عبد الصبور ندوی جھنڈانگری
آہ! شیر بنگال شیخ عبد المتین سلفی
سنیچر کا دن تھا، جنوری ۲۰۱۰ء کی۱۶؍تاریخ تھی، صبح کے گیارہ بج رہے تھے، کسے پتہ تھا کہ اللہ کا یہ نیک بندہ جسے دنیا شیخ عبدالمتین سلفی کے نام سے جانتی ہے، اپنوں و بیگانوں کو غمزدہ کرجائے گا، حسب معمول اپنے دفتر میں بیٹھے متعدد کاغذات کا مطالعہ کررہے تھے، یکایک قضائے حاجت محسوس ہوئی، فراغت کے بعد پورا جسم کانپنے لگا، وہاں موجود لوگوں نے آپ کو تھاما اور فوراً میڈیکل کالج کے ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئے، راستے ہی میں تھے، پروانۂ اجل آپہونچا، اس سے قبل کہ ہاسپٹل پہونچتے، روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، اس وقت گھڑی کی سوئیاں 11:45پر اٹکی ہوئی تھیں، بر صغیر ہندونیپال، پاکستان و بنگلہ دیش کے علاوہ خلیجی مملک میں آپ کے انتقال کی خبر بجلی بن کر گری، آپ کے عقیدتمندوں، شاگردوں اور محبین کا حلقہ اتنا وسیع ہے جو جماعت کے بہت کم لوگوں کے حصہ میں یہ شرف آیا ہے، سانحۂ ارتحال پر ہر شخص محو حیرت، ساکت، دم بخود، کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اللہ اپنے اس مخلص بندے کو اتنا جلدی اپنے پاس بلالے گا۔
ایک عظیم علمی و دینی شخصیت کی وفات نے بنگلہ دیش و ہندوستان کو خصوصاً ایک بڑے خسارے سے دوچار کردیا ہے، سلفیت کی نشر واشاعت اور شرک وبدعات کی بیخ کنی میں ہر طرح کے مصائب و آزمائشوں کو جھیلنے کا یارا رکھنے والا یہ بطل عظیم مدتوں رلاتا رہے گا۔ اسلام کی سربلندی کی خاطر مرمٹنے والا یہ مرد مجاہد اپنے پیچھے گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑ گیاہے، وہ نقوش سلفیت کی دعوت میں مشغول دعاۃ کے لئے ان شاء اللہ نسخۂ کیمیا ثابت ہونگے، وہ نقوش جامعۃ الامام البخاری کے حالیہ ذمہ داران کو وقتاً فوقتاً درس دینے کا کام کرتے رہیں گے، وہ نقوش، توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی ترقی کے لئے راہیں ہموار کریں گے، ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ سے خوب علمی،دعوتی اور رفاہی خدمت لی، بنگال وبہار کے سنگم پر ایک عظیم علمی قلعہ کی تعمیر کی جو آج جامعۃ الامام البخاری کے نام سے ہند وبیرون ہندایک معروف نام بن چکا ہے،تعلیم نسواں کے لئے علیحدہ کالج کلیہ عائشہ صدیقہ کے قیام نے اس خطہ کی اہم ضرورت پوری کی، اس کے علاوہ اطراف واکناف کے مواضعات میں مکاتب کا قیام، رفاہی، خیراتی اداروں کا نظم، ہند وبیرون ہند متعدد ملی دعوتی تنظیموں سے ربط۔ یہ سارے کام شیخ کی عظمت پر شاہد ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے ۲۰۰۴ء میں پاکوڑ کانفرنس کے موقع پر شیخ سے ملاقات ہوئی اور وہ آخری ثابت ہوئی، آپ نے مرکز التوحید کے وفد (جس میں میں بھی شامل تھا) کو کشن گنج زیارت کی دعوت دی اور آناً فاناً پروگرام ترتیب دیا گیا، کانفرنس کے اختتام پر کشن گنج پہونچے، شہر سے متصل معہد آباد ایک علمی بستی نظر آئی، جہاں وسیع خطہ اراضی پر قائم جامعۃ الامام البخاری کی پر شکوہ عمارتیں اور کچھ فاصلے پر نسواں کالج کی دلکش بلڈنگیں، اور ان میں طلبہ و طالبات کے ازدحام نے ایک عجیب علمی فضا قائم کردی ہے، پرسکون ماحول دلکش مناظر کے بیچ یہ عظیم دینی درسگاہ ہزاروں تشنہ لبوں کو قرآن وسنت کے جام سے سیراب کررہا ہے۔ ایک روز عشاء کے بعد جامعہ کے پرنسپل مولانا مزمل حق مدنی صاحب کی خواہش پر طلبہ کے سامنے وفد میں سے میں اور عم مکرم جناب زاہد آزاد جھنڈانگری نے تاثرات کا اظہار کیا اور ناصحانہ گفتگو ہوئی۔
والد محترم جناب مولانا عبدالنور سراجی حفظہ اللہ کا شیخ سے محبانہ تعلق تھا، جو ہمیشہ نبھایا،نیپال کے متعدد دعوتی اسفار میں ہمیشہ ساتھ رہے، والد صاحب شیخ کے کارناموں کو یاد کرکے روہانسے ہوجاتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بہت جلد بلالیا۔
عرب مشائخ آپ کے بیحد قدردان تھے، ان کی عملی لیاقت ودعوتی صلاحیت کے معترف تھے، اسی لئے ان کے انتقال کی خبر 25عربی ویب سائٹوں پر نشر کی گئی، کویت کی اہل حدیث ویب سائٹ پر شیخ ابو مروان ہاشم لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالمتین سلفی جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل تھے، نسلوں کی نشو ونما اور تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، وہ مسلم نوجوانوں کو علمی اور اقتصادی دونوں حیثیت سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، دعوتی میدان میں عظیم عزم و ارادے کے مالک اس شخصیت نے اپنے خطے میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا تھا،جامعۃ الامام البخاری قائم کرکے علماء و دعاۃ کی ٹیم تیار کی، کلیہ عائشہ صدیقہ قائم کرکے خاتون داعیات پیدا کئے،انجینئرنگ کالج قائم کرکے مسلم نوجوانوں کو تکنیک اور پیشہ سے جوڑا، بچوں کے لئے عصری ادارے قائم کئے، عقیدۂ توحید کی نشر واشاعت کے لئے اردو میں مجلہ ’’پیام توحید‘‘ نکالا، علم اور دعوت کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے، آج بنگلہ دیش میں جو اہل حدیثیت کی چمک دمک ہے، اس میں بہت حد تک شیخ کا کردار رہا ہے، منہج سلف کے اس ترجمان نے بنگالی اور اردو زبان میں متعدد کتابیں لکھیں اور ترجمے کئے‘‘۔
یہاں شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا جارہا ہے، جسے درجنوں عربی ویب سائٹوں نے نشر کیا ہے:
نام: عبدالمتین بن عبدالرحمن سلفی
پیدائش: یکم جنوری ۱۹۵۴ء ، بالا پتھر (مالدہ، بنگال)
علمی لیاقت: (۱) سند ’’ممتاز المحدثین‘‘ عربی اسلامک مدرسہ بورڈ مغربی بنگال۔ (۲)’’ سند فضیلت‘‘ جامعہ سلفیہ، بنارس۔ (۳) کلیۃ الشرعیۃ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بیچلر ڈگری۔ (۴) ڈھاکہ یونیوسٹی سے ایم،اے۔
مناصب وعہدے: (۱) وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ والاوقاف، ریاض کے مبعوث داعی۔ (۲)توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر۔ (۳) جامعۃ الامام البخاری کے ناظم۔ (۴) مدرسہ عالیہ، راحت پور (مغربی بنگال)کے انتظامی کمیٹی کے صدر۔ (۵) تنظیم فارغین سعودی جامعات (ہندونیپال) کے صدر۔ (۶) صوبائی جمعیت اہلحدیث بہار کے رکن۔ (۷)ماہنامہ ’’پیام توحید‘‘ (اردو)اور ماہنامہ ’’توحید یرداک‘‘ (بنگالی) کے نگراں تھے۔
نشاطات و سرگرمیاں: ۱۹۸۰ء سے دعوتی کاموں کی شروعات، متعدد مدارس میں تدریس، مختلف زبانوں میں بحوث وکتابوں کی تالیف، سعودی ریڈیو میں دعوتی مشارکت، کویت ریڈیو میں ٹیلی فونک پروگراموں کی ترتیب و تنسیق، بنگلہ دیش ریڈیو میں علمی مقالات کی ریڈنگ، اسلامک سنٹرس کا قیام، علاقے میں ضرورت مندوں کے لئے مشروعات کی فراہمی، نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کے لئے دعوتی تنظیموں کا قیام، علاقائی مسائل کے حل میں بنیادی رول، ہندو بیرون ہند سیمینار اور کانفرنسوں میں شرکت۔
ایک عظیم علمی و دینی شخصیت کی وفات نے بنگلہ دیش و ہندوستان کو خصوصاً ایک بڑے خسارے سے دوچار کردیا ہے، سلفیت کی نشر واشاعت اور شرک وبدعات کی بیخ کنی میں ہر طرح کے مصائب و آزمائشوں کو جھیلنے کا یارا رکھنے والا یہ بطل عظیم مدتوں رلاتا رہے گا۔ اسلام کی سربلندی کی خاطر مرمٹنے والا یہ مرد مجاہد اپنے پیچھے گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑ گیاہے، وہ نقوش سلفیت کی دعوت میں مشغول دعاۃ کے لئے ان شاء اللہ نسخۂ کیمیا ثابت ہونگے، وہ نقوش جامعۃ الامام البخاری کے حالیہ ذمہ داران کو وقتاً فوقتاً درس دینے کا کام کرتے رہیں گے، وہ نقوش، توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کی ترقی کے لئے راہیں ہموار کریں گے، ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ سے خوب علمی،دعوتی اور رفاہی خدمت لی، بنگال وبہار کے سنگم پر ایک عظیم علمی قلعہ کی تعمیر کی جو آج جامعۃ الامام البخاری کے نام سے ہند وبیرون ہندایک معروف نام بن چکا ہے،تعلیم نسواں کے لئے علیحدہ کالج کلیہ عائشہ صدیقہ کے قیام نے اس خطہ کی اہم ضرورت پوری کی، اس کے علاوہ اطراف واکناف کے مواضعات میں مکاتب کا قیام، رفاہی، خیراتی اداروں کا نظم، ہند وبیرون ہند متعدد ملی دعوتی تنظیموں سے ربط۔ یہ سارے کام شیخ کی عظمت پر شاہد ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے ۲۰۰۴ء میں پاکوڑ کانفرنس کے موقع پر شیخ سے ملاقات ہوئی اور وہ آخری ثابت ہوئی، آپ نے مرکز التوحید کے وفد (جس میں میں بھی شامل تھا) کو کشن گنج زیارت کی دعوت دی اور آناً فاناً پروگرام ترتیب دیا گیا، کانفرنس کے اختتام پر کشن گنج پہونچے، شہر سے متصل معہد آباد ایک علمی بستی نظر آئی، جہاں وسیع خطہ اراضی پر قائم جامعۃ الامام البخاری کی پر شکوہ عمارتیں اور کچھ فاصلے پر نسواں کالج کی دلکش بلڈنگیں، اور ان میں طلبہ و طالبات کے ازدحام نے ایک عجیب علمی فضا قائم کردی ہے، پرسکون ماحول دلکش مناظر کے بیچ یہ عظیم دینی درسگاہ ہزاروں تشنہ لبوں کو قرآن وسنت کے جام سے سیراب کررہا ہے۔ ایک روز عشاء کے بعد جامعہ کے پرنسپل مولانا مزمل حق مدنی صاحب کی خواہش پر طلبہ کے سامنے وفد میں سے میں اور عم مکرم جناب زاہد آزاد جھنڈانگری نے تاثرات کا اظہار کیا اور ناصحانہ گفتگو ہوئی۔
والد محترم جناب مولانا عبدالنور سراجی حفظہ اللہ کا شیخ سے محبانہ تعلق تھا، جو ہمیشہ نبھایا،نیپال کے متعدد دعوتی اسفار میں ہمیشہ ساتھ رہے، والد صاحب شیخ کے کارناموں کو یاد کرکے روہانسے ہوجاتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بہت جلد بلالیا۔
عرب مشائخ آپ کے بیحد قدردان تھے، ان کی عملی لیاقت ودعوتی صلاحیت کے معترف تھے، اسی لئے ان کے انتقال کی خبر 25عربی ویب سائٹوں پر نشر کی گئی، کویت کی اہل حدیث ویب سائٹ پر شیخ ابو مروان ہاشم لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالمتین سلفی جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل تھے، نسلوں کی نشو ونما اور تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، وہ مسلم نوجوانوں کو علمی اور اقتصادی دونوں حیثیت سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، دعوتی میدان میں عظیم عزم و ارادے کے مالک اس شخصیت نے اپنے خطے میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا تھا،جامعۃ الامام البخاری قائم کرکے علماء و دعاۃ کی ٹیم تیار کی، کلیہ عائشہ صدیقہ قائم کرکے خاتون داعیات پیدا کئے،انجینئرنگ کالج قائم کرکے مسلم نوجوانوں کو تکنیک اور پیشہ سے جوڑا، بچوں کے لئے عصری ادارے قائم کئے، عقیدۂ توحید کی نشر واشاعت کے لئے اردو میں مجلہ ’’پیام توحید‘‘ نکالا، علم اور دعوت کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے، آج بنگلہ دیش میں جو اہل حدیثیت کی چمک دمک ہے، اس میں بہت حد تک شیخ کا کردار رہا ہے، منہج سلف کے اس ترجمان نے بنگالی اور اردو زبان میں متعدد کتابیں لکھیں اور ترجمے کئے‘‘۔
یہاں شیخ عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا جارہا ہے، جسے درجنوں عربی ویب سائٹوں نے نشر کیا ہے:
نام: عبدالمتین بن عبدالرحمن سلفی
پیدائش: یکم جنوری ۱۹۵۴ء ، بالا پتھر (مالدہ، بنگال)
علمی لیاقت: (۱) سند ’’ممتاز المحدثین‘‘ عربی اسلامک مدرسہ بورڈ مغربی بنگال۔ (۲)’’ سند فضیلت‘‘ جامعہ سلفیہ، بنارس۔ (۳) کلیۃ الشرعیۃ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بیچلر ڈگری۔ (۴) ڈھاکہ یونیوسٹی سے ایم،اے۔
مناصب وعہدے: (۱) وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ والاوقاف، ریاض کے مبعوث داعی۔ (۲)توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر۔ (۳) جامعۃ الامام البخاری کے ناظم۔ (۴) مدرسہ عالیہ، راحت پور (مغربی بنگال)کے انتظامی کمیٹی کے صدر۔ (۵) تنظیم فارغین سعودی جامعات (ہندونیپال) کے صدر۔ (۶) صوبائی جمعیت اہلحدیث بہار کے رکن۔ (۷)ماہنامہ ’’پیام توحید‘‘ (اردو)اور ماہنامہ ’’توحید یرداک‘‘ (بنگالی) کے نگراں تھے۔
نشاطات و سرگرمیاں: ۱۹۸۰ء سے دعوتی کاموں کی شروعات، متعدد مدارس میں تدریس، مختلف زبانوں میں بحوث وکتابوں کی تالیف، سعودی ریڈیو میں دعوتی مشارکت، کویت ریڈیو میں ٹیلی فونک پروگراموں کی ترتیب و تنسیق، بنگلہ دیش ریڈیو میں علمی مقالات کی ریڈنگ، اسلامک سنٹرس کا قیام، علاقے میں ضرورت مندوں کے لئے مشروعات کی فراہمی، نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کے لئے دعوتی تنظیموں کا قیام، علاقائی مسائل کے حل میں بنیادی رول، ہندو بیرون ہند سیمینار اور کانفرنسوں میں شرکت۔
1 comment:
اللہ پاک موصوف کی بال بال مغفرت فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ اور ان کی رخصت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی فرمائے آمین
Post a Comment