یہ اس وقت کی بات ہے جب قوم کا ایک
بچہ تھا جو نیا نیا مسجد جانا شروع کیا تھا
وہ اکثر جمعہ کے خطبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا
بھت ساری باتیں اس کے سر سے باؤنس ہوجاتی تھیں
لیکن وہ اپنی مسجد کے خطیب کے رو رو کر گڑ گڑا کر دعا مانگنئ کو کبھی نا بھول سکا اسے یاد ہے کہ وہ جمعہ کے دن خطیب کی دعا سنتا تھا جو کہتا تھا کہ " اے اللہ تو ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مدد فرما"
پھر وہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین و شیشان کے بھائیوں کی مدد فرما
تھوڑا اور بڑا ہوا تو اس نے نے سنا کہ خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین شیشان اور افغانی بھائیوں ک مدد فرما
عمر نے ذرا اور کروٹ لی تو اس نے سنا کہ خطیب نے کچھ الفاظ اور بڑھالئے اور کہا :- اللھم انصر المسلمین فی فلسطین و شیشان و افغانستان و عراق--------------------- -
شعور نے ذرا اور ترقی کی تو سنا کہ خطیب کہ رہا تھا :- اے اللہ تو فلسطین شیشان افغانستان عراق اور شام کے رہنے والے مسلم مظلوم بھائیوں کی مدد فرما
اس کے بعد اس نے دیکھا کہ خطیب اپنی دعا میں مظلوم مسلمان ممالک کے نام بڑھانے کا عادی ہوگیا ہے اور امت مسلمہ سننے کی عادی ہوگئی ---
ایک دن وہ بچہ جو اب جوان ہوگیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا یہ بزرگ خطیب ہے اس نے اب تک ہمت نہیں ہاری ہے
خطیب نے لاسٹ ٹائم کہا تھا :اے اللہ تو فلسطین شیشان و افغانستان و عراق و کشمیر و بورما کے مسلمان بھائیوں کی
مدد فرما-------------
اس نے یاد کیا کہ قوم صرف بے دلی اور بد دلی سے آمین کہکر یہ سمجھتی ہے کہ ہماری زمہ داریاں ختم
لیکن میں نے بھی تو سالوں میں سننے اور سمجھنے کے سوا کیا کیا ---کسے راہ دکھلاؤں اور کیسے--
کہتے ہیں کہ ہمارا یہ ہار نا ماننے والا خطیب ملت بھی اپنی قوم کی سست روی اور مقصد حیات و دین سے لا تعلقی دیکھ کر ٹھنڈا سا ہوگیا ہے
اور کئی احباب کے کہنے پر وہ اب رسما و بادل نا خواستہ سہی جمعہ کے خطبے میں پورے شارٹ طریقے سے شارٹ کٹ ڈھونڈنے والی قوم کے ساتھ کھہ دیتا ہے :- اللھم انصر المسلمین فی کل مکان ------
میں سمجھتا ہوں کہ خطیب آج بھی تھک نہیں اسے قوم کی بے راہ روی نے تھکا دیا ہے آپ کو کیا لگتا ہے -----
امید کہ یہ کہانی آپ کو پسند آئی ہوگی مجھے ناول و افسانے لکھنے نہیں آتے کیوں کہ میری اسکرپٹ ہمیشہ کمزور ہوتی ہے.
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں
کتبہ :- اے آر سالم فریادی
No comments:
Post a Comment