منصور مہدی
جب مجھے پتہ چلا کہ ارسلان نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے روک دیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ ارسلان کوئی بنیاد پرست نہیں تھا ۔ وہ تو ایک لبرل قسم کا مسلمان ہے اور تعلیم کے معاملے میں تو اس کی سوچ بہت مثبت تھی وہ صرف لڑکوں کی تعلیم کا ہی حامی نہیں تھا بلکہ لڑکیوںکی تعلیم کا بھی حامی تھا۔ بلکہ وہ تو کہتا تھا کہ خصوصا آج کے دور میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے۔ اس کی سوچ کے مطابق موجودہ دور میں لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے ملنا بہت دشوار ہو چکے ہیں تو ایسے میں کم از کم لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہوں تو وہ کسی سکول میں ٹیچر ہی لگ کر اپنا گزر بسر کر سکتی ہے ناکہ تعلیم سے بے بہرہ ہو کر موجودہ معاشی حالات میں اس کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔
ارسلان اکثر اپنے دیگر ملنے والوں کو بھی یہی کہتا تھا کہ اپنے بچوں خصوصا بچیوں کو تعلیم ضرور دلانی چاہیے۔ وہ کہتا کہ بحیثیت مسلمان تو ہم پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے اور سنت بھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بارے اسلامی احکامات بھی سنایا کرتا تھا۔
ارسلان اگرچہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس نے ایف اے کیا ہوا تھا اور اب ایک کمپنی میں ملازم تھا جہاں اس نے کمپیوٹر بھی سیکھ لیا تھا اور انٹرنیٹ پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس کے صرف چند ایک دلچسپیاں تھی جن میں ایک یہ تھی کہ وہ اخبارات اور نیٹ سے تعلیم کے بارے میں حقائق اکٹھے کرتا اور پھر دوستوں اور ساتھیوں کو سناتا اور ان کی اہمیت بیان کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن اس نے پاکستان میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے حوالے سے یونیسف کی رپورٹ پڑھی تھی جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد 20سے 35سال کی لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے (35سال سے زائد عمر)۔ ان لڑکیوں میں اگرچہ تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی تھی لیکن ایسی لڑکیوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی کہ جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں تھی۔ ارسلان کہتا کہ ایسی صورتحال میں اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہوگی تو کم ازکم اپنا پیٹ تو پال سکے گی وگرنہ والدین کے بعد کسی عزیز یا رشتہ دار کے در پر پڑی رہے گی اور اسے ان کی باتیں سننے کو ملے گی۔ وہ مزید بتلاتا کہ اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں مگر مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ارسلان مزید دلائل دیتا کہ لڑکیوں کی بھی تعلیم بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنا لڑکوں کی تعلیم بلکہ لڑکیوں کو مستقبل میں ماں بننا ہوتا ہے اور ایک پڑھی لکھی اورتعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی سچی فکر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینا ہے، مگر ایک عورت کو تعلیم دینا گویا ایک پورے خاندان اور معاشرے کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔ اس لئے کہ ماں کی گود بچے کی اول اور عظیم و مستحکم تربیت اور تعلیم گاہ ہے۔ اس لئے کہ بچہ چوبیس (24) گھنٹے ماں کی نگرانی میں رہتا ہے اور بچہ کی یہ عمر موم کے مثل ہوتی ہے اس پر جو نقوش مرتب کئے جائیں وہ با آسانی نقش ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی نہیں مٹتے۔ اس لئے ہمیں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں پر توجہ دینی چاہئیے۔
لیکن اب ارسلان کو کیا ہوگا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے والے نے اپنی ہی بیٹی کو اب مزید تعلیم دلانے سے انکار کردیا۔حالانکہ اس کی بیٹی بہت ذہین تھی ۔ پہلی جماعت سے ہی وہ اول پوزیشن لیتی رہی اور اب میٹرک کے امتحان میں بھی اس نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ ارسلان کہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا۔ لیکن اب اس نے ایسا کیوں ہوا؟
کئی روز سے اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ ارسلان کا ایک دوست میرا بھی دوست تھا ، وہ جب مجھے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ ارسلان نے ایسا کیوں فیصلہ کیا تو وہ کہنے لگا اس کی وجہ تو مجھے بھی اب تک نہیں معلوم ہو سکی کہ اس نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ اس نے اپنا فون بھی بند کیا ہوا ہے ۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ چلو اس کی طرف چلتے ہیں اور اس کی وجہ پوچھتے ہیں کیونکہ اب کالجوں میں داخلے بھی بند ہونے والے ہیں ، یہ نہ ہو کہ اس کی بیٹی کو وقت گزرنے کے بعد داخلہ ہی نہ مل سکے۔اس کے پاس چل کر اسے سمجھاتے ہیں کہ وہ تو خود لڑکیوں کی تعلیم کا بہت برا حامی تھا تو اب اپنی بیٹی کے ساتھ کیوں یہ زیادتی کر رہا ہے۔
اگلے روز ہم شام کے وقت جب وہ اپنے دفتر سے آ جاتا ہے ، اس کے گھر پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد اس نے ہمیں چائے پلائی ۔ جب ہم چائے وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو ہم نے اسے کہا کہ ارسلان ہم نے سنا ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا ہے۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔یہ نہ ہو داخلے بند ہوجائیں اور تمہاری بیٹی کا سال ضائع ہوجائے۔
وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے درست سنا ہے کہ اب میں اپنی بیٹی کو مزید تعلیم نہیں دلواﺅں گا بلکہ اب جہاں پہلے لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی وکالت کرتا تھا اب میں انھیں تعلیم اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں میں داخلہ لینے سے منع کرنے کی وکالت کروں گا۔ ہمیں اس کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی کہ ارسلان میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی۔
ہمارے اصرار پر اس نے کہا کہ اچھامیں ابھی تمہیں اپنے اس فیصلے کی وضاحت بتلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر کے دوسرے کمرے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہمیں بھی اس کمرے میں ساتھ لے گیا کہ جہاں پر کمپیوٹر رکھا ہوا تھا۔ اس نے کمپیوٹر اون کیا اور ہمیں مخاطب کر کے کہنے لگا کہ دوستوں تمہیں تو پتہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا کتنا حامی تھا جب میری بیٹی نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تو مجھے جتنی خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میری بیٹی نے مجھے کہا کہ پاپا فلاں۔۔۔۔۔۔۔کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے کیونکہ میری دوست راحیلہ اور ثمرین بھی اسی کالج میں داخلہ لے رہی ہے۔اس کالج کی تعلیم بہت اچھی ہے ۔ ارسلان کہنے لگا کہ میں نے بھی اس کالج کے بارے میں سنا تھا۔اس کالج کی کئی شاخیں تھی نہ صرف لاہور میں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی اس کی برانچیں تھیں۔ اس کالج کا مالک شہر کا ایک متمول شخص ہے اور علاقائی سیاست میں بھی اہم مقام رکھتا ہے اور اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکا ہے۔
ارسلان نے بتایا کہ میں نے اس کالج کے دفتر میں فون کیا اور داخلہ فارم وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو دفتر والوں نے بتایا کہ داخلہ فارم کالج کے دفتر سے بھی مل سکتے ہیں اور ہمارے کالج کی ویب سائٹ سے بھی داﺅن لوڈ ہو سکتے ہیں۔ جس پر میں نے سوچا کہ میرے دفتر میں پرنٹر موجودہے چنانچہ وہاں سے فارم لے لوں گا اس طرح میرا کالج جانے کا چکر بچ جائے گا۔ لیکن مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ان سے ان کی ویب سائٹ کا ایڈریس نہیں پوچھا ۔تو مین نے سوچا کہ کوئی بات نہیں میں ان کی ویب سائٹ گوگل پر سرچ کر لوں گا۔چنانچہ جب میں نے گوگل کھول کر اس پر اس کالج کی ویب سائٹ سرچ کرنے کے لیے نام لکھا اور انٹر کا بٹن دبایا تو کالج کی ویب سائٹ کے علاوہ اور بہت سے ویب سائٹس کے لنک براﺅزر پر کھل گئے۔ انہی میں یو ٹیوب نامی ویب سائٹ کا لنک بھی کھل گیا جس کے امیج پر ایک لڑکی ناچتی ہوئی نظر آئی جس نے اس کالج کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔جس پر میں نے اس سائٹ کو بھی دیکھنا چاہا کہ یہ کیا ہے۔
انہی باتوں کے دوران کمپیوٹر اون ہو گیا اور اس نے گوگل کھول کر اس کالج کا نام ٹائپ کیا جس پر بہت سے لنکس کھل گئے۔ اس نے ہمیں بھی وہ لنک دکھایا اور اسے کلک کیا تو یوٹیوب نامی سائٹ کھل گئی جس پر اس کالج کے حوالے سے ایک نہیں بیسیوں وڈیوز کے لنک تھے۔ وہ لنکس دیکھ کر ہم بھی حیرت زدہ ہو گئے کہ اس قسم کی وڈیوز کا اس کالج سے کیا تعلق؟ ارسلان نے ان مین سے ایک وڈیو کو کلک کیا۔تو وڈیو چلنے لگی جس میں اس کالج کا کلاس روم نظر آرہا تھاکہ جہاں پر بہت سے لڑکے کالج یونیفارم میں خر مستیاں کر رہے تھے اور بھارتی گانوں پر ڈانس کر رہے تھے جبکہ کلاس میں کوئی ٹیچر وغیرہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ وڈیو موبائل فون کے کیمرے سے بنی ہوئی تھی۔
ارسلان نے پھر ایک اور وڈیو کے لنک کو کلک کیا تواس پر لکھا ہوا تھا ، کلر ڈے کے موقع پر لڑکوں کا فن، پھرایک اور وڈیو اس نے دکھائی اس پر درج تھا لڑکیوں کی دل لبھا دینے والی پرفارمنس، اس کے بعد یکے بعد دیگرے اس نے ہمیں بہت سی وڈیوز دکھائی جس میں کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ایسے ایسے انداز میں ایسی حرکتیں کرتے نظر آئے کہ الامان الالحفیظ۔پھر ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ کہ ایک لڑکا ٹیچر کی نقل کرتا ہے کہ کیسے پڑھایا جاتا ہے اور آخر میں دیگر لڑکے اسے مارتے ہیں۔ پھر ارسلان نے ایک ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ دکھائی کہ جو اس کالج میں منائے گئے سپرنگ فیسٹیول کے موقع کی تھی۔ جس میں لڑکیوں رنگ برنگے کپڑوں ، چست جین اور شرٹس میں ملبوس لڑکیاں ناچ رہی تھیں ۔ ٹی وی کے کیمرہ مین نے بھی اسے فلمانے میں کمال کر دیا کہ جیسے وہ کسی کالج کے فیسٹیول کو نہیں فلما رہا تھا بلکہ کسی انگریزی فلم کو فلما رہا ہوں، بہرحال اس رپورٹ میں کالج کی پرنسپل ساحبہ کا بھی ساٹ تھا جس میں موصوفہ فرما رہی تھی کہ اس قسم کی سرگرمیاں اس کالج کی رونق ہیں اور ایسی انٹرٹینمنٹ ہونی چاہیے کہ جس سے طالب علموں کی تھکان کم ہو سکے۔
اس کے علاوہ ارسلان نے صرف اسی کالج ہی نہیں بلکہ شہر کے دیگر کالجوں کی ودیوز بھی دکھائی۔ جن میںان وڈیوز سے بھی زیادہ بے ہودہ سین تھے ۔اس سائٹ پر نہ صرف لاہور بلکہ ملک کے دیگر شہروں کے کالجوں کے حوالے سے بھی وڈیوز موجود تھی جن کو دیکھ کرہمارا سر بھی شرم سے جھک گیا۔
ارسلان نے یہ دکھانے کے بعد ہم سے پوچھا کہ بتاﺅ کیا تم ان کالجوں میں اپنی بیٹیوں کو داخلہ دلواﺅ گے؟ اس کے سوال کا فوری جواب ہمیں نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔بالآخر میرے دوست نے جو ارسلان کا قریبی دوست تھا کہنے لگا کہ ارسلان کیا تم نے دیکھا کہ ان وڈیوز میں صرف چند لڑکے اور لڑکیاں بار بار نظر آ رہی تھیں جس کا مطلب ہے کہ تمام لڑکے اور لڑکیاں ان کاموں میں مشغول نہیں بلکہ بیسیون طالب علم صرف تعلیمی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں انھیں ان بے ہودہ سرگرمیوں سے کوئی شغف نہیں ہوتا۔میرا دوست کہنے لگا کہ ان وڈیوز کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ارسلان کہنے لگا کہ ان کالجوں کا بڑا نام سنا تھا اگر یہ ہی ایسے ہیں تو دیگر کالجوں کا کیا حال ہوگا۔ میرا دوست کہنے لگا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ کوئی ایک خراب ہے تو سارا جہاں ہی خراب ہے۔
ارسلان کہنے لگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز میں فحاشی اور برائی اب اتنی عام ہو چکی ہے جس کا مجھے بھی اندازہ نہیں تھاکہ اگر ہمارے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور شرم و حیا کی بجائے غیر اسلامی تعلیمات اور بے حیائی اور بے شرمی کی تعلیم دی جائےگی تو ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی۔
کیا تعلیمی اداروں میں بالخصوص گرلز کالجز میں ایسے فحاشی اور بے حیائی پر مبنی پروگرام ہوتے ہیں ؟کیا سپرنگ فیسٹیول کے نام پرایسے مخلوط پروگرام ہونے چاہیے؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈانس کے مقابلے ہونے چاہیے؟
ارسلان نے ایسے ایسے سوال کیے کہ جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا تاہم ہم نے اسے سمجھایا کہ دوست تمام کالجز میں ایسا نہیں ہوتا، ابھی بھی داخلے کا وقت ہے تم کوشش کرو اور کسی اور کالج میں اپنی بیٹی کا داخلہ کروا دو تاکہ اس کا سال ضائع نہ ہو۔ ارسلان ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم لوگ مجھے ایسے کالج کا پتہ بتادو کہ جہاں پر اس قسم کی سرگرمیاں نہیں ہوتی تو میں وہاں بچی کو داخل کروا دوں گا