غیر اخلاقی ٹی وی شو
اسٹار پلس پر دکھائے جانے والے شو ’’سچ کا سامنا‘‘ نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جس طرح بیڈ روم میں جا گھسا، اس نے بے شمار خاندانوں کے بکھرنے اور خواتین کے عزت و ناموس پر بٹہ لگانے میں اہم کردار ادا کیا، مردوں کی نام نہاد غیرت نے متعدد بے غیرت خواتین کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا، اخلاقی و معاشرتی حدوں کو پار کرنے اور عزت و آبرو کو نیلام کرنے کا درس دے گیا یہ شو۔بلا شبہہ ٹیلی ویژن دور حاضر کی حیرت انگیز ایجاد ہے، یہ نفع بخش بھی ہے اور مضر رساں بھی،بلکہ اکثر ضرر اور شر کا پہلو اس کی نافعیت پر غالب آجاتا ہے۔ٹی وی ،دنیا بھر میں رونما ہونے والے حادثے کی لمحہ بہ لمحہ تصویری خبروں سے واقفیت کا اہم ذریعہ ہے، بسا اوقات مختصر کھیل ،کود کے مقابلے دیکھ کر نفس کو تسلی دی جاسکتی ہے ،لیکن اگر نفس پر کنٹرول نہ رہے تو وہی ٹی وی میٹھے زہر کی شکل میں عاقبت برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔اگر عرب دنیا کی بات کی جائے تو ٹی وی کا چلن بر صغیر کے مقابلے کہیں زیادہ ہے، ہندوستان میں اگر غیر اخلاقی ٹی وی شو ،ریلیزکئے جائیں تو یہ ایک عام بات ہوسکتی ہے، لیکن اسی قسم کا ’شو‘ دنیائے عرب خصوصا بلاد توحید سعودی عرب میں نشر کیا جائے تو فطری طور پہ بھونچال آنا لازمی ہے، اور اس وقت سنگینی بڑھ جاتی ہے جب اس شو کے پروڈیوسر، چینل کے مالک اور ’شو‘ کا خصوصی ’مرغ‘ اسی اسلامی ملک کے باشندے ہوں، جنہوں نے بے حیائی کی حدوں کو پار کرتے ہو ئے سعودی سماج کو شرمسار کردیا۔LBC عربی ٹی وی چینل ، جس کا ہیڈ کوارٹر بیروت (لبنان) میں ہے، اور عرب ممالک کے متعدد شہروں میں اس کے دفاتر اور اسٹوڈیوز ہیں، اس کا ایک خاص ٹی وی شو Red Lines(سرخ لکیریں) عرب عوام میں بیحد مقبول تھا، بات جولائی مہینے کی ہے جب اس شو کے میزبان نے ایک آوارہ نوجوان کو انٹرویو کے لئے پروگرام میں مدعو کیا، شو کے میزبان نے جس طرح اخلاق سوز سوالات کئے ، وہ قابل مذمت تو تھا ہی، لیکن انٹرویو دینے والا سعودی نوجوان مازن محمد عبد الجوادنے جس جرأت، بے غیرتی،رذالت، حیا سوزی اور گراوٹ کا ثبوت دیا ، اس سے سعودی معاشرہ لرز اٹھا، ایک طوفان برپا ہوگیا، سیکڑوں لوگوں نے چینل اور متعلقہ افراد کے خلاف شکایت درج کرائی، آنا فانا کارروائی ہوئی، چینل پر بندش عائد کر دی گئی، انٹرویو دینے والے نوجوان اور پروڈیوسروں کو گرفتار کرلیا گیا، عدالت میں مقدمہ چلا،اسلامی عدالت نے اقرار جرم کے بعد انٹرویو دینے والے نوجوان کو ایک ہزار کوڑے اور پانچ سال کی قید با مشقت کا فیصلہ سنایا، دو خاتون پروڈیوسر صحافی (جو اس پروگرام کو چلا رہی تھیں) ’روزانا الیامی‘ اور’ ایمان الرجب ‘ کو60 کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔سعودی نوجوان مازن جو سعودی ائر لائنز میں ملازم ہے، اس نے انٹرویو میں کھل کر اپنی جنسی داستانیں، ہوسناکیوں کی کہانیاں اور جنسی تعلقات کے نت نئے طریقوں کو بالتفصیل پوری ڈھٹائی کے ساتھ بیان کیا تھا،اس نے انٹرویو میں کہا کہ اس کا پہلا جنسی تجربہ 14سال کی عمر میں پڑوسن کے ساتھ ہوا تھا، اس کے بعد آوارہ نوجوانوں کی ٹیم بنائی ، بلوٹوتھ اور موبائل کے ذریعے لڑکیوں کا شکار کرتا رہا، جدہ کے ساحل پر ایک فلیٹ خریدا ، اور اسے ہوس کی تکمیل کا اڈہ بنا دیا، پوری بیباکی کے ساتھ اعلانیہ معصیت کا اظہار کرتا رہا، اور عربوں کی ایک بڑی تعداد اس پروگرام کو دیکھ رہی تھی، کہ کس طرح یہ بے حیا نوجوان نڈر ہوکرتمام سرخ لکیروں کو روندتا چلا جارہا ہے۔عدالت میں اس نے اعتراف جرم کیا، اور سعودی معاشرے میں پرتشدد جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے جرم میں اسے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، مازن کا وہ ساتھی جو پروگرام میں ساتھ گیا تھا، اسے بھی دو سال قید کی سزاسنائی گئی ۔البتہ خاتون صحافی ’’روزانا الیامی‘‘ اور ’’ایمان الرجب‘‘ کو توبہ کرنے اور اس چینل سے علیحدگی اختیار کرنے بعد خادم الحرمین الشریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے دونوں کو معاف کردیا، اور انکی سزا ختم کردی گئی۔ واضح رہے مذکورہ چینل کے سب سے بڑے پارٹنر مشہور ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال (اللہ انہیں ہدایت دے) ہیں۔ اس واقعے کے بعدایسا محسوس ہوتا ہے، کہ اباحیت پسندوں کو سعودی عرب کا اسلامی نظام اور صالح معاشرہ راس نہیں آرہا ہے۔اسی لئے وہاں کی بنیادوں کو کھو کھلا کرنے اوران پر مغربیت کی دبیز چادرڈالنے کی تیاری وسازش کی جارہی ہے۔سعودی میڈیا نے سیکولرازم کا ایسا لبادہ اوڑھ لیاہے، یا یہاں کے ذرائع ابلاغ میں کچھ کالی بھیڑیں گھس آئی ہیں جس نے دین پسندی پر قدغن لگانے، اوردین کو حکومت سے جدا کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، الہا! بلاد توحید کو توشر پسندوں سے محفوظ رکھ، اور اس کے خلاف تانے بانے بننے والوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کر۔ دعا ہے کہ اے اللہ! امت کو ٹی وی کی برائیوں اور اس کے فتنوں سے محفوظ رکھ، نئی نسلوں پر رحم فرما،مسلم حکام و امراء کی اصلاح فرما، اور دین کی سر بلندی کے لئے ان سے خوب خدمت لے (آمین)