسلام دشمن اٹھا رہے ہیں۔</span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-70159789527831990502014-04-26T01:21:00.003-07:002014-04-26T01:21:41.332-07:00جہان مسلم <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: yellow; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span style="color: red; font-size: x-large;">جہان مسلم</span><span style="font-size: medium;"> </span></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
عبد الصبور عبد النور ندوی</div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
<b>پاکستان: روز گار کے بہانے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی مہم</b></div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
صوبۂ پنجاب میں قادیانیوں کا نیا مرکز شہر بھیرہ ملک بھرمیں بیروزگاروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، متعدد شہروں میں بکھرے قادیانیوں کے ایجنٹ غریب خاندانوں کو اپنے نرغے میں لے رہے ہیں، بھیرہ شہر بھیج کر ان کا مالی تعاون کیا جاتا ہے اور قادیانیت کا پیرو بن کر زندگی گزارنے کی تلقین کی جاتی ہے، بھیرہ وہ شہر ہے جہاں ملعون غلام احمد قادیانی کا خلیفہ حکیم نورالدین کا مسکن ہے، اور یہاں مالدار قادیانیوں کی برابر آمد و رفت ہوتی رہتی ہے۔ مقامی علماء نے ثبوتوں کے ساتھ حکومت کو اس ارتداد سے آگاہ کیا ہے، لیکن فوری طور پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ </div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
<b>برازیل: لاطینی امریکا میں ڈائیلاگ سینٹر کے قیام کی تجویز</b></div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
گزشتہ دنوں برازیل کے شہر ساؤ پالو میں اسلامک دعوتی سینٹر نے اپنا ۲۷ واں عالمی اسلامی کانفرنس بعنوان:’ مسلم اقلیات میں ڈائیلاگ کی اساس ‘منعقد کیا، جس میں ڈائیلاگ سینٹر کے قیام کی تجویز پر اتفاق ہوا، دنیا بھر کے مشارکین نے زور دیا کہ سینٹر کا قیام اسلام کے محاسن کی نشر و اشاعت میں مؤثر کردار ادا کرے گا۔لیکن اس کے قیام سے پہلے اس میں کام کرنے والے افراد کی تربیت ضروری ہے، جو ڈائیلاگ کے مفہوم اور اسکے تقاضوں و اقدار کو سمجھ سکیں، کانفرنس میں نسل نو کی اسلامی تربیت اور نبی اکرم ﷺ کے غیر مسلموں سے مذاکرات واصول مناظرہ پر متعدد زبانوں میں کتابوں کی تالیف پر بھی زور دیا گیا۔</div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
<b>فلسطین: تاریخی شہر عکا کو یہودیانے کا پلان، اسرائیلی سازش بے نقاب</b></div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
فلسطینی ذرائع ابلاغ نے شہر عکا کو یہودیانے کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا: ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ذریعے قبضہ کیا گیا یہ شہر عرب آبادی پر مشتمل ہے ۔ اور آج بھی قدیم اسلامی وراثت کا آئینہ دار ہے، گزشتہ دنوں یہودیوں نے پلان کے مطا بق بھاری رقم دے کر کئی گھروں کو خرید لیا اور اس میں دہشت گرد یہودیوں کو آباد کرایا، عرب تنظیموں نے عکا کے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ یہودی جتنی بھی لالچ دیں، پیشکش کریں، اپنی زمین اور گھر سے دستبردار نہ ہوں، اسے ظالموں کے ہاتھ فروخت نہ کریں۔</div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
<b>نیپال: کرائے کی کوکھ کی تولید کا نیا مرکز،بھارت کی مسلم خواتین یہودی نطفوں کی پرورش میں مبتلا</b> </div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
بھارت میں کرائے کی کوکھ کی تولید پر پابندی کے خدشہ کے چلتے اور سماجی عار نہ جھیل پانے والی غریب خواتین اب نیپال کا رخ کر رہی ہیں، یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب کاٹھمانڈو میں گزشتہ دنوں جنم درتا کے لئے درجنوں مسلم خواتین موجود تھیں، اسرائیل کے درجنوں جوڑوں نے ممبئی کے غریب خواتین کی کوکھ کرائے پر لے کر بچوں کو جنم دلوایا، چونکہ نیپال میں ابھی اس حوالے سے کوئی قانون اور ضابطہ نہیں ہے اس لئے یہاں کی زمین کرائے کی کوکھ کی تو لید کے لئے ہموار نظر آتی ہے۔ مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو اس جانب بیداری مہم اور اس قبیح فتنے میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے تحریک کی ضرورت ہے۔</div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
<b>وسطی افریقہ میں عیسائی دہشت گردوں نے مسجد پر دھاوا بول کر ۲۳ مسلمانوں کو شہید کردیا</b> </div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
ملک وسطی افریقہ کی راجدھانی بانگے میں واقع جامع مسجد نور الاسلام میں ۲۳مسلمان خواتین ، بچوں، بزرگوں اور جوانوں کو نماز کے دوران بالکا کے عیسائی دہشت گردوں نے بے دردی کے ساتھ گولیوں سے بھون دیا، بعد ازاں علاقے کا محاصرہ کر لیا اور لاشوں کو دفنانے کے لئے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی، نتیجتا امام مسجد نے مسجد کے صحن میں دفنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ اندوہناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمانوں کے سیاسی گروپ نے بد عنوان عیسائی صدر کو بر طرف کردیا۔ واضح ہو وہاں ۱۵ فیصد مسلمان آباد ہیں۔ **</div>
</span></div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-60218405964199444002013-05-21T20:03:00.001-07:002013-05-21T20:06:57.079-07:00اخبار جہاں Akhbare-jahan<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<div class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: 'Old Antic Decorative'; font-size: 48pt; line-height: 115%;">اخبار جہاں</span><span style="font-size: 12.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-font-family: "Old Antic Decorative"; mso-bidi-font-size: 11.0pt; mso-bidi-language: HI;"><o:p></o:p></span></div>
</div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"></span><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="text-align: start;">عبد الصبور ندوی</span></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">
</span>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: red; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><br /></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: red;">
</span><div style="text-align: right;">
<span style="color: red; font-size: medium; text-align: start;">برازیلی مسلمانوں کا عالمی فٹبال کپ 2014 کے موقع پر دعوتی پلان تیار</span></div>
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><div style="text-align: right;">
2014 سن برازیل کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے، وہاں منعقد ہو رہے اولمپک اور فٹبال کے عالمی میلے کے موقع پر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے مقصد سے مسلم تنظیموں نے ایک پلان تیار کیا ہے، توقع ہے کہ دنیا بھر سے شائقین کی بہت بڑی تعداد میچیز دیکھنے کے لئے امنڈے گی، اس قیمتی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے کا عزم کرتے ہوئے اسلامی تنظیموں کے اتحاد نے ہر طرح کے امکانات کو بروئے کار لانے کا منصوبہ بنا لیا ہے، برازیل میں اس وقت ایک ہزار سے زائد مساجد ، جبکہ پندرہ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، اسلام کے آفاقی پیغام کو برازیلی قوم اور غیر ملکیوں تک پہنچانے کے لئے بازار، میٹرو اسٹیشنس،ائر پورٹ، یونیورسٹیز، کھیل میدان، بس اسٹینڈس، لائبریریوں اور کتابی میلوں کا انتخاب ہوا ہے،عالمی کپ کے موقع پر اسلام کی سچی تصویر پیش کرنے کے لئے درج ذیل چیزوں کا اہتمام کیا گیا ہے:</div>
</span><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۱۔فٹبال کے مشہور کھلاڑیوں سے ملاقات اور تحفوں کے ساتھ دعوت اسلام۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۲۔اس تحریک کا شعار ’اعرف الاسلام‘(اسلام کو پہچانو) قرار پا یا ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۳۔اسٹیڈیم کے قریب دعوتی آفسوں کا قیام، اور رابطہ کے لئے ہر شہر میں ایک ٹیم، جو ٹیلیفون پر اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۴۔دعوتی وین(گاڑیاں): مخصوص گاڑیوں کو موبائل وین کی شکل دی گئی ہے جہاں کتابوں ، پمفلٹوں کی تقسیم اور اسلام کے متعلق اشکالات کے جوابات دئے جائیں گے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۵۔قرآن کریم اور محاسن اسلام سے متعلق پرتگالی، اسپینی اور انگریزی زبانوں میں دس لاکھ کتب کی اشاعت۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۶۔ چالیس ہزار دعوتی ٹی شرٹ کی تیاری،جسے دعاۃ و کارکنان پہنیں گے نیز غیر مسلموں میں تقسیم بھی کیا ائے گا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۷۔ ایک ہزار اسپیشل دعوتی بیگ ، جسے فٹ بال کھلاڑیوں کو ہدیہ کیا جائے گا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۸۔ پانچ لاکھ سی ڈیز کی تیاری ، جس میں اسلام کے متعلق پانچ ویڈیوز ہونگے اور جنہیں مفت تقسیم کیا جائے گا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">۹۔ کھلاڑیوں کی قیام گاہ سے قریب نئی مساجد و مصلوں کی تعمیر کا فیصلہ۔ وغیرہ</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">اللہ ان کے دعوتی حوصلوں کو مزید توانائی عطا کرے، انہیں اجر جزیل سے نواز کر اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">tبرما کے ارکان صوبہ میں مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">بے چارگی کے ماحول میں سانسیں لے رہے ارکان کے مسلمان جہاں سمندری طوفان سے کراہ رہے ہیں ، وہیں انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے اور معاشی ناکہ بندی کی بھر پور تیاریاں کر لی گئی ہیں،ملیشیا میں اسلامی تنظیموں کے شورائی کمیٹی کے سربراہ محمد عزمی نے انکشاف کیا ہے کہ بدھسٹ انتہا پسند صوبہ ارکان میں آباد بودھوں کے گھروں پر نشان لگانے کا کام کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرتے وقت وہ محفوظ رہ سکیں، تازہ احوال کے مطابق گزشتہ ماہ درجنوں مساجد و مدارس کو جلا کر راکھ کردیا گیا، اور ۱۵۰؍ سے زائد طلبہ ومسلم نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا،اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے بودھ پادریوں نے مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے، جس سے حالات دھماکہ خیز ہوجائیں گے،اس کا مطلب ہے کہ اب مسلمان نہ تجارتی اداروں میں کام کر سکیں گے اور نہ ہی کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کو بآسانی خرید سکیں گے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="color: red; font-size: large;">سابق سی آئی اے چیف خبر کے بدلے خاتون صحافی کی عزت لوٹنے کا عادی تھا</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">عراق، پاکستان اور افغانستان میں بے دردی سے مسلمانوں کا خون بہانے والے ا مریکی فوجی سربراہ اور سی آئی اے چیف ڈیوڈ پیٹریاس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ ہوس کا پجاری تھا، اپنی زندگی کی معلومات دینے کے بدلے انہوں نے پاؤلا براڈویل کی درجنوں بار عزت لوٹی،متاثرہ خاتون کے انکشاف پر انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی، اور وہ عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے، پاؤلا اس وقت ہاورڈ سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں، جس میں پیٹریاس کے بارے میں معلومات کو ضروری قرار دیا گیا تھا، اور اس کے حصول کے لئے پیٹریاس نے جسم کا مطالبہ کیا تھا، جسے پاؤلا نے مجبورا پورا کردیا تھا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="color: red; font-size: large;">فحاشی کے الزام میں گرفتار عورت کو امام مسجد سے روزانہ درس لینے کا حکم</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">پاکستان کے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد نے ایک انوکھے فیصلے میں فحاشی کے الزام میں گرفتار ایک خاتون کو ضمانت دیتے ہوئے انہیں امام مسجد سے روزانہ ایک گھنٹہ دین کا درس لینے کا حکم دیا ہے، فحش حرکات کے نتیجے میں گرفتار خاتون کو عدالت نے یہ مشروط ضمانت دے کر اس کی مشکلیں بڑھا دی ہیں، جامع مسجد زرغونی میں خواتین کے درس کا اہتمام نہیں ہے ، اس لئے انہیں کسی نسواں مدرسے میں بھیجا جاسکتا ہے،وکیل لطیف آفریدی کے بقول اس حکم پر خاتون کے لئے عمل آسان نہیں ہوگا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="color: red; font-size: large;">بے قصور خالد مجاہد کی موت نے ملک میں انصاف کا جنازہ نکال دیا </span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">با را بنکی اور فیض آباد کچہری بم دھماکوں کے بے قصورمبینہ ملزم خالد مجاہد کی عدالت میں پیشی کے بعد واپسی میں ہوئی دردناک موت نے پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے،ایک دینی ادارے کے استاذ کو نمیش کمیشن کے مطابق جس طرح جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا، وہ نہایت اذیت ناک اور قابل مذ مت حرکت ہے، آخر پولیس کے پاس اسلحوں اور آر ڈی ایکس کا کتنا بھنڈار ہے جو مسلم نوجوانوں کوْ جبرا اٹھانے اور جھوٹے آر ڈی ایکس دکھا کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ پر آمادہ ہے ! سابق آئی جی داراپوری کے بقول وکرم سنگھ نے خالد سے پانچ لاکھ روپئے مانگے تھے، اور کہا تھا کہ رقم دیدو، تمہارے بدلے کسی اورکو پھنسا لیں گے،پولیس کی اس دہشت گردی کا حکومتوں نے بھر پور ساتھ دیا،خالد کی موت طبعی نہیں تھی، اسے قتل کیا گیا ہے،ظلم وبربریت کی اس بد ترین مثال کے بعد مسلمانوں سے سوال ہے:کیا آپ ضمیر فروشی کی عادت ترک کر کے اُن سیاسی جماعتوں کو دفن کرنے کا عہد کریں گے جو اس ظلم میں برابر کی شریک ہیں؟یہ سوال چیختا رہے گا جب تک خالد کا خون نا حق رنگ نہ لے آئے۔</span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-78361893072087160832013-05-20T04:18:00.001-07:002013-05-20T04:19:16.118-07:00ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjernhkJSYVKN0HCrTCxTEtp75pkQrxkUQfRdSSeHNMgbBujraC-GblIOEPz7KyeIwgM-amZ5d4YPx8EPNXneg_8i_KXbRdiuVzjMhBfmHrQxVnfB05J-nFwdRM3R8guMYgE4FwWQhxPG50/s1600/182934_453101678112966_1678727250_n.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="307" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjernhkJSYVKN0HCrTCxTEtp75pkQrxkUQfRdSSeHNMgbBujraC-GblIOEPz7KyeIwgM-amZ5d4YPx8EPNXneg_8i_KXbRdiuVzjMhBfmHrQxVnfB05J-nFwdRM3R8guMYgE4FwWQhxPG50/s400/182934_453101678112966_1678727250_n.jpg" width="400" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;">یہ اس وقت کی بات ہے جب قوم کا ایک </span></div>
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;"></span><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;">بچہ تھا جو نیا نیا مسجد جانا شروع کیا تھا</span></div>
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;">
</span><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;"><div style="text-align: right;">
وہ اکثر جمعہ کے خطبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا</div>
</span><span class="text_exposed_show" style="background-color: white; display: inline;"><div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
بھت ساری باتیں اس کے سر سے باؤنس ہوجاتی تھیں</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
لیکن وہ اپنی مسجد کے خطیب کے رو رو کر گڑ گڑا کر دعا مانگنئ کو کبھی نا بھول سکا اسے یاد ہے کہ وہ جمعہ کے دن خطیب کی دعا سنتا تھا جو کہتا تھا کہ " اے اللہ تو ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مدد فرما"</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
پھر وہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین و شیشان کے بھائیوں کی مدد فرما</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
تھوڑا اور بڑا ہوا تو اس نے نے سنا کہ خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین شیشان اور افغانی بھائیوں ک مدد فرما</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
عمر نے ذرا اور کروٹ لی تو اس نے سنا کہ خطیب نے کچھ الفاظ اور بڑھالئے اور کہا :- اللھم انصر المسلمین فی فلسطین و شیشان و افغانستان و عراق---------------------<wbr></wbr><span class="word_break" style="display: inline-block;"></span>- </div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
شعور نے ذرا اور ترقی کی تو سنا کہ خطیب کہ رہا تھا :- اے اللہ تو فلسطین شیشان افغانستان عراق اور شام کے رہنے والے مسلم مظلوم بھائیوں کی مدد فرما</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
اس کے بعد اس نے دیکھا کہ خطیب اپنی دعا میں مظلوم مسلمان ممالک کے نام بڑھانے کا عادی ہوگیا ہے اور امت مسلمہ سننے کی عادی ہوگئی ---</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
ایک دن وہ بچہ جو اب جوان ہوگیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا یہ بزرگ خطیب ہے اس نے اب تک ہمت نہیں ہاری ہے</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
خطیب نے لاسٹ ٹائم کہا تھا :اے اللہ تو فلسطین شیشان و افغانستان و عراق و کشمیر و بورما کے مسلمان بھائیوں کی </div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
مدد فرما-------------</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
اس نے یاد کیا کہ قوم صرف بے دلی اور بد دلی سے آمین کہکر یہ سمجھتی ہے کہ ہماری زمہ داریاں ختم </div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
لیکن میں نے بھی تو سالوں میں سننے اور سمجھنے کے سوا کیا کیا ---کسے راہ دکھلاؤں اور کیسے--</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
کہتے ہیں کہ ہمارا یہ ہار نا ماننے والا خطیب ملت بھی اپنی قوم کی سست روی اور مقصد حیات و دین سے لا تعلقی دیکھ کر ٹھنڈا سا ہوگیا ہے </div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
اور کئی احباب کے کہنے پر وہ اب رسما و بادل نا خواستہ سہی جمعہ کے خطبے میں پورے شارٹ طریقے سے شارٹ کٹ ڈھونڈنے والی قوم کے ساتھ کھہ دیتا ہے :- اللھم انصر المسلمین فی کل مکان ------</div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
میں سمجھتا ہوں کہ خطیب آج بھی تھک نہیں اسے قوم کی بے راہ روی نے تھکا دیا ہے آپ کو کیا لگتا ہے ----- </div>
<div style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: right;">
امید کہ یہ کہانی آپ کو پسند آئی ہوگی مجھے ناول و افسانے لکھنے نہیں آتے کیوں کہ میری اسکرپٹ ہمیشہ کمزور ہوتی ہے.</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;"><br /></span></div>
<span style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;"><div style="text-align: right;">
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے</div>
</span><span style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;"><div style="text-align: right;">
ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<span style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px;"><div style="text-align: right;">
کتبہ :- اے آر سالم فریادی </div>
</span></span></div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-30929484726900746872013-05-06T06:26:00.000-07:002013-05-06T06:26:03.949-07:00المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<table border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" style="width: 100%px;"><tbody>
<tr><td><table border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" style="width: 100%px;"><tbody>
<tr><td valign="top"><div class="title2" style="color: #b81311; direction: rtl; float: right; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 16px; font-weight: bold; line-height: 28px; padding-bottom: 10px; padding-left: 10px; text-align: right; width: 285px;">
المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود</div>
<table align="left" border="0" cellpadding="0" cellspacing="0"><tbody>
<tr><td align="right" class="send" style="color: #b81311; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 11px; text-align: right;"><br /></td><td width="4"></td><td align="right" class="send" style="color: #b81311; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 11px; text-align: right;"><br /></td></tr>
</tbody></table>
</td></tr>
</tbody></table>
</td></tr>
<tr><td><div class="addthis_toolbox addthis_default_style">
<br />
<div class="atclear" style="clear: both;">
</div>
</div>
</td></tr>
<tr><td dir="rtl" valign="top"><img alt="المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود" border="0" class="img_left" hspace="4" src="http://magmj.com/Resize?img=version/articles_752_999783.jpg&width=200" style="float: left; margin-right: 20px;" title="المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود" /><br />
<div class="text_5" style="color: #1d7ae4; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 16px; font-weight: bold; padding-bottom: 6px; text-align: right;">
<a href="http://magmj.com/index.jsp?inc=11&id=591" style="color: #1d7ae4; text-decoration: none;">د. مصطفى يوسف اللداوي</a></div>
<div class="news_co" style="color: #333333; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 16px; line-height: 24px; text-align: justify;">
إنها قصة أصحاب الأخدود تتكرر من جديد، بقسوتها وضراوتها وشدتها ومرارتها، يُسعَّرُ أوارها بحقد الكفار، ولؤم المشركين، وعناد المستكبرين، وتآمر الحاقدين، والعالم كله يقف أمام هولها متفرجاً ساكتاً، لا يعترض ولا يستنكر، ولا يشجب ولا يرفض، ولا يحاول الصد أو الرد أو المنع. ليس في التاريخ الحديث جريمة تطهيرٍ عرقي وديني كما يحدث اليوم في ميانمار، فقد شقت فيها الخدود بعلم الدولة، وأضرمت فيها النار بمسؤولية الحكومة، وحرقت البيوت أمام وسائل الإعلام، وقُتل المسلمون أمام أنظار الكون كله، وحُرق الأطفال والتلاميذ المسلمون في مدارسهم، وشرد أهلهم من مناطقهم، وأخليت المدن والتجمعات منهم، وقد اتخذ البوذيون قرارهم بتصفية المسلمين والتخلص منهم، وكأن المسلمين ليسوا شركاءهم في الأرض لهم حقوق. المسلمون في ميانمار لا يقتلون في بلادهم وحسب، بل يطردون منها بمئات الآلاف إلى دول الجوار، وتنتزع عنهم جنسية بلادهم، ويحرمون من امتيازاتها، ويتهمون في أوطانهم بأنهم غرباء أجانب، ليسوا من أهل البلاد ولا من سكانها الأصليين، وإنما هم وافدون غرباء، ومهاجرون أجانب، لا حق لهم بالإقامة أو التملك فيها، فلا أرض يشترونها، ولا عقاراتٍ يمتلكونها، ومن حاول التملك يعاقب، وتصادر أملاكه، ويمتلكها غيره. كما تمارس السلطات البورمية في حقهم قوانين قاسية لتنظيم النسل، وتحديد عدد الأطفال، فلا تتزوج المرأة قبل أن تبلغ الخامسة والعشرين من عمرها، بينما يعاقب الرجل إذا تزوج قبل بلوغه الثلاثين، وقد يحقن بما يفقده الخصوبة ويصيبه بالعقم، أو تحقن المرأة فلا تعود قادرة على الإنجاب، كما فرضت الحكومة قوانين خاصة تمنع على المسلمين التزاوج لمدةٍ زمنية معينة، مما يشجع على الفاحشة، وينشر الفساد والزنا بين المسلمين، ومن يتجاوز القوانين، أو يتزوج دون حصوله على إذنٍ رسمي بالزواج، فإنه يسجن لأكثر من عشر سنواتٍ. أما المرأة المسلمة الحامل فيجب أن تخضع حملها للمراقبة الشهرية، لا أمام طبيبٍ نسائي ليراقب الحمل، ويتابع صحة وسلامة الجنين، بل بقصد التضييق على المرأة المسلمة، وإجبارها على نزع ثيابها، وكشف بطنها، وتعريضه لأشعةٍ ضارةٍ بحجة التصوير الملون، لضبط حالات الولادة، والتدقيق على إحصاء المواليد وتعداد السكان، وتجبر المرأة الحامل على دفع رسومٍ عالية لإجراء الفحوصات الدورية الإلزامية، وقد تتعرض لأعمال اغتصاب وتحرش وانتهاكٍ للعرض، وهو ما أكدته اللجان الدولية العديدة. المسلمون في ميانمار ضعفاء محرومون، وفقراء معدمون ومساكين مشردون، ومهمشون تائهون، لا يجوز لهم ممارسة التجارة والأعمال الحرة، إنما يسمح لهم بالعمل كعبيدٍ أجراء، يقومون بالأعمال الوضيعة. انتهاك لحرمة الدين ولا ينبغي أن يكون للمسلمين في ميانمار مساجد يصلون فيها، ولا دور عبادةٍ تميزهم، رغم أن مساجدهم قديمة، فلا يسمح بترميمها ولا ببناء الجديد منها، ولا يسمح لهم بمقابر خاصة يدفن فيها موتاهم، أو شواهد إسلامية تدل عليهم، ولا تراث إسلامي يختصون به، ولا يسمح لهم بتلاوة القرآن، ولا حق لهم في مدارس دينية ولا في تعليمٍ خاص، بل إن الحكومة تتعمد تغيير المدرسين المسلمين بآخرين بوذيين متشددين، ولا يسمح لطلابهم بالدراسة خارج البلاد، أو تلقي العلوم على أيدي مدرسين أجانب، في الوقت الذي يحرمونهم فيه من مواصلة تعليمهم الجامعي في الجامعات البورمية، وتمنعهم من طباعة أو إصدار أي كتب خاصة بهم. مسؤولية السلطة أما قرى وبلدات المسلمين فيجب أن تطعم وتهجن بمواطنين بوذيين، فتعمد الحكومة إلى بناء قرى نموذجية، ومساكن حكومية للمواطنين البوذيين في قلب الأحياء الإسلامية، وتزودها بكل التسهيلات اللازمة، لتكون مميزة عن مساكن المسلمين، الذين لا يجدون إلا أن يعملوا خدماً وعمالاً في المستوطنات الجديدة، ولا يُسمح للمسلمين باستضافة أحد في بيوتهم، ولو كانوا أشقاء أو أقارب إلا بإذن مسبق، أما المَبيت فيُمنع منعاً باتاً، ويعتبر جريمة كبرى ربما يعاقَبُ عليها فاعلُها بهدم منزله أو اعتقاله أو طرده من البلاد هو وأسرته. السلطة الحاكمة في ميانمار تتحمل المسؤولية الكاملة إزاء ما يتعرض له المسلمون في بلادهم، إذ إن الذي يحرق البيوت والمتاجر، ويطرد السكان ويقتل المواطنين، أو يجبرهم على التخلي عن دينهم، والتحول إلى البوذية وهي دين الدولة الرسمي، إنما هم جنودٌ نظاميون، وعناصر شرطة بلباسهم الرسمي، وأسلحتهم النظامية، حيث يرتكبون هذه الجرائم المنظمة وفق تعليماتٍ واضحة، وتوجيهاتٍ مباشرة من قيادتهم العليا، والذي يجبرهم على العمل بالسخرة في الثكنات العسكرية، وفي بناء الجسور وحفر الأنفاق، إنما هو جيش الدولة والسلطة الحاكمة. نصرة واجبة المسلمون مطالبون قبل غيرهم، بالأصالة عن أنفسهم، بالوقوف إلى جانب إخوانهم المسلمين ونصرتهم، وتأمين حياتهم، والعمل على رفع الظلم عنهم، وإعادة الحقوق إليهم، وتحريك المجتمع الدولي كله لنصرتهم وإغاثتهم، إذ إنهم لا حول لهم ولا قوة، ولا عندهم بأسٌ ولا منعة. كما يجب على المسلمين أن يرفعوا الصوت عالياً ضد بكين، التي تدعم الحكومة البورمية، وتقدم لها السلاح، وتدعم سياستها العنصرية أمام المحافل الدولية، فالمسلمون في بورما يقتلون بإرادةٍ صينية، ويعدمون بمظلةٍ بوذيةٍ تنمو وتترعرع عندهم، والعلاقات العربية والإسلامية مع الصين كبيرة جداً، فينبغي استغلالها للضغط على حكومتهم، لترفع الغطاء عن الحكومة في ميانمار، التي تمارس القتل، وتسكت عنه. كما يجب على حكومة بنجلاديش بالتعاون مع منظمة المؤتمر الإسلامي كونها الدولة الأكثر استضافةً للاجئين المسلمين من بورما، والأكثر معاناةً من تدفقهم، أن تضغط على حكومة بلادهم لإعادتهم، وتحسين شروط عيشهم، وضمان مستقبلهم في بلادهم وعلى أرضهم، فهذا هو حقهم الطبيعي، الذي لا ينبغي أن يحرمهم منه أحد. المسلمون في ميانمار يحتضرون ويفتتنون، ويضطهدون ويعذبون، وتشق لهم الأرض أخاديدَ كبيرة، ويشعلون لهم فيها ناراً ذات وقود، إنهم على خطرٍ عظيم، ويتعرضون لشرٍ مستطير، ويواجهون مصيراً مجهولاً، ومستقبلاً غامضاً، ولكنهم مستمسكون بدين ربهم كالقابضين على الجمر.> إدانة دولية جديدة للعنف في ميانمار أعرب وفد من أربعة أعضاء في البرلمان الأوروبي زاروا ميانمار أخيراً عن قلقهم إزاء تواصل انتهاك حقوق الإنسان في هذا البلد. وحذرت النائبة «باربارا لوشبيلر» التي ترأست الوفد، في بيان، من أن انتهاك الحقوق الاقتصادية والاجتماعية لايزال متواصلاًً في ميانمار، مشيرة إلى أن هناك نقصاً في التنمية الاقتصادية لأغلبية الشعب البورمي. وحثت الحكومة البورمية على «الإفراج عن المعتقلين السياسيين، واتخاذ كافة التدابير لحماية كل الأقليات دون استثناء، بمن في ذلك أقلية الروهينجيا (المسلمة)، وسن سياسات اقتصادية تعود بالنفع على أغلبية الشعب وليس على دوائر ضيقة». ودعا أعضاء البرلمان الأوروبي إلى إشراك المجتمع المدني في التنمية، وأعربوا عن تأييدهم للانتقال الديمقراطي وسيادة القانون، واحترام حقوق الإنسان في ميانمار. كما أعرب الرئيس الأمريكي الأسبق «جيمي كارتر»، عن قلقه إزاء تجدد العنف الطائفي مؤخراً في ميانمار، وذلك خلال زيارته الحالية للبلاد. وقد أخبر «كارتر» الرئيس الميانماري «تين سين» أن المجتمع الديمقراطي لن يقوم إلا على أسس من الاحترام المتبادل والتسامح والتراحم وتقبل الآخر، وأكد «كارتر» انزعاجه بما تم تداوله من تقارير عن استخدام لغة عدائية من قبل بعض الرموز والمشاهير ورجال الدين في ميانمار.</div>
</td></tr>
<tr><td height="8"></td></tr>
<tr><td align="right"><table align="right" border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" style="width: 70%px;"><tbody>
<tr><td class="more_news" style="color: #b81311; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;"><br /></td><td class="more_news" style="color: #b81311; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;"></td><td class="more_news" style="color: #b81311; direction: rtl; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">مجلة المجتمع </td></tr>
</tbody></table>
</td></tr>
</tbody></table>
</div>
<hr />
<table align="center" border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" class="bodyhead" style="width: 99%px;"><tbody>
<tr><td><form action="http://magmj.com/index.jsp?inc=5&id=12781&pid=3630&version=198" method="post" name="user">
<table border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" style="width: 100%px;"><tbody>
<tr><td></td><td align="right" height="1"></td><td align="right" height="1"></td><td align="right" height="1"></td><td align="center" height="1"></td></tr>
</tbody></table>
</form>
</td></tr>
<tr><td align="center"></td></tr>
</tbody></table>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-76484382599372921432013-04-08T04:22:00.001-07:002013-04-08T04:29:58.231-07:006 دن کی دلہن َ ایک سبق آموژ تحریر The bride for 6 days<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhs43vINoaEQkuNc7Nm-W6sUZ_2BGMt2BN8AtpCr2mn-nWkn2bo73lUfFOQbs0Ga9VP3h-HvGm6DanIItS79KMatv5w5ZwZeI6pcLvu6tiWXflXcpWgCIEWnAyNdXTeZR4asH4N4B8a4PL2/s1600/528362_257976707672869_2065781292_n.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="232" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhs43vINoaEQkuNc7Nm-W6sUZ_2BGMt2BN8AtpCr2mn-nWkn2bo73lUfFOQbs0Ga9VP3h-HvGm6DanIItS79KMatv5w5ZwZeI6pcLvu6tiWXflXcpWgCIEWnAyNdXTeZR4asH4N4B8a4PL2/s320/528362_257976707672869_2065781292_n.jpg" width="320" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br />
<div style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">رب کائنات نے عورت کو مرد کی نسبت کمزور، حساس اور ضعیف
و ناتواں مخلوق بنایا ہے لیکن کمزور ہونے کے باوجود اللہ نے اس کو ہمت و حوصلہ اور
عزم کی قوت ایسی عطا کی ہے کہ وہ بہت بڑے بڑے اور مشکل کام خندہ پیشانی سے سرانجام
دیتی ہے۔ عورت حساس، نازک دل اور نازک جذبات کی مالک ہوتی ہے۔ ذرا سی خوشی پر مسرت
سے پھول کر پہاڑ ہو جاتی ہے اور ہلکی سی دل آزاری اور ہلکی سی آنچ سے کانچ کے برتن
کی طرح، ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتی ہے، اس کا دل حساس و شفاف آئینہ ہوتا ہے۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">یہی عورت جب بیٹی کے روپ میں ہو تو اور بھی نازک ہوتی
ہے۔ والدین اسے بہت نازونعم میں پالتے پوستے، تعلیم دلاتے، کھلاتے پلاتے اور طرح
طرح کے پہناوے پہناتے ہیں‘ اس کی فرمائشیں پوری کر کے ہر طرح سے اس کو خوش و خرم
رکھتے ہیں۔ باپ جب کبھی کسی مسئلہ میں ناراض ہو کر اصلاح کے لئے یا سرزنش کے لئے
اسے مارنے لگتا ہے تو ماں فوراً کہتی ہے: اللہ کے بندے! اسے کچھ نہ کہنا، پرایا
دھن ہے‘ اللہ جانے بیچاری کے نصیب میں دوسرے گھر جا کر کیا بننا ہے۔ اگر سوئی ہو
تو ماں جگاتی نہیں کہ میری بیٹی جی بھر کے سولے‘ دوسرے گھر جا کر سکون کی نیند
نصیب ہو گی کہ نہیں۔ انہی جذبات کے تحت یہ نازک بیٹیاں والدین کی چہیتیاں لاڈلیاں
اور آنکھوں کے تارے دل کے سہارے ہوتی ہیں۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">دوسرے گھر سدھار جانے کے بعد اگر بیٹیاں سکھ میں ہیں تو
والدین سکون و چین کی نیند سوتے ہیں اور اگر تنگی میں ہوں تو ان کے شب و روز کے پل
پل گویا کانٹوں اور انگاروں پر گزرتے ہیں۔ انہیں ایک لمحہ چین نہیں آتا‘ وہ ہر وقت
غموں، دکھوں، پریشانیوں اور سوچوں کے سمندر میں غرق نظر آتے ہیں۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">ایسا ہی ایک بدنصیب باپ اور اس کی بیٹی بھی ابھی دنیا کے
سمندر میں زندہ ہیں۔ اس بچی کی ماں دنیا پر اسے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تو مسکین ہو
جانے والی اپنی بچیوں کو باپ نے باپ نہیں ماں بن کر پالا۔ آج اس کی بڑی بیٹی کی
شادی تھی۔ وہ بہت خوش تھا، سوچ رہا تھا کہ آج اگر بچی کی ماں یعنی اس کی بیوی زندہ
ہوتی تو اپنی بیٹی کو سہاگن کے سرخ جوڑے میں ملبوس دیکھ کر کس قدر خوش ہوتی۔
بہرحال انہی محرومیوں میں ماں کے پیار اور نصیحت کے بغیر ہی بیٹی کی رخصتی ہو گئی۔
رخصت ہوتے وقت ہر بیٹی کے کتنے رنگین ارمان ہوتے ہیں کہ اس کا گھر ایسا ہو گا،
چاہنے والے قدردان سسرال ایسے ہوں گے، میاں خوب محبت کرنے والا ہو گا۔ اس کے خوب
ٹھاٹ باٹھ ہوں گے۔ وہ گھر کو اس طرح سجا کر جنت کا نمونہ بنائے گی۔ سسرال کی اس اس
طریقہ سے خدمت کر کے اپنے آپ کو فنا کر کے دل جیت لے گی۔ سب اس کی محبت کے گیت
گائیں گے وغیرہ وغیرہ۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">ایسے ہی خیالات و جذبات کے تحت یہ حرماں نصیب بہن پہلی
رات ہی حجلہ عروسی میں بیٹھی اپنے نئے ہم سفر، سرتاج، روح و جسم اور سوچ و جذبات
کے مالک کا انتظار کر رہی تھی۔ اور محبت کی شیرینی سے بھرپور چند بول سننے کے لئے
اس کے کان بے قرار تھے۔ آخر وہ لمحہ آہی گیا۔ میاں خاموشی سے آیا۔ پاس بیٹھا اور
چھوٹتے ہی کہنے لگا</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>:<br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">تمہارے باپ کنجر نے مجھے لوٹ لیا ہے، وہ میری جائداد پر
قبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن میں اسے کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دوں گا۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">یہ وہ اس لئے کہہ رہا تھا کہ شادی سے پہلے اس عجیب شخص
نے تین مرلے کا مکان اپنی ہونے والی بیوی کے نام لگا دیا تھا۔ اب اس کے نفس نے
بہکایا کہ وہ کیا کر بیٹھا!!؟ اس لئے وہ ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر اس کے باپ کو
گالی دے کر کہنے لگا: صبح اپنے باپ کے پاس جانا اور رجسٹری لا کر مجھے واپس کر
دینا۔ میں یہ تین مرلے دوبارہ اپنے نام کروائوں گا۔ لڑکی کہنے لگی: میرے سرتاج!
میں آپ کی، میرا سب کچھ آپ کا ہے، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں، یہ تین مرلے کل
بھی آپ ہی کے تھے آج بھی آپ کے، میں نے رجسٹری نہ لانے کی ضد کر کے اپنے گھر کو
نہیں اجاڑنا، میں لے آئوں گی، لیکن ایک بات کا خیال رکھیں میرے شفیق و کریم اور
عظیم باپ کو گالیاں مت دیں، ذرا سوچیں اگر آپ میری جگہ ہوں اور کوئی آپ کے باپ کو
آپ کے سامنے ننگی گالیاں دے تو آپ برداشت کر سکیں گے؟ یہی صورتحال میری ہے، مجھ سے
اپنے باپ کو پہلی ہی رات گالیاں نہیں سنی جا رہیں، لہٰذا آپ مہربانی فرما کر ایسا
نہ کریں۔</span><br />
’’<span dir="RTL" lang="AR-SA">بڑی تیز زبان ہے تیری، قینچی کی طرح چلتی ہے۔‘‘ یہ کہہ
کر اس کا ہاتھ اٹھا اور پے در پے زناٹے دار تھپڑ اسے پڑنے لگے … نازک کانچ کا دل
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، محبت کے جذبات ہوا ہو گئے، امیدوں پر پانی پھر گیا، امنگیں دم
توڑ گئیں، آرزوئیں درگور ہو گئیں، پھر نازو نعم میں پلی بیٹی یہ تشدد برداشت نہ کر
سکی لہٰذا اس کی چیخیں بلند ہونے لگیں۔ اس ناہنجارنے اس کا حل یہ نکالا کہ اس کے
منہ میں کپڑا ٹھونس دیا‘ تاکہ چیخیں باہر نہ نکل سکیں، نہ کوئی سن سکے اور نہ مدد
کے لئے آ سکے… پھر مزید یہ کہ بے دست و پاکرنے کے لئے ہاتھ دوپٹے سے باندھ دیئے…
اور پھر… ظلم کا دریا کنارے توڑ گیا… تشدد کی طغیانی سب کچھ بہا کر لے گئی… یہ مشق
ستم جاری رہی… جان و فا ہی… جان جفا ہو گیا… اوروں پہ کرم کرنے والا اپنوں پہ،
دنیا والوں کے بقول دل کی مالکہ پر ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا … اور یہ مظلوم مسکین
بیٹی تھوڑی دیر قبل نئی زندگی کے حسین آغاز کی منتظر… پر ساری رات ظلم کے اولے
برستے رہے، آندھیاں اور طوفان آتے رہے، وہ تختہ مشق بن کر ان کا مقابلہ کرتی رہی…
اور دعا کرتی رہی یا اللہ! اس درندے سے میری جان بچا لے، اگر مر گئی تو باپ بھی
صدمے سے مر جائے گا اور باقی تین یتیم بہنیں ماں کے بعد باپ کے سہارے سے بھی محروم
ہو جائیںگی۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">رات تھی کہ ختم نہ ہو رہی تھی… جیسے وقت تھم گیا ہو…
اللہ اللہ کر کے صبح کا سپیدہ نمودار ہوا اور جب یہ بیٹی گرتی پڑتی اپنے باپ کے
سامنے گئی تو باپ بیٹی کے جسم پر خاص طور پر چہرے پر پڑے نیل اور زخموں کے نشان
دیکھ کر غش کھا گیا۔ اس کا دل ڈوبتا چلا گیا۔ اب اگرچہ باپ زندہ ہے لیکن بیٹی کے
صدمے میں شاک کا شکار ہو کر نہ مردوں میں ہے نہ زندوں میں۔ کتنے ہی باپوں کو
بیٹیوں کے غم وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیتے اور پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر قبر
میں اتار دیتے ہیں اور کتنی مائوں کو بستر مرگ پر لٹا دیتے ہیں۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">ایسے صدمے کتنی ہی سنہرے مستقبل کے سہانے سپنے اور
آئیڈیل کے خواب کھلی آنکھوں سے دیکھنے والی بیٹیوں کو ذہنی مریض بنا دیتے ہیں اور
مرد ذات سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی بچیوں کی دوبارہ شادی کے نام ہی سے جان
نکل جاتی ہے جبکہ والدین گھر بیٹھی بچی کے دوبارہ گھر نہ بسنے کے غم میں اندر ہی
اندر گھلتے رہتے ہیں۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">یہ بہن کہہ رہی تھی کہ میں ایسے مرد کے ساتھ کیسے باقی
زندگی گزار سکتی ہوں کہ جس نے پہلی رات ہی میرے ساتھ یہ سفاکانہ سلوک کیا۔ 9 اپریل
2006ء کو میری شادی ہوئی تھی اور آج چھ دن ہونے کو ہیں، میں باپ کی چوکھٹ پر بیٹھی
ہوں اور طلاق مانگ رہی ہوں۔ میں نے اپنی اس دکھیاری بہن کو کہا کہ بہن! تیرے لئے
بہتر یہ ہو گا کہ تو طلاق کا مطالبہ نہ کرے، یہ ملن بار بار نہیں ہوتے اور جب عورت
مطلقہ ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں اسے کوئی قبول نہیں کرتا، اس کی حیثیت ہیرو سے
زیرو ہو جاتی ہے۔ ہر ممکن کوشش کر کہ تیرے سرتاج کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے
اور وہ اس پرشرمندگی اور معذرت کا اظہار کر کے تجھے اپنا لے اور اجڑا ہوا آشیانہ
پھر سے بس جائے، خزاں رسیدہ گلشن میں پھر سے بلبل اور کوئل چہچہانے لگیں… ٹھنڈی
اور معطر ہوا کے جھونکے قرب و جوار کو مسحور کرنے لگیں۔ یہ بھی یاد رکھ! تمہارے
پیچھے تمہاری تین مسکین یتیم بہنیں بھی ہیں، اگر تمہارے گھرانے پر طلاق کا دھبہ لگ
گیا تو ان بیچاریوں کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا‘ باپ پاگل ہو جائے گا، باغباں نہ
رہے گا تو کلیاں مرجھا جائیںگی، میں نہیں کہتا کہ تم دوسروں کی بہتری کے لئے
قربانی کا بکرا بنو، لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ اپنی بہتری کے لئے عورت بن کر سوچو،
طلاق بہتری کے راستے مسدود کر دیتی ہے۔ اس دکھیاری بہن نے وعدہ کیا کہ وہ اب طلاق
کا مطالبہ نہ کرے گی بلکہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ اس کا آنگن پھر سے مہک اٹھے۔ اس
مقصد کے لئے وہ دلوں کو پھیرنے والی ذات سے بھی رات کے وقت تہجد کے ذریعہ رابطہ
کرے گی۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">اے نوجوانان ملت! … میں سمجھتا ہوں اس مسئلہ میں جہاں اور
بہت سے عوامل ہیں وہاں آپ بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ آپ ایک عورت کو صرف عورت ہی نہ
سمجھیں، ایک محکوم‘ مغلوب، غلام اور باندی کی حیثیت سے نہ دیکھیں… کیونکہ یہ عورت
اگرچہ آپ کی بیوی ہے… لیکن… کسی کی بیٹی بھی ہے۔ کل عورت ہی آپ کی بیٹی ہو گی اور
کسی دوسرے کی شریک حیات… یہ سلسلہ چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>…<br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">آپ کبھی بھی یہ برداشت نہ کریں گے کہ آپ کی راج دلاری،
آپ کی شہزادی، آپ کی لخت جگر… آپ کی کلی اور آپ کی نازک حساس شرم و حیاء کی پیکر
بیٹی کو… کوئی کانٹا بھی چبھوئے۔ اگر آپ اپنی بیٹی کا مستقبل محفوظ و مامون دیکھنا
چاہتے ہیں… تو آج کسی دوسرے کی بیٹی… جو آپ کی شریک سفر بنا دی گئی ہے… کا مستقبل
محفوظ بنا دیں۔</span><br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA">بحوالہ: قلم کے آنسو</span></span></div>
</div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-65820669154937274602013-02-18T13:18:00.002-08:002013-02-18T13:18:53.793-08:00How become a Nepali Army officer converted to Islam<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2agRw22ef6ggSrG55EAxxhQ1z-zPbn72C6EBRL1ZMfHxTIMEF-lptMdD2kkJrZhda0y4pfvEj_5qwKRGMc6xn-fD61s5CTChb-RA5JrvaWG1YhsxuU57J45mvukeyD1slBQ9YgtOn5PS3/s1600/Nepal+3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="217" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2agRw22ef6ggSrG55EAxxhQ1z-zPbn72C6EBRL1ZMfHxTIMEF-lptMdD2kkJrZhda0y4pfvEj_5qwKRGMc6xn-fD61s5CTChb-RA5JrvaWG1YhsxuU57J45mvukeyD1slBQ9YgtOn5PS3/s400/Nepal+3.jpg" width="400" /></a></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjVp9UtaotjYVleDQzSTHpwPKyjOIO6P6To0FnjDQdP5GoHWcs5JOWqwmxxX6L9d2eNv1OhfQ9KX1gubpjsNb310eWPKULsylXqHWthY-I3wiK0g_7rmQfkIgPCxE-Zh2m_1R6AjpMz1gi_/s1600/Nepal+1.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjVp9UtaotjYVleDQzSTHpwPKyjOIO6P6To0FnjDQdP5GoHWcs5JOWqwmxxX6L9d2eNv1OhfQ9KX1gubpjsNb310eWPKULsylXqHWthY-I3wiK0g_7rmQfkIgPCxE-Zh2m_1R6AjpMz1gi_/s1600/Nepal+1.png" /></a></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjv14eUA7OOMWpqCMJ_5fwhhUQL7e1uJ7DVPPCOYYh-rzhXSS_rAq5UVgx6fmNo3ffhqQlozMUWPXEK12ffJFa6dFsBUpXzbVqQacAWb9isTg9ie_AV61HNE3bOYi6TNx6gP6P7lwhgskfG/s1600/nepal+2.png" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjv14eUA7OOMWpqCMJ_5fwhhUQL7e1uJ7DVPPCOYYh-rzhXSS_rAq5UVgx6fmNo3ffhqQlozMUWPXEK12ffJFa6dFsBUpXzbVqQacAWb9isTg9ie_AV61HNE3bOYi6TNx6gP6P7lwhgskfG/s1600/nepal+2.png" /></a></div>
<br /></div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-46995289548559919952013-01-30T05:55:00.000-08:002013-01-30T05:55:08.357-08:00ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<b style="background-color: white; color: #cc0000; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif; font-size: xx-large;">ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟</b></div>
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"> بنت شاهين: دبئي</span></span><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ جب بھی عورت کے موضوع پر گفتگو کی جائے اس کا عنوان یا تو ساس ہوگا یہ پھر بہو۔ جیسے عورت کے بس یہی دو روپ ہیں نا اس کا کوئی تعارف ہے اور نہ کوئی شناخت۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور گالی گلوج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی اور ناچاقی کا سارا الزام ان ہی دو عورتوں پر رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">ان حضرت کا نام نہیں آتا جو ایک لڑکی کو بہو بنا کر اپنے گھر والوں سے منسلک کرتے ہیں۔ اور ساس بہو کو رشتہ کی ڈور سے باندھتے ہیں۔ جن کا ان دونوں کے درمیان اہم رول ہوتا ہے وہی حضرت معصوم نظر آتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ساس بہو کی نااتفاقی کی وجہ یہ حضرت بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">لڑکیاں تصورات کی رنگین دنیا سجا کر سسرال جانے کے بجائے سسرال والوں سے لڑنے جھگڑنے کا پلان بنا کر باضابطہ میدان جنگ کا نقشہ کھینچ کر کیا سسرال جاتی ہیں؟ نہیں ۔۔۔۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">اور نہ کوئی والدین اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم جاتے ہی سسرال والوں سے لڑائی جھگڑا شروع کردینا۔ والدین تو یہ چاہتے ہیں کہ بیٹی سسرال میں خوش و خرم اور سب کی آنکھوں کا تارا بن کر رہے۔۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">لڑکی تو آرزوں و ارمانوں کی دنیا سجا کر محبت بھری آغوش سے جدا ہوکر سسرال کی چوکھٹ میں قدم رکھتی ہے۔ وہ اس بات کو جانتی ہے کہ وہ ایک نئی دنیا شروع کرنے جا رہی ہے۔ وہ کسی کی شریک حیات بن گئی ہے اور اپنے شریک حیات کے گھر جارہی ہے۔ جہاں اس کو اپنے شوہر کی بھر پور توجہ حاصل پوگی۔ وہ اس کے لئے مضبوط سائباں ثابت ہوگا۔ </span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">مگر افسوس کہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ، اس کو زبردست ٹھیس لگتی ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ سسرال والے اس کو جذبات و احساسات سے عاری ایک روبوٹ سمجھتے ہیں ، جس کا کام صرف اطاعت و خدمت ہے۔ جس کی ذات کو ہر شخص تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور شوہر نامدار خاموش تماشائی بن کر کھلی نااتفاقی اور ظلم کو اس لئے دیکھا کرتے ہیں کہ بیوی کی تائید میں کچھ کہنا ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو ناراض کر کے دوزخ کا ایندھن بننا نہیں چاہتے اور پھر یہ بھی ڈر ہے کہ لوگ انہیں زن مرید کہنے لگیں گے۔ وہ بیوی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کی دلجوئی کریں یا محبت بھرا سلوک کریں۔ </span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">ان کی نظر میں صرف ماں پاب کے حقوق ہوتے ہیں ، اس کو ادا کرنے میں اس طرح لگ جاتے ہیں کہ بیوی کے حق کو بھول جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بیوی کو وہ حق نہیں مل پاتا جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ تو اس کے دل میں سسرال والوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اور اس نفرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے ، جب اس کو سنایا جاتا ہے کہ اس کو خدمت کے لئے لایا گیا ہے۔ </span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">جب نئی دلہن کو ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے تو اس کا شدید رد عمل ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ پھولوں کے بجائے دامن جب کانٹوں سے بھر دیا جائے تو چینخ نکل ہی آتی ہے۔اس کو دنیا کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">ماں بیٹے کو جنم دینے والی ، اس کو خون جگر پلا کر پروان چڑھانے والی ، آرزوں ارمانوں سے اس کا بیاہ رچانے والی ، دھوم دھوم سے بہو کو گھر بیاہ کر لانے والی وہ بہو کی دشمن بن کر خواہ مخواہ بیٹے کی زندگی میں تلخیاں نہیں گھول سکتیں۔ کوئی ماں نہیں چاہتی کہ بیٹا ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کرے۔ مگر ماں جب یہ دیکھتی ہے اس پر جان نچھاور کرنے والا بیٹا شادی کے بعد اس کو نظر انداز کرہا ہے ، اس سے لاتعلق ہوکر رہ گیا ہے بس بیوی کی ذات میں گم ہوکر رہ گیا ہے ، بیوی کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ بیٹے کی نظروں میں اب اسکی کوئی عزت ہے نہ اہمیت تو اس کے نازک احساسات پر زبردست چوٹ لگتی ہے۔ بہو کو اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے۔ جس نے اس کا بیٹا چھین لیا ، جب اس کی ممتا پر چوٹ لگتی ہے تو برداشت نہیں کر پاتی۔ ۔۔۔۔۔۔ تو دنیا اس کو کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ </span><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><br style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;" /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Lahori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', 'Nafees Pakistani Naskh', 'Nafees Web Naskh', 'Nafees Pakistani Web Naskh', Tahoma, 'Times New Roman', Arial, sans-serif;">دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے والے ہوتے ہیں شوہر نامدار ، جن کی ناسمجھی ناتجربہ کاری کوتاہ فہمی حقوق سے نا واقفیت غلط رویہ ساس بہو کو اپنا دشمن بنا دیتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت کبھی ماں کی حق تلفی کرتے ہیں تو کبھی بیوی کی ، یہ انکا غلط رویہ اور عدم توازن ساس بہو کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے ، دنیا کہتی ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوگئی ہے ، ان دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن کس نے بنایا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر کوئی غور نہیں کرتا ذرا سوچئے کیا یہ بات غور طلب نہیں؟ آخر عورت کو کب تک قصوروار ٹھیرایا جاتا رہے گا؟ مرد جس کو قوام بنایا ہے اس کا فرض نہیں کہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھےمرد نہ صرف یہ کہ حقوق کو ادا کرے بلکہ حقوق کی حفاظت بھی کرے تو ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے گھر کو سکون و آرام کا گہوارہ بنا سکتی ہیں اور کائنات میں رنگ بھر سکتی ہیں۔</span></span></span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-1964193746959241092013-01-30T05:41:00.004-08:002013-01-30T05:48:34.495-08:00کالجوں میں فحاشی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<br />
<br />
<header class="entry-header" style="font-family: Tahoma, Arial, sans-serif; line-height: 21px; margin-bottom: 1.5em; overflow: hidden; text-align: start;"><h1 class="entry-title" style="border: 0px; clear: both; font-family: inherit; line-height: 1.2em; margin: 0px 0px 3px; outline: 0px; padding: 0px; text-align: center; vertical-align: baseline;">
<span style="background-color: blue; color: yellow; font-size: x-large;">کالجوں میں فحاشی</span></h1>
</header><br />
<div class="entry-content" style="background-color: white; border: 0px; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; text-align: start; vertical-align: baseline;">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: #444444; font-family: Tahoma, Arial, sans-serif; font-size: 14px; line-height: 21px;"><br /></span></div>
<div style="border: 0px; color: #444444; font-family: inherit; font-size: 14px; font-style: inherit; line-height: 21px; margin-bottom: 1.5em; outline: 0px; padding: 0px; text-align: justify; vertical-align: baseline;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-style: inherit;">منصور مہدی</span></div>
<a href="http://mansoormehdi.files.wordpress.com/2012/04/10.jpg" style="-webkit-transition: all 0.18s ease-out; border: 0px; color: #bb2530; font-family: inherit; font-style: inherit; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; text-decoration: initial; vertical-align: baseline;"><b><span style="font-size: large;"><img alt="" class="alignleft size-medium wp-image-1584" height="160" src="http://mansoormehdi.files.wordpress.com/2012/04/10.jpg?w=300&h=160" style="-webkit-transition: all 0.18s ease-out; border: 0px; display: inline; float: left; height: auto; margin: 0px 15px 5px 0px; max-width: 100%; text-align: right; width: auto;" title="10" width="300" /></span></b></a><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>جب مجھے پتہ چلا کہ ارسلان نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے روک دیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ ارسلان کوئی بنیاد پرست نہیں تھا ۔ وہ تو ایک لبرل قسم کا مسلمان ہے اور تعلیم کے معاملے میں تو اس کی سوچ بہت مثبت تھی وہ صرف لڑکوں کی تعلیم کا ہی حامی نہیں تھا بلکہ لڑکیوںکی تعلیم کا بھی حامی تھا۔ بلکہ وہ تو کہتا تھا کہ خصوصا آج کے دور میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے۔ اس کی سوچ کے مطابق موجودہ دور میں لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے ملنا بہت دشوار ہو چکے ہیں تو ایسے میں کم از کم لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہوں تو وہ کسی سکول میں ٹیچر ہی لگ کر اپنا گزر بسر کر سکتی ہے ناکہ تعلیم سے بے بہرہ ہو کر موجودہ معاشی حالات میں اس کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان اکثر اپنے دیگر ملنے والوں کو بھی یہی کہتا تھا کہ اپنے بچوں خصوصا بچیوں کو تعلیم ضرور دلانی چاہیے۔ وہ کہتا کہ بحیثیت مسلمان تو ہم پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے اور سنت بھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بارے اسلامی احکامات بھی سنایا کرتا تھا۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان اگرچہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس نے ایف اے کیا ہوا تھا اور اب ایک کمپنی میں ملازم تھا جہاں اس نے کمپیوٹر بھی سیکھ لیا تھا اور انٹرنیٹ پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس کے صرف چند ایک دلچسپیاں تھی جن میں ایک یہ تھی کہ وہ اخبارات اور نیٹ سے تعلیم کے بارے میں حقائق اکٹھے کرتا اور پھر دوستوں اور ساتھیوں کو سناتا اور ان کی اہمیت بیان کرتا تھا۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>مجھے یاد ہے کہ ایک دن اس نے پاکستان میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے حوالے سے یونیسف کی رپورٹ پڑھی تھی جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد 20سے 35سال کی لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے (35سال سے زائد عمر)۔ ان لڑکیوں میں اگرچہ تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی تھی لیکن ایسی لڑکیوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی کہ جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں تھی۔ ارسلان کہتا کہ ایسی صورتحال میں اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہوگی تو کم ازکم اپنا پیٹ تو پال سکے گی وگرنہ والدین کے بعد کسی عزیز یا رشتہ دار کے در پر پڑی رہے گی اور اسے ان کی باتیں سننے کو ملے گی۔ وہ مزید بتلاتا کہ اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں مگر مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ارسلان مزید دلائل دیتا کہ لڑکیوں کی بھی تعلیم بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنا لڑکوں کی تعلیم بلکہ لڑکیوں کو مستقبل میں ماں بننا ہوتا ہے اور ایک پڑھی لکھی اورتعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی سچی فکر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینا ہے، مگر ایک عورت کو تعلیم دینا گویا ایک پورے خاندان اور معاشرے کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔ اس لئے کہ ماں کی گود بچے کی اول اور عظیم و مستحکم تربیت اور تعلیم گاہ ہے۔ اس لئے کہ بچہ چوبیس (24) گھنٹے ماں کی نگرانی میں رہتا ہے اور بچہ کی یہ عمر موم کے مثل ہوتی ہے اس پر جو نقوش مرتب کئے جائیں وہ با آسانی نقش ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی نہیں مٹتے۔ اس لئے ہمیں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں پر توجہ دینی چاہئیے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>لیکن اب ارسلان کو کیا ہوگا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے والے نے اپنی ہی بیٹی کو اب مزید تعلیم دلانے سے انکار کردیا۔حالانکہ اس کی بیٹی بہت ذہین تھی ۔ پہلی جماعت سے ہی وہ اول پوزیشن لیتی رہی اور اب میٹرک کے امتحان میں بھی اس نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ ارسلان کہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا۔ لیکن اب اس نے ایسا کیوں ہوا؟</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>کئی روز سے اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ ارسلان کا ایک دوست میرا بھی دوست تھا ، وہ جب مجھے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ ارسلان نے ایسا کیوں فیصلہ کیا تو وہ کہنے لگا اس کی وجہ تو مجھے بھی اب تک نہیں معلوم ہو سکی کہ اس نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ اس نے اپنا فون بھی بند کیا ہوا ہے ۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ چلو اس کی طرف چلتے ہیں اور اس کی وجہ پوچھتے ہیں کیونکہ اب کالجوں میں داخلے بھی بند ہونے والے ہیں ، یہ نہ ہو کہ اس کی بیٹی کو وقت گزرنے کے بعد داخلہ ہی نہ مل سکے۔اس کے پاس چل کر اسے سمجھاتے ہیں کہ وہ تو خود لڑکیوں کی تعلیم کا بہت برا حامی تھا تو اب اپنی بیٹی کے ساتھ کیوں یہ زیادتی کر رہا ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>اگلے روز ہم شام کے وقت جب وہ اپنے دفتر سے آ جاتا ہے ، اس کے گھر پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد اس نے ہمیں چائے پلائی ۔ جب ہم چائے وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو ہم نے اسے کہا کہ ارسلان ہم نے سنا ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا ہے۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔یہ نہ ہو داخلے بند ہوجائیں اور تمہاری بیٹی کا سال ضائع ہوجائے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے درست سنا ہے کہ اب میں اپنی بیٹی کو مزید تعلیم نہیں دلواﺅں گا بلکہ اب جہاں پہلے لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی وکالت کرتا تھا اب میں انھیں تعلیم اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں میں داخلہ لینے سے منع کرنے کی وکالت کروں گا۔ ہمیں اس کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی کہ ارسلان میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ہمارے اصرار پر اس نے کہا کہ اچھامیں ابھی تمہیں اپنے اس فیصلے کی وضاحت بتلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر کے دوسرے کمرے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہمیں بھی اس کمرے میں ساتھ لے گیا کہ جہاں پر کمپیوٹر رکھا ہوا تھا۔ اس نے کمپیوٹر اون کیا اور ہمیں مخاطب کر کے کہنے لگا کہ دوستوں تمہیں تو پتہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا کتنا حامی تھا جب میری بیٹی نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تو مجھے جتنی خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میری بیٹی نے مجھے کہا کہ پاپا فلاں۔۔۔۔۔۔۔کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے کیونکہ میری دوست راحیلہ اور ثمرین بھی اسی کالج میں داخلہ لے رہی ہے۔اس کالج کی تعلیم بہت اچھی ہے ۔ ارسلان کہنے لگا کہ میں نے بھی اس کالج کے بارے میں سنا تھا۔اس کالج کی کئی شاخیں تھی نہ صرف لاہور میں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی اس کی برانچیں تھیں۔ اس کالج کا مالک شہر کا ایک متمول شخص ہے اور علاقائی سیاست میں بھی اہم مقام رکھتا ہے اور اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکا ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان نے بتایا کہ میں نے اس کالج کے دفتر میں فون کیا اور داخلہ فارم وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو دفتر والوں نے بتایا کہ داخلہ فارم کالج کے دفتر سے بھی مل سکتے ہیں اور ہمارے کالج کی ویب سائٹ سے بھی داﺅن لوڈ ہو سکتے ہیں۔ جس پر میں نے سوچا کہ میرے دفتر میں پرنٹر موجودہے چنانچہ وہاں سے فارم لے لوں گا اس طرح میرا کالج جانے کا چکر بچ جائے گا۔ لیکن مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ان سے ان کی ویب سائٹ کا ایڈریس نہیں پوچھا ۔تو مین نے سوچا کہ کوئی بات نہیں میں ان کی ویب سائٹ گوگل پر سرچ کر لوں گا۔چنانچہ جب میں نے گوگل کھول کر اس پر اس کالج کی ویب سائٹ سرچ کرنے کے لیے نام لکھا اور انٹر کا بٹن دبایا تو کالج کی ویب سائٹ کے علاوہ اور بہت سے ویب سائٹس کے لنک براﺅزر پر کھل گئے۔ انہی میں یو ٹیوب نامی ویب سائٹ کا لنک بھی کھل گیا جس کے امیج پر ایک لڑکی ناچتی ہوئی نظر آئی جس نے اس کالج کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔جس پر میں نے اس سائٹ کو بھی دیکھنا چاہا کہ یہ کیا ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>انہی باتوں کے دوران کمپیوٹر اون ہو گیا اور اس نے گوگل کھول کر اس کالج کا نام ٹائپ کیا جس پر بہت سے لنکس کھل گئے۔ اس نے ہمیں بھی وہ لنک دکھایا اور اسے کلک کیا تو یوٹیوب نامی سائٹ کھل گئی جس پر اس کالج کے حوالے سے ایک نہیں بیسیوں وڈیوز کے لنک تھے۔ وہ لنکس دیکھ کر ہم بھی حیرت زدہ ہو گئے کہ اس قسم کی وڈیوز کا اس کالج سے کیا تعلق؟ ارسلان نے ان مین سے ایک وڈیو کو کلک کیا۔تو وڈیو چلنے لگی جس میں اس کالج کا کلاس روم نظر آرہا تھاکہ جہاں پر بہت سے لڑکے کالج یونیفارم میں خر مستیاں کر رہے تھے اور بھارتی گانوں پر ڈانس کر رہے تھے جبکہ کلاس میں کوئی ٹیچر وغیرہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ وڈیو موبائل فون کے کیمرے سے بنی ہوئی تھی۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان نے پھر ایک اور وڈیو کے لنک کو کلک کیا تواس پر لکھا ہوا تھا ، کلر ڈے کے موقع پر لڑکوں کا فن، پھرایک اور وڈیو اس نے دکھائی اس پر درج تھا لڑکیوں کی دل لبھا دینے والی پرفارمنس، اس کے بعد یکے بعد دیگرے اس نے ہمیں بہت سی وڈیوز دکھائی جس میں کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ایسے ایسے انداز میں ایسی حرکتیں کرتے نظر آئے کہ الامان الالحفیظ۔پھر ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ کہ ایک لڑکا ٹیچر کی نقل کرتا ہے کہ کیسے پڑھایا جاتا ہے اور آخر میں دیگر لڑکے اسے مارتے ہیں۔ پھر ارسلان نے ایک ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ دکھائی کہ جو اس کالج میں منائے گئے سپرنگ فیسٹیول کے موقع کی تھی۔ جس میں لڑکیوں رنگ برنگے کپڑوں ، چست جین اور شرٹس میں ملبوس لڑکیاں ناچ رہی تھیں ۔ ٹی وی کے کیمرہ مین نے بھی اسے فلمانے میں کمال کر دیا کہ جیسے وہ کسی کالج کے فیسٹیول کو نہیں فلما رہا تھا بلکہ کسی انگریزی فلم کو فلما رہا ہوں، بہرحال اس رپورٹ میں کالج کی پرنسپل ساحبہ کا بھی ساٹ تھا جس میں موصوفہ فرما رہی تھی کہ اس قسم کی سرگرمیاں اس کالج کی رونق ہیں اور ایسی انٹرٹینمنٹ ہونی چاہیے کہ جس سے طالب علموں کی تھکان کم ہو سکے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>اس کے علاوہ ارسلان نے صرف اسی کالج ہی نہیں بلکہ شہر کے دیگر کالجوں کی ودیوز بھی دکھائی۔ جن میںان وڈیوز سے بھی زیادہ بے ہودہ سین تھے ۔اس سائٹ پر نہ صرف لاہور بلکہ ملک کے دیگر شہروں کے کالجوں کے حوالے سے بھی وڈیوز موجود تھی جن کو دیکھ کرہمارا سر بھی شرم سے جھک گیا۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان نے یہ دکھانے کے بعد ہم سے پوچھا کہ بتاﺅ کیا تم ان کالجوں میں اپنی بیٹیوں کو داخلہ دلواﺅ گے؟ اس کے سوال کا فوری جواب ہمیں نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔بالآخر میرے دوست نے جو ارسلان کا قریبی دوست تھا کہنے لگا کہ ارسلان کیا تم نے دیکھا کہ ان وڈیوز میں صرف چند لڑکے اور لڑکیاں بار بار نظر آ رہی تھیں جس کا مطلب ہے کہ تمام لڑکے اور لڑکیاں ان کاموں میں مشغول نہیں بلکہ بیسیون طالب علم صرف تعلیمی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں انھیں ان بے ہودہ سرگرمیوں سے کوئی شغف نہیں ہوتا۔میرا دوست کہنے لگا کہ ان وڈیوز کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ارسلان کہنے لگا کہ ان کالجوں کا بڑا نام سنا تھا اگر یہ ہی ایسے ہیں تو دیگر کالجوں کا کیا حال ہوگا۔ میرا دوست کہنے لگا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ کوئی ایک خراب ہے تو سارا جہاں ہی خراب ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان کہنے لگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز میں فحاشی اور برائی اب اتنی عام ہو چکی ہے جس کا مجھے بھی اندازہ نہیں تھاکہ اگر ہمارے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور شرم و حیا کی بجائے غیر اسلامی تعلیمات اور بے حیائی اور بے شرمی کی تعلیم دی جائےگی تو ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>کیا تعلیمی اداروں میں بالخصوص گرلز کالجز میں ایسے فحاشی اور بے حیائی پر مبنی پروگرام ہوتے ہیں ؟کیا سپرنگ فیسٹیول کے نام پرایسے مخلوط پروگرام ہونے چاہیے؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈانس کے مقابلے ہونے چاہیے؟</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ارسلان نے ایسے ایسے سوال کیے کہ جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا تاہم ہم نے اسے سمجھایا کہ دوست تمام کالجز میں ایسا نہیں ہوتا، ابھی بھی داخلے کا وقت ہے تم کوشش کرو اور کسی اور کالج میں اپنی بیٹی کا داخلہ کروا دو تاکہ اس کا سال ضائع نہ ہو۔ ارسلان ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم لوگ مجھے ایسے کالج کا پتہ بتادو کہ جہاں پر اس قسم کی سرگرمیاں نہیں ہوتی تو میں وہاں بچی کو داخل کروا دوں </b>گا</span></div>
</div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-62692742495215084522013-01-30T05:38:00.003-08:002013-01-30T06:08:25.648-08:00بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="border: 0px; font-family: inherit; font-style: inherit; margin-bottom: 1.5em; outline: 0px; padding: 0px; text-align: center; vertical-align: baseline;">
<b><span style="background-color: purple; color: yellow; font-size: x-large;">بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟</span></b></div>
<div style="border: 0px; font-family: inherit; font-size: 14px; font-style: inherit; margin-bottom: 1.5em; outline: 0px; padding: 0px; text-align: justify; vertical-align: baseline;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-style: inherit;">منصور مہدی</span></div>
<a href="http://mansoormehdi.files.wordpress.com/2012/02/bahoo-ya-saas.jpg" style="-webkit-transition: all 0.18s ease-out; border: 0px; color: #bb2530; font-family: inherit; font-style: inherit; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; text-decoration: initial; vertical-align: baseline;"><span style="font-size: large;"><b><img alt="" class="size-medium wp-image-1500 alignleft" height="195" src="http://mansoormehdi.files.wordpress.com/2012/02/bahoo-ya-saas.jpg?w=300&h=195" style="-webkit-transition: all 0.18s ease-out; border: 0px; display: inline; float: left; height: auto; margin: 0px 15px 5px 0px; max-width: 100%; text-align: right; width: auto;" title="bahoo ya saas" width="300" /></b></span></a><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ہمارے معاشرے میں ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی بھی خاندان میں عورت کے یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی کا سارا الزام انہی دو عورتوں پر رکھا جاتاہے۔اگرچہ ان جھگڑوں میں ایک تیسرا کرادر بھی ہوتا ہے اور وہ شوہریا بیٹا ہوتا ہے۔لیکن وہ ان لڑائی جھگڑوں میں زیادہ ترسامنے نہیں آتا ۔ یہ جھگڑے بسا اوقات سنگین بھی ہو جاتے ہےں۔ ان جھگڑوں سے خاندان کے تمام افراد کا ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے اور اکثر بات زبانی تکرار سے نکل کر مار کٹائی اور اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں طلاق اور قتل جیسے واقعات سرزد ہوجاتے ہیں۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>اس بار نئی بات خواتین میگزین نے اس اہم موضوع پر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے رائے لی۔ 50فیصد لوگوں نے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ ساس کو قرار دیا تو 40فیصد نے کہا کہ ان کی وجہ بہو ہوتی ہے لیکن 10فیصد لوگوں نے ان جھگڑوں کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیا۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ماہر نفسیات منتہیٰ احمد کا کہنا ہے کہ ساس اور بہو کے درمیان ہونے والے یہ جھگڑے جب طول پکڑتے ہیں اور روزنہ کا معمول بن جاتے ہیں تو ان کے بچوں پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیںجو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ پھر جب ایسے جھگڑوں کے نتیجے میں خاندان جدا ہوتے ہیں، میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے تو ہر متعلقہ شخص شدید طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی گھر میں ہونے والے ان جھگڑوں کے بارے میں کوئی اصولی بات بتانا ممکن نہیں بلکہ ہرگھر کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ہر انسان اپنی تربیت، طبعیت اور عادت میں مختلف ہوتا ہے، اس لیے کوئی اصولی بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ کس گھر میں جھگڑے کی وجہ کیا ہوتی ہے البتہ کچھ عمومی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیال اگر رکھا جائے تو معاملات خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں۔عام طور پر ہمارے ہاں اس طرح کے مسائل کا آغاز شادی کے فوراً بعد ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔وہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی پس منظر میں شادی کے بعد لڑکی کو اپنا گھر چھوڑ کر سسرال میں جاکر رہنا ہوتا ہے۔ایک لڑکی کے لیے یہ نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اس کے ذہن میں اپنے گھر اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک تصور ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ لڑکی ایک مرد کی بیوی کم اور ایک دوسرے خاندان کی بہو زیادہ ہوتی ہے اور یہی سوچ لڑائی جھگڑوں کی ابتدا بنتی ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ڈاکٹر فرح قریشی نے اس حوالے سے کہا کہ اصل میں ہمارے معاشرے میں جب ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک نئی زندگی شروع نہیں کر رہی ہوتی بلکہ ایک خاندان کا حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اس خاندان کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں، ملنے جلنے اور لینے دینے کے آداب ہوتے ہیں۔ معاملات طے کرنے کااپنا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ جبکہ آنے والی لڑکی، چاہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ایک مختلف پس منظر سے آتی ہے۔ اب اگر وہ لڑکی اس حقیقت کو سمجھ لیتی ہے اور خود کو نئے حالات میںڈھال لیتی ہے تو زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو جھگڑے شروع ہونا لازمی بن جاتا ہے۔اس حوالے سے چاہیے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو سکھائے کہ ہماری سوسائٹی مغربی معاشرے کی طرح نہیں جہاں لڑکا اور لڑکی اپنی زندگی کاخود آغاز کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں لڑکی کو شوہر کے ساتھ سسرال کے طور طریقوں کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے۔جس لڑکی کو اس بات کی سمجھ ہوتی ہے، وہ عام طور پر بہت کامیاب زندگی گزارتی ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>پروفیسر مسز فرخندہ امین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ایک ساس خود برے حالات سے گزری ہوتی ہے۔ اس نے اپنی سسرال اور ساس کی طرف سے اچھے معاملات نہیں دیکھے ہوتے، اس لیے وہ طے کرلیتی ہے کہ وہی کچھ بہو کے ساتھ بھی لازماً ہونا چاہیے۔ مگر زمانہ چونکہ بیس پچیس سال آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اس لیے ساس کے برخلاف نئے زمانے کی بہو زبردست مزاحمت کرتی ہے اور پھر جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک خاتون کو اس کی ساس نے میکے جانے سے روکا ہوتا ہے تو وہ بھی اکثر یہی کچھ اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اس پر کام کاج کا تمام بوجھ ڈال دیا گیا ہوتا ہے تو یہی کچھ وہ بھی اپنی بہو کے ساتھ کر دیتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جو کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا ہے، اگر وہ اس وقت اس کے لیے برا تھا تو بیس پچیس سال بعد اس نئے زمانے کی لڑکی کے لیے یہ زیادہ ناپسندیدہ ہوگا۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ان کا کہنا ہے کہ پھر ان جھگڑوں میں نندوں اور بڑی جیٹھانیوں کا بھی بہت کرادار ہوتا ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نندیں شروع میں تو بھابھی بھابھی کرتی رہتی ہیں مگر جب بھابھی اور بھائی میں انڈرستینڈنگ بڑھتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ بھابھی نے ہمارا بھائی چھین لیا اور پھر یہاں سے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح جیٹھانیاں جو پہلے سے اس گھر میں موجود ہوتی ہے اور یہاں کے طور طریقوں سے آشنا ہو چکی ہوتی ہے وہ اس گھر میں آنی والی نئی عورت کو عموماً پسند نہیں کرتی۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو کم عمری دوسری خوبصورتی تیسرے تعلیم اور ایسی ہی دیگر باتیں جو جیٹھانی میں موجود نہ ہوں۔ پھر خاص طور پر شادی شدہ نندیں ان جھگڑوں میں اہم کرردار ادا کرتی ہیں ۔ ان کے ساتھ ان کے سسرال میں جو برتاﺅ ہوتا ہے وہی وہ اس نئی نویلی دلہن کے ساتھ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>ان کا کہنا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ اگر نئی آنے والی لڑکی کی ذمہ داری ہے تو بہرحال سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ لڑکی اپنا گھر بار اور رشتہ دار چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا تصور لے کر اِس گھر میں آئی ہے۔ اسے فوری طور پر احتساب کی سولی پر چڑھا دینا زیادتی ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ نئے حالات میں ایڈجسٹ کرسکے۔ اس دوران میں اس سے غلطیاں ہوں گی، وہ بھول کا شکار بھی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ناپسندیدہ معاملہ بھی کربیٹھے لیکن اسے رعایت ملنی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر ایسا نہیں ہو پاتا ہے۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل سید محمد ثقلین جعفری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سب سے بڑی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین بیٹیوں اور بہوو ¿ں کے لیے الگ الگ معیار رکھتی ہیں۔حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسرے کے لیے پسند کرو۔ یہ بات اگر خواتین ذہن میں رکھیں اوروالدین یا ساس جو اپنی بیٹی کے لیے چاہتی ہیں، وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے بھی چاہے، جو اب ان کی بہو ہے۔ ان کی بیٹی کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ اس نئی لڑکی سے لینا مناسب نہیں ہے۔ ظلم اگر ان کے ساتھ ہوا ہے، ماں باپ کی جدائی کا غم اگر انہوں نے اٹھایا ہے، شوہر کی بے رخی کا صدمہ اگر انہوں نے سہا ہے تواس میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کا حساب اس نئی لڑکی سے لیا جائے۔بلکہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ایک نئی اور اچھی روایت کا آغاز کریں۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>پیپلز لائررز فورم کے صدر اور لاہور بار کے سابق سنیئر نائب صدر شاہد حسن کھوکھر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گھریلو جھگڑوں کا ایک اہم سبب اکثر وہ مرد ہے جو ایک طرف ایک خاتون کا شوہر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ایک طویل عرصے سے کسی اور کا بیٹا اور بھائی ہوتا ہے۔ جھگڑے کا سبب بارہا یہ ہوتا ہے کہ اس مرد پر کس کے حقوق زیاد ہ ہیں۔ بیوی کے یا ماں کے۔ اس مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی چاہیے۔ لڑکی کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو لڑکا آج اس کا شوہر بنا ہے، وہ عرصے سے ایک دوسری خاتون کا بیٹا اور کسی اور کا بھائی بھی ہے۔ انہوں نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا ہے۔ اس پر ان لوگوں کے حقوق زیادہ ہیں۔ اس لیے ان پر کبھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اسی طرح سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میاں بیوی کی ایک پرائیویسی ہوتی ہے۔ انہیں ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھنا، بیوی کو میاں سے دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر فطری عمل ہے ،جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>سماجی کارکن ادریس علی کا کہنا ہے کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج اور عادات نہیں مل پاتیں۔ یعنی جھگڑے کے اصل فریق وہی دونوں بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک سبب اکثر یہی ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اور بہنیں خود فریق بننے کے بجائے اس لڑکے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتی ہیں۔ یعنی بھائی اور بیٹے کے سامنے لڑکی کی شکایات کرنا، اس کے عیوب گنوانا اور اس کی زیادتیوں کا رونا رونا۔ اسی طرح بیوی بھی گھر آتے ہی میاں کے سامنے شکایات کی پٹاری کھول دیتی ہے۔ لڑکا اگر ماں باپ اور بہن بھائیوں کا دفاع کرتا ہے تو اس پر بھی جھگڑا ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ پسند کی شادی بالعموم میاں بیوی کے اختلاف کو جنم دیتی ہے جس میں بعد ازاں خاندان کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔پھر ایک اور اہم وجہ انھوں نے بتائی کہ ہمارے ہاں اکثر مرد اپنی طاقت کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں۔ بیوی کا کوئی حق انہیں نظر نہیں آتا۔ وہ جب چاہتے ہیں اس کی پٹائی کردیتے ہیں، میکے جانے سے روک دیتے ہیں، اس کی کمزوریوں پر اسے رسواکرتے ہیں، اس کے ساتھ بدکلامی کرتے ہیں۔ اور جب ان جھگروں میں ان کے گھر والے شریک ہوتے ہیں تو یہ سنگین رخ اختیار کر جاتے ہیں۔</b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: inherit; font-size: large; font-style: inherit;"><b>بہو اور ساس کے ان خاندانی جھگڑوں کے اسباب تو لا تعداد ہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی تحقیرکرنا، ان کا مذاق اڑانا، بدگمانی، غیبت، چغل خوری اورالزام تراشیجیسی اخلاقی برائیاں برائیاں ہی نہیں سمجھی جاتیں۔ خواتین کی باہمی گفتگو کا اگر کبھی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر گفتگو انہی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دلوں میں نفرت اور نااتفاقی کا بیج بوتی ہیں۔ لوگوں میں جدائی ڈلواتی اور خاندانوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ فریقین اپنی انا اور ہٹ دھرمی پر جم جاتے ہیں۔ دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تمام اخلاقی حدود پار کرکے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتائج کو بھول کر تمام اخلاقی برائیوں کو اختیار کر لیتے ہیں۔</b></span></div>
<span style="font-size: large;"><b><br /></b></span>
<br />
<div class="sharedaddy sd-rating-enabled sd-like-enabled sd-sharing-enabled" id="jp-post-flair" style="border-bottom-left-radius: 0px !important; border-bottom-right-radius: 0px !important; border-top-left-radius: 0px !important; border-top-right-radius: 0px !important; border: 0px; clear: both; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; vertical-align: baseline; zoom: 1;">
<div class="sharedaddy sd-sharing-enabled" style="border-bottom-left-radius: 0px !important; border-bottom-right-radius: 0px !important; border-top-left-radius: 0px !important; border-top-right-radius: 0px !important; border: 0px; clear: both; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; vertical-align: baseline; zoom: 1;">
<div class="robots-nocontent sd-block sd-social sd-social-icon-text sd-sharing" style="border-bottom-left-radius: 0px !important; border-bottom-right-radius: 0px !important; border-top-color: rgba(0, 0, 0, 0.129412); border-top-left-radius: 0px !important; border-top-right-radius: 0px !important; border-top-style: solid; border-width: 1px 0px 0px; margin: 0px; outline: 0px; padding: 10px 0px 5px; vertical-align: baseline; width: 460.59375px; zoom: 1;">
<div class="sd-content" style="background-color: white; border-bottom-left-radius: 0px !important; border-bottom-right-radius: 0px !important; border-top-left-radius: 0px !important; border-top-right-radius: 0px !important; border: 0px; float: right; margin: -2px 0px 0px; outline: 0px; padding: 0px; text-align: start; vertical-align: baseline; width: 378.25px;">
<ul style="background-image: none; border: none; list-style: none; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px !important; vertical-align: baseline; zoom: 1;">
<li style="background-image: none; border: none; display: block; float: right; list-style: none; margin: 0px 0px 5px 5px !important; outline: 0px; padding: 0px !important; vertical-align: baseline;"><div style="background-image: -webkit-linear-gradient(top, rgb(247, 247, 247) 0%, rgb(239, 239, 239) 100%); border-bottom-left-radius: 3px; border-bottom-right-radius: 3px; border-top-left-radius: 3px; border-top-right-radius: 3px; border: 1px solid rgb(221, 221, 221) !important; box-shadow: rgb(255, 255, 255) 0px 1px 0px inset; display: inline-block; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; text-align: right; vertical-align: baseline;">
<span style="font-size: large;"><b><a class="sharing-anchor sd-button share-more" href="http://mansoormehdi.wordpress.com/women/%D9%85%D8%A7%DA%BA/%D8%A8%DB%81%D9%88-%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%D8%A7%D8%B3/#" style="background-image: -webkit-linear-gradient(top, rgb(247, 247, 247) 0%, rgb(239, 239, 239) 100%); border-bottom-left-radius: 3px; border-bottom-right-radius: 3px; border-top-left-radius: 3px; border-top-right-radius: 3px; border: 1px solid rgb(221, 221, 221) !important; box-shadow: rgb(255, 255, 255) 0px 1px 0px inset; display: inline-block; font-family: 'Helvetica Neue', Helvetica, Arial, sans-serif; line-height: 12px; margin: 0px; outline: 0px; padding: 0px; vertical-align: baseline;">w</a>ith</b></span> thanks: http://mansoormehdi.wordpress.com/women</div>
</li>
</ul>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-44230399744760391282012-11-12T13:38:00.004-08:002012-11-16T08:59:55.667-08:00ہمیں مکمل طور پر مٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں:برمی مسلمان Interview by: Abdus Saboor Nadvi<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: black; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><b><span style="color: lime; font-size: x-large;">ہمیں مکمل طور پر مٹانے کی کوششیں ہورہی ہیں:برمی مسلمان</span></b></span></div>
<div style="text-align: center;">
<b style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; text-align: start;"><span style="color: blue; font-size: large;">برما کے بے چارہ مسلمانوں سے ایک ملاقات</span></b></div>
<div style="text-align: center;">
<u><strong style="background-color: white; text-align: left;"><span style="color: #cc0000;"><span style="font-family: lucida grande, tahoma, verdana, arial, sans-serif;"><span style="line-height: 16.5px;">An Interview with Burmese </span></span></span></strong></u><span style="color: #cc0000; font-family: lucida grande, tahoma, verdana, arial, sans-serif;"><span style="line-height: 16.5px;"><b><u>Muslims</u></b></span></span><br />
<u><span style="color: purple;"><strong style="background-color: white; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 16.5px; text-align: left;"><br /></strong></span></u></div>
<div style="text-align: center;">
<u><span style="color: purple; font-size: large;"><strong style="background-color: white; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 16.5px; text-align: left;">Interview by: Abdus Saboor Nadvi </strong><strong style="background-color: white; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 16.5px; text-align: left;">عبدالصبور ندوي</strong></span></u></div>
<div style="text-align: center;">
<u><span style="color: purple; font-size: large;"><strong style="background-color: white; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 16.5px; text-align: left;"><br /></strong></span></u></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh-IyjjeQHZe5AjLvmmNIl18GHfYc-wyzK3Yjt17-b3fu7trfMgSx4kopHi_rTpl7BQVDPFk9Y6Fgf4ea1QOY-YfXtFkyhmtf-bgbDwB1ty9E8zx8t6jNhZdvOLO9rt8__u9bOhvUXIeO7W/s1600/burma.png" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="271" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh-IyjjeQHZe5AjLvmmNIl18GHfYc-wyzK3Yjt17-b3fu7trfMgSx4kopHi_rTpl7BQVDPFk9Y6Fgf4ea1QOY-YfXtFkyhmtf-bgbDwB1ty9E8zx8t6jNhZdvOLO9rt8__u9bOhvUXIeO7W/s400/burma.png" width="400" /></a></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>مسلمانوں پربرما کی فوجی حکومت اور بدھسٹوں کے دل دہلا دینے والے مظالم اور انکی نسل کشی کے دوران خون آشام وارداتوں نے انکی زندگیوں کو مسلسل عذاب سے دوچار کر رکھا ہے،جون ۲۰۱۲ء سے تا حال پچاس ہزار مسلمانوں کے مقتل کا گواہ بنی ارکان کی زمین دنیا بھر کے عدل گستروں اور انسانی حقوق کے محافظوں پر طمانچے رسید کر رہی ہے، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے ظالمو! خون مسلم کی ارزانی کا تماشہ دیکھنا ہو تو آکے دیکھ لو۔ مایوسیت کے سائے میں جی رہے برما کے مسلمانوں کو کوئی کمک ،رسد و مدد نہیں پہنچی ،حالات ہر دن ابتر ہورہے ہیں، ظالم بودھسٹوں سے نپٹنے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں، ان کی زندگی کا پیہہ کرب وآہ میں جام ہو کر رہ گیا ہے، آئیے آپ کو وہاں کے احوال سناتے ہیں انہی کی زبانی، سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ عبد اللہ کی دعوت پر حج کی سعادت حاصل کرنے والے برما کے بعض ائمہ مساجد اور دعاۃ سے منیٰ (مکہ مکرمہ</u></b>) میں گفتگو کا موقع ملا ، پیش ہے گفتگو کے بعض نکات: </span><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س: آپ چونکہ منبر و محراب اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لئے میرا پہلا سوال ہے کہ برما میں مدارس و مساجد کی صورتحال کیا ہے؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: اس وقت پورے ملک میں بشمول ارکان سو سے زائد ایسے مدرسے ہیں جہاں درس نظامی کا نصاب رائج ہے اور فارغ التحصیل طلبہ کو عالم و فاضل کی ڈگریاں دی جاتی ہیں راجدھانی رنگون میں دس مدرسے اس طرح کا کورس چلا رہے ہیں،مگر سرکاری یونیورسٹیاں اس کورس کو تسلیم نہیں کرتیں، جہاں تک مساجد کی بات ہے تو اکثر مدرسے مسجد اور اس سے ملحقہ کمروں میں ہی چلائے جارہے ہیں، علحدہ بلڈنگ بنانے کی اجازت نہیں ہے، خطہ ارکان سمیت پورے دیش میں ۲۰۰۰ سے زائد مساجد ہیں، لیکن صد افسوس ان میں اضافہ کی بجائے لگاتار کمی واقع ہورہی ہے، بودھ مت کے سرکاری دہشت گرد ارکان میں ۱۵۰، اور راجدھانی رنگون میں ۱۱، مسجدیں جبرا وقہرا ڈھا چکے ہیں ، دوسرے شہروں کے اعداد و شمار نا گفتہ بہ ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: کیا حکومت منہدم کی گئی مسجدوں کی از سرنو تعمیر کرتی ہے یا اسکے دو بارہ تعمیر کی اجازت دیتی ہے؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: ہر گز نہیں، سرکاری ظلم کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ جب ہمیں اپنی آباد مسجدوں کی معمولی مرمت کی حاجت ہوتی ہے تو اس کی اجازت کے لئے سرکاری اداروں کو رشوت دینی پڑتی ہے، فوجی حکومت پورے طور پہ ہماری جڑیں اکھاڑنے کے در پے ہے، ہمارا وجود انہیں برداشت نہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س: مدارس اسلامیہ کو سرکار سے کبھی کسی طرح کی کوئی مدد؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: برما میں رہتے ہوئے ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہاں! ہمیں مدارس کے قیام اجازت دی گئی، لیکن اب نئے مدرسوں کے قیام کی اجازت نہیں مل رہی ہے، طلبہ کو کوئی وظیفہ نہیں ملتا، بس اللہ کے فضل اور اصحاب خیر کے تعاون سے دینی تعلیم کا فروغ جاری ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س: ماشاء اللہ آپ حضرات اُردو بہت روانی سے بولتے ہیں، کیا اس کی وجہ آپ لوگوں کا بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تعلیم کا نتیجہ ہے؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: ایک سبب ہو سکتا ہے کہ ہمارے اکثر علماء نے بر صغیر میں تعلیم و تربیت پائی، لیکن ہمارے نصاب تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے اُردو، جسے برمی اور عربی کے ساتھ پڑھایا جا تا ہے، اس لئے برما میں اہل اُردو کو کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوگا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س: برما میں مسلمانوں کی تعداد اور اہم شہر جہاں ان کی آبادی کسی حد تک ٹھیک ٹھاک ہے؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: برما میں مسلمان ۱۲ ؍فیصد(یعنی ۷۵؍لاکھ آبادی ) ہیں جب کہ ۷۰ فیصدی بودھ مت کے پیروکار ہیں،ملک کی مجموعی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے، اہم شہر جیسے: رنگون، نیبرو، منڈلے، مالمین، اکیاب (Sit Way)،بوٹپیدانگ، ماؤنڈو ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س: خبرملی ہے کہ اس بار بقرعید کے موقع پر پورے دیش میں کہیں قربانی نہیں کی گئی،آخر کیا وجہ رہی؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: عید الأضحیٰ سے قبل بودھ مت کی مذہبی جماعتوں نے مسلمانوں کو وارننگ دی تھی کہ اگر ہم جانور ذبح کریں گے تو وہ ہمیں ذبح کردیں گے(شاید بودھسٹوں کا نیا مذہبی اصول یہی ہے کہ جانوروں کے بدلے انسانوں کا خون بہانے میں کوئی گناہ نہیں)، ہم یہ جانتے ہیں کہ ان کی دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں، ہم حکومت سے ہمیشہ سیکورٹی کی اپیل کرتے ہیں ، مگر نہ وہ سیکورٹی فراہم کرتے ہیں اور نہ دہشت پسند جماعتوں پر کوئی قدغن لگاتے ہیں،بلکہ ان کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسی خوف کے سبب تمام مسلمانوں نے قربانی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س:بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل صوبہ ارکان(راکھینے) میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: ارکان میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت روہنجا نسل سے ہے، اس صوبہ میں ۹۰؍فیصد مسلمان ہیں جب کہ ۱۰؍ فیصد مونک (یکھائی) نسل کے بودھسٹ ہیں، وہاں کے مواضعات اور شہروں میں فوجی آمریت کے بوٹے دندناتے ہیں، ۱۰؍ فیصدی مونک پورے طور پہ مجبور و مقہور مسلمانوں پر حاوی ہیں،حالانکہ یہ مونک بھی برمی حکومت کے مخالف ہیں،لیکن فوج انہیں ہتھیار فراہم کر کے مسلمانوں کے خلاف اکساتی ہے تا کہ مسلمان برما چھوڑ کر بھاگ جائیں، اس طرح یہ مونک مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہیں، جون ۲۰۱۲ء سے تا حال تقریبا پچاس ہزار مسلمان مردوں،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا، ۷۰۰؍ سے زائد مسلم بستیوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا،مگر ارباب اقتدار پر جوں بھی نہیں رینگی، اور نہ ہی مونک دہشت گردوں کا کچھ بگڑا، اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے، اس قیامت خیز مقتل سے گھبرا کر مسلمانوں نے ہجرت کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن اب انہوں نے عزم مصصم کیا ہے کہ ہم ہجرت نہیں کریں گے بلکہ یہیں لڑ کر دفن ہو جائیں گے، فوجی جوانوں کے مسلسل چھاپوں سے مسلمان بہت عاجز ہیں، جب کہ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، اس صوبے کا قانون ہی الگ ہے، کوئی بھی ارکان سے برما کے دوسرے صوبوں کا سفر نہیں کر سکتا،ستم بالائے ستم یہ کہ بیٹی کو باپ کے گھر (مائیکہ)جانے کے لئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ہوتی ہے، مسلمانوں کو نہ تو شہریت دی گئی ہے اور ہی ان کے حقوق، مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول کے لئے قانون بنایا گیا ہے کہ شادی کے لئے لڑکی کی عمر ۲۵؍ سے اوپر اور لڑکے کی عمر ۳۰؍سے اوپر ہونی چاہئے، نیز شادی کے لئے سرکاری پرمٹ ضروری ہے جس کے حصول میں سال بھر لگ جاتا ہے،روہنجا مسلمان ایک دو نہیں سیکڑوں مصیبتوں کے شکار ہیں، بس اللہ ان پر رحم فرمائے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: راجدھانی رنگون میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: الحمد للہ مسلم ممالک کے سفارتخانوں کے سبب یہاں کے مسلمان بہت حد تک محفوظ ہیں اور اپنے سارے کام آسانی کے ساتھ کرتے ہیں، جب کہ دوسرے شہروں میں حالات اچھے نہیں ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: کیا آپ ارکان کے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: جی! اگر کوئی چھپ چھپا کر رنگون پہنچ جا تا ہے تو ہم اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں، لیکن ارکان جا کر ان کی مدد کرنے سے ہم معذور ہیں، حکومت کی نگاہیں ہم پر بہت تیز ہیں، ہاں! وہاں کے حالات مسلم ممالک کے سفارتخانوں تک پہنچاتے ہیں اور وہ کبھی کبھار انکی غذائی و طبی امداد کرتے ہیں، اس ضمن میں سعودی عرب اور ترکی نے اپنا دست تعاون خوب دراز کیا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: اسلامی شعائر کے اظہار و ادائیگی میں کوئی پریشانی؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: الحمد للہ ارکان کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مسلمان اپنی شناخت اور شعار اپنانے میں آزاد ہیں، خواتین مکمل نقاب کا استعمال کرتی ہیں، بعض اسکارف پہنتی ہیں، مگر کوئی اعتراض نہیں کرتا،اسی طرح مائک پر اذان دینے کی آزادی ہے،اور اس قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: تعلیم و ملازمت کے میدان میں کیا مسلمانوں کو تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: بہت زیادہ، مسلمان اگر اپنی صلاحیت کے بل بوتے کوئی انٹرویو،مقابلہ یا امتحان پاس کرتے ہیں اور رینک میں ان سے نیچے کوئی برمی نسل کا بدھسٹ ہے، تو اس کو آگے بڑھا دیا جائے گا، اور مسلمان اپنی کنفرم سیٹ سے محروم ہو جائیں گے، بھلے برمی بدھسٹوں کے نمبرات کم ہوں مگر انہیں ترجیحی بنیاد پر سیٹ اور ملازمت دی جائے گی، جب سیٹیں بچ جائیں گی تو مسلمانوں کو ملیں گی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: سیاسی میدان میں مسلمانوں کی پیش رفت؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: بہت پیچھے ہیں، پارلیمنٹ کی ۴۰۰؍ نشستوں میں صرف ۴؍ممبر پارلیمنٹ ہیں، اور وہ بھی لبرل مائنڈکے، مسلمان آنگ سانگ سوچی کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اس نے کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند نہیں کی، ہم پر طرح طرح کے مظالم ہوتے رہے مگر اس نے مذمتی الفاظ بھی نہیں کہے، شاید اُسے بدھسٹ ووٹ بینک کاخوف ستا رہا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س:دعوتی میدان میں علماء و دعاۃ کا کردار؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: نہایت محدود ہے،مسلمانوں کے درمیان وعظ و نصیحت کا پروگرام ہوتا رہتا ہے، مگر غیر مسلموں کے درمیان اسلام کی دعوت بالکل صفر ہے، سرکاری طور پر ممنوع ہے،کئی علاقوں میں دینی بیداری اور شعور نہ پائے جانے کی وجہ سے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بودھسٹوں سے شادی کی خاطر مرتد ہوگئیں، اور حکومت نے انہیں گلے لگایا، لیکن اگر کوئی بودھسٹ لڑکی مسلمان لڑکے سے محبت کر بیٹھی ہے تو اُسے مسلمان سے شادی اور تبدیلئ مذہب کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی، یہ برمی سماج کا نہایت افسوسناک پہلو ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: کیا برما میں مسلمان صحافتی اور میڈیائی بے اعتنائی کا شکار ہیں؟</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج:جس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کو میڈیا میں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی، برما میں بھی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کرتے ہیں، آپ کو یا د ہوگا کہ ارکان میں بدھسٹوں کے ذریعے انجام دی گئی بھیانک خونریزی کی خبریں نہ تو عالمی میڈیا نے نشر کیں اور نہ ہی برما کے ذرائع ابلاغ نے، اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا، خصوصا فیس بک اور ٹیوٹر نے ہمارے لرزہ خیز حالات کی جم کر نمائندگی کی، کروڑوں مسلمانوں کے مظاہروں اور دعاؤں نے ہماری مدد کی، ہمیں جینے کا حوصلہ بخشا، ہم ان سب کے بیحد شکر گزار ہیں، ہمارے ملک میں مسلمانوں کا کوئی اخبار نہیں ہے، البتہ تین مشہور ماہنامے نکلتے ہیں جن میں سیاسی مواد یا خبریں بالکل نہیں ہوتیں، برمی زبان میں ’’المیزان‘‘ انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے، ماہنامہ ’’المفتی‘‘(برمی زبان) اور ماہنامہ ’’سعادت‘‘ (اردو)۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><u><b>س: آپ کے دیش کو کبھی برما اور کبھی میانمار کہا اور لکھا جاتا ہے،ایسا کیوں؟</b></u></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: چونکہ ہمارے یہاں مختلف نسلی گروپ آباد ہیں، اور ان میں برمی نسل کے لوگ سب سے زیادہ ہیں، وہی حکومت کرتے ہیں، اس لئے اس دیش کو برما کہا جاتا ہے، میانمار کا مطلب ہے : بہت ساری نسلوں اور طبقات کا دیش، یہ نام نیا ہے، لیکن برمی لوگوں کو پسند نہیں ، اس لئے ابھی حال میں پھر ملک کا نام ’’برما‘‘ کردیا گیا ہے، ہمارے یہاں برمی نسل کے 68% ،شان نسل کے 9%، کارین نسل کے 7%، راکھینے (روہنجا)نسل کے 5%،چینی نسل کے 3%، ہندی نسل کے 2%، فیصد لوگ آباد ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">س:<b><u> ارکان میں مسلمانوں پرحالیہ دلدوز مظالم کے بعد تنظیم برائے اسلامی کانفرنس</u></b></span></div>
<div style="text-align: right;">
<div style="text-align: right;">
<b><u><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"> (O.I.C) نے وہاں اپنادفترکھولنے کی بات کہی تھی، کیا حکومت نے انہیں اجازت دی؟</span></u></b></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: جی! انہیں حکومت نے اجازت دیدی ہے، لیکن دوسری طرف بدھسٹوں کو مشتعل کر رکھا ہے، تا کہ وہ اپنا دفتر نہ کھول پائیں، حکومت کی اجازت کے بعد دہشت پسند بدھسٹوں کا آفس کے قیام کے خلاف احتجاج جاری ہے، جس کی وجہ سے فی الحال ممکن نہیں ہو پارہا ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;"><b><u>س: اخیر میں یہ جاننا چاہوں گا کہ برما کا جو پیش منظر ہے اس کے متعلق آپ کے خدشات؟</u></b></span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">ج: ہمیں مٹانے کی ہر دن کوشش ہورہی ہے، ہم اللہ کی ذات سے مایوس ہر گز نہیں، لیکن نجانے کیوں لگتا ہے کہ حالات مزید ابتر ہو جائیں گے، اور ہمیں ہجرت پر مجبور ہونا پڑے گا یا دوسرا آپشن بے سروسامانی کی حالت میں جہاد۔۔۔(اتنا کہہ کر سب رو پڑے)</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">کچھ دیر کے بعد میں نے انہیں دلاسہ دیا کہ کوئی آپ کی مدد کر ے نہ کرے، اللہ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ان سے جدا ہوتے وقت انہی کی زبان میں انکا شکریہ ادا کیا:’’چیزو تیمباٹے‘‘ انہوں نے جوابا خوش آمدید اپنی زبان میں کہا:’’ مینگلابہ‘‘، میں ان سے مصافحہ کرتے ہوئے رخصت ہو رہا تھا اور میری زبان پر ان کے لئے صبر و ثبات کی دعائیں جاری تھیں۔۔۔۔۔۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">برما کے پریشاں حال مسلمان حجاج جو اس گفتگو میں شریک تھے، مصلحتا ان کی تفصیل نہ دے کر صرف نام پر اکتفاء کیا جارہا ہے:</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 18px; text-align: start;">مولانا محمد اسحاق، مولانا رحمت اللہ، مولانا عبد القادر،مولانا عبد الجبار، مولانا محمد عارف،مولانا امیر حسین صاحبان حفظہم اللہ من کل سوء و مکروہ</span></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-43482355336422302112012-10-14T13:18:00.002-07:002012-10-14T13:18:32.695-07:00ملالہ کی مشہور ڈائری کا معمہ حل<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<div style="text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiSdM9JZLB0hv3bRuKIoydfok6NXvm1hePG-0yH97qxQzWF5GAcQhav7Jecn5Gmcmx_ieFclHaEEcu6l9SG4oCL3MKpL6YEnoVAZbrex9Z0cPsmzWZ6UqxCq7bhQWT-iOigLMi5KVb7M9eJ/s1600/malala.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="247" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiSdM9JZLB0hv3bRuKIoydfok6NXvm1hePG-0yH97qxQzWF5GAcQhav7Jecn5Gmcmx_ieFclHaEEcu6l9SG4oCL3MKpL6YEnoVAZbrex9Z0cPsmzWZ6UqxCq7bhQWT-iOigLMi5KVb7M9eJ/s400/malala.jpg" width="400" /></a><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; font-size: x-small; line-height: 18px; text-align: left;"><b>.سوات میں طالبان کا نشانہ بننے والی لڑکی ملالہ کی مشہور ڈائری کا معمہ حل ہو گیا ہے اور پاکستان کے سرکاری ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ بی بی سی کا ایک مقامی رپورٹر ہی ملالہ کی ڈائری لکھا کرتا تھا اور پھر اسے گل مکئی کے نام سے شائع کردیا جاتا تھا۔ پاکستانی سیکورٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ 2009 میں جب سوات میں پاکستانی حکومت اور فوج نے طالبان سے ایک امن معاہدہ کیا تھا تو اس کی مخال</b></span></div>
</div>
<div class="text_exposed_show" style="background-color: white; color: #333333; display: inline; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 18px; text-align: left;">
<b><span style="font-size: x-small;"><div style="text-align: center;">
فت امریکہ اور یورپ نے کی تھی عین اسی دوران امریکہ نے پاکستان کے شورش زدہ علاقے خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت کئی مقامی ریڈیو </div>
<div style="text-align: center;">
<b style="text-align: left;"><span style="font-size: x-small;"></span></b></div>
<div style="display: inline !important; text-align: center;">
<b style="text-align: left;"><span style="font-size: x-small;">اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور مقامی اخبارات اور میڈیا اداروں کے پروگرام بھی اسپانسر کئے گئےتھے۔ </span></b></div>
<br />
<div style="text-align: center;">
<b style="text-align: left;"><span style="font-size: x-small;"></span></b></div>
<div style="display: inline !important; text-align: center;">
<b style="text-align: left;"><span style="font-size: x-small;"><br /></span></b></div>
<br />
<div style="text-align: center;">
<b style="text-align: left;"><span style="font-size: x-small;"></span></b></div>
<div style="display: inline !important; text-align: center;">
<b style="text-align: left;"><span style="font-size: x-small;">مصدقہ ذرائع کے مطابق 2009 میں اسی دوران بی بی سی کی جانب سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت سوات کی کسی مقامی لڑکی سے ایک ڈائری لکھوانی تھی جس میں وہ طالبان کے خلاف اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں کچھ باتیں نارمل انداز میں کرتی اس پروگرام کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ طالبان لڑکیوں کے اسکول تباہ کررہے ہیں اس لئےان پر پریشر ڈالنے کے لئے ایک طالبہ سے ڈائری لکھوائی جائے گی۔ اس پروگرام کے پروڈیو سر اور ایڈیٹر پاکستان کے شہر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور صحافی تھے جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر لندن جا کر بی بی سی سے منسلک ہوگئے۔ تقریبا بیس برس لسندن میں گزارنے کے بعد وہ اب کراچی سے بی بی سی اردو کے سنیئر ترین عہدے دار کے طور پر کام کررہے ہیں اور خواتین کے حقوق کے لئے نمایاں طور پر آواز اٹھاتے رہتے ہین۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے ادھیڑ عمری میں حال ہی میں اپنے آبائی علاقے سے ایک نو عمر لڑکی سے شادی کی ہے۔۔پشاور پریس کلب کے کئی صحافی اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ ان دنوں بی بی سی کے ایک مقامی رپورٹر، جن کا تعلق پشتونوں کے اسی قبیلے سے ہے جس سے ملالہ کا تعلق ہے، کافی سرگرمی سے کسی ایسی طالبہ کو ڈھونڈ رہے تھے جو ایک بی بی سی کے لئے ایک ڈائری لکھ سکے۔ اسی دوران بی بی سی اس رپورٹر کی ملاقات سوات میں لڑکیوں کا ایک اسکول چلانے والے ضیا اللہ سے ہوئی۔ جب بی بی سی کے مقامی رپورٹر نے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انہوں نے فورا اپنی بیٹی کا نام لیا جو اسی اسکول میں زیر تعلیم تھی اور خاصی ایکٹو بھی تھی۔ واضح رہے کہ ضیا اللہ طالبان کے سخت مخالف اور اے این پی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ طالبان کے خلاف ایک لشکر بھی بنا چکے ہیں۔ اس طرح رفعت اللہ اور ضیا اللہ کے درمیان یہ طے پایا کہ بی بی سی کے رپورٹر ملالہ سے ملاقات کریں گے اور اس سے باتیں کریں گے اور پھر جو کچھ وہ بتائے گی، وہ اسے ڈائری کے طور پر لکھ کر بی بی سی کو بھیج دیں گے۔ اس وقت ملالہ کی عمر بہت ہی کم تھی اور وہ چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھی، اس وقت اسے اردو کے مشکل الفاظ اور جملے لکھنے نہیں آتے تھے۔ اس وقت ملالہ کی عمر صرف 9 سال تھی۔ رپورٹر کی رہائش پشاور میں تھی اس لئے وہ روز سوات نہیں آ سکتے تھے۔ اور سوات کے خراب کی حالات کی وجہ سے بھی ان کا سوات بار بار آنا خطرناک تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ رپورٹر سیکولر خیالات کی وجہ سے پشاور کے صحافتی حلقوں میں ٕمشہور ہیں اور انہیں نشانہ بنانے کے لئے طالبان نے 2010 مین پشاور پریس کلب پر ایک خود کش حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے مگر پریس کلب کا چوکیدار اور ایک پولیس اہلکار مارا گیا تھا۔ اس کے بعد پشاور کے صحافیوں اور طالبان کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کے دوران یہ بات طے پائی تھی کہ بی بی سی کا مذکورہ رپورٹر پریس کلب کو اپنے دفتر کے طور پر استعمال نہیں کرے گا۔ پشاور پریس کلب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹر اس کے بعد کافی عرصہ خاموش رہے۔ جن دنوں بی بی سی کا مذکورہ رپورٹر ملالہ کی ڈائری لکھنے مینگورہ جایا کرتے تھے وہ اس دوران اپنے ساتھ گاڑی مین اپنی آٹھ سالہ بیٹی کو لازمی لے جایا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ان پر کوئی شک نہیں کرے گا اور طالبان بھی اسے نقصان نہیں پہنچائین گے۔ یہ بات بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر نے بی بی سی ورلڈ سے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی بتائی کہ کس طرح وہ ملالہ سے ملنے سوات جایا کرتے تھے اور اس دوران ان کی بیٹی بھی ان کے ہمراہ ہوتی تھی اور کئی مسلسل ملاقاتوں کے باعث ملالہ اور ان کی بیٹی کی گہری دوستی ہوگئی تھی۔ بی بی سی ورلڈ کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ملالہ سے اس کی ڈائری وصول کرنے جایا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا دعوی تھا کہ ملالہ بہت فعال تھی اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ بھی استعمال کرتی تھی مگر وہ بتانا بھول گئے کہ آخر ملالہ ان کو اپنی تحریر ای میل کیوں نہیں کرتی تھی اور وہ جان خطرے مین ڈال کر خود ہی کیوں جایا کرتے تھے۔</span></b></div>
<br />
<div style="text-align: center;">
پشاور پریس کلب کے صحافیوں میں یہ ایک کھلا راز ہے کہ بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر ملالہ سے اپنی گفتگو کو ریکارڈ کر کے لایا کرتے تھے اور پھر اسے اپنے الفاظ میں تحریر کر کے بی بی سی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا کرتے تھے اور اسےگل مکئی کی ڈائری کا نام دیا جاتا تھا۔ بی بی سی کے مذکورہ پشتون رپورٹر ہی ملالہ کے والد ضیا اللہ اورملالہ کو امریکی صحافیوں سے بھی رابطہ کار کے فرائض انجام دیتے تھے۔ملالہ کے والد اس طرح اپنے اسکول کو ایک بڑے ادارے میں تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے اور اس کے لئے فنڈنگ چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح بین الااقوامی طورپر پروجیکشن سے ان کے لئے اپنا کالج اور یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے فنڈنگ لینا آسان ہوگا۔ مگر انہیں بی بی سی اور امریکی میڈیا نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال تو کیا مگر بھاری فنڈنگ دینے کےبجائے چند لاکھ روپے دینے پر ہی اکتفا کیا۔ امریکی صدر کے نمائندہ خاص رچرڈ ہالبروک سے ملاقات میں بھی ملالہ اور اس کے والد فنڈز مانگتے دیکھے جاسکتے ہیں مگر حقیقت میں انہیں کبھی وہ مطلوبہ فنڈ نہیں مل سکے۔ سوات کے مقامی صحافتی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد اس کے خاندان میں بھی اختلافات نمایاں ہوگئے ہیں اور اس کی والدہ جو کہ پہلے ہی بیٹی کو اس طرح باہر نکال کر نمائش کرنے کے حق میں نہیں تھیں، وہ اب کچھ حقائق سب کے سامنے لانے کے لئے بے تاب ہیں جب کہ اس کے والد بھی فنڈنگ نہ ملنے کی وجہ سے دل شکستہ ہیں اور اب بیٹی بھی ان کے ہاتھ سے جاتی دکھائی دےرہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی سے متعلق حکام نے بھی ملالہ کے والد پر نرمی سے واضح کردیا ہے کہ انہیں اور ان کی بیٹی کو مغربی ذرائع ابلاغ نے استعمال کیا اور پھر ٹشو کی طرح پھینک دیا تاکہ طالبان انہیں قتل کردیں اور پھر مغربی میڈیا ان کی لاشوں پر نئی دکان سجا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملالہ کے جب پہلی بار انٹرویو لئے گئے تو وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور اس کی جدوجہد کا مرکز صرف ڈاکٹر بننا ہے۔ پہلے چند انٹرویو کے بعد اچانک اس نے یو ٹرن لیا اور کہنا شروع کردیا کہ وہ اب ڈاکٹر بننا نہیں چاہتی بلکہ سیاستدان بننا چاہتی ہے تاکہ سوسائیٹی کو تبدیل کرسکے۔ اور طالبائنزیشن کو روک سکے۔ اہم قومی ادارے اس بات پر تحقیق کررہے ہین کہ آخر وہ کون تھا جو ملالہ کے منہ میں الفاظ ڈال رہا تھا۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ وہ کون تھا جس نے ملالہ سے اوباما کو آئیڈل قرار دینے کے الفاظ کہلوائے کیونکہ چوتھی جماعت کی بچی کو اوباما کے بارے میں علم ہونا ممکن نہیں ہے۔</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
تازہ ترین رپورٹس یہ ہیں کہ بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر ملالہ پر حملے کے بعد سے روپوش ہین اور ان کے تمام فون نمبر مسلسل بند جا رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ملالہ کے والد کو متنبہ کرنے کے لئے کئی بار اخبار میں بھی اشتہار شائع کرایا تھا مگر وہ کوئی بات سننے پر تیار نہ تھے اور لڑکی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے تھے </div>
</span></b></div>
</div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-20196796079180762682012-09-02T23:55:00.002-07:002012-09-02T23:55:41.681-07:00Good news for sugar patients شوگر کے مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="font-size: large;">Good news for sugar patients , Please try these cheapest home medicine and prevent yourself from Diabetes </span></b></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="font-size: large;">शुगर के मरीजों के लिए खुशी का मौक़ा , सस्ती दवा खुद तैयार करें और शुगर को दूर भगाएं </span></b></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="font-size: large;">شوگر کے مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری</span></b></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiheE6aBE3-1MmkaAp2fkD71wLUAPEURtVFySBafrHFR5ZYmgolfdmOc6go9V-catgN4MR-U4pe1UOLJf2EtLZzOwtx9GxgHJ-je_w_2d7UL4_mKtOaz4HEIrPTecls5GzY9inVJWzO_P0V/s1600/sugar+ke+mareez.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiheE6aBE3-1MmkaAp2fkD71wLUAPEURtVFySBafrHFR5ZYmgolfdmOc6go9V-catgN4MR-U4pe1UOLJf2EtLZzOwtx9GxgHJ-je_w_2d7UL4_mKtOaz4HEIrPTecls5GzY9inVJWzO_P0V/s640/sugar+ke+mareez.jpg" width="488" /></a></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="text-align: left;"><span style="color: #0000ee;"><u>Good news for sugar patients </u></span></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="text-align: left;"><span style="color: #0000ee;"><u>شوگر کے مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری</u></span></span></div>
<br /></div>
Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-90907942439157092282012-07-28T11:15:00.000-07:002012-07-28T11:15:01.585-07:00على البلاد الإسلامية قطع العلاقات الدبلوماسية والتجارية مع ميانمار<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="font-family: arial, sans-serif; text-align: justify;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: large;"><b><span style="background-color: yellow;"><span style="color: red;">على البلاد الإسلامية قطع العلاقات الدبلوماسية والتجارية مع ميانمار</span></span><span style="background-color: white;"> </span></b></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhexvZ1KcxTRmtJdX3hB4v_jsbscEhFCh9QR1gIO2SEUIIforgk2FpEBNTqbOmPG9LlF9HSNBsReRdB-UnDEF-LMTpcdP-Xh-R6ITpT-FoiX3u3HzxWqX2H-mojzaa08LCm5H27FKlX8PqD/s1600/burma+bachche.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhexvZ1KcxTRmtJdX3hB4v_jsbscEhFCh9QR1gIO2SEUIIforgk2FpEBNTqbOmPG9LlF9HSNBsReRdB-UnDEF-LMTpcdP-Xh-R6ITpT-FoiX3u3HzxWqX2H-mojzaa08LCm5H27FKlX8PqD/s320/burma+bachche.jpg" width="320" /></a></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"><b> أدان فضيلة الشيخ عبد الحميد، المجازر المستمرة في ميانمار بحق المسلمين الأبرياء العزل، مطالبا البلاد الإسلامية بقطع كافة العلاقات السياسية والتجارية مع ميانمار.</b></span></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"><b>وقال فضيلته: الأنباء التي تصلنا من ميانمار محزنة. مع الأسف الشديد يقتل المسلمون هناك، ومجازر القتل بشأنهم مستمرة، وهم في ظلم وضغوط من جانب البوذيين المتطرفين وكذلك من قبل حكومتهم.</b></span></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"><b>وتابع فضيلته قائلا: الأقليات الدينية أو القومية في أنحاء العالم كثيرا ما يشتكون من مشكلات ويتعرضون للضغوط والتضييقات من قبل الأكثرية، وإن كانت الأقليات في بعض البلاد النامية تتمتع بكافة الحقوق المدنية والسياسية بحيث تشارك الأكثرية السياسة، ففي الهند مثلا يتولى رئاسة الوزراء شخص من أقلية السيخ، والسيخ في الهند أقلية بالنسبة إلى الأكثرية الهندية.</b></span></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"><b>وأضاف فضيلته: لكن لم تعان أقلية ما عاناه المسلمون في ميانمار من الضغط منذ عقود، حيث يكرهون على الهجرة وترك وطنهم أو العيش في مخيمات اللاجئين.</b></span></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;"><span style="font-size: large;"><b>وتابع فضيلة الشيخ عبد الحميد: نحن ندين هذه الجريمة بشدة، ونطالب المنظمات الدولية والحقوقية والبلاد الإسلامية أن تتحرك فورا لوقف دماء المسلمين، بتهديد إغلاق سفارات هذه الدولة وسحب سفرائها من هذه الدولة وإيقاف التجارة معها حتى تتحسن أوضاع المسلمين فيها وتتحرك الدولة بشكل جاد لمراعاة الحقوق الإنسانية للمسلمين؛ فمن لا يراعي حقوق الإنسان فهو ليس بإنسان. وإن من واجبات الحكومة أن تسعى لحفظ حقوق مواطنيها ولا تترك مواطنيها ضحايا يتعرضون للقتل والتهجير من قبل طائفة خاصة.</b></span></span></div>
<br />
<div style="font-family: arial, sans-serif; text-align: center;">
<br /></div>
</div>Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-17926254658078750352012-07-27T22:22:00.000-07:002012-07-27T22:22:11.486-07:00هيئة علماء أهل السنة في زاهدان تدين المجازر ضد مسلمي ميانمار<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjjCslnWDttrcQMj65l0KldXuHUoJ5jzpQ7FcFR-tcJdRlseJgJ3GVenSQ3ioBMIHiXKhXpX5x6Q-bTD-A1Ct25VBQQXRGe5OrsTZFXdKUFmQogrMdxeT7BonSElLUIUEgYbZzTS21eLvFl/s1600/580832_403780913012127_2141432801_n.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="211" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjjCslnWDttrcQMj65l0KldXuHUoJ5jzpQ7FcFR-tcJdRlseJgJ3GVenSQ3ioBMIHiXKhXpX5x6Q-bTD-A1Ct25VBQQXRGe5OrsTZFXdKUFmQogrMdxeT7BonSElLUIUEgYbZzTS21eLvFl/s320/580832_403780913012127_2141432801_n.jpg" width="320" /></a></div>
<div style="font-family: arial, sans-serif; text-align: center;">
<b><span style="font-size: large;">أدانت هئية علماء أهل السنة في مدينة زاهدان في بيان، المجازر البشعة الواسعة التي ترتكب بحق المسلمين الأبرياء، والتي يقتل فيها المسلمون بطريقة همجية ويحرقون في ميانمار، مطالبة المنظمات الحقوقية العالمية أن تتحرك فورا لإيقاف هذه المجازر ومعاقبة مرتكبيها.</span></b></div>
<div style="text-align: justify;">
</div>
<div style="font-family: arial, sans-serif; text-align: center;">
<span style="background-color: white;"><b><span style="font-size: large;">ونص البيان كما يلي:</span></b></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-family: arial, sans-serif;"><b><span style="font-size: large;"><br /></span></b></span></div>
<b><span style="font-size: large;"><span style="font-family: arial, sans-serif;"><div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;">بسم الله الرحمن الرحيم</span></div>
</span><span style="font-family: arial, sans-serif;"><div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;">"بنو آدم بعضهم أعضاء بعض و هم فی الخلقة سواء</span></div>
</span><span style="font-family: arial, sans-serif;"><div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;">فإذا تألم عضو تألمت جمیع الأعضاء". ( سعدي الشيرازي)</span></div>
</span><span style="font-family: arial, sans-serif;"><div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;">مرة أخرى نشهد جريمة كبيرة وبشعة ضد أبناء الأمة المسلمة. هذه المرة في ميانمار ( بورما) قام الجهلة المتطرفون المجرمون بقتل المسلمين الأبرياء وإحراقهم في عقر دارهم.</span></div>
</span><span style="font-family: arial, sans-serif;"><div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;">نحن إذ ندين هذا الظلم وهذه الجرائم الهمجية، نطالب المنظمات الدولية والحقوقية والبلاد الإسلامية أن تتحرك فورا للدفاع عن هؤلاء الأبرياء والمنع عن المزيد من الجرائم ضدهم.</span></div>
</span><span style="font-family: arial, sans-serif;"><div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white;">والسلام عليكم ورحمة الله</span></div>
</span></span></b><br />
<div style="font-family: arial, sans-serif; text-align: center;">
<strong><span style="font-size: large;">هيئة علماء السنّة في مدينة زاهدان - إيران</span></strong></div>
</div>Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-80691617398868128932012-07-25T01:00:00.001-07:002012-07-25T01:00:24.118-07:00Choose Islam: 50 thousand Muslims killed in Burma (Mayanmar) by ...<a href="http://anadvi.blogspot.com/2012/07/50-thousand-muslims-killed-in-burma.html?spref=bl">Choose Islam: 50 thousand Muslims killed in Burma (Mayanmar) by ...</a>: 50 thousand Muslims brutally killed in Burma (Mayanmar) by Buddhist terrorists, the world is quiet, Muslims are killled by Others and...Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-51745968884313025762012-07-06T02:40:00.001-07:002012-07-06T02:40:16.826-07:00برمی مسلمانوں کی نسل کشی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<h2 class="title icon" style="background-color: #fafafa; border-bottom-color: rgb(200, 200, 200); border-bottom-style: solid; border-bottom-width: 1px; color: #333333; font-family: Tahoma, Calibri, Verdana, Geneva, sans-serif; font-size: 13px; margin: 0px 0px 5px; padding: 10px 10px 5px 0px; text-align: left;">
برمی مسلمانوں کی نسل کشی ، احتجاج</h2>
<div class="content" style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: 13px; margin: 0px; padding: 0px; text-align: left;">
<div id="post_message_906404" style="margin: 0px; padding: 0px;">
<blockquote class="postcontent restore " style="margin: 0px; overflow: hidden; padding: 0px; word-wrap: break-word;">
<div style="margin: 0px; padding: 0px; text-align: center;">
<br /></div>
<br /><div style="margin: 0px; padding: 0px; text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br />لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کی اپیل پر ملک بھر میں برمی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا گیا۔ کراچی ،کوئٹہ ، پشاو ر، اسلام آباد اور لاہور سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں برما کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے جلوس نکالے گئے اور خطبات جمعہ میں مسلمانوں کے قتل عام پر برما کی حکومت کے خلاف تقاریر کی گئیں ۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے جامع مسجدمنصورہ میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ او آئی سی کا کہیں وجود اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ا ندر کوئی دینی غیر ت و حمیت موجود ہے تو برما میں مسلمانوں کے خلاف جاری آگ و خون کے کھیل کو بند کرانے کے لیے آواز بلند کی جائے ۔ جہاں گزشتہ چند ہفتوں میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیاگیاہے اور لاکھوں اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ بنگلہ دیش نے ان لٹے پٹے اور زخمی مسلمانوں کا داخلہ روکنے کے لیے اپنے بارڈر بند کردیے ہیں ۔ بنگلہ دیشی وزیر ہجرت پر مجبور ان مسلمانوں پر بے سروپا الزامات لگارہا ہے ۔ سید منور حسن نے کہاکہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف میں دیکھ کر دوسرے مسلمان کی آنکھیں نہیں چھلکتیں اور زبان اس کی تکلیف کا اظہار نہیں کرتی تو ایسی آنکھوں اور زبان کی حالت اور بے حسی پر ماتم کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ دنیا برما میں ہونے والے قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔ اگر مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسری قوم کے خلاف اس طرح کے مظالم سامنے آتے تو اب تک دنیا میں طوفان برپا ہو جاتا اور اقوام متحدہ و امریکا سمیت مغرب آسمان سر پر اٹھالیتا۔ برما کے مسلمانوں پر قیامت صغریٰ بیت چکی ہے ، لیکن اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا۔سید منورحسن نے کہاکہ ناٹو سپلائی کی بندش نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بند گلی کا اسیر بنادیاہے اور وہ کسی بھی قیمت پر جلد از جلد سپلائی بحال کراناچاہتے ہیں لیکن ناٹو سپلائی کی بحالی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے ، دشمن کو اسلحہ فراہم کرنے اور اپنی گردن دشمن کے ہاتھ دینے والی بات ہو گی ۔ پاکستان کے خلاف تحکمانہ امریکی رویہ اس کے خلاف پائی جانے والی نفرت میں اضافہ کر ے گا۔ ڈرون حملوں میں مرنے والے بچوں اور خواتین ، بوڑھوں کو دہشتگرد قراردینے والوں کی عقل پر ماتم کرناچاہیے۔نائن الیون کے بعد امریکی سرپرستی میں مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کیخلاف بڑی کشمکش مول لی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام مغربی تہذیب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسی لیے وہ جگہ جگہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہاہے۔سید منورحسن نے کہاکہ امریکی کانگریس میں ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن پاکستان کے خلاف متحد ہو چکے ہیں او ر وہ ایسی قانون سازی کر رہے ہیں جس کے ذریعے حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ سے ہمدردی رکھنے والوں کیخلاف بھی قانونی کارروائی کر سکیں گے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف مذموم کارروائیوں کے لیے یہ حربے استعمال کرناچاہتے ہیں اورپاکستان کو دبائو میں لاناچاہتے ہیں جبکہ حقانی نیٹ ورک افغانستان کے اندر مسلسل کارروائیاں کر رہاہے جنہیں ناٹو فورسز روکنے میں ناکام رہی ہیں ۔ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر وہ د راصل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے دبائو ڈالناچاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس وقت حکومت نے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تو ملکی سلامتی اور خود مختاری خواب بن کر رہ جائے گی مگر امریکی قرضوں پر پلنے والے غلاموں سے کسی جرأت مندانہ فیصلے کی امید نہیں ۔ سید منورحسن نے کہاکہ حکمران عوام سے زندہ رہنے کا حق چھین لینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ شدید گرمی میں بدترین لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ غربت، بے روزگاری ، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی میں زہر گھول دیاہے ۔ روزانہ خودکشیوں کی خبریں آ رہی ہیں لیکن شرم و حیا سے عاری حکمران کہتے ہیں کہ 18 کروڑ کی آبادی میں خود کشی کے 2چار واقعات تو معمول کی بات ہے ۔ سید منورحسن نے کہاکہ اصل خبر یہ ہے کہ ان بدترین حالات کے باوجود لوگ زندہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے این آر او زدہ اور ایڈپر پلنے والے امریکی غلاموں سے نجات حاصل کرنا ہوگی ۔ غلامی پر فخر کرنے والوں کی موجودگی میں ملکی حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں نہ قومی سلامتی و خود مختاری کی ضمانت دی جاسکتی ہے ۔علاوہ ازیں برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف ملک گیر یوم احتجاج کے سلسلے میں مزار قائد سے نکالی جانے والی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے امیرمحمد حسین محنتی نے کہا ہے کہ برما میں مسلمانوںکی نسل کشی کر کے ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے‘ اور اقوام متحدہ ‘ اوآئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔ برما کے مسلمانوں سے ہمارا ایمان کا رشتہ ہے‘ اگر ضرورت پڑی تو ہم اسلام آبادجاکر بھی احتجاج کریں گے۔ ریلی کے شرکا نے الآمنہ پلازہ تک پیدل مارچ کیا ۔ ریلی میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی ۔ شرکا نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر برما کے مسلمانو ںکی نسل کشی اور مظالم کی مذمت اور عالمی برادری سے اس کو رکوانے کے مطالبات درج تھے۔ اس موقع پر ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ برما کے مسلمانوں کا قتل عام بندکیا جائے‘ اذان و باجماعت نماز پرپابندی ختم کی جائے‘ مسلم بستیوں کامحاصرہ ختم کیا جائے اورمسلم نوجوانوں‘ علمااور دانشوروں کے اغواکا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے۔ ریلی سے جماعت اسلامی کراچی کے جنرل سیکرٹری نسیم صدیقی‘ جمعیت اتحاد العلما کے مولانا قاری ضمیر اختر منصوری اورجماعت اسلامی منارٹی ونگ کے رہنما یونس سوہن خان ایڈووکیٹ کے علاوہ مولانا ظفر احمد آزاد‘ مولانا ذبیح اللہ قریشی‘مولانا مامون الرشید‘ قاری احمد حسین ‘مولانامحمد طاہراراکانی‘مولانا علی حسین اوردیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ڈاکٹر عبدالواسع شاکر‘ضلعی امرا راجا عارف سلطان‘ محمد اسحق خان اور دیگر بھی موجود تھے۔محمد حسین محنتی نے کہا کہ ہمارے اوپر امریکا کے غلام حکمران مسلط ہیں ‘ اس لیے مسلمان مظلومیت کا شکار ہیں ‘ برما کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے مگر مسلم حکمرانوں ‘ اقوام متحدہ ‘ او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تماشا دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں نہیں‘ ہم برما کے مسلمانوں پر مظالم اور ان کی نسل کشی کو برداشت نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ آج برما میں مساجد ‘ مدارس اورمسلمانوں کی بستیاں مسمار کی جارہی ہیں‘ ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے ۔ مسلمانوں نے برما کی اپوزیشن لیڈر سانگ سوچی کا ساتھ دیا اور انہیں نوبل انعام بھی ملا مگر وہ بھی مظالم پر لب کشائی کیلیے تیار نہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ جب برما کے مظلوم مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی تو انہیں وہاں بھی پناہ نہ دی گئی ‘ یہ قابل مذمت فعل ہے ۔ برما میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں‘ مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا ہے ۔ دنیا میں اتنا ظلم کہیں نہیں ہوا ہوگا جتنا آج برما میں ہورہا ہے۔ برما میں ہونے والے مظالم رکوانے کیلیے ہم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری‘ برما حکومت اور حکومت پاکستان کو خطوط لکھے ہیں‘ اگر ضرورت پڑی تو اسلام آباد جاکر بھی احتجاج کریں گے ۔نسیم صدیقی نے کہاکہ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اقوام متحدہ اور او آئی سی خاموش ہے ۔ جانوروں کے حقوق کیلیے آواز بلند کرنے والے برما کے مسلمانوںکے قتل عام پرآواز بلند کیوںنہیں کرتے؟قاری ضمیر اختر منصوری نے کہاکہ ہمیں متحد ہوکر کفر کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمارا رشتہ ایمان کا رشتہ ہے۔مولانا ظفر احمد آزاد نے کہاکہ برما کے مسلمان بدترین مظلومیت کا شکار ہیں‘ اس سے قبل بھی برمی حکمرانوں نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے آج بھی بنگلہ دیش میں 5 لاکھ برمی مسلمان غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں۔سانگ سوچی کی حمایت کی وجہ سے اب تک 20 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے ۔ ڈھائی ہزار نوجوانوں کو غائب کردیا گیا ‘ 700 مسلمانوں کو ہاتھ پیر باندھ کر دریا میں بہا دیا گیا ،اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان محمد بن قاسم کا کردار ادا کریں۔مولانا ذبیح اللہ قریشی نے کہاکہ اگر ہم نے برما کے مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا تو روز قیامت ہمیں اس کا حساب دینا ہوگا ۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک اس ظلم پر خاموش کیوں ہیں؟۔ اسلامی ممالک برما کے سفارت خانے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔مولانا مامون الرشید نے کہاکہ برما کے مسلمانوں سے ہمارا ایمان کا رشتہ ہے۔یونس سوہن خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دنیا میں اقلیتوں پر جہاں بھی ظلم ہوا جماعت اسلامی نے اس پر آواز بلندکی ہے ‘ پوپ پال بھی برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں۔قاری احمد حسین نے کہاکہ برما کے صوبے اراکان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، یہاں 3 سو سال تک اسلامی ریاست تھی، مگر اب مسلمانوں کو یہاں اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ برما کی حکومت مسلمانوں کا قتل فی الفور بند کرے۔ مسلم نوجوانوں ‘ علما اور دانشوروں کی گرفتاری کاسلسلہ بند کرے ‘اذان اورنماز پرپابندی ختم کرے۔مولانا طاہراراکانی نے کہاکہ کفر ایک ہے ،اگر ہم بھی متحد ہوتے تو کسی میں یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ مسلمانوں پر مظالم ڈھاتا۔ مولانا علی حسین نے کہاکہ برما کے بدہسٹ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اورکوئی پوچھنے والا نہیں ۔ برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرناہمارا فرض ہے ۔علاوہ ازیں حید رآباد، سکھر،لاڑکانہ گھوٹکی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی برمی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔</span><br /><span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="margin: 0px; padding: 0px; text-align: center;">
<span style="font-size: large;"><span style="font-size: small;"><a class="vglnk" href="http://www.jasarat.com/epaper/" rel="nofollow" style="color: #2b8d28; text-decoration: none;" title="Link added by VigLink">http://www.jasarat.com/epaper/</a></span></span></div>
</blockquote>
</div>
</div>
</div>Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3444378344526679643.post-18076021200694180502012-06-16T20:39:00.000-07:002012-06-16T20:39:00.019-07:00وفاة الأمير نايف بن عبدالعزيز آل سعود ولي العهد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
</div>
<div class="aboveUnitContent" style="margin-bottom: 15px; margin-top: 15px; text-align: left;">
<div class="tlTxFe">
<div style="text-align: right;">
<span style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; font-size: 13px; line-height: 18px;"><b><br /></b></span></div>
<div class="text_exposed_root text_exposed" id="id_4fdd5067a08e72702081063" style="color: #333333; display: inline; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; font-size: 13px; line-height: 18px;">
<b><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiGaBLB69y3AQzUAnnstos_5bKhQhNbaK9TQv-Sc9kqZWqz_VRIMwpHY10NvRbrBzHG06OvNkFKhS00SaI7cWLRC-QvYTz3_kC3NrkjXueL17sJ5HgvU-3nlfvRrO9Oyv8XRv-Z52sZvxi-/s1600/naif.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiGaBLB69y3AQzUAnnstos_5bKhQhNbaK9TQv-Sc9kqZWqz_VRIMwpHY10NvRbrBzHG06OvNkFKhS00SaI7cWLRC-QvYTz3_kC3NrkjXueL17sJ5HgvU-3nlfvRrO9Oyv8XRv-Z52sZvxi-/s1600/naif.jpg" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
ببالغ الأسى والحزن ينعي خادم الحرمين الشريفين الملك عبدالله بن عبدالعزيز آل سعود أخاه صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبدالعزيز آل سعود ولي العهد نائب رئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الذي انتقل إلى رحمة الله تعالى هذا اليوم 26/7/1433هـ خار<span class="text_exposed_show" style="display: inline;">ج المملكة، وسيصلى عليه بعد صلاة المغرب من يوم الأحد الموافق 27/7/1433هـ، في المسجد الحرام بمكة المكرمة.سائلين المولى عز وجل أن يتغمده بواسع رحمته ومغفرته وأن يسكنه فسيح جناته. وأن يجزيه خير الجزاء لما قدمه لدينه ووطنه. (إنا لله وإنا إليه راجعون).</span></div>
<span class="text_exposed_show" style="display: inline;"></span></b></div>
</div>
</div>
<div class="photoUnit clearfix" style="color: #333333; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; font-size: 11px; line-height: 14px; margin: 0px -15px; overflow: hidden; position: relative; text-align: left; zoom: 1;">
<a ajaxify="http://www.facebook.com/photo.php?fbid=466809373346641&set=a.145645672129681.26545.100000527465435&type=1&src=http%3A%2F%2Fa5.sphotos.ak.fbcdn.net%2Fhphotos-ak-ash4%2F229808_466809373346641_866545916_n.jpg&size=300%2C250&theater" class="uiScaledThumb photo photoWidth1" data-cropped="1" href="http://www.facebook.com/photo.php?fbid=466809373346641&set=a.145645672129681.26545.100000527465435&type=1" rel="theater" style="color: #3b5998; cursor: pointer; float: left; overflow: hidden; text-align: right; text-decoration: none;"><br class="Apple-interchange-newline" /></a></div>
</div>Abdus Saboor Nadvihttp://www.blogger.com/profile/08429687092709914333noreply@blogger.com0