شراب خانہ خراب اور فقہ حنفی!
شراب باجماعِ مسلمین حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورہ المائدہ:90))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو بطور دوائی استعمال کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : ولٰکنّہ داء ۔ ''یہ توالٹا بیماری ہے۔''
)صحیح مسلم : ٢/١٦٣، ح : ١٩٨٤(
خلیفہ سوم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اجتنبوا الخمر ، فإنّہا أمّ الخبائث ۔ ''شراب سے بچو کیونکہ یہ اُمّ الخبائث (بیماریوں کی جڑ) ہے۔''
)سنن النسائی : ٥٦٦٩، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٨/٢٨٨، وسندہ، صحیحٌ(
قرآن و حدیث ، اجماعِ امت اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فرمان کے خلاف شراب خانہ خراب کو جائز قرار دینے کے لیے فقہ حنفی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
إنّ ما یتّخذ من الحنطۃ والشعیر والعسل والذرۃ حلال عند أبی حنیفۃ ، ولا یحدّ شاربہ عندہ ، وإن سکر منہ ۔ ''گندم ، جَو ، شہد اور مکئی سے جو شراب بنائی جائے وہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلال ہے۔امام صاحب کے نزدیک ایسی شراب پینے والے کو حد نہیں لگے گی،ا گرچہ اس کو نشہ بھی ہو جائے۔''(الہدایۃ : ٢/٤٩٦(
ابو عوانہ بیان کرتے ہیں : سمعت أبا حنیفۃ ، وسئل عن الأشربۃ ، قال : فما سئل عن شیء منہا إلّا قال : حلال ، حتّی سئل عن السکر ، فقال : حلال ۔ ''میں نے امام ابوحنیفہ کو سنا ، ان سے شراب کے بارے میں پوچھا گیا۔ ان سے شراب کی جس بھی قسم کے بارے میں پوچھا گیا ، ان کا جواب یہی تھا کہ حلال ہے۔ حتی کہ ان سے نشہ آور کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : حلال ہے۔'')
تاریخ بغداد للخطیب البغدادی : ١٣/٤١٢، وسندہ، صحیحٌ(
جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
اقتباس:
''انگور کی شراب کے علاوہ دوسری نشہ آور اشیاء کو اتنا کم پینا جس سے نشہ نہ ہو ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قوت حاصل کرنے کے لیے جائز ہے۔''(تقلید کی شرعی حیثیت از تقی : ١٠٧، ١٠٨(
جب شراب سے ہمارے اللہ نے بچنے کا حکم دیا ہے ، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سراسر بیماری قرار دیا ہے، نیز خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک وہ بیماریوں کی جڑ ہے تو تھوڑی مقدار میں پینے کا جواز کہاں سے آگیا؟ اربابِ دانش خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ فقہ حنفی کی طرف سے لوگوں کو شرابی بنانے کی ناکام اور مذموم سعی نہیں ہے؟ حالانکہ شراب کی خرید و فروخت ممنوع اور حرام ہے۔ انگور وغیرہ کی شراب کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کی کیا دلیل ہے؟شراب کی تو ہر قسم اور ہر مقدار حرام ہے۔فرامین نبوی ملاحظہ فرمائیے :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'مَا أَسْکَرَ کَثِیرُہ، ، فَقَلِیلُہ، حَرَامٌ' ''جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ دے ، اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔''(سنن أبي داو،د : ٣٦٨١، سنن الترمذي : ١٨٦٥، وقال : حسن غریبٌ، سنن ابن ماجہ : ٣٣٩٣، وسندہ، حسنٌ(
اس حدیث کو امام ابن جارود رحمہ اللہ نے ''صحیح''قرار دیا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'لَعَنَ اللّٰہُ الْخَمْرَ، وَشَارِبَہَا، وَسَاقِیہَا، وَبَائِعَہَا، وَمُبْتَاعَہَا، وَعَاصِرَہَا، وَمُعْتَصِرَہَا، وَحَامِلَہَا، وَالْمَحْمُولَۃَ إِلَیْہِ'
''اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور شراب پینے والے ، پلانے والے ، فروخت کرنے والے ، خریدنے والے ، نچوڑنے والے ، اٹھا کر لے جانے والے اور جس کی طرف اٹھا کر لے جائی جا رہی ہے ، سب پر لعنت فرمائی ہے۔''(سنن أبي داو،د : ٣٦٧٤، سنن ابن ماجہ : ٣٣٨٠، وسندہ، حسنٌ(
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
'اِجْتَنِبُوا الْخَمْرَ، فَإِنّہ، مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ'
''شراب سے بچو کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔''(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/١٦٢، ح : ٧٢٣، شعب الإیمان للبیہقی : ٥/١٠، ح : ٥٥٠٨، وسندہ، حسنٌ(
اس حدیث کا راوی عمرو بن ابی عمرو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ثقہ'' ہے۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں سوال کیا :
]یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! إِنَّا بِأَرْضٍ یُّصْنَعُ فِیہَا شَرَابٌ مِّنَ الْعَسَلِ، یُقَالُ لَہ، : الْبِتْعُ، وَشَرَابٌ مِّنَ الشَّعِیرِ، یُقَالُ لَہ، : الْمِزْرُ[
''اے اللہ کے رسول! ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں شہد کی شراب بنائی جاتی ہے اور اس کو بِتْع کا نام دیا جاتا ہے اور جَو کی شراب بھی بنائی جاتی ہے اور اسے مِزر کا نام دیا جاتا ہے۔'' اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ تھا:
'کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ' ''ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔''
)صحیح البخاري : ٦١٢٤، صحیح مسلم : ١٧٣٣، بعد الرقم : ٢٠٠١ من حدیث أبي بردۃ(
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں ، وہ کہتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر رسول پر یہ فرماتے ہوئے سنا : ]أَمَّا بَعْدُ، أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّہ، نَزَلَ تَحْرِیمُ الْخَمْرِ، وَہِيَ مِنْ خَمْسَۃٍ : مِنَ الْعِنَبِ، وَالتَّمْرِ، وَالْعَسَلِ، وَالْحِنْطَۃِ، وَالشَّعِیرِ، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ[
''اما بعد، اے لوگو! بلاشبہ شراب کی حرمت نازل ہوئی تو اس وقت یہ ان پانچ چیزوں سے بنتی تھی : انگور سے ،کھجور سے،شہد سے، گندم سے اور جَو سے۔جو چیز عقل کو ڈھانپ دے وہ شراب ہے۔''(صحیح البخاري : ٤٦١٩، صحیح مسلم : ٣٠٣٢(
ان احادیث و آثار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شراب کی ہر قسم اور ہر مقدار حرام ہے۔ ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور جس مشروب کے سو گلاس نشہ کریں ، اس کا ایک قطرہ بھی حرام ہے۔جب شراب بقولِ رسول بیماری ہے تو اسے قوت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا کیسے عقل و شعور کے مطابق ہوا؟
ان دلائل کے خلاف فقہ حنفی کا ایک اور فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
إذا شرب تسعۃ أقداح من نبیذ التمر فأوجر العاشر ، فسکر ، لم یحدّ ، لأنّ السکر یضاف إلی ما ہو أقرب إلیہ ، کذا فی السراجیّۃ ۔
''جب آدمی کھجور کی نبیذ کے نَو پیالے اپنی مرضی سے پی لے ، پھر دسواں پیالہ اسے دھمکا کر پلا دیا جائے اور اسے نشہ ہو جائے تو اس پر حد نافذ نہیں ہو گی کیونکہ نشہ قریبی پیالے کی طرف منسوب ہو گا۔فتاویئ سراجیہ میں اسی طرح ہے۔''(فتاوی عالمگیری : ٥/٤١٣(
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا :
'کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ، وَمَا أَسْکَرَ مِنْہُ الْفَرَقُ، فَمِلْءُ الْکَفِّ مِنْہُ حَرَامٌ'
''ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس چیز کا ایک فرق(ایک پیمانہ جو دو سیر چار چھٹانک کا ہوتا ہے) نشہ کرے ، اس کی ایک ہتھیلی بھر مقدار بھی حرام ہے۔''(مسند الإمام أحمد : ٦/٨٢، سنن أبي داو،د : ٣٦٨٧، سنن الترمذي : ١٨٦٦، وسندہ، حسنٌ(
اس حدیث کو امام ابن جارود(٨٦١) اور امام ابن حبان(٥٣٨٣) نے ''صحیح'' کہا ہے۔
نو پیالے شراب ڈکار جانے والے اس فرمانِ نبوی کو بھول گئے ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : [إِنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، جَلَسُوا بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرُوا أَعْظَمَ الْکَبَائِرِ، فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہُمْ فِیہَا عِلْمٌ، فَأَرْسَلُونِي إِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَسْأَلَہ، عَنْ ذٰلِکَ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَعْظَمَ الْکَبَائِرِ شُرْبُ الْخَمْرِ، فَأَتَیْتُہُمْ فَأَخْبَرْتُہُمْ، فَأَنْکَرُوا ذٰلِکَ، وَوَثَبُوا إِلَیْہِ جَمِیعًا، فَأَخْبَرَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : 'إِنَّ مَلِکًا مِّنْ بَنِي إِسْرَائِیلَ أَخَذَ رَجُلًا، فَخَیَّرَہ، بَیْنَ أَنْ یَشْرَبَ الْخَمْرَ، أَوْ یَقْتُلَ صَبِیًّا، أَوْ یَزْنِيَ، أَوْ یَأْکُلَ لَحْمَ الْخِنْزِیرِ، أَوْ یَقْتُلُوہُ إِنْ أَبٰی، فَاخْتَارَ أَنَّہ، یَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَأَنَّہ، لَمَّا شَرِبَ لَمْ یَمْتَنِعْ مِنْ شَيْءٍ أَرَادُوہُ مِنْہُ'، وَأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا حِینَئِذٍ : 'مَا مِنْ أَحَدٍ یَّشْرَبُہَا ، فَتُقْبَلُ لَہُ صَلَاۃٌ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً، وَلَا یَمُوتُ وَفِي مَثَانَتِہٖ مِنْہَا شَيْءٌ إِلَّا حُرِّمَتْ عَلَیْہِ الْجَنَّۃُ، وَإِنْ مَّاتَ فِي الْأَرْبَعِینَ مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً' ۔
''سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سب سے بڑے گناہ کے بارے میں بات چیت شروع کی۔انہیں اس بارے میں زیادہ علم نہ تھا۔ انہوں نے مجھے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی طرف بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں دریافت کر کے آؤں۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے مجھے بتایا کہ سب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے۔میں نے آ کر صحابہ کرام کو یہ بات بتائی تو انہوں نے اس کا انکار کیا اورسب کے سب جلدی سے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی طرف چلے گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک آدمی کو پکڑا اور اسے اختیار دیا کہ کوئی ایک کام کر لے ؛ یا شراب پیے ، یا بچے کو قتل کرے ، یا زنا کرے ، یا خنزیز کا گوشت کھائے، ورنہ انکار کرنے پر وہ اسے قتل کر دیں گے۔اس نے شراب پینے کی حامی بھر لی۔ جب اس نے شراب پی لی تو اس نے وہ سارے کام بلا جھجک کر ڈالے جو وہ اس سے کروانا چاہتے تھے۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا : جو بھی شخص شراب پی لے گا ، اللہ تعالیٰ چالیس دن اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔اور جو بھی اس حالت میں مرے گا کہ شراب اس کے مثانے میں ہو گی تو اس پر جنت حرام ہو جائے گی۔اگر کوئی شراب پینے کے بعد چالیس دنوں کے اندر مر جائے گا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔''
)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم : ٨١٠، المعجم الأوسط للطبراني : ١/١١٦، ح : ٣٦٣، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/١٤٧، ح : ٧٢٣٦، واللفظ لہ،، وسندہ، حسنٌ(
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر''صحیح'' کہاہے اور حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ''صحیح'' قرار دیا ہے۔(الترغیب والترھیب للمنذري : ٣/١٧٩(
فیصلہ قارئین کرام پر ہے کہ وہ قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے شراب خانہ خراب جیسی نجس و پلید چیز سے بچ جائیں گے یا فقہ حنفی پر عمل کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت اپنے ہاتھوں سے برباد کریں گے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت ہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
—