Thursday, 18 March 2010

By;Abdus Saboor Nadvi-وہ حقیقت جسے اکثر لوگ نہیں جانتے

وہ حقیقت
جسے اکثر لوگ نہیں جانتے
عبد الصبور الندوی

یقیناًآپ چونک سکتے ہیں اس عنوان کو پڑھ کر کہ وہ کون سی حقیقت ہے جسے لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ۔ آپ کے ذہن میں کئی چیزیں ابھر رہی ہونگی، لیکن کیا وہ حقیقت بھی آپ کے ذہن میں ہے؟ جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔میں واضح کردوں کہ ہاں! ایک حقیقت ایسی بھی ہے جس کا ادراک لوگوں کو نہیں ہے، وہ حقیقت اپنے اندر کوئی معنیٰ نہیں رکھتی، جی ہاں! اس حقیقت کا نام ’’ناکامی‘‘ (فیل) ہے اس لفظ پر ہم میں سے اکثریت اس کے وجود پر یقین رکھتی ہے جبکہ انسانی زندگی میں اس لفظ کا کوئی وجودی معنیٰ نہیں ہے جس کی تشریح یہاں نقاط کے ذریعے کی جارہی ہے:
(۱) جب کوئی شخص ایک خاص چیز بنانے کا ارادہ کرتا ہے یا اس کے ذمہ کوئی کام سپرد کردیا جاتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود اپنے کام کی تکمیل نہیں کرپاتا یا اس کے عمل میں کوئی نقص رہ جاتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ ’’تم فیل (ناکام) ہوگئے‘‘ جبکہ درحقیقت وہ ناکامی نہیں بلکہ ایک بڑی کامیابی کی شروعات ہے ۔
فرض کریں کہ ہم اس شخص سے کہیں’’ تم نے غلطی کی ہے اور کوشش کرو کہ آئندہ ایسا نہ ہو‘‘ یاکہیں ’’تم کسی کام کے نہیں‘‘پھر ناکامی کے یہ جملے سن کر انسان اپنے کو پست و بیکار محسوس کرنے لگتا ہے، ایسی صورت میں کامیابی کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ سننے کے بعد بھی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو سو فیصد یقین دلائے کہ وہ کامیاب انسان ہے اور لوگوں کی رائے انتہائی غلط ہے۔ تبھی وہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
مشہور سائنسداں تھامس الوا اڈیسن کا نام یقیناسب نے سنا ہوگا، اس نے سائنس کی دنیا میں دوہزار سے زائد ایجادات و کارنامے انجام دیئے۔ اس نے بجلی کا بلب بنانے کی کوشش کی تو نو ہزار نو سو نناوے مرتبہ ناکامی اس کے ہاتھ لگی اور ہر بار لوگ اس کی ناکامی کا مذاق اڑاتے مگر وہ لوگوں سے کہتا رہا میں ناکام نہیں، کامیاب ہوں۔ اور با لأخر اس نے اپنی دس ہزارویں کوشش میں دنیا کو بجلی کے بلب کا نایاب تحفہ دیا۔
(۲) انسانی عقل ناکامی جانتی ہی نہیں، وہ صرف کامیابی پر نظر رکھتی ہے، ایک ماہر نفسیات کی عبارت کی وضاحت ضروری ہے: ’’چونکہ انسانی زندگی عموماً اپنے اندر کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو رکھتی ہے اور عقل انسانی کسی ایک چیز پر ہی غایت درجہ توجہ دے پاتی ہے پھر انسان اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے وہ ہدف چاہے مثبت رہا ہو یا منفی۔ آئیے اس کو مثالوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
اول: (مثبت پہلو) ایک شخص روزانہ ورزش اور صبح کی سیر معمول کے مطابق انجام دیتا ہے، ورزش اور صبح کی سیر کے فوائد و اہمیت کو جاننے کا اہتمام کرتا ہے، پھر اس کی توجہ اسی پر مرکوز رہتی ہے تو انسانی عقل اسے کامیاب بنادیتی ہے چنانچہ وہ چست اور نشیط شخص بن جاتا ہے۔
دوم (منفی پہلو) ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا دلدادہ ہے، ہمہ وقت سگریٹ نوشی کے بارے میں سوچتا ہے کہ کیسے ملے، کہاں ملے اور پیاس بجھ جائے، اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے اور سگریٹ کے انواع واقسام اور متعدد کوالٹی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور وہی عقل اسے اس بری عادت میں کامیاب کردیتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ :
(۱) زندگی میں ’’ناکامی‘‘ جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔
(۲) انسانی عقل صرف کامیابی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
اگر ہم نے مثبت چیزوں پر توجہ دی تو ہماری مثبت کامیابی ہوگی اور اگر ہم نے سارا دھیان منفی چیزوں کو انجام دینے پر صرف کیا تو وہ ہماری منفی کامیابی ہوگی۔

Monday, 15 March 2010

Parents Wish..والدین کی خواہش












الٰہا! ہمیں تو ہمیشہ والدین کی خدمت کی توفیق دے اور ہمیشہ انکی دعاؤں میں رہنے کی توفیق نصیب فرما۔ آمین

Saturday, 6 March 2010

Interview with Justice Salahuddin Siddiqui

جسٹس صلاح الدین اختر صدیقی سے ایک ملاقات

انٹرویو: عبد الصبور ندوی جھنڈا نگری

گذشتہ دنوں عالی جناب صلاح الدین اختر صدیقی (نیپال گنج) کو وکالت کے شعبے سے ڈائرکٹ اپیلیٹ کورٹ کا جج بنایا گیا، مسلمانان نیپال میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، صدیقی صاحب ملکی پیمانے پر ایک باصلاحیت اور پر وقار شخصیت کے حامل ہیں، ان کی آمد سے نیپال کی عدالتی تاریخ میں ان شاء اللہ ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا، جج بننے کے بعد عم گرامی جناب مولانا عبداللہ مدنیؔ ؍حفظہ اللہ کی زیارت کے لئے جھنڈانگر تشریف لائے، پیش ہے اس موقع پر کی گئی گفتگو کے اہم اقتباسات: (ع.ص.ن)

س: سب سے پہلے مختصر تعارف؟
ج: میرانام صلاح الدین اختر صدیقی ہے، والد صاحب کا نام محمد اصغر علی ہے،۱۴؍دسمبر ۱۹۵۵ء ؁ کو نیپال گنج میں پیدائش ہوئی، ۱۹۷۶ء ؁ میں لکھنؤ یونیورسٹی سے Bsc.کیا، پھر وہیں سے ۱۹۷۹ء ؁ میں LLB.کی ڈگری حاصل کی، ۱۹۹۰ء ؁ میں اٹلی کی راجدھانی روم میں واقع انٹرنیشنل لاء انسٹی ٹیوٹ سے وکالت کا ڈپلومہ کورس کیا، ۱۹۹۱ء ؁میں ٹیکساس کے ساؤتھ ویسٹرن فاؤنڈیشن سے انٹر نیشنل لاء میں ڈپلومہ کیا، ۲۰۰۹ء ؁میں راج شری ٹنڈن یونیورسٹی الٰہ آباد سے سوشیالوجی میں ایم.اے کیا، چونکہ خاندان میں کئی لوگ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے اور گھر کا ماحول بھی کچھ ایسا تھا کہ ۱۹۸۰ء ؁ میں میں نے بھی ضلعی عدالت میں وکالت شروع کردی، اس دوران زونل اور سپریم کورٹ میں بھی وکالت کا موقع ملا، اور ۲۹؍سالوں کے بعد الحمدللہ مجھے وکالت کے شعبے سے ڈائرکٹ اپیلیٹ کورٹ کا جج بنادیا گیا۔
س: آپ نے ۲۹؍برس وکالت کے شعبے میں گذارا، ایک مسلمان وکیل ہونے کی حیثیت سے کبھی کوئی پریشانی محسوس ہوئی؟
ج: جی ہاں! کبھی آئین کو لے کر اور کبھی سوتیلے سلوک کو لیکر پریشانی ہوئی ہے، ۲۹؍برس وکالت کے پیشے سے منسلک رہنے کے باوجود مجھے سینئر وکیل کا لائسنس نہیں دیا گیا۔
جب کہ آئین کے مطابق ہر وہ وکیل جو اپنی وکالت کے ۱۵؍برس پورا کرلے، اسے سینئر وکیل کا لائسنس دیا جانا چاہئے، مگر داخلی طور پر سپریم کورٹ کے ججوں اور عدالتی اداروں نے من مانی کرتے ہوئے ۳۰؍سال مدت مقرر کردی، مذہبی بھید بھاؤ اس طرح ہوا کہ مجھ سے جونیئر وکیلوں کو جج کی کرسی بہت پہلے دیدی گئی جبکہ قانونا وہ اس کے اہل نہیں تھے۔
س: کیا نیپالی مسلمانوں کو عدالتی میدان کے علاوہ دوسرے محاذ پر بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
ج: نیپال اب جبکہ ایک سماویشی دیش بن چکا ہے، سیکولر اقدار کی دہائی دے رہا ہے، اس دیش میں مسلمانوں کو پوری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے، میدان چاہے عدالت کا ہو یا سیاست کا، سماجی ہو یا تعلیمی، کہیں نہ کہیں آپ کو ضرور محسوس ہوگا کہ اہلیت و لیاقت کے باوجود آپ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
س: آپ نے دور شہنشاہی بھی دیکھا ہے اور موجودہ جمہوری نظام بھی، عدالتی نقطۂ نظر سے کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
ج: شہنشاہیت کی طرف سے عوامی مسائل و معاملات میں ججوں پر کوئی دباؤ نہیں تھا، وکلاء کی داؤں پیچ بھی کارگر نہ تھی، البتہ شاہی خاندان کے بارے میں جج حضرات کسی بھی منفی فیصلہ(ان کے حق میں) سے باز رہتے تھے، مگر موجودہ جمہوری سسٹم میں عدالتی کاروائیوں کی شفافیت ختم ہوتی جارہی ہے اور وقتا فوقتاکسی نہ کسی مقدمہ میں حکومتی دباؤ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔
س:اگر مسلمانوں کے عائلی معاملات (نکاح، طلاق، وراثت) آپ کی عدالت میں پہونچیں پھر نیپالی آئین اسلامی قوانین سے مختلف ہو، ایسے میں کیا آپ شریعت مخالف فیصلہ کرنے سے گریز کریں گے؟
ج: نکاح،طلاق اور وراثت کے علاوہ بھی اگردوسرے معاملات آتے ہیں جو اسلامی افکاراور اصولوں سے متصادم ہیں، اگرچہ نیپالی آئین اس مخالفت کی اجازت دیتا ہو، اس وقت ایسے مقدمات کو اپنی بینچ سے ہٹادوں گا، میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، دوسرے بینچ پر چاہے جو فیصلہ کیا جائے۔
س: جزاک اللہ خیراً ،نیپال میں ضلعی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک کل چار مسلم جج ہیں، ان کے لئے کوئی پیغام؟
ج: بس یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی دانست میں اپنی زبان و قلم سے کوئی ایسافیصلہ نہ کریں جو اسلام کے خلاف ہو۔
س: نیپال میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کی خاطر آپ کی کوئی کوشش ،خدمت؟
ج: الحمدللہ، اپنے اس دیش میں مسلمانوں کے حقوق و تشخص کی حفاظت کے لئے حقوق انسانی تنظیم کے پلیٹ فارم سے میں نے بہت کوشش کی ہے اور کئی مطالبات کو حکومت نے تسلیم بھی کیا ، جن میں عیدین کی سرکاری تعطیل بھی شامل ہے، آگے بھی ان شاء اللہ میری کوشش جاری رہے گی کہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق پور ی طرح ملتے رہیں۔
س:نیپال سے باہر متعدد ممالک میں آپ کو لیکچرز کے لئے مدعو کیا جاتا رہا، عموماً کیا موضوع ہوا کرتا تھا؟
ج: میں نے ۱۸؍ممالک میں کئی موضوعات پر لیکچرز دئے ہیں ، مگر سب سے زیادہ شراب نوشی کی مخالفت کو اپنا موضوع بنایا ۔
س:شام ہوتے ہی ملک نیپال شراب کے نشے میں بدمست ہوجاتا ہے، اس دیش میں شراب کے خلاف کوئی تحریک؟
ج: جی ہاں! میں نے اپنے دیش کی بگڑی صورت حال کو مدنظر رکھ کر ہی خصوصاً شراب کے مضر اثرات کو اپنا موضوع بنایا، اور عالمی ادارۂ صحت (W.H.O.) کے ذریعے نیپالی حکومت سے احتجاج کیا، کہ ملک کا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے لہٰذا شراب کو رواج دینا بند کیا جائے، اس کی برآمدگی پر قدغن لگایا جائے، چنانچہ حکومت نیپال نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور میری نشاندہی پر کروڑوں روپئے کی شراب ضائع کردی گئی، مجھے دھچکا اس وقت لگا جب دیکھا کہ شراب کے ٹھیکہ داروں میں ایک اچھی تعداد نام نہاد مسلمانوں کی سرگرم ہے، ایک مشہور نام مقبول لاری جو شراب کے ایک بڑے تاجر ہیں، ان کی کروڑوں کی شراب میری تحریک پر ضائع کردی گئی۔
س: نیپال میں ایک بڑی تعداد ہند نژاد نیپالیوں (جنہیں عرف عام میں مدھیشی کہا جاتا ہے) کی ہے جو انگریزوں کے عہد میں ہجرت کرآئے تھے، ان کے لئے کوئی خدمت؟
ج: سب سے بڑا مسئلہ ان کی شہریت کا تھا، صورتحال یہ تھی کہ یہ نہ ہندوستانی تھے نہ نیپالی اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار تھے کچھ کو شہریت مل گئی تھی مگر دس لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ تھے جن کے پاس کوئی شہریت نہیں تھی، میں نے برطانیہ میں اور نیپال میں حکومتوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا اور اقوام متحدہ کے اس قانون کا حوالہ دیا کہ کوئی شخص شہریت سے محروم نہ رہے، انگریزی استعمار کے دور میں یہ لوگ بھارت سے نیپال آئے، میں نے گرجا پرساد کوئرالہ ( اس وقت کے وزیر اعظم) کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ اگر آپ دس لاکھ سے زیادہ آبادی جو شہریت سے محروم ہے، اگر انہیں آپ شہریت نہیں دیتے ہیں تو ان سب کو برطانیہ بھیجنا پڑے گا، کوئرالہ نے فوراً توجہ دی اور سبھوں کو شہریت دینے کا فرمان جاری کیا۔
س: نیپال میں قائم حقوق انسانی کی تنظیموں کے ساتھ آپ کا گہرا ربط رہا ہے، کچھ بتائیں؟
ج: جی ہاں؟ میں نے تقریباً ہیومن رائٹس کی متعدد تنظیموں کے ساتھ ۱۸؍برس کام کیا ہے۔ چنانچہ میں ۲۰۰۵ء ؁ میں ہیومن رائٹس کونسل کا قومی صدر بھی تھا، اس تنظیم کے ذریعے حق شہریت، ملکیت، ذاتی حقوق ، نفاذ امن، جابجا عدالتوں، اسکولوں اورشفاخانوں کے قیام کے لئے تحریکیں چلائیں جو بہت حد تک کامیاب رہیں۲۰۰۸ء ؁کے دستور ساز اسمبلی انتخابات میں انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے مجھے آبزرور (مشاہد) بھی متعین کیا گیا، تاکہ عوام کے انتخابی حقوق میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔
س: میڈیا (صحافت ) سے بھی آپ کا لگاؤ رہا ہے تو کس حد تک؟
ج: الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا دونوں میں میری تحریریں چھپیں، بیانا ت نشر ہوئے، آئین اورلاء کے تعلق سے بے شمار مضامین نیپالی و انگریزی زبان میں شائع ہوئے، صحافتی ذوق کی تسکین کی خاطر ایک مرتبہ انگریزی میں BRACEنامی میگزین نکالنا شروع کیا اور ۲۰۰۵ء ؁ میں چیف ایڈیٹر و پبلیشر کے طور پر کام کیا۔
س: سیاست سے رشتہ۔۔۔؟
ج: جی ہاں! سیاست کی بھی شدبد رہی ہے اور وجہ ہے ضلع بانکے کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے جڑے رہنا، ۱۹۹۴ء ؁ میں مذکورہ پارٹی کا آفیشل امیدوار بھی رہ چکا ہوں۔
س: جن ممالک کا آپ نے دورہ کیا، کچھ کے نام؟
ج: امریکہ، برطانیہ، اٹلی، سوئزرلینڈ، سعودی عرب، سویڈن، پاکستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ وغیرہ
س: اخیر میں ، مسلمانان نیپال کے لئے کوئی پیغام؟
ج: میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تعلیمی میدان میں محنت کریں، اپنے کو قابل و لائق بنائیں، علمی معیار بلند کریں، ان شاء اللہ مناصب خود بخود ملیں گے۔
***