Friday, 30 January 2009

ترک وزیراعظم کا والہانہ استقبال-شاباش أردوغان


غزہ پر حالیہ فوج کشی کے معاملے پراسرائیل کے صدر شمعون پیریز سے تکرار کے بعد ترک وزیراعظم رجب طیب اردوغان ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے انتہائی غصے میں اٹھ کر چلے گئے۔
واپس ترکی پہنچنے پر دارالحکومت استنبول میں طیب اردوغان کا والہانہ استقبال کیا گیا ہے۔ جمعہ کی صبح استنبول کے ہوائی اڈے پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی آمد کا منتظر تھے۔
استنبول پہنچنے پر ترکی اور فلسطینی کے پرچم لیے ہوئے ہزاروں لوگوں ننے ترک وزیراعظم کا استقبال کیا۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے پر موجود ہجوم نے وزیراعظم کے حق میں ’ترکی آپ کے ساتھ ہے‘ اور ’دنیا کے نئے رہنما‘ جیسے نعرے لگائے۔
استنبول میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ غزہ میں حالیہ کارروائی پر ترکی میں اسرائیل کے خلاف کافی غصہ پایا جاتا ہے۔ استنبول کے ہجوم میں موجود ایک شخص مصطفیٰ شاہین نے کہا طیب اردوغان کا استقبال کرتے ہوئے کہا: ’آج مجھے فخر ہے۔ میں بہت ہی خوش ہوں۔‘
استنبول واپسی پر لوگوں نے وزیراعظم کا خیرمقدم کیا عالمی اقتصادی فورم کے دوران رجب طیب اردوغان نے تقریباّ چیختے ہوئے اسرائیلی صدر سے کہا کہ غزہ میں بہت انسانوں کا خون بہایا گیا ہے اور انہیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ لوگ اسرائیل کی جانب سے اس فوج کشی کے جواز پر تالیاں بھی بجا سکتے ہیں۔
اردوغان نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ آپ شاید اپنا احساس جرم مٹانے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور وہ بھی بلند آواز میں۔ مگر آپ نے لوگوں کو ہلاک کیا اور میں ان بچوں کو یاد کر رہا ہوں جنہیں ساحل کے قریب مار دیا گیا۔‘
شمعون پیریز نے کہا کہ غزہ کے سانحے کی وجہ اسرائیل نہیں، حماس ہے جس نے وہاں خطرناک ڈکٹیٹر شپ قائم کرلی ہے۔
ڈیوس عالمی اقتصادی فورم میں اس سے پہلے کبھی ایسا منظر دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
تاہم بعد میں اردوغان نے کہا کہ وہ اسرائیلی صدر کا احترام کرتے ہیں اور ان کی عمر کا بھی جس کی وجہ سے وہ ان پر چیخے نہیں مگر وہ جو کچھ کہہ رہے تھے وہ سچ سے کوسوں دور تھا۔
ترکی ان گنے چنے مسلمان ملکوں میں سے ہے جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں لیکن گزشتہ چند سال سے ان میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

حكومت هند متوجه هو




Thursday, 29 January 2009

دلی میں مسلمانوں کا احتجاج


ہندوستان میں مسلمانوں کی مختلف تنظیموں اور علماء کونسل نے دلی کے جامعہ نگر علاقے میں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں
کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ جامعہ نگر، بٹلہ ہاؤس کے پولیس مقابلے کی عدالتی تحقیق کرائی جائے اور پولیس و تفتیشی ایجنسیاں دہشت گردی کے نام پر پوری مسلمان اقلیت کو نشانہ بنانا بند کریں۔
دلی میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی ریلی کا اہتمام علماء کونسل نے کیا تھا جس کی قیادت میں اعظم گڑھ سے تقریباً تین ہزار افراد ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے جمعرات کی علی الصبح دلی پہنچے۔
علماء کونسل کے صدر محمد عامر راشدی نے بی بی سی کو بتایا کہ اعظم گڑھ کے لوگ کافی دنوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ بٹلہ ہاؤس پولیس مقابلے کی جوڈیشیل انکوائری کرائی جائے اور’ جب حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ہم اپنی فریاد لے کر اس کے پاس آئے ہیں لیکن یہ اندھی، بہری، لولی لنگڑی سرکار نا تو سننے کو تیار ہے اور نا ہی اعظم گڑھ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘
عامر راشدی کا کہنا تھا ’ہمارا کہنا ہے کہ بٹلہ ہاؤس کا انکاؤنٹر جعلی ہے اور معصوم بچوں کی زندگی کے ساتھ کھیلا گیا ہے اگر سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے اس کی تفتیش نہیں کروائی گئی تو اس حکومت کو گرا دینا چاہیے تاکہ دوسری حکومت آئے اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرے۔‘

جب حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ہم اپنی فریاد لے کر اس کے پاس آئے ہیں لیکن یہ اندھی، بہری لولی لنگڑی سرکار نا تو سننے کو تیار ہے اور نا ہی اعظم گڑھ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکتی ہے۔

گزشتہ ستمبر میں دلی کے جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس میں پولیس نے مبینہ طور پر دو شدت پسندوں کو ایک مڈبھیڑ میں مارنے کا دعوی کیا تھا۔ ہلاک ہونے والے ایک نوجوان عاطف امین کے والد محمد امین بھی اس ریلی میں شرکت کے لیے اسی ٹرین سے دلی پہنچے تھے۔ بیٹے کی موت کے صدمے سے وہ آج بھی نہیں نکل سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اتنا پریشان ہوں کہ کیا بتاؤں بس میں بات نہیں کرسکتا، مجھے اب اور پریشان مت کرو۔‘
انکاؤنٹر میں گرفتار کیئے جانے والے ایک نوجوان محمد سیف، کے والد شاداب احمد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے حراست کے دوران کئی بار ملے ہیں اور وہ پوری طرح سے بے قصور ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں شروع سے یہی کہتا آیا ہوں کہ یہ بچے بے قصور ہیں اور انہیں رہا کردینا چاہیے تاہم مجھے میرے بیٹے نے کیا بتایا وہ ابھی کیا بتائیں لیکن بتایا وہ بھی جائےگا۔‘
دلی میں یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا احتجاجی مظاہرہ تھا جس کے لیے اعظم گڑھ سے آمد و رفت کے لیے ایک پوری ٹرین بک کی گئی تھی اور اس کے لیے گاؤں گاؤں چندہ کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ انہیں انصاف چاہیے اور دہشتگردی کے نام پر اعظم گڑھ کو بدنام نا کرو۔
دلی کے بھی بعض مسلم مذہبی راہنماؤں اور تنظیموں نے اس ریلی میں شرکت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں شدت پسندی کے نام پر مسلمانوں کو جو نشانہ بنایا جارہا ہے اسے بند کیا جانا چاہیے۔

some muslim embassies in New Delhi

muslim embassies in New Delhi
Egypt Embassy
Dr. Mohamed Hegazi, Ambassador of Egypt to India Egypt Consulate General , India
Egypt Embassy, New Delhi, India1-50 M, Niti Marg, Chanakyapuri New Delhi 110021, India
Phone: +91-11-6114096, +91-11-6114097Fax: +91-11-6885355
Email:
India_emb@mfa.gov.eg
Website URL: http://www.mfa.gov.eg/missions/india/delhi/embassy/en-gb
Egypt Embassy, Mumbai
Flat No.101 Benhur Apartments,32 Narayan Dabholkar Road
Mumbai 400006, India
Phone: +91-22-23676422 , +91-22-23676407 Fax: +91-22-23634558Syrian Embassy:

Mr. Fahd Salim (Syrian Ambassador in India)
Syrian Embassy in New Delhi, India Embassy of the Syrian Arab Republic 28 Vasant MargNew Delhi 110057IndiaPhone: (+91-11) 6870233, 6870285Fax: (+91-11) 6143107

Iranian Embassy:
Siyavash Zargar-Yaqubi (Iranian Ambassador In India)
The Embassy of the Islamic Republic of Iran
5, Barakhamba Road, New Delhi – 110001Tel: +91-11-23329600/ 01/ 02Fax: +91-11-23325493
Website:
http://iran-embassy.org.in
Email: info@iran-embassy.org.in
Hyderabad: Iran Consulate General - Hyderabad8-2-502/1, Imam Khomeini Road, Banjara Hills, Hyderabad – 500034Tel: +91-40-23350728/ 23352722/ 23354354Fax: +91-40-23355061Website: http://www.iranconsulatehyd.org

JordanEmbassy of the Hashemite Kingdom of JordanAmbassador Mr. Mohammad Ali Daher 30, Golf Links,New Delhi - 110 003India. Tel: +91-11-24653318 / 24653099
Fax: +91-11-24653353Email:
jordan@jordanembassyindia.orghttp://www.jordanembassyindia.org/
Royal Embassy of Saudi Arabia
Ambassador Saleh Mohd. Al-Ghamdi
2Pashchimi Marg, Vasant Vihar, New Delhi-110057.
Tel: 26144073/26144083/26144093/26144102/26144127/51663225
http://www.saudiembassy.in/

We hate you Israel

We hate you Israel
· Where is Muslim media? Are all they busy to know what Bollywood & Hollywood
doing?
· Where are so called Leaders of Muslim Countries?
· Are all of them are son of bitch that they can't stop Israel basterd?
· Shame on Leaders of Muslim countries…

This is now request to all Muslim Ommah (other than Kuttay Leaders) to condemn this act of
wildness and terrorism by Israel

Please circulate this message to all over the world that
We hate you Israel
And we are with our Muslim Palestine

Saturday, 24 January 2009

سازش




المقاطعة الاقتصادية ضد أعداء الاسلام


قاطعوهم قطعهم الله
قول العلامة (عبدالرحمن السعدي) رحمه الله في حثه المسلمين لاستخدام سلاح المقاطعة الاقتصادية ضد أعداء الاسلام، يقول: (ومن أعظم الجهاد وأنفعه السعي في تسهيل اقتصاديات المسلمين والتوسعة عليهم في غذائياتهم الضرورية والكمالية، وتوسيع مكاسبهم وتجاراتهم وأعمالهم وعمالهم، كما أن من أنفع الجهاد وأعظمه مقاطعة الأعداء في الصادرات والواردات، فلا يسمح لوارداتهم وتجاراتهم، ولا تفتح لها اسواق المسلمين، ولا يمكنون من جلبها إلى بلاد المسلمين، بل يستغني المسلمون بما عندهم من منتوج بلادهم، ويستوردون ما يحتاجونه من البلاد المسالمة. كذلك لا تصدر لهم منتوجات بلاد المسلمين ولا بضائعهم، وخصوصا ما فيه تقوية للاعداء «كالبترول» فإنه يتعين منع تصديره إليهم... وكيف يصدر لهم من بلاد المسلمين ما به يستعينون على قتالهم؟! فإن تصديره إلى المعتدين ضرر كبير، ومنعه من أكبر الجهاد ونفعه عظيم)ان المسلم مطالب بالبحث عن البديل غير الامريكي في كل احتياجاته، وفعله هذا نوع من الجهاد والتضحية في سبيل الله، ونفعه عظيم على الفرد نفسه وعلى المجتمع الاسلامي بشكل عام، لكن الحكومات العربية والاسلامية مطالبة بخطوات اكبر في فك ارتباطها بالدولة المحاربة للاسلام والمسلمين، والبرلمان الامريكي يعلن تأييده المطلق لاسرائيل في حربها ضد الاطفال والأبرياء، وامريكا ترسل الذخائر والاسلحة الفتاكة ليستخدمها الصهاينة ضد العزل والابرياء، ثم بعد هذا نجد مئات المليارات من أموال المسلمين توضع في البنوك الامريكية لتدعم اقتصادها!!

Monday, 19 January 2009

غزہ میں جنگ، کب کیا ہوا


ستائیس دسمبر اسرائیل نے غزہ ہر بھر پور ہوائی حملے شروع کر دیے۔ حملے کا جواز دیتے ہوئے اسرائیل نے کہا کہ اس کا مقصد حماس کی جانب سے راکٹوں کے حملے روکنے کے لیے حماس کے سیکورٹی کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ پہلے ہی دن پولیس کے تربیتی کمپاؤنڈ پر میزائیل حملوں سے ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس والے ہلاک ہوئے۔
اٹھائیس دسمبر حملے جاری۔ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو سو اسّی زخمیوں کی تعداد سات سو کے لگ بھگ۔ حملوں میں مارے جانے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔
انتیس دسمبرحملوں میں تین سو سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت پر دنیا بھر سے فوری رد عمل اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔
تیسں دسمبر اسرائیلی فضائیہ نے حماس تنظیم کی وزارات دفاع کو نشانہ بنایا۔ اور ہوائی بمباری کے ساتھ ساتھ حماس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر زمینی کارروائی شروع کرنے پرغور کرنا شروع کیا۔
اکتیس دسمبر غزہ پر حملوں کے خلاف قاہرہ میں عربوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ تاہم کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔
یکم جنوری حماس کے ایک سینئیر رہنما نذر ریان اسرائیل کے ایک ہوائی حملے کا نشانہ بن گئے۔ وہ پہلے سینئیر رہنما تھے جو اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوئے۔
دو جنوری غزہ میں فوجی کارروائی کے ساتویں روز ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار سو سے زیادہ جن میں بچوں اور عو رتوں کی بڑی تعداد شامل۔ اسرائیل نے دھمکی دی کہ حماس کی کوئی عمارت نہیں چھوڑیں گے۔
تین جنوری بھاری توپخانے سے لیسں اسرائیل کی زمینی فوج غزہ میں داخل ہوگئی۔ غزہ کے شہریوں میں خوف و حراس شدید تر
پانچ جنوری اسرائیلی وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی جانب سے فوری فائر بندی کی اپیل مسترد کردی۔
چھ جنوری اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام تین سکولوں پر حملہ کیا۔ حملے میں چالیس سے زائد ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے بچے اور عورتیں تھیں جنھوں نے سکولوں میں پناہ لے رکھی تھی۔اقوامِ متحدہ نے حملے کو خوفناک اور نا قابلِ قبول قرار دیا تھا۔
آٹھ جنوری خان یونس شہر کے مشرق میں واقع خوزہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج نے مبینہ طور پر فاسفورس (گندھک) کے بم پھینکے جن میں کم از کم پچاس افراد هلاك ہو گئے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق فاسفورس بم استعمال کرنے پر پابندی ہے۔
اسرا ئیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی وہ قرار داد مسترد کردی جس میں فریقین سے فوری جنگ بندی اور اسرائیلی فوج سے فوری طور پر غزہ سے نکل جانے کو کہا گیا۔
مرنے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں
نو جنوری امدادی کارکنوں کو زیتون کے علاقے سے ایسے چار بچے ملے جو گزشتہ چار دنوں سے اپنی ماں کی لاش کے قریب بیٹھے تھے۔ انھیں فلسطینی ہلال احمر نے زیتون سے برآمد کیا۔
عالمی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس کے طبی عملے نے اسے ’دہلا دینے والا منظر‘ قرار دیا۔
گیارہ جنوری اسرائیل کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سکول پر حملہ ایک غلطی تھی۔رپورٹ میں غلطی کی وجہ سکول کے نزدیک سے ہونے والی فائرنگ بتائی گئی۔
بارہ جنوریسولہ دن کی مسلسل بمباری میں تقریباً تین سو بچوں سمیت 820 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ۔ اسرائیل نے غزہ پر پرچیاں گرائیں اور غزہ کے لوگوں کو فون کرکے فوجی کارروائی مزید تیز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
ایہود اولمرٹ نے یک طرفہ فائر بندی کا اعلان کیا
تیرہ جنوری نیویارک میں اقوام متحدہ کے رابطہ کار برائے ہنگامی امداد جان ہومز نے کہا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد میں چالیس فیصد سے زائد بچے اور عورتیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں اس وقت تشدد کی جو قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے اس کا خیال ہی دل دھلادینے والا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون فائر بندی کی کوشوں کے لیے علاقے میں پہنچنے۔
چودہ جنوری غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ اور پانچ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ جبکہ نوے ہزار حملوں سے بچنے کے لیے گھر چھوڑ گئے۔
سترہ جنوری کابنیہ کے اجلاس کے بعد اسرائیل نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کردیا۔اور فائر بندی اتوار یعنی اٹھارہ جنوری کی ا لصبح سے نافذ کردی۔
اٹھارہ جنوری جواب میں حماس نے بھی ایک ہفتے کی فائربندی کااعلان کیا جس دوران اس نے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کی شرط رکھی۔ مرنے والوں کی تعداد تیرہ سوسے زیادہ ہوگئی۔

Saturday, 17 January 2009

’میرا دل رو رہا ہے‘






القدس ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر جمعرات کی شب زار و قطار روئے لیکن اس کے بعد سے ان کے آنسو سوکھ گئے ہیں۔ ٹیلی فون پر بس اب ان کی ٹھنڈی آہیں سنائی دے رہی

جمعرات کو جب ڈاکٹر ولید ابو رمضان کا ہسپتال اسرائیلی بمباری کی زد میں آیا تو وہ سینکڑوں لوگوں کو جلتی ہوئی عمارت سے باہر نکالنے میں جٹ گئے۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ میرا دل رو رہا ہے۔
ٹیلی فون پر انہوں نے بتایا کہ وہ تباہ شدہ ہسپتال کے دواخانے کے قریب کھڑے ہیں۔ آگ ابھی بھی سلگ رہی ہے۔ فارمیسی میں رکھا ہوئی دوائیں اور دیگر طبی ساز و سامان راکھ ہوگیا ہے۔ انہوں نےمجھے بتایا کہ جب ہسپتال پر گولہ باری کی گئی تو کس افرا تفری کے عالم میں نوزائدہ بچوں اور آئی سی یو ( انتہائی نگہداشت والے یونٹ) کے مریضوں کو باہر نکالا گیا۔
فلسطینی ہلال احمر کا یہ ہسپتال غزہ شہر کے مغربی علاقے میں واقع ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں اور اسرائیلی فوجوں کی لڑائی کے دوران دو مرتبہ ہسپتال پر گولہ باری ہوئی۔
القدس ہسپتال پر جو گولہ لگا اس کا خول
پہلے صبح کو ہستپال کی انتظامی عمارت پر گولہ لگا اور آگ لگ گئی۔ ہسپتال کے مطابق مریضوں کو فوراً پہلی منزل پر منتقل کر دیا گیا۔ رات کو دس بجے ایک دیگر عمارت گولہ باری کی زد میں آئی اورہسپتال کی چھت میں بھی آگ لگ گئی۔
تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ درجنوں مریضوں اور عمارت میں پناہ لینے والے سینکڑوں افراد کو فوراً باہر نکالنا ہوگا۔
وہاں موجود خبر رساں ادارے ایے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر نے بتایا کہ بہت مشکل سے مریض اپنے بستر چھوڑ کر باہر نکلے۔
ڈاکٹر رمضان کہتے ہیں کہ ’سڑک پر گھپ اندھیرا تھا۔ ہمارا عملہ کچھ مریضوں کو بستروں کے ساتھ ہی باہر لے کر بھاگا۔ بڑا خوفناک منظر تھا۔ فائرنگ بھی ہو رہی تھی اور سردی بہت تھی۔‘
’جن مریضوں کی حالت زیادہ نازک تھی اور تین ایسے بچے جو پیش از وقت پیدا ہوگئے تھے، انہیں دوسرے ہسپتال پہنچانے میں آدھا گھنٹا لگ گیا۔ آئی سی یو کے چار مریض ایسے تھے جو خود سانس لینے کی حالت میں نہیں تھے۔ انہیں طبی کارکن آکسیجن بیگ سے سانس دلوا رہے تھے ورنہ وہ مر جاتے۔‘
مریضوں کو افرا تفری کے عالم میں باہر نکالا گیا
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شب تین ہسپتال اسرائیلی ٹینکوں کے گولوں کی زد میں آئے جن میں القدس کا ہسپتال بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ایک امدادی ادارے کی عمارت اور ایک بلڈنگ جس میں صحافی موجود تھے، وہ بھی گولہ باری کی زد میں آئیں۔
’ ہسپتال کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہم اسے استعمال نہیں کر سکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے دوبارہ قابل استعمال بنانے میں کتنا وقت لگے گا۔‘
اسرائیلی فوج نے ابھی اس واقعہ کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے لیکن اس کا الزام ہے کہ حماس کے عسکریت پسند عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

फज़ा इब्ने फैज़ी का निधन


Friday, 16 January 2009

एक पैगाम अहले गज़्ज़ह के नम


21days غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی

غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی چوتہے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے، مگر عرب دنیا کے امریکی غلام نہ تو اسرائیل سے اپنے تعلقات توڑتے ہیں اور نہ ہی اسے منہ توڑجواب دیتے ہیں، یہ اس انتظار میں ہیں اسرائیل عرب-دیشوں پر دہاوا بولے، اسرائیل سے وفا ہو، اور ابدی نیند سوجائیں، مگر صہیونی حمایت ختم نہ ہونے پائےاللہ جب عذاب دیتا ہے تو ایسی ہی صورتحال جنم لیتی ہے- انا للہ و انا الیہ راجعون














































































Wednesday, 7 January 2009

غزہ پر اسرائیلی حملے کا گیارہواں دن


غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے محض ایک ریاستی پالیسی نہیں بلکہ اسرائیلی
کی ایک مثلث کھڑی ہے جو ان حملوں سے اپنی اپنی سیاست تراش رہی ہے۔اس مثلث
کے ہر کونے پر ایک انتہائی اہم اسرائیلی سیاستدان کھڑا نظر آتا ہے۔ ان میں
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک، اسرائیل کی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور وزیراعظم
ایہود اولمرٹ شامل ہیں۔