Saturday 17 January 2009

’میرا دل رو رہا ہے‘






القدس ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر جمعرات کی شب زار و قطار روئے لیکن اس کے بعد سے ان کے آنسو سوکھ گئے ہیں۔ ٹیلی فون پر بس اب ان کی ٹھنڈی آہیں سنائی دے رہی

جمعرات کو جب ڈاکٹر ولید ابو رمضان کا ہسپتال اسرائیلی بمباری کی زد میں آیا تو وہ سینکڑوں لوگوں کو جلتی ہوئی عمارت سے باہر نکالنے میں جٹ گئے۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ میرا دل رو رہا ہے۔
ٹیلی فون پر انہوں نے بتایا کہ وہ تباہ شدہ ہسپتال کے دواخانے کے قریب کھڑے ہیں۔ آگ ابھی بھی سلگ رہی ہے۔ فارمیسی میں رکھا ہوئی دوائیں اور دیگر طبی ساز و سامان راکھ ہوگیا ہے۔ انہوں نےمجھے بتایا کہ جب ہسپتال پر گولہ باری کی گئی تو کس افرا تفری کے عالم میں نوزائدہ بچوں اور آئی سی یو ( انتہائی نگہداشت والے یونٹ) کے مریضوں کو باہر نکالا گیا۔
فلسطینی ہلال احمر کا یہ ہسپتال غزہ شہر کے مغربی علاقے میں واقع ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں اور اسرائیلی فوجوں کی لڑائی کے دوران دو مرتبہ ہسپتال پر گولہ باری ہوئی۔
القدس ہسپتال پر جو گولہ لگا اس کا خول
پہلے صبح کو ہستپال کی انتظامی عمارت پر گولہ لگا اور آگ لگ گئی۔ ہسپتال کے مطابق مریضوں کو فوراً پہلی منزل پر منتقل کر دیا گیا۔ رات کو دس بجے ایک دیگر عمارت گولہ باری کی زد میں آئی اورہسپتال کی چھت میں بھی آگ لگ گئی۔
تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ درجنوں مریضوں اور عمارت میں پناہ لینے والے سینکڑوں افراد کو فوراً باہر نکالنا ہوگا۔
وہاں موجود خبر رساں ادارے ایے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر نے بتایا کہ بہت مشکل سے مریض اپنے بستر چھوڑ کر باہر نکلے۔
ڈاکٹر رمضان کہتے ہیں کہ ’سڑک پر گھپ اندھیرا تھا۔ ہمارا عملہ کچھ مریضوں کو بستروں کے ساتھ ہی باہر لے کر بھاگا۔ بڑا خوفناک منظر تھا۔ فائرنگ بھی ہو رہی تھی اور سردی بہت تھی۔‘
’جن مریضوں کی حالت زیادہ نازک تھی اور تین ایسے بچے جو پیش از وقت پیدا ہوگئے تھے، انہیں دوسرے ہسپتال پہنچانے میں آدھا گھنٹا لگ گیا۔ آئی سی یو کے چار مریض ایسے تھے جو خود سانس لینے کی حالت میں نہیں تھے۔ انہیں طبی کارکن آکسیجن بیگ سے سانس دلوا رہے تھے ورنہ وہ مر جاتے۔‘
مریضوں کو افرا تفری کے عالم میں باہر نکالا گیا
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شب تین ہسپتال اسرائیلی ٹینکوں کے گولوں کی زد میں آئے جن میں القدس کا ہسپتال بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ایک امدادی ادارے کی عمارت اور ایک بلڈنگ جس میں صحافی موجود تھے، وہ بھی گولہ باری کی زد میں آئیں۔
’ ہسپتال کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہم اسے استعمال نہیں کر سکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے دوبارہ قابل استعمال بنانے میں کتنا وقت لگے گا۔‘
اسرائیلی فوج نے ابھی اس واقعہ کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے لیکن اس کا الزام ہے کہ حماس کے عسکریت پسند عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

No comments: