Tuesday 21 May 2013

اخبار جہاں Akhbare-jahan

اخبار جہاں

عبد الصبور ندوی

برازیلی مسلمانوں کا عالمی فٹبال کپ 2014 کے موقع پر دعوتی پلان تیار
2014 سن برازیل کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے، وہاں منعقد ہو رہے اولمپک اور فٹبال کے عالمی میلے کے موقع پر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے مقصد سے مسلم تنظیموں نے ایک پلان تیار کیا ہے، توقع ہے کہ دنیا بھر سے شائقین کی بہت بڑی تعداد میچیز دیکھنے کے لئے امنڈے گی، اس قیمتی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے کا عزم کرتے ہوئے اسلامی تنظیموں کے اتحاد نے ہر طرح کے امکانات کو بروئے کار لانے کا منصوبہ بنا لیا ہے، برازیل میں اس وقت ایک ہزار سے زائد مساجد ، جبکہ پندرہ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، اسلام کے آفاقی پیغام کو برازیلی قوم اور غیر ملکیوں تک پہنچانے کے لئے بازار، میٹرو اسٹیشنس،ائر پورٹ، یونیورسٹیز، کھیل میدان، بس اسٹینڈس، لائبریریوں اور کتابی میلوں کا انتخاب ہوا ہے،عالمی کپ کے موقع پر اسلام کی سچی تصویر پیش کرنے کے لئے درج ذیل چیزوں کا اہتمام کیا گیا ہے:

۱۔فٹبال کے مشہور کھلاڑیوں سے ملاقات اور تحفوں کے ساتھ دعوت اسلام۔
۲۔اس تحریک کا شعار ’اعرف الاسلام‘(اسلام کو پہچانو) قرار پا یا ۔
۳۔اسٹیڈیم کے قریب دعوتی آفسوں کا قیام، اور رابطہ کے لئے ہر شہر میں ایک ٹیم، جو ٹیلیفون پر اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔
۴۔دعوتی وین(گاڑیاں): مخصوص گاڑیوں کو موبائل وین کی شکل دی گئی ہے جہاں کتابوں ، پمفلٹوں کی تقسیم اور اسلام کے متعلق اشکالات کے جوابات دئے جائیں گے۔
۵۔قرآن کریم اور محاسن اسلام سے متعلق پرتگالی، اسپینی اور انگریزی زبانوں میں دس لاکھ کتب کی اشاعت۔
۶۔ چالیس ہزار دعوتی ٹی شرٹ کی تیاری،جسے دعاۃ و کارکنان پہنیں گے نیز غیر مسلموں میں تقسیم بھی کیا ائے گا۔
۷۔ ایک ہزار اسپیشل دعوتی بیگ ، جسے فٹ بال کھلاڑیوں کو ہدیہ کیا جائے گا۔
۸۔ پانچ لاکھ سی ڈیز کی تیاری ، جس میں اسلام کے متعلق پانچ ویڈیوز ہونگے اور جنہیں مفت تقسیم کیا جائے گا۔
۹۔ کھلاڑیوں کی قیام گاہ سے قریب نئی مساجد و مصلوں کی تعمیر کا فیصلہ۔ وغیرہ
اللہ ان کے دعوتی حوصلوں کو مزید توانائی عطا کرے، انہیں اجر جزیل سے نواز کر اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
tبرما کے ارکان صوبہ میں مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی
بے چارگی کے ماحول میں سانسیں لے رہے ارکان کے مسلمان جہاں سمندری طوفان سے کراہ رہے ہیں ، وہیں انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے اور معاشی ناکہ بندی کی بھر پور تیاریاں کر لی گئی ہیں،ملیشیا میں اسلامی تنظیموں کے شورائی کمیٹی کے سربراہ محمد عزمی نے انکشاف کیا ہے کہ بدھسٹ انتہا پسند صوبہ ارکان میں آباد بودھوں کے گھروں پر نشان لگانے کا کام کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرتے وقت وہ محفوظ رہ سکیں، تازہ احوال کے مطابق گزشتہ ماہ درجنوں مساجد و مدارس کو جلا کر راکھ کردیا گیا، اور ۱۵۰؍ سے زائد طلبہ ومسلم نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا،اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے بودھ پادریوں نے مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے، جس سے حالات دھماکہ خیز ہوجائیں گے،اس کا مطلب ہے کہ اب مسلمان نہ تجارتی اداروں میں کام کر سکیں گے اور نہ ہی کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کو بآسانی خرید سکیں گے۔ 
سابق سی آئی اے چیف خبر کے بدلے خاتون صحافی کی عزت لوٹنے کا عادی تھا
عراق، پاکستان اور افغانستان میں بے دردی سے مسلمانوں کا خون بہانے والے ا مریکی فوجی سربراہ اور سی آئی اے چیف ڈیوڈ پیٹریاس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ ہوس کا پجاری تھا، اپنی زندگی کی معلومات دینے کے بدلے انہوں نے پاؤلا براڈویل کی درجنوں بار عزت لوٹی،متاثرہ خاتون کے انکشاف پر انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی، اور وہ عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے، پاؤلا اس وقت ہاورڈ سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں، جس میں پیٹریاس کے بارے میں معلومات کو ضروری قرار دیا گیا تھا، اور اس کے حصول کے لئے پیٹریاس نے جسم کا مطالبہ کیا تھا، جسے پاؤلا نے مجبورا پورا کردیا تھا۔
فحاشی کے الزام میں گرفتار عورت کو امام مسجد سے روزانہ درس لینے کا حکم
پاکستان کے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد نے ایک انوکھے فیصلے میں فحاشی کے الزام میں گرفتار ایک خاتون کو ضمانت دیتے ہوئے انہیں امام مسجد سے روزانہ ایک گھنٹہ دین کا درس لینے کا حکم دیا ہے، فحش حرکات کے نتیجے میں گرفتار خاتون کو عدالت نے یہ مشروط ضمانت دے کر اس کی مشکلیں بڑھا دی ہیں، جامع مسجد زرغونی میں خواتین کے درس کا اہتمام نہیں ہے ، اس لئے انہیں کسی نسواں مدرسے میں بھیجا جاسکتا ہے،وکیل لطیف آفریدی کے بقول اس حکم پر خاتون کے لئے عمل آسان نہیں ہوگا۔
بے قصور خالد مجاہد کی موت نے ملک میں انصاف کا جنازہ نکال دیا 
با را بنکی اور فیض آباد کچہری بم دھماکوں کے بے قصورمبینہ ملزم خالد مجاہد کی عدالت میں پیشی کے بعد واپسی میں ہوئی دردناک موت نے پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے،ایک دینی ادارے کے استاذ کو نمیش کمیشن کے مطابق جس طرح جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا، وہ نہایت اذیت ناک اور قابل مذ مت حرکت ہے، آخر پولیس کے پاس اسلحوں اور آر ڈی ایکس کا کتنا بھنڈار ہے جو مسلم نوجوانوں کوْ جبرا اٹھانے اور جھوٹے آر ڈی ایکس دکھا کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ پر آمادہ ہے ! سابق آئی جی داراپوری کے بقول وکرم سنگھ نے خالد سے پانچ لاکھ روپئے مانگے تھے، اور کہا تھا کہ رقم دیدو، تمہارے بدلے کسی اورکو پھنسا لیں گے،پولیس کی اس دہشت گردی کا حکومتوں نے بھر پور ساتھ دیا،خالد کی موت طبعی نہیں تھی، اسے قتل کیا گیا ہے،ظلم وبربریت کی اس بد ترین مثال کے بعد مسلمانوں سے سوال ہے:کیا آپ ضمیر فروشی کی عادت ترک کر کے اُن سیاسی جماعتوں کو دفن کرنے کا عہد کریں گے جو اس ظلم میں برابر کی شریک ہیں؟یہ سوال چیختا رہے گا جب تک خالد کا خون نا حق رنگ نہ لے آئے۔

Monday 20 May 2013

ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں


یہ اس وقت کی بات ہے جب قوم کا ایک 

بچہ تھا جو نیا نیا مسجد جانا شروع کیا تھا
وہ اکثر جمعہ کے خطبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا
بھت ساری باتیں اس کے سر سے باؤنس ہوجاتی تھیں
لیکن وہ اپنی مسجد کے خطیب کے رو رو کر گڑ گڑا کر دعا مانگنئ کو کبھی نا بھول سکا اسے یاد ہے کہ وہ جمعہ کے دن خطیب کی دعا سنتا تھا جو کہتا تھا کہ " اے اللہ تو ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مدد فرما"
پھر وہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین و شیشان کے بھائیوں کی مدد فرما
تھوڑا اور بڑا ہوا تو اس نے نے سنا کہ خطیب نے کہا اے اللہ تو ہمارے فلسطین شیشان اور افغانی بھائیوں ک مدد فرما
عمر نے ذرا اور کروٹ لی تو اس نے سنا کہ خطیب نے کچھ الفاظ اور بڑھالئے اور کہا :- اللھم انصر المسلمین فی فلسطین و شیشان و افغانستان و عراق-----------­----------
شعور نے ذرا اور ترقی کی تو سنا کہ خطیب کہ رہا تھا :- اے اللہ تو فلسطین شیشان افغانستان عراق اور شام کے رہنے والے مسلم مظلوم بھائیوں کی مدد فرما
اس کے بعد اس نے دیکھا کہ خطیب اپنی دعا میں مظلوم مسلمان ممالک کے نام بڑھانے کا عادی ہوگیا ہے اور امت مسلمہ سننے کی عادی ہوگئی ---
ایک دن وہ بچہ جو اب جوان ہوگیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا یہ بزرگ خطیب ہے اس نے اب تک ہمت نہیں ہاری ہے
خطیب نے لاسٹ ٹائم کہا تھا :اے اللہ تو فلسطین شیشان و افغانستان و عراق و کشمیر و بورما کے مسلمان بھائیوں کی 
مدد فرما-----------­--
اس نے یاد کیا کہ قوم صرف بے دلی اور بد دلی سے آمین کہکر یہ سمجھتی ہے کہ ہماری زمہ داریاں ختم 
لیکن میں نے بھی تو سالوں میں سننے اور سمجھنے کے سوا کیا کیا ---کسے راہ دکھلاؤں اور کیسے--
کہتے ہیں کہ ہمارا یہ ہار نا ماننے والا خطیب ملت بھی اپنی قوم کی سست روی اور مقصد حیات و دین سے لا تعلقی دیکھ کر ٹھنڈا سا ہوگیا ہے 
اور کئی احباب کے کہنے پر وہ اب رسما و بادل نا خواستہ سہی جمعہ کے خطبے میں پورے شارٹ طریقے سے شارٹ کٹ ڈھونڈنے والی قوم کے ساتھ کھہ دیتا ہے :- اللھم انصر المسلمین فی کل مکان ------
میں سمجھتا ہوں کہ خطیب آج بھی تھک نہیں اسے قوم کی بے راہ روی نے تھکا دیا ہے آپ کو کیا لگتا ہے ----- 
امید کہ یہ کہانی آپ کو پسند آئی ہوگی مجھے ناول و افسانے لکھنے نہیں آتے کیوں کہ میری اسکرپٹ ہمیشہ کمزور ہوتی ہے.

حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہے اہل جنوں کی تدبیریں

کتبہ :- اے آر سالم فریادی 

Monday 6 May 2013

المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود

المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود



المسلمون في ميانمار.. وأصحاب الأخدود
إنها قصة أصحاب الأخدود تتكرر من جديد، بقسوتها وضراوتها وشدتها ومرارتها، يُسعَّرُ أوارها بحقد الكفار، ولؤم المشركين، وعناد المستكبرين، وتآمر الحاقدين، والعالم كله يقف أمام هولها متفرجاً ساكتاً، لا يعترض ولا يستنكر، ولا يشجب ولا يرفض، ولا يحاول الصد أو الرد أو المنع. ليس في التاريخ الحديث جريمة تطهيرٍ عرقي وديني كما يحدث اليوم في ميانمار، فقد شقت فيها الخدود بعلم الدولة، وأضرمت فيها النار بمسؤولية الحكومة، وحرقت البيوت أمام وسائل الإعلام، وقُتل المسلمون أمام أنظار الكون كله، وحُرق الأطفال والتلاميذ المسلمون في مدارسهم، وشرد أهلهم من مناطقهم، وأخليت المدن والتجمعات منهم، وقد اتخذ البوذيون قرارهم بتصفية المسلمين والتخلص منهم، وكأن المسلمين ليسوا شركاءهم في الأرض لهم حقوق. المسلمون في ميانمار لا يقتلون في بلادهم وحسب، بل يطردون منها بمئات الآلاف إلى دول الجوار، وتنتزع عنهم جنسية بلادهم، ويحرمون من امتيازاتها، ويتهمون في أوطانهم بأنهم غرباء أجانب، ليسوا من أهل البلاد ولا من سكانها الأصليين، وإنما هم وافدون غرباء، ومهاجرون أجانب، لا حق لهم بالإقامة أو التملك فيها، فلا أرض يشترونها، ولا عقاراتٍ يمتلكونها، ومن حاول التملك يعاقب، وتصادر أملاكه، ويمتلكها غيره. كما تمارس السلطات البورمية في حقهم قوانين قاسية لتنظيم النسل، وتحديد عدد الأطفال، فلا تتزوج المرأة قبل أن تبلغ الخامسة والعشرين من عمرها، بينما يعاقب الرجل إذا تزوج قبل بلوغه الثلاثين، وقد يحقن بما يفقده الخصوبة ويصيبه بالعقم، أو تحقن المرأة فلا تعود قادرة على الإنجاب، كما فرضت الحكومة قوانين خاصة تمنع على المسلمين التزاوج لمدةٍ زمنية معينة، مما يشجع على الفاحشة، وينشر الفساد والزنا بين المسلمين، ومن يتجاوز القوانين، أو يتزوج دون حصوله على إذنٍ رسمي بالزواج، فإنه يسجن لأكثر من عشر سنواتٍ. أما المرأة المسلمة الحامل فيجب أن تخضع حملها للمراقبة الشهرية، لا أمام طبيبٍ نسائي ليراقب الحمل، ويتابع صحة وسلامة الجنين، بل بقصد التضييق على المرأة المسلمة، وإجبارها على نزع ثيابها، وكشف بطنها، وتعريضه لأشعةٍ ضارةٍ بحجة التصوير الملون، لضبط حالات الولادة، والتدقيق على إحصاء المواليد وتعداد السكان، وتجبر المرأة الحامل على دفع رسومٍ عالية لإجراء الفحوصات الدورية الإلزامية، وقد تتعرض لأعمال اغتصاب وتحرش وانتهاكٍ للعرض، وهو ما أكدته اللجان الدولية العديدة. المسلمون في ميانمار ضعفاء محرومون، وفقراء معدمون ومساكين مشردون، ومهمشون تائهون، لا يجوز لهم ممارسة التجارة والأعمال الحرة، إنما يسمح لهم بالعمل كعبيدٍ أجراء، يقومون بالأعمال الوضيعة. انتهاك لحرمة الدين ولا ينبغي أن يكون للمسلمين في ميانمار مساجد يصلون فيها، ولا دور عبادةٍ تميزهم، رغم أن مساجدهم قديمة، فلا يسمح بترميمها ولا ببناء الجديد منها، ولا يسمح لهم بمقابر خاصة يدفن فيها موتاهم، أو شواهد إسلامية تدل عليهم، ولا تراث إسلامي يختصون به، ولا يسمح لهم بتلاوة القرآن، ولا حق لهم في مدارس دينية ولا في تعليمٍ خاص، بل إن الحكومة تتعمد تغيير المدرسين المسلمين بآخرين بوذيين متشددين، ولا يسمح لطلابهم بالدراسة خارج البلاد، أو تلقي العلوم على أيدي مدرسين أجانب، في الوقت الذي يحرمونهم فيه من مواصلة تعليمهم الجامعي في الجامعات البورمية، وتمنعهم من طباعة أو إصدار أي كتب خاصة بهم. مسؤولية السلطة أما قرى وبلدات المسلمين فيجب أن تطعم وتهجن بمواطنين بوذيين، فتعمد الحكومة إلى بناء قرى نموذجية، ومساكن حكومية للمواطنين البوذيين في قلب الأحياء الإسلامية، وتزودها بكل التسهيلات اللازمة، لتكون مميزة عن مساكن المسلمين، الذين لا يجدون إلا أن يعملوا خدماً وعمالاً في المستوطنات الجديدة، ولا يُسمح للمسلمين باستضافة أحد في بيوتهم، ولو كانوا أشقاء أو أقارب إلا بإذن مسبق، أما المَبيت فيُمنع منعاً باتاً، ويعتبر جريمة كبرى ربما يعاقَبُ عليها فاعلُها بهدم منزله أو اعتقاله أو طرده من البلاد هو وأسرته. السلطة الحاكمة في ميانمار تتحمل المسؤولية الكاملة إزاء ما يتعرض له المسلمون في بلادهم، إذ إن الذي يحرق البيوت والمتاجر، ويطرد السكان ويقتل المواطنين، أو يجبرهم على التخلي عن دينهم، والتحول إلى البوذية وهي دين الدولة الرسمي، إنما هم جنودٌ نظاميون، وعناصر شرطة بلباسهم الرسمي، وأسلحتهم النظامية، حيث يرتكبون هذه الجرائم المنظمة وفق تعليماتٍ واضحة، وتوجيهاتٍ مباشرة من قيادتهم العليا، والذي يجبرهم على العمل بالسخرة في الثكنات العسكرية، وفي بناء الجسور وحفر الأنفاق، إنما هو جيش الدولة والسلطة الحاكمة. نصرة واجبة المسلمون مطالبون قبل غيرهم، بالأصالة عن أنفسهم، بالوقوف إلى جانب إخوانهم المسلمين ونصرتهم، وتأمين حياتهم، والعمل على رفع الظلم عنهم، وإعادة الحقوق إليهم، وتحريك المجتمع الدولي كله لنصرتهم وإغاثتهم، إذ إنهم لا حول لهم ولا قوة، ولا عندهم بأسٌ ولا منعة. كما يجب على المسلمين أن يرفعوا الصوت عالياً ضد بكين، التي تدعم الحكومة البورمية، وتقدم لها السلاح، وتدعم سياستها العنصرية أمام المحافل الدولية، فالمسلمون في بورما يقتلون بإرادةٍ صينية، ويعدمون بمظلةٍ بوذيةٍ تنمو وتترعرع عندهم، والعلاقات العربية والإسلامية مع الصين كبيرة جداً، فينبغي استغلالها للضغط على حكومتهم، لترفع الغطاء عن الحكومة في ميانمار، التي تمارس القتل، وتسكت عنه. كما يجب على حكومة بنجلاديش بالتعاون مع منظمة المؤتمر الإسلامي كونها الدولة الأكثر استضافةً للاجئين المسلمين من بورما، والأكثر معاناةً من تدفقهم، أن تضغط على حكومة بلادهم لإعادتهم، وتحسين شروط عيشهم، وضمان مستقبلهم في بلادهم وعلى أرضهم، فهذا هو حقهم الطبيعي، الذي لا ينبغي أن يحرمهم منه أحد. المسلمون في ميانمار يحتضرون ويفتتنون، ويضطهدون ويعذبون، وتشق لهم الأرض أخاديدَ كبيرة، ويشعلون لهم فيها ناراً ذات وقود، إنهم على خطرٍ عظيم، ويتعرضون لشرٍ مستطير، ويواجهون مصيراً مجهولاً، ومستقبلاً غامضاً، ولكنهم مستمسكون بدين ربهم كالقابضين على الجمر.> إدانة دولية جديدة للعنف في ميانمار أعرب وفد من أربعة أعضاء في البرلمان الأوروبي زاروا ميانمار أخيراً عن قلقهم إزاء تواصل انتهاك حقوق الإنسان في هذا البلد. وحذرت النائبة «باربارا لوشبيلر» التي ترأست الوفد، في بيان، من أن انتهاك الحقوق الاقتصادية والاجتماعية لايزال متواصلاًً في ميانمار، مشيرة إلى أن هناك نقصاً في التنمية الاقتصادية لأغلبية الشعب البورمي. وحثت الحكومة البورمية على «الإفراج عن المعتقلين السياسيين، واتخاذ كافة التدابير لحماية كل الأقليات دون استثناء، بمن في ذلك أقلية الروهينجيا (المسلمة)، وسن سياسات اقتصادية تعود بالنفع على أغلبية الشعب وليس على دوائر ضيقة». ودعا أعضاء البرلمان الأوروبي إلى إشراك المجتمع المدني في التنمية، وأعربوا عن تأييدهم للانتقال الديمقراطي وسيادة القانون، واحترام حقوق الإنسان في ميانمار. كما أعرب الرئيس الأمريكي الأسبق «جيمي كارتر»، عن قلقه إزاء تجدد العنف الطائفي مؤخراً في ميانمار، وذلك خلال زيارته الحالية للبلاد. وقد أخبر «كارتر» الرئيس الميانماري «تين سين» أن المجتمع الديمقراطي لن يقوم إلا على أسس من الاحترام المتبادل والتسامح والتراحم وتقبل الآخر، وأكد «كارتر» انزعاجه بما تم تداوله من تقارير عن استخدام لغة عدائية من قبل بعض الرموز والمشاهير ورجال الدين في ميانمار.

مجلة المجتمع