Thursday, 24 December 2009

No Muslim there

A VERY GOOD ONE!

Two men were on a plane on a business trip when a Muslim couple
boarded the plane and were seated right in front of them.
The two men eager to have some fun, started talking loudly.. "My
boss is sending me to Saudi Arabia ", the one said, "But I don't want
to go...too many Muslims there!"

The Muslim couple noticeably heard and grew uncomfortable.
The other guy laughed, "Oh, yeah, my boss wanted to send me to
Pakistan but I refused....WAY too many Muslims!" Smiling, the first man said,
"One time I was in Iran but I HATED the fact that there were so many Muslims!"
The couple fidgeted.

The other guy responded, "Oh, yeah...you can't go ANYWHERE to get
away from them...the last time I was in FRANCE I ran into a bunch of them too!"
The first guy was laughing hysterically as he added, "That is why
you'll never see me in Indonesia ...WAY too many Muslims!"

At this, the Muslim man turned around and responded politely,

"Why don't you go to Hell?" he asked, "I heard there are NO Muslim THERE!"

Monday, 21 December 2009

عاشوراء محرم کی فضیلت Aashura moharram ki fazeelat

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عاشوراء کی فضیلت

بقلم: عبد الصبور ندوی
محترم دینی بھائیو! ماہ محرم اسلامی سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے، جس کی بنیاد نبی اکرم ﷺ کے عظیم الشان واقعہء ہجرت پر ہے، سفر ہجرت کے وہ تاریخی لمحے جس نے اسلام کو عروج بخشا،آج بھی مسلمانوں میں گداز و حرارت پیدا کرنے کیلئے کافی ہے، عموما محرم کا نام سنتے ہی دل میں یہ تصور ابھرنے لگتا ہے کہ غم و ماتم کا مہینہ آگیا، حضرت حسینؓ کی شہادت پر اس ماہ میں عزا داری کے جلوس نکالے جاتے ہیں، سینہ کوبی اور زنجیری ماتم کے نت نئے طریقے ایجاد کر کے اہل تشیع یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہی اسلام کا روپ ہے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حمزہؓ جن کو نبی ﷺ نے شہیدوں کا سردار قرار دیا، ان پر ماتم کیوں نہیں کیا جاتا؟ بھائیو! اسلام شہادت پر ماتم نہیں ، باطل کے خلاف ولولہ اور جرأت سکھاتا ہے، پھر ہمیں تو جشن منانا چاہئے کہ محرم سے ہم مسلمان اپنا نیا سال شروع کرتے ہیں، اپنے بھائیوں کو نئے اسلامی سال کی آمد پر مبارکباد پیش کریں، محاسبۂ نفس کا اہتمام ہو، اپنے چال ڈھال اور طور طریقوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا عہد کریں ، باطل فرقوں کے رسوم و رواج کی تقلید سے توبہ کریں،اور سنت کے مطابق اس مہینے میں روزے رکھ کر ڈھیر ساری نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں درج کرائیں۔ آئیے سنت رسولﷺ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں کس جانب رہنمائی کی ہےۂ * نبی اکرم ﷺ کا معمول :آپﷺاس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، اور صحابۂ کرام کو اس کی ترغیب دیتے۔ جیسا کہ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم‘‘ ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔( صحیح مسلم حدیث: ۱۱۶۳)
* عاشوراء کے روزے: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے اور یہود کو عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ ﷺ نے ان سے کہا:یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: یہ بڑا عظیم دن ہے،اللہ نے اس دن موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی،فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا،تو موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پہ روزہ رکھا، اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں۔تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’فنحن أحق وأولی بموسی منکم‘‘ ہم تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور موسی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ لہذا رسول اللہ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا ، اور (تمام صحابہ کو) روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(صحیح مسلم حدیث: ۱۱۳۰، مسند أحمد ۲؍۳۶۰)
* عاشوراء کی فضیلت:اسی طرح آپ ﷺ نے عاشوراء کے روزے کی فضیلت بتاتے ہوئے فرمایا:’یکفّّر السنۃ الماضےۃ‘ وہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔( صحیح مسلم حدیث: ۱۱۶۲)، نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے فرمایا:’ لئن بقیت الی قابل لأصومنّ التاسع‘ اگر میں آئندہ سال زندہ رہاتو میں ۹ تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔( صحیح مسلم حدیث: ۱۱۳۴)، لیکن آئندہ محرم سے پہلے ہی آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
محرم کے روزے رکھنے کی شکل یہ ہے کہ یا تو آپ نو اور دس محرم کا روزہ رکھیں یا دس اور گیارہ کا رکھیس، یا پھر ۹،۱۰،۱۱، تینوں دنوں کے روزے رکھ لئے جائیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو سنت کے مطابق یہ ایام گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Saturday, 12 December 2009

وسيله : ترجمہ :کرم اللہ بن عبدالرؤف مدنی-


هذه مفاهيمنا

صحیح اسلامی فکر ونظر
تالیف
عزت مآب شیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد آل الشیخ/ حفظہ اللہ
ترجمہ
کرم اللہ بن عبدالرؤف مدنی
عرضِ مترجم

اللہ تعالی نے اپنے فضل خاص سے انسان کی ہدایت کے لیے بے شمار انبیاء ورسل بھیجا ، ضرورت کے مطابق ان میں سے بعض کو آسمانی کتابیں بھی دیں اور سبھوں کو پہلی فرصت میں کلمۂ توحید کی دعوت دینے کا حکم دیا تاکہ انسان کی دنیا و آخرت سنور جائے اور وہ دنیامیں اپنے رب حقیقی کا صحیح معنوں میں فرمانبردار بندہ بن کر زند گی گزارے۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان راہ حق سے بھٹکتا گیا ، خواہشات کے پیچھے چلنے لگا ،شرک و بت پرستی اور نہ جانے کن کن غلط عقائد ونظریات کا شکار ہوگیا،پھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اپنے آخری نبی کو آخری کتاب قرآن مجید دے کر مبعوث فرمایا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اپنے سر لےلی ۔
آپ ﷺ نے دن و رات محنت کرکے صحیح اسلام لوگوں تک پہنچایا،ان کے عقیدے کی اصلاح فرمائی، ان کو زندگی کے اصول وآداب سیکھایا اور اللہ کا دیا ہوا پیغام اس کے بندوں تک بغیر کسی کمی و زیادتی کے ہوبہو پہنچادیا۔
ہماری ذمہ داری یہ تھی کہ ہم آپﷺ کی پوری طرح پیروی کرتے،ان کی لائی ہوئی شریعت پرچلتے اور اس میں کسی طرح کی کمی و زیادتی کو برداشت نہ کرتےلیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج بہت سارے ہمارے دینی بھائی اپنی کم علمی یا محبت رسول کے نام پر غلط عقائد ونظریات کو عام کرنے والے لوگوں کی پیروی کرنے لگے اور کچھ ایسی بے بنیاد چیزوں کو اپنا لیے جو درحقیقت کتاب و سنت کی عام تعلیمات کے مخالف ہیں اور جس میں ہمارا ایمان و اسلام خطرے سے خالی نہیں، خواہ اس کے اسباب جو بھی ہوں،اسلام کی حقیقی تعلیم سے دوری یا رسول اللہ ﷺکی شان میں مبالغہ آرائی یا اسلام کے نام پر ہمارے ایمان و اسلام کا سودا کرنےوالوں کی میٹھی میٹھی باتیں یا موضوع و ضعیف روایتوں کو بنیاد بنا کر اسلام کی بیخ کنی(جڑ سے اکھاڑنا)۔
ماضی قریب کے لوگوں میں سے حجاز کے محمد بن علوی مالکی نامی شخص نے اسلام کے نام پر بدعات و خرافات اور شرک و باطل پرستی کو مسلمانوں میں اپنی تقریر وتحریر اور دیگر نت نئے وسائل کے ذریعہ رواج دینے کی پوری کوشش کی اور اس تعلق سے عقائد کے مختلف مسائل کو ہم پر مشتبہ کرنا چاہا تاکہ مسلمان عالم بالخصوص شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی انتھک محنتوں سے راہِ ہدایت پر آئے لوگوں کو دوبارہ شرک و بدعت اورضلالت وگمراہی میں ڈال دے،اور توحید کی صاف وشفاف شکل و صورت داغدار بن جائے۔
اللہ جزاء خیر دے علماءِ کرام کو بالخصوص سعودی عرب کے علماء وحکمراں کو جنہوں نے اسلام کی دفاع میں تمام طرح کی قربانیاں پیش کیں اور کتاب و سنت کی صحیح تعلیم عام کرنے میں اپنی مال ودولت لٹائی۔یہ کیسے ممکن تھا کہ علماءِ اسلام بالخصوص سعودی عرب کے علماء علوی مالکی کی ان باتوں سے اتفاق کرتے اور امت کو گمراہ ہوتے چھوڑ دیتے؟
علماءِ اسلام کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اس کی رد میں بہت ساری تحریریں سامنے آئیں جن میں سرفہرست عزت مآب سماحۃ الشیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ/ حفظہ اللہ کی "هذه مفاهيمنا" نامی کتاب بھی ہے جس میں وزیر موصوف نے اللہ کے فضل و کرم سے اس کی تمام تر روایتوں اور غلط استدلالوں کا کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیا ہے ،علماءِ کی کتابوں سے نقل کرتے وقت اس کی دغابازیوں کا پردہ فاش کیا ہے،وسیلہ کے باب میں بے بنیاد چیزوں کو دلیل بناکر محبت رسول کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کی حقیقت سے عالمِ اسلام کو باخبر کیا ہے۔کتاب آپ پوری کی پوری پڑھ جائیں شیخ موصوف کے جواب دینے کا جو انوکھا انداز ہے اس سے آپ کا دل بارہا اس کو پڑھنے کی طرف کھینچتا چلا جائے گا اور شروع سے اخیر تک علوی مالکی کی گمراہیوں کا راز کھلتا چلا جائے گا۔
یہ واضح رہے کہ ناچیز نے شیخ موصوف کی کتاب کو عربی قالب سے اردو میں منتقل کرنے کی پوری کوشش کی ہے ، ترجمہ میں آسان اردو زبان کا استعمال کیا گیاہے پھربھی ممکن ہے کہ کچھ کوتاہیاں رہ گئیں ہوں ۔اس لیے آپ حضرات سے مخلصانہ اپیل ہے کہ اگر آپ کو اس میں کسی طرح کی کمی نظر آئے تو ہمیں باخبر کریں گے تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کرلی جائے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آیتوں کا ترجمہ علامہ محمدجوناگڑھی رحمہ اللہ کے ترجمۂ قرآن سے ماخوذ ہے ۔
کتاب میں بڑے حروف میں مؤلف سے مقصودمحمد بن علوی مالکی ہے اور شیخ نے جواب دیاسے مقصود عزت مآب وزیر موصوف ہیں یہ چیزیں آپ کو کتاب میں بکثرت پڑھنے کو ملیں گی۔
اخیر میں اللہ تعالی سے دلی دعا ہے کہ اللہ ہم سبھوں کی کوششوں کو قبول فرمائے ، ہمیں اسلام کا سچا علمبر دار بنائے اور میدان محشر میں نبی ﷺ کی شفاعت کا مستحق بنائے ۔ آمین۔


پہلا باب
اس میں کئی ایک مباحث ہیں
۱/ وسیلہ کا معنی
۲/"مفاہیم" کے مؤلف نے جن آثار و اخبارسے استدلال کیا ہے ان کی تخریج
۳/جن آثار سے مؤلف نے استدلال سے کیا ہے ان پر رد

٭مؤلف نےصفحہ:۴۵میں لکھا:"وسیلہ ہر وہ چیز جس کو اللہ نے اپنی نزدیکی حاصل کرنے کے لیے سبب اورضرورتوں کی ادائیگی کے لیے ذریعہ بنایا ہو،اس میں دارومدار اس بات پر ہے کہ جس سے وسیلہ طلب کیا جارہا ہے اسکی قدرومنزلت اور مقام و مرتبہ متوسل الیہ(جس کے پاس وسیلہ لایاجاتا ہے) کے یہاں ہو۔"
٭شیخ نے جواب دیا :اس کا کلام دوجملوں پر مشتمل ہے ،پہلا حق ہے اور دوسرے میں اجمال ہے، اس کے ذریعہ اللہ نے جس سے منع کیا ہے وہاں تک پہنچاجاتا ہے لیکن اس کو وسیلہ نہیں بنایا ہے، تو اس کا یہ کہنا کہ "اس میں دارومدار "مجمل(مختصر)پر ہے جس کی تفسیر دو میں سے ایک ممکن ہے:
پہلی تفسیر : انبیاء اورنیکوکار بندوں کی ذات اس میں داخل ہوگی ،اس طرح کہ اللہ کے پاس ان کی اتنی قدرومنزلت اور مقام و مرتبہ ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اور اگر یہ معنی مقصود ہو تو اللہ تعالی نے انبیاء ، نیکوکا ر بندے یا انکی عظمت و شان یا عزت و آبرو کو نہ تو وسیلہ بنایا ہے اور نہ ہی اپنی نزدیکی حاصل کرنے کا سبب، بلکہ ان کی پیروی کرنے ، انکی خبر وں کی تصدیق کرنے، نور جس کو لے کر آئے تھے کی پیروی کرنے اور مخلوق کے درمیان فرق کرنے کے لیے جہاد کو وسیلہ بنایا ہے ۔جوکہ جائز وسیلے ہیں ، کسی سوال کرنےوالا کے لیےمشروع ہے کہ اپنا سوال کرنے سے پہلے ان کو پیش کرے ،اور دعا کرنے والا کے لیے عبادت کی دعا کرنا صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی پکار انبیاء و صالحین کی پیروی اور تصدیق کے عین مطابق ہو۔
یہ جائز وسیلے ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور جن کو مشروع کر رکھا ہے۔
جہاں تک انبیاءوصالحین کی ذات، شان و عظمت اورعزت وآبرو سے وسیلہ پکڑنے کی بات ہے تو یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ بلکہ ان کی زندگی میں ان کی دعا کے ذریعہ وسیلہ پکڑنا مشروع تھا جیسا کہ صحابۂ کرام آپﷺ کے دور مبارک میں کیا کرتے تھے اور آپ کے بعد جنہوں نے پانی وغیرہ کے لیے صحابۂ کرام سے دعا کرائی۔ انکی وفات کےبعد ان سے دعا یا ان کی عظمت وشان کا حوالہ دے کر وسیلہ پکڑناقرونِ مفضلہ( افضل ترین صدیوں )کے اجماع کے ساتھ مشروع نہیں ہے۔
دوسری تفسیر: اعمال اور ان جیسی چیزوں کے ذریعہ وسیلے پکڑے جائیں تو یہ مشروع ہے جن میں بدعتیوں کے طریقوں کی پیروی نہ کی گئی ہو بلکہ سنت کی اتباع کی گئی ہو جو کہ حق ہے ،مؤلف نے اجمال و اختصار سے کام لیا ہے تاکہ حق کلموں کے درمیان بدعتیوں کے وسیلہ کو داخل کردے اور ہم نے اس کے اجمال کو بیان کردیا اور جو اس کے لیے مناسب تھا جہاں اس نے کتاب اللہ کے آیت کی تفسیر کی ہے۔
وسیلہ میں دو قول ہے جیساکہ مفسرین نے ذکر کیا ہے اور ابن الجوزی نے زاد المسیر(۲ / ۳۴۸)میں دونوں کو قریب کرنے کی کوشش کی ہے کہا:"وسیلہ قربت و نزدیکی کو کہتے ہیں ابن عباس، عطاء، مجاھد اور فراء کا یہ قول ہے اور قتادہ کا کہنا ہے" اسکی نزدیکی حاصل کرنا ایسی چیز کے ذریعہ جو اس کو خوش کردے" ابوعبیدہ نے کہاکہ کہاجاتا ہے"توسلت الیہ "یعنی"تقربت الیہ" میں نے اسکی قربت حاصل کی اور دلیل کے طور پر یہ شعر پیش کیا:
جب چغلخور غافل ہوئے تو ہم چل کر پہنچے اور ہمارے رشتے دوبارہ لوٹ آئے
دوسرا: محبت کے معنی میں آتا ہے کہتے ہو"تحببواالی اللہ" اللہ کی محبت حاصل کرو ۔یہ ابن زید کا قول ہے۔
نافع بن ازرق کا ابن عباس سے سوالات میں ہے، انہوں نے اللہ تعالی کا فرمان"وابتغوا الیہ الوسیلۃ" (المائدہ:۳۵) ترجمہ"اور اس کا قرب تلاش کرو" کے بارے میں کہاکہ وسیلہ حاجت کو کہتے ہیں، پوچھا کیا عرب کو اس کا پتہ ہے تو جواب اثبات میں دیا اور کہا کیا تم نے عنترہ کو یہ کہتے نہیں سنا:
لوگوں کوتمہاری ضرورت ہے اس حالت میں کہ تمہاری آنکھوں میں سرمہ
اور ہاتھوں میں مہندی لگی ہو
اور ان کے علاوہ دیگر شواہد بھی ہیں۔
وسیلہ: قربت و نزدیکی اور اطاعت وفرمانبرداری حاصل کرنے کے تمام قسموں کے ذریعہ اللہ کی قربت و نزدیکی حاصل کرنا، اور سب سے افضل وسیلہ اللہ کے لیے دین کو خالص کرکے اسکی قربت حاصل کرنا ہے، اسکی محبت، اسکے رسول کی محبت، اس کے دین اور جسکی محبت کو مشروع کیا ہے، ان سے محبت کرکے ۔ اس طرح سلف کے اقوال کو جمع کیا جا سکتا ہے اور ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا حل ممکن ہے۔
اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کریں"يأيها الذين آمنوااتقواالله وابتغواإليه الوسيلة" (المائدہ:۳۵) ترجمہ"مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو" تو یہاں جارو مجرور"الیہ" کو مقدم کرنے میں فائدہ یہ ہے کہ وسیلے ہرطرح کے اللہ کے لیے خاص ہیں ،ان میں اسکا کوئی ساجھی و شریک نہیں ہے جیساکہ "إیاک نعبد وإیاک نستعین "(الفاتحہ:۵)ترجمہ"ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں" میں ہے۔
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر(۲/۹۸) میں لکھاہے"وسیلہ کے معنی میں تحقیق یہ ہے، جس کی طرف عام علماء گئے ہیں(جس کے قائل ہیں) وسیلہ رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق عبادت و بند گی میں اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی قربت ونزدیکی حاصل کرنے کو کہتے ہیں اور حضرت ابن عباس کی تفسیر اس میں داخل ہے کیونکہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرنااور گڑگڑانا عبادت کی عظیم ترین قسموں میں سے ہے جو کہ اسکی رضامندگی اور رحمت کے لیے وسیلہ پکڑنا ہے۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ بہت سارے تصوف کے دعویدار جاہلوں کے پیروکار اور الحاد(دین حق سے پھرجانا) و بے دینی کے شکار لوگوں کو گمان ہے کہ آیت میں وسیلہ سے مراد وہ شیخ ہے جو اس کے درمیان اور اس کے رب کے درمیان واسطہ ہو تویہ جہالت ونادانی، گمراہی اور اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلواڑ ہے۔اللہ کے علاوہ دوسروں کو واسطہ بنانا کفارومشرکین کے کفر کے اصول میں سے ہے جیساکہ اللہ تعالی نے اپنے قول میں ان کے تعلق سے صراحت کی ہے"مانعبدهم إلاليقربوناإلي الله زلفا"(الزمر:۳) ترجمہ"(اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ(بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں" اور اللہ کایہ فرمان"ويقولون هؤلاء شفعآؤنا عندالله قل أتنبؤن الله بمالايعلم في السماوات ولافي الأرض سبحانه وتعالي عمايشركون"(يونس:18) ترجمہ"اور کہتے ہیں کہ اللہ کے پاس یہ ہمارے سفارشی ہیں۔آپ کہہ دیجیئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالی کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برتر ہے ان تمام لوگوں کے شرک سے۔"
ہرمکلف پر واجب ہے، وہ یہ جان لے کہ اللہ کی رضامندی،اسکی جنت ورحمت تک پہنچانے والا راستہ اس کے رسول کی پیروی ہے اور جس نے اس سے الگ راستہ اپنایا تو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا"ليس بأمانيكم ولاأماني أهل الكتاب من يعمل سوءا يجز به " (النسآء:23 1) ترجمہ"حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے،جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا۔"(علامہ شنقیطی رحمہ االلہ کا کلام ختم ہوا)
٭ مؤلف نےصفحہ: ۴۳میں لکھا:"توسل(وسیلہ پکڑنا) لازمی اور ضروری چیز نہیں اور نہ اس پرقبولیت کا دارومدار ہے بلکہ اصل چیز اللہ تعالی ہی کو پکارنا ہے جیساکہ فرمان الہی ہے"وإذاسألك عبادي عني فإني قريب" (البقرہ:۱۸۶)ترجمہ"جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں"
٭شیخ نے جواب دیا:جب اصل بغیر کسی واسطہ کے اللہ سے دعا کرنا ہےتو پھر اصل سے غیر کی طرف کیوں رخ کیا جاتا ہے؟ او ر ہم سے یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ اصل کے علاوہ کا رخ نہیں کیا جاتا ہے الا یہ کہ اصل نہ ہو اور اللہ جل جلالہ زندہ ہے،قیوم (نگہباں)ہے اس کو نہ تو نیند آتی ہے اور نہ اونگھ، وہ تو پسند کرتا ہے کہ بندہ اس کو پکارے، اس سے امید لگائے رکھے،اسی سے ڈرتا رہے اور اس کے اسماء وصفات کے ذریعہ اس کا وسیلہ پکڑے۔
اور جب وہ ذات باری تعالی دنیا کے کسی گوشہ میں انسان سے دور نہیں جو کہ اصلیوں کا اصلی ہے ، پھر اس سے کیوں روگردانی کی جاتی ہے؟ کیا آپ رخ پھیرتے ہیں ایسا راستہ سے جو زیادہ ہدایت والا ہے؟
آپ کہیں گےکہ توسل جس کا دراصل ہم انکار کررہے ہیں وہ ذات سے وسیلہ پکڑنا اور دعا کرنے والا کے علاوہ کا عمل وغیرہ ہے، اصل کا انکار نہیں، بلکہ اصل آپ سبھوں کے ساتھ ہے اور اصل کے زیادہ حقدار ہیں ،ہم سے ہدایت اور اتباع کا اقرار کرتے ہو اور بغیر کسی صحیح دلیل کے اصل کی مخالفت کرتے ہو۔
اصل کیا آپ کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا صرف اللہ تعالی کو بغیر کسی واسطہ کے پکارنا آپ کو مطمئن نہیں کرتا ہے؟ جب وہ زندہ ہے،قیوم ہے(نگہباں) جو پریشان حال کو سنتا ہے جب اس کو پکارتا ہے اور بلا کو ٹال دیتا ہے، پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کو ہمیشہ پکارتا رہے، بندگی کی پکار ہو یا کسی سوال کے لیے اور وہی فرماتا ہے"وإذاسألك عبادي عني فإني قريب" (البقرہ:۱۸۶)ترجمہ"جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں"
جب ایسا ہے تو پھر کیوں دوسروں کا رخ کیا جاتا ہے؟ انکی ذات ،انکی عظمت وشان اور عزت وآبرووغیرہ جیسےبدعتی الفاظ کے ذریعہ کیوں وسیلہ پکڑتے ہو؟
کیوں کر مسلمانوں کو صرف اللہ سے دعا کرنے کی تعلیم نہیں دیجاتی ہے،بلا ٹالنے،مصیبت دور کرنے،اور فائدہ کے حصول کے لیے،اور اس طرح ان کے دلوں کو دوسروں کیطرف مائل ہونے سے خالص کرلیا جاتا؟ ان کو اس کی تعلیم دیں، اور ان کے دلوں کوغیر اللہ کے ساتھ لٹکتا نہ چھوڑدیں، تاکہ وہ ان کو ساجھی و شریک بنا ڈالیں اور اس طرح اپنے رب کے انفرادی ذکر واذکار اور یگانہ محبت برباد نہ ہوجائے کیونکہ ان کے ذہن و دماغ میں ہے کہ نفع و فائدہ واسطوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔
جس نے توسل کے لیے بدعت کا دروازہ ان کے لیے کھولا ہے تو ان کو لٹکاڈالا ہے،گرچہ کچھ بعد کے لیے کیوں نہ ہو شرک کی چہاردیواریوں میں ،کیونکہ وہی اس کا طریقہ اور راستہ ہے اور اسی کے ذریعہ مردوں سے دعا،ان سے شفاعت کے لیے سوال اور فریاد رسی یا مدد کی درخواست کی جاتی ہے۔
ان تمام چیزوں کی صراحت مفاہیم کے مؤلف نےاپنی کتاب میں بہترے مقامات پر جائز قرار دیتے ہوئے کی ہے جیساکہ شفاعت کے مبحثوں میں عنقریب آئے گا، اور یہ تمام کے تمام متفق علیہ اصول کے چھوڑنے کی برائیاں اور منع کردہ خواہشات کی پیروی کرنے کا انجام بد(برا انجام) ہے۔
٭ مؤلف نےصفحہ :۴۴میں لکھا:"ہمارا خیال ہے کہ اختلاف شکلی ہے جوہری(حقیقی) نہیں کیونکہ کسی کی ذات سے وسیلہ پکڑنا حقیقت میں انسان کے اس کے عمل سے وسیلہ پکڑنے کی طرف لوٹتا ہے جس کے جائز ہونے پر اتفاق ہے۔"
٭شیخ نے جواب دیا: یہ غلط بیانی ہے اور بظاہر نفس کو دھوکا دینا ہے، کیونکہ ذات سے وسیلہ پکڑنے والے اس تاویل (ظاہری مطلب سے کسی بات کو پھیر دینا)کی دوری کو جانتے ہیں اور اختلاف جوہری ہے شکلی نہیں جسکی دلیل غلط بیانی ہے، جس کا تم لوگوں نے دعوی کیا ہے یہ تو مجاز عقلی (حقیقت کے برعکس) سے مربوط(بندھا ہوا) ہے جس کے بارے میں تفصیلی کلام عنقریب ہی آئے گا ،پھر اس شخص کا عمل ( جس سے وسیلہ پکڑا جاتا ہے)کیا وسیلہ پکڑنے والوں کے لیے عمل ہے جس کے جائز ہونے پر اتفاق ہے؟
میں یہاں مناظرہ کے طور پر کہتا ہوں، آپ فرض کریں کہ اختلاف شکلی ہے تو کیا آپ سبھوں پر واجب نہیں ہوتا کہ غیر شرعی امور کے لیے وھم میں ڈالنے والے الفاظ کو چھوڑدیں؟ کیونکہ قائل کا یہ کلام کہ میں فلاں سے وسیلہ پکڑتا ہوں، بظاہر اس کا لفظ ذات سے وسیلہ پکڑنے پر دلالت کرتا ہے جودونوں ذاتوں سے خالی ہے۔ اور یہاں لفظی قرینہ یا غیر لفظی قرینہ ملا ہوا ہو یا جدا نہیں پایا جاتا جو اس کو اس ظاہر معنی سے پھیر دے۔
اور قرینہ جس کا دعوی کیا گیا ہے وہ پوشیدہ دلی قرینہ ہے اور لوگوں کے دلوں کے بارے میں حکم لگانا اس سے باخبر ہونے کے قبیل سے ہے ،جس کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے، اور یہ بات طے شدہ ہے کہ شریعت مطہرہ کے اندر وہم میں ڈالنے والے الفاظ جن سے شرعی طور پر منع کیا گیا ہے کو چھوڑنا چاہیے جیساکہ فرمان الہی ہے"يأيهاالذين آمنوا لاتقولواراعنا وقولواانظرنا واسمعواوللكافرين عذاب أليم "(البقرہ: ۱۰۴)ترجمہ "اے ایمان والو!تم(نبیﷺکو)"راعنا" نہ کہا کرو،بلکہ"انظرنا" کہو یعنی ہماری طرف دیکھئےاور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔"
یہود گا لی کے لیے "راعنا" استعمال کرتے تھے اور جب مسلمانوں نے کہا، تو ان کو جس معنی پر ان کا دل لگ چکا تھا لفظ کی تفسیر کے تعلق سے اس میں ساجھی نہ مانتے تھے، اور یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابۂ کرام نے اس غلط(فاسد) معنی کا قصد کرتے ہوئے اس لفظ کو نہیں کہا تھا، اور یہ دل کا مضبوط ترین قرینہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس سے منع کردیے گئے۔
قرطبی نے اپنی تفسیر(۲/ ۵۷) میں کہا ہے "اس آیت میں دو دلیلیں ہیں ان میں سے ایک ایسے الفاظ سے بچنا جن میں تنقیص(کسی کی عزت و مرتبہ میں کمی کرنا ) اور بٖغض و فساد پائے جاتے ہیں۔
۲/ سدِ ذرائع (ہر وہ چیز جو گناہ سے قریب کرے اس پہلی فرصت ہی میں روک دینا) کومضبوسی سےپکڑنا اور اسکی حمایت و مدد کرنا۔"
جصاص نے(احکام القرآن ۱/ ۵۸) میں لکھاہے "اللہ کا یہ فرمان"راعنا" گرچہ اس میں مراعات (رعایت،لحاظ) اور انتظار کا احتمال ہے لیکن جب اس کے اندر مذاق اڑانے کا احتمال پایا گیا جس کو یہود بولا کرتے تھے تو اس کو بولنے سے منع کردیئے گئے، کیونکہ اس میں منع کیے گیے معنی کا احتمال ہے اور اس کی مثال لغت میں موجود ہے ،پھر انہوں نے کہا" اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر لفظ جو خیر و شر کا احتمال رکھتا ہو تو اس کو بولنا جائز نہیں یہاں تک کہ اس کو مقید کردیا جائے جو یہ بتلائے کہ وہ خیر کا ہی فائدہ دیتا ہے "ان کا کلام ختم ہوا۔
آپ ذرا غور کریں کہ کیسے صحابہ ٔ کرام نے اس لفظ کو استعمال کیا اور وہ جبکہ کسی کا مذاق اڑانے یا کسی کی گستاخی(بے ادبی) کرنے میں سب سے دور رہا کرتے تھے ،پھر بھی اس میں دونوں کا شائبہ(شک) پائے جانے کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو منع کردیا اور ان کے دلوں اورنیتوں میں پائے جانے والے صحیح معنی کی ہرگز رعایت نہ کی۔یہ واضح ہے جو الگ رہنا چاہتا ہے۔
٭ مؤلف نےصفحہ: ۴۴میں لکھا:: "توسل کے مسئلہ میں اختلاف کی وجہ تو وسیلہ پکڑنے والے کے عمل کے بغیر وسیلہ پکڑنا ہے جیسے ذاتوں یا شخصیتوں سے وسیلہ پکڑنا، اور وہ اس طرح کہے کہ: اللہ میں تمہارا وسیلہ پکڑتا ہوں تمہارے نبی محمدﷺ کے واسطہ سے یا ابوبکر صدیق یا عمربن خطاب یا عثمان یا علی رضی اللہ عنہم کے ذریعہ وسیلہ پکڑتا ہوں"
٭شیخ نے جواب دیا:اختلاف کے وقت اللہ کی کتاب، اس کے رسول کی سنت اور صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کے فقہ و فہم(سمجھ) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جیساکہ فرمان الہی ہے"ومن يشاقق الرسول من بعدماتبين له الهدي ويتبع غيرسبيل المؤمنين نوله ماتولي ونصله جهنم وساءت مصيرا"(النسآء: ۱۱۵)ترجمہ"جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول(ﷺ) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے،ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔" اور ذوات سے وسیلہ پکڑ نا اور ایسے ہی ان کے اعمال سے وسیلہ پکڑنا جنکی کوششیں ختم ہوگئیں( یعنی جو وفات پاگئے) تو اس سلسلہ میں صحابہ و تابعین میں سے سلف کے نزدیک اختلاف نہیں ہے کہ یہ دین کا حصہ نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا دعا میں جائز ہی ہے ،اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں سے کسی سے (صحیح طریقہ سے)منقول نہیں کہ انہوں نے خلفاء راشدین یا عشرہ مبشرہ یا بدری صحابیوں میں سے کسی سے وسیلہ پکڑاہو، اور جیسا انہوں نے سمجھا ویسے وہی عمل کرنا نجات دینے والا ہے جیسا کہ "سلف اور سلفیت"نامی کتاب میں اس تعلق سے واضح کردیا گیاہے۔ اور جو نیا منہج اختیار کرے گا تو وہ خلفی ہوگا اور اس کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا۔
اور جب یہ ثابت ہوگیا تو ذوات(ایسے نیک لوگ جو وفات پاگئے ، ان کے حوالے سے اللہ کا وسیلہ پکڑا جائے جیسے کوئی یہ کہے کہ اللہ فلاں فلاں تیرے نیک بندے کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں،اللہ سے براہ راست سوال کریں یا نیک زندوں کے اللہ کا وسیلہ پکڑیں جیساکہ کتاب و سنت میں ہے اور صحابۂ کرام سے اس کو ثبوت ملتا ہے۔ مترجم) وغیرہ سے وسیلہ پکڑنا ممنوع ہے چند وجوہات کی بناء پر:
(۱) یہ بدعت ہے جو صحابہ اور تابعین کے نزدیک معروف نہ تھا، اور بدعت گمراہی ہے، اور اللہ کے یہاں دعا سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ہے ،حدیث میں ہے"دعا ہی عبادت ہے( اسکو ابوداود اور ترمذی نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔) جب وہ عبادت بلکہ وہی عبادت ہے تو عبادت میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا علماء کے اتفاق کے ساتھ مردود ہے۔
(۲)کہنے والا کا یہ کہنا کہ میں ابوبکر و عمر سے وسیلہ پکڑتا ہوں تویہ ٖصاف غلط ہے، جس کی طرف اس کوغلط فہمی اور کج ذہنی (ٹیڑھاپن)نے کھینچ لایا ہے اور وہ اس کا یہ اعتقاد رکھنا کہ ہر وہ چیز جس کے ذریعہ وسیلہ پکڑا وہ وسیلہ ہوگا یہ غلط ہے۔مثال کے طور پر جو یہ کہے کہ میں ابوبکر سے وسیلہ پکڑتا ہوں تو اس نے دوذاتوں کوجمع کردیا نہ تو وسیلہ اور نہ ہی راستہ جو وہاں تک پہنچادے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ ملادے تو گویا یہ کہنے والا ایسا لفظ بولا جس کا کوئی معنی نہیں اور یہ حروف تہجی کے ذکر کرنے کے برابر ہوگا کیونکہ وسیلہ پکڑنے والا اور جس سے وسیلہ پکڑا جاتا ہے دونوں کے درمیان اتصال نہیں پایا جاتا تاکہ ان کے درمیان جمع کیا جاسکے۔
ضرور کوئی ایسی جامع چیز ہونی چاہیے جس کے ذریعہ وسیلہ پکڑا جائے اور وہ صحابۂ کرام کی محبت ہے اور وہ وسیلہ پکڑنے والے کا عمل ہے ، اگر وہ یہ کہتا کہ رب میں تمہارا وسیلہ پکڑتا ہوں ابوبکر یا عمر یا تمہارے نبی کے صحابہ سے محبت کی بناء پر تو یہ اچھا اور مشروع بھی ہوتا ،یا اگر ایسے کہتا کہ تمہارا وسیلہ پکڑتا ہوں تمہارے نبی (نبی ِ رحمت) کی پیروی کرنے، ان سے محبت اور انکی عزت واحترام کرنے کی بناء پر تو یہ نفع بخش وسیلے میں سے ہوتا، اس لیے لازم ہے ایمان کا ذکر کرنا یا نیک عمل کا جو دو ذاتوں کے درمیان جوڑتا ہے، جن کے درمیان کوئی جامع چیز ہی کے ذریعہ جمع کیا جاتا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کے تعلق سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے" ربناآمنابمآأنزلت واتبعنا الرسول فاكتبنا مع الشاهدين"(آل عمران:۵۳) ترجمہ"اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے" اور فرما یا"ربنا إننا سمعنا مناديا ينادي للإيمان أن آمنوا بربكم فآمنافاغفرلنا ذنوبناوكفرعنا سيئاتناوتوفنا مع الأبرار"(آل عمران:۱۹۳) ترجمہ "اے ہمارے رب!ہم نے سنا کہ منادی کرنے والاباآواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو!اپنے رب پر ایمان لاؤ،پس ہم ایمان لائے ،یا الہی! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کردے اور ہماری موت نیکیوں کے ساتھ کر" اور اس بارے میں بہت ساری آیتیں ہیں۔
جب مخلوق میں سب سے اعلی وافضل انبیاء ورسل، انکے پیروکار اور حواریوں نے اپنے دلوں کے عزم و ارادے کیطرف کسی کو نہ پھیرا بلکہ جو دلوں میں تھا اسکو اپنی زبان سے کہا، اور یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں کی طہارت و پاکیزگی کے بارے میں شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے،تو کیا ان کے بعد آنے والے اس کے زیادہ حقدار نہیں ہیں کہ اپنے دلوں کی باتوں کو ظاہر کریں اور کھول کر بیان کریں اور اپنے فاسد کلام کے لیے مجاز عقلی کا حیلہ و بہانہ نہ بنائیں۔
(۳)صحابہ کرام وسیلہ سے دعا کے ذریعہ وسیلہ پکڑناسمجھتے تھے ذوات(شخصیتوں اور انکی قدرومنزلت ) کے ذریعہ نہیں ۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نےنبیﷺ کے چچا عباس کی دعا اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے یزید بن اسود کی دعا سے وسیلہ پکڑا تھا۔ اگر ان کے نزدیک شخصیتوں سے وسیلہ پکڑنا جائز ہوتا تو نبیﷺ کی ذات اقدس ان کے لیے کافی تھی اور وہ ان سے وسیلہ پکڑتے، جو اللہ کے نزدیک قدرومنزلت کے اعتبارسے سب سے افضل اور انسانیت کے عظیم الشان صفات کے حامل ہیں، نبی ﷺ کی ذات جوکہ قبر شریف میں تھی سے زندوں کا رخ کئے جو آپ سے قدرومنزلت اور مرتبہ کے اعتبار سے بہت کم درجہ کےتھے ، معلوم ہوا کہ مشروع وہ ہے جو انہوں نے کیا نہ کہ جس کو انہوں نے چھوڑدیا۔
شھاب آلوسی نے "روح المعانی"(۶/ ۱۱۳) میں صحابہ کے رخ پھیرنے کے بارے میں کہا"اگر ان کو اس کے لیے ذرہ سا بھی جواز ملتا تو ہرگز لوگوں کے سردار حضرت محمد ﷺ کو چھوڑ کر ان کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قصد نہ کرتے، تو ان کا عدول کرنا باوجودیکہ وہ سابقین اولین(شروع اسلام میں اسلام کےلیے سبقت لے جانے والے ) میں سے تھے ، وہ ہم سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کو جانتے تھے، اللہ کے حقوق اور اس کے رسول کے حقوق کو، دعا میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے ؟اور وہ ضرورت و پریشانی کے عالم میں بھی تھے،پریشانیاں دور کرنے ،تنگ دستی کی آسانی اور ہرطرح سے بارش کے نزول کے لیے دعاکی درخواست کر رہے تھے جو اس بات پر واضح دلیل ہے کہ مشروع وہی ہے جسکو انہوں نے اپنایا نہ کہ غیروں نے"
(۴) کچھ دیر کے لیے یہ مان کر چلیں کہ ذوات سے وسیلہ پکڑنا اللہ تعالی کے اسماء وصفات اور اعمال صالحہ سے وسیلہ پکڑنے سے افضل ہوگا یا نہیں؟ اگر یہ کہا جائےکہ ذوات سے وسیلہ پکڑنا افضل ہے تو یہ باطل ہوگا جو کہ کلمۂ کفر ہے اور اگر اللہ کے اسماء وصفات سے وسیلہ پکڑنا افضل ہے توکیوں مفضول کی طرف سے دفاع کیا جاتا ہے اور ان سے وسیلہ پکڑا جاتاہے فاضل کی نصرت و حمایت چھوڑکر اور اس کو نشر کرنے اور لوگوں کو تعلیم دینے کے بجائے ؟
٭ مؤلف نے صفحہ: ۴۶ میں لکھا:"حدیث میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے نبی ﷺ سے وسیلہ پکڑا جیساکہ حاکم نے مستدرک میں کہا ہے: ہم سے ابوسعید عمروبن منصور عدل نے، ان سے ابوالحسن محمد بن اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے، ان سے ابوالحارث عبداللہ بن مسلم فہری نے، ان سے اسماعیل بن مسلمہ نے، ان سے نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے، انہوں نے اپنے والد سے،انکے والد نے ان کے دادا سے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، ان کا فرمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"جب حضرت آدم نے غلطی کی تو کہا: اے رب میں محمد کے حق کا واسطہ دے کر تجھ سےسوال کرتا ہوں مجھے معاف کردے․․․" امام حاکم نے مستدرک میں روایت کرکے اس کو صحیح کہا ہے(۲/ ۶۵۱) ۔ حافظ سیوطی نے "الخصائص النبویہ" میں روایت کرکے صحیح کہا ہے۔ اور امام بیہقی نے"دلائل النبوۃ"میں روایت کیا ہے اور وہ موضوعات روایت نہیں کرتے جیساکہ انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس کی صراحت کی ہے اور قسطلانی نے بھی صحیح کہا ہے،زرقانی نے"المواھب اللدنیہ"(۲/ ۶۲) میں اور سبکی نے"شفاء السقام"میں ،حافظ ہیثمی نے کہا ہےکہ طبرانی نے" اوسط" میں روایت کیا ہے اور اس میں ایسے رواۃ ہیں جنکو میں نہیں جانتا(مجمع الزوائد ۸/ ۲۵۳)"
٭شیخ نے جواب دیا: ان سطروں میں غلطیاں ، لاپرواہی اور تحریف ( الفاظ کو بدل ڈالنا)سب کچھ ہیں جنکو انشاء اللہ میں عنقریب بیان کرونگا، میں گمان نہیں کرتا تھا کہ اپنے علم پر اور اپنے زمانہ کے علماء (جو اس کے پیروکار ہیں اور علم کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں)پر فخرومباہات(شیخی) کرنے والا اس قدر جہالت و نادانی کرتا یہاں تک کہ اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کے تعلق سے اس طرح کی باتیں لکھ ڈالتا۔
یہاں مؤلف کے کلام پر میرے تین ملاحظات ہیں۔
(۱) جو کچھ اس نے لکھا اور حدیث کی تخریج میں جن کی طرف انتساب کیا ۔
(۲) حدیث کی روایت کے سلسلے میں کلام
(۳) حدیث کی متن اور اسکی درایت(معنی ومفہوم) میں غوروفکر
جہاں تک پہلے کی بات ہے تو اس بارے میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:
(۱)اس نے حدیث کے انتساب میں قصور و کوتاہی کی ہے، اس کو حاکم کے طبقہ ،ان کے مشایخ کے طبقہ اور انکے بعد کے محدثین کی ایک جماعت نے اسے روایت کیا ہے ،جس کا دارومدار عبدالرحمن بن زید بن اسلم پر ہے، اور انکی کثرت خبر (حدیث)کو قوی بنانے کا فائدہ نہیں دیتی، اس لیے ان کو ذکر نہیں کرونگا تاکہ حدیث اور محدثین کے اصطلاحات سے لاعلمی کی بناء پر یہ لوگوں کے لیے مشکل نہ بن جائے۔
(۲) حاکم کی سند کے نقل کا مسئلہ ہے جس کو اچھی طرح نہیں نقل کیا ہے، مسند سے (عن ابیہ)ساقط ہوگیا تھا جس کو میں نے سند کے ساتھ لگا دیا ہے، مستدرک سے نقل کی توثیق میں بھی وہم ہوا ہے اس لیے دومرتبہ(۲/ ۶۵۱) ذکر کیا ہے، اور یہ بدل ڈالنا ہے اور غلطی ہے اور قلم کی سبقت نہیں ہے کیونکہ بار بار ایسا ہوا ہے پھر میں نے بحرین کے ایک واعظ کا "اعلام النبیل" رسالہ کا مطالعہ کیا تو پایا کہ اس نے ویسے ہی منسوب کیا ہے جیساکہ یہاں ہے(۲/ ۶۵۱) جو رسالہ "مفاہیم "سے پہلے چھب چکا تھا، ذرا آپ غور کریں کہ ہرچیز میں کیسے تقلید کی جاتی ہے جبکہ صحیح( ۲/ ۶۱۵) ہے اور"مستدرک " کا اس وقت تک صرف ایک ہی ہندی طباعت والا نسخہ چھپا تھا۔
اس نے کہا"صححہ"یعنی حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور یہ غلط ہے حاکم نے تو "صحیح الاسناد" کہا ہے اور حدیث میں کام کرنے والے صحتِ اسناد اور صحتِ حدیث میں فرق کرتے ہیں۔
(۳) اس کا یہ کہنا کہ"حافظ سیوطی نے اس کو روایت کیا ہے اور اسکی تصحیح کی ہے" تو یہ اس کے عجیب و غریب مفاہیم میں سے ہے جو اس کے علم حدیث سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے گرچہ کہ اس کو جھوٹی سرٹیفکٹ دے دی گئی ہو کیونکہ اس کا یہ قول"رواہ"غلط ہے، محدثین اس کو اس وقت استعمال نہیں کرتے جب کوئی حدیث ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لاکر اس سے اپنی مراد پر استدلال کررہا ہو، ایسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ یہ کہاجائے کہ اس نے اس کو روایت کیا ہے "رواہ" کا کلمہ نہیں بولا جاتا ہے الایہ کہ جس نے حدیث کو اپنے مشایخ سے سند کے ساتھ اخیر تک ایسا ہی بیان کرے۔
رہا اس کا یہ کہنا"وصححہ"تو مجھے تعجب ہے کیونکہ سیوطی نے"الخصائص" میں حدیث پر تصحیح کا حکم نہیں لگایا ہے جیساکہ اس نے نقل کیا ہے ، یہ تو سیوطی پر افترا ء پردازی ہے(جھوٹا الزام لگانا ہے)
مؤلف نے اپنے کم علمی کے باوجود سیوطی کے قول کو"الخصائص"(۱/ ۸) کے مقدمہ سے لیاہے "میں نے موضوع روایات اور اس کے تحت آنے والے سے اس کو پاک صاف کردیا" انہوں نے عموم سے کام لیا ہے اور ان کا یہ کہنا ہر حدیث کی صحت کا فائدہ نہیں دیتا ہے۔اس لیے کہ انہوں نے اپنی دوسری کتاب "مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء" میں صفحہ ۳۰ پراس کے ضعف کی ٖ صراحت کی ہے( طبعہ مصریہ حجریہ ۱۳۷۶؁ھ۔)
سیوطی نے"الخصائص" میں ابونعیم کی اتباع کی ہے گرچہ سند تاریک ہے یا متن منکر ہے، جس کی صراحت اپنی کتاب میں (۱/ ۴۷) میں کی ہے۔ دوسخت منکر حدیث کو ذکر کرنے کے بعدکہا "میرا نفس ان دونوں کے لانے پر مطمئن نہ تھا لیکن میں نے اس میں حافظ ابونعیم کی اتباع کی ہے۔"
(۴) بیہقی کے بارے میں کہا"وہ موضوعات روایت نہیں کرتے"
شیخ نے کہا: حدیث کی روایت کے بعد بیہقی کے کلام کو کیوں نہیں نقل کیا ؟چونکہ تلبیس(دغا بازی) اور اجمال سے کام لینا اس کی عادت ہی بن گئی ہے جو عام لوگوں پر مشتبہ ہوجاتا ہے اور اس طرح وہ ہمیشہ دلیل میں ادھر ادھر کرتا رہتا ہے۔
بیہقی نے "دلائل النبوۃ"(۵/ ۴۸۹) میں حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا ہے"عبدالرحمن بن زید بن اسلم منفرد ہے جو کہ ضعیف ہے"
بیہقی کا یہ کلمہ اہمیت کا حامل ہے جس کی قدروقیمت محدثین کو معلوم ہے۔ رہا معاملہ بدعتیوں کا تو یہ اجمال ہی جانتے ہیں ان طلبہ جیسے جو اہل علم کے مصطلحات کو نہیں جانتے ہیں۔
حافظ ذہبی نے "میزان الاعتدال" (۳/ ۱۴۰۔۱۴۱) میں کہا ہے"اگر صدوق منفرد ہوتا ہے یا جو اس سے کم درجہ کا ہے تو منکر شمار ہوگا" جب یہ صدوق کی شان ہے اور اسکی جو اس سے کم درجہ کا ہو جس کا حفظ کم ہو، اس کا بھولنا زیادہ ہو اور اپنا ضبط کو ضائع کردیا ہو ، تو آپ کا کیا خیال ہے ضعیف کے منفرد ہونے پر جسکے عادل نہ ہونے پر علماء جرح و تعدیل(ایسے علماء ومحدثین جو حدیث اور اس کے روایت کرنے والوں کی توثیق وتضعیف کے بارے میں کلام کرتے ہیں۔ ) کا اجماع ہے ، بعض نےجیسے امام حاکم نے کہا کہ اسکی حدیثیں موضوع ہوتی ہیں جن سے آپ انشاء اللہ عنقریب ہی واقف ہوں گے۔
مؤلف نے کہا"قسطلانی نے اس کو صحیح کہا ہے"
میں کہتا ہوں کہ یہ کتاب"المواھب"ہے، انہوں نے تصحیح کی ہے یا بیہقی کا مذکورہ کلام کونقل کیا ہے۔ (جس کا نص شرح کے ساتھ ۱/ ۷۶) " بیہقی نے کہا عبدالرحمن منفرد ہے" یہ قسطلانی کا کلام ہے اور المواھب الزرقانی کے شارح نے اس کا مراد یہ سمجھا کہ"عبدالرحمن منفرد ہے یعنی اس پر دوسروں نے اس کی متابعت نہیں کی ہے وہ تو اپنے راوی کے کمزور ہونے کے ساتھ غریب ہے"
قسطلانی مواھب اور اپنی دیگر کتابوں میں سیوطی سے ان کی کتابوں سے بغیر انتساب کئے نقل کرتے ہیں اور ایسا ہی ہو چلا جیساکہ ابن العماد نے"شذرات الذھب"میں بیان کرتے نقل کیا ہے جس کو میں ذکر کرتا ہوں تاکہ جان لیا جائے کہ قسطلانی مواھب میں دوسروں کا کلام نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی تصحیح پر غرورو گھمنڈ نہ کیا جائے۔ وہ تو علماءِ تخریج اور جرح و تعدیل میں شمار نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ وہ نقل کیاکرتے ہیں۔(۱)
ابن العماد نے(۸/ ۱۲۲۔ ۱۲۳ )میں کہا ہے "بیان کیا جاتا ہے کہ حافظ سیوطی ان سے چشم پوشی کرتے (درگذر کرنا ) اور انکا خیال تھا کہ وہ ان کی کتابوں سے لیتے ہیں ، ان سے مدد حاٖصل کرتے ہیں اور منقول کلام کو ان کی طرف منسوب نہیں کرتے اور اس کا دعوی انہوں نے شیخ الاسلام زکریا کے سامنے کیا ،جنہوں نے ان سے اپنے دعوی پر دلیل طلب کیا، پھر انہوں نے چند جگہوں کی طرف نشاندہی کی ، جن میں اس نے بیہقی سےنقل کیا ہےاور یہ کہہ ڈالا کہ "بیہقی کی بہت ساری مؤلفات ہیں" چاہیے کہ ذکر کرے کہ بیہقی نے اپنی کس کتاب میں اس کو بیان کیا ہے تاکہ ہمیں پتہ ہوجائے کہ انہوں نے بیہقی سے نقل کیا ہے ،انہوں نے تو بہت زیادہ نقل کرڈالا ہے بغیر انتساب کے جبکہ حق تو یہ تھا کہ وہ کہتے کہ سیوطی نے بیہقی سے نقل کیاہے۔شیخ جاراللہ بن فہد نے بیان کیا ہے کہ قسطلانی جلال الدین سیوطی کے دل و دماغ میں جوغصہ تھا اس کو ٹھنڈا کرنے قاہرہ سے سیوطی کے دروازہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)یعنی تخریج و تصحیح کی انکی کتابیں مفید ہیں اگر ان واہیات سے احتراز کیا جائے جو وہ ذکر کرڈالتے ہیں
روضہ تک چل کر گئےاور دروازہ کھٹکھٹایا تو سیوطی نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہاکہ قسطلانی ننگے سر پیدل چل کر آیا ہوں تاکہ آپ کا دل میرے اوپر نرم ہوجائے ،انہوں نے فرمایا میرا دل تم پر نرم ہوگیا اور دروازہ نہیں کھولا اور نہ ملاقات کی"الشذرات۔
سیوطی کی "الفارق بین المصنف والسارق" نامی ایک کتاب ہے اور شاید کہ ان کے مقصود قسطلانی ہیں(بغیرجزم کے کہتا ہوں) اس میں انہوں نے کہا"مجھے اپنی بعض کتابوں پر ٖغیرت ہو تی ہے کہ انکو جمع کرنے میں سالوں لگایا،ان میں پرانے اصولوں کو ڈھونڈھا اور میری کتاب"المعجزات والخصائص"کی طرف طویل و مختصر (لمبےاور چھوٹے )نے رخ کیا اور اس میں جو کچھ میری عبارتیں تھیں جن کو اہل علم جانتے ہیں سبھوں کی چوری کرڈالا۔(۱)
(۶) اس کا یہ کہنا کہ زرقانی نے(المواھب اللدنیہ ۲/ ۶۲) میں اس کی تصحیح کی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ زرقانی کی المواھب نامی کوئی کتاب نہیں ہے اور کاتب نے شرح المواھب کا شاید قصد کیا ہے ،پھربھی زرقانی نے اس کو ضعیف گردانا ہے اور اس کی تصحیح نہیں کی ہے ،انہوں نےتو کہا(۱/ ۷۶) وہ اپنے راوی کے ضعیف ہونے کے ساتھ غریب ہے)
مؤلف نے جو صحیح نہیں ہے اس کو کیونکر نقل کیا اور تحریف سے کیوں کر کام لیا ؟ اور ان کو تلبیس (دغابازی )کرنا کتنا ہی اچھا آتا ہے اور اپنے نقل کی غلط توثیق کیسے کرتے؟ جزء ۲ کی طرف حوالہ دیتے ہوئے جبکہ وہ پہلی جزء میں ہے۔
(۷) جن لوگوں نے تصحیح کی ہے ان کے ضمن میں کہا ہے " سبکی نے"شفاءالسقام" میں" سبکی نے تصحیح میں حاکم کی تقلید کی ہے اور مقلد سے دھوکا نہ کھانا چاہیے،سبکی نےصفحہ : ۱۶۳ پر کہا"اور ہم نے اس کی تصحیح میں حاکم پر اعتماد کیا ہے"سبکی نے اس کے ضعف (کمزور ہونے کا)کا اقرار کرتے ہوئے کہا لیکن" عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعف میں اس درجہ کو نہیں پہنچا جس کا اس نے دعوی کیا ہے۔"
۔۔۔۔۔
(۱)۔مجلہ عالم الکتب ربیع الثانی ۱۴۰۲ھ صفحہ : ۷۴۵ رسالہ"الفارق" قاسم سامرائی کی تحقیق کے ساتھ پورا نشرکیا گیا ۔

(۸) جنہوں نے ہیثمی سے حدیث کے انتساب کو طبرانی کے "معجم صغیر" میں ہونے کو نقل کیا ہے اس کو ساقط(گراہوا) کر ڈالا جس پر تنبیہ کرنا لازم ہوا۔
دوسرا ملاحظہ:روایت اور حدیث کی سند پر کلام:
مذکورہ بیانات سے واضح ہوگیا کہ حدیث کی صحت اسناد کو صرف حاکم نے کہا ہے جیسا کہ مستدرک ۲(/ ۶۱۵) میں ہے۔"صحیح الاسناد (۱)اور یہ پہلی حدیث عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی ہے جس کو میں نے ذکر کیا ہے۔ جن لوگوں نے بھی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے تو ان کا دارومدار عبدالرحمن بن زید بن اسلم پر ہے۔ اور یہاں جس چیز پر تنبیہ کرنا مناسب ہے وہ علمی تحقیق کے وقت حاکم کے کلام کو قبول نہیں کیا جائے گا مندرجہ ذیل امور کی بناء پر:
(۱) انہوں نے اپنی کتاب"المدخل الی الصحیح"(۱/ ۱۵۴) میں کہا ہے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے موضوع احادیث روایت کیا ہے جو اس فن میں غوروفکر کرنے والوں سے مخفی نہیں ہے اور ان کا اسی پر دارومدار ہے" اور انہوں نے(المدخل ۱/ ۱۱۴) میں کہا ہے"میں اللہ کی توفیق و مدد سےمجروحین کا نام بیان کرتا ہوں جن کا مجروح ہونا مجھ پر اجتہاد کےبعد ظاہر ہوگیا ہے ائمہ میں سے کسی کی تقلید کرتے ہوئے نہیں، اور میں امید کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی حدیثوں کو ان کے حالات بیان کرنے کے بعد ہی لیا جائے نبیﷺ کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے"جو کوئی حدیث بیان کرے اور وہ یہ خیال کرتا ہو کہ یہ جھوٹی حدیث ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہوگا۔"
ان کے نام بیان کیا اور انہیں میں سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کو ذکر کیا جیسا کہ ہم نے نقل کیا ہے تو یہ امام حاکم کی طرف سے متعارض و متضاد باتیں ہیں لیکن اس کا سبب کیا ہے؟ اور کس چیز نے ان کو ایسی حدیث کی سند کو صحیح کہنے پر ابھارا جس میں عبدالرحمن ہے؟
جواب: اہل حدیث اور خواہشات سے پاک اصحاب فکر و نظر کو معلوم ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) لطائف میں سے ہے کہ مستدرک کے ہندی طبعہ میں طباعتی غلطی ہوئی ہے اس طرح"ھذاحدیث صیح الاسناد"اور صیح یصیح الشئ سے ہے جب ٹوٹ جائے جیساکہ "تاج العروس شرح القاموس ۲/ ۱۸۶" میں ہے تو صیح الاسناد کا معنی اسناد کا ٹوٹا ہوا اور یہ بہتر بات ہے اور اس غلطی کے ہونے میں اللہ کی طرف سے حکمت ہے تو آپ سب ہوشیار ہوجائیں۔


مستدرک کی کتابت ۳۹۳؁ھ (جیساکہ السماع ۱/ ۲ وغیرہ میں ہے) میں شروع کی یعنی ۷۲ سال کی عمر
میں، حافظ ابن حجر نے (لسان المیزان ۵/ ۲۳۳) میں کہا ہے"کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ آخری عمر میں وہ تغیر اور غفلت کا شکار ہو چکے تھے اور اس پر یہ دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے"الضعفاء" میں ایک جماعت کو ذکر کرکے ان سے روایت نہ کرنے اور ان سے حجت نہ پکڑنے کو کہا ہے پھر ان میں سے کچھ کی احادیث کو "مستدرک" میں لا کر ان کو صحیح بھی کہا ہے ، اسی قبیل سے انہوں نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی حدیث نکالی ہے جس کو ضعفاء میں انہوں نے ذکر کیا ہے، کہا: اس نے اپنے والد سے موضوع حدیث روایت کی ہے جو محدثین سے مخفی نہیں، جو ان میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں کہ اس میں اسی پر دارومدار ہے"حافظ ابن حجر کا کلام ختم ہوا۔
مستدرک کے بارے میں علماء اھل حدیث اسی پر چل پڑے ہیں اور اسی قبیل سے سخاوی کا"فتح المغیث ۱/ ۳۶)میں یہ قول ہے"کہا جاتا ہے کہ اس میں سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اسکی تصنیف کی اور وہ غفلت وتغیر کے شکار ہوچکے تھے یا ان کو اسکو املاء کرانے یا اسکی تصحیح کرنے کا موقع نہ مل سکا،جس پر دلیل یہ بھی ہے کہ پوری کتاب کی بہ نسبت پہلے پانچویں حصے تک ان کا تساہل( بھول چوک)بہت کم ہے کیونکہ انہوں نے پایا یہاں تک حاکم کا املاء ختم ہوچکا۔"
عبدالرحمن بن زید اسلم حدیث کے راوی جن سے ذوات سے وسیلہ پکڑنے کو جائز قرار دینے والوں نے حجت پکڑی ہے تو وہ حدیث میں "ضعیف جدا" کافی ضعیف تھے جیساکہ علی بن مدینی نے کہاہے۔اور ابوحاتم رازی نے کہا بذات خود وہ صالح تھےلیکن حدیث میں واہی (کمزور)تھے۔ احمد ابن معین بخاری، نسائی ،دارقطنی اور ان کے علاوہ بہتوں نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔طحاوی نے کہامحدثین کے نزدیک اسکی حدیث سخت درجہ کی ضعیف ہوتی ہے۔
یہ عبارت اپنے وقت کے حنفیوں کے امام اوراپنے زمانہ کے مصریوں کے شیخ کی ہے تو کیا مؤلف یہ حلال سمجھتا ہے کہ اللہ کی قربت حاصل کرے اور ایسی حدیث کے ذریعہ عبادت کرے جو سخت درجہ کی ضعیف ہو، آپ اپنے قدموں کو کیسےمضبوط کریں گے جبکہ آپ اپنے رب کے سامنے پوچھے جائیں گے،کس چیز سے حجت پکڑیں گے ،کس چیز پر سہارا لیں گے ؟مسئلہ کا جواب تیار کریں کیونکہ معاملہ سنگین (سخت)ہے۔
۲۔ حاکم اور بیہقی کی سند میں عبداللہ بن مسلم بن فہری نامی ایک آدمی ہے، جس کا ترجمہ حافظ ذہبی نے (المیزان ۲/ ۴۰۵)میں کیا ہے اور کہا کہ اسماعیل بن مسلمہ بن قعنب نےعن عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے طریق سے ایک باطل حدیث روایت کی ہے جس میں ہے"اے آدم اگر محمد نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا" بیہقی/ دلائل النبوۃ)
حافظ ابن حجر نے لسان المیزان(۳/ ۳۶۰) میں کہا ہے ، میں نے کہا یہ مستبعد (دور)نہیں کہ وہی اس سے پہلے ہو کیونکہ وہ اس طبقہ سے ہے"یعنی جو اس سے پہلے ہے فہری کے ترجمہ سے اور وہ عبداللہ بن مسلم بن رشید ہے، ذہبی نے کہا ابن حبان نے حدیث گڑھنے کی تہمت لگائی ہے۔
۳۔ حدیث کی سند کو بہت سارے لوگوں نے ضعیف کہا ہے، ان میں سے بیہقی نے دلائل النبوۃ(۵/ ۴۸۶) میں ،ذہبی نے تلخیص المستدرک ۲(/ ۶۱۵ )میں کہا ہےکہ موضوع ہے اور میزان میں باطل کہا ہے، تو وہ سندکے اعتبارسے موضوع اور متن کے اعتبار سے باطل ہے اور انہیں میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہیں جنہوں نے "الردعلی البکری ص ۶ "میں وضع کا حکم لگایا ہے ۔
انہیں میں سے ابن عبدالہادی ہیں جنہوں نے "الصارم المنکی" میں اس کے موضوع ہونے کی تائید کی ہے۔
حافظ ابن کثیر نے (البدایہ والنہایہ ۲/ ۳۲۳) میں اس کے راوی کے بارے میں کہا ہےکہ "وہ متکلم فیہ ہے(اس کے بارےمیں کلام ہے)" اور بیہقی کے کلام کو اس کے راوی کے ضعف سے متعلق نقل کیا ہے۔
ہیثمی نے (مجمع الزوائد ۸/ ۲۵۳) میں، سیوطی نے"تخریج احادیث الشفاء" میں ص ۳۰پر ،زرقانی نے (شرح المواھب ۱/ ۷۶) میں، الشہاب الخفاجی نے (شرح الشفاء۲/ ۲۴۲ )میں، ملاعلی قاری نے (شرح الشفاء۱/ ۲۱۵ )میں اور ابن عراق نے (تنزیہ الشریعہ ۱/ ۶۷) میں اس کے بطلان کو نقل کیا ہے۔
تیسرا ملاحظہ: حدیث کے متن اور اسکی درایت کے بارے میں:
یہ ثابت ہے کہ دعا جس کی وجہ سے اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی جیساکہ اللہ نے سورۂ
اعراف میں فرمایا ہے"قالاربناظلمناأنفسناوإن لم تغفرلناوترحمنالنكونن من الخاسرين"(الاعراف:۲۳)ترجمہ "دونوں نے کہا اے ہمارےرب: ہم نے اپنا بڑا نقصان کیااور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گااور ہم پر رحم نہ کرےگا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے" تو یہ وہ کلمات ہیں جنہیں آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے پاکر توبہ کی جیساکہ فرمان الہی ہے"فتلقي آدم من ربه كلمات فتاب عليه إنه هوالتواب الرحيم"(البقرہ: ۳۷)ترجمہ"(حضرت) آدم (علیہ السلام ) نےاپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی ،بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے"
حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر(۱/ ۱۱۶ )میں کہا ہے "یہ مجاہد،سعید بن جبیر،ابوالعالیہ،ربیع بن انس،حسن، قتادہ،محمد بن کعب القرظی،خالد بن معدان،عطاء خراسانی اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے مروی ہے۔"
دس اہل علم نے اس کی تفسیر سورۂ اعراف کی آیت سے کی ہے اور انہیں میں سےآدم کے وسیلہ پکڑنے کےبارے میں منکر حدیث کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہیں۔
یہ مزید اس کے منکر و واہی حدیث کی توہین کرتا ہے اور یہاں ذکر نہیں کیا کہ صحابہ،تابعین، یا تبع تابعین میں سے کسی نے آدم کے نبی محمد سے وسیلہ پکڑنے کی تفسیر کی ہے۔ نہ تو صحیح طریق سے اور نہ ہی ضعیف طریق سے الا یہ کہ سخت ترین درجہ کا موضوع ہو اور شاید کہ حضرت محمد سے وسیلہ پکڑنے پر گناہ آدم کی مغفرت کا قصہ جاہل مسلمانوں نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں اہل کتاب سے لیا ہے جوہمارے محمدﷺ کی فضیلت ثابت کرنا چاہتے تھے انہیں جو کچھ سمجھ میں آیا کہہ گئے۔
شہرستانی نے اپنی کتاب"الملل والنحل ۱/ ۵۲۴) میں نصاری کے عقائد نقل کرتے ہوئے ان کا یہ قول نقل کیا ہے"مسیح علیہ السلام ان کا درجہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ اللہ کے لڑکے ہیں جنکی کوئی مثال نہیں اور نہ ہی انبیاء میں ان جیسا کوئی ہے اور وہ تو وہ ہیں جنکی وجہ سے آدم علیہ السلام کی غلطی معاف کردی گئی"یہ نصاری کا عقیدہ ہے توجاہل مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کرڈالاہے۔
٭مؤلف نےص: ۴۷ میں حدیث "لمااقترف "کے سیاق اور ابن تیمیہ کے استشہاد کے بعد لکھا " اس بات پر دلیل ہے کہ یہ حدیث ابن تیمیہ کے نزدیک استشہاد اور اعتبار کے لائق ہے کیونکہ موضوع یاباطل سے محدثین کے نزدیک استشہاد(دلیل پکڑنا) نہیں کیا جاتا ہے۔"
٭شیخ نے جواب دیا: بلکہ شیخ الاسلام نے "الرد علی البکری" کے شروع میں حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس کے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے جو بنی اسرائیل کے حکایات کے مشابہ ہے ۔ جیسا کہ ص : ۶ میں ہے "یہ اور اس جیسی حدیثوں سے شرعی حکم کے اثبات میں حجت نہیں پکڑی جاسکتی ہے جس کی طرف ائمہ میں سے کوئی سبقت نہیں لے گئے ہیں اور عبادت کے اثبات کو صحابہ میں سے کسی نے نہیں کہا ہے نہ تو تابعین اور نہ ہی تبع تابعین ہی میں سے کسی نے الا یہ کہ وہ شرعی احکام کے تعلق سے با لکل جاہل ہو اور دینی مسلکوں میں سب سے زیادہ گمراہ ہو کیونکہ اس حدیث کو کسی نے نبیﷺ سے نقل نہیں کیا ہے نہ تو حسن سند سے اور نہ صحیح سے بلکہ ضعیف سند سے بھی نہیں نقل کیا ہے جس کو لیا جاتا ہےاور جس کے ذریعہ تقویت پہنچائی جاتی ہے۔"
شیخ الاسلام نے بہت ساری جگہوں پر ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے لیکن مؤلف کے نقل کردہ کلام میں وحدت وجود والوں کے کلام پائے جانے کی وجہ سے ان دونوں حدیثوں کو اپنی عادت کے خلاف سندوں کے ساتھ ذکر کیا جبکہ وہ اسناد کو شاید ہی ذکر کرتے ہیں، اور یہاں اسناد اس لیے لایا تاکہ جو ان کا مطالعہ کرے ان کی سندوں کو جان لے ، علماء کی یہ عادت رہی ہے کہ جس نے سند کو ذکر کردیا تو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرڈالی(سبکدوش ہوگیا) اور اس کے بعد اس پر حکم وضع کا یا کچھ اور کا سند پر غو ر کرنے سے پتہ چلے گا اسی لیے توآپ حفاظ حدیث میں سےابونعیم، خطیب اور ان جیسے دیگر محدثین اور کبھی بیہقی کو موضوع احادیث یاسخت ضعیف احادیث بیان کرتے دیکھتے ہیں جن کو محدثین جانتے ہیں اور ان کے تعلق سے یہ اعتذار کیا جاتاہے کہ یہ لوگ اسانید کو ذکر کرتے ہیں اور جس نے اسناد کو ذکر کردیا تو اس نے اس میں پائی جانے والی کمی و کمزوری یا ظلمت و تاریکی کو بیان کردیا اگر اس میں کسی طرح کی کمی و کمزوری یا ظلمت و تاریکی ہے تو۔
٭مؤلف نے صفحہ ۵۰ میں لکھا:"حدیث میں رسول اللہﷺ سے انکے عالم وجود میں آنے سے پہلے وسیلہ پکڑا گیا ہے اور توسل کی صحت میں دارومدار اس پر ہے کہ جس سے وسیلہ پکڑا جارہا ہے اللہ عزوجل کے پاس اس کا بلند وبالا مرتبہ ہو اور یہ شرط نہیں لگائی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں زندہ ہو"
٭شیخ نے جواب دیا: مؤلف نے موضوع حدیث کی تصحیح پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں وارد علت سے حکم کا استنباط کیا پھر علت کو قیاس میں بدل ڈالا حکم کی جگہ اور حکم کے زمانہ کی رعایت کئے بغیرجس کی توجیہ حدیث میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے نبی سے ان کے وجود میں آنے سے پہلے یعنی زندگی سے پہلے وسیلہ پکڑا اور وہ زندگی کے فاقد ( اس وقت انکی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی) تھے اور جو ایسا ہو اس سے وسیلہ پکڑنے کا کوئی معنی نہیں مگر اس کی زند گی میں، زندگی سے پہلے اور بعد میں ہر دو اس کے لیے برابر ہے اس طرح خواہشات اور گھٹیا ترین کلام کو ثابت کرنا چاہا ہے۔
مزید یہ کہ مؤ لف کے نزدیک توسل کے لیے نبی ﷺ کی تخصیص اس کا کوئی معنی نہیں اس طرح کہ اس نے ہر وہ شخص جس کا اللہ کے نزدیک بلند قدرومنزلت ہو اس کو نبی پر قیاس کر ڈالا خواہ ولی یا صاحب ِکرامت کیوں نہ ہو۔
اور یہ ہو بہو قبوریوں کا احتجاج ہے جو غیر اللہ کی عبادت میں پھنس کر رہ گئے ،مردہ سے دعا کرنے اور اس سے مدد طلب کرنے کو زندہ سے دعا کی درخواست کرنے پرمحمول کیا ہے اور اس سلسلہ میں بحث و مباحثہ بھی کیا ہے تو جب ان لوگوں کو یہ گمان ہو چلا کہ یہ ان کے لیے ثابت ہوگیا جس کا نبی ﷺ کے حق میں انہوں نے گمان کیا ہے، کہہ ڈالا نبی ﷺ سے دعا ،شفاعت طلبی یا ان جیسی عبادت کو خاص رکھنے کا کوئی معنی نہیں بلکہ یہ تو نبوت( اگر نبی ہے تو) یا کرامت کے ذریعہ اوروں کو حق ملنا چاہیے جیسا کہ اس کے قائل نے کہا توسل کی صحت میں دارومدار اس بات پر ہے کہ جس سے وسیلہ پکڑا جاررہا ہے اللہ کے نزدیک اسکی قدرومنزلت ہو اور یہ تمہید ہے ایسے مسائل کا جنکو یہاں نہیں کھولا گیا۔
آپ شرعی احکام پر اس کی جرات مندی ذرا دیکھیں ،موضوعات کو صحیح قراردیتا ہے اور فاسد قیاس کرتا ہے جس کو کسی عالم نے نبی ﷺ کی بعثت سے لے کر تیسری صدی کے ختم ہونے تک (جوکہ قرون مفضلہ ہے) نہیں کہا، یہاں تک کہ قرامطہ باطنیہ اور ان کے پیروکار"اخوان الصفا" ظاہر ہوئے، یہ مشہور جماعت ہے جو چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہوئی اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس کو بڑھاوادیا یہاں تک کہ مؤلف بن بیٹھا اورجو چاہاسو لکھ مارا،اور اس سے پہلے گمراہ کن لوگوں نے اس کو اپنایا ،ذرا آپ غور کریں کہ جوکچھ"اخوان الصفا" نے کہا اور کیسے اس دین کی شریعت سازی کرڈالی جس کو تیسری صدی کے مسلمانوں کو پتہ بھی نہ تھا ، اللہ کی ذات پاک ہے جس نے دلوں کو دوحصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
اخوان الصفا کے رسائل کے ضمن میں رسالہ ۴۲ میں ان کا یہ قول ہے( ۴/ ۲۱) "بھائی جان لیں کہ لوگوں میں سےکچھ ایسے ہیں جو اللہ کی قربت، اس کے انبیاء و رسل، ائمہ، اوصیاء، اولیاء اور اس کے نیکوکار بندے یا اللہ کے یہاں پہنچے فرشتے کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، ان کی تعظیم کرتے، ان کو سجدہ گاہ بناتے، ان کے افعال کی اقتداء کرتے، ان کی وصیتوں پر عمل کرتے اور ان کی سنتوں پر جو اس سلسلے میں ان کو قادر بنا ڈالتا ہے، ان کے نفوس میں پائے جانے لگتا ہے اور ان کو اجتہاد تک پہنچا دیتا ہے ،جو اللہ کو پوری طرح جان لیتا ہے تو اس کی طرف غیر کا وسیلہ نہیں پکڑتا ہے اور یہ اہل معارف کا رتبہ و مرتبہ ہے جو اولیاء اللہ ہیں۔لیکن جس کی سمجھ، اسکی معرفت و حقیقت اس سے کم ہو،تو اس کے لیے اللہ تعالی کی طرف انبیاء کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ،اور جس کی سمجھ و معرفت اس سے کم ہوئی تو اس کے لیے اللہ کی طرف کوئی راستہ نہیں ان کے جانشیں ائمہ اور اس کے بندے کے سواءاور اگر اس سے بھی قاصر رہ گئے تو اس کے لیے کوئی راستہ نہیں مگر یہ کہ ان کے آثار کی پیروی کریں، ان کی وصیتوں پر عمل کریں، ان کے طریقوں سے چپکے رھیں، ان کی مسجدوں اور مشاہدوں کو جایا کریں ،دعا کریں ، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں ،توبہ و استغفار کریں، اور ان کی قبروں کے نزدیک اور ان کے شکل و صورت کی بنائی ہوئی مورتیوں کے پاس رحمت طلب کریں تاکہ آپ ان کی نشانیوں کو یاد رکھیں، ان کی حالتوں کو جان لیں مورتیوں اور اسٹیچووں کی صورت میں اور جو اس سے مشابہ ہو اللہ کی قربت و نزدیکی طلب کرتے ہوئے۔پھر آپ جان لیں کہ جو چیزوں میں سے کسی چیز کی عبادت کرتا ہے، اور کسی کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے تو زیادہ اچھا ہے اس کے بہ نسبت جو کسی دین کو نہیں مانتا اور نہ سرے سے اللہ کی قربت ہی حاصل کرنا چاہتا ہے۔"
ایسے ہی باطنی اخوان الصفا نے مسلمانوں میں شرک کو داخل کیا اور وہ جاہلوں میں پھیلتا چلا گیا سوکھتے درخت کے پتوں میں بھڑکتی چنگاریوں کے پھیلنے کی طرح، پھرعلماء کی جماعتیں اس کے انکار کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں، شروع میں بالکل اس کا معاملہ واضح نہ تھا اور نہ اس کا راستہ کھلا تھا کیونکہ مسلمانوں میں بت پرستی دین نہ مانی جاتی تھی، پھر شان و عظمت واضح ہوتی گئی اور چادر ہٹتی گئی اور علماء چوتھی صدی یا پانچویں صدی میں اس پر نکیر کرنے لگے اور انہی میں سے ابن عقیل حنبلی ہیں، جنہوں نے کہا:" جب اجڈ جاہلوں پر مشکلات سخت ہونے لگیں تو شرک کی حالتوں سے تعظیم کی طرف عدول کرنے لگے، اور اس کو اپنے آپ کے لیے وضع کرنے لگے ،تو ان پر آسان ہوگیا کیونکہ دوسروں کے حکموں کے تلے اس میں داخل نہیں ہوئے اور وہ ہمارے نزدیک اس حالت و صورت میں کافر ہیں جیسے قبروں کی تعظیم کرنا، حوائج و ضروریات کے لیے مردوں کو پکارنا، اور پتوں پر لکھنا: اے میرے مولی میرے ساتھ ایسا ویسا کر اور چتھڑوں کو درختوں پر لٹکانا ان لوگوں کی پیروی کرتے ہوئے جنہوں نے لات و عزی کی عبادتیں کیں۔"
تو یہ شرک اکبر ہے جس کی بنیاد وہ باطل و فاسد قیاس ہے جس کو صاحب مفاہیم نے کہا ہے ذوات سے توسل کا باب جس کو ہم شرک تو نہیں کہتے بلکہ وہ تو بدعت ہے لیکن اس شرک اکبر کے وسائل و طرق میں سے ہے اور ہر وہ چیز جو کفر وشرک کے لیے وسیلہ ہو تو وہ ممنوع ہےاور واجب ہے اس کے دروازہ کو بند کرنا اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنایہاں تک کہ دوسری مرتبہ پھر پھیلنے نہ لگے۔
جس کے دل میں اللہ اور اسلام کی محبت ہے جس کو اس کے رسول محمدﷺ لے کر آئے تھے وہ غیرت کرےگا اور سخت سے سخت غصہ ہوتا چلا جائے گا کہ جاہلیت کے شرک کی طرف لوٹے جس کو ہمارے حبیب محمدﷺ کی بعثت نے ختم کرڈالا۔
٭ مؤلف نے ص ۵۱ میں فصل قائم کرکے اس کا عنوان دیا ہے"یہود کا آپ ﷺ سے وسیلہ پکڑنا" اوراس میں حضرت ابن عباس کی حدیث بیان کرڈالی، انہوں نے فرمایا"خیبر کے یہود غطفان سے قتل وقتال کرتے ،جب باہم ملتے تو یہود شکست کھا جاتے، آخر کار یہود نے یہ دعا کی اور کہا ہم تجھ سے ان پڑھ نبی کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں جس کا تم نے وعدہ کر رکھا ہےتم ان کو ہمارے لیے آخری زمانہ میں نکال دے اور ان پر ہماری مدد فرما(تفسیر قرطبی ۲/ ۲۷۲۷)
٭شیخ نے جواب دیا: مؤلف کے یہود کےفعل سے استدلال کرنے میں مجھے کافی تعجب ہے جس کو اس نے نقل کیا ہے ،روایت کے ناحیہ سے حضرت ابن عباس کے قول کو مؤلف نے بغیر کسی تخریج کے ذکر کرڈالا ہے اور یہ نہیں بتایا کہ کس نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، کیونکہ اس کو کوئی ملا ہی نہیں جس نے اس کو صحیح کہا ہو،امام حاکم نے مستدرک(۲/ ۲۶۳)میں اور بیہقی نے (دلائل النبوۃ ۲/ ۷۶ ) میں عبدالملک بن ھارون بن عنترہ عن ابیہ عن جدہ عن سعید بن جبیر عن ابن عباس سے موقوفا روایت کیا ہے اور امام حاکم نے حدیث ذکر کرنےکے بعد کہا"ضرورت نے تفسیر میں اس کو نکالنے پر مجبور کردیا جبکہ وہ غریب ہے"
امام ذھبی نے تلخیص میں کہا"میں نے کہا اس بارے میں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ عبدالملک متروک(جس کو چھوڑدیا گیا ہو) اور ہالک(ہلاک ہونے والا) ہے۔"
سیوطی نے"درمنثور" میں اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور وہ ضعیف نہیں کہا کرتےالا یہ کہ جب اسناد میں کوئی گنجائش نہ ہو جس کے ذریعہ اس کی تصحیح کی جائے۔
حاکم نے (المدخل۱/۱۷۰)میں عبدالملک کو ذکر کے کہا ہے"اس نے اپنے والد سے موضوع احادیث روایت کیا ہے"عبدالملک کو ابن معین، ابن حبان، اور جوزجانی وغیرہ نے کذاب کہا ہے، اسی نے تو یہ حدیث بھی گڑھی تھی جس کے الفاظ ہیں"جنت کے دروازوں میں سے چار دروازے کھلے ہوئے ہیں سکندریہ،عسقلان،قزوین اور عبادان اور جدہ کی فضیلت ان پر ویسے ہی ہے جیسے اللہ کے گھر کی فضیلت سارے گھروں پر"
کھلی جھوٹ ہے، ان پڑھ جاہل مسلمان اسکی روایت کو رواج دیتے ہیں(عام کرتے ہیں)جو رسول اللہ کے کلام کے تعلق سے غیرت کرنا نہیں جانتے،وہ تو جھوٹوں کے دیوانہ ہوچکے ہیں اور صحیح سے اعراض کرنے لگے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "التوسل والوسیلہ (۱/ ۲۹۹۔۳۰۰۔ مجموع الفتاوی) میں کہا ہے " اللہ تعالی کا فرمان" وكانوامن قبل يستفتحون علي الذين كفروا"(البقرہ:۸۹) ترجمہ"حالانکہ پہلے یہ خود(اس کے ذریعہ)کافروں پر فتح چاہتے تھے"مفسرین ومورخین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت مدینہ کے اردوگرد رہنے والے یہود کے بارے میں نازل ہوئی جیسے بنی قینقاع، قریظہ اور نظیر ، یہ وہی لوگ ہیں جو اوس و خزرج کے حلیف تھے اور نبی ﷺ نے مدینہ پہنچ کر انہیں سے عہد و پیمان کیا،پھر جب انہوں نے عہد کو توڑ ڈالا تو ان سے آپنے جنگ وجدال کیا․․․تو کیسے کہا جائےگا کہ خیبرو غطفان کے یہود کے بارے میں نازل ہوئی؟ یہ تو جاہل کی جھوٹی باتوں میں سے ہے جو اچھی طرح جھوٹ بولنا بھی نہیں جانتا۔جو وہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ جب انہوں نے یہ دعا کی تو غطفان پر یہود کو نصرت حاصل ہوئی اور یہ تو وہ چیز ہے جس کو اس جھوٹا کے سوا کسی اور نے نہیں نقل کیا"
جب یہ آپ کو پتہ چل گیا تو صحیح ثابت روایت جس کو ابن جریر نے (۲/ ۳۳۳ط شاکر)میں، ابونعیم نے(الدلائل ۱/ اصل سے)میں اور بیہقی نے(الدلائل ۲/ ۷۵) میں سبھوں نے ابن اسحاق کے طریق سے انہوں نے اپنی سیرت میں (ص ۶۳ یونس بن بکیر کی روایت) کہا؛ عاصم بن عمر بن قتادہ نے مجھ سے بیان کیا ،اس نے کہا مجھ سے ہمارے مشایخ نے بیان کیا ،ان لوگوں نے کہا"عرب میں کوئی ایسا نہ تھاجو رسول اللہ ﷺ کی شان و مرتبہ کو ہم سے زیادہ جانتا ہو، ہمارے ساتھ یہود تھے اور وہ اہل کتاب تھےاور ہم بتوں کے پجاری تھے اور جب ہمیں کوئی ایسی چیز پہنچتی جو ان کو ناپسند لگتی تو کہتے ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے جس کے آنے کا زمانہ قریب ہوچکا ہے، ہم اس کی اتباع کریں گے اور ہم تم کو عاد و ارم کی طرح پھر قتل کریں گے،جب اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے رسول کو بھیجا تو ہم نے انکی پیروی کرڈالی اور وہ انکار کربیٹھے تو ہمارے اور ان کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی" وكانوامن قبل يستفتحون علي الذين كفروا"(البقرہ:۸۹) ترجمہ"حالانکہ پہلے یہ خود(اس کے ذریعہ)کافروں پر فتح چاہتے تھے" اور یہ سند عمدہ ہے پہلی اشیاخ سے مراد صحابہ ہیں جنہوں نے معاملہ کو پایا اور اس کو جانا تو یہ کتنا اچھا اور عمدہ ہے۔
حضر ت ابن عباس وغیرہ سے اس معنی کی بہت ساری روایتیں آئی ہیں جن کو میں نے چھوڑ ڈالا صحیح کو لیتے ہوئے اور طول پکڑنے سے طبیعت کے اگتا جانے کی وجہ سے، اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔
٭مؤلف نے ص: ۵۲ میں عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی حدیث جو کہ آپ ﷺ کی زندگی میں بینائی کے لیےآپ ﷺ سے دعا کے ذریعہ وسیلہ پکڑنے کے بارے میں ہے ۔
٭شیخ نے جواب دیا: اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مستدرک(۴/ ۱۳۸) میں،امام ترمذی نے(جامع ۵/ ۵۶۹ )میں، نسائی نے(عمل الیوم واللیلۃ۴۱۷۔۴۱۸) میں، ابن ماجہ نے (سنن : ۱۳۸۵) میں، طبرانی نے (معجم کبیر ۹/ ۲۱۹) میں او رحاکم وغیرہ نے مستدرک(۱/ ۳۱۳،۵۱۹) میں روایت کیا ہے احمد نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، ان سے شعبہ نے ابوجعفر کے طریق سے،کہتے ہیں کہ میں نے عمارہ بن خزیمہ سے سنا جو عثمان بن حنیف سے روایت کر رہے تھے۔ امام احمد نے روایت کرتے ہوئے کہا ہم سے روح نے،ان سے شعبہ نے ابوجعفر مدینی کے طریق سے، پھر امام احمد نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے مؤمل نے، ان سے حماد یعنی ابن سلمہ نے اور ان سے ابوجعفر نے بیان کیا ہے۔نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں کہا: ان دونوں کی مخالفت ھشام دستوائی اور روح بن قاسم نے کی ہے،انہوں نے ابوجعفر عمیر بن یزید بن خراش عن ابی امامہ بن سہل عن عثمان بن حنیف کے طریق سے روایت کیا ہے۔ یہ اختلاف علت ہے، ممکن ہے کہ کچھ محدثین اس کی وجہ سے حدیث کو رد نہ کرڈالیں جو کہ غوروفکر کرنے کا مقام ہے۔ شعبہ اور حماد کی روایت کی سندیں حسن ہیں لاباس بہ (اس میں کوئی حرج نہیں) ابوجعفر وہ خطمی مدنی ہیں جیساکہ احمد وغیرہ کی روایتوں میں ہے اور وہ عمیر بن یزید انصاری خطمی مدنی ہیں جیساکہ حافظ نے تقریب میں کہا ہے"صدوق" علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کو ضعیف گردانا ہے کیونکہ ابوجعفر میں کلام (متکلم فیہ راوی )ہے اور بعض لوگوں نے اسناد کو ضعیف گردانا ہے ثبوت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے کہ ابوجعفر ہی خطمی ہے امام ترمذی پر اعتماد کرتے ہوئے جنہوں نے اس کے خطمی ہونے کی نفی کی ہے۔
جہاں تک ذات یا جاہ و حشمت وغیرہ کے ذریعہ وسیلہ کے جائز کرنے والوں کی بات ہےتو ان کے اس دعوی کے لیے کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ وہ توسل کے باب میں شرعی اصول پر چلے اور انہوں نےنبی ﷺ کی زندگی میں ان کی دعا کے ذریعہ وسیلہ پکڑا اور یہ ایسا امر ہے جس کے بارے میں اس کے علاوہ دوسری احادیث بھی ہیں، جن کو محدثین نے ثابت کیا ہے اور اس میں کوئی جنگ و جدال نہیں اور نہ حدیث کے معنی ہی میں کوئی اشکال ہے۔
اور جویہ گمان کرتا ہے کہ حدیث میں ذات سے وسیلہ پکڑنا ہے ،تو اس سے سوال کریں گے اور یہ کہا جائے گا کہ کیسے یہ دعا جسمیں ذات سے وسیلہ پکڑنا ہےپوشیدہ رہ گیا اندھے اور نابینے صحابۂ کرام پر چنانچہ انہوں نے آپ کی زندگی میں اورنہ ہی آپ کی وفات کے بعد اس کو استعمال کیا اور نہ جو آپ کے بعد تھے جبکہ انسان تو اپنے اعضاء وجوارح اور ہاتھ،کان،ناک وغیرہ کے صحیح ہونے پر شدید حریص ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے ہم یہ جانتے ہیں کہ اس میں نبیﷺ کی دعا سےوسیلہ پکڑنا ہے ذات سے نہیں اور یہ متفقہ طور پر ثابت شدہ امر ہے تو حدیث اس نابینا صحابی کے ساتھ خاص ہے اورہمارے محمدﷺ کے معجزہ کے قبیل سے ہے اور تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہیں جونیکیوں کی توفیق دینے والا ہے۔
٭مؤلف نے لکھا:"یہ آپ ﷺ کی زندگی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بعض صحابہ ٔکرام نے آپ کی وفات کےبعد وسیلہ کے لیے اس صیغہ کو استعمال کیا ہے۔"
عثمان بن حنیف کے ایک آدمی کو تعلیم دینے سے استدلال کیا ہے، جس کو عثمان سےضرورت تھی کہ وہ یہ کہہ کر دعا کریں"اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہمارے نبی( رحمت کے نبی) محمدﷺ کے واسطہ سے تمہارا رخ کرتا ہوں، اے محمد میں آپ کے ذریعہ آپ کے رب کا وسیلہ پکڑتا ہوں کہ وہ میری حاجت پوری کردے او ر اپنی ضرورت کو رکھا․․․" اس نے ایسا کیا تو حضرت عثمان نے انکی حاجت پوری کردی طبرانی کی روایت کا یہ اختصار ہے۔کہا کہ" اس قصہ کوحافظ طبرانی اور حافظ ابوعبداللہ مقدسی نے صحیح کہا ہے"
٭شیخ نے جواب دیا:یہاں صاحب مفاہیم نے حقائق پر پردہ پوشی کرتے ، صحیح نقول کا انکار کرتے اور اپنے مقالات کے اتباع نہ کرنے والوں کی تعریف و ستائش کرنا شروع کردیا ہے کہا"اس قصہ کو حافظ طبرانی نے صحیح کہا․․․جبکہ طبرانی نے صحیح نہیں کہا ہے و ہ تو اس سے پاک و صاف ہیں اور اگرآپ نقل کرتے جو انہوں نے کہا ہےپوری سچائی اور امانت کے طور پر تو مطالعہ کرنے والوں پر مشتبہ نہ ہوتا․․․ ثقہ جو علم کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ان کے نقول کو تلاش کرکے بہت سارے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے،اس میں مقصد سچائی کو اپنا نا اور تحریف نہیں کرنا ہے یا ثقہ کو ذکر کرکے غیر حق کی ترویج و اشاعت کرنامقصود ہے؟
طبرانی نے صغیر(۱/ ۱۸۴) میں کہا ہے"روح بن قاسم سے شبیب بن سعید ابوسعید مکی نے۔جوکہ ثقہ ہیں۔ اور یہ وہی ہیں جن سے ان کا لڑکا احمد بن شبیب(۱) اپنے باپ سے اور وہ یونس بن یزید ایلی کے طریق سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کو ابوجعفر خطمی جن کا نام عمیر بن یزید۔اور وہ ثقہ ہیں۔ کے طریق سے روایت کیا،عثمان بن عمر بن فارس نے شعبہ سے اکیلے روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے۔ اس نقل سے پتہ چلا کہ طبرانی کا مذکورہ حدیث کی تصحیح کرنا اور وہ اللہ کے رسولﷺ کا قول،لیکن قصہ یہ ہے کہ طبرانی نے اسکی تصحیح وغیرہ سے چنداں تعرض نہیں کیا ہے بلکہ کہا"اس کو روایت نہیں کیا ہے․․․ اور وہ قصہ کے ضعف کی طرف زیادہ مائل تھے جو کہ حق ہے۔
اور اس کا بیان قصہ کوطبرانی نے صغیر اور کبیر(۹/ ۱۷۔۱۸) میں اپنے شیخ طاہر بن عیسی بن قبرس مصری تمیمی کے طریق سے روایت کیا ہے، ان سے اصبغ بن فرج نے، ان سےعبداللہ بن وہب نے شبیب بن سعید مکی عن روح بن قاسم عن ابی جعفر خطمی مکی کے طریق سے۔
اور اس سند کی آفت عبداللہ بن وھب عن شبیب بن سعید کی روایت ہے، اور یہ اھل حدیث کے یہاں منکر ہے میں ان کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف نہیں دیکھتا۔
ابن عدی نے "الکامل فی ضعفاء الرجال ۴/ ۱۳۴۷) میں کہا ہے "ابن وھب نے منکر حدیثیں ۔۔۔۔۔۔
(۱) اس جملہ کے بارے میں معجم صغیر کی طباعت تحریف کا شکار ہوچکی ہے اور جبکہ صحیح" مجمع البحرین"للہیثمی(۱/ ۱۰۱/ ۱) احمد شاکر کا ترکیہ کا نسخہ ہے۔

روایت کی ہے" پھر کہا ؛"شاید کہ شبیب مصر میں اپنی تجارت میں تھے جن سے ابن وھب نے اپنے حفظ سے لکھا اور وہ غلطی کرگئے اور وہم کا شکار ہوگئے اور میں امید کرتا ہوں کہ شبیب نے اس کذب(جھوٹ) کا قصد نہیں کیا ہے۔"
قصہ کا دارومدار اس اسناد پر ہے اور متن منکر ہے اور منکر میں خیر نہیں ہے پھر اس نکارت پر جو دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ حدیث کو حاکم نے(۱/ ۵۲۶۔۵۲۷) اور ابن السنی نے"عمل الیوم واللیلہ ص:۱۷۰ ط ہندیہ) میں احمد بن شبیب بن سعید کے طریق سے روایت کیا ہے، کہا میرے والد نے روح بن قاسم عن ابی جعفر مدنی اور وہ خطمی ہیں عن ابی امامہ بن سھل بن حنیف عن عمہ عثمان بن
حنیف کے طریق سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اور ان کے پاس ایک آدمی آیا تو حدیث کو بغیر قصہ کے بیان کیا۔
اور یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ احمد بن شبیب عن ابیہ کی روایتوں میں سے ہے۔ حاٖفظ نے تقریب میں شبیب کے ترجمہ میں کہا"اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس کا لڑکا احمد کی اس سے روایت ہو نہ کہ ابن وھب کی روایت ۔"
احمد بن شبیب اپنے والد سے روایت کرنے والے خاص راوی ہیں، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے قصہ کو ذکر نہیں کیا ہے، اور یہ اسی طریق سے ہے جس کو ابن وھب نے شبیب کے طریق سے روایت کیا ہےجوکہ منکر ہے احمد بن شبیب عن ابیہ شبیب کی روایت کے لیے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ شدید منکر وباطل ہے اور ممکن ہے کہ یہ مکذوب(جھوٹ) ہو۔
جب واضح ہوگیا کہ یہ قصہ مکذوب ہے یا منکر مذکورہ امور کی بناء پر تو یہ کھلی ترین کفایت کرجانے والی حجت ہے اس کے لیے جس کو اللہ غوروفکر کرنے کا ملکہ دے رکھا ہے، اور جس کو اللہ گمراہ کرنا چاہے اس کو کوئی گمراہی سے بچا نہیں سکتا۔
صاحب مفاہیم سے تعجب ہے کہ کیسے منکر و واھیات روایتوں سے اسکی محبت زیادہ ہے، رسول اللہ کی صحیح حدیث کی محبت سے بڑھ کر، نبی کا حق تو یہ تھا کہ ان سے جھوٹ کی نفی کی جائے اور ان کی طرف منسوب واہی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے نہ کہ ان کو نشر کیا جائے اور نہ ہی ان کو عام کیا جائے۔
اسناد میں طبرانی کے شیخ طاہر بن عیسی ہیں جو کہ مجہول ہیں عدالت سے نہیں جانے جاتےہیں، انکو ذھبی نے ذکر کیا ہے اور ان کے بارے میں جرح و تعدیل سے متعلق کچھ نہیں کیا ہے، گویا وہ مجہول الحال ہیں ،اس کی خبر سے حجت پکڑنا جائز نہیں خاص کو جو کتاب و سنت کے نصوص کے مخالف ہو شیخ سلیمان بن عبدالعزیز نے"(تیسیر العزیز الحمیدط/ا ص:۲۱۲ ) میں کہا ہے۔
٭مؤلف نے ص: ۵۴ میں لکھا : "عثمان بن حنیف نےاس شخص کو ۔جس نے اپنی حاجت پوری کرنے میں خلیفہ کے سستی کرنے کی شکایت کی۔ یہ دعا سیکھائی جس میں نبیﷺ سے ان کی وفات کے بعد فریاد طلب کرتے ہوئے ان سے وسیلہ پکڑنا ہے اور ان کو پکارنا ہے ۔"
٭شیخ نے جواب دیا: یہ کمر توڑ دینے والا توسل بدعی( ایسا وسیلہ جو کتاب و سنت کی روشنی میں نہ ہو اور نہ ہی صحابۂ کرام سے اس کا ثبوت ملتا ہو توسل بدعی کہلاتا ہے ) ہے جب مردوں کو پکارنے اور ان سے فریاد رسی کرنے میں یہ شان تو میں نہیں گمان کرتا تھا کہ صاحب مفاہیم خواہشات میں یہاں تک پہنچ جائے گا ،یہاں تک میں نے اس کی تحریر کو اس کے گرہوں اور اس کے قول کو اسکی زبان پر پایا ۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔اے دلوں کے بدلنے والے ہمارے دلوں کو اپنی طاعت و بندگی پر ثابت رکھ۔یہ قول فاسد ہے اور دین اسلام کے معارض ہے اور زمانۂ جاہلیت والوں کے موافق ہے۔ انبیاء وصالحین سے استغاثہ کرنا اورمصائب و آلام کو دور کرنے کے لیے ان کو پکارنا ، کیا یہ قرآن نہیں پڑھتے؟ اور سلف صالحین کے قول کو نہیں سنتے؟کیا ان لوگوں نے اللہ کے فرمان کو نہیں سنا؟"قل ادعواالذين زعمتم من دونه فلايملكون كشف الضر عنكم ولاتحويلا.أولئك الذين يدعون يبتغون إلي ربهم الوسيلة أيهم أقرب ويرجون رحمته ويخافون عذابه إن عذاب ربك كان محذورا"(الاسراء:56-57) ترجمہ " کہہ دیجیئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سےکسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں،(بات بھی یہی ہے )کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے۔"
اس آیت میں ہر اس شخص پر انکار ہے جس نے اللہ کے علاوہ جن یا نبی کو پکارا۔ کلمہ"الذین" آیت میں اسم موصول ہے ، نحویوں اور اصولیوں کے یہاں اسم موصول عموم کے صیغوں میں آتا ہے جیساکہ ان دونوں کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے "الذین" عام ہے ہرچیز کو جس کو اللہ کے علاوہ پریشانی دور کرنے یا اس کو بدلنے کے لیے پکارا جاتا ہے ،تو یہ عام ہے انبیاء و صالحین اور ان کے علاوہ فرشتہ و جن کو تو ان تمام سے دعا کرناجائز نہیں ہے، جاہلیت اور مشرکین کے دین سے ہے اور ان سے دعا کی بہت ساری صورتیں ہیں، ان میں سے مردوں کو پکارنا ہے خواہ انبیا ء یا انکے علاوہ اور کوئی ہوجیساکہ آیت سے ظاہر ہے، اور انہی میں سے استغاثہ ہے کیونکہ انبیاء وصالحین اپنی موت کےبعد اپنے نفس کے لیے نفع و ضرر کا مالک نہیں تو دوسروں کے لیے کیسے ہوسکتے ہیں؟یہ آیت مشرکین کے دین کو ظاہر کرتا ہے اور اس کو بیان کرتا ہے تو ان کو کیا ہوگیا ہے کہ مشرکوں کے دین کی طرف لوٹتے ہیں؟ اور رسول کے یقینی دین کو چھوڑ رہے ہیں اور جاہلیت کے باطل دین سے راضی ہوتے ہیں؟
شیخ عبدالرحمن بن حسن نےص:۲۴ پر ابن جرجیس پر رد کرتے ہوئے کہا اور اللہ تعالی کا فرمان"والذين يدعون من دون الله لايخلقون شيئا وهم يخلقون.أموات غيرأحياء ومايشعرون أيان يبعثون" (النحل: ۲۱)ترجمہ"اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالی کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں۔مردے ہیں زندہ نہیں،انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے" یہ آیت مورتیوں کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں کا گمان ہے جو غوروفکر نہیں کرتے "الذین" کے ذریعہ عقلاء ہی کے بارے میں خبر دیجاتی ہےکیونکہ مورتیاں لکڑیوں اور پتھروں سے بنائی جاتی ہیں اور اس لیے کہ ان کو قیامت کے دن انسانوں کی طرح نہیں اٹھایا جائےگا تاکہ ان کو بدلہ دیا جائے، جو کچھ ان کے ہاتھوں نے کمایا ہے اور نہ تو ان کے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات عقل سے لگتی ہی ہے ،یہاں تک کہ اللہ ان سے نفی کرے او ر اللہ تعالی نے فرمایا"ومايشعرون أيان يبعثون" ،انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے" یہ تو آیت اس کے بارے میں ہےجو مرتا ہے اور دوبارہ اٹھایا جائے گا جیساکہ پوشیدہ نہیں ہے اس پر جو اس میں ٖغوروفکر کرے گا۔ آپ اللہ کے فرمان پر غوروفکر کریں"ومايشعرون أيان يبعثون" انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے"یہ تو استعمال کیا جاتا ہے اس کے بارے میں جو سوجھ بوجھ رکھتا ہے جیساکہ عربی زبان کی معرفت وجانکاری رکھنے والوں سےمخفی نہیں ہے ۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں دلیل وبرہان کے ظاہر ہوجانے پر۔
اس کے فاسد استدلال کی طرف لوٹتے ہیں نبی ﷺ کی موت کے بعد پریشان حال کا یہ کہنا "اے محمد میں آپ کے واسطے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں"حدیث کے بطلان اور اس کی نکارت کے بعد کونسی چیز اس باب میں دلیل ہوسکتی ہے؟ یہ تو تعجب خیز عجیب و غریب اور شک میں ڈالنے والا استدلال ہے ۔ ان کے ساتھ مناظرہ میں اس لفظ کے معنی کے بارے میں کلام کرنے کے لیے اترتے ہیں۔
اولا:آپ کا اور مسلمانوں کا تشھد میں یہ کہنا"السلام علیک ایھا النبی" ترجمہ" اے نبی آپ پر سلامتی ہو"موت کے بعد نبیﷺ کو پکارنا ہے؟ کیا مسلمان ہرنماز میں نبی ﷺ کو پکارتے ہیں یا نداء کا لفظ یہاں رسول کی منزلت کے استحضار کے لیے ہوتا ہے تاکہ دل میں زیادہ سرایت کرے جو ان کے تعلق سے ان کی عزت واحترام اور نصرت و مدد کرنا واجب ہے؟
ہدایت یافتہ مسلمانوں میں سے کسی نے موت کے بعد نبیﷺ کو پکارنے کے جواز پر تشھد سے دعوی نہیں کیا ہے اور یہ ایسا اجماع ہے جس میں اختلاف نہیں ہے۔
یہ اثر سخت منکر ہونے کے ساتھ اس باب میں استحضار کے قبیل سے ہوگا جسکو نمازی تشھد کے الفاظ سےکہتا ہےاور وہ متوجہ ہونا ہےاور معانی و بیان کے اندرتوجہ مرکوزکرنے کی مختلف صورتیں او رضرورتیں ہوتی ہیں، اور میں نے یہ بحث و مباحثہ کے طور پر کہا ہے ورنہ اسکی چنداں ضرورت نہ تھی اور یہاں مناسب ہے جو کچھ پہلے ذکر ہوچکا۔
ثانیا: اس منکر و ضعیف اثر میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ دعا میں وہ نبی ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے جس کا مردہ سے دعاکرنے سے کیا تعلق؟کیونکہ مخلوقات کی طرف متوجہ ہونا ان کے ذریعہ سوال کرنا ہے نہ کہ ان سے سوال کرنا، اور ہرشخص کسی شخص سے سوال کرنے اور اس کے ذریعہ سوال کرنے میں فرق کو جانتا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سوال میں اللہ سے دعا میں زیادہ مخلص ہوتا ہے لیکن اللہ کی طرف اسی وحدہ لاشریک لہ کی ذات کے ذریعہ متوجہ ہویا جاتا ہے۔
جہاں تک اس کا ایسا سوال کرنا جس پر اللہ کے علاوہ کوئی قادر نہیں تو اس میں دعا کی عبا دت میں اللہ کا شریک بنانے کے قبیل سے ہے ۔ اعمی اور ابن حنیف کی حدیثوں میں اللہ کے لیے خالص ہو کر دعا کرنا ہے جیساکہ اس میں یہ ٖصریح ہے سوائے ان کے اس قول کے:" اے محمد میں تمہارے ذریعہ متوجہ ہوتا ہوں" اور اس میں مردہ سے خطاب نہیں ہے جس پر اس کو قدرت نہیں، اس میں تو خطاب ہے اپنے ذہن میں اسکو مستحضر رکھنے سے جیساکہ نما زی کہتاہے"السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "

اے نبی ﷺآپ پر اللہ کی رحمت و برکت اور سلام ہو" جیساکہ میں نے واضح کیا۔(۱)
ثالثا: یہ دعا اس میں سے ہو جس کے ذریعہ پریشانیاں دور کیجاتی ہیں، ہلاک کرنے والے شدائد ہٹائے جاتے ہیں ،اور اس کے ذریعہ امت پر پوشیدہ طورپر نجات طلب کی جاتی ہے، انہوں نے شدائدو مصائب اور تنگدستی کے وقت اس کو استعمال نہیں کیا ہے؟مسلمان حضرت عمر کے دور میں قحط سالی کا شکار ہوئے تو حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے یعنی ان کی دعا کے ذریعہ اور رسول اللہ ﷺ ان کے پاس ہی سپردخاک(مدفون) تھے اور حضرت عثمان و علی کے زمانہ میں مسلمانوں کو فتنے لاحق ہوئے ،اور اس کی آزمائشیں اور ایسے امور جنکی شدت کو اللہ ہی جانتا ہے تو انہوں نے کیونکر اس کو استعمال نہیں کیا؟ کہاں چلی گئی آپ لوگوں کی عقل و دانائی اے جھگڑے نے والے اور مفہوم لگانے والے؟
٭مؤلف نے ص: ۵۴ میں لکھا: جب آدمی نے گمان کیا کہ اس کی حاجت پوری ہوگئی یا کردی گئی خلیفہ کے ساتھ کلام کرنے کے سبب تو ابن حنیف نے ان کے گمان کی نفی کے لیے جلدبازی کی اور ایسی حدیث بیان کی جس کو انہوں نے سن رکھا تھا اور خود وہاں موجود تھے تاکہ ان کو بتلادیں کہ انکی حاجت و ضرورت ان کے ذریعہ سے وسیلہ پکڑنے کی وجہ سے پوری کردی گئی ان کو پکارنے اور ان سے استغاثہ کرنے کی وجہ سے۔
٭شیخ نے جواب دیا:یہ عظیم ترین جلیل القدر صحابی پر افتراء پردازی ہے جو مشھد اور اس کے بعد کی لڑائیوں میں شریک رہے او رظن کے قبیل سے ہےجو کہ بدترین جھوٹ ہے اور ایسی جراتمندی ہے جس سے بڑھ کراور کوئی جرات نہیں ہوسکتی ہے۔
یہاں اس نے اپنے کلام کومقدمہ سے پیش کیا ہے، جس میں ہے قصہ صحیح ہے اس کو طبرانی اور مقدسی نے صحیح کہا ہے اور انکی تصحیح کو منذری ہیثمی وغیرہ نے نقل کیا ہے اور یہ ظاہر ی خواہش ہے کیونکہ طبرانی کا کلام جیساکہ حروف کے ساتھ اس کو نقل کرنا گذر چکا، وہ تو حدیث کی تصحیح کے بارے میں ہےیعنی مرفوع حدیث اور یہ نہیں کہا کہ قصہ صحیح ہے بلکہ کہا کہ حدیث صحیح ہے کاش کہ مفاہیم کے مؤلف کا بدن کانپ اٹھتا جب وہ اس طرح کی افتراء پردازیاں کرتا ہے اور نقل کرتے وقت اسمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)تیسرالعزیزالحمید ص:۲۱۲
جھوٹ سے کام لیتا ہے"إنمايفتري الكذب الذين لايعلمون"(النحل:۱۰۵)ترجمہ"جھوٹ افتراء تو وہی باندھتے ہیں جنہیں اللہ تعالی کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا،یہی لوگ جھوٹے ہیں" اور اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ،مسلمانوں کے حفاظ اور ان کے ائمہ کرام پر اس طرح افتراء پردازی کرنا ، انکی قراءت کو پھاڑنا اور رویت کو تباہ ہ برباد کرتاہے۔
٭ص ۶۸ پر عنوان باندھتے ہوئے لکھا"ان کے ذریعہ بیماری اور شدائد میں وسیلہ پکڑنا"
ہیثم بن حنش(۱)کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھے تو ان کا پیر سُن ہوگیا، ان سے ایک آدمی نے کہا:اپنے سب سے محبوب آدمی کو یاد کریں ،ابن عباس نے کہا: اے محمد!اور پھر وہ بندھن سے آزاد ہوگئے ۔"
حضرت مجاہد سے مروی ہے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ایک آدمی کا پیر سُن ہوگیاتو اس سے ابن عباس نے کہا:سب سے زیادہ محبوب ترین انسان کو ذکر کرو کہا: محمدﷺ تو اس کے پیر کا سُن ہونا ختم ہوگیا پھر کہا یہ نداء کی صورت میں توسل ہے۔
شیخ نے جواب دیا کہ کلام یہاں دوچیزوں میں ہے:
(۱)روایت: پہلی خبر کو ابن السنی نے "عمل الیوم واللیلۃ رقم(۱۷۰) میں نکالا ہے۔ کہا ہم سے محمد بن خالدبن محمد البرذعی نے بیان کیا، ان سے حاجب بن سلیمان نے، ان سےمحمد بن مصعب نے، ان سے اسرائیل نے ابواسحاق عن ہیثم بن حنش کے طریق سے، یہ اسناد سخت ضعیف ہے اس میں بہت ساری علتیں ہیں۔
٭محمد بن مصعب القرقسانی ان کے نزدیک ٖضعیف ہے، ابن معین نے کہا کہ اہل حدیث میں سے نہ تھا مٖغفل تھا، نسائی نے کہا ضعیف اور ایسے ہی ابوحاتم رازی نے کہا۔
ابن حبان نے کہاکہ"سندوں کو بدل ڈالتا اور مراسیل کو مرفوع بناتا اس سے حجت نہیں پکڑ ی جاسکتی ہے، اسماعیلی نے کہا محمد بن مصعب ضعفاء میں سے ہے ۔خطیب نے کہا بہت غلطی کرتا تھا جب وہ اپنے حفظ سے بیان کرتا۔احمد نے کہا اس میں حرج نہیں اور ابن عدی نے ایسا ہی کہا، ابن قانع نے اسکی توثیق کی ہے اور ابن قانع متساہلین میں سے ہیں، اس سے اس کا ضعف واضح ہوجاتا ہےجیساکہ علماء
۔۔۔۔۔
(۱) مفاہیم میں راوی کو بدل ڈالا گیا ہے"خنس" ہے جبکہ صحیح حنش ہے۔
اس کی طرف گئے ہیں۔جہاں تک امام احمد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں تواس کا معنی یہ ہے کہ وہ صدوق ہے لیکن ضعیف حدیث والا ہے۔
٭ہیثم بن حنش مجہول عین ہیں خطیب نے (کفایہ فی علم الروایہ ص:۸۸)پر کہا"محدثین کے یہاں وہ مجہول ہے جو طلب علم کے لیے مشہور نہ ہو اور نہ علماء اس کو جانتے ہوں اور جس کی حدیث کو ایک
ہی راوی کے طریق سے جانی جاتی ہومثال کے طور پر عمر ذی مر،جبارطبطبائی،عبداللہ بن اغر ہمدانی اور ہیثم بن حنش وغیرہ ان تمام لوگوں سے ابواسحاق سبیعی کے علاوہ دوسروں نے روایت نہیں کیا ہے۔
٭ابو اسحاق سبیعی مدلس ہیں جنہوں نے اس مجہول سے عنعنہ کیا ہے۔
٭ابواسحاق خلط ملط کا شکار ہوگئے تھے اور اس حدیث میں اس کے خلط ملط کرنے پر دلالت اس طرح ہے کہ اس نےکبھی شعبہ سے( یا ابوسعید سے)اور کبھی عبدالرحمن بن سعد سے روایت کیا ہے اور یہ اضطراب ہے جس کی وجہ سے حدیث کو رد کردیا جاتا ہے۔
اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ابو اسحاق کی تدلیس پر امام بخاری کی "الادب المفرد(۹۶۴) میں روایت کردہ حدیث ہے ۔ کہا :ابونعیم نے ہم سے بیان کیا، ان سے سفیان نے عن ابی اسحاق سبیعی عن عبدالرحمن بن سعد کے طریق سے کہا "حضرت ابن عمر کا پیر سُن ہوگیا، ان سے ایک آدمی نے کہا:اپنے سب سے محبوب ترین آدمی کو ذکر کریں، انہوں نے کہا :محمد" یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے اور اس کے بہت سارے فوائد ہیں:
پہلا: ابن عمر کا قول بغیر نداء کے اور عرب کے یہاں عام ہے جیساکہ عنقریب آئے گا ،یا نداء کا استعمال حبیب کو یاد کرنے کے طور پر تاکہ ذھن میں اس کےپیر پھسلنے کا زیادہ استحضار رہے اور وہ چل پڑے۔
اور حضرت عمر نے عام استعمال سے ہٹ کر دوسری طرف کارخ کیا کیونکہ عام استعمال میں منع کی ہوئی چیز کا ارتکاب کر بیٹھنا ہے۔
دوسرا:سفیان ثبت حفاظ میں سے ہیں تو ان کا اس لفظ کے ساتھ ابواسحاق کی خبر کو نقل کرنا دلالت کرتا ہے کہ وہ محفوظ ہے اور اس کے علاوہ غلط و مردود ہے۔
جہاں تک دوسری حدیث کی بات ہے تو ابن السنی نے"عمل الیوم واللیلہ(۱۶۹) میں اس کو روایت کیا ہے اور اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم ہے جس کو علماء نے جھوٹا کہا ہے۔ ابن معین نے کذاب و خبیث کہا ہے اور اس کا لفظ "محمد" کو ذکر کرنے میں بٖغیر حرف نداء کے ہے اور اس میں سرے سے کوئی حجت ہی نہیں اور یہاں بات وہی ہوگی جو حضرت ابن عمر کے قول کے بارے میں گذر چکی۔
دوسرا متن کے بارے میں مستدل(استدلال کرنے والے ) سے یہ کہا جائے گا کہ اس میں زیادہ سے زیادہ محبوب کا ذکر ہے نہ تو اس سے حاجت طلب کرنے کا اور نہ تو اس کے ذریعہ کسی چیز کو دور کرنے کا اور نہ کہ پیر پھسلنے کو دور کرنے کے لیے واسطہ کا ، اس میں توسل نہیں ہے ورنہ یہ لازم آتا کہ جس نے اپنے محبوب کو ذکر کیا اس نے اس سے مدد طلب کی اور اس سے شدت دور کرنے کے لیے وسیلہ پکڑا جوکہ سخت ترین باطل اور بہت ہی محال امر ہے۔
وہ کیا کہے گا جب کافر اپنے حبیب کو ذکر کرے اور اس کے پیر کا پھسلنا اس کی وجہ سے دور ہوجائے؟ تو کیا یہ اس سے وسیلہ پکڑنے کے قبیل سے ہوگا؟ اور وہ ان میں سے ہوگا جو بیماری و پریشانی کو دور کرتاہے؟اورکیااللہ سبحانہ و تعالی نے اس کے وسیلہ کو قبول کرلیا؟
اور یہ تجرباتی نسخہ سُن ہونے کے لیے اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت والوں کے یہاں معروف تھاجسکو تجربہ کیا گیا تو نفع بخش ثابت ہوا اور اس میں محبوب کو ذکر کرنا ہے اور کہا گیا اس کی تفسیر میں اس کا محبوب کو ذکر کرنا محبت کی گرمی پیدا کرنا ہے جو اس کے بدن میں جوش مارتا ہے او ر اس کے رگ و ریشے میں خون رواں دواں ہوجاتا ہے تو انسان کے پٹھے حرکت میں آجاتے ہیں اور اس طرحح سُن ہوناختم ہوجاتا ہے۔
اسلام اور زمانہ جاہلیت میں اس معنی کے بہت سارے اشعار آئے ہیں جن میں سے شاعر کا یہ قول:
؎ جب کسی عاشق اور محبت کرنےوالا کا پیر سُن ہوجاتا ہے تو کبیشہ کہہ کر پکارنے لگتاہے یہاں تک کہ اسکی تکلیف جاتی رہتی ہے ۔
دوسرے نے کہا:
باوجودیکہ میرا پیر برابر سُن ہوتا رہتاہے میں اسی حالت میں رہتا ہوں یہاں تک کہ تجھے یاد نہ کرلوں۔
کثیر نے کہا:
جب میرا پیر سُن ہوجاتا ہے توشفا کے لیے تجھے یاد کرتا ہوں چنانچہ وہ ہلکا ہوجاتا ہے
جمیل نےکہا:
جب ہم تم سے ملتے ہیں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور جب پیر سن ہوجاتا ہے تو تجھے یاد کرکے شفا پاتا ہوں
ایک عورت نے کہا:
جب میرا پیر سن ہوجاتا ہے تو ابن مصعب کو پکارتی ہوں اگر میں کہتی ہوں اےاللہ کے بندے تواس کا سن جانے لگتاہے
موصلی نےکہا:
اللہ کی قسم جب جب میراپیر سن ہوااور لڑکھڑایا تو میں نے تجھےیاد کیاتا کہ پیر کی تکلیف ختم ہوجائے
ولید بن یزید نے کہا:
فریفتہ عاشق کو تم بدلہ دو جب اس کا پیر سن ہوکر تم کو پکارے(۱)
اور ان کے علاوہ بہت سارے دوسرے اشعار ہیں تو کیا یہ کہا جائے گا کہ وہ لوگ جن سے محبت کرتے ہیں ،ان سے وسیلہ پکڑا ہے خواہ عورتیں ہو یا بچے، اور ان کے سوالات کا جواب دے دیاگیا اور ان کا وسیلہ قبول کرلیا گیا؟
٭مؤلف نے ص: ۶۸ پر غیر نبی ﷺ سے توسل کا عنوان قائم کرتےہوئے لکھا:
احادیث کو "مجمع الزوائد للہیثمی(۱۰/ ۱۳۲) سے نقل کیا ہے حافظ ہیثمی نے ان احادیث کو "باب مایقول اذاانتفلت دابتہ،اواراد غوثا او اضل شیئا""کیا کہے گا جب اس کا چوپایہ بدک جائے یا وہ مددوفریاد کا ارادہ کرے یا کسی چیز کو گم کردے کا باب" کے ضمن میں سفر کے ادعیہ کے ابواب کے طور پر لایا ہے۔
ہیثمی کا فقہ اس طرح باب قائم کرنے میں ظاہر ہے لیکن جنہوں نے غیر نبی سے توسل کا باب باندھا ہے تو نصوص کے بارے میں فٖقیہ نہیں ہیں اور میں عنقریب اس کو بیان کرونگا۔
صاحب مفاہیم نے اس ترجمہ کے ضمن میں احادیث سے استدلال کیا ہے کہا عتبہ بن غزوان کے طریق سے وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا "جب تم میں سے کوئی کسی چیز کو مفقود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) بلوغ الارب ۲/ ۳۲۰۔۳۲۱)
پائے یا مدد وفریاد کا ارادہ کرے اور وہ ایسی زمین میں ہو جہاں اس کا کوئی ساتھی نہ ہو تو چاہیے کہ کہے اللہ کے بندوں میری مدد کرو کیونکہ اللہ کے بندے ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھتے اور اس کا تجربہ بھی کیا جا چکا ہے․․․طبرانی نے ا سے روایت کیا اور اس کے رجال کی توثیق کی گئ ہے الا یہ کہ بعض ضعیف ہیں اور یہ طے شدہ امر ہے کہ یزید بن علی نے عتبہ کو نہیں پایا۔ ان کا کلام ختم ہوا۔
اس پر مختلف طریقے سے کلام کرنا ہے :
(۱) اس کو نقل کرنے میں تحریفات واقع ہوئی ہیں کچھ لوگوں نے "قدجر ب ذلک" کو رسول اللہ کی حدیث مانا ہے جبکہ وہ ان کا کلام نہیں اس کو حدیث کے ساتھ ملا ڈالنا․․․یہ تو بعض متاخرین رواۃ کا کلام سے ہے جیساکہ عنقریب آگے آئے گا۔
ایسے ہی یزید محرف ہےجبکہ درست زید بن علی ہے جیساکہ معجم طبرانی میں ہے۔
(۲) حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر (۱۷/ ۱۱۷)میں احمد بن یحیی صوفی کے طریق سے روایت کیا ہے ان سے عبدالرحمن بن شریک(۱) نے، ان سے ان کے والد نے، انہوں نے عبد اللہ بن عیسی عن زید بن علی عن عتبہ بن غزوان کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر نے "نتائج الافکار "میں کہا ہے ،اس کو طبرانی نےمنقطع (جس حدیث کا ایک یا ایک سے زیادہ راوی ایک سے زیادہ جگہ سے ساقط ہوگیا ہو)سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور کہا جائے گا کہ انقطاع کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں دو وجہ اور بھی ہیں ۔
۱/ عبدالرحمن بن شریک کو ابوحاتم نے واھی الحدیث کہا ہے، اور ابن حبان نے ثقات میں اس کو ذکر کیا ہے اور کہاہے کہ بسااوقات غلطی کرجاتے تھے ابن حجرنے تہذیب التہذیب میں اس کو ذکر کیا ہے اور ان دونوں قولوں کے علاوہ کچھ ذکر نہ کیا۔
(۲) عبدالرحمن کے والد شریک عبداللہ نخعی مشہور قاضی کے صاحبزادہ ہیں، حافظ نے تقریب میں کہا صدوق ہیں بہت غلطی کرتے ہیں، جب سے کوفہ کے قضاء کے والی ہوئے ان کا حٖفظ بدل گیا اور وہ عادل ،انصاف پرور،فاضل،عبادت گذار اور بدعتیوں پر سخت تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) مکتبہ احمد ثالث (۹/ ۲۷/ ۱)سے فوٹوکا پی کے گئے میرے نسخہ میں ایسے ہی ہے جبکہ مطبوع میں عبدالرحمن بن سہل کی طرف تحریف ہے ۔

اس سند میں تین آفتیں یکجا ہوگئیں انقطاع، عبدالرحمن کا ضعف اور شریک کا ضعف اور اس طرح اسناد یقینی طور پر ضعیف ہوگیا۔
اور کہا حضرت ابن عباس سے رسول اللہﷺ نے فرمایا (ان للہ ملائکہ[فی الارض]) حفظہ کے علاوہ زمین میں اللہ کے دیگر فر شتے ہیں جو لکھتے رہتے ہیں گرتے پتے کو،جب تم میں سے کسی کو بےآب و گیا ہ زمین میں لنگڑا پن ہوئے تو چاہیے کہ مدد طلب کرے یہ کہتے ہوئے اللہ کے بندوں میری مدد کرو۔"طبرانی نے اس سے روایت کیا اور کہا اس کے رجال ثقہ کے رجال ہیں"مجمع الزوائد " سے نقل کیا ہے۔
٭شیخ نے جواب دیا:مجمع الزوائد کے ایک نسخہ میں ہے کہ بزار نے اس کو روایت کیا اور شاید کہ یہی زیادہ درست ہے کیونکہ حضرت ابن عباس کے اثرکو بزار نے"بحرزخار" میں نکالا ہے اور ہیثمی نے"کشف الاستار"(۴/ ۳۳۔۳۴) میں اس کو ذکر کیا ہے، بزار نے کہا ہم سے موسی بن اسحاق نے بیان کیا، ان سےمنجاب بن حارث نے، ان سے حاتم بن اسماعیل نے اسامہ بن زید بن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس کے طریق سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،اور اس کو ذکر کیا ،بزار نے کہا؛ " ہم نہیں جانتے کہ نبی ﷺ سے اس لفظ کے ساتھ روایت کی جاتی ہو سوائے اس سند کے "
جبکہ اس سند میں نظر ہے:
(۱)اسامہ بن زید لیثی مدنی ان کو بعض نے عادل کہا ہے جبکہ دوسروں نے ان کی حدیث کی تجریح(مجروح قرارد ینا حدیث میں پائی جانے والی کمزوریوں کی بناء پر) کی ہے، امام احمد بن حنبل نے کہا: اثرم نے ان سے کچھ روایت نہیں کیا ہے اور عبداللہ بن احمد نے اپنے والد سے کہا میں اس کو اچھی حدیث والا خیال کرتا ہوں ، تو اس کے والد نے کہا: اگر اس کی حدیث میں غوروفکر کروگے تو اس میں نکارت کو جان لوگے ، یحیی بن سعید اس کی تضعیف کرتے تھے اور ابوحاتم نے کہا کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی اور نسائی نے کہا کہ قوی نہیں ہے۔
برقی نے کہا وہ ان لوگوں میں سے جنکی تضعیف کی جاتی ہے،کہا: مجھ سے یحیی نے کہا: اس کے احادیث کا محدثین نے انکار کیاہے۔ یہ بعض محدثین کے اقوال ہیں جنہوں نے اس کے بارے میں کلام کیا ہے۔
ابن معین نے ابویعلی کی روایت میں اس کی توثیق کی ہے ، ایسے ہی عباس کی روایت میں اور دارمی کی روایت میں، ابن معین نے کہا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ، ابن عدی نے ابن معین کی پیروی کی ہے اور کہا ہے اسکی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے ، ابن شاہین اور ابن حبان نے اسکی توثیق کی ہے اور ابن حبان نے یہ بھی بڑھایا ہے( یخطی) غلطی کرتا تھا اور جو ان سارے اقوال میں غور کرے گا تو جان لے گا کہ جس میں وہ منفرد ہو تو اس کو چھوڑ دینا چاہیے اگر اسکی متابعت کی گئی ہو توقبول کیا جائے گا اور ابن عباس کی حدیث ان احادیث میں سے ہے جس میں وہ اکیلا ہے۔
(۲)اسامہ بن زید سے روایت کرنے والا راوی حاتم بن اسماعیل کے بارے میں حافظ نے کہا ہے کتاب کا صحیح صدوق تھا جو وھم کرتا تھا۔
شیخ ناصرالدین البانی نے کہا جعفر بن عون نے اسکی مخالفت کی ہے اور کہا ہے اسامہ بن زید نے ہم سے بیان کیا․․․ اورحضرت ابن عباس سے موقوفا روایت کیا ۔بیہقی نے شعب الایمان(۲/ ۴۵۵/ ۱) میں نکالا ہے اور جعفر بن عون حاتم بن اسماعیل سے زیادہ ثقہ ہیں ، گرچہ وہ دونوں شیخین کے رجال میں سے ہیں، جن میں سے پہلےکی کسی چیز میں تجریح نہیں کی گئی ہے دوسرے کے برخلاف تو اس کے بارے میں نسائی نے کہا قوی نہیں ہے اور دوسروں نے کہا اس میں غفلت و لاپرواہی پائی جاتی ہے، اسی لیے تو حافظ نے کہا کتاب کا صحیح صدوق تھا جو بھول جایا کرتا تھا اور جعفر کے بارے میں کہا صدوق اس لیے حدیث میرے نزدیک مخالفت کرنے کی وجہ سے معلول(علت والی ) ہے۔
(۳) اسامہ اس میں منفر د ہے اور گذرچکا کہ کمزور حفظ والے کا منفرد ہونا منکر شمار کیا جاتا ہے جبکہ ٖصریح اور صحیح اصول اسکی تائید نہ کرتے ہوں۔
حافظ ابن حجر نے کہا یہ حدیث عمدہ سند والی لیکن بہت ہی غریب ہے(شرح ابن علامہ للاذکار ۵/ ۱۵۱) اور یہ معلوم ہے کہ سند کا عمدہ ہونا ہمیشہ حدیث کی عمدگی پر دلالت نہیں کرتا ہے۔
حدیث اذکار کے باب میں ضعیف ہونے کے باوجود انکے دعوی پر دلالت نہیں کرتی مردوں و غیرہ سے سوال کرنا بلکہ اس بات پر صریح ہے کہ جو فرشتوں کو پکارے گا ۔راستے میں پھیرتے رہنے والے۔ وہ ان کی پکار کو سنتے ہیں اور اپنے رب کی اجازت سے جواب دینے پر قادر ہیں کیونکہ وہ تو زندہ ہیں گمراہ کی رہنمائی کرنے پر قادر ہیں ، وہ تو اللہ کے بندے ہیں، زندہ ہیں جو سنتے اور جواب دیتے ہیں جس پر ان کو ان کے رب نے قادر بنایا ہے، اور وہ چٹیل میدان میں گم گستگان راہ(راستہ بھٹکا ہوا انسان) کی رہنمائی کرنا اور جس نے ان آثارسے کسی شخص کو اس کا نام لے کر پکارنے پر استدلال کیا تو اس نے رسول اللہ پر جھوٹ باندھا اور اس نے نبی ﷺ کی بات پر غور نہیں کی اور یہ تو خواہشات کے پیروکاروں کی علامت ہے۔
جب یہ واضح ہوگیا تویہ اثر ان اذکارمیں سے ہے جن کے ذریعہ ان کے ضعف کے باوجود عمل میں تساہل برتا جاتا ہے کیونکہ یہ شرعی اصول پر جاری و ساری ہیں اور قرآنی نصوص اور احادیث نبویہ کی مخالفت نہیں پھر وہ مخصوص ہے جس بارے میں دلیل وارد ہے کیونکہ اس میں قیاس کرنا جائز نہیں چونکہ عقائد توقیفی(کتاب وسنت سے ماخوذ) ہوا کرتے ہیں۔
اس لیے تو عبداللہ بن احمد نے(المسائل ص: ۲۴۵) میں اپنے والد کے طریق سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے، میں حج میں چلتے ہوئے راستہ بھٹک پڑا تومیں یہ کہنے لگا اے اللہ کے بندوں راستہ کی طرف ہماری رہنمائی کرو ،میں یہ کہتا رہا یہاں تک کہ راستہ کو ہولیا۔
صاحب مفاھیم اور ان جیسے لوگوں نے"التوسل بغیر النبی" پر اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے باب باندھا ہے جوان کے حدیث نہ سمجھنے اور اسمیں غوروفکر نہ کرنے کے قبیل سے ہے جیساکہ ائمہ حدیث نے سمجھا ہے۔
متقدمین علماء میں سے کسی نے نہیں کہا کہ یہ غیر نبی سے وسیلہ پکڑنے کی دلیل ہے کیسے جبکہ وہ اس کے ممنوع ہونے پر اجماع کرچکے ہیں۔
"مجمع الزوائد"سے نقل کرتے ہوئے کہا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"جب تم میں سے کسی کا چوپایہ بے آہ و گیا ہ زمین میں بدک جائے تو چاہیے کہ پکارے اے اللہ کے بندوں! روکو کیونکہ زمین میں اللہ کے لیے حاضر رہنے والے فرشتے ہیں جو اس کو روک لیں گے" اس کو ابویعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور یہ اضافہ کیا ہے"اس کو تم پر روکے رکھیں گے" اور اس میں معروف بن حسان ہیں جو ضعیف ہیں۔
٭شیخ نے جواب دیا: حدیث"معجم کبیر(۱۰/ ۲۶۷) میں ہے ابراہیم بن نائلہ نے ہم سے بیان کیا، مسند ابی یعلی(۲/ ۲۴۴) اور(عمل الیوم واللیلہ لابن السنی ص: ۱۳۶ )میں ابویعلی کے طریق سے، دونوں نے کہا حسن بن عمر بن شقیق نے بیان کیا ، ان سے معروف بن حسان (ابومعاذ) سمرقندی نے سعید بن ابی عروبہ عن عبداللہ بن بریدہ عن عبداللہ بن مسعود سے مرفوعا روایت کیا اور یہ سند چند امور کی بناء پر ضعیف ہے۔
۱/ معروف بن حسان: ابوحاتم نے کہا"مجہول"ہے، ابن عدی نے"منکرالحدیث" ہے۔
میں نے کہا وہ راوی(روایت کرنے والا) ہیں ابن ابی عروبہ عن نافع عن ابن عمر سے مرفوعا"جو درخت لگایا یہاں تک کہ اگنے لگا تو اس کے لیے رات بھر جاگنے اور دن بھرروزہ رکھنے والوں کےثواب کے مانند ہوگا " اور یہ حدیث موضوع ہے اس کو کنجروذی نے کنجروذیات میں روایت کیا ہے۔
۲/سعید بن ابی عروبہ مختلط ہوگئے تھے، نسائی نے کہا جس نے ان سے اختلاط کے بعد سنا اس کی کوئی اہمیت نہیں، معروف بن حسان چھوٹوں میں سے تھے، بڑوں نے ان کے اختلاط پختہ ہونے سے پہلے ان سے سنا، اس کے پورے طورپر مستحکم ہونے سے پہلے ان سے ایک جماعت نے سنا اور پورے مختلط ہونے کے بعد بہت سارے لوگوں نےسنا ان کا اختلاط ۱۳۲ ھ؁ سے شروع ہواتھا اور ۱۴۸ھ؁ میں مستحکم ہوگیا تھا بزار نے ہمیں یہ فائدہ پہنچایا۔
۳/ سعید بن ابی عروبہ کی تدلیس :حافظ نے کہا بہت زیادہ تدلیس کیا کرتا تھا، اور اس حدیث کو ابن بریدہ سے عنعنہ کے ذریعہ روایت کیا ہے جو قبول نہیں کیا جائے گا۔
۴/ حافظ نے نتائج الافکار میں کہا یہ حدیث ٖغریب ہے جس کو ابن السنی اور طبرانی نے نکالا ہے اور سند میں ابن بریدہ اور ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے، تو یہ چوتھی علت ہے جس کو حافظ نے بتلایا۔
۵/ابن ابی شیبہ نے "المصنف (۱۰/ ۴۲۴۔۴۲۵) میں کہا ہم سے یزید بن ھارون نے بیان کیا،کہا کہ ہم سے محمد بن اسحاق نے ابان بن صالح کے طریق سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر اس کو ذکر کیا۔
اور یہ سند معضل ہے اور ابن اسحاق کی تدلیس معروف ہے تو یہ علتیں یکے بعد دیگرے ہیں جس کی کوئی دوا نہیں سوائے بربادی کے اور اس کی سند پھیکی ہوئی ہے۔
ان تمام وجوہات کی بناء پر اس حدیث کو کسی نے جنکو علم حدیث کی معرفت ہے بلکہ تضعیف کرنے والا یا دوسروں کی تضعیف نقل کرنے والا نہ تو صحیح کہا ہےا ور نہ اسکی تحسین کی ہے۔
٭اس کے بعد صاحب مفاہیم کا یہ قول ص:۶۹پر "تویہ توسل نداء کی صورت میں" لغت و شرع کے اعتبار سے لمبے چوڑے دعوی کے قبیل سے ہے۔
لغت کے ناحیہ سے تو کوئی نہیں جانا جاتا جس نے توسل کو نداء سے تصویر کشی کی ہو بلکہ نداء دعا ہے جسمیں براہ راست طلب کیاجاتا ہے ایسے منادی کوجو حاضر ہو ، سنتا ہو اور جواب بھی دیتا ہو ۔توسل دعاکی قبولیت کے لیے قربت کو سبب بنانا ہے۔
جہاں تک شرع کی بات ہے تو احادیث ضعیف ہیں پہلی اور تیسری تو سخت ضعیف ہیں اور دوسر ی جسمیں ملائکہ(فرشتوں) کا ذکر ہے ضعیف اور غریب جدا ہے اور اس میں مدعی پر جوکہ توسل ہےکوئی دلالت نہیں کیونکہ یہ زندہ کو پکارنا ہے۔جو اس کو جواب دینے پر قادر ہیں۔
ہروی نے"ذم الکلام ۴/ ۶۸/ ۱) میں کتنی اچھی روایت کی ہےکہ عبداللہ بن مبارک اپنے کسی سفر میں راستہ میں گم ہوگئے اور ان کو یہ پہنچا تھا کہ جو کسی جگہ پناہ لے اور پریشان ہو جائےتو پکارے اللہ کے بندوں!میری مدد کرو ۔ کہا اس کے جزء کو طلب کرکے اسکی اسناد کو دیکھنے لگے، ہروی نے کہاتو انہوں نے جائز نہیں مانا کہ ایسی دعا کیجائے جسکی سند معلوم نہ ہو"(۱)
یہ سلف کا طریقہ ہے اور ان کے پیروکار وں کا جوکہ سندوں کی بحث کرتے ہیں اور بعض خلف اور ان کے پیروکاروں کی کارکردگی یہ ہے کہ خوش ہونا ہر اس چیز سے جو ان کی رائے کی تائید کرے گرچہ موضوع اورمکذوب روایتیں کیوں نہ ہوں اور محمدﷺ کی سنت پر غیرت نہیں کھاتے۔
٭مؤلف نے ص: ۶۹ میں لکھا:
حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ فجر کی دورکعتوں کے بعد کہا کرتے تھے"اے اللہ !جبریل، اسرافیل،
میکائیل اور محمد کے رب ، میں تجھ سے جہنم کی آگ سے پناہ مانگتا ہوں" پھرکہاان لوگوں کو خصوصی طور پر ذکر کرنا ان سے وسیلہ پکڑنے کے معنی میں ہے ،گویا کہتے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تجھ تک جبریل کے واسطہ سے وسیلہ پکڑتا ہوں اور ابن وعلان نے شرح میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے" ان کا کلام ختم ہوا۔
٭شیخ نے جواب دیا: جو کچھ اس نے کہا ہے، اس میں اللہ کے رسول کے قول کی علت بیان کرناہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ۲/ ۱۰۹)
ان کے نفس میں جو کچھ تھا اس کو حلال قرار دینا ہے، ورنہ ان کے دل کی بات کیسے جانتا ہے ،یہاں تک کہ کہہ ڈالے"گویاکہہ رہے تھے" یہ مقام رسالت پر عظیم جرات و جسارت ہے،پھر اس نے اپنے اس جرات و جسارت کی نسبت ابن وعلان کی طرف(شرح الاذکار ۲/ ۱۴۱) میں کرتے ہوئے اس کی تائید بھی کی ہے جبکہ ابن وعلان نے نہ تو کہا ہے اور نہ ہی اس کی طرف اشارہ ہی کیا ہے ، یہ توتحریف و تبدیل اور گھٹیا ترین مذموم کارکردگی ہے ۔ ابن وعلان نے "شرح الاذکار" میں جو کچھ کہا ہے اس پر غور کریں"ان کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔گرچہ اللہ تعالی ہرچیز کا رب ہے۔اس لیے کہ قرآن و سنت میں اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں کہ ہربلند و بالا اور بڑی شان والے کی طرف اضافت کی جاتی ہے حقیر اور کم درجہ کی طرف نہیں"پھر انہوں نے کہا "اللہ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی طرف وسیلہ پکڑنا ان عظیم ترین روحوں کےلیے جنکو زندگی عطاکی گئی ہے ، جس کا حاجتوں کے حصول اورمقاصد واھداف تک رسائی میں بڑی تاثیر ہے"
یہ ابن وعلان کی طرف سے عمدہ کلام ہے ، اللہ کی ربوبیت کا وسیلہ پکڑنا ان روحوں کے لیے نہ کہ ان روحوں سے اللہ کی صفات میں سے کسی صفت کے ذریعہ وسیلہ پکڑنا ہے اور یہ وہ وسیلہ ہے جسکو اللہ پسند کرتا ہے ،اس سے راضی ہوتاہے اور جس کو اس کے رسول نے پسند کیا، تو اس کے رسول کی پوری طرح پیروی کریں، اور چھوڑدیں ان لوگوں کو جو ادھر ادھر چہ میگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور واضح چیز کو فاسد کرنے سے محبت رکھتے ہیں۔
صاحب مفاہیم نے ص: ۶۹ میں عنوان قائم کرکے لکھاہے"معنی توسل عمربالعباس"عمر کے عباس سے وسیلہ پکڑنے کا معنی ، اس توسل کے بارے میں علماء نے جو کہا ہے اس کو بدل ڈالا ہے اور یہ دعا کے ذریعہ وسیلہ پکڑنا ہے کیونکہ عباس اس کی ملکیت رکھتے تھے۔"
نہایت ہی تعجب خیز بات کہی ہے، آپ سنیں"جس نے یہ سمجھا امیرالمومنین کے کلام سے کہ انہوں نے عباس سے وسیلہ پکڑااور رسول اللہ ﷺ سے وسیلہ نہیں پکڑا کیونکہ عباس زندہ اور نبی ﷺ مردہ تھے تو اس کی سمجھ مرچکی ہےاور اس پر اس کا وہم و گمان غالب آگیا ہے اور اپنے نفس کو ظاہری حالت میں پکارتا رہتا ہے یا عصبیت کی بناء پر وہ مغلوب ہو چلا ہے کیونکہ حضرت عمر نے عباس سے صرف رسول سے قرابت کی بناء پر وسیلہ پکڑا تھا۔"
٭شیخ نے جواب دیا:کتنا یہ عجیب و غریب امر ہے اور رد کرنے کا آسان طریقہ ہے،مؤلف نے دو چیزوں کو ذکر کیا ہے:
(۱)سطروں کے درمیان پوشیدہ شہوت جو اس کے اقوال اور تحریرمیں دیکھاجا سکتا ہے۔
(۲) استسقاء کا معنی اور اس کی تاریخ کے بارے میں کم سوجھ بوجھ اور کم تلاش و جستجو، یہ صحیح ہے کہ حضرت معاویہ بن سفیان نے یزید بن اسود سے پانی کے لیے دعاکرائی۔حافظ یعقوب بن سفیان نے اپنی کتاب(المعرفہ والتاریخ ۲/ ۳۸۰۔۳۸۱)میں کہا ہے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا: ہم سے صفوان نے سلیم بن عامر الخبائی کے طریق سے"آسمان قحط کا شکار ہوگیا ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور دمشق کے باشندگان پانی طلب کرنے نکلے ، جب معاویہ منبر پر بیٹھے توکہا یزید بن اسود جرشی کہاں ہیں؟ لوگوں نے ان کو بلایا جو ان کے پاس لوگوں کی گردنیں چھلانگتے آئے ، حضرت معاویہ نے ان کو حکم دیاپھر وہ منبر پر چڑھے اور حضرت معاویہ ان کے پیروں کے قریب بیٹھے ، معاویہ نے کہا اے اللہ ہم آج امتیوں میں اچھے اور اٖ فضل کے واسطہ تجھ سے شفاعت طلب کرتے ہیں۔ اے اللہ ہم یزید بن اسود جرشی کے ذریعہ شفاعت طلب کرتے ہیں۔ اے یزید! اپنا ہاتھ اللہ کی طرف اٹھائیں تو یزید نے اپنے ہاتھوں کو اللہ کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں نے اٹھایا۔ اتنے میں مغرب سے بدلی ڈھال کے مانند چل پڑی اور ہوا تیز و تند ہوئی اور ہم پانی دیئے گئے اور ایسا لگنے لگا کہ لوگ اپنے گھروں تک نہ پہنچ پائیں گے۔
ابن سعد نے طبقات(۷/ ۴۴۴) میں اور ابوزرعہ نے تاریخ دمشق(۱/ ۶۰۲) میں روایت کیا ہے اور اسکی سند مسلسل ہے بڑے ثقہ کے واسطے جو کہ عمدہ درجہ کی صحت کو پہنچی ہے۔
حضرت معاویہ صحابی ٔ رسول رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے استسقاء سے انکی زندگی کی حالت کو سمجھا کہ نبی ﷺ ان کے لیے دعا کریں۔
حضرت عمر کے فعل سے یہ سمجھا گیا کہ عباس ان کے لیے دعا کریں اور اسی فہم پرچل پڑے ، پانی طلب کیا اور حضرت یزید سے شفاعت کرائی کہ ان کے لیے دعاکریں ، حضرت یزید کا نبیﷺ سے کونسی قرابت تھی؟ اس میں شک نہیں کہ صلاح و نیکوکاری کے باوجود انکی رشتہ داری ان کی دعا کی قبولیت کے لیے سبب تھی، بغیر تقوی و پرہیزگاری کے صرف قرابت و رشتہ داری نے تو ان کے چچا ابولھب وغیرہ کو بھی فائدہ نہیں پہنچایا۔
بڑا سبب اور مضبوط رسی ہےنبیﷺ کی پیروی کرنا ، ہم صحابہ کی سمجھ کو ہی لینے والے ہیں ، انہی کی پیر وی کرنے والے ہیں اور خلیفۂ راشد اور ان کےبعد کے صحابہ کی سنت کے شیدائی ہیں۔ بدعتیوں ا ور خواہشات کے پیروکاروں کے فہم و سمجھ پر نکیر کرنے اور اس کو چھوڑنے والے ہیں اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔
٭مؤلف نے ص:۶۵ میں لکھا"توسل النبی ﷺ بحقہ و حق الانبیاء والصالحین"نبی ﷺ نے اپنے اور دیگر انبیاء وصالحین کے حق سے وسیلہ پکڑا"اور پھر استدلال کیا اس حدیث سے جس میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علی کی ماں فاطمہ بنت اسد کو دفن کیا"میری والدہ فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما،ان کی حجت پوری کراور انکی جگہ کو کشادہ کردے اپنے نبی کے حق اور دیگر انبیاء جو مجھ سے پہلے تھے ان سبھو ں کے حق کے توسل سے"طبرانی نے کبیر اور اوسط میں روایت کیا ہےاور اس میں روح بن صلاح ہیں جنکی ابن حبان و حاکم نے توثیق کی ہےاور اس میں ضعف ہے اور باقی رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں ایسے ہی مجمع الزوائد(۹/ ۲۵۷) میں ہے طبرانی نے اوسط اورکبیر میں عمدہ سند سے روایت کیا ہے۔
اس کو ابن حبان و حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی تصحیح کی ہےحضرت انس کے طریق سے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت جابر کے طریق سے روایت کیا ہے اور ابن عبداللہ نے حضرت ابن عباس کے طریق سے اور ان میں سے بعض میں روح بن صلاح اس کے ایک راوی کے بارے میں اختلاف کیا ہے لیکن ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور حاکم نے ثقہ ومامون کہا ہے اور دوحافظوں نے حدیث کی تصحیح کی ہے۔ اور ایسے ہی ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا: اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں اور ایسے ہی ابن عبداللہ نے حضرت ابن عباس کے طریق سے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت جابر کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس کو دیلمی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے تو اس طرح اس کے طرق سے ایک دوسرے کو تقویت وپختگی ملتی ہے۔"
یہ صاحب مفاہیم کا کلام تھا جس کو میں نے اس کے حروف کے ساتھ نقل کرڈالا اور طول بھی پکڑ گیا تاکہ واضح ہوجائے جو اس کے کلام کا مطالعہ کرتا ہے چند امور:
(۱) تخریج او ر اس کے اصول کی قلت معرفت۔
(۲) ایک ہی حدیث میں تناقض اور چند ہی سطروں میں تضاد۔
(۳) اس نے ہیثمی سے نقل کرتے ہوئے اپنے کلام کو شروع کیا ہے جو حدیث کے ضعیف ہونے کا فائدہ دیتا ہے پھر اس کے اخیر میں کہا"ہیثمی نے اس کی تصحیح کی ہے"تو کیسے گمان کرتا ہے کہ اس نے اس کی تصحیح کی ہے جبکہ روح کے بارے میں کہا"اس میں ضعف ہے" جس نے اس کی توثیق کی ہے ان کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد ان پر استدراک کرتے ہوئے کہا۔پھر اس کا قول"اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں"یہ فائدہ دیتا ہے کہ اگرپورے کے پورے صحیح کے رجال ہوتے تو اس کے رواۃ ثقہ ہوتے اور سند پر صحت کا حکم لگانے کے لیے دخل(مداخلت کرنا) نہ دینا پڑتا تو کیسے حدیث کی تصحیح کے لیے؟
٭ اس نے کہا عمدہ سند سے پھر اس کی سند کو اسی طریق سے کہا کہ اسکی سند جید ہے۔
٭اس کا یہ کہنا کہ دیلمی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے روح کے طریق سے روایت کیا ہے۔ تاکہ تلبیس میں ڈال دیں اورکثرت طرق سے وہم پیداکردیں۔
( ۳) ابن ابی شیبہ اور ابن عبدالبر کی روایت کو دوبارہ بیان کرنا اور میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں؟ لیکن لمبا کرنا چاہتاہے اور اس کی عبارت اس حدیث کے بارے میں مضطرب و مکرر ہے مستقیم نہیں ہے جیسا کہ ظاہر ہے اس لیے جو پڑھنا چاہے چہ جائیکہ غوروفکر کرے، تو کیسے اس پر تنبیہ نہیں کیا ہے جن لوگوں نے اس پر تقریظ لکھی ہے۔
حدیث کی تخریج: حضرت انس کی مذکورہ حدیث جس کو طبرانی نے اوسط (۱/ ۱۵۲۔۱۵۳) اورالمعجم الکبیر(۲۴/ ۳۵۲)میں اور ابونعیم نے "الحلیہ ۳/ ۱۲۱) میں روح بن صلاح کے طریق سے، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عاصم احول عن انس کے طریق سے روایت کیا ہے، اس سند میں روح بن صلاح ہے جس کی تضعیف دارقطنی نے کی ہے اور ذہبی نے کہا دارقطنی ضعیف نہیں قراردیتے الا یہ کہ جس میں خیر نہ ہو، ان سے مناوی نے(فیض القدیر۱/ ۲۸) میں نقل کیا ہے، ابن عدی اور ابن ماکولا نے ضعیف کہا ہے اورکہا" محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے" اور ابن یونس نے تاریخ الغرباء میں کہا ہے اس سے مناکیر روایت کی گئی ہے۔
رہا ابن حبان کی توثیق تو یہ ان کا اپناقاعدہ مجاہیل کی توثیق پرچل پڑے ہیں روح کا ترجمہ"الثقات"میں کرڈالا ہے اور کہا"روح بن صلاح مصر والوں میں سے ہے جو یحیی بن ایوب اور اس کے شہریوں سے روایت کرتا ہے"اس سے محمد بن ابراہیم بوشنجی اور اہل مصر نے روایت کیا ہے(۲/ ۱۳۲/ ۲) ہیثمی کی ترتیب دارالکتب کا نسخہ)
یہ ظاہر ہے کہ وہ مجہول ہے اس لیے ابن حبان کی توثیق سے نہ اترائیں اور حاکم ابن حبان کے شاگرد ہیں جنہوں نے شاید کہ ان کی توثیق کو ان سے لیا ہے، جبکہ ضعیف کی حدیث نہیں لیجا تی ہے توکیسے جب وہ منفرد ہو؟ اس حدیث کو سفیان ثوری کے اصحاب میں سے سرے سے کسی نے روایت نہیں کیا ہے اور اسی واسطے طبرانی نے"الاوسط" میں کہا ہےاور ان سے ابونعیم نے "الحلیہ " میں نقل کیا ہے"روح بن صلاح منفرد ہیں"اور معلوم ہے کہ جب ضعیف کسی حدیث کو اکیلا بیان کرے تو وہ منکر ہوگا جیساکہ ذھبی نے میزان میں ابن المدینی کے ترجمہ میں کہا ہے جس کی طرف اشارہ گزرچکا۔
اس کا قول" اس کو ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے اور اسکی تصحیح کی ہےحضرت انس کے طریق سے ، اس تخریج کو حفاظ کرام جیسے ابن حجر نے"الاصابہ" میں سیوطی نے"الجامع الکبیر"میں نہیں ذکر کیا ہے بلکہ متقی ہندی نے"کنز العمال" میں دوجگہ پر اس کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی تخریج کو ذکر نہیں کیا ہے۔
شاید کہ مؤلف کوثری سے دھوکا میں پڑگیا ہے جس نےا پنے مقالات میں ص: ۳۹۱ پر اس کو ذکر کیا ہے اور تلبیس و تحریف کرتے اس کو علامہ عبدالرحمن معلمی یمانی کی کتاب"التنکیل" کی طرف منسوب کرڈالاہے۔
رہا کاتب کا یہ قول"ایسے ہی ابن عبدالبر نے ابن عباس کے طریق سے اس کو روایت کیا ہے"
تو یہ سخت ترین تدلیس ہے او رعظیم ترین تلبیس ہے ، ابن عباس کی روایت میں نبیﷺ اور انبیاء کے حق سے توسل نہیں ہے ،یہ تو لفظ ابن عباس کی روایت میں نہیں ہے پھر کیونکر صاحب مفاہیم اپنی کتاب کے مطالعہ کرنے والوں کو مشتبہ کرنا چاہتا ہے ؟کیا کوئی ایسا امر ثابت کرنا چاہتا ہے جو ثابت نہیں یامروی نہیں ہے؟ شاہد کو اس کے باب میں لایا جاتا ہے، علماء کے نزدیک شاہد دلالت کرتا ہے اس پر جس کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے جو کہ صاحب مفاہیم کے کلام میں نہیں پایا گیا گویا اس نے اس کو خفیہ رکھنے کا قصد کیا ہے اور اس کے اثبات کے لیے مکر و دغابازی کرتا ہے۔
آپ غور کریں ابن عبدالبر کے کلام پر جسکو انہوں نے استیعاب(۴/ ۱۸۹۱) میں ذکر کیا ہے، سعدان بن ولید سایری نے عطاء بن ابی رباح عن ابن عباس کے طریق سے روایت کیا ہے، فرمایا جب فاطمہ حضرت علی بن ابی طالب کی والدہ کی وفات ہوئی تو ان کو رسول اللہ نے اپنی قمیص پہنایا اور ان کی قبر میں ان کے ساتھ لیٹ گئے ،لوگوں نے کہاآپ کو ایسا کرتا ہم نے کبھی نہیں دیکھا، آپنے فرمایا ابوطالب کے بعد اسے بڑھکراور کوئی میرے لیے نیکوکار نہ تھا، میں نے تو ان کو اپنی قمیص پہنائی ہے تاکہ ان کو جنت کے جوڑے پہنائے جائیں اور ان کے ساتھ لیٹا تاکہ ان پر آسانیا ں کی جائیں۔
اس تفصیل نے صاحب مفاہیم کا پردہ فاش کردیا جو وہ دو طرح کی تلبیس میں ڈالنا چاہتا تھا۔
(۱) اس کا قول"رواہ" اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ابن عبدالبر نے اس کی روایت نہیں کی ہے بلکہ سعدان بن ولید نے اس کو روایت کیا ہے اور دونوں حالتوں کے درمیان دور کا فرق ہے۔
(۲)حضرت ابن عباس کی خبر میں نبی اور انبیاء کے حق سے وسیلہ پکڑنے کا ذکر شاہد میں نہیں ہے اس لیے آپ ان اہل باطل کے املاء کو یاد رکھیں اور ہوشیار ہوجائیں۔
٭صاحب مفاہیم نےص:۶۶۔۶۷ میں لکھا:حافظ ابوبکر بیہقی نےکہاکہ ہم سے ابونصر بن قتادہ اور ابوبکر فارسی نے بیان کیا ،ان سے ابوعمر بن مطر نے ، ان سے ابراہیم بن علی ذہلی نے، ان سے یحیی بن یحیی نے ان سے ابومعاویہ نے اعمش عن ابی صالح عن مالک کے طریق سے بیان کیا کہ حضرت عمر کے دور میں لوگ قحط زدہ ہوئے تو ایک آدمی نبی ﷺ کی قبر کی طرف آکرکہا، اے اللہ کے رسول!آپ اللہ سے اپنی امت کے لیے پانی طلب کریں کیونکہ وہ ہلاک ہوگئے ، رسول اللہ ﷺ خواب میں اس کے پاس آئے اورکہا"عمر کے پاس جاؤ اور ان کو میرا سلام کہواور یہ بتادو کہ وہ لوگ سیراب کیے جائیں گے اور ان کو کہیں کہ ہوشیار رہیں۔وہ آدمی حضرت عمر کے پاس آیااورکہا تو انہوں نے کہا اے رب میں قصرنہیں اٹھاؤنگا(کمی نہیں کرونگا) الا یہ کہ جس سے عاجز آجاؤں"اور یہ اسناد صحیح ہے ایساہی حافظ ابن کثیر نے"البدایہ ۷/ ۹۱)(۱) میں ۱۸ھ؁ کے حوادث کے ضمن میں کہا ہے۔
٭شیخ نے جواب دیا کہ یہاں کلام دو مبحثوں میں ہوگا:
(۱) حافظ ابن کثیر نے بیہقی کی روایت سے پہلے سیف کی روایت کو لایا ہے جس میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور لوگوں سے کہا اللہ کو گواہ رکھ جس نے تم لوگوں کو اسلام کی ہدایت دی کیا تم لوگوں نے مجھ میں کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تم سب ناپسند کرتے ہو؟ ان لوگوں نے اللہ کو حاضر بنا کر کہا نہیں، آخر ایسا کیوں؟ تو انہیں مزنی کے قول کے بارے میں بتایا جو بلال بن حارث
۔۔۔۔۔۔
(۱) اصل میں ج ۱ ہےجبکہ صحیح ج ۷ ہے،اور ص:۷۷ پر جزء کی طرف نسبت کرنے میں غلطی دوبارہ ہوئی ہے جو کہ طباعت کی غلطی نہیں۔

ہیں تو لوگ سمجھ گئے اور وہ نہیں سمجھے پھر لوگوں نے کہا جس نے آپ کو استسقاء کے لیے مؤخر کردیا آپ ہمارے لیے پانی کی دعا کریں۔(یہی مقصود ہے) اس روایت کا دارومدار اللہ کے نبی کا قول حضرت عمر سے سیف کی روایت میں ہے ""عمر!ایسا دور جسمیں بہت زیادہ نافرمانیاں ہونے لگیں اس میں میرا عہد و پیمان یاد رکھنااور ہوشیار رہنا"
صحابۂ رسول نے اسی کی تفسیر کی ہے"وہ سب سمجھ گئے اور حضرت عمر نہیں سمجھے"جیساکہ صریح طور پر آیا ہے اور ان کا استسقاء کے لیے رہنمائی کرنا ہے۔
اس میں لطیف راز ہےاور یہ کہ کہنے والا کا قول"اللہ کے رسول! اللہ سے اپنی امت کےلیے پانی طلب کریں"منکر ہے، پانی طلب کرنے سے عمر کا سستی کرنا اس کا سبب بنا، اور مشروع کی طرف جلدبازی نہ کرنا کھینچ لایا ہے غیر مشروع کے وجود تک، اسی لیے تو نبیﷺ نے کہا "عمر!ایسا دور جسمیں بہت زیادہ نافرمانیاں ہونے لگیں اس میں میرا عہد و پیمان یاد رکھنااور ہوشیار رہنا"
٭شیخ نے جواب دیا یہ روایت ضعیف ہے تاکہ ابن کثیر کے مقصد کو بیان کردوں جبکہ انہوں نے دونوں ضعیف روایتوں کو لایا ہے۔
جب یہ واضح ہوگیا تو ابن کثیر رحمہ اللہ کے علم و فضل کا پتہ چلا ،اس طرح کے انہوں نے بیہقی کی روایت کو دوسری روایت اور سیف کی روایت جو کیس کے معنی کی تفصیل کرنے والی ہے کو پہلی روایت مانا ہے، اس پر ذرا غور کریں جو کہ احکام میں حفاظ کے مقاصد کو بیان کرتاہے۔
کہاجائے گا کہ حضرت عمر کا استسقاء کے لیے تاخیر کرنا جبکہ وہ مشروع عبادت ہے جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے،چونکہ اس میں اللہ کے سامنے تواضع و خاکساری ہے، اورپریشانی دور کرنے کے لیے رب کی طرف صدق و اخلاص کے ساتھ دلی طور پر متوجہ ہونا ہے،حضرت عمر کی تاخیر کرنامشروع استغاثہ سے اس غیر مشروع امر کا سبب ہے۔ اسی لیے تو رسول اللہ کے صحابۂ کرام میں سے کسی نے ویسا نہیں کیا جیسا اس آدمی نے کیاجو نبی ﷺ کی قبر کے پاس آیا اور جو کچھ چاہا کہہ ڈالا، پھر وہ لوگ پانی سے سیراب کیے گئے، ان سے پانی طلب کرنے کی وجہ سے نہ کہ آدمی کے قول کی وجہ سے جوغیر مشروع تھا تو اس لیے متنبہ ہوجائیں۔
(۲) یہ روایت جس کو حافظ ابن کثیر نے"دلائل النبوۃ" میں بیہقی کی روایت سے لایا ہےاس میں کئی علتیں ہیں جنکی وجہ سے محدثین نے اسکو معلول کہا ہے۔
(۱)اعمش کا عنعنہ جبکہ وہ مدلس ہیں اور مدلس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی ہےالایہ کہ جسمیں وہ "حدثنا" "اخبرنا" اور ان جیسے الفاظ کہے نہ کہ "قال" یا "عن" کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اس نے حدیث کو ضعیف سے لیا ہو جس کے ذکر سے حدیث کمزور ہوجائے جیساکہ مصطلح حدیث میں معلوم ہے باوجودیکہ اعمش حافظ وغیرہ کے نزدیک مدلسین کے دوسرے طبقہ میں سے ہیں۔
(۲)مالک جو کہ اسناد میں ہےاور جس پر روایت کا دارومدار ہے وہ مجہول ہے ،اس کو بخاری اور ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے اور تعدیل وتجریح سے کچھ ذکر نہیں کیا ہے ،پتہ چلا کہ وہ مجہول ہے اورمجہول کی حدیث قبول نہیں کی جاتی ہے، اور ابن کثیر نے اسناد کو اپنے طریقہ کے مطابق صحیح قرار دیا ہے اور وہ ہےکبار تابعین کے مجاہیل کی توثیق جیساکہ تفسیر وغیرہ میں ان کے موقف کے چھان بین کرنے سے پتہ چلتا ہے اور جب وہ مجہول ہوا تو ہمیں اس کے وفات کی کوئی خبر نہیں۔
(۳)ابوصالح مالک سے روایت کرنے والے ذکوان نامی راوی ہیں نہ تو ان کا سماع معلوم ہےاور نہ مالک سےان کا ادراک کیونکہ مالک کی وفات کی کچھ خبرنہیں بالخصوص جبکہ اس نے عنعنہ کے ذریعہ روایت کی ہے جو انقطاع کے پائے جانے کی جگہ ہے نہ کہ تدلیس کا۔
(۴)مالک مجہول کا منفرد ہونا حادثہ کے عظیم ہونے اور لوگوں پر اس کے سخت ہونے کے باوجود کیونکہ وہ لوگ شدید کرب و پریشانی کے میں تھے جسکی وجہ سے حضرت عمر بن خطاب کا رنگ کالا پڑگیا تھا سبب اس پریشانی سے چھٹکارا دلانا تھا اور اس سے مخرج کی طرف رہنمائی کرنا تھا،جس کو چھوٹے چھوٹے لوگوں کو بیان کرنا چاہیے تھا چہ جائیکہ بڑے اس کو نقل کرتے جیساکہ عام رمادہ کی مناسبت سے قحط سالی کا نقل کرنا ہے ، جب سبب کے بڑے ہونے کے باوجود نقل نہیں کیا تو اس بات پر دلیل ہے کہ معاملہ ایسا نہ رہا ہوگا جیساکہ مالک نے روایت کی ہے ممکن ہے کہ وہ گمان کر بیٹھا ہو۔
٭مؤلف نے ص: ۶۷ میں اس روایت کے بارے میں حافظ کا قول نقل کیا ہے: " ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ ابوصالح سمان عن مالک دار کے طریق سے روایت کیاہے ۔جوکہ حضرت عمر کے خازن تھے ۔ انہوں نے بیہقی کی حدیث سے اسی طرح ذکر کرڈالا ہے۔
٭صاحب مفاہیم نے لکھا: ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو لاکر اس کی سند کی تصحیح کی ہے جیساکہ گزرچکااور وہ اپنے علم و فضل اور حفاظ کے درمیان مقام ومرتبہ کے بارے میں کون ہیں؟اس کے بیان اور تفصیل کی ضرورت نہیں۔
٭ شیخ نے جواب دیا: حافظ کی منزلت اس میں بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں، وہ تو علوم حدیث کے بارے میں بلند و بالا علم رکھتےتھے لیکن ہمیں درکار ہےایسے لوگوں کی سمجھ جو حدیث کی طرف منسوب توکئے جاتے ہیں لیکن حافظ کے الفاظ اور اس کے مدلولات کو نہیں پہنچ پاتے۔
حافظ ابن حجر۔ جوعظیم قابلیت و اہلیت کے مالک ہیں۔ نے اسناد کی مطلقا تصحیح نہیں کی ہے جیساکہ صاحب مفاہیم نے سمجھ ڈالا ہے انہوں نے توکہا ابوصالح سمان عن مالک کے طریق سے صحیح اسناد کے ساتھ"
اور اس کا معنی یہ ہے کہ حافظ نے اس کی سند کو ابوصالح سمان تک صحیح کہااور اس کے اسناد کے رجال کے بارے میں اس کی صحت کے تعلق سے سرے سے کچھ کہا ہی نہیں جیساکہ علماء کے یہاں ظاہر ہے تو ان کے مذکورہ قول اور آنے والے قول میں فرق ہے اگر وہ یہ کہتے"باسناد صحیح ان مالک الدار قال․․․"(صحیح سند کے ساتھ مالک دار نے کہا) واضح ہوا کہ حافظ کا کلام دونوں علتوں سے مانع نہیں جنکی وجہ سے حدیث کو معلول کیا گیا ہے۔
(۱)مالک دار کی جہالت(۲)ابوصالح ذکوان اور مالک دار کے درمیان انقطاع کا پایا جانا۔
جب یہ ثابت ہوگیا اور واضح ہوگیا تو حافظ ابن حجر کے کلام کی فضیلت ابن کثیر کے کلام پرثابت ہوگئی جوکہ گذرچکا اور اس طرح اثر کا ضعیف ہونا معلوم ہوگیا ،مزید یہ کہ اس کے لفظ میں کوئی حجت نہیں بلکہ یہ اس کے برعکس صاحب مفاہیم کے خلاف استدلال کیا جا سکتاہے اور وہ اس طرح کہ جب نفوس تسلیم کرلیں، علماء کے قواعد۔ جوکہ حق تک پہنچانے والے ہیں۔ سے راضی ہوجائیں تو پھر جو ان کو نہ مانے اس کے بارے میں اہل علم کچھ پروانہیں کرتے اور نہ ہی اس کے قول کو کوئی وزن ہی دیتے ہیں۔
سیف کی روایت "الفتوح "میں:
٭صاحب مفاہیم نے ص:۶۷ پرلکھا: سیف نے "الفتوح "میں روایت کیا ہے جس نے خواب مذکور میں دیکھا وہ بلال بن حارث مزنی صحابی ہیں، ابن حجر نے کہا اس کی سند صحیح ہے(فتح الباری ۲/ ۴۱۵)
٭شیخ نے جواب دیا یہ تو حافظ ابن حجر پر ٖصریح جھوٹ ہے ا ن کا کلام تو"صحابہ میں سے ایک(یعنی بلال بن حارث مزنی)"تک ختم ہوجاتا ہے۔ رہا اس کا قول کہ حافظ ابن حجر نے اسکی سند کو صحیح کہا ہے تو وہ صاحب مفاہیم کی طرف سے حافظ ابن حجر پر افتراء پردازی ہے، آپ اس کے فعل اور برے کارنامہ کو دیکھیں ، حافظ کیسے ایسی سند کو صحیح کہیں گے جسکو سیف"الفتوح"میں روایت کرتا ہو؟
حافظ نے تو سیف کے بارے میں اپنی کتاب"تقریب التہذیب"میں کہا"ضعیف الحدیث" اورجس کے بارے میں وہ یہ کہہ دیں تو اسکی حدیث متابعات کے طورپر بھی نہیں قبول کیجاتی ہے جیسا کہ ان کی اصطلاح سے معلوم ہے ،اس کو انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے اور آنے والے مسئلہ کے ضمن میں سیف کے بارے میں حفاظ کا کلام عنقریب آئے گا۔
صاحب مفاہیم کو کیا ہوگیا ہےکہ عمدا جھوٹ کا قصد کرتا ہے جبکہ عمدا جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے کہا"المشروع الروی فی مناقب آل ابی علوی"(۱/ ۵۸) اہل بیت کے بارے میں برے کلمات استعمال کرنا دوسروں کے بارے میں استعمال کرنے سے زیادہ سخت ہے، اسی لیے تو حضرت عباس نے اپنے صاحبزادہ عبداللہ سے کہا :اے میرے صاحبزادے!اس امت کےکسی آدمی کے تعلق سےجھوٹ اتنا قبیح نہیں جتنا کہ میرے، تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے تعلق سے"
٭ مؤلف نےص:۶۷ لکھا حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا کہ یمامہ کی لڑائی میں مسلمانوں کا نعرہ تھا"محمداہ" ہائے محمد۔"
٭شیخ نے جواب دیا ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کو غزوہ کے تعلق سےلمبی خبر کے ضمن میں لایا ہے ، جس میں خبر دینے والوں کی بعض حدیثیں بعض میں جا داخل ہوئی ہیں۔
رہا یہ شعائر تو ابن جریر نے (تاریخ الامم والملوک۳/ ۹۳) میں اسکو روایت کیا ہے، کہا: سری کو لکھا شعیب عن سیف عن ضحاک بن یربوع عن ابیہ عن رجل بن سحیم ․․․کے طریق سے اور قصہ کو ذکر کیا جس میں یہ شعار ہے۔
٭شیخ نے جواب دیا یہ سند تیرہ و تاریک ہے اور مجھے پتہ نہیں کہ عقیدۂ توحید بلکہ اس کے علاوہ شریعت کے دیگر احکام کو تاریخ کی کتابوں سے لیا جاتا ہو، تاریخی قصے تو عبرت و موعظت کےلیے روایت کیے جاتے ہیں اور ان کو مجموعی طور پر تصدیق کی جاتی ہے نہ کہ تفصیلی طورپر ، اسی لیے تو احمد بن حنبل نےکہا :"تین ایسی چیزیں ہیں جن کے اصول نہیں اور ان میں سے مغازی کو ذکر کیا "
یہ سند تین طرح سے تیرہ وتاریک ہے۔
(۱) سیف ابن عمر ہے جو(الفتوح)اور"الردۃ" کا مصنف ہے ،مجہولین کی ایک لمبی جماعت سے روایت کرتا ہے، ذھبی نے( میزان الاعتدال۲/ ۲۵۵) میں کہا ہے مطین نے یحیی سے روایت کیا ہے :" ایک فلس اس سے بہتر ہے " ابوداود نے کہا وہ کچھ نہیں ، ابوحاتم نے متروک کہاہے، ابن حبان نے کہا زندیق ، اور ابن عدی نےکہا اس کی عام حدیثیں منکر ہیں۔
(۲) ضحاک بن یربوع نےکہا کہ یزدی نےکہا"اس کی حدیث مستقیم نہیں ہوتی"۔میں نے کہا وہ تو ان مجہولین میں سے ہے جن سے سیف اکیلا روایت کیا کرتا ہے۔
(۳)یربوع کی جہالت اورسحیمی کی، اور ان میں سے ہرعلت حدیث کو ضعیف بناتی ہے توکیسے جبکہ وہ سیف بن عمر کی روایت سے ہو؟ اس طرح آپ کو پتہ ہوگیا جو اس میں کمزوریاں ہیں ۔ ہم اللہ سے عافیت طلب کرتے ہیں۔
ابن جریر کا ان جیسی واہیات حکایتوں کو لانا اور مورخین کا ان کے بعد ان کو ذکر کرنا ایسا نہیں ہے کہ ان پر نکیر نہیں کیا جائے گا کیونکہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کےمقدمہ(۱/ ۸) تاریخ الامم والملوک میں کہا جس کا نص یہ ہے"جو کچھ میری اس کتاب میں خبر ہو جس کو ہم نے بعض گزرے ہوئے لوگوں سے ذکر کیا ہے،جنکو پڑھنے والا انکار کرتا ہے اور اس کے سننے والوں پر گراں گزرتا ہے،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ صحت میں اور نہ ہی حقیقت ہی میں اس کی کوئی وجہ ہےبلکہ جان لیا جائے کہ وہ ہماری طرف سے نہیں لایا گیا ہے بلکہ بعض ان لوگوں کی طرف سےجو ہم تک نقل کئے ہیں اور ہم نے ویساہی پہنچادیاجیساکہ ہم تک پہنچایا گیا تھا۔
صاحب مفاہیم نے ۔اپنے زعم کے مطابق۔ صالحین کے حق سے توسل کے جواز پر استدلال ابوسعید خدری کی حدیث سے ص:۶۵۔۶۶ پر کیاہے جس کا لفظ ہے" جو اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلےاور کہے یا اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں سوال کرنے والوں کے حق سے اوراپنے اس چلنے کے حق سے کیونکہ میں گھمنڈ یا ریاونمود کے لیے نہیں نکلا ہوں"حدیث۔
٭شیخ نے جواب دیا:مؤلف نے حدیث پر حکم لگانے میں تقصیر سے کام لیا ہے اور اپنی عادت کے مطابق اس کے اسناد پرغوروفکر کرنے میں کوتاہی کی ہے، حدیث کو امام احمد نےمسند(۳/ ۲۱) میں، ابن ماجہ نے سنن (۱/ ۵۶) میں، ابن السنی نے (عمل الیوم واللیلہ ۸۵)میں روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے (التوحید میں ص: ۱۷ )پر حدیث کی تخریج کی طرف دوسری کتاب میں اشارہ کیا ہے، سبھوں نےفضیل بن مرزوق عن عطیہ عوفی عن ابی سعید خدری کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے اور یہ سند ضعیف ہے چند امور کی وجہ سے۔
(۱) فضیل بن مرزوق بعض نے انکی توثیق کی ہے جبکہ دوسروں نے انکی تضعیف کی ہے اور وہ تو ان میں سے ہیں جنہوں نے امام مسلم رحمہ اللہ پر" الصحیح "میں ان کی حدیث نکالنے پر طعن کیا ہے جیسا کہ حاکم رحمہ اللہ نے کہا اور ابن حبان نے شدت کرتے ہوئے کہا وہ تو عطیہ سے موضوعات روایت کرتا تھا۔"
(۲)عطیہ عوفی: ذھبی نےمیزان میں کہا مشہور تابعی ہیں لیکن ضعیف ہیں اور احمد نے کہا ضعیف الحدیث، نسائی اور محدثین کی ایک جماعت نے اسکو ضعیف کہا ہے۔
(۳)عطیہ اپنے ضعف کے ساتھ مدلس ہیں اور انکی تدلیس عجیب ہے احمد نے کہا مجھے پتہ چلا کہ عطیہ کلبی کے پاس آتا اور ان سے تفسیر لیا کرتااور ابوسعید کی کنیت سے جانا جاتا اور کہتا ابوسعید نے کہا۔
(۴)علامہ ناصرالدین البانی نے (السلسلۃ الضعیفہ ۱/ ۳۷) میں دوسری علت کی وجہ سے اس کو معلول کہا ہے۔اور یہ اسکی روایت میں عطیہ یا ابن مرزوق کا اضطراب ہے ، اس نے کبھی اس کو مرفوعا جیساکہ گزرچکا اور کبھی ابوسعید سے موقوفا روایت کیا ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے المصنف(۲/ ۱۱۰/ ۱) میں ابن مرزوق سے موقوفا روایت کیا ہے۔
بغوی کی روایت میں فضیل کے طریق سے کہا :میں گمان کرتا ہوں کہ اس کو مرفوعا روایت کیا اور ابن ابی حاتم نے(العلل ۲/ ۱۸۴) میں کہا موقوف زیادہ اشبہ ہے۔ ختم ہوا ۔
یہ کلام مناسب ہے کیونکہ مضطربین اپنی حدیثوں میں کمزور ہوتے ہیں تو اس کو غیر اضطراب پر محمول نہیں کیا جائے گا جیسا کہ اصول حدیث سے معلوم ہے۔
حافظ عراقی نے( تخریج الاحیاء الصغیر ۱/ ۳۲۳) میں حدیث کی سند کو حسن کہا ہے، اور ایسے ہی حافظ ابن حجر نے (نتائج الافکار) میں کہا ہے حدیث حسن ہے جسکو ابوداود، ابن ماجہ، ابن خزیمہ نے( کتاب التوحید) میں نکالاہے اور ابونعیم اصبہانی نے اپنی کتاب" کتاب الصلاۃ "میں کہا: فضیل عن عطیہ کے طریق سے مجھ سے ابوسعید نے بیان کیا اور پھر اس کو ذکر کیالیکن انہوں نے اس کو مرفوعا نہیں کہا اور وہ اس طرح عطیہ کی تدلیس سے مامون رہ گئے ۔
٭شیخ نے جواب دیا حافظ نے یہ فائدہ پہنچایا کہ ان کا حدیث کی تحسین کرنا عطیہ کی تدلیس نہ کرنے کی وجہ سے ہے جبکہ اس میں دو وجہ سے نظر ہے۔
(۱)عطیہ کی تدلیس تدلیس اسناد نہیں جو کہ معروف ہے یہاں تک کہ اس کے "حدثنی" کہنے کی وجہ سےمامون رہا جائے بلکہ وہ دوسری قسم ہے ، عطیہ حدثنی ابوسعید او قال ابوسعید سے کلبی کا قصد کرتا ہے جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے بتایا ہے۔
(۲)حافظ نے ذکر کیا کہ وہ روایت جس میں حدثنا ابوسعید موقوفا ہے تو اس کو اضطراب کی وجہ سےمعلول کیوں نہیں کرتے جب اس کا یہ حق ہے؟ جب یہ پتہ چل گیا تو معلوم ہواکہ حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے حدیث کی تضعیف کی ہے: حافظ عبدالعظیم بن عبدالقوی منذری نے (الترغیب والترھیب ۳/ ۴۹۵) میں، حافظ نووی نے( الاذکار ص: ۲۵) میں ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاوع ۱/ ۲۸۸) میں اور حافظ بوصیری وغیرہ نے( زوائد ابن ماجہ) میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے حق کو پالیا، اس لیے جو تعصب سے پاک صاف ہوکر عادلانہ غوروفکر کرے گا اس کو پتہ ہوجائے گا کہ ان جیسے حفاظ کا قول ہی صواب سے زیادہ قریب ہے(واللہ اعلم)
تنبیہ:شیخ الاسلام نے اس حدیث کے تعلق سے(مجموع الفتاوی ۱/ ۲۸۸) میں کہا یہ حدیث عطیہ عوفی عن ابی سعید کے طریق سے مروی ہے اور وہ اہل علم کے اجماع کے ساتھ ضعیف ہیں۔ اور دوسرے
طریق(۱)سے بھی مروی اور وہ بھی ضعیف ہے۔
اس لفظ میں کوئی حجت نہیں کیونکہ سوال کرنے والوں کا حق یہ ہے کہ وہ ان کا جواب دے، اور عابدوں کا حق یہ ہے کہ ان کو ثابت قدمی عطا فرمائے، اور وہ ایسا حق ہےجس کو اللہ تعالی نے اپنے نفس پر سچا وعدہ کے ساتھ اہل علم کے اتفاق کے مطابق واجب کر رکھا ہے اور یہ ان تین لوگوں کے سوال جیسا
۔۔۔۔۔
(۱) وازع بن نافع عقیلی عن ابی سلمہ بن عبدالرحمن عن جابر عن بلال کے طریق کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو اسی کی طرح ہے حافظ ابن حجر نے کہا"یہ حدیث سخت ضعیف" واہ جدا"ہے اور میں نے ذکر کردیا جنہوں نے اس کی روایت کی ہے اور بقیہ کلام کےلیے دیکھیں چوتھا عدد مجلہ کلیہ اصول الدین ریاض۔
ہے جنہوں نے غار میں اپنے اپنے اعمال سے سوال کیا تھا۔"ختم ہوا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے( ۱/ ۲۱۷ )میں کہا"اور جس نےکہا کہ مخلوق کا اللہ پر حق ہے تو یہ صحیح ہے،جب وہ ارادہ کرتا ہے اس حق کا جس کے واقع ہونے کا اللہ نے ارادہ کررکھا ہےکیونکہ اللہ تعالی صادق ہے خلاف ورزی (وعدہ خلافی) نہیں کرتا اور وہی ہے جس نے اپنی حکمت و فضل اور رحمت سے اپنے نفس پر واجب کردیا ہے اور یہ حق کا حقدار جب اللہ سے سوال کرتا ہے اس کے حق کا واسطہ دے کر ، اللہ تعالی سے اس کے وعدہ کے پورا کرنے کا سوال کرتا ہے یا ان اسباب کے ذریعہ جنکو اللہ نے سبب بنا رکھا ہے جیسے نیک اعمال تو یہ مناسب ہے۔
لیکن اس حق کا جو غیر مستحق ہے جب سوال کرتا ہے اس شخص کا واسطہ دے کر تو وہ ویسے ہی ہے جیسے اس شخص کےجاہ ومنزلت کے واسطہ سے سوال کر رہا ہو۔اور وہ اس سائل سے اجنبی امر کا سوال کرتا
ہے اس نے اس سے ایسا سبب دے کر سوال نہیں کیا جو اس کی دعا کی قبولیت کے لیے مناسب ہو۔
کہا(۱/ ۲۱۴) جاہلیت کے اندر نفوس کو یہ گمان ہوچلتا کہ انسان اپنی عبادت و علم کی وجہ سے اللہ پر اس کا حق ہو جاتا ہے، جیساکہ ایک مخلوق کا دوسرے مخلوق پر حق ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جو اپنے بادشاہوں اور مالکوں کی خدمت کرتے ہیں ، ان کو فائدہ پہنچاتے اور ان سے پریشانی دور کرتے ہیں اور ان میں کا ہر شخص بدلہ اور اجرت اس پر طلب کرنے لگتا ہے۔ او ر جب اس کی طرف سے سختی و روگردانی دیکھنے لگتا ہے تو کہہ پڑتا ہے کہ کیا میں نے ایسا نہیں کیا؟اس پر احسان جتلاتا ہےجو کچھ اس نے کیا گرچہ زبان حال سے نہ کہے تب بھی نفس میں یہ بات ضرور ہوتی ہے،اور آپ ذرا خیال کریں اللہ تعالی کے حق میں اس طرح کی چیز انسان کی نادانی اور ظلم کرنے کی وجہ سے۔"
٭مؤلف نےص: ۶۲ میں عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا"التوسل بآثارہ" ان کے آثار سے وسیلہ پکڑنا۔ یہ ثابت ہے کہ ان کے آثار سے صحابہ ٔ کرام تبرک حاصل کیا کرتے تھے، اور یہ تبرک کا ایک ہی معنی ہے اور وہ یہ کہ ان کے آثار سے اللہ تعالی کا وسیلہ پکڑنا کیونکہ توسل کے بہت سارے اقسام ہیں، ایک ہی نہیں، کیاآپ غور نہیں کرتے کہ وہ لوگ ان کے آثار سے وسیلہ پکڑتے تھے ان سے نہیں؟ کیا یہ صحیح ہے کہ فرع سے وسیلہ پکڑا جائے اور اصل سے نہیں؟"
٭شیخ نے جواب دیا:جب یہ زیادہ پایا جانے لگا جس طرف جاہل بدعتی لوگ۔ جو الفاظ کے لغوی اور شرعی فروق کو نہیں سمجھتے۔ دعوت دیتے ہیں، جب معاملہ ایسا ہے تو ان کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا ان کے ساتھ کھیلواڑ کرنا اور شرعی و لغوی الفاظ کے ساتھ کھیلنا اور اس طرح ان کا رخ کردیں،ان کے ہاتھوں کو پھیر دیں اور اور ان کے پیروں کو اسیر بنادیں اس طرف جس کا وہ ارادہ کرتے ہیں۔یہ ہیں وہ سطور جن کو میں نے اس باب سے نقل کیا ، صحابہ ان کی ذاتﷺ سے برکت حاصل کرتے اور جو ان کے ہاتھوں میں تھا ان کے جسم کے آثار سےجیسے بال پسینہ وغیرہ اور ان کی ذات سے تبرک(برکت حاصل کرنا) کا ہم اقرار کرتے ہیں اور ہمارا اس پر ایمان بھی ہے جیساکہ اس کا بیان آگے آئے گا، لیکن مفاہیم کے مؤلف نےکہا ں یہ پالیا کہ تبرک کو توسل کا نام بھی دیا جاتا ہے؟ اور کیسے جائز قرار دے دیا صحابہ اور ان کے بعد کے علماء کے اقوال کو کچھ پروا نہیں کرتے اور اسکو توسل کا نام دے دیا جبکہ برکت کوئی اور چیز ہے اور وسیلہ کوئی دوسری چیز ہے؟
اس طرح صاحب مفاہیم کے اٹکل بازیاں اور صحابہ ٔ رسول پر اس کی ظلم و زیادتیاں کا علم ہوگیا، اس کے اس قول سے" تبرک کا ایک ہی معنی ہےاور وہ ان کے آثار سے وسیلہ پکڑنا"صحابہ کے فعل کو لپیٹنا ظاہر ہے اور انکے تصرفات کی گردن توڑنا ظلم ہے اور وہ اپنے مذہب کو ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن غیر علمی طریقہ سے جو کہ مناسب نہیں مگر جاہلیت کے زمانہ میں جہاں لوگ اپنے سرداروں کی اتباع کرتے تھے بغیر کسی بحث و نظر کے اور ان میں سے اب بھی کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں لیکن شرعی علمی بیداری ضامن ہے اس کے مزاعم کو اس کی طرف لوٹادینے کا گرچہ وہ اس کے پیرکاروںمیں سے ہو۔
حضرت انس کے پاس بال تھا جس سے برکت حاصل کرتے تھے تو آپ کیوں نہیں کوئی ایک ہی دلیل پیش کردیتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں رسول اللہ کے بال سے وسیلہ پکڑتا ہوں؟ ہرگزآپ طاقت نہیں رکھیں گے گرچہ اڑ کر ثریا تک کیوں نہ چلےجائیں؟بدعتی لوگ اس قبیل سے ہرگز کچھ پیش نہیں کر پائیں گے گرچہ وہ ایکدوسرے کا معاون ومدد گار ہی کیوں نہ بن جائیں؟
صحابہ ٔ کرام تو ان کےجسم سے جدا اثر سے تبرک اور توسل کے درمیان فرق کرتے تھے لیکن لوگ نہیں سمجھتے ہیں یا سمجھتے تو ہیں لیکن صحابہ پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں ،الحمدللہ ہم اہل سنت، صحابہ ٔ کرام کے راستے پر چلنے والے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کہا ہم کہنے والے ہیں۔
مؤلف نے ص: ۶۴ میں لکھا:
"درحقیقت یہ تو ان انبیاء کے آثار سے توسل پکڑنا ہے کیونکہ تابوت کو اپنے سامنے اسی لیے تو پیش کر
رکھا تھا اور اللہ سبحانہ و تعالی اس سے راضی تھا۔ اس دلیل کے ساتھ کہ اس کو ان کیطرف لوٹایا اور اسکو علامت و نشانی بنایا طالوت کے ملک کی صحت پر اور اس کا م کو ان پر انکار نہیں کیا گیا۔"
یہ اس کا آخری کلام ہے"التوسل بآثار الانبیاء"انبیاء کے آثار سے وسیلہ پکڑنا اور ادنی درجہ کا علم رکھنے والا پر بھی واضح ہے کہ اس کے کلمات میں کیا کیا پیچیدگیاں ہیں ، اس میں تابوت کو اپنے سامنے رکھنا دلیل کا متقاضی ہے، آپ بعض مورخین کے مقالات کو جس کو صحافیوں نے انکی مجلسوں سے نقل کیا ہے نصوص کا مقام و مرتبہ نہ دیں جن سے استدلال کیا جاتا ہے اور ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
میں نے متقدمین و متاخرین میں سے کسی سے نہیں سنا جو علم سےتعلق رکھتاہو کہ شریعت اور عقیدہ کے احکام پر مورخ کے قول سے استدلال کیا جاتا ہے۔
افسوس ہے جس کو کچھ علماء نے بنیاد بنایا ہے،علماءتو نہیں ان جیسوں کے قول کے پیچھے لوگ دوڑ پڑتے ہیں اگر اسرائیلیات کاتب مفاہیم اور اس جیسے لوگوں کے یہاں حجت ہوتی جیساکہ ان کے احتجاج سے ظاہر ہے تو چاہیے کہ حجت پکڑیں اس سے جس کو ابونعیم نے " حلیۃ الاولیاء ۱۰/ ۹) میں روایت کیا ہے یوسف علیہ السلام نے کہا اے اللہ ! میں اپنے آباءو اجداد ،تمہارے خلیل ابراہیم،ذبیح اسحاق اور بندہ یعقوب کی نیکی وصلاح کے ذریعہ تمہاری طرف متوجہ ہوتا ہوں" اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی کی اے یوسف! تم متوجہ ہو اس نعمت کے ذریعہ جس کومیں نے تم پر کررکھا ہے؟تواسے مفاہیم والے حجت پکڑیں!
اس میں ربوبیت کے مقام پر ظلم و زیادتی ہے اپنے اس قول کی وجہ سے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ان سے راضی تھا، آپ غور کریں کہ اس کےجزم کرنے پر مولٰی کی رضامندی ایسے فعل پرجسکو صحافیوں نے نقل کیا ہے اور جو علماء کےنزدیک ثابت نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی وزن ہے۔
اللہ کو ایسے فعل کے بارے میں رضامند ثابت کیا جا رہا ہے جس کو اس نے اور نہ اس کے رسول نے کہا، اسکو مورخوں نے کہا، اے وہ شخص جو جلد بازی ،بدگمانی کرتے ہو اور چنداں پروا نہیں کرتے ،ہم اللہ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں تین مرتبہ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
٭مؤلف نے ص:۶۴ میں لکھا جس کا عنوان ہے"انبیاء کے آثارسے وسیلہ پکڑنا"
پھر اس نے اللہ تعالی کے اس قول کو پیش کیا"وقال لهم نيهم إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم وبقية مماترك آل موسي وآل هارون تحمله الملآئكة إن في ذلك لآية لكم إن كنتم مؤمنين"(البقره:248) ترجمہ" ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجا ئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسی اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے،فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے، یقینا یہ تمہارے لیے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔"
ابن کثیر سے ان کی تاریخ میں ابن جریر کا یہ قول نقل کیا گیاہے، "اسکی برکت سے اور جو اللہ نے اس میں سکینت بنایا تھا اسکی وجہ سے مدد کئے جاتے تھے۔"
٭شیخ نے جواب دیاکہ دعوی اور دلیل میں کتنی دوری ہے جہاں ماہر گھوڑ سواروں کی ہوشیاری بھی پہنچنے سے قاصر ہے، دعوی تو ہے انبیاء کے آثار سے وسیلہ پکڑنے کا، اور اس کے قائل کے یہاں اس پر دلیل ابن جریر کا قول" اس کی برکت سے فتحیاب ہواکرتے تھے" ا س میں علم شرعی پرحملہ ہے کئی وجوہات کی بناء پر:
(۱) آیتوں میں توصرف اتنا ہے کہ انہوں نے طالوت کی بادشاہت کا انکار کیا تھا ،کیونکہ وہ بادشاہ کی نسل سے نہ تھے ، ان سے ان کے نبی نے کہاکہ اسکی بادشاہت کی صحت کی دلیل ونشانی یہ ہے کہ تابوت تمہارے پاس آئے گا اور اس کو نشانی پاکر تم کو سکون حاصل ہوگا اور اس میں آل موسی اور آل ھارون کے بقایا چیزیں ہونگیں، ان بقیہ چیزوں سے صحت پر دوسری دلیل بتاتے ہوئے استدلال کرتے ہو اور تیسری دلیل یہ کہ فرشتوں نے اس کو اٹھا رکھا تھا یہ وہ چیزیں ہیں جن پر آیت دلالت کررہی ہے۔
(۲)ابن جریر وغیرہ کا کلام اس کا ضرورتمند ہے کہ اس کے لیے استدلال کیا جائے نہ کہ اس کے ذریعہ استدلال کیا جائے۔
(۳)فرض کریں وہ لوگ برکت حاصل کیا کرتے تھے تو کہاں دلیل ہے کہ وہ وسیلہ پکڑتے تھے؟اور مفاہیم کامؤلف تبرک اور وسیلہ میں فرق نہیں کرپاتا۔
(۴) اپنے مزاعم و گمان کے مطابق فرض کرلیں آپنے کہاں سے یہ یقینی فیصلہ کرڈالا کہ جو ہم سے پہلی امتوں میں جائز تھا وہ ہمارے لیے بھی مطلقاجائز ہے؟
(۵) بنواسرائیل کے فعل کے عدم جواز پر ۔اگر صحیح ہو تو۔نبی ﷺ کا ایسا نہ کرناہے اور نہ ہی سرایے(سریہ ایسی جنگ مہم جس میں آپ آﷺ بنفس نفیس شریک نہ رہےہوں) جنکو بھیجا ان کی اس طرف رہنمائی فرمائی، جن میں مسلمان شکست کھا گئے جیسے غزوۂ موتہ وغیرہ تو کیوں نہیں اپنے آثار میں سے کچھ بھیجا جیسے کپڑے وغیرہ تاکہ اس کے ذریعہ وہ فتحیاب ہوجاتے؟
ضرورت ہونے کے باوجود ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کے پاس مشروع نہ تھا۔
(۶)صحابہ نے نبی ﷺ کے بعد یہ سمجھا، اس لیے ان کے آثار میں سے کچھ نہیں لیا تاکہ اس کو برکت حاصل کرنے اور اس کے ذریعہ فتحیابی کےلیے بھیجتے ،انہوں نے تو مخلص کام کرنے والوں کو بھیجا او ر اپنی جنگووں میں سنتوں کو تلاش کیا نہ کہ ان کے جسمانی آثار کو، یہ ان کی حالت تھی جنگوں میں۔
٭مؤلف نےص : ۶۶ میں باب قائم کرتے لکھا"التوسل بقبرالنبی ﷺ بعد وفاتہ"آپ کی وفات کے بعد آپ کی قبر سے وسیلہ پکڑنا۔
اپنے اس عجیب و غریب عنوان پر دلیل پیش کرتے ہوئے ذکر کیا ، امام حافظ دارمی نے اپنی سنن میں کہا"باب مااکرم اللہ تعالی علی نبیہ بعدموتہ" اللہ نے اپنے نبی پر موت کے بعد جو کچھ انعام واکرام کیا اس کا باب ۔
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا ان سے سعید بن زید نے، ان سے عمرو بن مالک بکری(۱)نے،ان سے ابوجوزاء اوس بن عبداللہ نے، کہا: اہل مدینہ سخت قحط کا شکار ہوئے اور حضرت عائشہ کے پاس شکایت لائے ، انہوں نے فرمایا نبی ﷺ کی قبر کی طرف دیکھو او ر اسمیں آسمان کی طرف ایک سوراخ کرڈالو یہاں تک کہ اس کے اور آسمان کے درمیان پردہ حائل نہ رہ جائے کہا : ان لوگوں نےایسا ہی کیا پھر ہم بہت زیادہ بارش سے سیراب کئے گئے یہا ں تک کہ گھاس اگنے لگا اور اونٹ موٹانے لگے۔(چربی کی وجہ سے پھٹنے لگے یہاں تک کہ اس کانام عام الفتق پڑگیا (سنن دارمی ۱/ ۴۳) یہاں تک صاحب مفاہیم نے نقل کیا ہے۔
اپنی طرف سے تصرف کرکےاور نقل سلیم کے درمیان خلل اندازی کرکے دو قوموں کے درمیان"تفتقت من الشحم۔۔۔"کو رکھا جبکہ (سنن دارمی ۱/ ۴۳)"وسمنت الابل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق" ایک ساتھ ہے۔
یہ عبارت سنن دارمی کی ہے اور اس میں تصرف کرنا مذموم ہے، اور اثر میں اپنا قول بڑھایا "کو ۃ"کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)اس طرح ناقل نے تحریف سے کام لیا جبکہ سنن میں نکری نون کے ساتھ ہے۔
معنی روشندان جبکہ یہ سنن دارمی میں نہیں ہے جس کو نقل کیا ہے اور یہ اثرضعیف جدا ہے جس میں حجت نہیں ہے چند وجوہات کی بناء پر:
(۱)اس کاراوی عمرو بن مالک النکری سخت ضعیف ہے ابن عدی نے( کامل۵/ ۱۷۹۹) میں کہا: ثقات سے منکر احادیث روایت کرتا ،حدیثیں چوری کرتا، میں نے تو ابوعلی کو کہتے سنا عمروبن مالک نکری ضعیف ہے۔ پھر احادیث بیان کرنے کے بعد کہا اور عمرو سے ان کے علاوہ بھی دیگر منکر احادیث ہیں اور ابن حبان نے کہا غلطی کرتا اور غریب روایت کرتا تھا۔
عمر اور ان جیسے جنکی حالت ہو کیسے ان سے روایت کے احتجاج پر جرات کرتا؟ تو کیا حدیث چوری کرنے والوں سے زیادہ غیرت رسول کی سنت اور انکی شریعت پر نہیں ہونی چاہیے؟
(۲) عمر و سے راوی سعید بن زید ہیں ان میں ضعف پایا جاتا ہے، یحیی بن سعید نے ضعیف کہا او ر سعدی نے کہا محدثین اس کی حدیث کی تضعیف کرتے تھے، اور نسائی وغیرہ نے کہا قوی نہیں اور احمد نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں یحیی بن سعید اس کو آدمی نہیں سمجھتے تھے۔ ذھبی نے میزان میں ان کو ذکر کیا۔
(۳) شیخ الاسلام نے (مختصر الرد علی البکری ص: ۶۸۔۶۹) پر کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے انکی قبر سے آسمان کی طرف سوراخ سے کھولنے کی جو بات ہے تاکہ بارش نازل ہو تو یہ صحیح نہیں اور نہ اسکی اسناد ثابت ہے اس کو تو اس نے نقل کیا ہے جو جھوٹ میں معروف ہے۔
اس کا جھوٹا ہونا اس طرح بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کی زندگی میں گھر میں کوئی سوراخ نہ تھا بلکہ بعض حصہ تو ویسے ہی باقی تھا جیساکہ آپ ﷺ کی زندگی میں تھا کچھ چھت دار اور کچھ کھلا ہوا جس میں سورج کی کرنیں پہنچتی تھی جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے حضرت عائشہ کے طریق سے مروی ہے۔" نبی ﷺ عصر کی نماز پڑھتے اور سورج ان کے روم میں ہوتا اور اس وقت تک سایہ ظاہر نہ ہوتا۔"گھرویساہی تھا یہاں تک کہ ولید بن عبدالملک نے اپنی حکومت میں مسجد میں توسیع کراتے ہوئے گھر کو مسجد نبوی میں شامل کردیا۔
جب اس حکایت کی نکارت نقل و عقل اور اسناد وتاریخ ہر طرح سے ظاہر ہوگیا تو پتہ چلا کہ اثر لانے کے بعد صاحب مفاہیم کا قول"یہ ان کی قبر کے واسطے توسل ہے اس وجہ سے نہیں کہ قبر ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ اشرف المخلوقات کے جسم کو اپنے اندر سموئے ہوا ہے جو کہ رب العالمین کے حبیب ہیں جو اس وجہ سے اس عظیم قدرومنزلت اور شرافت و فضیلت کا مستحق ہے۔"
اس میں اس کا دارومدار واھیات اور منکرات پر ہے اس لیے اس کے کلام کی کوئی قیمت نہیں گرچہ وہ جو کے بال یا کھجور کی گٹھلی کے برابر کیوں نہ ہو اور یہ ہر ایک کے لیے ظاہر ہے اور اللہ کی طرف سے توفیق پر تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔
٭ صاحب مفاہیم نے ص: ۷۲ میں عتبی کے قصہ لانے کے بعد لکھا:
" اس قصہ کو امام نووی نے اپنی معروف کتاب"الایضاح" کے چھٹے باب میں روایت کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر میں اللہ کے قول"ولوأنهم إذ ظلمواأنفسهم..." (النسآء:۶۴) ترجمہ"اور اگر یہ لوگ جب انہوں نےاپنی جانوں پر ظلم کیا تھا" کے ضمن میں روایت کیا ہے۔
شیخ ابومحمد بن قدامہ نے اپنی کتاب "المغنی" (۳/ ۵۵۶) میں اس کو روایت کیا ہے۔
٭شیخ نے جواب دیا: کہ یہ عامی عبارت ہے علمی نہیں اور نہ تو طالب علم کے فہم کی خبر دیتا ہے کیونکہ اس کا یہ قول"اس کو روایت کیا ہے" اسکو روایت کیا ہے․․․ واضح غلطی ہے کیونکہ روایت کرنا اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی قصہ کو اپنی سند سے لائے اور یہ کہے کہ "حدثنا او اخبرنا" یا اس کے مثل تحمل و اداء کے کلمات استعمال کرے۔
(۱) نووی نے اس کی روایت نہیں کی ہے انہوں نے تو"المجوع شرح المھذب ۸/ ۲۷۴) میں کہا اور "الایضاح" کے اخیر میں ہے کتنا ہی اچھاکہا ہے ماوردی، قاضی ابوطیب اور ہمارے دوسرے اصحاب نے عتبی کے طریق سے اس کی تحسین کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہا کہ میں قبر نبوی کے پاس بیٹھا تھا․․․"
یہ نووی کا قول ہے اور وہ روایت نہیں اور جس نے کہاکہ یہ روایت ہےتو یا تو اس کو فقہ و فہم نہیں یا علماء کے مصطلحات کو نہیں سمجھا اور یا تو تلبیس کرتے ہوئے جوکچھ نہیں دیا گیا ہے اس کو ظاہر کرتاہے جبکہ یہاں کوئی حیلہ وبہانہ نہیں ہوسکتا۔
(۲) ابن کثیر نے اس کو روایت نہیں کیا ہے ،انہوں نے تو اپنی تفسیر میں کہا ایک جماعت نے ذکر کیا انہیں میں سے شیخ ابومنصور صباغ نے اپنی کتاب" الشامل "میں عتبی سے مشہور حکایت نقل کیا ہے جو کہ روایت نہیں نقل ہے۔
(۳)ابن قدامہ نے" المغنی" میں اسکو روایت نہیں کیا ہے بلکہ صیغۂ تمریض کے ساتھ نقل کیا ہے جو کہ تضعیف کا فائدہ دیتا ہے پھر مؤلف جانتا ہے کہ عتبی کا قصہ سند کے اعتبار سے ضعیف اور واہی ہے اس طرح یہ مردود اور غیر صحیح ہے۔
اس کے جاننے کے باوجود اس شبہ کو لایا ہے جو ضعیف کے باوجود واہی رہ جاتا ہے توکہا ص:۷۳ پر
" یہ عتبی کا قصہ ہے اور لوگوں نے اس کو نقل کیا ہے خواہ وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہو یا ضعیف جس پر محدثین کسی بھی خبر پر حکم لگانے میں اعتماد کرتے ہیں۔تو ہم سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ان لوگوں نے کفر و گمراہی کو نقل کیا؟یاشرک و بت پرستی یا قبروں کی عبادت کی طرف دعوت دینے والی چیزوں کو نقل کیا ہے؟"
٭شیخ نے جواب دیا(۱) جب تک وہ سنت نبوی نہیں ہے اور نہ خلفاء راشدین کی اور نہ ہی صحابہ ٔ کرام کی اور نہ فضیلت والی صدیوں کی اور نہ تابعین کا فعل ہے یہ تو صرف مجہول سے حکایت ہے ضعیف سند کے ساتھ تو کیسے اس سے عقیدۂ توحید میں حجت پکڑتاہے جو کہ اصل الاصول ہے؟
اور کیسے اس سے حجت پکڑتا ہے جب کہ صحیح احادیث کے معارض ہے جن میں قبروں کے بارے میں غلو کرنے،نیکی کرنے والوں اور بالخصوص نبیﷺ کی قبر اوران کی ذات کے بارے میں غلو کرنے سے منع کیا گیا ہے؟رہا علماء کا اسکو نقل کرنا یا اس کو مستحسن جاننا تو یہ حجت نہیں نصوص صحیحہ اس کے متعارض ہیں اور عقیدۂ سلف کے مخالف ہے ، بعض چیزیں کچھ علماء پر پوشیدہ رہ جاتی ہیں جبکہ وہیں دوسروں پر واضح ہوجا تی ہیں اور کبھی کبھار وہ نقل میں غلطی کرجاتے ہیں اور اپنی رائے میں،اور مخالفت کرنےو الوں پر حجت ہوتی ہے۔ جب ہمیں درست راستہ کا علم ہوگیا تو فلاں ،فلاں کے قول کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ہمارا دین حکایات و خوابوں پر مبنی نہیں یہ تو کھلے دلائل پر مبنی ہے۔
(۲)کبھی کبھار تو بعض معانی و مسائل پوشیدہ رہ جاتے ہیں ان لوگوں پر جنہوں نے شرک و بت پرستی اورمشرکین سے قطع تعلق کر رکھا ہے جیساکہ بعض سلف نے کہا ہمارے لیے ذات انواط بنائے جیسا کہ ان کے لیے ذات انواط ہے تو رسول اللہ ﷺ نے کہا اللہ اکبر !یہ تو انہی لوگوں کا طریقہ ہے جو تم سے پہلے تھے۔(قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے) اور تم نے وہی کہاجو اصحاب موسی نے کہا تھا"اجعل لنا إلها كما لهم آلهة "(الاعراف: ۱۳۸)ترجمہ"ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کردیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں" اس میں حجت یہ ہے کہ یہ صحابہ کرام گرچہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے بغیر کسی شک وشبہ کے لاالہ الا اللہ کہہ کر جوکہ ساجھی و شریک کو اور شرک کے انواع واقسام کو چھوڑدینا اورمعبود کو ایک جاننا ہے۔ اس کے باوجود بھی ان پر کچھ مسائل مخفی رہ گئے ، اس میں کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ جب دلیل واٖضح ہوجائے اور حجت بیان کردی جائے تو اس کی طرف رجوع کرنا او ر اسکو پکڑنا واجب ہوتا ہے۔ اور جاہل کبھی معذور سمجھاجائے گا جیساکہ وہ صحابہ ٔ کرام اپنے قول میں معذور تھے ہمارے لیے ذات انواط بنادیں، جب ایسا ہے تو ممکن ہے کہ علماء پر توحید وشرک کے ہی کچھ مسائل پوشیدہ رہ جائیں۔
(۳) کیسے مسلمان کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت سے ٹکڑانے کی جرات کرتا ہے کسی ایسے بیان کرنے والے کی حکایت کو مستحسن جانتے ہوئے جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے"فليحذرالذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم "(النور:۶۳)ترجمہ" سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے"
امام احمد نے کہا مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو اسناد اور اسکی صحت کوجانتے ہیں اور پھر سفیان کی رائے کی طرف جاتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کا قول ہے""فليحذرالذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة "(النور:۶۳)ترجمہ" سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے" آپ کو پتہ ہے کہ فتنہ کیا ہے؟کہا فتنہ شرک ہے شاید کہ جب اس کے بعض قول کو رد کردے تو اس کے دل میں کج روی داخل ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائے۔ امام احمد سےفضل بن زیاد اور ابوطالب نےروایت کیا ہے اورشاید کہ یہ انکی کتاب" طاعت رسول" میں ہے ۔
رسول کی اطاعت ہرکسی کی اطاعت پر مقدم ہےگرچہ اس امت کے معزز ترین ابوبکر و عمرہی کیوں نہ ہوں جیساکہ ابن عباس نے کہا ہےممکن ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر نازل ہو، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے کہااور تم سب کہتے ہو کہ ابوبکر و عمر نےکہا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ حضرت ابن عباس ان لوگوں کو دیکھتے جو ثابت سنت کامقابلہ کرتے ہیں او ر واضح حجت کا عتبی کے ضعیف ومنکر قصہ میں اعرابی کے قول سے ۔
سنت کی محبت اس سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں ان تمام بے تکی حجتوں سے دلیل پکڑنے والوں سے بڑھ کر ہے جن سے صاحب مفاہیم نے دلیل پکڑی ہے۔
یہ مفاہیم تو منامات و منکرات پر مبنی ہیں ۔ اس سے تعجب کریں اور متابعت رسول کو خالص کریں او ر بچیں ضرور بچیں کہ آپ صحیح حدیث کو ٹھکڑائیں اور باطل و واہی اخبار پر ایمان رکھیں ۔ممکن ہے کہ جس نے ایسا کیا اس کے دل میں فتنہ داخل ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائے۔
(۴)کوئی عالم ایسا نہیں مگر اس پر کچھ اس کے پسندیدہ مسائل کو لوٹایا جاتا ہے یا تو رائے کی بناء پر یاحجت کےکمزور ہونے کی بناء پر اور وہ لوگ حجت کے واضح کرنے سے پہلے معذور ہیں اور اگر لوگ مجتہدین کے شذوذ اور ان کے رخصتوں کو تلاش کرنے لگیں تو دین اسلام سے نقل کر کے دوسرے دین کی طرف نہ چلے جائیں، جیساکہ کہا گیا جس نے رخصتوں کو تلاش کیا وہ زندیق ہوگیا، اور اگر فساد چاہنے والے اور سیدھی راہ سے ہٹنے والے چاہیں تاکہ ان کو سیڑھی بنائی جائے جس کے ذریعہ اپنی خواہشات کی طرف چڑ ھا کریں تو ایسی صورت میں حاکم پر واجب ہے کہ اس کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے،لوگوں کو ا س سے منع کرے اور ایسا کرنےوالوں کو سزائیں دے جیسا کہ ائمہ اربعہ وغیرہ کی فقہ میں مشہور ہے۔
فقیہ نے جو ذکر کیاکہ جس نےاپنے جرم کی براءت کے لیے کسی عالم کے قول کو جس کی غلطی جان لی گئی حوالہ دیا تو اس سے قبول کیا جائےگا اور اس پر اس کا مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا۔( کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح چیز کو لینا ہر شخص پر واجب ہے۔ مترجم) اللہ ہمارے دین و توحید کی حفاظت فرمائے۔
٭صاحب مفاہیم نے ص:۷۶ میں "بیان اسماء المتوسلین من ائمۃ المسلمین"باب قائم کیا(وسیلہ پکڑنے والوں کا مسلمانوں کے ائمہ سے وسیلہ پکڑنے کا باب)
اس میں عمدہ ان علماء کے احادیث کو لانا جس میں توسل کا ذکر ہے اوریہ حکم منہی عنہ کے قبیل سے ہے۔بلکہ ان کے بعض سے ثابت ہے ۔ اور وہی زیادہ تر ہیں۔ اس کے زعم وگمان کے خلاف، اور اہل علم کے نزدیک یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ عالم جب کسی اثر کو اسناد سے لائے تو اس نے عہدہ سے اپنے آپ کو آسان کرلیا جو اس پر واجب تھا حدیث پر حکم لگائے جانے سے۔
اور جب حدیث روایت کی جائے اور اس کے راوی کو کوئی اپنی کسی کتاب میں صحیح کہے ،تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا قائل بھی ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اس کا اپنا ذاتی نظریہ ہو اورممکن ہے کہ اس کےاختلاف پر اجماع یا نسخ یا اس وجہ سے کہ وہ اس کی شریعت میں نہیں ہے جیسے دیگر اسباب کی بناء پر وہ حدیث پر حکم لگانے سےقاصر ہو جس کی تفصیل اصول کی کتابوں سے طلب کی جاسکتی ہے۔
مؤلف نے ناموں کو شمار کرتے ہوئے کہا:
(۱) ان میں سے امام حاکم ہیں جنہوں نے حدیث کو مستدرک میں ذکر کرکے اسکو صحیح کہا ہے۔
جواب: حدیث کی حالت یہ ہے کہ اس کا ضعف واضح ہے جیسا کہ حاکم نے مدخل میں اس کےراوی کے ضعف پر نص قائم کیا ہے اور جس نسخہ سے حدیث روایت کی گئی ہے وہ موضوع ہے "مستدرک " کو امام حاکم نے تحریر نہیں کرایا بلکہ اس کا اکثر حصہ مسودہ تھا جیسا کہ اس کی تفصیل گزرچکی ہے۔ تو ان کا قول یہ ہوگا جو اس کے راوی کے سخت ضعیف ہونے کا ہے اور قاعدہ کا ضمیمہ جس کو میں نے ذکر کیا صحیح منہج علمی کے مطابق مستقیم نہیں۔
(۲) امام بیہقی نے" دلائل النبوۃ "میں حدیث آدم وغیرہ کو ذکر کیا اور انہوں نےا س بات کا التزام کیا ہے کہ موضوع روایتوں کو نہیں نکالیں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بیہقی نے حدیث ذکر کرنے کے فورا بعد اس کے راوی عبدالرحمن کا ضعف ذکر کرنے کے ساتھ اس کو منفرد بتایا ہے اور یہ ایسی علت ہے جو حدیث کو واجبی طور پر رد کرنے کا متقاضی ہے۔
(۳)سیوطی نے اپنی کتاب"الخصائص النبویہ" میں حدیث کو ذکر کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ذکر تو کیا لیکن اس پر حکم نہیں لگایا جبکہ" تخریج الشفاء "میں ذکر کرکے اس کے ضعف اسناد کی صراحت کی ہے۔
(۴) ابن الجوزی نے "الوفاء" میں حدیث کو ذکر کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ابن الجوزی نے جو کچھ پایا اس کو ذکر کیا ہےلیکن صحت اسناد کی ضمانت نہیں لی ہے اور انہوں نے اپنی کتاب "مکذوبات یعرفھا اھل الشان" میں ذکر کیا ہے اور اس کو ان کے تناقضات میں شمار کرتے ہیں۔
٭اور کہا (۵،۶،۷)انہی میں سے عیاض، ملاعلی قاری اور خفاجی ہیں۔
ا س کا جواب یہ ہے کہ قاری اور خفاجی نے آدم کے وسیلہ پکڑنے والی حدیث کوضعیف قرار دیا اور عبرت انکی تضعیف سے ہے ا ن کی رائے سے نہیں دیکھیں (شرح القاری ۱/ ۲۱۵) اور (شرح الخفاجی ۲/ ۲۴۲)
(۸) قسطلانی نے اپنی کتاب( المواھب اللدنیہ )میں ذکر کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قسطلانی نے اپنی کتاب میں حدیث آدم کی تصحیح نہیں کی ہے انہوں نے تو اپنی کتاب میں سیوطی سے نقل کیا ہے اور ہم نے قصہ کو پورے طور پر ذکر کرڈالا۔ سیوطی کے" الفارق بین المصنف والسارق" کی تالیف کا جو سبب تھا۔
(۹) زرقانی نے (شرح علی المواھب ۱/ ۴۴ )میں ذکر کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ زرقانی نے حدیث آدم کی تضعیف کی ہے اور اگر ان کی رائے ہے جس کو انہوں نے اپنایا ہے تو چاہیے کہ اسکی دلیل پیش کریں اور میں نے تو(۱/ ۴ میں شرح المواھب )میں کچھ نہیں پایا۔
(۱۰) انہی میں سے نووی ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ عتبی کے قصہ کو ذکر کرنے کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ ذاتوں سے وسیلہ پکڑنے کو جائز قرار دیتے تھے ۔
کہا: انہی میں سے ابن کثیر ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا اعرابی کے قصہ کو ذکر کرنے کا مطلب ذاتوں سے وسیلہ پکڑنے کو جائز قرار دینا نہیں ہے ،آدم کے قصہ کو ذکر کیا اور اس کے راوی کو ضعیف کہا۔
اور اس آدمی کا قصہ جو قبر نبوی کےپاس آیا میں نے ا سے بیان کرڈالا اور جو کچھ اس میں تھاتو آپ وہاں رجوع کریں اور اس کے اسناد کی تصحیح سے اس کے جوازپر دلیل نہ پکڑیں جیساکہ اس کی طرف ابن کثیر کا عمل بذات خود اشارہ کرتا ہے اور اس کا ذکر کرنا مسلمانوں کا شعار"یا محمداہ" مقصود نہیں بلکہ یہ تو تیرہ و تاریک لمبی سند کے نقل کرنے کے ضمن میں ہے۔
(۱۲) ابن حجر نے تو اس آدمی کے قصہ کو صحیح کہا جو قبر نبوی کے پاس آیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی تصحیح نہیں کی ہے بلکہ یہ کہا صحیح اسناد کے ساتھ ابوصالح سمان عن مالک الدار کے طریق سے ،اوراس روایت میں ان کے نزدیک علت ہے جس کو علم حدیث کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں۔
(۱۳) انہی میں سے مفسر قرطبی ہیں:
اس کا جواب یہ ہے کہ قرطبی نے اعرابی کے قصہ کو ذکر کیا اور ان کا اس سے حکایت کرنا اس میں پائے جانے والے ہر لفظ کے مطابق دلالت نہیں کرتا کہ انہی کا لفظ ہو۔
اور اس طرح پردہ ھٹ جاتا ہے اور حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ صاحب مفاھیم کا قول ان میں سے اکثر کے تعلق سے اوٹ پٹانگ ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کو اس سے پہلے والے مصنفوں نے ایسانہیں کیا ہے کیونکہ وہ اہل علم کے قواعد کے مطابق مردود ہے ۔وباللہ التوفیق۔
٭مؤلف نے ص: ۵۴ پر ذکر کیا مخلوق کا بروز قیامت انبیاء اور ان کے آخری نبی محمدﷺ سے استغاثہ کرنا تاکہ اہل موقف کے بارے میں شفاعت کریں۔پھر کہا: یہ تو انبیاء ورسل اور سارے مومنوں کی طرف سے اجماع ہے، اور رب العالمین کی طرف سے اقرار ہے کہ استغاثہ سختیوں کے وقت عظیم مقرب بندوں سے کرنا قربت و کشادگی کے لیے بڑی کنجی کے مانند ہے اور رب العالمین سے رضامندگی کے اسباب میں سے ہے۔
٭ شیخ نے جواب دیا: یہ رب العالمین پر بد ترین جراتمندی ہے، اس کے انبیاء ورسل پر اور اگر اس جرات مندی کے بھاپ بادل چھونے لگیں توپانی زہر ہوکر گریگا اور اگرچشموں پر پڑجائیں تو آپ اس کو بھڑگتی آگ قبول کرتے پائیں گےلیکن خواہشات عقل کو فاسد کردیتے ہیں اور غیراللہ کی عبادت کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔"أفرأيت من اتخذإلهه هواه وأضله الله علي علم " (الجاثیہ:۲۳) ترجمہ"کیا آپنے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے" "أرأيت من اتخذإلهه هواه أفأنت تكون عليه وكيلا " (الفرقان:۴۳)ترجمہ "کیا آپنے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبودبنائے ہوئے ہے کیاآپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟"
کیا ممکن ہے کہ رب العالمین نے جاہلیت کے دن کو باقی رکھا ہو؟ کیا دین جاہلیت پر انبیاء ورسل نے اجماع کیا ہے؟ کتنے گھٹیا ترین خواہشات ہیں! اور غلط مفاہیم کے کاتب کا کلام جاہلیت کو کتنا عیاں کرتا ہے! جب قیامت کا دن ہوگا ،مخلوق نبی سے طلب کریں گے کہ ان کے رب سے ان کے درمیان فیصلہ کے لیے اورموقف سے راحت پانے کے لیے ان کے لیے سفارش کریں، اور یہ طلب زندہ حاضرو قادر سے ہونے کی بناء پر جائز ہے، اللہ سےشفاعت طلب کرنے والے کے لیے ان کا مقصود پورا ہونے کے لیے دعاکریں، شفاعت کا معنی یہاں زندہ و حاضر سے دعاطلب کرنا ہے اور یہ مردہ سے شفاعت طلب کرنے کے برخلاف ہے یا ایسے ہی عبادت کے انواع و اقسام میں سے کسی قسم کے ذریعہ اس کی نزدیکی حاصل کرنا تاکہ وہ اس کی شفاعت کرے جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے"ويعتذرون من دون الله مالا يضرهم ولاينفعهم ويقولون هولاء شفعآؤنا عندالله"(یونس:۱۸) ترجمہ " اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کوضرر پہنچاسکیں اور نہ انکو نفع پہنچاسکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں"
٭مؤلف نے لکھاص:۵۵ میں"فتاوی کبری" میں ہے ،شیخ الاسلام سے سوال کیا گیا، کیا نبی سے وسیلہ پکڑنا جائز ہے یانہیں؟ تو جواب دیا الحمد للہ ،ان پر ایمان، انکی محبت و طاعت، ان پر درودو سلام ،انکی دعاءو شفاعت کے ذریعہ وسیلہ پکڑنا اور ایسے ہی جو ان کے افعال اور بندوں کے افعال میں سے جس کا ان کے حق سے متعلق حکم دیا گیا ہے تو یہ مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ جائز و مشروع ہے(فتاوی کبری۱/ ۱۴۰)
٭شیخ نے جواب دیا کاتب مفاہیم اپنے راستہ پر چل پڑا جیسا کہ اس کے نفس نے چاہا اور وہ تحریف و تبریر کا طریقہ ہے، شیخ الاسلام کے آخری کلام کو کاٹ ڈالا تا کہ یہ وہم ہو کہ انہوں نے انکی دعا و شفاعت کے ذریعہ وسیلہ پکڑنا خواہ زندہ ہوں یا مردہ دونوں ایک جیسا ہے اور یہ معنی میں تحریف ہے جیساکہ دیگر تحریفات گزر چکے۔
شیخ نے کہا اس کے قول کے بعد جس کو کاتب نے نقل کیا ہے "صحابہ ان سے وسیلہ پکڑتے تھے، انکی زندگی میں اور انکی وفات کے بعد ان کے چچا عباس سے وسیلہ پکڑتے تھے جیسا کہ ان سے وسیکہ پکڑا کرتے تھے" تو یہ تفسیر گزشتہ اجمال کی ہے جس کا ذکر و نقل کرنا ضروری تھا ،جس میں یہ بھی ہے کہ ان سے وسیلہ پکڑنا ان کی زند گی میں ان کی دعا کے ذریعہ تھا، جس نے ان سے دعا طلب کی یا دعا کی ابتداء کی تو یہ حق ہے کیونکہ نبی ﷺ ان کے درمیان باحیات تھے ، ان سے دعا کرانا ممکن تھا اور اللہ سے سوال کرنا جس نے ان سے طلب کیا قطعی نصوص کی روشنی میں۔
اپنے رفیق اعلی اور برزخی زندگی کی طرف انتقال کے بعد جوکچھ وہ اپنی زندگی میں دعا جس کا ان سے کسی نے طلب کیایا شفاعت جس نے ان سے شفاعت طلب کی تو اس کا سلسلہ ختم ہوچکا۔
اور جو اس تعلق سے بیان کیا جاتا ہے وہ مردود ہے نص کے نہ ہونے کی وجہ سے اور کوئی نص منقول نہیں ہے جو اس پر دلالت کرے نہ تو صحیح نہ حسن اور نہ ہی ضعیف جیساکہ اہل شان سمجھتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ ۔جیساکہ اس کتا ب کے باب الشفاعہ میں بیان کیا ۔ نےنہ تو شفاعت طلب کی اور نہ وسیلہ جو ان سے پہلے کے انبیاء تھےبلکہ نہ تو شھداء احد سے جن میں افضل ترین حضرت حمزہ بن عبدالمطلب تھے، تو کیوں ان سے دعا کی درخواست نہیں کی اور نہ ہی ان سے وسیلہ ہی پکڑا جبکہ وہ انبیاء وشہداء تھے جنکی زندگی ثابت ہے اور وہ مردے نہیں بلکہ برزخی زندگی میں ہیں ۔
یہ رسول اللہ ﷺ کا فعل اور ہم ان کے پیروکارہیں اور گمراہ کن بدعتی اپنے خواھشات کے پیروکار ہیں۔اور جو اس بارے میں غوروفکر کریگا تو اللہ کے فضل و کرم سے اس کو حسرت وندامت سے نجات مل جائے گی اگر وہ ٖصراط مستقیم کے طلبگاروں میں سے ہوگا اور مضبوط ترین ہدایت کا جو کہ نبی ﷺ کا راستہ ہے۔
٭مؤلف نےلکھا ص: ۵۶ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے جس کے لیے دعا کی ہے تو اس کے لیے صحیح ہے کہ اللہ کی طرف وسیلہ پکڑے نبی ﷺ کی اس کے لیے دعا کرنے کی وجہ سے اور یہ وارد ہے کہ انہوں نے اپنی امت کے لیے دعا کی ہے جیساکہ بہت ساری حدیثوں سے ثابت ہے۔
پھر کہا: اس لیے ہر مسلم کے لیے صحیح ہے کہ اس سے اللہ سبحانہ وتعالی کا وسیلہ پکڑے اور کہے، اے اللہ !تمہارے نبی محمدﷺ نے اپنی امت کے لیے دعا کی ہے، اور میں اس امت کا ایک فرد ہوں، تو تمہارا وسیلہ پکڑتا ہوں اس دعا کی بناء پر کہ تو مجھے معاف کردے، مجھ پر رحمت فرما ،اور جو کچھ اخیر تک چاہے مانگے، اور جب ایسا کہے گا تو متفق علیہ امر سے نہیں نکلے گا، جوکہ علماء مسلمین کے درمیا ن مسلم ہے۔
٭شیخ نے جواب دیا ابھی ابھی میں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ان کی موت کے بعد دعاکرنے میں جو بدعت ہے اور سلف صالح کے فہم سے خروج کرنے میں توسل کے بارے میں کاتب کا مقصود تورسول کی دعا سے توسل پکڑنا نہیں ہے اور یہ تو اس لیے لایا کہ اس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچے جس کی صراحت اس نے اپنے اس قول کے ذریعہ کی ہے اور اگر کہے" اےاللہ میں تمہارا وسیلہ پکڑتا ہوں تمہارے نبی محمد ﷺ کے ذریعہ" تو صراحت کرنے سے مقصود فوت نہ ہوجائے اور جس پر اس کا دل جم گیا ہے اور وہ ہرمسلم کا مقصود ہے اور اس کی مراد اس دائرہ سے نہیں نکلتا ہے۔"
یہاں کلام واضح ہے کیوں کر کاتب نے شیخ الاسلام کے کلام کو لایا ہے؟ غور کریں، ان کی حجت کے ضعیف ہونے پر اور اس کی بصیرت کی قلت پر ،رسول اللہ کی موت کے بعد ان سے وسیلہ پکڑنے والوں کے دلوں کو اپنے حیلہ میں پھانستے ہوئے، اور اس کا گمان ہے کہ جو ان کے دلوں میں ہے جاننے والا ہے اور ان کی مراد اس حد سے نہیں نکلتا جس پر ان کا دل مطلع ہوچکا ہے ،تو کیا کاتب نے دعا کرنے والوں کے دلوں کو جانچ رکھا ہے؟ یا وہ ان کا نگراں ہے جو ان کی طرف سے دفاع کرتا ہے؟
اس طرح کاتب دعوی کیے ہوئے دائرہ سے نکل پڑا ،توسل بدعی کے ذریعہ انبیاء سے استغاثہ اور شفاعت طلب کرنے پر دلیل پکڑی ہے اور اس کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے زینہ بناڈالا۔ پھر کونسی چیز ہے جو اس کے دل میں ہونے والی چیز کی تصریح کرنے سے روکتی ہے؟ بس ایک چیز منع کرتی ہے وہ ان کے یہاں ذکر نہ کردہ چیز سے زیادہ اچھی ہے، دعا کرنے وا لا سوال کرنے والا ہے ،اور سوال کرنے والا صحیح و قریب ترین چیز کاقصد کرتا ہے اور اگر ان کا مقصود وہ چیز ہوتی جس سے کاتب نے معذرت کی ہے تو اسکی صراحت کرتے لیکن مقصود ان کی ذات سے وسیلہ پکڑنا ہے جوکہ بدعت ہے شرک کے وسائل میں سے ہے۔ اللہ پر قسم کھانا ، موت کے بعد انکو شفاعت کرنےو الا، مدد کرنے والا ،اور فریاد کرنےوالا بناڈالنا ہے جس پر صرف اللہ ہی قادر ہے۔(موت کے بعد نبیﷺ کسی کے لیے برزخی زندگی میں کچھ نہیں کرتے مترجم)
پھر اگر آپ تفتیش کریں تو آج نہ پائیں گے کسی کو جو ذات سے توسل پکڑنے کی دفاع کرتا ہو مگر و ہ شرک کو جائز قرار دیتا ہے جیسے مردوں سے استغاثہ، ان سے دعا یا ان سے شفاعت طلبی اور ان کی کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا تو ویساہی پایا جیساکہ میں نے بیان کیا ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ شاید آپ غوروفکر کرنے والے اور نجات پانے والوں میں سے ہونگے۔
٭ مؤلف نے ص: ۵۷ میں لکھا:
حدیث میں نبی ﷺ سے مروی ہے" میری زندگی و موت تمہارے لیے بہتر ہے، تم بیان کرتے ہو اور تم سے بیان کیا جاتا ہے، مجھ پر تمہارے اعمال پیش کئے جائیں گے ،اگر اچھا پاؤ نگا تو اللہ کی تعریف کرونگااور اگر برا پاؤنگا تو اللہ سے تمہارے لیے مغفرت طلب کرونگا " حافظ اسماعیل قاضی نے" جزء الصلاۃ علی النبیﷺ" میں اسکو روایت کیا ہے اور ہیثمی نے" مجمع الزوائد" میں ذکر کرکے اس کو صحیح کہا ہے۔اور یہ صریح ہے کہ آپ ﷺ برزخ میں اپنی امت کے لیے دمغفرت طلب کریں گے اور مغفرت طلب کرنا دعا ہے اور امت اس سے فائدہ اٹھا ئے گی "صاحب مفاہیم کا کلام ختم ہوا۔
٭شیخ نے جواب دیاان حروف کے تعلق سے کلام مندرجہ ذیل طریقے پر ہونگے:'
(۱) اس حدیث کو اسماعیل قاضی نے ص: ۳۶ پر "جزء الصلاۃ علی النبی ﷺ" میں مرسل روایت کیا ہے کہا : ہم سے سلیمان بن حرب نے ، ان سے حماد بن زید نے ، ان سے خالد قطان نے بکر بن عبداللہ مزنی کے طریق سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،پھر دوسرے لفظ سے ذکر کئے گئے کے علاوہ کچھ ذکر کیا، صاحب مفاہیم کی کارکردگی نے وہم میں ڈالا کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ ہی روایت کیا ہے، بکر بن عبداللہ مزنی ثقہ تابعین میں سے ہیں ۱۰۶ھ میں ان کی وفات ہوئی تو یہ مرسل روایت ہے اور مرسل محدثین کے یہاں مقبول نہیں۔
مؤلف کا یہ قول کہ ہیثمی نے" مجمع الزوائد "میں ذکر کرکے اس کی تصحیح کی ہے۔ ہیثمی نے تو بزار کی روایت کو ذکرکیا (اور عنقریب آئے گا جو اس میں ہے) اور کہا:( اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں) اور یہ عبارت ان کے حدیث کی تصحیح کا فائدہ نہیں دیتی اس لیے جائز نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ انہوں نے اس کی تصحیح کی ہے۔جیساکہ صاحب مفاہیم نے جرات کی ہے اور وہ اس کا قول" رجالہ رجال الصحیح " رجال کے ثقہ ہونے کا فائد ہ دیتا ہے اور ان کے لیے صحیح میں مخرج ہے ورنہ صحت اسناد اور صحت حدیث کا فائدہ دیتا ہے۔
صحت اسناد محتاج ہے روایت کے اتصال کی معرفت کا اور سند میں عدم انقطاع کا اور یہ کہ اسناد میں مدلس نہ ہو جو عنعنہ کرکے روایت کرے۔مثال کے طور پر اگر حدیث احمد بن حنبل عن سفیان ثوری عن ابن مسیب عن ابی بکر صدیق کے طریق سے مروی ہو تو جائز ہے کہ کہاجائے اس کے رجال ائمہ، ثبت، اور حفاظ ہیں لیکن صحت اسناد کا ضامن نہیں کیونکہ ظاہری طور پرمیں اسناد کے ہر راوی اور اس کے شیخ درمیان انقطاع کا پایا جانا ہے کیونکہ احمد نے سفیان کو نہیں پایا اور انہوں نے ابن مسیب کو نہیں پایا اور سعید نے ابوبکر کو نہیں پایا۔
اسی طرح صحت حدیث سے اسناد کی صحت لازم نہیں آتی بلکہ ان کے درمیان مراتب ہیں جن کو اہل علم ونظر جانتے ہیں تو کتنی صحیح اسناد والی حدیثیں ہیں لیکن وہ شاذ یا غلط یا منکر ہیں۔
اس لیے کہ محدثین کا صحیح حدیث کی تعریف دوچیزوں کو جمع کررکھا ہے اسناد کی صحت اور شاذ و علت کا نہ پایا جانا ، جس میں یہ دونوں چیزیں نہ پائی جائیں گی تو اس پر صحت حدیث کا حکم نہیں لگایا جائے گا ۔ اس طرح جانا جاتا ہے کہ صاحب مفاہیم کے قول کی حقیقت کو جس کو اس نے ہیثمی کی طرف تصحیح حدیث کے طور پر منسوب کر رکھا ہے ، یہ تو ہیثمی پر کلام گڑھنا ہے اور ایسےا مر کی زیادتی ہے جس کو حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے نہیں کہاہے۔اسی کے مثل ہے جس کو صاحب مفاہیم نے( ص: ۱۷۲) پر اپنی کتاب میں عراقی کا قول نقل کیا ہے کہ اس کا اسناد جید ہے۔
دوسرا: دوسری حدیث کو بزار نے اپنی مسند(۱/ ۳۹۷ زوائد کے ساتھ) روایت کیا ہے ،کہا: ہم سے یوسف بن موسی نے، ان سے عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے سفیان عن عبداللہ بن سائب عن زاذان عن عبداللہ عن النبیﷺ کے طریق سے روایت کیاہے، فرمایا"اللہ کے گھومنے والے(سیروسیاح کرنے والے)فرشتے ہیں جومیری امت کی طرف سے مجھے سلام پہنچاتے رہتے ہیں"اور کہاکہ رسول نے فرمایا "میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے․․․"
بزار نے کہا :میں نہیں جانتا کہ عبداللہ سے روایت کی جاتی ہے مگر اسی اسناد سے۔ سند میں عبدالمجید بن ابی رواد ہیں اور وہ ایسے راوی ہیں کہ جس میں وہ منفرد ہوتے ہیں محدثین کے نزدیک اسے قبول نہیں کیا جاتا ہے۔
اسی لیے تو حافظ عراقی ھیثمی کے شیخ نے کہا اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے عبدالمجید بن ابی رواد کے گرچہ کہ مسلم نے اس کی حدیث نکا لی ہے اور ابن معین و نسائی نے اس کی توثیق کی ہے لیکن بعض دوسرے محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے تو یہ تحقیق ہے اور اس زائد حصہ " حياتي خيرلكم..." کو روایت کرنے میں وہ اکیلا ہے۔
پہلی حدیث" إن لله ملائكة... "یہ سفیان عن عبداللہ بن سائب کی حدیث سے محفوظ ہے رواۃ حدیث نے اتنا پر سفیان سے اتفاق کیا ہے پھر عبدالمجید نے اس زیادتی کو منفردا روایت کیا ہے تو یہ شاذ و ضعیف ہے جیساکہ تحقیق کا تقاضہ ہے ۔
(۳) اگر حدیث ثابت بھی ہوجائے تو صاحب مفہوم کے دعوی پر اس میں دلیل نہیں ہے ۔رسول اللہ کا اپنی امت کے لیے استغفار کرنے سے توسل کا جواز نہیں ملتا کیونکہ زندگی میں اپنی امت کے لیے دعا کرنا ، ان کے لیے سوال کرنا، ان کے لیے مغفرت چاہنا موت کےبعدکرنے سے(اگر ثابت ہوتا تو بھی) زیادہ ابلغ ہے ۔یہ سبب جو انکی زندگی میں موجود تھا وہ وہی سبب ہے جس پر موت کے بعد حکم معلق کیا ہے تو آخر اس عمل کو عام استغفار کے ذریعہ رسول اللہ کی زندگی میں ضرورت کے باوجود مشروع کیوں نہیں کیا ،پتہ چلا کہ اس کو ایجاد کرنا بدعت ہے۔
اور اس کی تائید اس طور پر بھی ہوتی ہے کہ خیر قرون پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعدوالے میں سے کسی نے وسیلہ نہیں پکڑا اس طرح سے جس کو بدعت کے عاشقین اور سنت کو چھوڑنے والوں نے نے ایجاد کیا ہے ۔
٭شیخ نے جواب دیا:صاحب مفاہیم نے اپنی عادت کے مطابق ادنی شبہ سے دلیل پکڑنے میں وسعت اختیار کرتے ہو ئے (ص:۱۷۳ ) پر کہا اپنی کتاب کے اخیر میں حدیث کے تعلق سے" حدیث صحیح ہے جس میں کوئی طعن نہیں" اور یہ افتراء ہے یا قلت علم بلکہ اس میں طعن ہے جیساکہ ہم نے پیش کردیا کہا" دلالت کرتا ہے کہ نبیﷺ ہمارے اعمال کو جانتے ہیں، ان پر پیش کرنے کی وجہ سے اور ہمارے لیے مغفرت چاہتے ہیں جو کچھ ہم نے اچھے برے کررکھا ہے اور جب ایسا ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ان کے ذریعہ اللہ کا وسیلہ پکڑیں اور ان کے ذریعہ شفاعت طلب کریں کیونکہ وہ ان کو جانتے ہیں تو ہماری شفاعت اس بارے میں کریں گے اور ہمارے لیے دعا کریں گے۔"
٭شیخ نے کہا: حدیث میں اعمال کو عرض کرنا ہے اور کاتب نے اس کے ذریعہ شفاعت طلب کرنے کے جواز پر استدلال کیا ہے، امت کے فقہاء تو چند صدی قبل چل بسے پھر یہ بدعتی حضرات نے ان کو جالیا۔ آپﷺ پر اعمال کو پیش کیا اور پھر شفاعت کے طلب پرجواز فراہم کرلیا ، اگر آپ اس پر اپنے اعمال کو پیش کریں تو شرک سے ہرگز راضی نہ ہوگا اور اسی قبیل سے مردوں سے شفاعت طلب کرنا ہے اور ہرگز مشرک کو معاف نہیں کرے گا جو مردوں سے فریاد رسی کرتا ہو"ماکان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولوكانوا أولي قربي من بعدما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم"(التوبہ:۱۱۳)ترجمہ"پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگر چہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں"
آپ کا مردوں سے شفاعت طلب کرنا براعمل اور شرک ہے ، اللہ کے رسول مغفرت طلب نہیں کرتے جس نے اپنی دنیا کو چھوڑا اور اپنی خواہشات کی پیر وی کی اور پھر شرک کیا،آپ کا مٖغفرت طلب کرنا اورشفاعت کرناآپ کی زندگی اور دار آخرت سے تعلق رکھتا ہے، برزخی زندگی میں نہیں اور ان کو شفاعت کی چند قسمیں میسر ہونگی جسمیں مشرک کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، جس نے انکی مو ت کے بعد ان سے شفاعت طلب کی تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس نے آخرت میں شفاعت کو اپنے اوپر فوت کرڈالا، اور بری باتوں میں صاحب مفاہیم کا ظلم و زیادتی کرنا نبوت کے مقام پر اور اس طرح اس نے جزم کیااپنے قول کے ذریعہ " ہمارے لیے شفاعت طلب کریں گے اور دعا کریں"
اور اس سے بھی بڑھ کر صاحب مفاہیم کا الوھیت کے مقام پر ظلم و زیادتی کر نا ہے، تو جائز ہے شفاعت طلب کرنا نبیﷺ سے انکی موت کے بعد اور شفاعت صرف اللہ کا حق ہے جوصرف اس سے طلب کیا جاتا ہے جیساکہ مخلصین اپنے قول کے ذریعہ شفاعت طلب کرتے ہیں ۔ اللہ ہمیں اپنے نبی کی شفاعت میسر فرما۔
شفاعت کے باب میں ان اصول کا بیان ہے جن میں کفایت ہے ان لوگوں کے لیے جنکی ہدایت کا اللہ ارادہ کرتاہے
مؤلف نےص:۶۱ پر عنوان قائم کیا شیخ الاسلام محمد بن عبدالوھاب توسل کا انکار نہیں کرتےتھے "
٭شیخ نے کہا: محمد بن عبدالوھاب کو شیخ امام سے موسوم کرنا یا تو دین اسلام کی تجدید کے امر میں ان کے فضل ،اصلاح اور قربانیوں کا اعتراف کرنے کے قبیل سے ہوگا یا تو اس سے اس کا مقصد لغوی معنی مقصود ہوگا۔
اگر اس نے پہلا معنی کا قصد کیا تو شیخ نے شرک جلی اور خفی ہردوقسم کے خواہ اکبر ہو یا اصغر ختم کرنے کے لیے اپنی دعوت کو قائم کیا، اور شرک کے وسائل سے جنگ و جدال کیا، جو اس کی طرف کھینچ لاتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کر رکھا ہے اور جو "کتاب التوحید" میں غوروفکر کرے گا تو گزشتہ بیانات سے بھرا ہوا پائے گا، اور سیدھی راہ کے عین مطابق پائے گا ،اور شیخ رحمہ اللہ نے لوگوں کو ان کے دین کی طرف لوٹانے میں جس کو محمدﷺ لے کر آئے تھے جہاد کیا، اور اس کے لیے بھی جہاد کیا جو اس وقت کے بعض لوگ کیا کرتے تھے اور دعوی اپنے اسلام کا کرتے تھے، وہ تو وہی چیز ہے جس پر مشرکین تھے، رسول اللہ نے ان سے قتال کیا، کیونکہ بہت سارے دین کی طرف منسوب ان کے زمانہ میں قبر کے پجاری تھے جنکو وہ پکارا کرتے تھے شفاعت طلب کرتے ہوئے اللہ کے ساتھ اور اللہ کی نزدیکی حاصل کرنے کے لیے ان سے نقصان کے دور کرنے کی امید رکھتے، مہلکات کو ہٹانے او ر پریشانیاں آسان کرنے کے لیے جیساکہ اللہ تعالی نے ان کے جیسے لوگوں کے بارے میں کہا "مانعبدهم إلاليقربوناإلي الله زلفا"(الزمر:۳) ترجمہ"(اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ(بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں" پھر وہ لوگ ان مردوں کےلیے نذرونیاز اور جملہ قسم کے عبادات کیا کرتے تھے جو صرف اللہ کے لیے جائز ہیں جیسے ذبح کرنا ،نذرونیاز چڑھانا اور ان مردوں کے لیے اتنا زیادہ خضوع کرتے تھے جتنا مسجدوں میں اللہ کے لیے بھی نہیں کرتے تھے، مردوں سے استغاثہ طلب کرتے اور چپکے چپکے ان سے ڈرتے اور اللہ سے زیادہ ان سے محبت کرتے اور ان کی قربت حاصل کرنے کے لیے اپنے رب سے زیادہ ان کی نزدیکی حاصل کرتے بلکہ اپنے رب کو بھو ل گئے تھے اور ان کے ذکر کو بھی اور ان میں الحاد و زندقہ کے مذاھب پھیل چکے تھے جیسے وحدۃ الوجود کا مذھب اور انبیاء سے بڑھکر اولیاء کی تعظیم جیسا کہ ان کے کسی سرغنہ نے کہا:
نبوت کا مقام برزخ میں رسول سے بڑھ کر اورولی سے ادنی تر ہے
یہ ایک حصہ تیرہ و تاریکی کا جس کو شیخ نے ان کےگھروں میں دیکھا تھا تو اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئےجہاد کیایعنی نبیﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جہادی سیرت میں پھر اللہ نے ان کی مدد فرمائی اور ان کو عزت بخشی اور دین کو ان کے لیے قادر بنا ڈالا۔ یہ حقیقت بہت سارے اسلامی ملکوں میں موجود ہے جبکہ واجب وقوع پذیر مکفرات میں غوروفکر کرنا پھر ان سے جہاد کرنا جہاد کے انواع و اقسام کے ذریعہ خواہ ہاتھ سے ہویا زبان یا دل وجان سے لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں۔
یہ شر ک اکبر کے اقسام ہیں جن سے انکی جنگ و جدال ہوئی اور اسلام کی طرف لوگوں کی ہدایت شیخ کا پہلا مقصد تھا پھر شیخ رحمہ اللہ حکیم داعیہ تھے توجب مخاطب شرک کے اقسام میں لگا ہو تو حکمت سے لگتی بات نہیں ہے کہ اس کو بدعتوں سے روکا جائے اور وسائل شرک سے یہاں تک کہ وہ جان لے کہ شرک لوگوں میں موجود نہیں ہے۔
بلکہ واجب ہے کہ شرک کو بیان کیا جائے پھر جب بندہ کے دل میں اسلام کی حقیقت راسخ ہوجائے اور شرک کو چھوڑدے، اور شرک اکبر سے جہادکرنے لگے تو وہ یقینا وسائل شرک کا انکار کرے گا کیونکہ عاقل و دانا جب کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے وسائل و دواعی(اسباب) کو بھی ناپسند کرتا ہے۔
سلمی اور اس کی پڑوسن سے سلامتی اسی میں ہے کہ تم اس کی وادی میں قدم نہ رکھو
اس پرانے شاعر نے اس حقیقت کو جانا اور اسی کی طرف عقلاء ہدایت پاتے ہیں اور شریعت نے اس کی طرف رہنمائی فرمائی اور اس پر ابھا را بھی ہے سدذرائع (کسی چیز کو روکنے کا قاعدہ تا کہ وہ آگے خطرناک صورت اختیار نہ کر لے)کے قاعدے پر عمل کرتے ہوئے۔
٭ مؤلف نےتوسل کے مباحث میں تلخیص کرتے ہوئے ص: ۷۳ میں لکھا:
" توسل اس تنگ دائرہ تک مقصور نہیں جس کا سخت دل والے وہم وگمان کرتے ہیں۔"
٭شیخ نے جواب دیا:زندہ دل و جگر والے ان کلمات سے نفرت کرتے ہیں جس نے اللہ کی محبت و عظمت اور عزت وتکریم سے اپنے اعضاء کو بھر رکھا ہے اور اس کے قریب ہوتے ہیں وہ لوگ جو غیراللہ کا اللہ کے ساتھ ذکر کرنے لگے ہیں یا اللہ کو سرے سے بھولا ہی ڈالے ہیں تو اللہ نے بھی ان کو بھولا دیا ہے۔کیسے چبھتے الفاظ ہیں اگر سمندر کے پانی میں بھی ملادیئے جائیں تو اس کو گدلا کردیں اور اگر لوگوں کے بیجوں سے یہ بہہ پڑیں تو ان کی معیشت کو فاسد کرد یں۔ سبحان اللہ۔
اللہ کے اسماء و صفات سے وسیلہ پکڑنا تنگ دائرہ ہے ،اللہ کے نام جو گنے نہیں جاسکتے، توسل کے لیے تنگ دائرہ ہے، اللہ کے بلندوبالا صفات اور اس کی حکمت سے پر افعال تنگ دائر ےہیں۔ سبحان اللہ ولاحول ولاقوۃ الا باللہ۔
اے مفاھیم والے اگر تم اپنے رب کو پکارو اس کا وسیلہ پکڑتے ہوئے ان کے ناموں کے ذریعہ تو تمہاری عمر اورتمہارے ساتھیوں کی عمریں ختم ہوجائیں پھر بھی یہ ختم نہ ہونگیں اور نہ ہی انکو شمار ہی کرسکوگے۔
اے مفاہیم والا: اگر تم دن ورات دعا کرنا شروع کردو اور نہ تھکو ہمیشہ ہمیش پھربھی اللہ کے اسماء حسنی کے ذریعہ وسیلہ پکڑو تو پورا نہ کرسکوگے گرچہ ہم اپنی عمر ہی کیوں نہ لگا دیں۔
اے مفاہیم والا: اگر اللہ کا وسیلہ پکڑتے اس کے اسماء حسنی کے ذریعہ جو اس کے مطلوب کےمناسب اسماء ہیں تو تمہارے حوائج پورے ہوجاتےاور تم اللہ کے بعض اسماء کو بھی نہیں پہنچ پاتے۔
اے صاحب مفاہیم! اللہ تعالی کےناموں میں سے ۹۹ نام ہیں، جس نے ان کو شمار کیا وہ جنت میں داخل ہوا، اگر تم ان کو ایک ایک کرکے پکارتے پھر دوسرے نام سے اس کو ملا ڈالتے پھر اسی طرح اور اس مقام کو پہنچ جاتے جس میں مخلوقات نے شروع سے لے کر اخیر تک جتنی بھی مکرر سہ کرر اس سے دعاکر رکھی ہے تو بھی اس کا کماحقہ حق ادا نہ کرپاتے۔
اے صاحب مفاہیم! میں اس کلمہ کے ذریعہ تم کو ڈراتا ہوں جس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور تم پر واجب ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردو، اور ان ساری باتوں سے توبہ کرو اور جوشرک کے قریب کریں یا بدعتوں میں سے ہوں جو ان سے قریب کریں۔ ولاحول ولاقوۃ الا باللہ وانا للہ وانا الیہ راجعون۔
اے اللہ ہم قائل کے قول سے تمہاری براءت طلب کرتےہیں کہ اسماء حسنی و صفات علیاء کے ذریعہ وسیلہ پکڑنا تنگ دائرہ ہے۔ اللہ تو ہماری براءت قبول فرما اور ہمیں اپنے اسماء و صفات کے آثار سیکھا جو ہمارے دلوں کو مضبوط کردے اور ہمیں اپنے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما۔
آمین یا رب العالمین۔

وصلی الله علي نبينا محمد وعلي

آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا