Thursday, 19 March 2009

سیاچین گلیشئر نصف رہ گیا

سیاچین گلیشئر نصف رہ گیا

گزشتہ تین دہائیوں سے سیاچین تنازع بنا ہوا ہے
پاکستان اور بھارت کےدرمیان متنازع معملات میں شامل سیاچین گلیشیئر کا جسے دنیا کا بلند ترین ’محاذ جنگ‘ بھی قرار دیا جاتا ہے، ایک جدید تحقیق کے مطابق تقریباً نصف حصہ پگھل چکا ہے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک جیالجوسٹ راجیو اوپادھیائے کا کہنا ہے کہ سیاچین گلیشیئر جو کبھی ڈیڑھ سو کلو میٹر طویل تھا اب سکٹر کر صرف آدھا رہ گیا ہے۔
سیاچین گلیشیئر کے پاکستان اور بھارت دونوں ملک دعویدار ہیں۔ اسی کے دہائی کے بعد سے اس گلیشیئر پر بھارت نے مستقل طور پر اپنے فوجی تعینات کر دیئے تھے اور اس کے بعد سے دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان متعدد مرتبہ گولہ باری ہوتی رہی ہے۔

Saturday, 7 March 2009

أغيثوا غزة بالسلاح


أدَّت صواريخ المقاومة الفلسطينية دوراً مهماً وأساسياً في هزيمة العدو الصهيوني في غزة رغم تواضع هذه الأسلحة، لذلك فإن حاجة غزة للسلاح لا تقل أهمية عن الغذاء والدواء!وبما أن الكيان الصهيوني يحصل على أسلحة متطورة من أمريكا بشكل علني، فما المانع إذن من إرسال جزء من أموالنا إلى فصائل المقاومة وأهالي غزة لشراء ما يحتاجونه من أسلحة ومتفجرات، ليحموا بها أنفسهم وأولادهم من أي اعتداء صهيوني آخر ربما يكون قريباً؟ولماذا نخاف ونتردد في تقديم هذه الأموال مادام الكيان الصهيوني يقتل أطفالنا ونساءنا وشيوخنا بلا رحمة ولا تردد أمام نظر العالم كله!ولا مانع أن يتم تقديم هذه الأموال بشكل فردي وسري، كل يجتهد حسب مقدرته حتى لا يُحرج الآخرون ولا يكلف الله نفساً إلا وسعها.فلابد أن تتمكن المقاومة الفلسطينية في غزة من شراء أسلحة متطورة نسبياً خاصة التي تستخدم مضادات للطائرات الحربية حتى لا تكون غزة وسكانها فريسة سهلة لسلاح الطيران الصهيوني يسرح ويمرح في سمائها يقتل ويدمر ما يشاء فيها بلا مقاومة تذكر!!>

مشرق وسطیٰ میں طاقت کا نیا محور

مشرق وسطیٰ میں طاقت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟




حالیہ دنوں میں عراق میں شائع ہونے والے اخباروں کے جائزے سے لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے
ایک نئے محور کی تشکیل ہورہی ہے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ تیل کی پائپ لائنوں اور تجارتی تعلقات کے ذریعےخطے کے ممالک کے تعلقات بہت تیزی سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اخبارات فکرمند ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی عراقی پائپ لائنوں پر حملےسیاست میں ایران، شام اور بعض دیگر عرب ممالک کا کوئی اثرورسوخ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ چوبیس جولائی کے اپنے شمارے میں الیوم الاخیر لکھتا ہے کہ امریکی فوج نے جنوبی عراق کے شہر میسان اور السماوہ میں ’ایرانی دفتروں‘ کو تخریبی کارروائی کے الزام میں بند کردیا ہے۔اخبار فکرمند ہے کہ اسرائیلی شہر حیفہ اور عراق کے شہر کرکُک کے درمیان تیل کی دو پائپ لائنیں بچھانے کے لئے اسرائیل اور اردن کی حکومتیں بات کررہی ہیں۔ اردن مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جو عالمی تجارتی تنظیم یعنی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا رکن ہے۔اسی طرح اخبار الساعہ لکھتا ہے کہ عراق، ترکی اور اسرائیل کے درمیان ایک آزاد تجارتی علاقہ قائم کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ بغداد میں وزارت خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے اخبار لکھتا ہے کہ دو سال کے اندر اس آزاد تجارتی علاقے کا وجود قیام میں آجائے گا جس کے لئے حال ہی میں ان ملکوں کے نمائندوں نے اردن کے دارالحکومت عمان میں ملاقات کی ہے۔عراق میں آزاد تجارتی علاقوں کے سربراہ حمید ثقیر نے الساعہ کو بتایا کہ ستمبر میں اسرائیل، عراق، ترکی اور خطے کے چند ممالک کی نجی کمپنیاں اس موضوع پر اجلاس کرنے والی ہیں۔ اس اخبار نے چھبیس جولائی کے اپنے شمارے میں عراقی سنٹرل بینک کے سربراہ فالح داؤد سلمان کا ایک انٹرویو شائع کیا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ عراق، ترکی اور ’ایک صیہونی طاقت‘ آزاد تجارتی علاقہ قائم کرنے والے ہیں۔اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں اس تجارتی علاقے کو امریکہ کی منڈی کے ساتھ ایک ترجیحی تجارتی سمجھوتے کے تحت جوڑا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں اس معاہدے میں شامل ہونے والے ممالک میں ’خفیہ اطلاعات‘ کی دستیابی پر امریکہ پانچ سے آٹھ ارب ڈالر صرف کرے گا۔اٹھائیس جولائی کو اخبار الزمان گلف سینٹر فار اسٹریٹجِک اسٹڈیز کے ایک تازہ مطالعہ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ خطے میں طاقت کی تقسیم اسرائیل اور ترکی کے لئے فائدہ مند ہے جبکہ ایران اور دیگر عرب ملکوں کے لئے مجموعی طور نقصان دہ ہوگی۔ اس مطالعے کے مطابق اسرائیل خطے میں پانی اور زمین پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ ترکی موصل اور کرکُک پر اختیار حاصل کرکے اپنے تاریخی عزائم کا اعادہ چاہتا ہے اور دجلہ اور فرات کی پانی پر کنٹرول حاصل کرکے شام کیلئے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔اس آزاد تجارتی علاقے کے قیام میں شاید ابھی وقت لگے لیکن اخبار الدستور نے چھ اگست کے اپنے شمارے میں لکھا ہے کہ عراقی منڈی میں غذائی اشیاء بڑے بڑے بین الاقوامی کمپنیوں کے بنائے ہوئے ٹِین کے ڈبوں میں دوسرے ملکوں سے درآمد کی جانے لگی ہیں۔

نوٹ: اس مضمون کے لئے عراقی اخباروں کے ترجمے واشنٹگن میں واقع ادارے میمری یعنی مڈِل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے دستیاب ہوئے۔