Sunday 12 February 2017

میر کارواں کا سفر آخرت

 میر کارواں کا سفر آخرت

بقلم: عبدالصبور ندوی جھنڈانگری
نائب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

عم گرامی حضرت مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈانگری رحمہ اللہ مؤرخہ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو قطر کے نیشنل ڈے کے موقع پر سفیر حمد جاسم الحمر کی دعوت پہ کاٹھمانڈو تشریف لائے تھے، اسی مناسبت سے مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے ذمہ داران کی میٹنگ میں شرکت بھی کرنا تھی، ان کا قیام باغ بازار کے ہوٹل تاج میں تھا،پروگرام میں شرکت کے بعد ۱۹؍ دسمبر کو جھنڈا نگر واپس جانا تھا۔ ۱۹؍ دسمبر بروز سنیچر صبح کے سات بجے تھے، عم گرامی کا فون آیا، کہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، آجاؤ، کہیں چل کے چیک اپ کرالیتے ہیں، میں ہوٹل پہنچا، اس وقت متعدد احباب سے گفتگو اور ان کی خاطر تواضع میں مشغول تھے، ناشتہ کے بعد رائے مشورہ کا سلسلہ شروع ہوا ، بالآخر انہوں نے خود فیصلہ کیا کہ گھر نکل جاؤں، دوپہر ۱۲؍ بجے کی فلائٹ سے ٹکٹ تھا، میں نے ان کا سامان سیٹ کیا ، برادرم محمد أحمد پپو اپنی گاڑی لے کر حاضر تھے کہ ائیر پورٹ تک رخصت کردوں گا، اسی اثناء وہ واش روم گئے اور وہاں سے نکلتے ہی بستر پر گر گئے، میں ان کے قریب پہنچا ، انہوں نے کہا : مجھے کچھ دیر کے لئے چھوڑ دو اور سفر کینسل ہوا، تھوڑی دیر بعد انہوں نے راحت کی سانس لی ، دوپہر کا کھانا کھلایا پھر انہیں میڈیکل کالج کے منموہن کارڈیالوجی سینٹر میں داخل کرایا گیا، وہ خود چل کر ایمرجنسی وارڈ میں بیڈ پر لیٹے مگر اپنے پاؤں پر باہر نہ آسکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ابتدائی چیک اپ ہوا، بلڈ رپورٹ میں تاخیر ہوئی ، یورین ٹیسٹ کے لئے نرس نے کہا تو آپ ؒ نے جواب دیا یہاں کا واش روم صاف نہیں ہے، مجھے نماز پڑھنی ہوتی ہے اس لئے مجھے علحدہ روم میں شفٹ کر دیا جائے ۔ بار بار وہ اصرار کرتی رہی ، اس پر میں نے کہا : چلئے میرے ساتھ ، وہ اٹھے اور میرے ساتھ واش روم گئے اور سیمپل لے کر واپس آئے، دیر تک مجھ سے اورمیری اہلیہ سے دعوتی احوال وکوائف پر گفتگو کرتے رہے، عشاء کے وقت میں ہاسپٹل سے لوٹ آیا، رات دس بجے ہم سب کے محترم بزرگ انکل جناب مبین خان صاحب نے گھبراہٹ میں فون کیا کہ مولانا صاحب کا دل صرف بیس فیصد کام کر رہا ہے، رپورٹ آگئی ہے اور انہیں آئی سی یو میں شفٹ کیا جارہا ہے، انکی اہلیہ کو فورا کاٹھمانڈو بلوالیں،میں نے گھر پر رابطہ کیا اسی وقت عزیزم جواد سلمہ اللہ کو روانہ کر دیا گیا، ہم لوگوں کے وہم وخیال میں بھی نہیں تھا کہ آپ کی حالت اس قدر تشویشناک ہے،ایک دن قبل اسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ ممبر پارلیمنٹ اور سابق وزیر جناب اقبال أحمد شاہ کی عیادت کے لئے وہ خود گئے تھے اور اگلے روز انہیں بھی اسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونا پڑا۔ تقدیر بھی عجیب ہوتی ہے ، کس موڑ پر انسان کو لا کھڑا کرتی ہے، اسے خبر نہیں ہوتی اور اسی پر ہم سب کا ایمان ہے۔
مؤرخہ ۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کا دن آئی سی یو میں بخیریت گزرا، عیادت کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا، بات چیت ہوتی رہی، مسکراتے رہے کسی بھی قسم کی تکلیف کا اظہار نہیں کیا، مجھ سے کہا: یہاں کے علاج سے میں بہت مطمئن ہوں، مگر دل ہنوز ۲۰۔۲۵ فیصد ہی کام کررہا تھا، شام ہوتے ہی پیشاب نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی بڑھ گئی ، اب جگر متاثر ہونے لگا، ضروری علاج جاری تھا، وہ شب بھی کسی طرح گزری۔ مؤرخہ ۲۱؍ دسمبر کی صبح ڈ اکٹروں نے دل کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے نس کے ذریعے ایک باریک پائپ ڈالی،صبح ۱۱؍ بجے تک سب سے بات چیت کرتے رہے ، جب اس پائپ کا منفی اثر ہوا، آپ کو نیند آنے لگی، ارد گرد بیٹھے تیمارداروں سے کہا : اب میں آرام کرنا چاہتا ہوں، اتنا کہتے ہی وہ سو گئے، وہ سوئے کیا، بے ہوش ہوگئے ، آنا فانا وینٹیلیٹر پر رکھ دیا گیا، بیہوشی کے عالم میں ہر ممکن علاج چل رہا تھا، لیکن تقدیر کے قاضی کا فیصلہ ہی کچھ اور تھا، تشویشناکی بڑھتی چلی گئی ، دل کا عمل دس فیصدی تک محدود ہوگیا، گھر سے چچا محترم زاہد آزاد ومحمد اکرم صاحبان کاٹھمانڈو پہنچے، میڈانتا گڑگاؤں سے رابطہ کیا گیا ، ائیر ایمبولینس تیار تھا مگر ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے شفٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا، وے ان کی حالت کو سمجھتے تھے ، لہذا دعاؤں اور دواؤں کا سلسلہ جاری رہا، اگلے دن مؤرخہ ۲۲؍ دسمبر کو بوقت فجر پانچ بجے اٹیک آیا ، طبیعت مزید بگڑتی چلی گئی ، صبح دس بجے پھر اٹیک آیا اور اس بار عم گرامی جانبر نہ ہوسکے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ہر شخص کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا، کاٹھمانڈو کے احباب و عقیدتمندوں کا اسپتال میں تانتا لگ گیا، لوگوں کا اصرار تھا کہ کاٹھمانڈو میں بھی نماز جنازہ ادا کر لی جائے مگر امیر جمعیت مولانا محمد ہارون سلفی صاحب نے وقت کی تنگ دامانی کے سبب معذرت کر لی اور ہم سب جھنڈانگر کے لئے روانہ ہوگئے ، اس وقت ملک نیپال کے حالات انتہائی خراب تھے ، ترائی میں چکا جام ، ہڑتال کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کٹھن تھا، ایمبولینس اور ہائس کے ذریعے ایک مختصر سا غمزدہ قافلہ جس میں میری فیملی، جمعیت کے ذمہ داران واحباب تھے، سوئے جھنڈا نگر روانہ ہوا۔دیر رات تقریبا ڈھائے بجے جھنڈانگر پہنچے ، سوگواروں کی ایک بڑی تعداد نے سسکیوں اور آنسوؤں کے ساتھ استقبال کیا، غم واندوہ کا ایک طوفان بپا تھا ، ہر شخص اپنے اس مشفق ، مربی اور سرپرست کے بچھڑ جانے پر ماتم کناں تھا۔
مؤرخہ ۲۳؍ دسمبر کو بعد نماز ظہر ہزاروں محبین ، عقیدتمندوں ، علماء ، صلحاء، وبرادران وطن کی موجودگی میں اس عظیم داعئ اسلام اور میر کارواں نم آنکھوں کو جھنڈانگر کے شہر خموشاں میں سپرد خاک کردیا گیا۔سرزمین جھنڈانگر نے ایسے بڑے جنازے شاذ و نادر ہی دیکھے ہیں:
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں                         
پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں                         
