Friday, 16 December 2011

ما معنى لله درك لله دره


كثير منا يردد (لله درك) أو ( لله در فلان ) فما معنى هذه العبارة ؟ وما أصلها ؟
شرح الرضي على الكافية - رضي الدين الأسترابادي - ج 2 - ص 70
وأما معنى قولهم : لله درك ، فالدر في الأصل : ما يدر أي ما ينزل من الضرع من اللبن ، ومن الغيم من المطر ، وهو ، ههنا ، كناية عن فعل الممدوح الصادر عنه ، وإنما نسب فعله إليه تعالى ، قصداً للتعجب منه لأن الله تعالى منشئ العجائب ، فكل شيء عظيم يريدون التعجب منه ينسبونه إليه تعالى ويضيفونه إليه تعالى ، نحو قولهم : لله أنت ، ولله أبوك ، فمعنى لله دره : ما أعجب فعله .

لسان العرب - ابن منظور - ج 4 - ص 279
وقالوا : لله درك أي لله عملك يقال هذا لمن يمدح ويتعجب من عمله ، فإذا ذم عمله قيل : لا درّ درّه. وقيل : لله درك من رجل معناه لله خيرك وفعالك ، وإذا شتموا قالوا : لا درّ درّه أي لا كثر خيره ، وقيل : لله درك أي لله ما خرج منك من خير . 
قال ابن سيده : وأصله أن رجلاً رأى آخر يحلب إبلاً فتعجب من كثرة لبنها فقال : لله درّك ، وقيل : أراد لله صالح عملك لأن الدر أفضل ما يحتلب ، قال بعضهم : وأحسبهم خصوا اللبن لأنهم كانوا يقصدون الناقة فيشربون دمها ويقتطونها فيشربون ماء كرشها فكان اللبن أفضل ما يحتلبون .

Wednesday, 30 November 2011

تحديد يوم عاشوراء-- السعودية 1433

تحديد يوم عاشوراء

موقع فضيلة الشيخ الدكتور سعد بن تركي الخثلان » الأخبار » فتاوى

عنوان الفتوى تحديد عاشوراء لهذا العام1433هـ
رقم الفتوى841
بتاريخ :
الإثنين 03-01-1433 هـ 10:47 مساء
السؤال
متى يكون يوم عاشوراء
لهذا العام (1433هـ) ؟

الجواب:

لم يثبت دخول شهر محرم ليلة السبت الماضي وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين) وعليه فإن يوم الأحد هو غرة شهر محرم ( أي بعد تقويم أم القرى بيوم)، وبذلك يكون يوم عاشوراء هو يوم الثلاثاء11/1/1433هـ حسب تقويم أم القرى والذي يوافقه6/12/2011م والسنة أن يصام يوم قبله أو يوم بعده. والله الموفق
رابط الموقع

ملاحظة...مهمة
" انشرو الفتوى لان فيه من الناس من يحسب عاشورا حسب التقويم الاثنين فيصوم الاثنين وقبله الأحد فيصبح صام 9 و 8 فقط
او يصوم الاثنين فقط ويصبح صام 9 فقط ولم يصم عاشوراء

Saturday, 19 November 2011

کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات

کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات
نوٹ: یہ مضمون ممبئی کے ماہنامہ فری لانسر کی خصوصی اشاعت’’ علماء بیزاری نمبر‘‘(نومبر ۲۰۱۱ء) میں شائع ہوچکا ہے۔ 
عبد ا لصبور ندوی جھنڈا نگری
بات چل نکلے تو ۔۔۔کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات۔ سو آج کل ہر طرف ’’تبدیلی‘‘کی بات ہو رہی ہے،کاہے کی تبدیلی؟ یہ بات پوچھ بیٹھئے تو ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ سنائی دیں گی۔ چہرے کی تبدیلی، پارٹی کی تبدیلی ، جمعیت کی تبدیلی،کردار کی تبدیلی،بر سر اقتدار افراد کی تبدیلی،نظام اور سسٹم کی تبدیلی یا اپنے ذاتی حالات کی ؟ خیر یہاں پر جو گفتگو کی جارہی ہے وہ ہے علماء کے کردار کی تبدیلی، لوگ منہ پہ آئی بات بے جھجھک کہہ اٹھتے ہیں:’’آج کے مولویوں سے اللہ کی پناہ‘‘۔ لیکن کیا اس کے باوجود بھی لوگ علماء سے بیزار ہورہے ہیں، اپنا تعلق توڑ رہے ہیں؟ اس لئے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ در حقیقت لوگ علماء سے بیزار ہیں یا نہیں؟ یا صرف سماج کا ایک طبقہ بعض علماء کی بد اعمالیوں اور دھاندلیوں کو دیکھ کر حیران و پریشان ہے۔
سچائی یہ ہے کہ اس دور میں علمائے سوء کی کثرت کے باوجود عوام الناس کی اکثریت علماء کو ہی قبلہ و کعبہ سمجھتی ہے، اور علماء بیزاری مخصوص مہم کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے، ہاں یہ بات پورے وثق سے کہی جاسکتی ہے کہ علماء کی ایک اچھی تعداد اپنا حقیقی منصب و مقام بھول کر مقدس نبوی مشن سے دامن چھڑانے پر آمادہ ہے، اور یہ چیز عوام سے زیادہ صحیح الفکر علماء ہی سمجھ سکتے ہیں۔
جب قول و فعل میں تضاد کی بہتات ہونے لگے ، کتمان حق ، احقاق باطل ، عیاری اور بیہودہ سیاسی داؤں پیچ علماء کا شعار بننے لگے، منصب اور عہدوں کا استحصال ہو ، تو عوام محسوس کرتی ہے کہ کچھ غلط ہورہا ہے، علماء کے کردار پر یہ رنگ نہیں سجتے، علماء کو انفرادی شناخت بنانی چاہئے اور علمائے سوء کی جگہ مخلص علماء کو آنا چاہےئے، اور منہ تک آئی بات کہاں رکتی۔ آئیے ذیل کی سطور میں دیکھیں کہ لوگ کن قسم کے علماء سے بیزار ہیں اور ایسے علماء کے بارے میں شریعت مطہرہ کیا حکم صادر کرتی ہے:
علمائے سوء اور ان کی صفات:
علمائے سوء وہ لوگ ہیں جو قرآن و حدیث کے احکام و مسائل پر دسترس رکھتے ہیں مگر اللہ کی آیتوں کو معمولی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں، جیسا کہ اہل کتاب کے علماء کا شعار تھا۔ اور یہ لوگ مذہب اسلام کے لئے نہایت خطرناک ہیں انکی شکلیں اور صفات ملاحظہ کریں: 
۱۔ باطل کی شکل میں حق کا اظہار کرنے کی بھر پور قدرت رکھتے ہیں ، شرعی اصطلاحات جیسے مطلق مقید، مجمل مفسر میں الجھا کر اور شاذ اقوال کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں ، ظالم کی مدد اور مظلوم کی رسوائی کا سامان ایسے ہی علماء تیار کرتے ہیں۔
۲۔ فتویٰ اور قضاء کے میدان میں اونچے مناصب ملتے ہیں اور اپنے غلط فتوؤں کے ذریعے عوام کو فتنے میں ڈالتے ہیں جس پر ذرائع ابلاغ انکی ستائش کرتے ہیں اور یہ بُرے علماء پھولے نہیں سماتے ۔ موجودہ زمانے میں یہ بہت عام ہے۔
۳۔ منصب اور مال کے حصول کے لئے اللہ کی کتاب اور اس کے احکامات کو توڑمروڑ(تحریف) کر پیش کرنا علماء سوء کا وتیرہ ہے۔ یہ لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے کر پورے سماج کو ایک بڑے اختلاف اور فتنے میں ڈال دیتے ہیں۔
۴۔ قول و عمل میں تضاد: علامہ اب قیم ؒ کہتے ہیں :’’علمائے سوء اپنے اقوال کے ذریعے جنت کے دروازے پر بیٹھ کر بلاتے ہیں اور اپنے اعمال کے ذریعے انہیں جہنم کی طرف ہانک رہے ہوتے ہیں ، جب جب ایسے لوگ زبانی دعوت دیتے ہیں تو ان کے اعمال چیخ پڑتے ہیں کہ اس کی بات نہ سُن‘‘۔
علماء کا سماج میں بڑا عظیم مقام و مرتبہ ہے ، مگر افسوس علماء جب عوام کی طرف سے بے پناہ عزت واحترام اور محبت پاتے ہیں تو وہ لالچی کی حیثیت سے اس عوامی ثقاہت کو موقع پرست بن کر بھنانے میں لگ جاتے ہیں ، جو آگے چل کر امت کے درمیان تفرقہ اور فساد برپا کرتے ہیں ، آپ ایسے لوگوں کو ان علامات سے پہچان سکتے ہیں:
علمائے سوء کی علامتیں
۱۔ ان کے دلوں سے اللہ کا خوف ختم ہوجانا، اور جس کے دل سے اللہ کا خوف ختم ہوجائے وہ عالم نہیں ہوسکتا، اللہ فرماتا ہے ’’انما یخشیٰ اللہ من عبادہ العلمآء‘‘(فاطر:۲۸)
۲۔ دلوں میں کجی کے باعث شکوک و شبہات کی پیروی اور فتنہ طلبی۔
۳۔ علم کو چھپانا، چاہے وہ شخصی مصلحت کے لئے ہو یا خوف اور بزدلی کے نتیجے میں، ایسے لوگوں کی اللہ نے سخت مذمت کی ہے۔
۴۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا۔ اور یہ علامت مولویوں میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔
۵۔ امراء و حکام و افسران کے پاس کثرت سے جانا ان کی خوش آمد و چاپلوسی کے ذریعے احکامات کو مروڑ کر پیش کرنا۔
۶۔بلا وجہ کی لڑائیوں اور اختلافات کو جنم دینا جو امت کی تفریق کا سبب بنے۔
۷۔معصیت کا مسلسل ارتکاب اور بدعت و خرافات سے لگاؤ بڑھ جانا۔
۸۔ ہفوات و بکواس کی پیروی نیز شخصیات و جمعیات کی بلا وجہ تجریح و تفسیق۔
۹۔ لوگوں کے سامنے کبر وغرور کا انداز اپنانا۔
۱۰۔ لوگوں سے چندے اکٹھا کرکے اپنی بنیاد مضبوط کرنا اور حساب مانگنے پر کہنا: کہ حساب تو اللہ کو دون گا۔
یحیٰ بن معاذ ؒ دنیا طلب علماء سوء کو خطاب کر کے کہتے ہیں:’’ اے علم والو! تمہارے محل تو قیصر کے محل ہوگئے، تمہارے گھر کسریٰ کے گھر ہو گئے، تمہارے کپڑے شاہی ہوگئے، تمہیں جالوتی پَر لگ گئے، تمہاری سواریاں قارونی ہوگئیں،تمہارے برتن فرعونی ہوگئے،تمہارے گناہ جاہلیت کو پچھاڑ گئے، تم نے شیطانی راستوں کو چُنا، آخر کہاں گئی شریعت محمدیہ؟
حافظ ابن مبارکؒ کہتے ہیں: وھل أفسد الدین الا الملوک وأحبار سوء و رُھبانہا (کیا دین کو بادشاہوں ، بُرے علماء اور راہبوں نے خراب نہیں کیا؟)
علمائے سوء کا اُخروی انجام:
اسامہ بن زید ؒ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا،پھر اس کی انتڑیاں نکالی جائیں گی اور اسے گھمایا جائے گا، جس طرح گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے، اسی اثناء جہنمی اس کے گرد جمع ہونگے اور پوچھیں گے کہ تمہیں کیا ہوگیاتم تو لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے تھے،اور بُرائیوں سے روکتے تھے،وہ عالم کہے گا: جس بھلائی کا حکم دیتا تھا اس کو خود نہیں کرتا تھا، جس بُرائی سے لوگوں کو میں روکتا تھا وہی بُرائی میں کرتا تھا‘‘(بخاری، مسلم)
دوسری حدیث میں اللہ کے نبیﷺ فر ماتے ہیں: ’’ معراج کی رات کچھ لوگوں کو دیکھاجن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطباء(مقررین) ہیں،جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور خود کو بھول جاتے ہیں اور وہ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں‘‘(الصحیحہ للالبانی: ۲۹۱)
خاتمہ:
محترم قارئین! علمائے سُوء ہر دور میں رہے اور حق کو دبانے کی ہمیشہ کوششیں کیں، معتصم کے زمانے میں جب خلق قرآن کا فتنہ اٹھا، امام أحمد بن حنبلؒ کے سوا سارے علماء نے ہار مان لی تھی یا خاموش ہوگئے تھے، چنانچہ درباری ملاؤں نے امام أحمد کو سزا دلانے کی ٹھانی، ابن أبی داؤد اور مُریسی جیسے چاپلوس اور دنیا دار علماء نے امام احمد کو پابند سلاسل کرایا، پس زنداں دھکیل دیا گیا، ایسی اذیت ناک سزائیں دی گئیں جن سے آپ کا بدن ہمیشہ لہو لہان رہا،مگر اس فتنے میں وہ ثابت قدم رہے اور اسلامی عقیدے کی پاسبانی میں سارا دکھ جھیلا۔ آج بھی ابن أبی داؤد اور مُریسی جیسے دنیا دار علمائے سوء کی کمی نہیں ہے، ہمارے چاروں طرف ایک بڑی تعداد ایسے علماء کی نظر آرہی ہے جو عوام کو بے وقوف بنا کر بیزاری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ آج جماعتی پرچوں کا بھی بُرا حال ہے، جیسے ’صوت الحق‘ اور التبیان‘ کے ما بین دینی صفحات پر ذاتیات کو لیکر بحث وتکرار کی بے جا نمائش لگی ہوئی ہے، صفحے کے صفحے سیاہ کئے جارہے ہیں، جواب در جواب اور اوچھے جملے عام قارئین کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ یہ علماء در اصل نہ محراب و منبر کے حقدار ہیں اور نہ ہی عوام کے احترام و محبت کے۔
اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ علمائے امت کو اپنی اصلاح کی توفیق دے، اُن کا ظاہر و باطن ایک ہوجائے ، اپنے نفس کے محاسبہ کی توفیق ہو اس سے قبل کہ اللہ سخت محاسبہ کرے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

Monday, 17 October 2011

ايقاف الشيخ علي الحذيفي من امامة الحرم النبوي


ايقاف الشيخ علي الحذيفي من امامة الحرم النبوي



मस्जिदे नबवी  के इमाम शैख़ अली हुजैफी ने सौदिअरब के आतंकी शीओं के खिलाफ जुमा का खुतबा देने के बाद उन पर सौऊदी सरकार ने इमामत व खिताबत पर पाबंदी लगा दी है.
نقلا عن قناة بيان الفضائية : إيقاف الشيخ علي بن عبدالرحمن الحذيفي من إمامة الحرم النبوي بسبب خطبته الجمعة الماضية.

حيث دعا فضيلة الشيخ علي بن عبدالرحمن الحذيفي إمام وخطيب المسجد النبوي الشريف في خطبة الجمعة أمس إلى سحب الجنسية من مثيري فتنة الشرقية وإرسالهم لسرداب أبوصالح، محمد بن الحسن العسكري، مؤكداً فضيلتة أن مثيري الفتنة تمتعوا بحقوق المواطنة الكاملة.

وقال إن ما وقع في هذا الأسبوع من فتنة في قرية من قرى شرق المملكة قام بها شباب مغرر بهم استخدموا في هذه الفتنة دراجات نارية وقنابل وقاموا بإثارة شغب وفوضى روعت المواطنين الذين في تلك القرية فقام رجال الأمن المجاهدون في سبيل الله المرابطون لنصرة الإسلام المتصدون لفتنة كل مجرم مفسد يريد أن ينشر الفوضى ويمس أمن المواطنين والمقيمين، قاموا بإطفاء تلك الفتنة الخاسرة الخائبة وأصيب بعض رجال الأمن شفاهم الله من جراحهم وأثابهم أحسن الثواب على صدهم للباطل ودحرهم للمفسدين.
Video LInk: khutba:  http://www.youtu.be/jJv_EqpSm_E

Thursday, 29 September 2011

Muslim leader Faizan Ahmed Falahi shot dead in broad daylight in downtown

Muslim leader Faizan Ahmed Falahi shot dead in broad daylight in downtown


SUNDAR KHANAL
KATHMANDU, Sept 26: In yet another broad daylight incident that challenged security of the capital even more blatantly, Faizan Ahmed Falahi, a young Muslim community leader, was shot dead by two unidentified gunmen in the heart of the city on Monday afternoon.
The 41-year-old general secretary of Islami Sangh Nepal (ISN) was gunned down at about 1:45 pm in front of the Tri-Chandra Campus as he was returning to his ISN office at Durbar Marg after a regular nawaj prayer session at Nepali Jame Masjid at Ratnapark. He was declared dead upon arrival at Bir Hospital nearly half an hour after the incident.
The mysterious shooting is third such in 2011. The latest incident in the series features a Muslim victim as in the previous two cases -- the central jail shooting of Yunus Ansari and the shooting of a Pakistani embassy official.
The assailants had riddled Faizan with bullets after having waited for at least an hour at the corner facing Kamaladi area.
Eyewitnesses painted the sequence of events as something seen in a gangster movie.
"I was walking just behind the plump guy as the two assailants neared him and simultaneously opened fire. The bullets hit his body from leg to the head in measured shots. I was shocked and fled the scene as I saw blood spurting from the gunshot wounds before he collapsed," said Ananda Chaudhary, a student at Tri-Chandra College.

The assailants put their weapons, which appeared bigger than revolvers, back on their sleeves and made their way toward Kamaladi in a normal gait. "They kept left toward the Heritage Plaza alley. All the people seeing the whole incident could do nothing but looked on until the assailants were out of sight," said Pradip Tiwari, a staffer of an educational consultancy office in the same place.

A resident of Vokraha VDC-2 in Sunsari district, Faizan had been the general secretary of ISN for last four years and was waiting for the general assembly election due next month. He obtained a master´s degree in economics from the International Islamic University in Islamabad, Pakistan in 2003. Before that, he had done his higher studies in India and obtained his first master´s degree in Muslim Studies from Aligarh University.
"He was a well-educated, dynamic personality and a very benevolent man. He came to Kathmandu after teaching in his own village for a few years," said Allhauddin Ansari, a ISN member who looks after the Alheera Educational Society, a ISN wing.
Faizan was an influential member of ISN often participating in the programs abroad.

"We conducted prayers together. The news of the tragedy came to us within a few minutes he moved out of the Masjid," said Allauddin, a close friend and relative of Falahi.
Ansari is survived by his wife, two sons and a new-born daughter.

Pathetic security
The incident took place in a stone´s throw from Metropolitan Police Commissioner´s Office (MPCO) and quite near from the Durbarmarg police station. A few cops were also stationed at the entrance of the Tri-Chandra Campus for the ongoing Tribhuvan University exams.
The first response from police came with the arrival of one policeman about 10 minutes after the incident, said eye witnesses.
"The assailants could have been easily nabbed had they been chased immediately," said witnesses.
"We are seriously investigating the incident, "said SSP Madhav Nepal, the MPCO spokesperson.
What is Islami Sangh Nepal?

Islami Sangh Nepal (ISN), an NGO established in 1985, has been working in the field of Islamic education, healthcare, and construction of mosques, schools and madrasas in Nepal.
According to ISN President Nazrul Hasan Falahi, the NGO´s goal is to "serve all human beings, especially the needy, and make Allah happy".
ISN has an eight-member central committee, five major sister organizations -- Students´ Education Foundation (SEF), Human Development Academy (HUDA) Nepal, Al-Hera Educational Society Nepal, Masjid Council Nepal and Health Services and Releif Association (HESRA) -- involved in social welfare activities.
According to Falahi, ISN has been running 13 schools that provide free modern education including Islamic education to poor Muslims but it charges the well-to-do.
Besides, ISN sends Muslim students to two universities each in India and Bangladesh for higher education. The scholarship in Bangladesh is full while it is partial in the Indian university.
The NGO is also involved in heathcare. It has been running a 15-bed hospital -- Bhutaha General Hospital and Maternity Clinic -- in Sunsari. The Bhutaha hospital is supported by Islamic Development Bank based in Jeddah, Saudi Arabia.
Asked about the source of funding at the NGO, Falahi said, "We, the members, pay zakat (alms) as well as raise funds from various Gulf countries both at individual and organizational levels to run ISN."

Who was Faizan Ahmed?
Faizan Ahmed, 41, hailed from Sunsari and had been the general secretary of ISN for the last four years. He did his bachelor´s degree and received Islamic education from India and completed his master´s in economics from the International Islamic University, Islamabad.
He then worked as the principal of Helal Public School, Ghuski, Sunsari for six years.
According to Falahi, Ahmed who was the youngest among his five bothers.
Falahi said that Ahmed was very gentle with friends. "I used to suggest to him to be strict in maintaining discipline in ISN but he never became so," remembered Falahi.
According to Ahmed family members, he did not have dispute with anyone either in family or in office.

Murder condemned
In the meantime, ISN President Nazrul Hasan Falahi has condemned the murder and has termed it as a conspiracy to disturb the religious harmony in Nepal.
"The attack might have been carried by those who do not want peace and religious harmony in the country and those who are blindly against Islam," said Falahi, demanding the government to book the murderers through an impartial investigation.
He termed the murder of Ahmed as an attack on entire groups that have been working for peace and development in the country.
Meanwhile, Deputy Prime Minister and Minister of Home Affairs Bijay Kumar Gachchhadar assured Ahmed´s family that the guilty would be nabbed and punished. He also said he would bring a proposal in the cabinet for providing compensation to the bereaved family and to declare Ahmed a martyr.
The home ministry has also agreed to bear the expenses for taking the body to Sunsari, the home district of the deceased.

Monday, 6 June 2011

مغرب میں قبول اسلام کابڑھتارجحان Video



ایک تازہ تحقیق کے مطابق نائن الیون کے بعد اسلام کے منفی تاثر کے باوجود اسلامی کتب اور قبول اسلام کی شرح باسٹھ فیصد تک بڑھ گئی ہے۔

Saturday, 28 May 2011

مظاهرات الروافض (أولاد ابن سبا) في لندن لوضع الحرمين تحت إمرة الأمم المتحدة

الحمد لله الذي كشفهم على حقيقتهم
أين من كانوا يدافعون عنهم ويقولون أنهم طيبين ومسالمين
تعالوا لتروهم على حقيقتهم وحقيقة قذارتهم
اللهم ابعد عنا الفتن ماظهر منها وما بطن وامنا في اوطاننا واصرف عنا شرار خلقك
مظاهرات في لندن لوضع الحرمين تحت إمرة الأمم المتحدة
خطه شيعيه يهوديه امريكيه لتدنيس الكعبه - ياناس يااهل سنة محمد .
نسأل الله أن يحفظنا والمسلمين من كيد الحاقدين
حسبنا الله ونعم الوكيل

يريدون أن تكون مكة والمدينة تحت أيدي الكفار وتشرف عليها الأمم المتحدة !! هل هذا إسلامهم الذي ينسبونه إلى آل البيت وهم بريئون منهم!!

مظاهرات الروافض (أولاد ابن سبا) في لندن لوضع الحرمين تحت إمرة الأمم المتحدة
يلعنون الصحابة ويجعلونهم ضمن إبليس وفرعون

جدول الأنبياء وجدول للأعداء
لا يخفون طلبهم لتحويل الأمر للأمم المتحدة



Tuesday, 10 May 2011

ربڑ (Eraser)کا استعمال کرنا سیکھئے


بیٹے  کی شادی سے اگلے دن باپ اُس کے گھر مبارک باد دینے پہنچ گیا۔ باپ کی اچانک آمد پر بیٹا خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ سلام و دعا اور نیک خواہشات کے تبادلوں کے بعد باپ نے بیٹھتے ہی بیٹے سے کاغذ اور پنسل لانے کو کہا۔
بیٹے نے کہا، ابا جی، میں نے شادی سے قبل گھر میں ضرورت کی لگ بھگ ہر چیز نئی خرید کر ڈالی ہے مگر شاید کاغذ اور پنسل خریدنا یاد نہیں رہا۔
باپ نے کہا، خیر ہے کوئی بات نہیں، ابھی جا کر کسی دُکان سے کاپی، پنسل اور ربڑ (Eraser) لیتے آؤ۔
حیرت کے ملے جُلے تأثرات کے ساتھ بیٹا بازار سے جا کر کاپی پنسل اور ربڑ خرید لایا، یہ مطلوبہ چیزیں اپنے والد کے سامنے رکھتے ہوئے اُس کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گیا۔
باپ نے یہ چیزیں واپس بیٹے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا؛ لکھو!
بیٹا؛ کیا لکھوں؟
باپ: جو جی میں آئے لکھ ڈالو۔
باپ کی بات کا مطلب نا سمجھ آنے کے باوجود بھی حکم کی تعمیل میں بیٹے نے کاپی پر اپنی طرف سے ایک جملہ لکھ ڈالا۔ باپ نے بیٹے کا جُملہ مکمل ہوتے ہی مٹانے کا کہہ دیا۔ نوجوان نے بغیر کسی ردو کد کے جملہ مٹا ڈالا۔
باپ؛ لکھو۔
بیٹا؛ ابا جی آخر کیا لکھوں؟
باپ؛ جو جی میں آتا ہے لکھ ڈالو۔
بیٹے نے ایک با ر پھر اپنی طرف سے کاپی میں ایک جملہ لکھ ڈالا۔ جُملہ مکمل ہوتے ہی باپ نے ایک بار پھر اِسے مٹانے کو کہا۔ نوجوان نے اس بار پھر حیرت کے ساتھ ربڑ اُٹھائی اور اپنا لکھا ہوا جُملہ مٹا ڈالا۔
باپ؛ لکھو۔
بیٹا؛ ابا جی، خُدا کیلئے کُچھ تو بتائیں کہ میں آخر کیا لکھوں؟
باپ؛ جو جی میں آتا ہے لکھو۔
بظاہر باپ کا رویہ سمجھ نہ آنے کے باوجود بھی بیٹے نے ایک بار پھر کاپی میں ایک جُملہ لکھا۔
جُملہ مکمل ہوتے ہی باپ نے ایک بار پھر مٹا دینے کو کہا اور بیٹے نے مزید حیرت و استعجاب کے ساتھ مگر بلا توقف اُسے مٹا ڈالا۔
باپ نے نظریں اُٹھا کر بیٹے کو دیکھا، اپنا ہاتھ شفقت کے ساتھ اُسکے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا؛ بیٹے، کُچھ اس طرح ہی شادی کی مثال ہوتی ہے۔ شادی کے بعد ہمیشہ ایک ربڑ (Eraser)کی ضرورت پڑتی ہے۔ ربڑ اپنے ساتھ رکھو تاکہ شادی کے صفحات پر کُچھ معیوب اور مزاج سے مُخالف بات نظر آئے تو اُسے مٹا ڈالو اور تیری بیوی بھی ایسا ہی کرتے ہوئے تیری خامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر اپنی کتاب سے اُن نا پسندیدہ رویوں اور واقعات کو مٹا ڈالا کرے۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ کاپی کُچھ ہی دنوں میں گُڈ مُڈ لکیروں اور سیاہی کے بھدے داغوں سے بھر جائے گی۔
بلکہ تھوڑی سی سمجھداری اور دانائی کے ساتھ زندگی گُزارنے سے تو کاپی پنسل اور ربڑ خریدنے پر خرچ کیئے جانے والے پیسے بھی بچائے سکتے ہیں۔ زندگی میں کئی ایسے معمولی واقعات پیش آ جاتے ہیں جن پر غور و خوض کرنا بھی محض اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا بگڑ جائے گا اگر ان واقعات کو نظر انداز کر تے ہوئے بندہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو خوشی اور خوبصورتی کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے گُزارے۔ تلخ یادوں اور فضول حجتوں کو پلے باندھنے کی توانائی بچا کر زندگی کو اُسکی اصلی لذت اور بھرپور مسرتوں کے ساتھ گزارے۔
عرب کہا کرتے ہیں کہ کسی قوم کا جاہل شخص اُس قوم کا سردار تو نہیں ہوا کرتا مگر سردار قوم کی جہالتوں کو صرف نظر کرنے والا ضرور ہوا کرتا ہے۔
اور اِسی بات کی تائید امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس قول میں کرتے نظر آتے ہیں کہ: اخلاق کا حسن اور خوبصورتی دس میں سے نو حصے تو نظرا انداز کرتے رہنے میں ہے۔
اور نظر انداز کر دینے کا مطلب علم اور ادراک رکھتے ہونے کے باوجود بھی غیر ضروری اور معمولی توجہ کے قابل معاملات پر غور و خوض کرنے سے اجتناب کرنا ہوتا ہے۔ یا سادہ الفاظ میں اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ تم کسی معمولی واقعہ کے بارے میں جانتے تو ضرور تھے مگر اسکے اضرار و نقصانات اور فتنہ سے بچنے کی خاطر ان پر غور و خوض اور صرفِ توانائی کرنا بہتر نا جانتے ہوئے نظر انداز کیا۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جس طرح کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدح سرائی میں کہا جاتا ہے کہ آپ گھر میں تو ایک لومڑی کی مانند (لا تعلق اور مداخلت نہ کرنے والا) مگر گھر سے باہر ایک شیر کی مانند تھے۔
اسکا یہ بھی مطلب بنتا ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح میں وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات سے تغافل برتتے تھے تاکہ اُنکے علم و ادراک ہونے کے با وجود بھی مُخل ہونے سے اہل خانہ یا دوسرے لوگوں کے جذبات و احساسات مجروح نا ہوں۔ یا اُنکی مُخل اندازی دوسروں کی طبیعت پر گراں نا گُزرے۔ یہاں یہ بات شدت کے ساتھ ذہن میں رکھی جائے کہ یہ سب باتیں اُن اُمور سے متعلقہ ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور احکامات شرعیہ کے متصادم ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا تھا۔
اور اِسی بات کی طرف ہی تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے کہ (مسلم کی روایت کردہ ایک حدیث مبارک کا مفہوم) کوئی مومن یا مومنہ اس حالت میں ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہو رہے ہوتے کہ اُن کے درمیاں کسی بات پر نفرت و ناراضگی تھی اور اب وہ آپس میں راضی نا ہو چکے ہوں۔
یہ اصول صرف شادی شدہ لوگوں پر ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ کے ہر شعبہ میں ہی اسکی ضرورت ہے۔ بس اتنا خیال رکھا جائے کہ ہر شخص، ہر معاملہ یا ہر کام کو اُسکی ضرورت اور اہمیت کے مُطابق ہی قدر و منزلت دی جائے تاکہ ہم کسی کی اہمیت اور فوائد کو کھو نا بیٹھیں۔ اور اس بات کا بھی خاص دھیان رہے کہ ہم ربڑ کا استعمال کہیں خوبصورت یادوں کو یا کسی کے احسانات اور مہربانیوں کو محو کرنے میں نا کر بیٹھیں۔

Tuesday, 26 April 2011

رئیس الأحرار ؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقالہ بعنوان:

رئیس الأحرار ؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ
بہ مناسبت کل ہند سمینار بعنوان’’علامہ محمد رئیس ندوی ؒ ۔حیات و خدمات‘‘

ڈومریا گنج، سدھارتھ نگر، یوپی
منعقدہ:۲۰۔۲۱؍ اپریل ۲۰۱۱ء

زیر اہتمام: ضلعی جمعےۃ اہل حدیث سدھارتھ نگر


مقالہ نگار:

عبد ا لصبور ندوی جھنڈا نگری
مدیر سہ ماہی’’ترجمان السنۃ‘‘ رچھا، بریلی


مقدمہ:
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد:
محترم صدر مجلس، علمائے کرام اور معزز حاضرین!
ذہبئ وقت، فقیہ ملت ممتازعالم دین ، شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد رئیس الأحرار ندوی کے سانحہ ارتحال نے جماعت اہل حدیث کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، دو سال قبل ۲۰۰۹ء میں ندوی صاحب کے انتقال نے سلفیان عالم کو غم زدہ کردیاتھا، جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ یہ شخصیت علمی کمالات کا مرجع تھی، معلومات کا سمندر تھی، ان کے سامنے گفتگو کرنے والے بہت محتاط رہتے تھے، اسٹیج پر ان کی موجودگی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی، ان کے قلم کو وہ اعتبار حاصل تھاکہ عوام و خواص نام دیکھتے ہی ان کی تحریروں کو سند حجت مان لیتے تھے، یہ سلفیت کے وہ عظیم داعی و مناد تھے، جن سے ہندوستان میں اہلحدیثیت ہمیشہ برگ و بار لاتی رہی، سنت کے نام پر باطل نے بارہا سنت کی شکل مسخ کرنے کی کوشش کی، اس عظیم مبلغ نے تحفظ سنت کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں۔ انکار حدیث کے بڑھتے فتنے کو لگام کسنے میں سنت کے اس ہنر ورکاکردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
رئیس الاحرارؒ چونکہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے تربیت یافتہ تھے اور ان کے مشہور اساتذہ کی فہرست میں ایک بڑا ہی مشہور اور روشن نام سر فہرست ہے، جنہیں دنیا مولانا علی میاں ندو یؒ کے نام سے جانتی ہے، رئیس الاحرار صاحب کا ان سے بڑا گہرا تعلق تھا،استاذ اور شاگرد اپنی جگہ پر، دونوں باہم ایک دوسرے کے معاون تھے، زمانۂ طالبعلمی میں ندو ی صاحب مولانا علی میاں کے نور نظر بنے ہوئے تھے، بہت سارے امور مولانا علی میاں کے مشورے سے ہی انجام دئے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوا کہ ندوی صاحب ؒ کے مولانا علی میاںؒ سے جو تعلقات تھے، ان پر روشنی ڈالی جائے۔
ضلعی جمعےۃ اہل حدیث سدھارتھ نگرکے با حوصلہ و مخلص ذمہ داران کی شب و روز کاوشوں اورجہد پیہم کی بدولت آج ’’علامہ محمد رئیس ندوی ؒ ۔حیات و خدمات‘‘کے موضوع پر شاندار کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا،اس انعقاد پرہم تمام ذمہ داران خصوصا اس کانفرنس کے محرک اور کنوینر عم گرامی مولانا عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کو ہدےۂ تبریک پیش کرتے ہیں، اور اس عظیم شخصیت کے متعلق بحث و مباحثہ نیز تالیف و تحقیق کا میدان ہموار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، وجزاہم اللہ خیرا
رئیس الاحرار ندوۃ العلماء میں بحیثیت طالب علم:
ابتدائی و متوسطہ کے بعد رئیس الاحرارؒ نے مرحلۂ عالمیت و فضیلت کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا، سن ۱۹۵۴ء میں وہاں پہونچے، آپ کی زبردست ذہانت اور فطانت سے وہاں کے اساتذہ بیحد متاثر ہوئے، خصوصا مولانا علی میاں ندویؒ آپ کی صلاحیت و قابلیت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ آپ کی ہر تحقیق کو سراہتے اور ہمت افزائی کرتے۔بحث و تحقیق کے شوق نے آپ کو مولانا علی میاں کا محبوب بنا دیا تھا۔ایک مربی و مشفق کا رشتہ استوار ہوا، آپ ان کی مجلسوں میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔چونکہ ندوہ میں نصابی کتب پر فقہ حنفی کا رنگ غالب تھااور مولانا رئیس الاحرار ایک ٹھیٹھ سلفی طالب علم تھے، متعدد مسائل پر اختلافی بحث جب بڑھ جاتی تو اساتذہ مولانا علی میاں سے شکایت کرتے، مولانا بڑی شفقت کے ساتھ آپ کو سمجھاتے کہ ان سے نہ الجھا کرو، مجھ سے اس مسئلہ پر بحث کر لیا کرو، چنانچہ آپ اپنے استاذ مولانا علی میاں سے بحث و مناقشہ کرتے اور مولانا آپ کے دلائل کے آگے سر تسلیم خم کردیا کرتے ۔
مولانا علی میاں کا مشورۂ تالیف:
ندوہ میں دوران تعلیم مولانا علی میاں نے آپ کو تاریخ یہود پر ایک کتاب تالیف کرنے کا مشورہ دیا،چنانچہ آپ نے بلا تاخیر اس موضوع پر کام شروع کردیا، ندوہ کی جنرل لائبریری اس عمل کا مرجع تھی، لیکن اس وقت طلبہ کے لئے دو سے زائد کتب کے ایشو کی اجازت نہیں تھی، اور اس عظیم الشان کام کے لئے بیک وقت درجنوں کتابوں کی موجودگی ضروری تھی۔مولانا علی میاںؒ نے لائبریرین کو رقعہ لکھ کر حکم دیا کہ حامل رقعہ کو جتنی بھی کتابیں درکار ہوں، ایشو کردیا کریں۔ پھر آپ نے تیزی کے ساتھ تاریخ یہود لکھنی شروع کردیا۔
رئیس الاحرار ندوۃ العلماء میں بحیثیت مدرس:
۱۹۶۰ء میں ندوہ سے فراغت کے بعد آپ مولانا علی میاں کے مشورے سے ندوہ کی شاخ مدرسہ عالیہ بدریہ اُسکا بازار(بستی)میں ایک سال کے لئے بحیثیت مدرس پہونچے، درمیان سال ہی میں آپ کو گٹھیا کی شدید بیماری لاحق ہوئی، رئیس الاحرار صاحب نے راقم کی ڈائری میں اس تعلق سے لکھا ہے: ’’استاذ محترم مولانا علی میاں ندوی نے مجھے فورا لکھنؤ بلوایا اور اس وقت کے بہترین معالج ڈاکٹر فریدی (بانی مسلم مجلس) سے کہہ کر میرا علاج شروع کردیا، میں ایک ہی عشرہ میں صحت یاب ہوگیا، پھر کہا: میں تمہیں ہلکے ہلکے دو تین اسباق دلا دے رہا ہوں، تم اس سال یہیں پڑھاؤ، اور ’تاریخ یہود‘ جو میرے مشورہ کے مطابق لکھ رہے تھے، اسے مکمل کر لو، پھر میں تمہیں نیپال کے مشہور سلفی مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر بھیج دوں گا، میں یہ کتاب تاریخ یہود مکمل کی ، مگر افسوس کہ طبع ہوئے بغیر کسی بد نظر کی بد نظری کا شکار ہو کر ضائع ہوگئی۔‘‘
رئیس الاحرار احمدیہ سلفیہ(دربھنگہ) میں:
ندوہ میں تدریس کے بعد آپ مولانا علی میاں کے مشورے سے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ پہنچے، رئیس الاحرار صاحب میری ڈائری میں رقمطراز ہیں: ’’میں جب ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں مدرس ہوا، تو مولانا علی میاں کے ہی مشورے سے وہاں رہا، اس ادارہ کے زیر اہتمام ہونے والے جلسۂ مذاکرۂ علمیہ میں حضرت مولانا علی میاں صاحب پابندی سے آتے اور دینی ملاقات وزیارت و خدمت کا موقع دے کر مجھے مفیدعلمی و عائلی مشوروں سے نوازتے ‘‘۔
رئیس الاحرار جامعہ سلفیہ(بنارس) میں:
علامہ محمد رئیس ندویؒ نے اپنی عمر عزیز کا سب سے بڑا حصہ(جو آخری سانس تک جاری رہا) جامعہ سلفیہ بنارس کو وقف کردیا تھا،جامعہ سلفیہ کی تعلیمی آبیاری اور مسلک سلف کی دفاع میں آپ کا کردار نا قابل فراموش ہے، مولانا علی میاں ندویؒ وقتا فوقتا بنارس کا دورہ کرتے رہتے تھے، رئیس الاحرارؒ میر ی ڈائری میں لکھتے ہیں:’’جب میں جامعہ سلفیہ بنارس میں ۱۹۶۹ء کے اواخر میں آیا، اُس وقت سے لیکر آج تک جامعہ سلفیہ بنارس میں رہ کر تعلیمی، تدریسی وتصنیفی و افتاء نویسی کی خدمت انجام دے رہا ہوں، مولانا علی میاںؒ جامعہ سلفیہ بنارس یا بنارس کے کسی ادارہ میں آتے تو نہایت شفقت کے ساتھ ملتے اور فرمائش کر کے میری چائے ضرور پیتے،افسوس ! میں اپنے اسقدر مخلص اور مربی استاذ سے محروم ہوگیا‘‘۔
رئیس الاحرارؒ کا مولانا علی میاںؒ سے خط وکتابت :
علامہ محمد رئیس ندویؒ ندوہ سے فراغت کے بعد اپنے استاذ مکرم حضرت مولانا علی میاںؒ سے مستقل رابطے میں رہے، خط و کتابت کا سلسلہ برابر جاری رہا،سن ۲۰۰۰ء میں جب میں جامعہ سلفیہ بنارس گیا، اور ندوی صاحب ؒ کے فلیٹ میں ان کی زیارت و عیادت کے لئے پہنچا، تو بہت سارے امور پہ تبادلۂ خیال ہوا، مولانا علی میاں ندویؒ کا انتقال ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے، آپ نے اپنے استاذ محترم سے اپنے تعلق کے بارے میں ایک مختصر تحریر میری ڈائری پر رقم کردی، آپ نے مولانا علی میاں کے بھیجے ہوئے درجنوں خطوط دکھائے، ایک سال قبل اکتوبر ۱۹۹۹ء میں جب میری ملاقات رئیس الاحرار صاحب سے ہوئی، تو انہوں نے کہا کہ میری صحیحین کی سند اجازت جو مولانا علی میاں ندوی نے مرحمت کی تھی، کہیں کھو گئی ہے،میں خط لکھ دیتا ہوں تا کہ دوبارہ بھیج دیں، چنانچہ میں آپ کا خط لیکر مولانا علی میاں ندوی ؒ کے پاس پہنچا،(اُن دنوں میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا)، آپ کا خط پڑھ کر مولانا علی میاں نے فورا سند اجازت بذریعہ ڈاک بھجوادی۔ اسی سال مفکر ملت مولانا علی میاں ندوی ؒ نے ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ء کو داعئ اجل کو لبیک کہا تھا۔ رئیس الاحرارؒ کا مولانا علی میاںؒ سے کتنا گہرا تعلق تھا، اندازہ لگائیے کہ انتقال سے چند روز قبل مولانا علی میاںؒ نے آپ کو خط لکھ کر حالات دریافت کئے تھے۔
آج اکیسویں صدی میں کاغذی خط و کتابت کا دور تھم سا گیا ہے، الکٹرانک ذرائع نے اس کی جگہ لے لی ہے، ای۔میل، انٹرنیٹ، آئی پوڈ،آئی فون، بلیک بیری اور تھری جی جیسی تکنیک رابطے کا کام کر رہی ہے، موجودہ تیز ترین وسائل کی موجودگی کے باوجود ۹۵ فیصد علماء اور مدارس رابطے کے فقدان کا شکار ہیں،وہ نہ خطوط کا جواب دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی موجودہ برق رفتار وسائل کا استعمال کر کے ربط ملت کو استحکام عطا کرنے کے موڈ میں ہیں، جو نہایت افسوسناک امر ہے۔ مولانا علی میاں ندوی اور خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی رحمہما اللہ یہ دو شخصیتیں ایسی تھیں، جن کی ذات سے کسی کو شکایت نہ رہی کہ مولانا نے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔ارباب مدارس کو ان سے سبق سیکھنا چاہئے۔
رئیس الاحرارؒ کا مولانا علی میاںؒ کی وفات پر کلمات تعزیت :
مولانا علی میاں ندوی کے انتقال پر رئیس الاحرار کوزبردست صدمہ ہوا، جس شدت کے ساتھ قلبی لگاؤ تھا، اس کا اثر آپ کے چہرے پر بالکل عیاں تھا۔ رئیس الاحرار ؒ میر ی ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے حضرت استاذنا المکرم العلام سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ کی وفات حسرت آیات کی خبر سالانہ تعطیل میں اپنے گھر ہی سنی، اس دلدوز خبر سے میرے حواس اڑ گئے کہ میں اپنے ایک نہایت مشفق اور مہربان استاذ کے سایہ و سرپرستی سے محروم ہوگیا، اللہ سے دعا ہیکہ حضرت الاستاذ العلام کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے، ان کی ساری دینی وعلمی خدمات کو قبول فرما کر اونچے درجات سے نوازے، اور کوئی کوئی لغزش ہوئی ہو، تو اسے نظر انداز کر کے اپنی رحمت واسعہ سے انہیں ڈھانپ لے، ندوہ میں میرے ایک ہی استاذ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفظہ اللہ زندہ رہ گئے ہیں، اب وہی حضرت مولانا علی میاں کے جانشین ہیں، اللہ کرے ان کی سر کردگی میں دار العلوم ندوۃ العلماء اپنی سابقہ روایات اور طور طریق کو برقرار رکھتے ہوئے دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا، اور عالمی پیمانہ پر اہل اسلام کے لئے اس وفات جاں سوز سے پیدا ہونے والا رخنۂ خلل محسوس نہ ہوسکے گا، افسوس میں کئی سالوں سے دل کا مریض ہوں ، جس کی بناء پر وفات کے بعد تعزیت کے لئے لکھنؤ نہ جا سکا، اللہ میری اس خامی کو در گزر فرمائے‘‘۔
خاتمہ:
ایک استاذ اور شاگرد کا اتنا گہرا باہمی ربط آج کے عہد میں خال خال ہی نظر آئے گا، ایک طرف عالمی شہرت یافتہ ادیب ، مؤرخ اور مفکر اسلام جیسے خطاب کا حامل مشفق استاذ کا کردار اداکررہا ہے، تو دوسری طرف مسلک سلف کا ترجمان ، عظیم محقق و محدث، فرمانبردار شاگرد کے روپ میں تیار کھڑا نظر آتا ہے۔ رئیس الاحرار ؒ نے جب جب مسلک سلف کے دفاع میں قلم اٹھایا ، تو مولانا علی میاں ؒ نے کبھی نہیں روکا، بلکہ ہر بحث و تحقیق پر حوصلہ افزائی اور پیٹھ تھپتھپاتے نظر آئے۔
آج اس کانفرنس کے توسط سے علامہ رئیس الاحرار رحمہ اللہ کی زیست کے بے شمار پہلو نئی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہونگے، اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کے منتظمین کو جزائے خیر سے نوازے، ان کے اعمال میں برکت دے، انہیں مزید حوصلہ عطا کر، اس لئے کہ انہوں نے اپنے سلف کے اقدار کو تحفظ فراہم کرنے اور نسلوں تک منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
واللہ سمیع مجیب، و صلی اللہ علی نبینا محمد۔
*******

Saturday, 12 March 2011

Friday, 25 February 2011

ليبيا تتحرر من احتلال القذافي



ليبيا تتحرر من احتلال القذافي


القذافي لم يترك مبدعا إلا طمسه ولا نهضة إلا قمعها ولا صوتا حرا إلا كتم أنفاسه، وحطم ليبيا عمر المختار، لكنه لم يقتل فيهم روح البطل المختار وشجاعته وتحديه للاستعمار، وما أقام فيها ـ هذا المعتوه ـ إلا خيمته المتنقلة وهذيانه الأخضر وجنونه المتهتك.
 
القذافي حول البلد الثري إلى مزرعة خاصة للأسرة يتوارثونها وبعض المقربين والدوائر الضيقة المغلقة، وعاث نظام حكمه فسادا ونهبا وإجراما، وما ترك القذافي جرما إلا ارتكبه في حق شعبه، لكن إرادة أحفاد عمر المختار أقوى من بطشه وزبانيته، وليس أمامهم إلا الضغط الشعبي العام والمؤثر، بالتظاهر والاحتجاج السلميين، والإبقاء على حالة الغليان، وتوسعها وامتدادها جغرافيا، وقد نالت بنغازي مخزن الأحرار والشرفاء والثوار في ليبيا ضمانا لإحداث زلزال عنيف في كيان النظام المجرم وهز أركانه، وقد ولى عهد القبول بالفتات عبر تغييرات جزئية وتقديم أضاحي وقرابين، فقد آن الأوان ليتنحى هذا المعتوه المجرم، وأن يطوى عهده وإلى الأبد. 
اللهم احقن دماء المسلمين في ليبيا وأرهم الحق حقا وانصرهم وأعزهم ومكن لهم 
وسائر بلاد المسلمين يا رب العالمين 
www.islamway.net..

Friday, 14 January 2011

كلمات أعجبتني جداً‎

إذا كـــان الأمس قــد ضــاع ,,, فبيـــن يديـــك اليـــوم
و إذا كـــان اليـــوم ســـوف يــجمع أوراقــــه ويــــرحــــل ,,,فلديــــك الغــــد
لا تحـــزن علـــى الأمــس فهــو لــن يعــود
ولا تــأســف عـلـى اليـــوم فـــهـــو راحــــل
واحــــلم بــشــمـــس ٍ مضيــــئـــة فـــي غــــدٍ جمــــيــــل
مع الحرص على التطوير المستمر وأن يكون اليوم أفضل من الأمس وغدك خير من يومك
و دمتــــم بـــــود 


  


كلمات أعجبتني جداً

   
رأيت فقيراً يبكي فقلت ما الخبر ؟
قال: الأسهم تلاشت وليس لها أثر

وطلبت من الصراف سلفة فاعتذر
وكل شئ زاد سعره إلا البشر
الأغنام والجِمال والدجاج والبقر
والألبان والأجبان والفواكه والخُضر

وابن آدم لا يزال ذليلاً ومحتقر

وازداد الفقر بين العوائل والأسر

والراتب ينتهي قبل نصف الشهر

و الدنيا تسير من جرفٍ لمنحدر

فقلت له: إذا ابتليت بالهم والكدر

قم وصلِ لله ركعتين قبل السَحَر

فهو يرزق من دعاه بجناتٍ ونهر

وتأمل في الطبيعة وضوء القمر

واستمتع بشذى الورد ولون الزهر

وأعلم بأن الحياة ليست مستقر

Tuesday, 4 January 2011

اور جناردن پرساد بنے محمد سہیل

اور جناردن پرساد بنے محمد سہیل

گزشتہ سات سال قبل جناردن پرساد ورما کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور وہ محمد سہیل بن گئے، ۱۸؍ برسوں سے سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے محمد سہیل نے اپنی زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ، قبول اسلام کے بعد انہوں نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا ، اسلام کا آفاقی پیغام غیر مسلم بھائیوں تک پہونچانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھتے، ان کے ہاتوں پہ درجنوں افراد اسلام قبول کر کے سعادت بھری زندگی گزار رہے ہیں، ذیل میں ان سے کی گئی گفتگو کے اہم نکات پیش کئے جارہے ہیں۔

س: مختصر تعارف اور فیملی بیک گراؤنڈ؟
ج: میرا نام جناردن پرساد ورما تھا، ہندو گھرانے میں جنم لیا، چار بھائی اور چار بہن ہیں، آٹھ برس کی عمر سے ہی ملازمت شروع کی، گھر کی خستہ حالت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ پڑھائی اور کام دونوں ساتھ کروں گا۔اترپردیش کے خلیل آباد سے نکل کر ممبئی گیااور پڑھائی کے ساتھ ملازمت جاری رکھا، کچھ دنوں بعد میں نرنکاری ہو گیا اور پورے گھر کو بھی نرنکاری بنا دیا۔
س: نرنکاری بننے کا خیال کیسے آیا؟
ج: جن دنوں میں ممبئی میں تھا، ڈرائیونگ کے پیشہ سے منسلک تھا، ایک روز چیمبور کے علاقے سے گزر رہا تھا، دیکھا ایک وسیع پنڈال میں جلسہ ہورہا ہے، میں رکا اور لوگوں سے اس کی تفصیل پوچھی، تو لوگوں نے بتا یا کہ نرنکاریوں کا جلسہ ہے،یہ لوگ پیڑ پودوں یا پتھروں کی پوجا نہیں کرتے،انہیں بھگوان نہیں مانتے، ان کا عقیدہ ہے کہ ہر شخص کے اندر بھگوان سمایا ہو اہے، لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے،اور جسے دیکھ نہیں سکتے وہی بھگوان ہے۔اسی لئے یہاں ہر ایک شخص بغیر کسی امتیاز کے ایک دوسرے کے پاؤں چھوتا ہے،والدین اپنے بچوں کے اور بچے اپنے والدین کے پاؤں چھوتے ہیں، یہ عقیدہ مجھے اس وقت بہت بھایا، پھر میں نرنکاری ہوگیا ،گاؤں لوٹ کے آیا تو سارے گھر والوں کو نرنکاری بنا دیا، میرے گھر والے ابھی بھی نرنکاری ہیں۔
س: نرنکارسے اسلام کی طرف میلان کب بڑھا؟
ج: جب میں ممبئی میں تھا تو نرنکاری بننے کے بعد اسلامی جلسوں میں جانے کا اتفاق ہوا، ایک مرتبہ ایک جلسہ کے خطیب نے کہا: آسمانی دھرم کو ہی ماننا چاہئے، اُس کتاب پر عقیدہ مضبوط ہونا چاہئے جو آسمان سے اللہ نے اتارا ہے۔اور وہ قرآن ہے، میں چونک پڑا، پھر برابر مسلمانوں کے جلسوں میں جاتا رہا، میں نے کئی مسلمانوں سے وہ کتاب مانگی کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں، کتاب کی دکان پر بھی گیا، لیکن سب نے یہ کہا کہ تم ہندو ہو، اس لئے یہ مقدس کتاب تمہیں نہیں دے سکتے۔اسی دوران میں سعودی عرب ڈرائیونگ پیشہ کے لئے پہونچا، یہاں چند ہی دن گزرے تھے کہ میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا اور میری گاڑی سے ایک شخص کی موت ہوگئی، مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، ڈیڑھ سال کی قید ہوئی تھی، جیل میں ہی تھا کہ رمضان کا مہینہ آگیا، لوگوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر دل میں ہلچل مچی ، کہ مجھے بھی روزہ رکھنا چاہئے، پھر میں نے تجربہ کے طور پہ روزہ رکھنا شروع کیا، دلی سکون ملا، اس طرح میں نے ۲۷؍ روزے رکھے، لوگوں نے مجھے ٹوکا کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ، صرف روزہ کیوں رکھتے ہو؟ میں نے انہیں کسی طرح ٹال دیا، پھر جیل سے رہائی کے بعد اسلام کے بارے میں ریسرچ شروع کیا۔اور نرنکار سے نفرت کی ابتدا ہوئی۔
س: نرنکار سے نفرت کی وجہ؟
ج: اسلام کا مطالعہ جوں ہی شروع کیا ، نرنکار سے نفرت ہونے لگی کیونکہ دونوں نظریات کے ما بین بڑا فرق پایا، انسانوں (مرد و خواتین) کا جو احترام اور عزت اسلام میں نظر آیا ، ان کے یہاں بالکل نا پید ہے، ایک چیز سے مجھے سخت نفرت ہوئی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے پاؤں پکڑیں کیونکہ دونوں کے بدن میں بھگوان ہے، یہ فلسفہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا، مجھے لگا کہ یہ تو بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے والا مذہب ہے، اللہ معاف کرے میں نے دیکھا کہ کھلنڈرے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے پاؤں پکڑنے کی حد پار کرجاتے ہیں، ہم اللہ سے سلامتی اور عافیت کے طالب ہیں۔
س: اسلام کے بارے میں ریسرچ کے دوران کن چیزوں کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: سب سے پہلے میں نے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ حاصل کیا، کچھ کیسٹیں خریدیں، پڑھنا اور سننا شروع کیا، عام مسلمانوں سے اسلام کے بارے میں جب کچھ پوچھتا تو وہ لوگ مجھے دھتکار دیتے ، کہتے تم ہندو ہو، خاموش رہو، میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ بڑا برا سلوک کیا، ہندو سمجھ کر بھارت و پاکستان کے مسلمانوں نے مجھے بہت دکھ دیا، میرے پینے کے برتن میں گندے پانی کی آمیزش کر دیتے، میرے بستر پر کوڑا ڈال دیتے، حقارت بھری نگاہوں سے مجھے گھورتے، میں نے صبر کا گھونٹ پی کر اسلام کی حقانیت کے بارے میں تحقیق جاری رکھی، اس دوران مجھے مدینہ منورہ کا ٹرپ ملنے لگا، مدینہ شہر کا نان مسلم روڈ(حدود حرم کے باہر ) میری گزرگاہ تھا۔ اسی روڈ سے متصل ایک اونچی پارکنگ تھی، اور وہاں سے مسجد نبوی کے منارے دکھائی دیتے تھے،وہیں اپنی گاڑی روکتا اور مناروں کو تکتے تکتے سوجاتا، پھر رات میں خواب نظر آتا کہ دو سفید پوش باریش بزرگ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ چلو میرے ساتھ چلو، اتنے میں میری نیند کھل جاتی ہے، یہ خواب اسی جگہ پر میں نے بارہ مرتبہ دیکھا۔
س: اس خواب کا آپ کے دل پر کیا اثر ہوا؟
ج: مدینہ منورہ سے محبت بڑھتی گئی، جب بھی میں مدینہ سے گزرتا تو ایک رات وہاں قیام ضرور کرتا، اسلام کی طرف میلان بڑھتا گیا، سیرت نبوی کا مطالعہ کیا، اس طرح تحقیق کے سات سال گزر چکے تھے، اسلام قبول کرنے کی ٹھانی، اور ریاض کے سُلی اسلامک سینٹر میں پہنچ کر اپنے اسلام کا اعلان کیا۔
س: ماشاء اللہ ، اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ج: عقیدۂ توحید نے سب سے زیادہ متاثر کیا، ہندو دھرم میں جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لئے مخصوص بھگوان کو پکارا جاتا ہے، بارش کے لئے الگ خدا ہے تو دولت کے لئے الگ، من کی مراد پوری کرنے والا کوئی اور ہے، کچھ اسی طرح کے نظریات نرنکار میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن اسلام میں ہر چیز کے لئے صرف ایک ہی اللہ ہے، اسی سے سب کچھ مانگنا ہے، اسی سے لو لگانا ہے، ہندوؤں میں کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجانے مجھے ہندو مت سے بیزار کردیا تھا، ایک اللہ کی عبادت اور اسی پر ایمان ویقین کا مضبوط عقیدہ نے مجھے اسلام کا دیوانہ بنا دیا، دوسری چیز اسلام میں خواتین کاجو مقام و مرتبہ ہے، اتنا بلند ہے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملے گی، خواتین کے پردے کی حکمت نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔
س: قبول اسلام کے بعد خاندان کا کیا رد عمل رہا؟
ج:ابتداء میں تو والدین اور بھائیوں نے وعدہ کیا، کہ آپ گھر آئیں ، جیسا کہیں گے، ویسا کرنے کو ہم سب تیار ہیں، گھر جانے کے بعد سب کو اسلام کی دعوت دی، مگر سب اپنے وعدے سے مکر گئے ، گھر والوں نے میرے گرد گھیرا تنگ کردیا، مجھے نماز سے روکنے کے لئے اڑچنیں ڈالتے، ایک ہفتہ مسلسل کھڑے ہوکر نماز پڑھی، گھر والے میرے چاروں اور کھڑے رہتے اور ڈراتے دھمکاتے، نماز کے وقت ہینڈ پمپ کا ہتھا نکال دیتے تھے تا کہ میں وضو نہ کرسکوں، میری جائے نماز غائب کردیتے، میں نے کھیتوں میں نماز پڑھنا جاری رکھااور پورے خاندان کو سمجھاتا رہا، مگرو ہ ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔
س: آپ کی بیوی اور بچوں کا رد عمل کیا رہا؟
ج: پہلے بیوی نے تو اسلام قبول کرنے کی حامی بھر لی، میں نے اسے اسلام کی ساری تعلیمات بتائیں،مگراچانک اسے نجانے کیا ہوا کہ وہ آج کل کر کے ٹالتی گئی، اور خاندان کی دوسری خواتین اسے اکساتی رہیں اور وہ میرے خلاف بغاوت کرتی گئی، بچے بھی میرے مخالف ہوگئے، میرا بڑا لڑکا جس کا نام کنہیا لال ورما تھا،اب محمد ابراہیم ہے، میرے ساتھ آیا، اور وہ اس وقت میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، کچھ دنوں کے بعد جب خاندان والوں کو لگا کہ میں سب کو مسلمان بنا کے چھوڑونگا، تو میری بیوی اور والد صاحب نے کرایہ پر غنڈے لے کر مجھے جان سے مارنے کی سازش رچی، میں ساری زمین جائداد اور دولت چھوڑ کر خالی ہاتھ نکل پڑا، میرے بڑے بچے کے علاوہ کوئی اور ساتھ نہیں آیا۔
س: گھر چھوڑنے کے بعد آپ نے کیا کیا؟
ج: چونکہ میں سعودی عرب میں برسر روزگار ہوں، وہاں سے سعودی عرب واپس آگیا۔اور یہاں اپنے علاقے کے کچھ مخلص بھائیوں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے حوصلہ دیا، میری شادی کرادی، اور سدھارتھ نگر کے ایک قصبہ میں بسا دیا، وجزاہم اللہ خیرا۔
س: اسلام نے اخوت اور بھائی چارے کا جو درس دیا ہے، اس سے کتنا متاثر ہوئے؟
ج: مجھے کسی بھی دھرم میں اخوت اور بھائی چارے کا وہ درس نہیں ملا ، جو اسلام میں ملا،مگر حیرت اس وقت ہوئی جب اسلام کے پیروکاروں میں اسلام کا یہ درس عظیم مفقود ملا، مجھے نہیں لگتا کہ عام مسلمانوں کو دیکھ کر کوئی اسلام قبول کرے گا، مسلمانوں کو اپنی حالت میں تبدیلی لانی ہوگی، اخلاقی طور پہ اپنا کردار بلند کرنا ہوگا، تبھی اسلام کی نشر و اشاعت کا دائرہ مزیدوسیع ہوگا، مجھے اللہ کی ذات سے امیدہے کہ اسلام پوری رفتار کے ساتھ دنیا میں پھلتا پھو لتا رہے گا۔