Friday, 14 January 2011

كلمات أعجبتني جداً‎

إذا كـــان الأمس قــد ضــاع ,,, فبيـــن يديـــك اليـــوم
و إذا كـــان اليـــوم ســـوف يــجمع أوراقــــه ويــــرحــــل ,,,فلديــــك الغــــد
لا تحـــزن علـــى الأمــس فهــو لــن يعــود
ولا تــأســف عـلـى اليـــوم فـــهـــو راحــــل
واحــــلم بــشــمـــس ٍ مضيــــئـــة فـــي غــــدٍ جمــــيــــل
مع الحرص على التطوير المستمر وأن يكون اليوم أفضل من الأمس وغدك خير من يومك
و دمتــــم بـــــود 


  


كلمات أعجبتني جداً

   
رأيت فقيراً يبكي فقلت ما الخبر ؟
قال: الأسهم تلاشت وليس لها أثر

وطلبت من الصراف سلفة فاعتذر
وكل شئ زاد سعره إلا البشر
الأغنام والجِمال والدجاج والبقر
والألبان والأجبان والفواكه والخُضر

وابن آدم لا يزال ذليلاً ومحتقر

وازداد الفقر بين العوائل والأسر

والراتب ينتهي قبل نصف الشهر

و الدنيا تسير من جرفٍ لمنحدر

فقلت له: إذا ابتليت بالهم والكدر

قم وصلِ لله ركعتين قبل السَحَر

فهو يرزق من دعاه بجناتٍ ونهر

وتأمل في الطبيعة وضوء القمر

واستمتع بشذى الورد ولون الزهر

وأعلم بأن الحياة ليست مستقر

Tuesday, 4 January 2011

اور جناردن پرساد بنے محمد سہیل

اور جناردن پرساد بنے محمد سہیل

گزشتہ سات سال قبل جناردن پرساد ورما کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور وہ محمد سہیل بن گئے، ۱۸؍ برسوں سے سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے محمد سہیل نے اپنی زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ، قبول اسلام کے بعد انہوں نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا ، اسلام کا آفاقی پیغام غیر مسلم بھائیوں تک پہونچانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھتے، ان کے ہاتوں پہ درجنوں افراد اسلام قبول کر کے سعادت بھری زندگی گزار رہے ہیں، ذیل میں ان سے کی گئی گفتگو کے اہم نکات پیش کئے جارہے ہیں۔

س: مختصر تعارف اور فیملی بیک گراؤنڈ؟
ج: میرا نام جناردن پرساد ورما تھا، ہندو گھرانے میں جنم لیا، چار بھائی اور چار بہن ہیں، آٹھ برس کی عمر سے ہی ملازمت شروع کی، گھر کی خستہ حالت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ پڑھائی اور کام دونوں ساتھ کروں گا۔اترپردیش کے خلیل آباد سے نکل کر ممبئی گیااور پڑھائی کے ساتھ ملازمت جاری رکھا، کچھ دنوں بعد میں نرنکاری ہو گیا اور پورے گھر کو بھی نرنکاری بنا دیا۔
س: نرنکاری بننے کا خیال کیسے آیا؟
ج: جن دنوں میں ممبئی میں تھا، ڈرائیونگ کے پیشہ سے منسلک تھا، ایک روز چیمبور کے علاقے سے گزر رہا تھا، دیکھا ایک وسیع پنڈال میں جلسہ ہورہا ہے، میں رکا اور لوگوں سے اس کی تفصیل پوچھی، تو لوگوں نے بتا یا کہ نرنکاریوں کا جلسہ ہے،یہ لوگ پیڑ پودوں یا پتھروں کی پوجا نہیں کرتے،انہیں بھگوان نہیں مانتے، ان کا عقیدہ ہے کہ ہر شخص کے اندر بھگوان سمایا ہو اہے، لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے،اور جسے دیکھ نہیں سکتے وہی بھگوان ہے۔اسی لئے یہاں ہر ایک شخص بغیر کسی امتیاز کے ایک دوسرے کے پاؤں چھوتا ہے،والدین اپنے بچوں کے اور بچے اپنے والدین کے پاؤں چھوتے ہیں، یہ عقیدہ مجھے اس وقت بہت بھایا، پھر میں نرنکاری ہوگیا ،گاؤں لوٹ کے آیا تو سارے گھر والوں کو نرنکاری بنا دیا، میرے گھر والے ابھی بھی نرنکاری ہیں۔
س: نرنکارسے اسلام کی طرف میلان کب بڑھا؟
ج: جب میں ممبئی میں تھا تو نرنکاری بننے کے بعد اسلامی جلسوں میں جانے کا اتفاق ہوا، ایک مرتبہ ایک جلسہ کے خطیب نے کہا: آسمانی دھرم کو ہی ماننا چاہئے، اُس کتاب پر عقیدہ مضبوط ہونا چاہئے جو آسمان سے اللہ نے اتارا ہے۔اور وہ قرآن ہے، میں چونک پڑا، پھر برابر مسلمانوں کے جلسوں میں جاتا رہا، میں نے کئی مسلمانوں سے وہ کتاب مانگی کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں، کتاب کی دکان پر بھی گیا، لیکن سب نے یہ کہا کہ تم ہندو ہو، اس لئے یہ مقدس کتاب تمہیں نہیں دے سکتے۔اسی دوران میں سعودی عرب ڈرائیونگ پیشہ کے لئے پہونچا، یہاں چند ہی دن گزرے تھے کہ میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا اور میری گاڑی سے ایک شخص کی موت ہوگئی، مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، ڈیڑھ سال کی قید ہوئی تھی، جیل میں ہی تھا کہ رمضان کا مہینہ آگیا، لوگوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر دل میں ہلچل مچی ، کہ مجھے بھی روزہ رکھنا چاہئے، پھر میں نے تجربہ کے طور پہ روزہ رکھنا شروع کیا، دلی سکون ملا، اس طرح میں نے ۲۷؍ روزے رکھے، لوگوں نے مجھے ٹوکا کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ، صرف روزہ کیوں رکھتے ہو؟ میں نے انہیں کسی طرح ٹال دیا، پھر جیل سے رہائی کے بعد اسلام کے بارے میں ریسرچ شروع کیا۔اور نرنکار سے نفرت کی ابتدا ہوئی۔
س: نرنکار سے نفرت کی وجہ؟
ج: اسلام کا مطالعہ جوں ہی شروع کیا ، نرنکار سے نفرت ہونے لگی کیونکہ دونوں نظریات کے ما بین بڑا فرق پایا، انسانوں (مرد و خواتین) کا جو احترام اور عزت اسلام میں نظر آیا ، ان کے یہاں بالکل نا پید ہے، ایک چیز سے مجھے سخت نفرت ہوئی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے پاؤں پکڑیں کیونکہ دونوں کے بدن میں بھگوان ہے، یہ فلسفہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا، مجھے لگا کہ یہ تو بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے والا مذہب ہے، اللہ معاف کرے میں نے دیکھا کہ کھلنڈرے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے پاؤں پکڑنے کی حد پار کرجاتے ہیں، ہم اللہ سے سلامتی اور عافیت کے طالب ہیں۔
س: اسلام کے بارے میں ریسرچ کے دوران کن چیزوں کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: سب سے پہلے میں نے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ حاصل کیا، کچھ کیسٹیں خریدیں، پڑھنا اور سننا شروع کیا، عام مسلمانوں سے اسلام کے بارے میں جب کچھ پوچھتا تو وہ لوگ مجھے دھتکار دیتے ، کہتے تم ہندو ہو، خاموش رہو، میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ بڑا برا سلوک کیا، ہندو سمجھ کر بھارت و پاکستان کے مسلمانوں نے مجھے بہت دکھ دیا، میرے پینے کے برتن میں گندے پانی کی آمیزش کر دیتے، میرے بستر پر کوڑا ڈال دیتے، حقارت بھری نگاہوں سے مجھے گھورتے، میں نے صبر کا گھونٹ پی کر اسلام کی حقانیت کے بارے میں تحقیق جاری رکھی، اس دوران مجھے مدینہ منورہ کا ٹرپ ملنے لگا، مدینہ شہر کا نان مسلم روڈ(حدود حرم کے باہر ) میری گزرگاہ تھا۔ اسی روڈ سے متصل ایک اونچی پارکنگ تھی، اور وہاں سے مسجد نبوی کے منارے دکھائی دیتے تھے،وہیں اپنی گاڑی روکتا اور مناروں کو تکتے تکتے سوجاتا، پھر رات میں خواب نظر آتا کہ دو سفید پوش باریش بزرگ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ چلو میرے ساتھ چلو، اتنے میں میری نیند کھل جاتی ہے، یہ خواب اسی جگہ پر میں نے بارہ مرتبہ دیکھا۔
س: اس خواب کا آپ کے دل پر کیا اثر ہوا؟
ج: مدینہ منورہ سے محبت بڑھتی گئی، جب بھی میں مدینہ سے گزرتا تو ایک رات وہاں قیام ضرور کرتا، اسلام کی طرف میلان بڑھتا گیا، سیرت نبوی کا مطالعہ کیا، اس طرح تحقیق کے سات سال گزر چکے تھے، اسلام قبول کرنے کی ٹھانی، اور ریاض کے سُلی اسلامک سینٹر میں پہنچ کر اپنے اسلام کا اعلان کیا۔
س: ماشاء اللہ ، اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ج: عقیدۂ توحید نے سب سے زیادہ متاثر کیا، ہندو دھرم میں جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لئے مخصوص بھگوان کو پکارا جاتا ہے، بارش کے لئے الگ خدا ہے تو دولت کے لئے الگ، من کی مراد پوری کرنے والا کوئی اور ہے، کچھ اسی طرح کے نظریات نرنکار میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن اسلام میں ہر چیز کے لئے صرف ایک ہی اللہ ہے، اسی سے سب کچھ مانگنا ہے، اسی سے لو لگانا ہے، ہندوؤں میں کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجانے مجھے ہندو مت سے بیزار کردیا تھا، ایک اللہ کی عبادت اور اسی پر ایمان ویقین کا مضبوط عقیدہ نے مجھے اسلام کا دیوانہ بنا دیا، دوسری چیز اسلام میں خواتین کاجو مقام و مرتبہ ہے، اتنا بلند ہے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملے گی، خواتین کے پردے کی حکمت نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔
س: قبول اسلام کے بعد خاندان کا کیا رد عمل رہا؟
ج:ابتداء میں تو والدین اور بھائیوں نے وعدہ کیا، کہ آپ گھر آئیں ، جیسا کہیں گے، ویسا کرنے کو ہم سب تیار ہیں، گھر جانے کے بعد سب کو اسلام کی دعوت دی، مگر سب اپنے وعدے سے مکر گئے ، گھر والوں نے میرے گرد گھیرا تنگ کردیا، مجھے نماز سے روکنے کے لئے اڑچنیں ڈالتے، ایک ہفتہ مسلسل کھڑے ہوکر نماز پڑھی، گھر والے میرے چاروں اور کھڑے رہتے اور ڈراتے دھمکاتے، نماز کے وقت ہینڈ پمپ کا ہتھا نکال دیتے تھے تا کہ میں وضو نہ کرسکوں، میری جائے نماز غائب کردیتے، میں نے کھیتوں میں نماز پڑھنا جاری رکھااور پورے خاندان کو سمجھاتا رہا، مگرو ہ ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔
س: آپ کی بیوی اور بچوں کا رد عمل کیا رہا؟
ج: پہلے بیوی نے تو اسلام قبول کرنے کی حامی بھر لی، میں نے اسے اسلام کی ساری تعلیمات بتائیں،مگراچانک اسے نجانے کیا ہوا کہ وہ آج کل کر کے ٹالتی گئی، اور خاندان کی دوسری خواتین اسے اکساتی رہیں اور وہ میرے خلاف بغاوت کرتی گئی، بچے بھی میرے مخالف ہوگئے، میرا بڑا لڑکا جس کا نام کنہیا لال ورما تھا،اب محمد ابراہیم ہے، میرے ساتھ آیا، اور وہ اس وقت میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، کچھ دنوں کے بعد جب خاندان والوں کو لگا کہ میں سب کو مسلمان بنا کے چھوڑونگا، تو میری بیوی اور والد صاحب نے کرایہ پر غنڈے لے کر مجھے جان سے مارنے کی سازش رچی، میں ساری زمین جائداد اور دولت چھوڑ کر خالی ہاتھ نکل پڑا، میرے بڑے بچے کے علاوہ کوئی اور ساتھ نہیں آیا۔
س: گھر چھوڑنے کے بعد آپ نے کیا کیا؟
ج: چونکہ میں سعودی عرب میں برسر روزگار ہوں، وہاں سے سعودی عرب واپس آگیا۔اور یہاں اپنے علاقے کے کچھ مخلص بھائیوں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے حوصلہ دیا، میری شادی کرادی، اور سدھارتھ نگر کے ایک قصبہ میں بسا دیا، وجزاہم اللہ خیرا۔
س: اسلام نے اخوت اور بھائی چارے کا جو درس دیا ہے، اس سے کتنا متاثر ہوئے؟
ج: مجھے کسی بھی دھرم میں اخوت اور بھائی چارے کا وہ درس نہیں ملا ، جو اسلام میں ملا،مگر حیرت اس وقت ہوئی جب اسلام کے پیروکاروں میں اسلام کا یہ درس عظیم مفقود ملا، مجھے نہیں لگتا کہ عام مسلمانوں کو دیکھ کر کوئی اسلام قبول کرے گا، مسلمانوں کو اپنی حالت میں تبدیلی لانی ہوگی، اخلاقی طور پہ اپنا کردار بلند کرنا ہوگا، تبھی اسلام کی نشر و اشاعت کا دائرہ مزیدوسیع ہوگا، مجھے اللہ کی ذات سے امیدہے کہ اسلام پوری رفتار کے ساتھ دنیا میں پھلتا پھو لتا رہے گا۔