ِہمہ گیرشخصیت: بلا شبہہ عم محترم کی شخصیت ہمہ گیر تھی ، ایک دنیا نے ان کی ذات سے استفادہ کیا ، وہ علمبردان توحید اور داعیان کتاب وسنت کے سرپرست ورہنما تھے ، بر صغیر ہند و نیپال بالخصوص ظلمت کدۂ نیپال میں اس مرد مجاہد نے ملک بھر سے جہالت ، شرک وبدعت کا خاتمہ ، اسلامی معاشرہ میں شریعت کی بالا دستی کے لئے اپنے جوہر خطابت اور ادیبانہ اسپ قلم سے بے مثال جدوجہد کی، وہ بے شمار خوبیوں اور اوصاف کے مالک تھے ، ان کا نمایاں وصف جوہر خطابت تھا، جس نے بر صغیر ہند و نیپال، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ کے علاوہ انڈونیشیا،بلاد خلیج وبرطانیہ تک صرف ان کا نام پہنچا دیا بلکہ ان کے عقیدت مندوں اور شیدائیوں کا ایک بڑا حلقہ تیار کردیا، ایمانی حرارت سے پُر بصیرت افروز خطابات کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا ایک عظیم الشان کام انجام دیا، جس سے ایک بڑی تعداد معاصی وضلات سے تائب سے ہوکر پاسبان کتاب و سنت بن گئی۔ آپ کی مختصر جامع تحریروں نے بیحد مقبولیت حاصل کی، بقول مولانا شمیم أحمد ندوی (مدیر مسؤل ماہنامہ السراج) : ’’مولانا عبد اللہ مدنی چند جملوں میں وہ باتیں کہہ جایا کرتے تھے جس کے لئے مجھے کئی صفحات درکار ہوتے، دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر انہی کے پاس تھا‘‘۔ آپ کے اداریوں نے اردو صحافت کو نیا آہنگ عطا کیا، بلیغ طرز اسلوب سب کا من موہ لیتی تھی۔ ان کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ حامد سراجی کے نام سے لکھتے تھے ، ان کی شاعری میں قرآن وحدیث میں وارد بعض واقعات ومفاہیم کی تطبیق بھی دکھائی دیتی ہے ان کی شاعری اسلامی حدود کی بھر پور رعایت کرتی ہے، اس دائرے سے تجاوز کا امکان ہی نہیں۔ رد باطل میں ان کی کئی نظمیں مقبول عام ہیں، ہمیں امید ہے کہ جلد ہی آپؒ کا شعری مجموعہ قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔ وہ ایک حساس دل کے مالک تھے ، نہایت نفیس اور سلجھی ہوئی شاعری کرتے تھے، ان کا کلام اور تحریر (نثر ونظم) اردو ادب کا اہم اثاثہ ہے، چنانچہ ان کی عظمت کے سبھی قائل نظر آتے ہیں:
ہر ظرف کہاں ہے اس قابل ، بن جائے غم جاناں کا امیں                                  
آج لوگ سہل کلام سننا چاہتے ہیں ، محاسن کلام کا شعور اور ادراک شاذ ہی ملتا ہے ، مگر یہ صفت اور سلیقہ آپ کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے، وہ ان کہی باتیں بھی بڑے سلیقے سے کہہ دیا کرتے تھے، میر نے کہا تھا: 
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں                                  
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہےئے                                 
آپ کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوجاتا ، ملاقات کے وقت ہر کسی سے بڑی محبت کا ثبوت دیتے تھے، کاٹھمانڈو کے کئی غیر مسلم احباب نے کہا کہ اگر ان کے ساتھ مزید وقت گزارنے کا موقع ملا تو ہمیں اپنے دھرم کو تبدیل کرنے پر غور کرنا ہوگا، آپ کی ضیافت اور تواضع ہر ایک کا دل جیت لیا کرتا۔ وہ اپنوں اور غیروں میں یکساں مقبول ومحبوب تھے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال: مولانا عبد اللہ مدنی رحمہ اللہ نے ملک نیپال کے طول وعرض میں پھیلے کتاب وسنت کے علمبرداروں کو ایک لڑی میں پرونے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی تحریک چھیڑ دی ، اور مشرقی و مغربی نیپال کے سربرآوردہِ شخصیات کو اوائل ۱۹۸۸ء میں جھنڈانگر مدعو کیا، جامعہ سراج العلوم میں میٹنگ رکھی گئی، اس موقع پر آپ نے موضع کمہریا کے جماعتی سطح پر معروف عالم دین مولانا عبد القدوس صاحب (مقیم سعودی عرب)کوبھی مدعو کیا، میٹنگ ہوئی اور سب نے اتفاق کیا کہ پڑوسی ملکوں کی طرح نیپال میں بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانیؒ اس وقت بیرون ملک کے دور ے پر تھے ، لہذا طے پایا کہ خطیب الاسلام آجائیں پھر جمعیت کو تشکیل دیا جائے، اگلے سال یعنی ۱۹۸۹ء میں جمعیت تشکیل پاتی ہے اور امیر أسے بنایا جاتا ہے جو اس مجلس میں موجود ہی نہیں تھا۔ یہ ایک تنظیمی خامی تھی ، ایسا ہر گز نہیں کہ خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤف رحمانی ؒ امارت کے مستحق نہیں تھے، بجا طور پہ وہ تھے ، لیکن بعض ہندوستانیوں کی بیجا مداخلت نے علمائے نیپال کے مابین اسی دن تفریق وچپقلش کے زہریلے بیج بو دئے، جس کے اثرات آج تک جمعیت میں پائے جاتے ہیں۔ کُل ملا کر اس تحریک کے بانی حضرت مولانا عبد اللہ مدنیؒ ہی تھے، جسے بعد میں یرغمال بنا لیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا سراسر غلط اور تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہوگی کہ خطیب الاسلام ؒ جمعیت کے بانی ومؤسس تھے۔
شرپسند مولویوں کا ایک طبقہ ہمیشہ مدنیؒ صاحب کی مخالفت کرتا رہا کہ وہ جمعیت کے کلیدی عہدوں پر براجمان نہ ہونے پائیں اور یہ گروپ ہمیشہ کامیاب رہا، اس لئے کہ مدنیؒ صاحب نے کبھی بھی اپنے آپ کو منصب کے لئے آگے پیش نہیں کیا۔ ممبر پارلیمنٹ جناب مختار احمد صاحب(سرہا) نے تعزیتی جلسہ کے موقع پر کہا تھا: کہ یہ مولانا مدنیؒ کی شخصیت تھی جو اتحاد کے عظیم علمبردار ہونے کا عملی ثبوت پیش کرتی ہے، جب رمول میں جمعیت کے انتخاب کے موقع پر اکثریت آپ کو امیر چننا چاہتی تھی، اس وقت ۹؍ اضلاع میں کمیٹیاں تھیں، پانچ اضلاع کے لوگ مدنی صاحب کی حمایت میں تھے، کچھ لوگوں نے جمعیت کو زبردستی موروثی شکل دینے کی کوشش کی تھی، اس وقت اکثریت نے مدنیؒ صاحب سے کہا کہ الگ جمعیت قائم کر لیتے ہیں، اور مدنی صاحب نے لوگوں کو روک دیا کہ نہیں، ہم کسی بھی قسم کے اختلاف کا سبب نہیں بنیں گے، اور ایسا ہی ہوا۔
مؤرخہ 14؍ مارچ۲۰۱۵ء کو جمعیت کا انتخاب نو ہوا،جس میں مولانا محمد ہارون سلفی صاحب امیر منتخب ہوئے، انہوں نے اسی مجلس میں مولانا عبد اللہ مدنی ؒ کو جمعیت کا سرپرست بنائے جانے کا اعلان کیا، جس پر شوری کے اراکین نے بیک آواز تائید کی۔ آپ کو روئیت ہلال کمیٹی کا صدر بھی نامزد کیا گیا، اور ہر ماہ آپ ہجری مہینوں کا اعلان کرتے رہے، سرپرستی کا حق ادا کیا، جمعیت کے پاس کوئی مستقل عمارت نہیں تھی اس کے لئے آپ نے گرانقدر مادی تعاون پیش کیا تھا، زلزلہ زدگان کی مدد بڑے پیمانے پر کی تھی، ذمہ داران کے مابین جب بھی اختلاف رائے ہوتا ، سب آپؒ کی طرف رجوع ہوتے اور آپ کی رائے حتمی رائے مان لی جاتی، اب کہاں وہ صورت نظر آئے گی!
تھی وہ ایک شخص کے تصور سے                                       
اب وہ رعنائی خیال کہاں                                       
عم گرامیؒ سے میرا تعلق: یہ تعلق بہر حال عام نہیں تھا، زمانۂ طلب علم سے ہی خصوصی عنایت وشفقت حاصل رہی ہے،گائڈنگ، حوصلہ افزائی اور تکریم کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا، اور مجھ سے جہاں تک ہوسکا ان کی خدمت میں حاضر رہا،متعدد امور میں ان کی رائے میرے لئے بہت سود مند رہی ہے، گھرسے باہرکئی بار مہمانوں سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا، میرا لڑکا ہے اور کئی بار بھتیجا کہہ کر تعارف کرایا، ان کے اس انداز نے مجھے ان سے بہت قریب کردیا، ندوۃ العلماء لکھنؤ میں جب میں زیر تعلیم تھا تو میری تحریریں اخبارات میں چھپتی تھیں تو عم گرامی بہت خوش ہوتے ، اور بعض تحریروں کا دوسروں سے ذکر بھی کرتے ، ۲۰۰۰ء میں جب ندوہ سے عا لمیت کر کے گھر پہنچا توآپ کو ؒ ایک سفر پر نکلنا پڑا، جاتے جاتے مجھ سے کہہ گئے کہ ماہنامہ نور توحید کی ترتیب کے ساتھ اداریہ بھی لکھ دینا، یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی رسالہ کا اداریہ تحریر کیااور پے در پے دو اداریے (اسرائیلی جارحیت، نیکیوں کا جشن)لکھے۔ یہ ان کی طرف سے زبردست حوصلہ افزائی رہی، میری ترتیب سے بہت خوش تھے، اور مسلسل صحافتی ذوق کی ترغیب دلاتے رہے، عم مکرمؒ کے دروس، اور خطابات سے میں نے بہت استفادہ کیا اور کوشش کی کہ ان کا طریقہ اختیار کرلوں مگر ایسا نہ ہوسکا، وہ انتہائی بلیغ اور مختصر خطاب کرتے، اور کئی بار رقت آمیز خطاب ہوتا کہ سامعین رو پڑتے ۔۲۰۱۳ء میں جامعۃ الملک سعود سے فراغت کے بعد میں نیپال لوٹاتو جھنڈانگر کی بجائے کاٹھمانڈو کو مقر عمل وجائے معاش کے لئے ترجیح دی، مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے دفتر سے بھی منسلک ہوا، اور مارچ ۲۰۱۵ء میں جب عہدیداران کا انتخاب ہوا تو میں نائب ناظم اور وہ سرپرست جمعیت بنائے گئے،جمعیت کو مستحکم کرنے کے لئے مفید مشوروں کے ساتھ عملی اقدام کی جانب ترغیب دلاتے، ان کے ذمے جو بھی کام سپرد کیا گیا انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیا،وہ اس شعر کے بھر پور مصداق تھے:
نگہہ بند ، سخن دلنواز، جاں پر سوز                                
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے                                
جمعیت کی میٹنگوں میں ان کی رائے نہایت قیمتی ہوتی تھی، سنجیدہ شائستہ اسلوب میں گفتگو کرتے ، اور ہر ایک کو متوجہ کر لیا کرتے تھے۔ اس دوران میں نے کئی تنظیمی اصول وطور طریقے ان سے سیکھے۔کاٹھمانڈو پہنچنے پر مجھے فورا خبر کرتے اور میں بھی برابر ان سے رابطے میں رہتا، متعدد اسفار اور جلسوں میں ان کے ساتھ رہا، انتقال سے ڈیڑھ سال قبل بھی ایک مرتبہ انہیں کاٹھمانڈو کے گنگا لال ہارٹ ہاسپٹل میں ایذمٹ کرایا گیا تھا اور تین دنوں کے جانچ و چیک اپ کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئی تھی، اس بار بھی جب ہم لوگوں نے انہیں ٹیچنگ میں ایڈمٹ کرایا تو یہی اندازہ تھا کہ جنرل چیک اپ کے بعد چھٹی مل جائے گی، مگر اللہ عزوجل کو منظور نہ تھا :
لائی حیات آئے ،قضا لے چلی چلے                                 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے                                 
جب بھی جھنڈانگر کے شہر خموشاں کی زیارت کی توفیق ہوتی ہے تو عم گرامیؒ کی قبر پر ضرور حاضر ہوتاہوں، دعاؤں کے ساتھ ضمیر جعفری کا یہ شعر گونجتا رہتا ہے:
رنگوں کا خرمن سوتا ہے                                      
بن میں چمن سوتا ہے                                      
کتنے خوابوں اور پھولوں کا                                      
اک البیلا پن سوتا ہے                                      
سالک راہ ورسم محبت                                      
محرم اہل فن سوتا ہے                                      
خلاق دو عالم کے حضور دست بدعا ہوں کہ الہاٰ ! ان کی لغزشوں کودرگزر کر، درجات بلند فرما، ان کی قبر کو بقعۂ نور بنا دے، اور ان کا ٹھکانہ فردوس میں بنا(آمین) 
* * *