ہندوستان میں مسلمانوں کی مختلف تنظیموں اور علماء کونسل نے دلی کے جامعہ نگر علاقے میں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں
کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ جامعہ نگر، بٹلہ ہاؤس کے پولیس مقابلے کی عدالتی تحقیق کرائی جائے اور پولیس و تفتیشی ایجنسیاں دہشت گردی کے نام پر پوری مسلمان اقلیت کو نشانہ بنانا بند کریں۔
دلی میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی ریلی کا اہتمام علماء کونسل نے کیا تھا جس کی قیادت میں اعظم گڑھ سے تقریباً تین ہزار افراد ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے جمعرات کی علی الصبح دلی پہنچے۔
علماء کونسل کے صدر محمد عامر راشدی نے بی بی سی کو بتایا کہ اعظم گڑھ کے لوگ کافی دنوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ بٹلہ ہاؤس پولیس مقابلے کی جوڈیشیل انکوائری کرائی جائے اور’ جب حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ہم اپنی فریاد لے کر اس کے پاس آئے ہیں لیکن یہ اندھی، بہری، لولی لنگڑی سرکار نا تو سننے کو تیار ہے اور نا ہی اعظم گڑھ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘
عامر راشدی کا کہنا تھا ’ہمارا کہنا ہے کہ بٹلہ ہاؤس کا انکاؤنٹر جعلی ہے اور معصوم بچوں کی زندگی کے ساتھ کھیلا گیا ہے اگر سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے اس کی تفتیش نہیں کروائی گئی تو اس حکومت کو گرا دینا چاہیے تاکہ دوسری حکومت آئے اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرے۔‘
جب حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ہم اپنی فریاد لے کر اس کے پاس آئے ہیں لیکن یہ اندھی، بہری لولی لنگڑی سرکار نا تو سننے کو تیار ہے اور نا ہی اعظم گڑھ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکتی ہے۔
گزشتہ ستمبر میں دلی کے جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس میں پولیس نے مبینہ طور پر دو شدت پسندوں کو ایک مڈبھیڑ میں مارنے کا دعوی کیا تھا۔ ہلاک ہونے والے ایک نوجوان عاطف امین کے والد محمد امین بھی اس ریلی میں شرکت کے لیے اسی ٹرین سے دلی پہنچے تھے۔ بیٹے کی موت کے صدمے سے وہ آج بھی نہیں نکل سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اتنا پریشان ہوں کہ کیا بتاؤں بس میں بات نہیں کرسکتا، مجھے اب اور پریشان مت کرو۔‘
انکاؤنٹر میں گرفتار کیئے جانے والے ایک نوجوان محمد سیف، کے والد شاداب احمد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے حراست کے دوران کئی بار ملے ہیں اور وہ پوری طرح سے بے قصور ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں شروع سے یہی کہتا آیا ہوں کہ یہ بچے بے قصور ہیں اور انہیں رہا کردینا چاہیے تاہم مجھے میرے بیٹے نے کیا بتایا وہ ابھی کیا بتائیں لیکن بتایا وہ بھی جائےگا۔‘
دلی میں یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا احتجاجی مظاہرہ تھا جس کے لیے اعظم گڑھ سے آمد و رفت کے لیے ایک پوری ٹرین بک کی گئی تھی اور اس کے لیے گاؤں گاؤں چندہ کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ انہیں انصاف چاہیے اور دہشتگردی کے نام پر اعظم گڑھ کو بدنام نا کرو۔
دلی کے بھی بعض مسلم مذہبی راہنماؤں اور تنظیموں نے اس ریلی میں شرکت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں شدت پسندی کے نام پر مسلمانوں کو جو نشانہ بنایا جارہا ہے اسے بند کیا جانا چاہیے۔
مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ جامعہ نگر، بٹلہ ہاؤس کے پولیس مقابلے کی عدالتی تحقیق کرائی جائے اور پولیس و تفتیشی ایجنسیاں دہشت گردی کے نام پر پوری مسلمان اقلیت کو نشانہ بنانا بند کریں۔
دلی میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی ریلی کا اہتمام علماء کونسل نے کیا تھا جس کی قیادت میں اعظم گڑھ سے تقریباً تین ہزار افراد ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے جمعرات کی علی الصبح دلی پہنچے۔
علماء کونسل کے صدر محمد عامر راشدی نے بی بی سی کو بتایا کہ اعظم گڑھ کے لوگ کافی دنوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ بٹلہ ہاؤس پولیس مقابلے کی جوڈیشیل انکوائری کرائی جائے اور’ جب حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ہم اپنی فریاد لے کر اس کے پاس آئے ہیں لیکن یہ اندھی، بہری، لولی لنگڑی سرکار نا تو سننے کو تیار ہے اور نا ہی اعظم گڑھ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘
عامر راشدی کا کہنا تھا ’ہمارا کہنا ہے کہ بٹلہ ہاؤس کا انکاؤنٹر جعلی ہے اور معصوم بچوں کی زندگی کے ساتھ کھیلا گیا ہے اگر سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے اس کی تفتیش نہیں کروائی گئی تو اس حکومت کو گرا دینا چاہیے تاکہ دوسری حکومت آئے اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرے۔‘
جب حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ہم اپنی فریاد لے کر اس کے پاس آئے ہیں لیکن یہ اندھی، بہری لولی لنگڑی سرکار نا تو سننے کو تیار ہے اور نا ہی اعظم گڑھ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکتی ہے۔
گزشتہ ستمبر میں دلی کے جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس میں پولیس نے مبینہ طور پر دو شدت پسندوں کو ایک مڈبھیڑ میں مارنے کا دعوی کیا تھا۔ ہلاک ہونے والے ایک نوجوان عاطف امین کے والد محمد امین بھی اس ریلی میں شرکت کے لیے اسی ٹرین سے دلی پہنچے تھے۔ بیٹے کی موت کے صدمے سے وہ آج بھی نہیں نکل سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اتنا پریشان ہوں کہ کیا بتاؤں بس میں بات نہیں کرسکتا، مجھے اب اور پریشان مت کرو۔‘
انکاؤنٹر میں گرفتار کیئے جانے والے ایک نوجوان محمد سیف، کے والد شاداب احمد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے حراست کے دوران کئی بار ملے ہیں اور وہ پوری طرح سے بے قصور ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں شروع سے یہی کہتا آیا ہوں کہ یہ بچے بے قصور ہیں اور انہیں رہا کردینا چاہیے تاہم مجھے میرے بیٹے نے کیا بتایا وہ ابھی کیا بتائیں لیکن بتایا وہ بھی جائےگا۔‘
دلی میں یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا احتجاجی مظاہرہ تھا جس کے لیے اعظم گڑھ سے آمد و رفت کے لیے ایک پوری ٹرین بک کی گئی تھی اور اس کے لیے گاؤں گاؤں چندہ کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ انہیں انصاف چاہیے اور دہشتگردی کے نام پر اعظم گڑھ کو بدنام نا کرو۔
دلی کے بھی بعض مسلم مذہبی راہنماؤں اور تنظیموں نے اس ریلی میں شرکت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں شدت پسندی کے نام پر مسلمانوں کو جو نشانہ بنایا جارہا ہے اسے بند کیا جانا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment