Wednesday 30 January 2013

ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟

ساس بہو کے جھگڑے ۔۔۔ سبب ۔۔۔؟
 بنت شاهين: دبئي

ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ جب بھی عورت کے موضوع پر گفتگو کی جائے اس کا عنوان یا تو ساس ہوگا یہ پھر بہو۔ جیسے عورت کے بس یہی دو روپ ہیں نا اس کا کوئی تعارف ہے اور نہ کوئی شناخت۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور گالی گلوج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی اور ناچاقی کا سارا الزام ان ہی دو عورتوں پر رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان حضرت کا نام نہیں آتا جو ایک لڑکی کو بہو بنا کر اپنے گھر والوں سے منسلک کرتے ہیں۔ اور ساس بہو کو رشتہ کی ڈور سے باندھتے ہیں۔ جن کا ان دونوں کے درمیان اہم رول ہوتا ہے وہی حضرت معصوم نظر آتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ساس بہو کی نااتفاقی کی وجہ یہ حضرت بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکیاں تصورات کی رنگین دنیا سجا کر سسرال جانے کے بجائے سسرال والوں سے لڑنے جھگڑنے کا پلان بنا کر باضابطہ میدان جنگ کا نقشہ کھینچ کر کیا سسرال جاتی ہیں؟ نہیں ۔۔۔۔
اور نہ کوئی والدین اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم جاتے ہی سسرال والوں سے لڑائی جھگڑا شروع کردینا۔ والدین تو یہ چاہتے ہیں کہ بیٹی سسرال میں خوش و خرم اور سب کی آنکھوں کا تارا بن کر رہے۔۔
لڑکی تو آرزوں و ارمانوں کی دنیا سجا کر محبت بھری آغوش سے جدا ہوکر سسرال کی چوکھٹ میں قدم رکھتی ہے۔ وہ اس بات کو جانتی ہے کہ وہ ایک نئی دنیا شروع کرنے جا رہی ہے۔ وہ کسی کی شریک حیات بن گئی ہے اور اپنے شریک حیات کے گھر جارہی ہے۔ جہاں اس کو اپنے شوہر کی بھر پور توجہ حاصل پوگی۔ وہ اس کے لئے مضبوط سائباں ثابت ہوگا۔ 

مگر افسوس کہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ، اس کو زبردست ٹھیس لگتی ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ سسرال والے اس کو جذبات و احساسات سے عاری ایک روبوٹ سمجھتے ہیں ، جس کا کام صرف اطاعت و خدمت ہے۔ جس کی ذات کو ہر شخص تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور شوہر نامدار خاموش تماشائی بن کر کھلی نااتفاقی اور ظلم کو اس لئے دیکھا کرتے ہیں کہ بیوی کی تائید میں کچھ کہنا ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کو ناراض کر کے دوزخ کا ایندھن بننا نہیں چاہتے اور پھر یہ بھی ڈر ہے کہ لوگ انہیں زن مرید کہنے لگیں گے۔ وہ بیوی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کی دلجوئی کریں یا محبت بھرا سلوک کریں۔ 
ان کی نظر میں صرف ماں پاب کے حقوق ہوتے ہیں ، اس کو ادا کرنے میں اس طرح لگ جاتے ہیں کہ بیوی کے حق کو بھول جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بیوی کو وہ حق نہیں مل پاتا جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ تو اس کے دل میں سسرال والوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اور اس نفرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے ، جب اس کو سنایا جاتا ہے کہ اس کو خدمت کے لئے لایا گیا ہے۔ 
جب نئی دلہن کو ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے تو اس کا شدید رد عمل ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ پھولوں کے بجائے دامن جب کانٹوں سے بھر دیا جائے تو چینخ نکل ہی آتی ہے۔اس کو دنیا کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں بیٹے کو جنم دینے والی ، اس کو خون جگر پلا کر پروان چڑھانے والی ، آرزوں ارمانوں سے اس کا بیاہ رچانے والی ، دھوم دھوم سے بہو کو گھر بیاہ کر لانے والی وہ بہو کی دشمن بن کر خواہ مخواہ بیٹے کی زندگی میں تلخیاں نہیں گھول سکتیں۔ کوئی ماں نہیں چاہتی کہ بیٹا ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کرے۔ مگر ماں جب یہ دیکھتی ہے اس پر جان نچھاور کرنے والا بیٹا شادی کے بعد اس کو نظر انداز کرہا ہے ، اس سے لاتعلق ہوکر رہ گیا ہے بس بیوی کی ذات میں گم ہوکر رہ گیا ہے ، بیوی کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ بیٹے کی نظروں میں اب اسکی کوئی عزت ہے نہ اہمیت تو اس کے نازک احساسات پر زبردست چوٹ لگتی ہے۔ بہو کو اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے۔ جس نے اس کا بیٹا چھین لیا ، جب اس کی ممتا پر چوٹ لگتی ہے تو برداشت نہیں کر پاتی۔ ۔۔۔۔۔۔ تو دنیا اس کو کہتی ہے ساس بہو کی لڑائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 

دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے والے ہوتے ہیں شوہر نامدار ، جن کی ناسمجھی ناتجربہ کاری کوتاہ فہمی حقوق سے نا واقفیت غلط رویہ ساس بہو کو اپنا دشمن بنا دیتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت کبھی ماں کی حق تلفی کرتے ہیں تو کبھی بیوی کی ، یہ انکا غلط رویہ اور عدم توازن ساس بہو کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے ، دنیا کہتی ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوگئی ہے ، ان دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن کس نے بنایا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر کوئی غور نہیں کرتا ذرا سوچئے کیا یہ بات غور طلب نہیں؟ آخر عورت کو کب تک قصوروار ٹھیرایا جاتا رہے گا؟ مرد جس کو قوام بنایا ہے اس کا فرض نہیں کہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھےمرد نہ صرف یہ کہ حقوق کو ادا کرے بلکہ حقوق کی حفاظت بھی کرے تو ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے گھر کو سکون و آرام کا گہوارہ بنا سکتی ہیں اور کائنات میں رنگ بھر سکتی ہیں۔

کالجوں میں فحاشی



کالجوں میں فحاشی



منصور مہدی

جب مجھے پتہ چلا کہ ارسلان نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے روک دیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ ارسلان کوئی بنیاد پرست نہیں تھا ۔ وہ تو ایک لبرل قسم کا مسلمان ہے اور تعلیم کے معاملے میں تو اس کی سوچ بہت مثبت تھی وہ صرف لڑکوں کی تعلیم کا ہی حامی نہیں تھا بلکہ لڑکیوںکی تعلیم کا بھی حامی تھا۔ بلکہ وہ تو کہتا تھا کہ خصوصا آج کے دور میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے۔ اس کی سوچ کے مطابق موجودہ دور میں لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے ملنا بہت دشوار ہو چکے ہیں تو ایسے میں کم از کم لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہوں تو وہ کسی سکول میں ٹیچر ہی لگ کر اپنا گزر بسر کر سکتی ہے ناکہ تعلیم سے بے بہرہ ہو کر موجودہ معاشی حالات میں اس کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔
ارسلان اکثر اپنے دیگر ملنے والوں کو بھی یہی کہتا تھا کہ اپنے بچوں خصوصا بچیوں کو تعلیم ضرور دلانی چاہیے۔ وہ کہتا کہ بحیثیت مسلمان تو ہم پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے اور سنت بھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بارے اسلامی احکامات بھی سنایا کرتا تھا۔
ارسلان اگرچہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس نے ایف اے کیا ہوا تھا اور اب ایک کمپنی میں ملازم تھا جہاں اس نے کمپیوٹر بھی سیکھ لیا تھا اور انٹرنیٹ پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس کے صرف چند ایک دلچسپیاں تھی جن میں ایک یہ تھی کہ وہ اخبارات اور نیٹ سے تعلیم کے بارے میں حقائق اکٹھے کرتا اور پھر دوستوں اور ساتھیوں کو سناتا اور ان کی اہمیت بیان کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن اس نے پاکستان میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے حوالے سے یونیسف کی رپورٹ پڑھی تھی جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد 20سے 35سال کی لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے (35سال سے زائد عمر)۔ ان لڑکیوں میں اگرچہ تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی تھی لیکن ایسی لڑکیوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی کہ جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں تھی۔ ارسلان کہتا کہ ایسی صورتحال میں اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہوگی تو کم ازکم اپنا پیٹ تو پال سکے گی وگرنہ والدین کے بعد کسی عزیز یا رشتہ دار کے در پر پڑی رہے گی اور اسے ان کی باتیں سننے کو ملے گی۔ وہ مزید بتلاتا کہ اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں مگر مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ارسلان مزید دلائل دیتا کہ لڑکیوں کی بھی تعلیم بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنا لڑکوں کی تعلیم بلکہ لڑکیوں کو مستقبل میں ماں بننا ہوتا ہے اور ایک پڑھی لکھی اورتعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی سچی فکر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینا ہے، مگر ایک عورت کو تعلیم دینا گویا ایک پورے خاندان اور معاشرے کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔ اس لئے کہ ماں کی گود بچے کی اول اور عظیم و مستحکم تربیت اور تعلیم گاہ ہے۔ اس لئے کہ بچہ چوبیس (24) گھنٹے ماں کی نگرانی میں رہتا ہے اور بچہ کی یہ عمر موم کے مثل ہوتی ہے اس پر جو نقوش مرتب کئے جائیں وہ با آسانی نقش ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی نہیں مٹتے۔ اس لئے ہمیں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں پر توجہ دینی چاہئیے۔
لیکن اب ارسلان کو کیا ہوگا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے والے نے اپنی ہی بیٹی کو اب مزید تعلیم دلانے سے انکار کردیا۔حالانکہ اس کی بیٹی بہت ذہین تھی ۔ پہلی جماعت سے ہی وہ اول پوزیشن لیتی رہی اور اب میٹرک کے امتحان میں بھی اس نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ ارسلان کہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا۔ لیکن اب اس نے ایسا کیوں ہوا؟
کئی روز سے اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ ارسلان کا ایک دوست میرا بھی دوست تھا ، وہ جب مجھے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ ارسلان نے ایسا کیوں فیصلہ کیا تو وہ کہنے لگا اس کی وجہ تو مجھے بھی اب تک نہیں معلوم ہو سکی کہ اس نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ اس نے اپنا فون بھی بند کیا ہوا ہے ۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ چلو اس کی طرف چلتے ہیں اور اس کی وجہ پوچھتے ہیں کیونکہ اب کالجوں میں داخلے بھی بند ہونے والے ہیں ، یہ نہ ہو کہ اس کی بیٹی کو وقت گزرنے کے بعد داخلہ ہی نہ مل سکے۔اس کے پاس چل کر اسے سمجھاتے ہیں کہ وہ تو خود لڑکیوں کی تعلیم کا بہت برا حامی تھا تو اب اپنی بیٹی کے ساتھ کیوں یہ زیادتی کر رہا ہے۔
اگلے روز ہم شام کے وقت جب وہ اپنے دفتر سے آ جاتا ہے ، اس کے گھر پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد اس نے ہمیں چائے پلائی ۔ جب ہم چائے وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو ہم نے اسے کہا کہ ارسلان ہم نے سنا ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا ہے۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔یہ نہ ہو داخلے بند ہوجائیں اور تمہاری بیٹی کا سال ضائع ہوجائے۔
وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے درست سنا ہے کہ اب میں اپنی بیٹی کو مزید تعلیم نہیں دلواﺅں گا بلکہ اب جہاں پہلے لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی وکالت کرتا تھا اب میں انھیں تعلیم اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں میں داخلہ لینے سے منع کرنے کی وکالت کروں گا۔ ہمیں اس کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی کہ ارسلان میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی۔
ہمارے اصرار پر اس نے کہا کہ اچھامیں ابھی تمہیں اپنے اس فیصلے کی وضاحت بتلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر کے دوسرے کمرے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہمیں بھی اس کمرے میں ساتھ لے گیا کہ جہاں پر کمپیوٹر رکھا ہوا تھا۔ اس نے کمپیوٹر اون کیا اور ہمیں مخاطب کر کے کہنے لگا کہ دوستوں تمہیں تو پتہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا کتنا حامی تھا جب میری بیٹی نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تو مجھے جتنی خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میری بیٹی نے مجھے کہا کہ پاپا فلاں۔۔۔۔۔۔۔کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے کیونکہ میری دوست راحیلہ اور ثمرین بھی اسی کالج میں داخلہ لے رہی ہے۔اس کالج کی تعلیم بہت اچھی ہے ۔ ارسلان کہنے لگا کہ میں نے بھی اس کالج کے بارے میں سنا تھا۔اس کالج کی کئی شاخیں تھی نہ صرف لاہور میں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی اس کی برانچیں تھیں۔ اس کالج کا مالک شہر کا ایک متمول شخص ہے اور علاقائی سیاست میں بھی اہم مقام رکھتا ہے اور اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکا ہے۔
ارسلان نے بتایا کہ میں نے اس کالج کے دفتر میں فون کیا اور داخلہ فارم وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو دفتر والوں نے بتایا کہ داخلہ فارم کالج کے دفتر سے بھی مل سکتے ہیں اور ہمارے کالج کی ویب سائٹ سے بھی داﺅن لوڈ ہو سکتے ہیں۔ جس پر میں نے سوچا کہ میرے دفتر میں پرنٹر موجودہے چنانچہ وہاں سے فارم لے لوں گا اس طرح میرا کالج جانے کا چکر بچ جائے گا۔ لیکن مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ان سے ان کی ویب سائٹ کا ایڈریس نہیں پوچھا ۔تو مین نے سوچا کہ کوئی بات نہیں میں ان کی ویب سائٹ گوگل پر سرچ کر لوں گا۔چنانچہ جب میں نے گوگل کھول کر اس پر اس کالج کی ویب سائٹ سرچ کرنے کے لیے نام لکھا اور انٹر کا بٹن دبایا تو کالج کی ویب سائٹ کے علاوہ اور بہت سے ویب سائٹس کے لنک براﺅزر پر کھل گئے۔ انہی میں یو ٹیوب نامی ویب سائٹ کا لنک بھی کھل گیا جس کے امیج پر ایک لڑکی ناچتی ہوئی نظر آئی جس نے اس کالج کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔جس پر میں نے اس سائٹ کو بھی دیکھنا چاہا کہ یہ کیا ہے۔
انہی باتوں کے دوران کمپیوٹر اون ہو گیا اور اس نے گوگل کھول کر اس کالج کا نام ٹائپ کیا جس پر بہت سے لنکس کھل گئے۔ اس نے ہمیں بھی وہ لنک دکھایا اور اسے کلک کیا تو یوٹیوب نامی سائٹ کھل گئی جس پر اس کالج کے حوالے سے ایک نہیں بیسیوں وڈیوز کے لنک تھے۔ وہ لنکس دیکھ کر ہم بھی حیرت زدہ ہو گئے کہ اس قسم کی وڈیوز کا اس کالج سے کیا تعلق؟ ارسلان نے ان مین سے ایک وڈیو کو کلک کیا۔تو وڈیو چلنے لگی جس میں اس کالج کا کلاس روم نظر آرہا تھاکہ جہاں پر بہت سے لڑکے کالج یونیفارم میں خر مستیاں کر رہے تھے اور بھارتی گانوں پر ڈانس کر رہے تھے جبکہ کلاس میں کوئی ٹیچر وغیرہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ وڈیو موبائل فون کے کیمرے سے بنی ہوئی تھی۔
ارسلان نے پھر ایک اور وڈیو کے لنک کو کلک کیا تواس پر لکھا ہوا تھا ، کلر ڈے کے موقع پر لڑکوں کا فن، پھرایک اور وڈیو اس نے دکھائی اس پر درج تھا لڑکیوں کی دل لبھا دینے والی پرفارمنس، اس کے بعد یکے بعد دیگرے اس نے ہمیں بہت سی وڈیوز دکھائی جس میں کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ایسے ایسے انداز میں ایسی حرکتیں کرتے نظر آئے کہ الامان الالحفیظ۔پھر ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ کہ ایک لڑکا ٹیچر کی نقل کرتا ہے کہ کیسے پڑھایا جاتا ہے اور آخر میں دیگر لڑکے اسے مارتے ہیں۔ پھر ارسلان نے ایک ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ دکھائی کہ جو اس کالج میں منائے گئے سپرنگ فیسٹیول کے موقع کی تھی۔ جس میں لڑکیوں رنگ برنگے کپڑوں ، چست جین اور شرٹس میں ملبوس لڑکیاں ناچ رہی تھیں ۔ ٹی وی کے کیمرہ مین نے بھی اسے فلمانے میں کمال کر دیا کہ جیسے وہ کسی کالج کے فیسٹیول کو نہیں فلما رہا تھا بلکہ کسی انگریزی فلم کو فلما رہا ہوں، بہرحال اس رپورٹ میں کالج کی پرنسپل ساحبہ کا بھی ساٹ تھا جس میں موصوفہ فرما رہی تھی کہ اس قسم کی سرگرمیاں اس کالج کی رونق ہیں اور ایسی انٹرٹینمنٹ ہونی چاہیے کہ جس سے طالب علموں کی تھکان کم ہو سکے۔
اس کے علاوہ ارسلان نے صرف اسی کالج ہی نہیں بلکہ شہر کے دیگر کالجوں کی ودیوز بھی دکھائی۔ جن میںان وڈیوز سے بھی زیادہ بے ہودہ سین تھے ۔اس سائٹ پر نہ صرف لاہور بلکہ ملک کے دیگر شہروں کے کالجوں کے حوالے سے بھی وڈیوز موجود تھی جن کو دیکھ کرہمارا سر بھی شرم سے جھک گیا۔
ارسلان نے یہ دکھانے کے بعد ہم سے پوچھا کہ بتاﺅ کیا تم ان کالجوں میں اپنی بیٹیوں کو داخلہ دلواﺅ گے؟ اس کے سوال کا فوری جواب ہمیں نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔بالآخر میرے دوست نے جو ارسلان کا قریبی دوست تھا کہنے لگا کہ ارسلان کیا تم نے دیکھا کہ ان وڈیوز میں صرف چند لڑکے اور لڑکیاں بار بار نظر آ رہی تھیں جس کا مطلب ہے کہ تمام لڑکے اور لڑکیاں ان کاموں میں مشغول نہیں بلکہ بیسیون طالب علم صرف تعلیمی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں انھیں ان بے ہودہ سرگرمیوں سے کوئی شغف نہیں ہوتا۔میرا دوست کہنے لگا کہ ان وڈیوز کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ارسلان کہنے لگا کہ ان کالجوں کا بڑا نام سنا تھا اگر یہ ہی ایسے ہیں تو دیگر کالجوں کا کیا حال ہوگا۔ میرا دوست کہنے لگا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ کوئی ایک خراب ہے تو سارا جہاں ہی خراب ہے۔
ارسلان کہنے لگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز میں فحاشی اور برائی اب اتنی عام ہو چکی ہے جس کا مجھے بھی اندازہ نہیں تھاکہ اگر ہمارے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور شرم و حیا کی بجائے غیر اسلامی تعلیمات اور بے حیائی اور بے شرمی کی تعلیم دی جائےگی تو ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی۔
کیا تعلیمی اداروں میں بالخصوص گرلز کالجز میں ایسے فحاشی اور بے حیائی پر مبنی پروگرام ہوتے ہیں ؟کیا سپرنگ فیسٹیول کے نام پرایسے مخلوط پروگرام ہونے چاہیے؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈانس کے مقابلے ہونے چاہیے؟
ارسلان نے ایسے ایسے سوال کیے کہ جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا تاہم ہم نے اسے سمجھایا کہ دوست تمام کالجز میں ایسا نہیں ہوتا، ابھی بھی داخلے کا وقت ہے تم کوشش کرو اور کسی اور کالج میں اپنی بیٹی کا داخلہ کروا دو تاکہ اس کا سال ضائع نہ ہو۔ ارسلان ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم لوگ مجھے ایسے کالج کا پتہ بتادو کہ جہاں پر اس قسم کی سرگرمیاں نہیں ہوتی تو میں وہاں بچی کو داخل کروا دوں گا

بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟

بہو یا ساس ۔۔۔۔ گھریلوں جھگڑوں کا ذمہ دار کون ؟
منصور مہدی

ہمارے معاشرے میں ساس بہو کے جھگڑے اتنے عام ہوگئے ہیں کہ یہی عورت کا تعارف بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی بھی خاندان میں عورت کے یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ گھریلو نااتفاقی کا سارا الزام انہی دو عورتوں پر رکھا جاتاہے۔اگرچہ ان جھگڑوں میں ایک تیسرا کرادر بھی ہوتا ہے اور وہ شوہریا بیٹا ہوتا ہے۔لیکن وہ ان لڑائی جھگڑوں میں زیادہ ترسامنے نہیں آتا ۔ یہ جھگڑے بسا اوقات سنگین بھی ہو جاتے ہےں۔ ان جھگڑوں سے خاندان کے تمام افراد کا ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے اور اکثر بات زبانی تکرار سے نکل کر مار کٹائی اور اس سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں طلاق اور قتل جیسے واقعات سرزد ہوجاتے ہیں۔
اس بار نئی بات خواتین میگزین نے اس اہم موضوع پر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے رائے لی۔ 50فیصد لوگوں نے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ ساس کو قرار دیا تو 40فیصد نے کہا کہ ان کی وجہ بہو ہوتی ہے لیکن 10فیصد لوگوں نے ان جھگڑوں کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیا۔
ماہر نفسیات منتہیٰ احمد کا کہنا ہے کہ ساس اور بہو کے درمیان ہونے والے یہ جھگڑے جب طول پکڑتے ہیں اور روزنہ کا معمول بن جاتے ہیں تو ان کے بچوں پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیںجو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ پھر جب ایسے جھگڑوں کے نتیجے میں خاندان جدا ہوتے ہیں، میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے تو ہر متعلقہ شخص شدید طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی گھر میں ہونے والے ان جھگڑوں کے بارے میں کوئی اصولی بات بتانا ممکن نہیں بلکہ ہرگھر کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ہر انسان اپنی تربیت، طبعیت اور عادت میں مختلف ہوتا ہے، اس لیے کوئی اصولی بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ کس گھر میں جھگڑے کی وجہ کیا ہوتی ہے البتہ کچھ عمومی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیال اگر رکھا جائے تو معاملات خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں۔عام طور پر ہمارے ہاں اس طرح کے مسائل کا آغاز شادی کے فوراً بعد ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔وہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی پس منظر میں شادی کے بعد لڑکی کو اپنا گھر چھوڑ کر سسرال میں جاکر رہنا ہوتا ہے۔ایک لڑکی کے لیے یہ نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اس کے ذہن میں اپنے گھر اور اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک تصور ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ لڑکی ایک مرد کی بیوی کم اور ایک دوسرے خاندان کی بہو زیادہ ہوتی ہے اور یہی سوچ لڑائی جھگڑوں کی ابتدا بنتی ہے۔
ڈاکٹر فرح قریشی نے اس حوالے سے کہا کہ اصل میں ہمارے معاشرے میں جب ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک نئی زندگی شروع نہیں کر رہی ہوتی بلکہ ایک خاندان کا حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اس خاندان کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں، ملنے جلنے اور لینے دینے کے آداب ہوتے ہیں۔ معاملات طے کرنے کااپنا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ جبکہ آنے والی لڑکی، چاہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ایک مختلف پس منظر سے آتی ہے۔ اب اگر وہ لڑکی اس حقیقت کو سمجھ لیتی ہے اور خود کو نئے حالات میںڈھال لیتی ہے تو زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو جھگڑے شروع ہونا لازمی بن جاتا ہے۔اس حوالے سے چاہیے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو سکھائے کہ ہماری سوسائٹی مغربی معاشرے کی طرح نہیں جہاں لڑکا اور لڑکی اپنی زندگی کاخود آغاز کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں لڑکی کو شوہر کے ساتھ سسرال کے طور طریقوں کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے۔جس لڑکی کو اس بات کی سمجھ ہوتی ہے، وہ عام طور پر بہت کامیاب زندگی گزارتی ہے۔
پروفیسر مسز فرخندہ امین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ایک ساس خود برے حالات سے گزری ہوتی ہے۔ اس نے اپنی سسرال اور ساس کی طرف سے اچھے معاملات نہیں دیکھے ہوتے، اس لیے وہ طے کرلیتی ہے کہ وہی کچھ بہو کے ساتھ بھی لازماً ہونا چاہیے۔ مگر زمانہ چونکہ بیس پچیس سال آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اس لیے ساس کے برخلاف نئے زمانے کی بہو زبردست مزاحمت کرتی ہے اور پھر جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک خاتون کو اس کی ساس نے میکے جانے سے روکا ہوتا ہے تو وہ بھی اکثر یہی کچھ اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اس پر کام کاج کا تمام بوجھ ڈال دیا گیا ہوتا ہے تو یہی کچھ وہ بھی اپنی بہو کے ساتھ کر دیتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جو کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا ہے، اگر وہ اس وقت اس کے لیے برا تھا تو بیس پچیس سال بعد اس نئے زمانے کی لڑکی کے لیے یہ زیادہ ناپسندیدہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پھر ان جھگڑوں میں نندوں اور بڑی جیٹھانیوں کا بھی بہت کرادار ہوتا ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نندیں شروع میں تو بھابھی بھابھی کرتی رہتی ہیں مگر جب بھابھی اور بھائی میں انڈرستینڈنگ بڑھتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ بھابھی نے ہمارا بھائی چھین لیا اور پھر یہاں سے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح جیٹھانیاں جو پہلے سے اس گھر میں موجود ہوتی ہے اور یہاں کے طور طریقوں سے آشنا ہو چکی ہوتی ہے وہ اس گھر میں آنی والی نئی عورت کو عموماً پسند نہیں کرتی۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو کم عمری دوسری خوبصورتی تیسرے تعلیم اور ایسی ہی دیگر باتیں جو جیٹھانی میں موجود نہ ہوں۔ پھر خاص طور پر شادی شدہ نندیں ان جھگڑوں میں اہم کرردار ادا کرتی ہیں ۔ ان کے ساتھ ان کے سسرال میں جو برتاﺅ ہوتا ہے وہی وہ اس نئی نویلی دلہن کے ساتھ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ اگر نئی آنے والی لڑکی کی ذمہ داری ہے تو بہرحال سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ لڑکی اپنا گھر بار اور رشتہ دار چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا تصور لے کر اِس گھر میں آئی ہے۔ اسے فوری طور پر احتساب کی سولی پر چڑھا دینا زیادتی ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ نئے حالات میں ایڈجسٹ کرسکے۔ اس دوران میں اس سے غلطیاں ہوں گی، وہ بھول کا شکار بھی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ناپسندیدہ معاملہ بھی کربیٹھے لیکن اسے رعایت ملنی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر ایسا نہیں ہو پاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل سید محمد ثقلین جعفری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سب سے بڑی بات جو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین بیٹیوں اور بہوو ¿ں کے لیے الگ الگ معیار رکھتی ہیں۔حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسرے کے لیے پسند کرو۔ یہ بات اگر خواتین ذہن میں رکھیں اوروالدین یا ساس جو اپنی بیٹی کے لیے چاہتی ہیں، وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے بھی چاہے، جو اب ان کی بہو ہے۔ ان کی بیٹی کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ اس نئی لڑکی سے لینا مناسب نہیں ہے۔ ظلم اگر ان کے ساتھ ہوا ہے، ماں باپ کی جدائی کا غم اگر انہوں نے اٹھایا ہے، شوہر کی بے رخی کا صدمہ اگر انہوں نے سہا ہے تواس میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کا حساب اس نئی لڑکی سے لیا جائے۔بلکہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ایک نئی اور اچھی روایت کا آغاز کریں۔
پیپلز لائررز فورم کے صدر اور لاہور بار کے سابق سنیئر نائب صدر شاہد حسن کھوکھر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گھریلو جھگڑوں کا ایک اہم سبب اکثر وہ مرد ہے جو ایک طرف ایک خاتون کا شوہر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ایک طویل عرصے سے کسی اور کا بیٹا اور بھائی ہوتا ہے۔ جھگڑے کا سبب بارہا یہ ہوتا ہے کہ اس مرد پر کس کے حقوق زیاد ہ ہیں۔ بیوی کے یا ماں کے۔ اس مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ ہر شخص کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی چاہیے۔ لڑکی کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو لڑکا آج اس کا شوہر بنا ہے، وہ عرصے سے ایک دوسری خاتون کا بیٹا اور کسی اور کا بھائی بھی ہے۔ انہوں نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا ہے۔ اس پر ان لوگوں کے حقوق زیادہ ہیں۔ اس لیے ان پر کبھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اسی طرح سسرال والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میاں بیوی کی ایک پرائیویسی ہوتی ہے۔ انہیں ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھنا، بیوی کو میاں سے دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر فطری عمل ہے ،جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
سماجی کارکن ادریس علی کا کہنا ہے کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج اور عادات نہیں مل پاتیں۔ یعنی جھگڑے کے اصل فریق وہی دونوں بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک سبب اکثر یہی ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اور بہنیں خود فریق بننے کے بجائے اس لڑکے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتی ہیں۔ یعنی بھائی اور بیٹے کے سامنے لڑکی کی شکایات کرنا، اس کے عیوب گنوانا اور اس کی زیادتیوں کا رونا رونا۔ اسی طرح بیوی بھی گھر آتے ہی میاں کے سامنے شکایات کی پٹاری کھول دیتی ہے۔ لڑکا اگر ماں باپ اور بہن بھائیوں کا دفاع کرتا ہے تو اس پر بھی جھگڑا ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ پسند کی شادی بالعموم میاں بیوی کے اختلاف کو جنم دیتی ہے جس میں بعد ازاں خاندان کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔پھر ایک اور اہم وجہ انھوں نے بتائی کہ ہمارے ہاں اکثر مرد اپنی طاقت کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں۔ بیوی کا کوئی حق انہیں نظر نہیں آتا۔ وہ جب چاہتے ہیں اس کی پٹائی کردیتے ہیں، میکے جانے سے روک دیتے ہیں، اس کی کمزوریوں پر اسے رسواکرتے ہیں، اس کے ساتھ بدکلامی کرتے ہیں۔ اور جب ان جھگروں میں ان کے گھر والے شریک ہوتے ہیں تو یہ سنگین رخ اختیار کر جاتے ہیں۔
بہو اور ساس کے ان خاندانی جھگڑوں کے اسباب تو لا تعداد ہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی تحقیرکرنا، ان کا مذاق اڑانا، بدگمانی، غیبت، چغل خوری اورالزام تراشیجیسی اخلاقی برائیاں برائیاں ہی نہیں سمجھی جاتیں۔ خواتین کی باہمی گفتگو کا اگر کبھی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر گفتگو انہی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دلوں میں نفرت اور نااتفاقی کا بیج بوتی ہیں۔ لوگوں میں جدائی ڈلواتی اور خاندانوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ فریقین اپنی انا اور ہٹ دھرمی پر جم جاتے ہیں۔ دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تمام اخلاقی حدود پار کرکے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے نتائج کو بھول کر تمام اخلاقی برائیوں کو اختیار کر لیتے ہیں۔