Monday, 9 March 2015

خود نو شت حالات زندگی --- مولانا عبدالوہاب ریاضی رحمہ اللہ

خود نو شت حالات زندگی
مولانا عبدالوہاب ریاضی رحمہ اللہ
نام و نسب 
عبدالوہاب بن محمد زکریا بن عید اللہ بن منور بن طہور
ولادت و نشاء ت:
میری ولادت ہندو نیپال کے سرحدی قصبہ جھنڈانگر میں ۱۹۳۱ء ؁ میں ہوئی، چونکہ خاندان دینی اور علمی مزاج کا حامل تھا اس لئے پرورش بھی اسی انداز میں ہوئی، جب عمر اس مقام پر پہونچی کہ جس میں بچے کے اندر سمجھنے اور بوجھنے کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے تو مجھے مکتب میں بٹھادیا گیا اور والد صاحب کی نگرانی میں تعلیمی سلسلہ شروع ہوا۔
تعلیم و تربیت:
والد محترم میاں محمد زکریا صاحب مرحوم جامعہ سراج العلوم کے استاد تھے اس لئے ان کی نگرانی میں تعلیمی سفر کا آغاز مذکورہ جامعہ ہی سے ہوا۔ یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جماعت ثانیہ کی تعلیم جامعہ رحمانیہ بنارس میں پائی، پھر ثانویہ کی تعلیم کے لئے درالعلوم ششہنیاں بھیج دیا گیا (دارالعلوم کا دوسراسال چل رہا تھا، بڑا چرچا تھا) اور وہیں رہ کر میں پڑھنے لگا۔ ان دنوں مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانیؔ کے علم و فضل اور دعوت و تبلیغ کا شہرہ تھا اور دارالعلوم ہی میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے تھے، لہذا ان سے اور دیگر اساتذہ سے کسب فیض کا نہایت سنہری موقع ملا۔ مرحوم رحمانی صاحب سے مشکوۃ المصابیح، مؤطا امام محمد مولانا محمد زماں رحمانی سے، ترجمہ قرآن مجید، فقہ، کتاب التوحید، کنز الدقائق اور تفسیرجلالین وغیرہ مولانا عبدالقدوس صاحب ٹکریا سے پڑھی۔ یہاں ثانویہ کی تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد مزید حصول تعلیم کی غرض سے دہلی کا سفر کیا اور وہاں ریاض العلوم میں داخلہ لیا، عا لمیت تک علمی پیاس وہیں بجھاتا رہا۔ حدیث، شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام صاحب بستوی، تفسیر مولانا سید تقریظ احمدسہسوانی اور ادب مولانا عبدالحکیم صاحب آئمی سے پڑھی، اس طرح ۱۹۵۰ء ؁ میں ریاض العلوم سے سند فراغت حاصل کرلی۔ فراغت کے بعد درس و تدریس میں لگ گیا۔
خاندانی پس منظر:
میرے والد کے دادا ہرکیسن بازار اترولہ کے باشندے تھے اور یہیں سے ہجرت فرماکر میرے دادا موضع بینت نار سدھارتھ نگر آئے تھے۔ بنیادی طور پر کاروباری آدمی تھے، مگر دور دراز کے علاقے جیسے مؤ، بنارس وغیرہ شہروں کے جلسوں میں جاتے تھے اور اسی کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام بھی انجام دیتے رہے، یہ سلسلہ زندگی کی آخری عمر تک چلتا رہا۔ ان کی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز ان کا اپنا علاقہ اور دیہاتی عوام تھے، خاص طور پر طیب پور، اس گاؤں میں ان کی دعوت و تبلیغ کا زبردست اثر ہوا حتی کہ وضع قطع کو بھی انہوں نے بدل دیا۔ دادا محترم نے ان لوگوں کے وہ لباس جو ہندو معاشرہ کے غلبہ کی وجہ سے ان کے اندر آئے تھے ان کی بھی ختم کردیا، ان کی دھوتیاں پھاڑ کر تہبند بنوادیا۔ طیب پوریہ وہ گاؤں ہے جہاں اس اصلاح کے بعد علماء و دعاۃ کی ایک ٹیم پیدا ہوئی جو دین کی دعوت میں سرگرم رہی اوربعض اس فریضہ کی ادائیگی میں آج بھی تندہی سے خدمت انجام دے رہے ہیں: جیسے مولانا زین اللہ رحمہ اللہ، مولانا حبیب اللہ رحمہ اللہ، مولانا عبدالسلام رحمانی، مولانا عبدالعزیز طیبی، مولانا نیاز احمد طیب پوری، مولانا محی الدین وغیرہم۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہندوستان باہمی رسہ کشی کے دور سے گزر رہا تھا، ہندو مسلم میں جھگڑے ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیت نار میں ہندو بلوائی گھس آئے، اس وقت دادا کی عمر تقریباً ۵۵؍ اور ۶۰؍ کے درمیان رہی ہوگی، انہوں نے گاؤں والوں کے ہمراہ لاٹھی لے کر ان کا جم کر مقابلہ کیا، بلوائیوں کا حملہ ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۳۱۴ھ ؁ کو ہوا تھا، پہلا مقابلہ اتنا جم کر ہوا کہ بلوائیوں کو مار بھگایا۔ دوسرے دن ۱۱؍ ذی الحجہ کو اور تیاری کے ساتھ بلوائی آئے، اس دن بھی مقابلہ ہوا بالآخر معلوم نہیں کس کی لاٹھی ان کو لگی کہ ان کو مالک حقیقی سے جا ملایا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ چوٹ کافی آئی تھی، غشی کی حالت میں ان کو پولیس کی نگرانی میں بستی لے جایا جارہا تھا کہ راستے ہی میں وہ انتقال کرگئے۔ بستی میں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اوربستی کی مسلم عوام نے ان کو جو عزت دی تھی اس کی بنا پر ان کو وہیں دفن کرنے پر بضد ہوگئے اور وہیں سپرد خاک کردیا۔
گاؤں اور علاقے میں ان کی بہت عزت تھی، علاقے کا زمیندار بہت عزت کرتا تھا۔
ان کے اکلوٹے بیٹے میرے والد محترم میاں محمد زکریاتھے، ان کی شہادت کے وقت وہ جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں زیر تعلیم تھے، والد کی شہادت سے بد دل ہوکر وہ گھر پر بیٹھے رہے، غالباً پانچویں یا چھٹی جماعت تک تعلیم پائی تھی۔ ان کو گھر بیٹھے پاکر گاؤں والوں نے گاؤں کے مکتب میں بٹھا دیا اور وہ درس و تدریس کی خدمات انجام دینے لگے۔ اسی زمانہ میں جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے مؤسس اور سرپرست حاجی نعمت اللہ خاں (مولانا عبدالرؤف رحمانی صاحب کے مرحوم والد) کو ایک معتبر عالم دین مدرس کی ضرورت تھی، لوگوں نے والد مرحوم کی طرف توجہ دلائی اور اسی دن بیت نار آدمی بھیج دیا۔ چونکہ دونوں خاندانوں میں گھریلو تعلقات تھے اس لئے ان کو انکار نہ کرسکے، لہذا گاؤں کا مکتب چھوڑ کر جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر سے منسلک ہوگئے۔ حاجی صاحب مرحوم نے فیملی کے ساتھ رہنے کا معقول انتظام کیا اور ۱۰؍ روپئے ماہانہ مشاہرہ متعین کردیا، پھر دھیرے دھیرے والد محترم نے یہیں مکان بنوالیا اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہیں میری پیدائش ہوئی۔ 
ہمارا اور مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کا ننہیال ایک ہی گاؤں میں تھا، ان دنوں ہماری والدہ اور مولانا عبدالرؤف صاحب کی والدہ تعلیم و تربیت ہمارے نانا میاں گوہر علی کے ذریعے پاتی رہیں اور دونوں سہیلی تھیں، حاجی نعمت اللہ خاں کا پورا خاندان جھنڈانگر ہی میں مقیم تھا، ہماری والدہ محترمہ بھی یہیں پر آگئیں، دونوں کے اکٹھا ہوجانے پر ہمارے اور مولانا عبدالرؤف صاحب کے گھریلو تعلقات میں مزید اضافہ ہوا، ایک زمانہ تک کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ دونوں دو خاندان ہیں۔
(نوٹ:) مولانا عبدالرؤف رحمانی صاحب کے حیات تک ہم سب باہم شیر و شکر رہے۔ وللہ الحمد
درس وتدریس:
فراغت کے بعد مدرس کی حیثیت سے مدرسہ نورالعلوم پکھربھٹوا کپل وستو، نیپال سے میں منسلک ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس مدرسہ سے منسلک ہونے میں مشفق استاذ مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانیؔ کا زبر دست ہاتھ تھا۔ میں سند فراغت لینے کے بعد بھائیوں کے ساتھ تجارت میں لگ گیا تھا، ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ استاد گرامی مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی رحمہ اللہ کا فرستادہ ان کا خط لے کر گھر پر آگیا جس میں انہوں نے مجھے مشفقانہ انداز میں طلب کیا تھا۔ والد صاحب اور بھائیوں سے مشورہ کرنے کے بعد میں ششہنیاں کے لئے روانہ ہوگیا، درالعلوم پہونچ کر مولانا رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی، پھر حکم ہوا کہ درس و تدریس کے لئے آپ کو جانا ہے۔ کہنے لگے کہ نیپالی کے باڈری علاقہ میں ایک موضع پکھربھٹوا ہے جو اب بریلویوں کے قبضے میں جاچکا ہے، میرے ایک دوست مولوی نور محمد شاہ نے مجھے سے تذکرہ کیا اور ایک معلم و داعی کا مطالبہ کیا، میں نے ان سے معلم و داعی دینے کا وعدہ کرلیا ہے اور میری نظر انتخاب میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے، لہذا وہاں جانا ہے۔ میری طبیعت دیہات میں جانے کو تیار نہ تھی جسے وہ بھانپ گئے، کہنے لگے کام شروع کرو، اگر طبیعت نہ جمے تو ہماری زندگی تک دارالعلوم کے دروازے تمہارے لئے کھلے رہیں گے۔ یہ ان کی ذرہ نوازی تھی۔
اللہ اللہ کرتے میں پکھربھٹوا پہونچ گیا اور درس و تدریس میں لگ گیا۔ ۱۹۵۰ء ؁ سے ۱۹۶۰ء ؁ تک تقریباً ساڑھے نو سال تک وہاں معلمی کے فرائض انجام دئے، پھر وہاں سے چلا آیا اور تجارت میں لگ گیا۔ ۱۹۶۵ء ؁ میں جامعہ سراج العلوم میں مدرس اعزازی کی حیثیت سے مقرر کیا گیا، لیکن یہ حیثیت مستقل نہیں تھی اور اس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں تھا۔ تیسری جماعت میں ترجمہ قرآن اور بلوغ المرام پڑھاتا رہا۔ اعزازی تدریسی حیثیت کی مدت دو برس تھی اور گاہے بگاہے کام کرنے کی مدت پانچ برس تک رہی، یہ سلسلہ ۱۹۷۱ء ؁ تک قائم رہا۔ ۱۹۷۲ء ؁ اور ۱۹۸۰ء ؁ کی درمیانی مدت میں الگا کپل وستو، نیپال مکتب اسلامیہ میں مدرس کی حیثیت سے رہا۔ یہاں تقریباً ۸؍ برس تک خدمات انجام دی۔ یہاں کے دو بزرگ میرے پاس تدریس اور خطبہ جمعہ کے لئے پیش کش لے کر آئے میں نے خوش دلی سے قبول کرلیا، الگا کا یہ مکتب عرصہ سے قائم تھا مگر اس کی کوئی مستقل عمارت نہ تھی، مسجد ہی میں پڑھائی ہوتی تھی، جب میں وہاں پہونچا اور لوگوں کی دلچسپی، خوشحالی اور طلباء کی کثرت دیکھی تو الگ سے مدرسہ کی عمارت کے لئے اپیل کردی، زمین کی فراہمی کا کوئی مسئلہ نہ تھا، مدرسہ کی زمین پہلے سے موجود تھی مگر لوگ کھلیان بنائے ہوئے تھے اور بوقت ضرورت بطیب خاطر خالی کردیا ایک ہی نشست میں عمارت کی تعمیر کا چندہ ہوگیا اور دوسرے دن تعمیری کام شروع ہوگیا جو چند ہی دنوں میں مکمل بھی ہوگیا مدرسہ کے قیام میں حاجی جوکھو، ضمیر اللہ، عظیم اللہ، حیثیت دار، حاجی محمد نیر، حاجی محب اللہ اور محمد ابراہیم وغیرہم کا زبردست ہاتھ رہا، پورا موضع اہل حدیث تھا، ان میں تین طرح کی کمیاں تھیں، نماز میں تساہلی، پردے کا عدم اہتمام اور تجارت میں تدلیس، ماشاء اللہ جلد ہی ان پر قابو پالیا گیا۔ ابھی میں وہیں پر تھا کہ جامعہ سراج العلوم کے ناظم مولانا عبدالرؤف صاحب رحمہ اللہ نے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور کدر بٹوا میں ایک میٹنگ کرکے بابو عبدالرشید، عبدالوہاب، عبدالرحمن اور عبدالمنان صاحبان نے قطعی فیصلہ کرلیا کہ بہر صورت مجھ کو یہاں لایا جائے بالآخر ناظم صاحب نے ہاتھی بھیج کر بلوالیا، میں الگاسے استعفیٰ دے کر جامعہ سراج العلوم میں آگیا اور دو سال تک مختلف امور انجام دیتا رہا کہ حاسدین کی نظر لگ گئی اور مستعفی ہوکر نکل جانا پڑا۔
میں یہاں ناظم تعلیمات اور ناظم امور عامہ تھا اس لئے یہاں کچھ تبدیلیاں کیں، پہلے پڑھنے کے لئے طلباء اساتذہ کے کمروں میں جاتے تھے، میں نے ان کو راضی کرکے درسگاہوں میں بھیجا، ناشتہ کا انتظام کرایا اور جامعہ کے صحن میں اینٹوں کی جوڑائی کراکے اس میں وسعت دی۔
۱۹۸۱ء ؁ سے ۱۹۸۳ء ؁ تک المعہد الاسلامی تولہوا میں معلمی کے فرائض انجام دئے۔ مسجد کی تعمیر اور پانچ کمروں کی تعمیر میرے زیر نگرانی عمل میں آئی الحمدللہ۔
دعوت و تبلیغ:
جامعہ ریاض العلوم دہلی میں تعلیم کے دوران جب عیدین کی چھٹیوں میں گھر آتا تو بہت کوفت ہوتی تھی ، ہم جھنڈانگر کے اہل حدیث موضع لچھمی نگر بریلوی امام کے پیچھے نماز عیدین پڑھتے تھے ، ۱۹۴۷ء میں عید کے موقع پر میں نے لوگوں سے مشورہ کر کے جامعہ سراج العلوم کی چھت پر اہالیان جھنڈانگر کی امامت کی اور خطبہ دیا، جھنڈانگر کی تاریخ میں یہ پہلی عید کی نماز تھی، لوگ بہت خوش تھے پھر یہ سلسلہ بندھ گیا اور آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی جھنڈانگر آنے لگے۔
باضابطہ تدریسی و تبلیغی دونوں سرگرمیوں کا آغاز پکھربھٹوا سے ہوا اور شاید مولانا عبدالجلیل صاحب رحمانی رحمہ اللہ تدریس سے زیادہ تبلیغ کو اہمیت دئے ہوں گے، اس لئے کہ پکھر بھٹوا کی دینی حالت ابتر تھی، میں وہاں پہونچا، حالات سے آگاہی کے بعد طبیعت بہت گھبرائی، ادھر گاؤں والوں کی بگڑی ہوئی مذہبی حالت تھی، جس میں شرک اور دیگر مشرکانہ امور مسلم عوام بے دھڑک انجام دے رہے تھے، ادھر میں نوجوانی کی عمر میں اور عملی زندگی میں پہلا قدم ہونے کی وجہ سے کافی پریشان ہوا، لیکن حالات سے مقابلہ کو ٹھان لیا۔ میں چونکہ ابھی نوجوان تھا اس لئے پہلے نوجوانوں سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور ان کو جلد ہی رام کرلیا پھر گاؤں کے دیگر بزرگوں سے بھی راہ و رسم بڑھائی، جب ادھر سے اطمینان ہوا تو اصل مقصد کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
اس وقت پکھر بھٹوا اورقرب و جوار میں بریلویت کا عفریت راج کررہا تھا، شرک و بدعات اور ہندوانہ رسم و رواج کا بول بالا تھا۔ مجھے مولوی نور محمد شاہ کی دعوت پر رحمانیؔ صاحب رحمہ اللہ نے وہاں بھیجا تھا، وہ اہل حدیث ہونے کے باوجود ان ہی کے رنگ میں رنگ کر رہ گئے تھے اور بریلویوں کے ہم نوا ہوگئے تھے۔ عید میلاد میں برابر شریک ہوتے، تعظیم کرتے، بلکہ فاتحہ بھی وہی پڑھا کرتے تھے۔ ان حالات میں قرآن و حدیث یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ بڑا دشوار امرتھا، لیکن جوانی کے جذبے نے کام کیا اور کامیابیوں نے میرے قدم چومے۔ فللہ الحمد
اس وقت پکھر بھٹوا میں ایک کھپڑیل کی مسجد تھی اور وہی مدرسہ بھی تھا، پورے گاؤں میں صرف تین نمازی تھے، پیر محمد مہتو، حاجی شکر اللہ اور حاجی حبیب اللہ۔ ان کا خلوص بھرا پیار مجھے ملا۔ اب دعوت کا کام شروع ہوچکا تھا اور لوگ متاثر ہورہے تھے، عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور دعوتی کاموں میں تقویت ملتی جارہی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں یہاں میری آمد کی خبر علاقے میں پھیل گئی چونکہ پورا علاقہ بریلویت زدہ تھا، لوگوں کو برداشت نہ ہوا، مجھے مٹانے کی تدبیریں کی جانے لگیں۔ ایک مرتبہ تولہوا جو کہ بریلویوں کا مرکز تھا وہاں کی مسجد کے امام عبدالرحمن میاں اپنے ہمراہوں کے ساتھ مناظرہ کی غرض سے آئے، میں مناظرہ کرنے سے گھبرا رہا تھا، کیوں کہ گاؤں ہی کے کچھ لوگ بلا کر لائے تھے۔ بہر حال ان کو عزت سے بیٹھایا، خاطر و مدارات کی، ظہر کا وقت تھا، ان کو امامت کے لئے آگے بڑھایا، اس وقت تک تقریباً چالیس نمازی ہوچکے تھے، اس لئے مسجد میں کافی لوگ جمع ہوگئے۔ نماز ختم کرنے کے بعد انہوں نے کچھ سوالات کئے، چونکہ میاں عبدالرحمن صاحب کم پڑھے لکھے تھے، موقع دیکھ میں نے ان سے کہا! حضرت آیات کا ترجمہ کون کرے گا اور آپ بتائیں کہ حدیث کی تعلیم کہاں تک پائی ہے؟ وہ اپنی کم علمی پر کافی شرمندہ ہوئے، پھر میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ پکھربھٹوا میں آپ دعوت و تبلیغ کے لئے کتنی بار آچکے ہیں، اسی طرح کئی اور سوالات کئے، ان کی ہمت نے جواب دے دیا۔ پھر میں نے کہا، میرے مقابلہ میں کسی بڑے عالم کو لے کر آؤ، وہ اپنا سا منہ لے کر چلے گئے اور گاؤں والوں میں میری دھاک بیٹھ گئی۔ کئی برسوں کے بعد ایک مرتبہ پھر آئے، ارادہ تھا کہ مجھے اجاڑ دیں گے، چونکہ تب تک میری کارکردگی بہت آگے جاچکی تھی، چہ جائیکہ وہ کچھ کہتے میرے کام سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ میری زبردست فتح تھی۔
پھر کچھ دنوں بعد تولہوا کی مسجد میں میاں صاحب سے ملاقات ہوگئی، چائے پانی کرائے اور نہایت ہی لجاجت کے ساتھ رات ٹھہرنے کی دعوت دی، جسے میں ٹھکرانہ سکا، دوسرے دن فجر بعد میاں صاحب کی دعاؤں کے ساتھ میں مدرسہ واپس آگیا۔
ایک رات گاؤں رنگ پور میں دعوت ہوئی، بغیر میلاد پڑھے کھانا کھانے کے بعد تقریری پروگرام ہوا، مگر وہاں قیام نہیں ہوا، جب وہاں کے عہدیدار رمضان میاں کو خبر لگی دوڑے دوڑے آئے، کہنے لگے مالود نہیں ہوئی کیا؟ پھر سے پڑھی جائے، چونکہ اس وقت میں رنگ پور میں موجود تھا، ان کی نہ چلی، لیکن بعد میں دوسرے دن جب کہ میں موجود نہیں تھا ان لوگوں نے میلاد کیا۔
ایک مرتبہ مولانا نور محمد کی دعوت پر ان کی میلاد میں شریک ہوا، جب تعظیم کا وقت آیا تو انہوں نے کھڑے ہوکر تعظیم کیا، میں کھڑا نہیں ہوا، لوگوں نے تعظیم کی اور معروف درود و سلام بھی پڑھا۔ میرا نہ کھڑا ہونا ان کے لئے کسی عجوبے سے کم نہ تھا، لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے اور بھر پور نفرت کا اظہار کیا لیکن میرے نوجوان دوست آڑے آئے۔ انہوں نے گاؤں والوں کو سمجھا بجھا کر مجھے بات کرنے اور اپنے عقیدے کے اظہار کا موقع فراہم کرایا، میں نے قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں عید میلاد کی حقیقت واضح کی،مولوی نور محمد شاہ صاحب اہل حدیث ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ مخالفت نہ کرسکتے تھے، پھر گاؤں والوں نے ان سے میری شکایت کی، جس پر وہ خاموش رہے، اس سے میرا حوصلہ بڑھا، گویا کہ میری فتح ہوئی، نوجوانوں کی حمایت میں شدت آگئی۔ اسی طرح دھیرے دھیرے تعزیہ داری، فاتحہ خوانی، قرآن خوانی اور طرح طرح کے غیر دینی امور کا قلع قمع ہوا۔
الحمدللہ ساڑھے نو برس کی دعوت و تبلیغ کا نمایاں اثر ہوا اور آج پورا گاؤں اہل حدیث ہے۔
جب میں وہاں پہونچا تھا تو کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں تاشہ، جھانجھ، ڈھولکی اور ڈھولک نہ ہوں۔ گاؤں مکمل طور پر شرک و بدعات سے گھرا ہوا تھا، جمعہ کے علاوہ لوگ کوئی نماز نہ پڑھتے تھے۔ دعوتی کام کے پیش نظر میں اپنے دادا سے وراثت میں ملی دو کتابیں تلخیص الصباح اور ریاض الصالحین اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھا ان سے تبلیغی کاموں میں بڑی مدد ملی۔
۱۹۵۲ء ؁ میں بسنت پور میں سالم مستری نامی تاجر کے یہاں ایک تبلیغی پروگرام ہوا، میں تقریباً ۱۵؍ افراد کے ہمراہ بعد نماز مغرب بسنت پور پہونچا، شرک و بدعات کا سب سے بڑا مرکز یہیں قائم تھا، کئی مواضعات کے لوگ یہاں اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ جس روز کہ وہاں تبلیغی پروگرام تھا اس دن بھی لوگ اکٹھا تھے مگر جب لوگوں نے یہ سنا کہ مولانا صاحب کچھ افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں تو وہ اپنے تمام آلات شیطانیہ لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ خرافات ختم ہوگئی، سالم صاحب کے یہاں تقریری پروگرام ہوا، تقریباً ایک گھنٹہ مختلف موضوعات پر میں نے تقریر کی، عورتوں کی کثرت رہی، افراد مجلس کافی متاثر ہوئے۔
ایک واقعہ یہاں بڑا عجیب و غریب ہوا، ہوا یوں کہ ایک نوجوان فقیر آیا جو داڑھی نہیں رکھے ہوئے تھا اور نوجوانوں میں اسی کی تبلیغ بھی کررہا تھا، وہ کہتا تھا کہ قرآن میں داڑھی رکھنے کا تذکرہ نہیں ہے اس لئے داڑھی رکھنا جائز نہیں، مجھے باوثوق ذرائع سے خبر ملی، چند افراد کے ساتھ لاٹھی لے کے پہونچا، محفل گرم ہوئی، مناظرہ ہوا، میں نے وہاں (ما آتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا) آیت کی تشریح کرتے ہوئے احادیث ’’اعفوا اللحیٰ‘‘کے ذریعہ داڑھی کی مشروعیت ثابت کی، وہ بغلیں جھانکنے لگا پھر اس سے کبھی نہ آنے کا وعدہ لے کر گاؤں سے نکال دیا، جب تک میں وہاں رہا وہ نہ آیا۔
ایسے ہی ایک واقعہ پکھر بٹھوا میں پیش آیا تھا۔ میں مسجد میں بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ ایک شخص فقیرانہ لباس میں آیا، اس کے سرپر بڑے بڑے بال تھے، عجیب کریہہ آواز میں نعرہ لگا رہا تھا، میں نے اسے چھیڑا، تو بابا ذرا ٹھہرا ،اور کہا ’’ بابا کو مت چھیڑ! ورنہ جل جائے گا‘‘ اور آگے بڑھ گیا، اسی طرح میں نے تین مرتبہ اس کو چھیڑا اور وہ وہی جواب دیتا رہا، آخر میں مسجد میں آکر وہ عجیب انداز میں بیٹھ گیا اور اپنے شیطانی بال بکھیر کر بولا ’’ بچہ اپنی جوانی پر ترس کھا پہونچے ہوئے فقیر کو چھیڑے گا تو جل جائے گا‘‘۔
اس منظر کو دیکھ کر کافی مرد اور عورتیں اکٹھا ہوگئیں، عورتیں رونے لگیں، لوگ کہنے لگے، بابا کو جانے دو، وجہ یہ تھی کہ سب کا عقیدہ کمزور تھا اس لئے وہ لوگ ڈر گئے تھے، میں نے اس سے کچھ سوالات کئے، ظاہر سی بات ہے وہ بابا صرف ڈھونگ رچا رہا تھا، جواب نہ دے سکا پھر میں نے وہیں اسے غسل کرایا، دو رکعت نماز پڑھوائی اور رخصت کردیا۔
ایسے ابھی بہت سارے واقعات ہیں جنہیں لکھا جاسکتا ہے، مگر طبیعت یہی کچھ لکھنے کو تیار نہ تھی، عزیزوں کی بہت گزارشات کے بعد چند سطور رقم کردئے ہیں، ممکن ہے کسی کو فائدہ پہونچ جائے اور کسی کی نگاہ منتج اپنی دعوتی سرگرمیوں کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرلے۔
پکھر بھٹوا سے واپسی:
پکھر بھٹوا میں درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے ساڑھے نو برس ہوچکے تھے۔ معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر والد ماجد صاحب اور بھائیوں نے مجھ سے وہاں سے واپس آنے کی بات کہی۔ اس مدت میں اپنی کوششوں، محبتوں اور سرگرمیوں سے میں نے علاقے اور گاؤں والوں کے دل جیت لئے تھے اور ان کے پیار اور محبت کی زنجیروں نے پاؤں باندھ رکھا تھا۔ بچوں اور نوجوانوں سے قلبی انسیت باربار دامن تھام لیتی تھی، لیکن ان تمام تعلقات سے دامن جھاڑ کر پھر سے خاندان والوں سے جا ملنا تھا، میں دو طرفہ تعلقات میں پڑا ہوا تھا، پھر بھی گھر والوں کے اصرار بسیار پر میں مجبور ہوگیا اور ایک دن چشم پر نم لیکر اپنے پیچھے برسوں کے تعلقات کو چھوڑ کر نکل پڑا، میرے پیچھے گاؤں والوں کا ایک ہجوم تھا، ہندو، مسلم، مرد، عورت اور بچے سب زارو قطار رورہے تھے اور نہ جانے کی التجائیں کررہے تھے، دل کو لاکھ کڑا کرنے کی کوشش کی، پر کامیابی نہ مل سکی، گاؤں والوں کی جیت ہوئی میں ہار گیا اور بھائی محمد رفیع پسر پیر محمد مہتو کے مشورہ پر گاؤں واپس آگیا۔ پھر رات کے تقریباً تین بجے یہ گمان کرکے بیل گاڑی پر سوار ہوکر نکل پڑا کہ اب تو ساری دنیا محو خواب ہے کوئی بھی دامن تھامنے والا نہیں اور جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ۱۵؍ ۲۰؍ آدمی چلے آرہے ہیں اور کھنوا بارڈر تک پیچھے پیچھے چلے آئے، اس مرتبہ مجھ پر لطیف جذبات کا کنٹرول نہ تھا جس میں آدمی مجبور ہوجایا کرتا ہے، بلکہ عقل کی بے پناہ ظالم طاقت کی حکمرانی تھی جو اشک عقل و شعور کی بنیاد پر پلکوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے تنہائی میں آکر ان پر جذبات غالب آگئے اور وہ بہہ پڑے۔ بہر حال اب میں پکھر بھٹوا چھوڑ چکا تھا اور کشاں کشاں گھر کی طرف چل رہا تھا۔
آج سے تقریباً ۵۵؍ برس پہلے پکھر بھٹوا والوں سے جو تعلق قائم ہوا تھا اس کا سر رشتہ آج تک برقرار رہے، گاہے گاہے آج بھی آنا جانا لگا رہتا ہے، جو تعلق ان کا میرے ساتھ ہے اس میں بعد منزل حارج نہیں ہوا۔
جن دنوں میں پکھربھٹوا میں مدرسی کے کام پر معمور تھا وہاں سے کئی مواضعات میں دعوت و تبلیغ کرنے کا موقع ملا مثلاً بسنت پور دونوں ڈیہہ، دل دلہا، پرسوہیا، ببھنی، لہرولی، بھاؤ پور،( بلک ڈیہہ، پپرہوا، گنوریا، بیدولی وغیرہ) عموماً یہ تمام مواضعات بریلویوں کے مرکز مانے جاتے تھے، لیکن یہاں کے لڑکے میرے شاگرد تھے اس لئے دعوت و تبلیغ سے کافی فائدہ ہوا خصوصاً پکھربھٹوا، بسنت پور اور دل دلہا، یہ تینوں مواضعات اہل حدیث ہوگئے اور آج بھی اسی پر ثابت قدم ہیں۔ الحمد للہ ہر جگہ اپنی مسجد ہے۔
دیگر سرگرمیاں اور ذمہ داریاں:
تعلیم مکمل کرنے کے بعد تجارت میں لگ گیا تھا اور تجارت ہی چھوڑ کر پکھر بھٹوا تدریس کے لئے گیا تھا۔ جن دنوں کہ میں پکھربھٹوا میں مدرسی کے فرائض انجام دے رہا تھا وہاں سے تولہوا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا، والد ماجد کے شاگرد اور ہمارے ساتھی وہم سبق راحت خاں کے والد محترم رکّوع خاں چے پوروا ، وہ وہاں رہتے تھے، بڑے باوقار اور سنجیدہ آدمی تھے، وہ اپنے یہاں ایک مکتب کے قیام کی چاہت رکھتے تھے مگر کم علمی کی وجہ سے قائم نہ کرسکے تھے۔ جب میں پکھربھٹوا چھوڑ کر جامعہ سراج العلوم میں آگیا اور دو سال پورے ہوگئے تو ناظم اعلیٰ مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی نے تولہوا میں ایک مسجد اور اس سے ملحق پانچ کمروں کی تعمیر کا پروگرام بنایا اور اس کی تکمیل تعمیر کے لئے مجھ ناچیز کا انتخاب کیا، اس منصوبے کے ساتھ ایک مدرسہ کا قیام بھی تھا، پہلے مسجد اور پھر مدرسہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح رکوع خاں کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔
منصوبے کی تکمیل میں دو برس لگ گئے، یہاں کے حالات بہت نامناسب تھے رات و دن کی بے پناہ مشقت میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، کام پورا ہوگیا۔ مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا کام عزیزم مولانا محمد ہارون کی نگرانی میں ہوا اور روپیہ ناظم صاحب کی معرفت سے ملتا رہا۔ مدرسہ میں مکتب سے لے کر جماعت ثانیہ تک کی تعلیم کا انتظام ہوا اور مولوی عبدالرحمن انتری بازار، ماسٹر محب اللہ املیا اور احقر کی نگرانی میں پڑھائی شروع ہوئی۔ جب دو سال پورے ہوگئے تو ایک سازش کے تحت سالانہ میٹنگ میں مکتب کا صدر مدرس بنانے کے بہانہ سے مجھے الگ کردیا گیا، اس میں اپنے کچھ عزیزوں کا ہاتھ تھا اللہ تعالی انہیں معاف فرمائے۔
شاید اس فیصلہ میں اللہ کا ہاتھ کام کررہا تھا کہ وہاں سے الگ ہونے کے فوراً بعد۱۹۸۸ء ؁ میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کا قیام عمل میں آیا۔
تولہوا سے آنے کے بعد 1960ء ؁ سے 1972ء ؁ تک بڑھنی بارڈر پر کپڑے کی دوکان سنبھال لی، ۱۹۷۸ء ؁ سے ۱۹۸۱ء ؁ تک جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں ناظم تعلیمات کی حیثیت سے رہا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر امور کی نگرانی بھی میرے ذمہ تھی جسے میں حتی المقدور پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ۱۹۸۳ء ؁ تا ۱۹۸۸ء ؁ تک معاون تجارت کی حیثیت سے بچوں کے کاروبارکی نگرانی میں لگا رہا۔
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کا قیام:
اس درمیانی مدت میں حالات معاشرہ کا بغور مطالعہ کرتا رہا، خصوصاً اپنے قرب و جوار کا، میں نے دیکھا کہ بچوں کی تربیت و تعلیم کا تو قدرے انتظام ہے مگر بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں، لہذا کسی ایسے ادارے کی ضرورت کا احساس ہوا، جس میں بچیوں کے لئے بہتر انتظام ہو، انہیں اچھی تعلیم فراہم ہوسکے اور ساتھ ساتھ تربیت اور دست کاری سے بھی سنوارا جاسکے۔ اسی احساس کے پیش نظر میں نے ۱۹۸۸ء ؁ میں مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کا سنگ بنیاد رکھا۔
مدرسہ کے قیام میں میرے صاحبزادے عبدالنور سراجی نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور ڈاکٹر اسرارالحق، ڈاکٹر انوار، بھائی عبدالوہاب خاں کدربٹوا اور مولانا عبدالرحمن صاحبان نے کافی مدد کی، میرے حقیقی بھائی منشی عبدالتواب نے ۷؍ کمروں پر مشتمل دو منزلہ عمارت تین برس کے لئے مدرسہ کے واسطے وقف کردیا۔ مدرسہ کھل گیا اور مکتب سے لے کر چوتھی جماعت (ثانویہ)تک کی بچیوں کا داخلہ شروع ہوگیا اور اس کی ذمہ داری عزیزی گرامی قدر شیخ عبداللہ عبدالتواب مدنی نے اٹھالی۔
اس مدت میں مدرسہ کی اپنی عمارت کی تعمیر ہوتی رہی جب تعمیر مکمل ہوگئی تو ۱۴۰؍ بچیوں کو جو اس وقت وقف مؤقت کی عمارت میں رہ رہی تھیں مدرسہ کی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔
مدرسہ کی تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ عزیزم مولانا عبدالمنان صاحب سلفیؔ سلمہ اللہ کا ہے اس کی دیواروں میں ان کا خون جگر شامل ہے، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ خدیجۃ الکبریٰ کو موجودہ صورت عطا کرنے کا سہرہ انہیں کے سرجاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے چار پانچ سال تک قربانیاں پیش کرکے مدرسے کو ترقی عطا کی مگر سوئے قسمت معمولی اختلاف کی بنیاد پر ان کو مدرسہ سے الگ ہونا پڑا۔ ’’ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘
یہاں سے جانے کے بعد عزیزم کو جامعہ سراج العلوم نے سر آنکھوں پر بٹھایا، وکیل الجامعہ کا منصب اور ’’ ماہنامہ السراج‘‘ کی ایڈیٹری کے ساتھ استقبال کیا گیا، وہاں پہونچنے کے بعد انہیں دنیا نے ڈھیر سارے اعزازات سے نوازا۔
اس وقت سے لے کر تادم تحریر میں اس مدرسہ کی نگرانی اور اس میں تدریسی امور انجام دے رہا ہوں۔ موضع سمرا میں جمعہ کا خطبہ دے رہا ہوں، آج مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ پورے نیپال میں سب سے قدیم نسواں اقامتی ادارہ تسلیم کیا جارہا ہے، جس میں تقریباً ۴۵۰؍ بچیاں قیام کرتی ہیں اور پڑھنے والی کل بچیوں کی تعداد ۷۰۰؍ ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے ۱۹۹۰ء ؁ میں مع اہلیہ حج بیت اللہ شریف ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔دوبارہ ۲۰۱۲ء میں خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ آل سعود حفظہ اللہ کی ضیافت میں حج کی ادائیگی کا موقع ملا،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کو دیکھنے کی برسوں کی خواہش اسی سفر میں پوری ہوئی۔ 
اساتذہ اور شاگرد:
یوں تو تعلیمی زندگی میں بہت سارے اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا اور میری زندگی میں ہر ایک اثر انداز ہوئے، لیکن تمام کا نام تو نہیں شمار کرایا جاسکتا، ہاں البتہ جن سے بہت کچھ سیکھا اور ابھی تک ان کی سیرت و کردار کا اثر اپنے اندر پاتا ہوں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: والد محترم میاں محمد زکریا رحمہ اللہ، مولانا عبدالرحمن بجواوی، مولانا عبدالرؤف رحمانی، مولانا محمد زماں رحمانی، مولانا عبدالجلیل رحمانی، مولانا عبدالقدوس، مولانا عبدالشکور دور صدیقی، مولانا عبدالسلام بستوی، مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی، مولانا عبدالحکیم آئمی وغیرہم ، ان اساتذہ کرام نے ڈھیر سارا لاڈ پیار بھی دیا اور تربیت سے بھی نوازا۔
جس طرح اساتذہ کی فہرست بڑی طولانی ہے اسی طرح شاگردوں کی فہرست بھی لمبی ہے، ان میں سے کچھ لوگوں نے امت کی فلاح کے لئے کام کرنے کے ساتھ ساتھ شہرت بھی حاصل کی اور بفضل اللہ آج بھی کام کررہے ہیں۔ ان میں چند یہ ہیں:
مولانا محمد مصطفی مدنیؔ ، مولانا عبدالعزیز مدنیؔ ، مولانا شکیل مدنیؔ ، مولانا محمد ابراہیم مدنیؔ ، مولانا سکندر علی اور مولانا نثار احمد ،جناب قطب اللہ صاحب ایڈیٹرروزنامہ راشٹریہ سہارا وغیرہم۔
آل اولاد:
میری شادی بلوغت کے بعد ہی والد بزرگوار نے کردی تھی، علاقہ کے جید عالم دین اور بزرگ ہستی مولانا محمد زماں صاحب رحمانی کی صاحبزادی سے عقد نکاح کردیا گیا اور ما شاء اللہ یہ رشتہ بہت ہی خوشگوار ماحول میں نبھا۔ ۷؍ ستمبر ۲۰۰۷ء کوبمشےئت الہی ام سعید نے ساتھ چھوڑ دیا اور خالق حقیقی سے جا ملیں،میرے لئے انتہائی تکلیف دہ حادثہ تھا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ہمیں جنت میں جمع کرے (آمین)۔ میری چار اولاد ہیں اور سب بقید حیات ہیں، سب سے بڑے لڑکے مولانا ڈاکٹر سعید احمد اثریؔ (بی. یو. ایم. ایس لکھنؤ) ان کی ۹؍ اولاد ہیں تین بچے اور چھ بچیاں، دوسرے لڑکے مولوی عبدالنور سراجیؔ ہیں جو تکمیل تعلیم کے بعد تجارت سے منسلک ہوگئے اور ابھی تک اسی میں لگے ہیں، ان کی ۱۰؍ اولاد ہیں ۶؍ بچے اور ۴؍ بچیاں، ان کے سب سے بڑے لڑکے اور میرے پوتے مولانا عبد ا لصبور ندویؔ جو جامعہ الملک سعود ریاض کے متخرج ہیں اور ملک میں دعوتی، تنظیمی امو ر کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی نشر و اشاعت کے لئے کئی اداروں سے وابستہ ہیں۔ تیسرے لڑکے مولانا محمد اکرم عالیاوی ہیں، ان کے۱۱؍ اولاد ہیں اور چوتھی اولاد بیٹی کی شکل میں مجھے ملی جو میری تیسرے نمبر کی اولاد ہے اور مشہور عالم دین مولانا عبدالمنان سلفیؔ کی رفیق حیات ہے۔
ہم پانچ بھائی تھے سب بھائی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، سب سے بڑے بھائی مولانا ابوالبرکات رحمانی، ؔ جوعمر بھر درس و تدریس میں لگے رہے، ۹۰ برس کی عمر میں انتقال کرگئے، پھر منشی عبدالتواب صاحب، والد مولانا عبداللہ مدنیؔ ہیں جو متدین تاجر تھے، تقریبا ۸۲ برس کی عمر پائی،پھر میں یعنی عبدالوہاب ریاضیؔ ۔ پھر مولوی عبدالرحمن فیضی ؔ عمر بھر تجارت سے وابستہ رہے تقریبا ۶۵ برس کی عمر انتقال کرگئے، او ر سب سے چھوٹے بھائی بابو عبید الرحمن 62؍ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ رحمہم اللہ۔

No comments: