Monday 19 January 2009

غزہ میں جنگ، کب کیا ہوا


ستائیس دسمبر اسرائیل نے غزہ ہر بھر پور ہوائی حملے شروع کر دیے۔ حملے کا جواز دیتے ہوئے اسرائیل نے کہا کہ اس کا مقصد حماس کی جانب سے راکٹوں کے حملے روکنے کے لیے حماس کے سیکورٹی کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ پہلے ہی دن پولیس کے تربیتی کمپاؤنڈ پر میزائیل حملوں سے ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس والے ہلاک ہوئے۔
اٹھائیس دسمبر حملے جاری۔ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو سو اسّی زخمیوں کی تعداد سات سو کے لگ بھگ۔ حملوں میں مارے جانے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔
انتیس دسمبرحملوں میں تین سو سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت پر دنیا بھر سے فوری رد عمل اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔
تیسں دسمبر اسرائیلی فضائیہ نے حماس تنظیم کی وزارات دفاع کو نشانہ بنایا۔ اور ہوائی بمباری کے ساتھ ساتھ حماس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر زمینی کارروائی شروع کرنے پرغور کرنا شروع کیا۔
اکتیس دسمبر غزہ پر حملوں کے خلاف قاہرہ میں عربوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ تاہم کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔
یکم جنوری حماس کے ایک سینئیر رہنما نذر ریان اسرائیل کے ایک ہوائی حملے کا نشانہ بن گئے۔ وہ پہلے سینئیر رہنما تھے جو اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوئے۔
دو جنوری غزہ میں فوجی کارروائی کے ساتویں روز ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار سو سے زیادہ جن میں بچوں اور عو رتوں کی بڑی تعداد شامل۔ اسرائیل نے دھمکی دی کہ حماس کی کوئی عمارت نہیں چھوڑیں گے۔
تین جنوری بھاری توپخانے سے لیسں اسرائیل کی زمینی فوج غزہ میں داخل ہوگئی۔ غزہ کے شہریوں میں خوف و حراس شدید تر
پانچ جنوری اسرائیلی وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی جانب سے فوری فائر بندی کی اپیل مسترد کردی۔
چھ جنوری اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام تین سکولوں پر حملہ کیا۔ حملے میں چالیس سے زائد ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے بچے اور عورتیں تھیں جنھوں نے سکولوں میں پناہ لے رکھی تھی۔اقوامِ متحدہ نے حملے کو خوفناک اور نا قابلِ قبول قرار دیا تھا۔
آٹھ جنوری خان یونس شہر کے مشرق میں واقع خوزہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج نے مبینہ طور پر فاسفورس (گندھک) کے بم پھینکے جن میں کم از کم پچاس افراد هلاك ہو گئے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق فاسفورس بم استعمال کرنے پر پابندی ہے۔
اسرا ئیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی وہ قرار داد مسترد کردی جس میں فریقین سے فوری جنگ بندی اور اسرائیلی فوج سے فوری طور پر غزہ سے نکل جانے کو کہا گیا۔
مرنے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں
نو جنوری امدادی کارکنوں کو زیتون کے علاقے سے ایسے چار بچے ملے جو گزشتہ چار دنوں سے اپنی ماں کی لاش کے قریب بیٹھے تھے۔ انھیں فلسطینی ہلال احمر نے زیتون سے برآمد کیا۔
عالمی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس کے طبی عملے نے اسے ’دہلا دینے والا منظر‘ قرار دیا۔
گیارہ جنوری اسرائیل کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سکول پر حملہ ایک غلطی تھی۔رپورٹ میں غلطی کی وجہ سکول کے نزدیک سے ہونے والی فائرنگ بتائی گئی۔
بارہ جنوریسولہ دن کی مسلسل بمباری میں تقریباً تین سو بچوں سمیت 820 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ۔ اسرائیل نے غزہ پر پرچیاں گرائیں اور غزہ کے لوگوں کو فون کرکے فوجی کارروائی مزید تیز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
ایہود اولمرٹ نے یک طرفہ فائر بندی کا اعلان کیا
تیرہ جنوری نیویارک میں اقوام متحدہ کے رابطہ کار برائے ہنگامی امداد جان ہومز نے کہا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد میں چالیس فیصد سے زائد بچے اور عورتیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں اس وقت تشدد کی جو قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے اس کا خیال ہی دل دھلادینے والا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون فائر بندی کی کوشوں کے لیے علاقے میں پہنچنے۔
چودہ جنوری غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ اور پانچ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ جبکہ نوے ہزار حملوں سے بچنے کے لیے گھر چھوڑ گئے۔
سترہ جنوری کابنیہ کے اجلاس کے بعد اسرائیل نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کردیا۔اور فائر بندی اتوار یعنی اٹھارہ جنوری کی ا لصبح سے نافذ کردی۔
اٹھارہ جنوری جواب میں حماس نے بھی ایک ہفتے کی فائربندی کااعلان کیا جس دوران اس نے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کی شرط رکھی۔ مرنے والوں کی تعداد تیرہ سوسے زیادہ ہوگئی۔

No comments: