Wednesday, 30 January 2013

بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟

بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟
منصور مہدی

ہمارے معاشرے میں ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی بھی خاندان میں عورت کے یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی کا سارا الزام انہی دو عورتوں پر رکھا جاتاہے۔اگرچہ ان جھگڑوں میں ایک تیسرا کرادر بھی ہوتا ہے اور وہ شوہریا بیٹا ہوتا ہے۔لیکن وہ ان لڑائی جھگڑوں میں زیادہ ترسامنے نہیں آتا ۔ یہ جھگڑے بسا اوقات سنگین بھی ہو جاتے ہےں۔ ان جھگڑوں سے خاندان کے تمام افراد کا ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے اور اکثر بات زبانی تکرار سے نکل کر مار کٹائی اور اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں طلاق اور قتل جیسے واقعات سرزد ہوجاتے ہیں۔
اس بار نئی بات خواتین میگزین نے اس اہم موضوع پر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے رائے لی۔ 50فیصد لوگوں نے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ ساس کو قرار دیا تو 40فیصد نے کہا کہ ان کی وجہ بہو ہوتی ہے لیکن 10فیصد لوگوں نے ان جھگڑوں کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیا۔
ماہر نفسیات منتہیٰ احمد کا کہنا ہے کہ ساس اور بہو کے درمیان ہونے والے یہ جھگڑے جب طول پکڑتے ہیں اور روزنہ کا معمول بن جاتے ہیں تو ان کے بچوں پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیںجو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ پھر جب ایسے جھگڑوں کے نتیجے میں خاندان جدا ہوتے ہیں، میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے تو ہر متعلقہ شخص شدید طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی گھر میں ہونے والے ان جھگڑوں کے بارے میں کوئی اصولی بات بتانا ممکن نہیں بلکہ ہرگھر کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ہر انسان اپنی تربیت، طبعیت اور عادت میں مختلف ہوتا ہے، اس لیے کوئی اصولی بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ کس گھر میں جھگڑے کی وجہ کیا ہوتی ہے البتہ کچھ عمومی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیال اگر رکھا جائے تو معاملات خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں۔عام طور پر ہمارے ہاں اس طرح کے مسائل کا آغاز شادی کے فوراً بعد ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔وہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی پس منظر میں شادی کے بعد لڑکی کو اپنا گھر چھوڑ کر سسرال میں جاکر رہنا ہوتا ہے۔ایک لڑکی کے لیے یہ نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اس کے ذہن میں اپنے گھر اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک تصور ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ لڑکی ایک مرد کی بیوی کم اور ایک دوسرے خاندان کی بہو زیادہ ہوتی ہے اور یہی سوچ لڑائی جھگڑوں کی ابتدا بنتی ہے۔
ڈاکٹر فرح قریشی نے اس حوالے سے کہا کہ اصل میں ہمارے معاشرے میں جب ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک نئی زندگی شروع نہیں کر رہی ہوتی بلکہ ایک خاندان کا حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اس خاندان کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں، ملنے جلنے اور لینے دینے کے آداب ہوتے ہیں۔ معاملات طے کرنے کااپنا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ جبکہ آنے والی لڑکی، چاہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ایک مختلف پس منظر سے آتی ہے۔ اب اگر وہ لڑکی اس حقیقت کو سمجھ لیتی ہے اور خود کو نئے حالات میںڈھال لیتی ہے تو زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو جھگڑے شروع ہونا لازمی بن جاتا ہے۔اس حوالے سے چاہیے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو سکھائے کہ ہماری سوسائٹی مغربی معاشرے کی طرح نہیں جہاں لڑکا اور لڑکی اپنی زندگی کاخود آغاز کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں لڑکی کو شوہر کے ساتھ سسرال کے طور طریقوں کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے۔جس لڑکی کو اس بات کی سمجھ ہوتی ہے، وہ عام طور پر بہت کامیاب زندگی گزارتی ہے۔
پروفیسر مسز فرخندہ امین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ایک ساس خود برے حالات سے گزری ہوتی ہے۔ اس نے اپنی سسرال اور ساس کی طرف سے اچھے معاملات نہیں دیکھے ہوتے، اس لیے وہ طے کرلیتی ہے کہ وہی کچھ بہو کے ساتھ بھی لازماً ہونا چاہیے۔ مگر زمانہ چونکہ بیس پچیس سال آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اس لیے ساس کے برخلاف نئے زمانے کی بہو زبردست مزاحمت کرتی ہے اور پھر جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک خاتون کو اس کی ساس نے میکے جانے سے روکا ہوتا ہے تو وہ بھی اکثر یہی کچھ اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اس پر کام کاج کا تمام بوجھ ڈال دیا گیا ہوتا ہے تو یہی کچھ وہ بھی اپنی بہو کے ساتھ کر دیتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جو کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا ہے، اگر وہ اس وقت اس کے لیے برا تھا تو بیس پچیس سال بعد اس نئے زمانے کی لڑکی کے لیے یہ زیادہ ناپسندیدہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پھر ان جھگڑوں میں نندوں اور بڑی جیٹھانیوں کا بھی بہت کرادار ہوتا ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نندیں شروع میں تو بھابھی بھابھی کرتی رہتی ہیں مگر جب بھابھی اور بھائی میں انڈرستینڈنگ بڑھتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ بھابھی نے ہمارا بھائی چھین لیا اور پھر یہاں سے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح جیٹھانیاں جو پہلے سے اس گھر میں موجود ہوتی ہے اور یہاں کے طور طریقوں سے آشنا ہو چکی ہوتی ہے وہ اس گھر میں آنی والی نئی عورت کو عموماً پسند نہیں کرتی۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو کم عمری دوسری خوبصورتی تیسرے تعلیم اور ایسی ہی دیگر باتیں جو جیٹھانی میں موجود نہ ہوں۔ پھر خاص طور پر شادی شدہ نندیں ان جھگڑوں میں اہم کرردار ادا کرتی ہیں ۔ ان کے ساتھ ان کے سسرال میں جو برتاﺅ ہوتا ہے وہی وہ اس نئی نویلی دلہن کے ساتھ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ اگر نئی آنے والی لڑکی کی ذمہ داری ہے تو بہرحال سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ لڑکی اپنا گھر بار اور رشتہ دار چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا تصور لے کر اِس گھر میں آئی ہے۔ اسے فوری طور پر احتساب کی سولی پر چڑھا دینا زیادتی ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ نئے حالات میں ایڈجسٹ کرسکے۔ اس دوران میں اس سے غلطیاں ہوں گی، وہ بھول کا شکار بھی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ناپسندیدہ معاملہ بھی کربیٹھے لیکن اسے رعایت ملنی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر ایسا نہیں ہو پاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل سید محمد ثقلین جعفری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سب سے بڑی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین بیٹیوں اور بہوو ¿ں کے لیے الگ الگ معیار رکھتی ہیں۔حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسرے کے لیے پسند کرو۔ یہ بات اگر خواتین ذہن میں رکھیں اوروالدین یا ساس جو اپنی بیٹی کے لیے چاہتی ہیں، وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے بھی چاہے، جو اب ان کی بہو ہے۔ ان کی بیٹی کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ اس نئی لڑکی سے لینا مناسب نہیں ہے۔ ظلم اگر ان کے ساتھ ہوا ہے، ماں باپ کی جدائی کا غم اگر انہوں نے اٹھایا ہے، شوہر کی بے رخی کا صدمہ اگر انہوں نے سہا ہے تواس میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کا حساب اس نئی لڑکی سے لیا جائے۔بلکہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ایک نئی اور اچھی روایت کا آغاز کریں۔
پیپلز لائررز فورم کے صدر اور لاہور بار کے سابق سنیئر نائب صدر شاہد حسن کھوکھر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گھریلو جھگڑوں کا ایک اہم سبب اکثر وہ مرد ہے جو ایک طرف ایک خاتون کا شوہر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ایک طویل عرصے سے کسی اور کا بیٹا اور بھائی ہوتا ہے۔ جھگڑے کا سبب بارہا یہ ہوتا ہے کہ اس مرد پر کس کے حقوق زیاد ہ ہیں۔ بیوی کے یا ماں کے۔ اس مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی چاہیے۔ لڑکی کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو لڑکا آج اس کا شوہر بنا ہے، وہ عرصے سے ایک دوسری خاتون کا بیٹا اور کسی اور کا بھائی بھی ہے۔ انہوں نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا ہے۔ اس پر ان لوگوں کے حقوق زیادہ ہیں۔ اس لیے ان پر کبھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اسی طرح سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میاں بیوی کی ایک پرائیویسی ہوتی ہے۔ انہیں ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھنا، بیوی کو میاں سے دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر فطری عمل ہے ،جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
سماجی کارکن ادریس علی کا کہنا ہے کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج اور عادات نہیں مل پاتیں۔ یعنی جھگڑے کے اصل فریق وہی دونوں بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک سبب اکثر یہی ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اور بہنیں خود فریق بننے کے بجائے اس لڑکے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتی ہیں۔ یعنی بھائی اور بیٹے کے سامنے لڑکی کی شکایات کرنا، اس کے عیوب گنوانا اور اس کی زیادتیوں کا رونا رونا۔ اسی طرح بیوی بھی گھر آتے ہی میاں کے سامنے شکایات کی پٹاری کھول دیتی ہے۔ لڑکا اگر ماں باپ اور بہن بھائیوں کا دفاع کرتا ہے تو اس پر بھی جھگڑا ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ پسند کی شادی بالعموم میاں بیوی کے اختلاف کو جنم دیتی ہے جس میں بعد ازاں خاندان کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔پھر ایک اور اہم وجہ انھوں نے بتائی کہ ہمارے ہاں اکثر مرد اپنی طاقت کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں۔ بیوی کا کوئی حق انہیں نظر نہیں آتا۔ وہ جب چاہتے ہیں اس کی پٹائی کردیتے ہیں، میکے جانے سے روک دیتے ہیں، اس کی کمزوریوں پر اسے رسواکرتے ہیں، اس کے ساتھ بدکلامی کرتے ہیں۔ اور جب ان جھگروں میں ان کے گھر والے شریک ہوتے ہیں تو یہ سنگین رخ اختیار کر جاتے ہیں۔
بہو اور ساس کے ان خاندانی جھگڑوں کے اسباب تو لا تعداد ہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی تحقیرکرنا، ان کا مذاق اڑانا، بدگمانی، غیبت، چغل خوری اورالزام تراشیجیسی اخلاقی برائیاں برائیاں ہی نہیں سمجھی جاتیں۔ خواتین کی باہمی گفتگو کا اگر کبھی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر گفتگو انہی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دلوں میں نفرت اور نااتفاقی کا بیج بوتی ہیں۔ لوگوں میں جدائی ڈلواتی اور خاندانوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ فریقین اپنی انا اور ہٹ دھرمی پر جم جاتے ہیں۔ دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تمام اخلاقی حدود پار کرکے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتائج کو بھول کر تمام اخلاقی برائیوں کو اختیار کر لیتے ہیں۔


1 comment:

Anonymous said...

Mashallah! Nice effort, please keep it up Abdus Saboor Bhai.... this is really a tragedyof our custom n culture and must be reviewed and revised in a constructive manner. thanks for valuable words. may Allah accept your efforts. Aameen.