Sunday, 14 October 2012

ملالہ کی مشہور ڈائری کا معمہ حل

.سوات میں طالبان کا نشانہ بننے والی لڑکی ملالہ کی مشہور ڈائری کا معمہ حل ہو گیا ہے اور پاکستان کے سرکاری ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ بی بی سی کا ایک مقامی رپورٹر ہی ملالہ کی ڈائری لکھا کرتا تھا اور پھر اسے گل مکئی کے نام سے شائع کردیا جاتا تھا۔ پاکستانی سیکورٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ 2009 میں جب سوات میں پاکستانی حکومت اور فوج نے طالبان سے ایک امن معاہدہ کیا تھا تو اس کی مخال
فت امریکہ اور یورپ نے کی تھی عین اسی دوران امریکہ نے پاکستان کے شورش زدہ علاقے خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت کئی مقامی ریڈیو 
اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور مقامی اخبارات اور میڈیا اداروں کے پروگرام بھی اسپانسر کئے گئےتھے۔ 



مصدقہ ذرائع کے مطابق 2009 میں اسی دوران بی بی سی کی جانب سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت سوات کی کسی مقامی لڑکی سے ایک ڈائری لکھوانی تھی جس میں وہ طالبان کے خلاف اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں کچھ باتیں نارمل انداز میں کرتی اس پروگرام کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ طالبان لڑکیوں کے اسکول تباہ کررہے ہیں اس لئےان پر پریشر ڈالنے کے لئے ایک طالبہ سے ڈائری لکھوائی جائے گی۔ اس پروگرام کے پروڈیو سر اور ایڈیٹر پاکستان کے شہر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور صحافی تھے جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر لندن جا کر بی بی سی سے منسلک ہوگئے۔ تقریبا بیس برس لسندن میں گزارنے کے بعد وہ اب کراچی سے بی بی سی اردو کے سنیئر ترین عہدے دار کے طور پر کام کررہے ہیں اور خواتین کے حقوق کے لئے نمایاں طور پر آواز اٹھاتے رہتے ہین۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے ادھیڑ عمری میں حال ہی میں اپنے آبائی علاقے سے ایک نو عمر لڑکی سے شادی کی ہے۔۔پشاور پریس کلب کے کئی صحافی اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ ان دنوں بی بی سی کے ایک مقامی رپورٹر، جن کا تعلق پشتونوں کے اسی قبیلے سے ہے جس سے ملالہ کا تعلق ہے، کافی سرگرمی سے کسی ایسی طالبہ کو ڈھونڈ رہے تھے جو ایک بی بی سی کے لئے ایک ڈائری لکھ سکے۔ اسی دوران بی بی سی اس رپورٹر کی ملاقات سوات میں لڑکیوں کا ایک اسکول چلانے والے ضیا اللہ سے ہوئی۔ جب بی بی سی کے مقامی رپورٹر نے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انہوں نے فورا اپنی بیٹی کا نام لیا جو اسی اسکول میں زیر تعلیم تھی اور خاصی ایکٹو بھی تھی۔ واضح رہے کہ ضیا اللہ طالبان کے سخت مخالف اور اے این پی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ طالبان کے خلاف ایک لشکر بھی بنا چکے ہیں۔ اس طرح رفعت اللہ اور ضیا اللہ کے درمیان یہ طے پایا کہ بی بی سی کے رپورٹر ملالہ سے ملاقات کریں گے اور اس سے باتیں کریں گے اور پھر جو کچھ وہ بتائے گی، وہ اسے ڈائری کے طور پر لکھ کر بی بی سی کو بھیج دیں گے۔ اس وقت ملالہ کی عمر بہت ہی کم تھی اور وہ چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھی، اس وقت اسے اردو کے مشکل الفاظ اور جملے لکھنے نہیں آتے تھے۔ اس وقت ملالہ کی عمر صرف 9 سال تھی۔ رپورٹر کی رہائش پشاور میں تھی اس لئے وہ روز سوات نہیں آ سکتے تھے۔ اور سوات کے خراب کی حالات کی وجہ سے بھی ان کا سوات بار بار آنا خطرناک تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ رپورٹر سیکولر خیالات کی وجہ سے پشاور کے صحافتی حلقوں میں ٕمشہور ہیں اور انہیں نشانہ بنانے کے لئے طالبان نے 2010 مین پشاور پریس کلب پر ایک خود کش حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے مگر پریس کلب کا چوکیدار اور ایک پولیس اہلکار مارا گیا تھا۔ اس کے بعد پشاور کے صحافیوں اور طالبان کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کے دوران یہ بات طے پائی تھی کہ بی بی سی کا مذکورہ رپورٹر پریس کلب کو اپنے دفتر کے طور پر استعمال نہیں کرے گا۔ پشاور پریس کلب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹر اس کے بعد کافی عرصہ خاموش رہے۔ جن دنوں بی بی سی کا مذکورہ رپورٹر ملالہ کی ڈائری لکھنے مینگورہ جایا کرتے تھے وہ اس دوران اپنے ساتھ گاڑی مین اپنی آٹھ سالہ بیٹی کو لازمی لے جایا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ان پر کوئی شک نہیں کرے گا اور طالبان بھی اسے نقصان نہیں پہنچائین گے۔ یہ بات بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر نے بی بی سی ورلڈ سے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی بتائی کہ کس طرح وہ ملالہ سے ملنے سوات جایا کرتے تھے اور اس دوران ان کی بیٹی بھی ان کے ہمراہ ہوتی تھی اور کئی مسلسل ملاقاتوں کے باعث ملالہ اور ان کی بیٹی کی گہری دوستی ہوگئی تھی۔ بی بی سی ورلڈ کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ملالہ سے اس کی ڈائری وصول کرنے جایا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا دعوی تھا کہ ملالہ بہت فعال تھی اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ بھی استعمال کرتی تھی مگر وہ بتانا بھول گئے کہ آخر ملالہ ان کو اپنی تحریر ای میل کیوں نہیں کرتی تھی اور وہ جان خطرے مین ڈال کر خود ہی کیوں جایا کرتے تھے۔

پشاور پریس کلب کے صحافیوں میں یہ ایک کھلا راز ہے کہ بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر ملالہ سے اپنی گفتگو کو ریکارڈ کر کے لایا کرتے تھے اور پھر اسے اپنے الفاظ میں تحریر کر کے بی بی سی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا کرتے تھے اور اسےگل مکئی کی ڈائری کا نام دیا جاتا تھا۔ بی بی سی کے مذکورہ پشتون رپورٹر ہی ملالہ کے والد ضیا اللہ اورملالہ کو امریکی صحافیوں سے بھی رابطہ کار کے فرائض انجام دیتے تھے۔ملالہ کے والد اس طرح اپنے اسکول کو ایک بڑے ادارے میں تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے اور اس کے لئے فنڈنگ چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح بین الااقوامی طورپر پروجیکشن سے ان کے لئے اپنا کالج اور یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے فنڈنگ لینا آسان ہوگا۔ مگر انہیں بی بی سی اور امریکی میڈیا نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال تو کیا مگر بھاری فنڈنگ دینے کےبجائے چند لاکھ روپے دینے پر ہی اکتفا کیا۔ امریکی صدر کے نمائندہ خاص رچرڈ ہالبروک سے ملاقات میں بھی ملالہ اور اس کے والد فنڈز مانگتے دیکھے جاسکتے ہیں مگر حقیقت میں انہیں کبھی وہ مطلوبہ فنڈ نہیں مل سکے۔ سوات کے مقامی صحافتی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد اس کے خاندان میں بھی اختلافات نمایاں ہوگئے ہیں اور اس کی والدہ جو کہ پہلے ہی بیٹی کو اس طرح باہر نکال کر نمائش کرنے کے حق میں نہیں تھیں، وہ اب کچھ حقائق سب کے سامنے لانے کے لئے بے تاب ہیں جب کہ اس کے والد بھی فنڈنگ نہ ملنے کی وجہ سے دل شکستہ ہیں اور اب بیٹی بھی ان کے ہاتھ سے جاتی دکھائی دےرہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی سے متعلق حکام نے بھی ملالہ کے والد پر نرمی سے واضح کردیا ہے کہ انہیں اور ان کی بیٹی کو مغربی ذرائع ابلاغ نے استعمال کیا اور پھر ٹشو کی طرح پھینک دیا تاکہ طالبان انہیں قتل کردیں اور پھر مغربی میڈیا ان کی لاشوں پر نئی دکان سجا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملالہ کے جب پہلی بار انٹرویو لئے گئے تو وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور اس کی جدوجہد کا مرکز صرف ڈاکٹر بننا ہے۔ پہلے چند انٹرویو کے بعد اچانک اس نے یو ٹرن لیا اور کہنا شروع کردیا کہ وہ اب ڈاکٹر بننا نہیں چاہتی بلکہ سیاستدان بننا چاہتی ہے تاکہ سوسائیٹی کو تبدیل کرسکے۔ اور طالبائنزیشن کو روک سکے۔ اہم قومی ادارے اس بات پر تحقیق کررہے ہین کہ آخر وہ کون تھا جو ملالہ کے منہ میں الفاظ ڈال رہا تھا۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ وہ کون تھا جس نے ملالہ سے اوباما کو آئیڈل قرار دینے کے الفاظ کہلوائے کیونکہ چوتھی جماعت کی بچی کو اوباما کے بارے میں علم ہونا ممکن نہیں ہے۔

تازہ ترین رپورٹس یہ ہیں کہ بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر ملالہ پر حملے کے بعد سے روپوش ہین اور ان کے تمام فون نمبر مسلسل بند جا رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ملالہ کے والد کو متنبہ کرنے کے لئے کئی بار اخبار میں بھی اشتہار شائع کرایا تھا مگر وہ کوئی بات سننے پر تیار نہ تھے اور لڑکی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے تھے 

No comments: