Monday 9 March 2015

داد ا جان کا سانحۂ ارتحال،ایک عہد کا خاتمہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

داد ا جان کا سانحۂ ارتحال،ایک عہد کا خاتمہ
عبدالصبور ندوی 
مؤرخہ ۲۹؍ اکتوبر 2014ء کو میرے نومولود بیٹے عبدالمحسن کے ناگہانی موت سے پوری فیملی صدمے سے دوچار تھی، کہ مؤرخہ 4؍ نومبر 2014 مطابق ۱۰؍ محرم الحرم 1436ھ کو ہم سب کے مربی ومحسن اور معروف عالم دین ، دادا جان ، مولاناعبد الوہاب ریاضی کے سانحۂ ارتحال سے دوہرے صدمے میں مبتلا ہوگئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
محرم الحرام کی ۱۰؍ تاریخ تھی، کاٹھمانڈو میں اپنی آفس سے افطار کیلئے رہائش گاہ پہنچا ، وقت ہوچکا تھا، لیکن دل میں عجیب سی الجھن ہونے لگی، فورا عزیزم سالم سلمہ اللہ کو فون کیا، دادا جان کی خیریت طلب کی، سالم نے روتے ہوئے جواب دیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اسی اثناء گھر میں آہ وبکا کی آوازیں اٹھیں، اور میری زبان پر اناللہ کا ورد جاری ہونے لگا۔فورا فیملی سمیت جھنڈانگر نکل پڑا، اور اگلے دن تغسیل وتکفین و تدفین میں شریک ہوا، اور ہزاروں سوگواروں کے درمیا ن ہم سب نے منوں مٹی کے نیچےُ سلادیا۔اللہم اغفر لہ وادخلہ فی فسیح جناتہ۔
الوداع دادا جان! الوداع
رب ذوالجلال آپ کو اپنی بے پناہ رحمتوں سے ڈھاپ لے۔
کائنات کی وسعتوں میں ایک شخص کی کمی کا احساس دیرپا نہیں ہوتا، دنیا کی ہلچل میں روزانہ کتنے جنازے اٹھتے ہیں، کتنی قبریں بنتی ہیں، اور کتنے چاند تاروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ہر موت بے شمار آنکھوں میں آنسواور دلوں میں زخم چھوڑ جاتی ہے، سوگواروں کی سسکیاں اور آہیں کتنے دلوں کو مجرو ح کرتی ہیں،پھر رفتہ رفتہ وقت مرہم پاشی کرکے زخم مندمل اور ماحول بحال کردیتا ہے،یہ ہوتا آیا ہے ، ہوتا رہے گا، موت وزیست کی کہانی روز ازل سے کہی اور سنی جاتی ہے اور ابد تک اسی طرح دہرائی جاتی رہے گی، بعض اموات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی خبر بجلی بن کر گرتی ہے اور مدت مدید کے لئے ویرانی واداسی پیدا کردیتی ہے۔دادا جان کا سانحۂ ارتحال بھی انہی میں سے ایک ہے۔
ء1930  میں جھنڈانگر جیسے مردم خیزقصبہ کے افق سے طلوع ہونے والایہ تابندہ ستارہ عمر بھر لوگوں کو روشنی دیتا رہا، منارۂ نور بن کر سلفیت کی بے لوث نشر واشاعت کی،لوگ فیضیاب ہوتے رہے، 4؍ نومبر کی تاریخ کیا آئی، رب کائنات نے اس ستارے کو ہماری نظروں سے اوجھل کردیا۔قضاء و قدر کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْرٌ (22الحدید)۔
خانوادہ:ضلع سدھارتھ نگر ڈومریا گنج کے قریب مردم خیز موضع بیت نارکے شہید فی سبیل اللہ عیدو میاں کے پوتے اور مشہور مصلح و مربی میاں محمد زکریا ؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الوہاب ریاضی سلسلہ ذہبیہ کے وہ کڑی تھے ، جو علم وعمل ، تقویٰ وتدین ، تبلیغ واصلاح میں بے مثل تھی، آپ کے آبائی گاؤں بیت نار میں انگریزی استعمار کے عہد میں آپ کے دادا محترم سلفیت کے ٹھیٹھ علمبردار اور مجاہد تھے، ایک معرکہ میں بلوائیوں نے آپ کو شہید کردیاتھا، پوسٹ مارٹم کے لئے نعش بستی لے جائی گئی ، اور کچہری کے صحن میں آپ کو دفن کر دیا گیا، جہاں بعد میں بد عقیدہ لوگوں نے مزار بنا کر پرستش شروع کردی، (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ وسائل وذرائع کی کمیابی کے باعث آپ کی نعش بیت نار نہیں لائی جا سکی تھی۔
پیکر زہد وورع ، عظیم مصلح وداعی ، کتاب وسنت کے مناد، الحاج میاں محمد زکریا ؒ آپ کے والد گرامی تھے، جنہوں نے جھنڈا نگر اور ہند ونیپال کے سرحدی خطہ میں دعوت و اصلاح کی گہری چھاپ چھوڑی ہے، آپ کے علم و عمل کا چرچا و شہرہ دور دور تک تھا، چنانچہ مدرسہ سراج العلوم(جو بعد میں چل کر جامعہ بنا) کے بانی الحاج نعمت اللہ خان ؒ نے بیت نار سے آپ کو بلوالیا، اور آپ مدرسہ کے پڑوس میں آباد ہوگئے، جامعہ میں تدریس و امامت اور اسکی آبیاری میں پوری زندگی صرف کردی، ۱۹۱۸ء سے لیکر ۱۹۸۵ء تک جامعہ سراج العلوم کی طویل المدتی خدمت کسی کو میسر نہ ہوئی، حتی کہ اس ک بانیان و ذمہ داران کو بھی اتنا موقع نہیں ملا۔ خانوادۂ نعمت اللہی اور خانوادۂ میاں محمد زکریا کا باہمی تعلق اس قدر پروان چڑھا کہ بہت عرصے تک لوگوں کو نہیں معلوم ہوا کہ یہ دو خاندان ہیں۔ دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کی ضروریات کا ہمیشہ خیال رکھا، مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ خانوادۂ نعمت اللہی نے خانوادۂ میاں محمد زکریا پر اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اعتماد کیا، اور یہ خاندان ہمیشہ ان کی توقعات پر کھرا اترا، سیکڑوں بیگھ زمینیں خانوادۂ میاں محمد زکریا کے نام کردیں، اور جب انہوں نے چاہا، ٹرانسفرکردیا گیا، امانت و دیانت کے معاملے میں موجودہ ناظم جامعہ مولانا شمیم احمد ندوی صاحب نے ایک بار اپنے ماہنامے السراج میں لکھا کہ موجودہ زمانے میں خاندان زکریا کے امانت کی مثال ملنی مشکل ہے۔
دادا جان مولانا عبد الوہاب ریاضی اپنے پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے، عظیم مصلح ونمونۂ سلف جیسے باپ کی تربیت پائی، اور اسی نہج پر اپنے اولاد واحفادکی تربیت کی، رشتہ داروں اور پٹی داروں کی ہمیشہ رہنمائی کی اور خاندان کو علم و عمل ، ترقی و نیک نامی بخشی، چنانچہ تجارت، تدریس، ، طب، انجینئرنگ، صحافت ، ادب اور دعوت کے میدان میں افراد تیار ہوئے جو سماج و ملت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور آج خانوادۂ زکریا ہند و نیپال میں ایک معروف خانوادہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ 
گلشن اخلاق: دادا جان ؒ ایک متواضع، خلیق، خدا ترس، پرہیزگار ، امین، دانا و بینا شخص تھے، عمر بھر کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے، ہر طرح کے حالات میں اپنے کو ایڈجسٹ کرنا جانتے تھے، ، قناعت، شکر و صبر کے پیکر رہے، بڑوں کی عزت و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کسی کو سیکھنا ہے تو دادا جان سے سکھے، تعلقات کیسے نبھائے جاتے ہیں، ایفاء وعد و عہد کسے کہتے ہیں، باہمی اتحاد، اخوت ومحبت کث کیسے برقرار رکھا جائے، آپ کی حیات مبارکہ سے سیکھا جا سکتا ہے۔عزت نفس، خودداری، تکریم محبت و اخوت، خندہ پیشانی،صلح و مصالحت جیسے پھول آپ کے گلشن اخلاق کی زینت ہیں۔
دعوتی زندگی: زمانۂ طلب علم سے ہی تبلیغ علم کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، اور یہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہا، دعوتی مقامات میں جھنڈا نگر، سمرا ، چے پوروا، مہادیو بزرگ، ششہنیاں، پکھربٹوا، دلدلہا، بیدولی، تولہوا، پرسوہیا، الگا، بٹھنیاں، سکھرام پور، سیو ہروا، اسلام نگر جیسے مواضعات نے آپ سے بالخصوص استفادہ کیا ہے۔اور دادا جان نے مذکورہ بعض بدعتی مواضعات کو سلفیت کے رنگ میں ڈھال دیا، بڑے جتن کئے، نا موفق حالات میں بھی ڈٹے رہے، اور بدعتی ٹولوں کو شکست پہ شکست ملتی گئی، چنانچہ آج ان مواضعات میں دادا جان کے تابندہ دعوتی نقوش و اثرات بجا طور پہ دکھائی دیتے ہیں، مجھے کہنے دیجےئے کہ دادا محترم نے بدعات وخرافات کے خلاف جو زمینی محنت کی ہے، موجودہ زمانے کے اشتہاری مقررین علماء جو اپنے کو علامہ سے کم نہیں سمجھتے اور جن کی جلسوں میں منظوری مول بھاؤ پر ٹکی ہوتی ہے، وہ سوچ نہیں سکتے کہ سیکڑوں افراد کو شرک و بدعت کے دلدل سے نکالنا وہ عظیم دعوتی خدمت ہے جو ان شاء اللہ ذریعۂ نجات کے لئے کافی ہوگی۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان یاد آرہا ہے : لأن یہدی اللہ بک رجلا واحدا لکان خیر لک من حمر النعم ۔ اگر اللہ نے آپ کے ذریعے کسی ایک شخص کو ہدایت دے دی،تو وہ آپ کے لئے سرخ اونٹوں سے کہیں بہتر ہے(بخاری، مسلم)۔ان شاء اللہ یہ سارے اجر آپ کے خزانے میں ہونگے۔
دادا جان بڑی سادگی سے درس دیتے ، تقریر کرتے اوراسلوب میں ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی أحسن کے قاعدے کو ملحوظ رکھتے۔جلسہ میں تقریر کرنا اور جمعہ کا خطبہ بڑا آسان ہوسکتا ہے، لیکن انفرادی دعوت ، گھر گھر کتاب و سنت کی روشنی سے مستنیر کرنے اور اس پہ آنے والی مصیبتوں پر صبر ، یہ وہ دعوتی انداز و کارنامہ ہے ، جہاں اصلاح کے امکانات صد فی صد ہوتے ہیں، چونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں آپ نے حکیم لقمان کی نصیحت کو یاد رکھا: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَک (لقمان ۱۷)۔کہ بھلائیوں کی نشر و اشاعت اور منکرات سے باز رکھنے کی راہ میں آنے والی مصیبت اور رکاوٹوں پر صبر کرنا۔
تعزیہ داری، محرم کے ماتمی جلوس ، میلاد وغیرہ کے آپ سخت خلاف تھے اور اس کے قلع قمع کے لئے آپ نے تحریک چھیڑ رکھی تھی، تعزیہ داروں کو بلا کر سمجھاتے ، توبہ کراتے تھے،نتیجتا بدعات میں کمی آگئی، اور دس محرم کے دن ہی رب العزت نے اپنے پاس بلا لیا۔
راقم الحروف نے آپ کے دعوتی محور کے مواضعات کا دورہ دادا کے ساتھ کیا، موضع الگا کا دو بار دورہ کیا، ایک جب میری عمر محض سات برس کی تھی، اور وہاں ضلعی پیمانے پر تعلیمی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا تھا، اس وقت دادا جان کی قدر ومنزلت کا احساس ہوا جب لوگ ہمیشہ گھیرے میں لئے رہتے اپنے مسائل حل کراتے، دادا جان کی ترغیب پر میں نے مقابلۂ قرأت میں حصہ لیا تھا، غالبا ۱۹۸۷ء کی بات ہے اس موقع پر مجھے جو انعام ملا: ایک اسکیل، ایک کاپی، اور ایک پلاسٹک کا گلاس۔ میں پھولے نہیں سمایا۔اور لگا کہ اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے! وہیں سے مجھے تحریک ملی، اور بہت سارے تقریری و تحریری مقابلوں میں اللہ نے انعامات واعزازات سے نوازا۔ وللہ الحمد۔
دوسرا دورہ جب میں عربی چہارم کا طالبعلم تھااور دادا کے ساتھ الگا گیا، دادا کی خواہش تھی کہ خطبۂ جمعہ میں دوں، لیکن گاؤں والوں کا اصرار تھا کہ بہت دنوں کے بعد آپ آئے ہیں ، آپ کا خطبہ سننا چاہتے ہیں۔دادا جان نے بلیغ خطبہ دیا۔اور نماز جمعہ کے بعد میں نے اتحاد واتفاق پر تقریر کی ، جس پر وہاں کے لوگوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔
بچپن ہی میں موضع پکھر بٹوا و دلدلہادادا کے ساتھ گیا، جب لوگوں سے ملاقات کے لئے گاؤں میں نکلے تو ہر شخص چشم براہ تھا کہ ہمارے گھر تشریف رکھیں،، میں بہت چھوٹا تھا ، ایک صاحب مجھ کو گود میں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور کہا یہ مولوی صاحب کے پوتے ہیں، گھر کی خواتین نے فورا سر میں تیل کنگھی، اور آنکھ میں کاجل لگا دیا اور کھانے کے لئے جو کچھ گھر میں تھا، میرے سامنے لا کر رکھ دیا، میں حیران تھا، دادا جان کی قدر و منزلت اور محبت اس قدر مرد و خواتین کے دلوں میں گھری تھی، وہ چاہ رہے تھے کہ دادا جان کی کیا سے کیا خدمت کردیں۔ یہ لگاؤ اور تعلق یونہی نہیں پیدا ہوا ، بڑی محنت اور جتن کے بعد دادا جان نے وہاں سلفیت کی شمع روشن کی تھی، جس کی روشنی سے آج پورا خطہ فیضیاب ہورہا ہے، اللہ ان خدمات کو قبول فرمالے۔ دادا جان نے مہادیو بزرگ میں کئی برس عیدین کی نماز پڑھائی اور خطبہ دیا، وہاں کے لوگ بالخصوص مولانا عبد الحئی اور چودھری نور الحسن رحمہما اللہ دادا سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، اور جھنڈانگر جب آتے تو ملے بغیر نہیں جاتے۔ زمانۂ طالبعلمی میں مجھے بھی وہاں عیدین اور جمعہ کا خطبہ دینے کا شرف حاصل ہوا، لوگوں نے حوصلہ بڑھایا، عیدی سے نوزا، اور بار بار دعوت دیا مگر میں اپنی مصروفیات کے سبب نہیں جا سکا ، جس کا مجھے قلق ہے۔
چنروٹا سے قریب موضع اسلام نگرمیں دادا جان اپنے تبلیغی دورے جاری رکھے ، کئی بار ان کی مسجد میں خطبہ بھی دیا جو جاہل بریلوی مولوی کو ناگوار گزرتا تھا،مگر عوام کی مرضی یہی ہوتی کہ آپ خھبہ دیں، چنانچہ اللہ نے کئی لوگوں کو ہدایت دی۔
جھنڈانگر سے ملحق موضع سمرا ، جو دادا جان کی دعوت کا خاص محور رہا ہے، اور عمر کے آخری ایام تک اس سلسلہ کو جاری رکھا، یہاں کے لوگ آپ سے بیحد مانوس تھے اور انتہائی احترام سے پیش آتے۔ دادا جان یہاں کے مسکینوں ، بیواؤں اور یتیموں کا خاص خیال رکھتے تھے،غالبا ۱۹۸۸ء سے سے سمرا میں آپ نے جمعہ کا برابر خطبہ دینا شروع کیا، جو انتقال سے ایک ماہ قبل تک جاری رہا۔آپ دوسرے علماء و طلبہ کو بھی موقع دیتے تھے، میں نے بھی جمعہ کا خطبہ دینا سمرا سے ہی سیکھا۔اہالیان سمرا سے دادا بہت محبت کرتے تھے اور وہ بھی آپ سے، اس گاؤں میں کبھی کسی غلط کام کو دیکھتے تو برملا ٹوکتے، اگر اسکی اصلاح کچھ دنوں میں نہیں ہوتی ، تو ان کے غضب کا انداز میں نے دیکھا، کہ ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب نے خطبہ دیا، نماز کے بعد مولانا سے کہا کہ کھڑے ہوجائیے اور ان آیتوں ۔۔فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ ، لَّسْتَ عَلَیْْہِم بِمُصَیْْطِرٍ ، إِلَّا مَن تَوَلَّی وَکَفَرَ ، فَیُعَذِّبُہُ اللَّہُ الْعَذَابَ الْأَکْبَرَ کی تشریح کیجےئے۔ حکمت ودانائی ہمیشہ ملحوظ رکھتے ، مگر منکرات کے مسلسل اصرار پر سخت بھی ہوجایا کرتے تھے۔
جھنڈانگر میں عیدین کا قیام: جھنڈانگر تقریبا تین سو سال پرانی بستی ہے، دیوان جھنڈا خاں کے نام پر جھنڈانگر آباد ہوا، انگریزی استعمار کے عہد میں نیپال کا یہ سرحدی خطہ بھی متاثر تھا۔جامعہ سراج العلوم کا قیام 1914ء میں عمل میں آچکا تھا ، علوم دینیہ کی نشر واشاعت کا سلسلہ جاری تھا، مگر مقامی اہل حدیث آبادی عیدین کی کی نماز لچھمی نگر اور ڈیہوا بریلوی امام کے پیچھے پڑھتی تھی، دادا جان اس وقت طالبعلم تھے ، مگر انہیں یہ بُرا لگتا تھا کہ ہم اہل حدیث ہوتے ہوئے بریلویوں کے پیچھے دوگانۂ عیدین ادا کریں، 1947ء میں دادا جان طلب علم کے لئے جب جامعہ ریاض العلوم دہلی گئے ، اور عید کی چھٹی میں گھر آئے ، تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ اب ہم بریلویوں کے پیچھے نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ آپ نے جامعہ سراج العلوم کی چھت پر پہلی بار عید کی نماز پڑھائی اور خطبہ دیا، پھر کیا تھا، سلسلہ بندھ گیا، کچھ ہی برسوں کے بعد آبادی سے باہر کھلیان میں عیدین کی نماز ادا کی جانے لگی، پھر ایک مدت کے بعد خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی ؒ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی،اور انہوں نے ایک زمین خرید کر عید گاہ کے لئے وقف کردیا، پھر جھنڈانگر ہی نہیں ، بلکہ سمرا، بڑھنی کلن ڈیہہ وقرب وجوار کے مرد و خواتین جھنڈانگر آنے لگے اور امامت وخطابت کا سلسلہ دادا جان سنبھالے رہیڈ خطیب الاسلام کی دور اندیشی دیکھئے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ وثیقہ لکھ کر دیا کہ مولانا عبد الوہاب ریاضی اور انکے خاندان کے با صلاحیت لوگ عیدین کی امامت و خطابت کے فرائض انجام دینگے۔اگر خاندان کدربٹوا کا کوئی شخص عیدین کی امامت یا خطبہ دینا چاہے تو اس سے تعرض نہ کریں گے۔
خطیب الاسلام کے انتقال کے بعد چند سادہ لوحوں کے بہکاوے میں آکر جامعہ سراج العلوم کے موجودہ ذمہ دار اُن کے ذریعے بچھائی گئی بساط میں ایسے پھنسے کہ جھنڈانگر کی مختصراہلحدیث آبادی کے مابین فتنہ و خلفشار کی بیج بو دیا گیا،اور فرائض سے توجہ ہٹا کر ایک سنت کیلئے انتشار پیدا کیا گیا،خطیب الاسلام کے جانشین اگر انکی وصیت و وثیقہ کی پاسبانی کی طاقت نہیں رکھتے تو صرف دعاء کروں گا کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
مدرسہ خدیجۃ الکبری کا قیام: جامعہ سراج العلوم میں مکتب کے درجہ ششم تک بچوں اور بچیوں کے لئے مخلوط تعلیم کا نظم تھا، درجہ ششم کے بعد لڑکیاں گھر میں بیٹھ جاتیں اور امور خانہ داری میں لگ جاتیں۔ لڑکیوں کے لئے نہ ہی علحدہ مکتب تھا ، نہ مدرسہ ، جہاں وہ مزید تعلیم حاصل کرتیں۔ جامعہ میں واش روم بھی مشترک تھا، دادا جان اور بعض اساتذہ نے خطیب الاسلام سے درخواست کی کہ کم از کم لڑکیوں کے لئے علحدہ بیت الخلاء کا نظم کردیا جائے ، ساتھ ہی مدرسۂ نسواں کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ مگر یہ دونوں مطالبے پورا نہ ہوتے دیکھ دادا جان نے علاقہ کے معززین جیسے مفسر قرآن مولانا عبد القیوم رحمانیؒ ، مولانا عبدالرحمنؒ صاحب کدربٹوا ، ڈاکٹر انوار احمد خان اور ڈاکٹر اسرار الحق خان وغیرہم کے مشورے سے ۱۹۸۸ء میں مدرسہ خدیجۃ الکبری کا قیام عمل میں لائے اور اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے بھتیجے مولانا عبد اللہ مدنی کو جھنڈانگر بلوالیا۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ اکتوبر ۱۹۸۸ء میں پرائمری کی ابتدائی کلاسیز کا آغاز ہوگیا تھا۔
دادا جان نے مدرسہ کے اہتمام وبعض گھنٹیوں کی تدریس کی ذمہ داری بلا معاوضہ عمر کے آخری وقت تک سنبھالے رہے، مدرسہ چلانے کاہنر دادا جان کے پاس تھا، جہاں نوک جھونک اور الجھاؤ نہیں تھا، انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ مدرسہ کے وقار اور سب کے مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرتے جس سے سارے لوگ خوش ہوتے تھے۔
انتقال سے قبل مجھے اور خاندان کے کئی ذمہ داروں سے ملاقاتیں کر کے ادارہ کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا، اور نصیحت و وصیت کی کہ ادارہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے، تنزلی کا منہ کبھی نہ دیکھے، اور خاندان کا ہر فرد اس کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ اللہ کرے شاداب رہے جو کشت ہنر نیپال میں ہے۔
دادا جان اور جامعہ سراج العلوم: جامعہ سراج العلوم کے قیام کو محض چار سال گزرے تھے ، ۱۹۱۸ء میں بانئ جامعہ الحاج نعمت اللہ خان ؒ نے پردادا الحاج میاں محمد زکریا ؒ کو بیت نار سے بلوا لیا، پردادا رحمہ اللہ نے علاقے میں جو دعوت واصلاح کا کام کیا، وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔جب وہ جھنڈانگر تشریف لائے تو علاقہ بریلوت، دیوبندیت زدہ تھا، اور بانئ جامعہ بھی کسی حدتک متاثر تھے، نماز میں رفع یدین اور سینے پر ہاتھ باندھنا پرداداؒ نے سکھایا، جھنڈانگر و بڑھنی کے سرحدی خطے میں آج سلفیت کے جو برگ وبار نظر آرہے ہیں ان میں پردادا ؒ کا بہت بڑا کردار ہے، اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دادا جان نے اسی دعوتی و اصلاحی عمل کو آگے بڑھایا، چنانچہ خطیب الاسلام رحمہ اللہ نے جب آ پ کو معتمد تعلیمات مقرر کیا تو نہ صرف آپ نے جامعہ کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار نبھائے بلکہ انتظامی امور میں بھی خطیب الاسلام کا ہاتھ بٹایا، اگر چہ یہ مدت محض دو سال تھی، مگر اس دوران آپ نے جامعہ کی کایا پلٹ دی تھی،اساتذہ کے چھٹی پر جانے سے کلاسیز میں جو گھنٹیاں خالی ہوجایا کرتی تھیں، آپ ان گھنٹیوں میں جا کر باقاعدہ پڑھایا کرتے تھے۔خطیب الاسلام ؒ کے اسفار کے دوران بھر پور نیابت کا فریضہ انجام دیتے تھے،بعض حاسدین کے چلتے اور اصلاحی عمل کو نہ چاہتے ہوئے خطیب الاسلام ؒ نے انہیں تولہوا میں ایک نئے محاذ پر بھیج دیا، جہاں آپ نے اس بنجر خطہ کو شاداب کیا، اور اس دوران جو تکلیفیں اٹھائیں ، قربانیاں دیں، وہ قابل تقلید ہے۔
جامعہ سراج العلوم میں آپ کے بڑے بھائی مولانا ابو البرکات رحمانیؒ نے لگ بھگ 60؍ برس تدریسی فریضہ انجام دیا، ان کے بڑے صاحبزادے محمود احمد نے بھی مکتب میں تین برس تک پڑھایا، راقم الحروف کو بھی اعزازی طور پہ چند ماہ تدریس کا موقع ملا، غرضیکہ خاندان زکریا کا جامع سراج العلوم سے بڑا گہرا ربظ رہا، اس کی تعمیر و ترقی اور پاسبانی میں خانوادۂ زکریا کا بڑااہم رول رہا ہے۔
بعض شخصیات سے تعلقات خصوصی: دادا جان کی شخصیت ہر دلعزیز و دلپذیر تھی، استفادہ وافادہ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ مشائخ و علماء، زمیندار و رؤساء، تجار و فقراء سب آپ کے قدر دان تھے۔حتی کہ بعض عرب مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا اور آپ نے انہیں سند اجازت سے نوازا۔شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانیؒ کے خلف الرشید مولانا عبد الرحمن مبارکپوری سے گہری دوستی تھی اور ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے،بابو عبد الرشید خان کدربٹوا کی والدہ کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا، آپ کا بچپن جھنڈانگر میں گزرا، دادا اور آپ بچپن کے دوست تھے، اور سب کہتے تھے کہ یہ دونوں بھائی ہیں۔دادا جان مولانا عبد الرحمن صاحبؒ کدربٹوا کے ساتھ اعتکاف بیٹھا کرتے تھے، اور بڑی عقیدت رکھتے تھے،مولانا عبد الصبور رحمانی ؒ ، احمد خان (اکرہرا) ، ادریس مہتو، سہراب بابو، فخر الحسن، مہدی حسن بادشاہ، سمیع اللہ خان صاحبان (کھجوریہ)، عبد الوہاب صاحب ، ماسٹرعبد المعبود صاحب (بیرہوا)مولانا شفیع اللہ ملگیہیا اور حافظ نذیر احمد(جھنڈ انگر) ؒ سے محبانہ ودوستانہ تعلقات تھے، الگا کے سیٹھ ضمیر اللہ ، حاجی جوکھو، سیٹھ حفیظ اللہ ؒ دادا سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، چیپروا کے سعادت خان ، رکوع خان ، حکیم عبد المجید خان ، امولی کے نثار خان دادا کے بڑے قدر دان تھے اور دادا کی کاوشوں کے سبب یہ سب صحیح العقیدہ ہوئے۔ اللہ ان سب پر رحم فرمائے۔

تأثرات
جناب سفر علی (لیڈر کمیونسٹ پارٹی اے مالے ) بٹول
میں جب بھی جھنڈا نگر آتا، تو کوشش کرکے حضرت رحمہ اللہ سے ملاقات ضرور کرتا، دینی مسائل پر گفتگو ہوتی، اور وہ میری تشنگی بجھاتے، انتہائی با اخلاق ، سچے محب، متواضع اور خلیق انسان تھے، عیادت کیلئے کئی بار حاضر ہوا، بہت ہشاش بشاش رہے، ان کے انتقال کی جب خبر ملی، تو بہت صدمہ پہنچا، ، فورا گھر سے نکلا،اور جنازہ میں شامل ہوا، ، آپ جھنڈانگر کے روشن چراغ تھے، اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، اور خاندان کو صبر کی توفیق دے۔
جناب الحاج محمد سلیم صاحب (پردھان جی)املیا
پہلی بار ۱۹۸۱ء میں جب مولانا سے ملاقات ہوئی، تو میں آپ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا، تولہوا اور قرب وجوار میں آپ نے اصلاح کے لئے جو محنت کی ہے وہ بہت بڑا کارنامہ ہے، میں نے اپنے فرزند مولوی سکندر علی سلمہ اللہ کو آپ کے حوالے کردیا، چنانچہ آپ نے انکی تربیت کی،۔ مولانا کی تربیت کا انداز نرالا تھا، پہلے میں باریک قسم کی دھوتی پہنا کرتا تھا، نماز بھی اسی میں پڑھتا، مولانا نے یہ دیکھ کر کہا کہ اس سے بے پردگی ہوتی ہے، آپ موٹی دھوتی پہنئے ، چنانچہ میں نے موٹی دھوتی پہننا شروع کردیا، ، ایک مرتبہ راجہ کی آمد پر میں نے موٹی دھوتی پہنی، اور مولانا کے ساتھ نماز پڑھی، نماز بعد آپ نے کہا: دھوتی پہننا چھوڑ دیجےء، یہ مسلمانوں کا پہناوا نہیں، اسی وقت میں نے دھوتی پہننی چھوڑ دی، لنگی اور پائجامہ کی عادت ڈال لی، آپ کی صحبت کا میری ذات پر بڑاگہرا اثر رہا ہے، میں نے اپنے تمام بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔ میرا اور آپ کے خاندان سے تعلق اس قدر بڑھتا گیا، کہ ہم باہم رشتہ داروں سے بڑھ کر تعلق نبھاتے رہے اور نبھا رہے ہیں، اللہ تعالی انکے مساعی کو قبول فرمائے اور جنت میں ان کا مسکن بنائے۔
جناب محمد عمر انجینئر
چچا مولانا عبد الوہاب صاحب ریاضی رحمہ اللہ بے داغ شخصیت کے حامل تھے، تھوڑے سے وقت میں بہت ساری دینی معلومات سے واقف کراتے تھے، دعوتی و تعلیمی مزاج رکھنے والے چچا رحمہ اللہ کے حق میں مدرسہ خدیجۃ الکبری کی فارغات ان شاء اللہ ذخیرۂ آخرت ثابت ہوں گی ، علاقے میں پہلی نسواں درسگاہ کے قیام کا سہرا آپ کے سر پر ہے، جہاں کی تعلیم یافتہ بچیاں معاشرہ کو اسلامی رنگ دینے کا کام بھر پور کام کر رہی ہیں، علمی و دعوتی حوالے سے یہ خاندان اعلی وارفع ہے، اگر ان کے اولاد واحفاد اس سلسلے کو جاری و ساری رکھیں۔ واللہ ہو الموفق۔

No comments: