Sunday, 27 September 2020

آہ! پھوپھا جان/ تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی


 آہ! پھوپھا جان
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

عبد الصبور ندوی۔ کاٹھمانڈو



حضرت مولانا عبد المنان سلفی کو آج رحمہ اللہ لکھتے ہویے کلیجہ پھٹتا ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے؛ نہیں وہ ابھی بھی ہمارے درمیان ہیں؛ قضا و قدر پر ایمان ہے اسی لئے احباب نے انھیں منوں مٹی تلے دفنا دیا؛ مرحوم نہ صرف ہمارے پھوپھا جان تھے بلکہ ایک سرپرست رہنما اور مربی تھے؛ لاک ڈاؤن کے تسلسل نے آخری دیدار سے بھی محروم کردیا؛ کیسے چلے گئے؟ اور اتنی جلدی یہ داغ مفارقت،  رب کریم! تو ان پر اپنی خصوصی رحمت کی برکھا نازل فرما۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

کائنات کی وسعتوں میں ایک شخص کی کمی کا احساس دیرپا نہیں ہوتا، دنیا کی ہلچل میں روزانہ کتنے جنازے اٹھتے ہیں، کتنی قبریں بنتی ہیں، اور کتنے چاند تاروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔ہر موت بے شمار آنکھوں میں آنسواور دلوں میں زخم چھوڑ جاتی ہے، سوگواروں کی سسکیاں اور آہیں کتنے دلوں کو مجرو ح کرتی ہیں،پھر رفتہ رفتہ وقت مرہم پاشی کرکے زخم مندمل اور ماحول بحال کردیتا ہے،یہ ہوتا آیا ہے، ہوتا رہے گا، موت وزیست کی کہانی روز ازل سے کہی اور سنی جاتی ہے اور ابد تک اسی طرح دہرائی جاتی رہے گی، بعض اموات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی خبر بجلی بن کر گرتی ہے اور مدت مدید کے لئے ویرانی واداسی پیدا کردیتی ہے۔پھوپھا جان کا سانحہئ ارتحال بھی انہی میں سے ایک ہے۔ دادا جان مولانا عبد الوہاب ریاضی (وفات 4/ نومبر 2014ء)، عم گرامی حضرت مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈانگری (وفات22/ دسمبر 2015ء)، بابا شیخ الحدیث مفتی جامعہ سراج العلوم حضرت مولاناعبد الحنان فیضی (وفات3/فروری 2017ء) اور اب پھوپھا جان مولانا عبد المنان سلفی (وفات23/اگست  2020ء) رحمہم اللہ کے سانحہئ ارتحال نے مجھے ذاتی طور پہ بہت جھنجھوڑا ہے،  میری زندگی میں یہ شخصیتیں دھوپ کی مانند تھیں، جن سے روشنی ملتی تھی، جن کے سایہئ شفقت نے پڑھنے اور بڑھنے کا حوصلہ دیا، یہ ہستییاں  میرے لئے دیوار تھیں، جو ایک طاقت کا احساس کراتی تھیں۔ کہاں جاؤں اب انہیں ڈھونڈنے۔
1959 ء  میں انتری بازار  جیسے مردم خیزموضع  کے افق سے طلوع ہونے والایہ تابندہ ستارہ عمر بھر لوگوں کو روشنی دیتا رہا، منارہئ نور بن کر سلفیت کی بے لوث نشر واشاعت کی،لوگ فیضیاب ہوتے رہے، 23/اگست2020ء کی تاریخ کیا آئی، رب کائنات نے اس ستارے کو ہماری نظروں سے اوجھل کردیا۔ مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْرٌ (22الحدید)۔
پھوپھا مولانا عبد المنان سلفی ایک بہترین داعی، استاذ، صحافی، منتظم کار، خطیب تھے۔ وہ بڑے سے بڑے پروگرام اور کانفرنسز کو  مرتب کرکے کامیابی سے ہمکنار کرانا جانتے تھے۔ ہندونیپال کے بہت سارے جلسے کانفرنسز اور مختلف النوع پروگرامز کی کامیابی کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔
بات اگر میں قلم کی کروں جس نے ہر دور میں اپنی طاقت اور اہمیت کا لوہا منوایا ہے، تو پھوپھا  رحمہ اللہ نے  زمانہئ طلب علم  سے ہی  صحافت کی اہمیت و ضرورت کو بھانپ لیا تھا اور اسی ذوق نے انہیں جامعہ سلفیہ بنارس  کے مجلہ المنار کا  مدیر بنا ڈالا۔ میں نے جب قلم اٹھایا اور ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھنے لگا تو اس وقت دو شخصیتیں تھیں جنہوں نے میری قلمی اصلاح کر ان سطروں کو قابل اشاعت بنایا- ایک پھوپھا مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ اور  دوسری شخصیت تھی مشہور صحافی جناب قطب اللہ خان صاحب حفظہ اللہ- تیسری ہستی تھی  عم گرامی حضرت مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کی؛ جنہوں نے قدم قدم پر حوصلہ افزائی کی؛ یہاں تک کہ جب میں ندوہ سے 2000ء میں عالمیت کر کے گھر لوٹا تو انھیں بیرون ملک کا سفر درپیش ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس دوران نورتوحید کی ترتیب اور اداریہ تمہارے ذمہ- دو شمارے کا اداریہ میں نے لکھا لیکن تشفی نہیں ہوئی اور اصلاح کے لئے میں پھوپھا مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے اس کے نوک پلک درست کئے-  میں ان شخصیتوں کا الفاظ میں شکریہ ادا نہیں کر سکتا- اللہ ان سب سے راضی ہو-
غالبا سن 2001 ء کی بات ہے پھوپھا رحمہ اللہ کو چنروٹا ایف ایم ریڈیو سے ماہ رمضان میں یومیہ ایک گھنٹہ دعوتی پروگرام کا آفر ملا – پھوپھا نے مجھے اور برادرم سعود اختر سلفی کو بلایا اور کہا تم لوگ اس کی ترتیب دو- پھر انکے اشراف میں ہم تینوں نے پروگرام کو چلایا اور اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے کوملا-
پھوپھا رحمہ اللہ کی شخصیت؛ اور انکے کارنامے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاینگے کیونکہ  وہ ایک معتبر مستند عالم دین و صحافی اور عوام میں محبوب و ہر دلعزیز تھے،  ان سے ہمیں بیحد پیار ملا، ماہنامہ نور توحید اور السراج کی 31 سالہ ادارت انکی صحافتی خدمات کی اہم کڑی ہے،  میں نے بعض نامہ نگاروں کو دیکھا کہ وہ خبروں کی اصلاح کے لئے آپ سے رجوع ہوتے تھے- مارچ  2020ء میں عالمی وباء کورونا کے سبب جب ہند ونیپال میں ملک گیر لاک ڈاؤن ہوا تو اس موقع پر اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہویے مدارس اور مساجد کے حوالے سے مسلمانوں کے لئے اپیل جاری کی جسے کئی اخبارات نے نشر کیا اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ سوانح نگاری آپ کا پسندیدہ عمل تھا؛ شخصیات کے انتقال پر وہ خوب لکھتے تھے؛ لاک ڈاؤن کے دوران جب جامعہ خیر العلوم کے ناظم جناب ڈاکٹر عبد الباری صاحب کا انتقال ہوا تو پھوپھا نے ان کی شخصیت پر ایک جامع تحریر لکھی؛ اور وہ تحریر مجھے بھی بھیجی تھی جسے میں نے کئیر خبر میں نشر کیا تھا،  غالبا یہ انکی آخری تحریر تھی۔  
بہت سی یادیں ان سے وابستہ ہیں،  وہ شفقت و محبت کے پیکر اب کہاں ملیں گے؛ جن کا وجود ہماری زندگیوں میں مانند چراغ تھا۔ اب تو لگتا ہے کہ تاریکیوں کے سایے دراز ہو چلے ہیں۔رب کائنات سے دست بدعا ہوں کہ وہ آپ کی دینی و دعوتی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور اعلی علیین میں جگہ دے اور ہم تمام پسماندگان کو صبر کی توفیق دے، گر چہ شکایت باقی رہے گی -
تھی ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری



No comments: