Tuesday, 26 April 2011

رئیس الأحرار ؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقالہ بعنوان:

رئیس الأحرار ؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ
بہ مناسبت کل ہند سمینار بعنوان’’علامہ محمد رئیس ندوی ؒ ۔حیات و خدمات‘‘

ڈومریا گنج، سدھارتھ نگر، یوپی
منعقدہ:۲۰۔۲۱؍ اپریل ۲۰۱۱ء

زیر اہتمام: ضلعی جمعےۃ اہل حدیث سدھارتھ نگر


مقالہ نگار:

عبد ا لصبور ندوی جھنڈا نگری
مدیر سہ ماہی’’ترجمان السنۃ‘‘ رچھا، بریلی


مقدمہ:
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد:
محترم صدر مجلس، علمائے کرام اور معزز حاضرین!
ذہبئ وقت، فقیہ ملت ممتازعالم دین ، شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد رئیس الأحرار ندوی کے سانحہ ارتحال نے جماعت اہل حدیث کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، دو سال قبل ۲۰۰۹ء میں ندوی صاحب کے انتقال نے سلفیان عالم کو غم زدہ کردیاتھا، جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ یہ شخصیت علمی کمالات کا مرجع تھی، معلومات کا سمندر تھی، ان کے سامنے گفتگو کرنے والے بہت محتاط رہتے تھے، اسٹیج پر ان کی موجودگی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی، ان کے قلم کو وہ اعتبار حاصل تھاکہ عوام و خواص نام دیکھتے ہی ان کی تحریروں کو سند حجت مان لیتے تھے، یہ سلفیت کے وہ عظیم داعی و مناد تھے، جن سے ہندوستان میں اہلحدیثیت ہمیشہ برگ و بار لاتی رہی، سنت کے نام پر باطل نے بارہا سنت کی شکل مسخ کرنے کی کوشش کی، اس عظیم مبلغ نے تحفظ سنت کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں۔ انکار حدیث کے بڑھتے فتنے کو لگام کسنے میں سنت کے اس ہنر ورکاکردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
رئیس الاحرارؒ چونکہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے تربیت یافتہ تھے اور ان کے مشہور اساتذہ کی فہرست میں ایک بڑا ہی مشہور اور روشن نام سر فہرست ہے، جنہیں دنیا مولانا علی میاں ندو یؒ کے نام سے جانتی ہے، رئیس الاحرار صاحب کا ان سے بڑا گہرا تعلق تھا،استاذ اور شاگرد اپنی جگہ پر، دونوں باہم ایک دوسرے کے معاون تھے، زمانۂ طالبعلمی میں ندو ی صاحب مولانا علی میاں کے نور نظر بنے ہوئے تھے، بہت سارے امور مولانا علی میاں کے مشورے سے ہی انجام دئے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوا کہ ندوی صاحب ؒ کے مولانا علی میاںؒ سے جو تعلقات تھے، ان پر روشنی ڈالی جائے۔
ضلعی جمعےۃ اہل حدیث سدھارتھ نگرکے با حوصلہ و مخلص ذمہ داران کی شب و روز کاوشوں اورجہد پیہم کی بدولت آج ’’علامہ محمد رئیس ندوی ؒ ۔حیات و خدمات‘‘کے موضوع پر شاندار کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا،اس انعقاد پرہم تمام ذمہ داران خصوصا اس کانفرنس کے محرک اور کنوینر عم گرامی مولانا عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کو ہدےۂ تبریک پیش کرتے ہیں، اور اس عظیم شخصیت کے متعلق بحث و مباحثہ نیز تالیف و تحقیق کا میدان ہموار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، وجزاہم اللہ خیرا
رئیس الاحرار ندوۃ العلماء میں بحیثیت طالب علم:
ابتدائی و متوسطہ کے بعد رئیس الاحرارؒ نے مرحلۂ عالمیت و فضیلت کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا، سن ۱۹۵۴ء میں وہاں پہونچے، آپ کی زبردست ذہانت اور فطانت سے وہاں کے اساتذہ بیحد متاثر ہوئے، خصوصا مولانا علی میاں ندویؒ آپ کی صلاحیت و قابلیت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ آپ کی ہر تحقیق کو سراہتے اور ہمت افزائی کرتے۔بحث و تحقیق کے شوق نے آپ کو مولانا علی میاں کا محبوب بنا دیا تھا۔ایک مربی و مشفق کا رشتہ استوار ہوا، آپ ان کی مجلسوں میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔چونکہ ندوہ میں نصابی کتب پر فقہ حنفی کا رنگ غالب تھااور مولانا رئیس الاحرار ایک ٹھیٹھ سلفی طالب علم تھے، متعدد مسائل پر اختلافی بحث جب بڑھ جاتی تو اساتذہ مولانا علی میاں سے شکایت کرتے، مولانا بڑی شفقت کے ساتھ آپ کو سمجھاتے کہ ان سے نہ الجھا کرو، مجھ سے اس مسئلہ پر بحث کر لیا کرو، چنانچہ آپ اپنے استاذ مولانا علی میاں سے بحث و مناقشہ کرتے اور مولانا آپ کے دلائل کے آگے سر تسلیم خم کردیا کرتے ۔
مولانا علی میاں کا مشورۂ تالیف:
ندوہ میں دوران تعلیم مولانا علی میاں نے آپ کو تاریخ یہود پر ایک کتاب تالیف کرنے کا مشورہ دیا،چنانچہ آپ نے بلا تاخیر اس موضوع پر کام شروع کردیا، ندوہ کی جنرل لائبریری اس عمل کا مرجع تھی، لیکن اس وقت طلبہ کے لئے دو سے زائد کتب کے ایشو کی اجازت نہیں تھی، اور اس عظیم الشان کام کے لئے بیک وقت درجنوں کتابوں کی موجودگی ضروری تھی۔مولانا علی میاںؒ نے لائبریرین کو رقعہ لکھ کر حکم دیا کہ حامل رقعہ کو جتنی بھی کتابیں درکار ہوں، ایشو کردیا کریں۔ پھر آپ نے تیزی کے ساتھ تاریخ یہود لکھنی شروع کردیا۔
رئیس الاحرار ندوۃ العلماء میں بحیثیت مدرس:
۱۹۶۰ء میں ندوہ سے فراغت کے بعد آپ مولانا علی میاں کے مشورے سے ندوہ کی شاخ مدرسہ عالیہ بدریہ اُسکا بازار(بستی)میں ایک سال کے لئے بحیثیت مدرس پہونچے، درمیان سال ہی میں آپ کو گٹھیا کی شدید بیماری لاحق ہوئی، رئیس الاحرار صاحب نے راقم کی ڈائری میں اس تعلق سے لکھا ہے: ’’استاذ محترم مولانا علی میاں ندوی نے مجھے فورا لکھنؤ بلوایا اور اس وقت کے بہترین معالج ڈاکٹر فریدی (بانی مسلم مجلس) سے کہہ کر میرا علاج شروع کردیا، میں ایک ہی عشرہ میں صحت یاب ہوگیا، پھر کہا: میں تمہیں ہلکے ہلکے دو تین اسباق دلا دے رہا ہوں، تم اس سال یہیں پڑھاؤ، اور ’تاریخ یہود‘ جو میرے مشورہ کے مطابق لکھ رہے تھے، اسے مکمل کر لو، پھر میں تمہیں نیپال کے مشہور سلفی مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر بھیج دوں گا، میں یہ کتاب تاریخ یہود مکمل کی ، مگر افسوس کہ طبع ہوئے بغیر کسی بد نظر کی بد نظری کا شکار ہو کر ضائع ہوگئی۔‘‘
رئیس الاحرار احمدیہ سلفیہ(دربھنگہ) میں:
ندوہ میں تدریس کے بعد آپ مولانا علی میاں کے مشورے سے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ پہنچے، رئیس الاحرار صاحب میری ڈائری میں رقمطراز ہیں: ’’میں جب ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں مدرس ہوا، تو مولانا علی میاں کے ہی مشورے سے وہاں رہا، اس ادارہ کے زیر اہتمام ہونے والے جلسۂ مذاکرۂ علمیہ میں حضرت مولانا علی میاں صاحب پابندی سے آتے اور دینی ملاقات وزیارت و خدمت کا موقع دے کر مجھے مفیدعلمی و عائلی مشوروں سے نوازتے ‘‘۔
رئیس الاحرار جامعہ سلفیہ(بنارس) میں:
علامہ محمد رئیس ندویؒ نے اپنی عمر عزیز کا سب سے بڑا حصہ(جو آخری سانس تک جاری رہا) جامعہ سلفیہ بنارس کو وقف کردیا تھا،جامعہ سلفیہ کی تعلیمی آبیاری اور مسلک سلف کی دفاع میں آپ کا کردار نا قابل فراموش ہے، مولانا علی میاں ندویؒ وقتا فوقتا بنارس کا دورہ کرتے رہتے تھے، رئیس الاحرارؒ میر ی ڈائری میں لکھتے ہیں:’’جب میں جامعہ سلفیہ بنارس میں ۱۹۶۹ء کے اواخر میں آیا، اُس وقت سے لیکر آج تک جامعہ سلفیہ بنارس میں رہ کر تعلیمی، تدریسی وتصنیفی و افتاء نویسی کی خدمت انجام دے رہا ہوں، مولانا علی میاںؒ جامعہ سلفیہ بنارس یا بنارس کے کسی ادارہ میں آتے تو نہایت شفقت کے ساتھ ملتے اور فرمائش کر کے میری چائے ضرور پیتے،افسوس ! میں اپنے اسقدر مخلص اور مربی استاذ سے محروم ہوگیا‘‘۔
رئیس الاحرارؒ کا مولانا علی میاںؒ سے خط وکتابت :
علامہ محمد رئیس ندویؒ ندوہ سے فراغت کے بعد اپنے استاذ مکرم حضرت مولانا علی میاںؒ سے مستقل رابطے میں رہے، خط و کتابت کا سلسلہ برابر جاری رہا،سن ۲۰۰۰ء میں جب میں جامعہ سلفیہ بنارس گیا، اور ندوی صاحب ؒ کے فلیٹ میں ان کی زیارت و عیادت کے لئے پہنچا، تو بہت سارے امور پہ تبادلۂ خیال ہوا، مولانا علی میاں ندویؒ کا انتقال ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے، آپ نے اپنے استاذ محترم سے اپنے تعلق کے بارے میں ایک مختصر تحریر میری ڈائری پر رقم کردی، آپ نے مولانا علی میاں کے بھیجے ہوئے درجنوں خطوط دکھائے، ایک سال قبل اکتوبر ۱۹۹۹ء میں جب میری ملاقات رئیس الاحرار صاحب سے ہوئی، تو انہوں نے کہا کہ میری صحیحین کی سند اجازت جو مولانا علی میاں ندوی نے مرحمت کی تھی، کہیں کھو گئی ہے،میں خط لکھ دیتا ہوں تا کہ دوبارہ بھیج دیں، چنانچہ میں آپ کا خط لیکر مولانا علی میاں ندوی ؒ کے پاس پہنچا،(اُن دنوں میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا)، آپ کا خط پڑھ کر مولانا علی میاں نے فورا سند اجازت بذریعہ ڈاک بھجوادی۔ اسی سال مفکر ملت مولانا علی میاں ندوی ؒ نے ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ء کو داعئ اجل کو لبیک کہا تھا۔ رئیس الاحرارؒ کا مولانا علی میاںؒ سے کتنا گہرا تعلق تھا، اندازہ لگائیے کہ انتقال سے چند روز قبل مولانا علی میاںؒ نے آپ کو خط لکھ کر حالات دریافت کئے تھے۔
آج اکیسویں صدی میں کاغذی خط و کتابت کا دور تھم سا گیا ہے، الکٹرانک ذرائع نے اس کی جگہ لے لی ہے، ای۔میل، انٹرنیٹ، آئی پوڈ،آئی فون، بلیک بیری اور تھری جی جیسی تکنیک رابطے کا کام کر رہی ہے، موجودہ تیز ترین وسائل کی موجودگی کے باوجود ۹۵ فیصد علماء اور مدارس رابطے کے فقدان کا شکار ہیں،وہ نہ خطوط کا جواب دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی موجودہ برق رفتار وسائل کا استعمال کر کے ربط ملت کو استحکام عطا کرنے کے موڈ میں ہیں، جو نہایت افسوسناک امر ہے۔ مولانا علی میاں ندوی اور خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی رحمہما اللہ یہ دو شخصیتیں ایسی تھیں، جن کی ذات سے کسی کو شکایت نہ رہی کہ مولانا نے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔ارباب مدارس کو ان سے سبق سیکھنا چاہئے۔
رئیس الاحرارؒ کا مولانا علی میاںؒ کی وفات پر کلمات تعزیت :
مولانا علی میاں ندوی کے انتقال پر رئیس الاحرار کوزبردست صدمہ ہوا، جس شدت کے ساتھ قلبی لگاؤ تھا، اس کا اثر آپ کے چہرے پر بالکل عیاں تھا۔ رئیس الاحرار ؒ میر ی ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے حضرت استاذنا المکرم العلام سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ کی وفات حسرت آیات کی خبر سالانہ تعطیل میں اپنے گھر ہی سنی، اس دلدوز خبر سے میرے حواس اڑ گئے کہ میں اپنے ایک نہایت مشفق اور مہربان استاذ کے سایہ و سرپرستی سے محروم ہوگیا، اللہ سے دعا ہیکہ حضرت الاستاذ العلام کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے، ان کی ساری دینی وعلمی خدمات کو قبول فرما کر اونچے درجات سے نوازے، اور کوئی کوئی لغزش ہوئی ہو، تو اسے نظر انداز کر کے اپنی رحمت واسعہ سے انہیں ڈھانپ لے، ندوہ میں میرے ایک ہی استاذ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفظہ اللہ زندہ رہ گئے ہیں، اب وہی حضرت مولانا علی میاں کے جانشین ہیں، اللہ کرے ان کی سر کردگی میں دار العلوم ندوۃ العلماء اپنی سابقہ روایات اور طور طریق کو برقرار رکھتے ہوئے دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا، اور عالمی پیمانہ پر اہل اسلام کے لئے اس وفات جاں سوز سے پیدا ہونے والا رخنۂ خلل محسوس نہ ہوسکے گا، افسوس میں کئی سالوں سے دل کا مریض ہوں ، جس کی بناء پر وفات کے بعد تعزیت کے لئے لکھنؤ نہ جا سکا، اللہ میری اس خامی کو در گزر فرمائے‘‘۔
خاتمہ:
ایک استاذ اور شاگرد کا اتنا گہرا باہمی ربط آج کے عہد میں خال خال ہی نظر آئے گا، ایک طرف عالمی شہرت یافتہ ادیب ، مؤرخ اور مفکر اسلام جیسے خطاب کا حامل مشفق استاذ کا کردار اداکررہا ہے، تو دوسری طرف مسلک سلف کا ترجمان ، عظیم محقق و محدث، فرمانبردار شاگرد کے روپ میں تیار کھڑا نظر آتا ہے۔ رئیس الاحرار ؒ نے جب جب مسلک سلف کے دفاع میں قلم اٹھایا ، تو مولانا علی میاں ؒ نے کبھی نہیں روکا، بلکہ ہر بحث و تحقیق پر حوصلہ افزائی اور پیٹھ تھپتھپاتے نظر آئے۔
آج اس کانفرنس کے توسط سے علامہ رئیس الاحرار رحمہ اللہ کی زیست کے بے شمار پہلو نئی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہونگے، اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کے منتظمین کو جزائے خیر سے نوازے، ان کے اعمال میں برکت دے، انہیں مزید حوصلہ عطا کر، اس لئے کہ انہوں نے اپنے سلف کے اقدار کو تحفظ فراہم کرنے اور نسلوں تک منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
واللہ سمیع مجیب، و صلی اللہ علی نبینا محمد۔
*******