وہ حقیقت
جسے اکثر لوگ نہیں جانتے
جسے اکثر لوگ نہیں جانتے
عبد الصبور الندوی
یقیناًآپ چونک سکتے ہیں اس عنوان کو پڑھ کر کہ وہ کون سی حقیقت ہے جسے لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ۔ آپ کے ذہن میں کئی چیزیں ابھر رہی ہونگی، لیکن کیا وہ حقیقت بھی آپ کے ذہن میں ہے؟ جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔میں واضح کردوں کہ ہاں! ایک حقیقت ایسی بھی ہے جس کا ادراک لوگوں کو نہیں ہے، وہ حقیقت اپنے اندر کوئی معنیٰ نہیں رکھتی، جی ہاں! اس حقیقت کا نام ’’ناکامی‘‘ (فیل) ہے اس لفظ پر ہم میں سے اکثریت اس کے وجود پر یقین رکھتی ہے جبکہ انسانی زندگی میں اس لفظ کا کوئی وجودی معنیٰ نہیں ہے جس کی تشریح یہاں نقاط کے ذریعے کی جارہی ہے:
(۱) جب کوئی شخص ایک خاص چیز بنانے کا ارادہ کرتا ہے یا اس کے ذمہ کوئی کام سپرد کردیا جاتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود اپنے کام کی تکمیل نہیں کرپاتا یا اس کے عمل میں کوئی نقص رہ جاتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ ’’تم فیل (ناکام) ہوگئے‘‘ جبکہ درحقیقت وہ ناکامی نہیں بلکہ ایک بڑی کامیابی کی شروعات ہے ۔
فرض کریں کہ ہم اس شخص سے کہیں’’ تم نے غلطی کی ہے اور کوشش کرو کہ آئندہ ایسا نہ ہو‘‘ یاکہیں ’’تم کسی کام کے نہیں‘‘پھر ناکامی کے یہ جملے سن کر انسان اپنے کو پست و بیکار محسوس کرنے لگتا ہے، ایسی صورت میں کامیابی کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ سننے کے بعد بھی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو سو فیصد یقین دلائے کہ وہ کامیاب انسان ہے اور لوگوں کی رائے انتہائی غلط ہے۔ تبھی وہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
مشہور سائنسداں تھامس الوا اڈیسن کا نام یقیناسب نے سنا ہوگا، اس نے سائنس کی دنیا میں دوہزار سے زائد ایجادات و کارنامے انجام دیئے۔ اس نے بجلی کا بلب بنانے کی کوشش کی تو نو ہزار نو سو نناوے مرتبہ ناکامی اس کے ہاتھ لگی اور ہر بار لوگ اس کی ناکامی کا مذاق اڑاتے مگر وہ لوگوں سے کہتا رہا میں ناکام نہیں، کامیاب ہوں۔ اور با لأخر اس نے اپنی دس ہزارویں کوشش میں دنیا کو بجلی کے بلب کا نایاب تحفہ دیا۔
(۲) انسانی عقل ناکامی جانتی ہی نہیں، وہ صرف کامیابی پر نظر رکھتی ہے، ایک ماہر نفسیات کی عبارت کی وضاحت ضروری ہے: ’’چونکہ انسانی زندگی عموماً اپنے اندر کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو رکھتی ہے اور عقل انسانی کسی ایک چیز پر ہی غایت درجہ توجہ دے پاتی ہے پھر انسان اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے وہ ہدف چاہے مثبت رہا ہو یا منفی۔ آئیے اس کو مثالوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
اول: (مثبت پہلو) ایک شخص روزانہ ورزش اور صبح کی سیر معمول کے مطابق انجام دیتا ہے، ورزش اور صبح کی سیر کے فوائد و اہمیت کو جاننے کا اہتمام کرتا ہے، پھر اس کی توجہ اسی پر مرکوز رہتی ہے تو انسانی عقل اسے کامیاب بنادیتی ہے چنانچہ وہ چست اور نشیط شخص بن جاتا ہے۔
دوم (منفی پہلو) ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا دلدادہ ہے، ہمہ وقت سگریٹ نوشی کے بارے میں سوچتا ہے کہ کیسے ملے، کہاں ملے اور پیاس بجھ جائے، اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے اور سگریٹ کے انواع واقسام اور متعدد کوالٹی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور وہی عقل اسے اس بری عادت میں کامیاب کردیتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ :
(۱) زندگی میں ’’ناکامی‘‘ جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔
(۲) انسانی عقل صرف کامیابی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
اگر ہم نے مثبت چیزوں پر توجہ دی تو ہماری مثبت کامیابی ہوگی اور اگر ہم نے سارا دھیان منفی چیزوں کو انجام دینے پر صرف کیا تو وہ ہماری منفی کامیابی ہوگی۔
(۱) جب کوئی شخص ایک خاص چیز بنانے کا ارادہ کرتا ہے یا اس کے ذمہ کوئی کام سپرد کردیا جاتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود اپنے کام کی تکمیل نہیں کرپاتا یا اس کے عمل میں کوئی نقص رہ جاتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ ’’تم فیل (ناکام) ہوگئے‘‘ جبکہ درحقیقت وہ ناکامی نہیں بلکہ ایک بڑی کامیابی کی شروعات ہے ۔
فرض کریں کہ ہم اس شخص سے کہیں’’ تم نے غلطی کی ہے اور کوشش کرو کہ آئندہ ایسا نہ ہو‘‘ یاکہیں ’’تم کسی کام کے نہیں‘‘پھر ناکامی کے یہ جملے سن کر انسان اپنے کو پست و بیکار محسوس کرنے لگتا ہے، ایسی صورت میں کامیابی کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ سننے کے بعد بھی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو سو فیصد یقین دلائے کہ وہ کامیاب انسان ہے اور لوگوں کی رائے انتہائی غلط ہے۔ تبھی وہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
مشہور سائنسداں تھامس الوا اڈیسن کا نام یقیناسب نے سنا ہوگا، اس نے سائنس کی دنیا میں دوہزار سے زائد ایجادات و کارنامے انجام دیئے۔ اس نے بجلی کا بلب بنانے کی کوشش کی تو نو ہزار نو سو نناوے مرتبہ ناکامی اس کے ہاتھ لگی اور ہر بار لوگ اس کی ناکامی کا مذاق اڑاتے مگر وہ لوگوں سے کہتا رہا میں ناکام نہیں، کامیاب ہوں۔ اور با لأخر اس نے اپنی دس ہزارویں کوشش میں دنیا کو بجلی کے بلب کا نایاب تحفہ دیا۔
(۲) انسانی عقل ناکامی جانتی ہی نہیں، وہ صرف کامیابی پر نظر رکھتی ہے، ایک ماہر نفسیات کی عبارت کی وضاحت ضروری ہے: ’’چونکہ انسانی زندگی عموماً اپنے اندر کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو رکھتی ہے اور عقل انسانی کسی ایک چیز پر ہی غایت درجہ توجہ دے پاتی ہے پھر انسان اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے وہ ہدف چاہے مثبت رہا ہو یا منفی۔ آئیے اس کو مثالوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔
اول: (مثبت پہلو) ایک شخص روزانہ ورزش اور صبح کی سیر معمول کے مطابق انجام دیتا ہے، ورزش اور صبح کی سیر کے فوائد و اہمیت کو جاننے کا اہتمام کرتا ہے، پھر اس کی توجہ اسی پر مرکوز رہتی ہے تو انسانی عقل اسے کامیاب بنادیتی ہے چنانچہ وہ چست اور نشیط شخص بن جاتا ہے۔
دوم (منفی پہلو) ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا دلدادہ ہے، ہمہ وقت سگریٹ نوشی کے بارے میں سوچتا ہے کہ کیسے ملے، کہاں ملے اور پیاس بجھ جائے، اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے اور سگریٹ کے انواع واقسام اور متعدد کوالٹی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور وہی عقل اسے اس بری عادت میں کامیاب کردیتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ :
(۱) زندگی میں ’’ناکامی‘‘ جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔
(۲) انسانی عقل صرف کامیابی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
اگر ہم نے مثبت چیزوں پر توجہ دی تو ہماری مثبت کامیابی ہوگی اور اگر ہم نے سارا دھیان منفی چیزوں کو انجام دینے پر صرف کیا تو وہ ہماری منفی کامیابی ہوگی۔